کفایت اللہ
عام رکن
- شمولیت
- مارچ 14، 2011
- پیغامات
- 5,001
- ری ایکشن اسکور
- 9,806
- پوائنٹ
- 773
میں سمجھتا ہوں اس تھریڈ میں کسی بات پر بحث کرنا مناسب نہیں ہے۔واللہ اعلم۔
’’کل جب مغرب کی فرض نماز سے فارغ ہوا تو ذکر و اذکار کرتے ہوئے اچانک یہ خیال دل میں پیدا ہوا کہ راقم اور اس فورم پر اکثر اراکین الحمد للہ منہج اہل الحدیث پر ہیں۔ اور ہمارے ہاں ایک فاض رکن جمشید صاحب سے اس بارے کافی گرما گرم بحثیں بھی ہوتی رہتی ہیں لیکن کیا میں نے یا ہمارے اس فورم پر سرگرم کسی اہل حدیث بھائی نے اخلاص، ہمدردی اور خیرخواہی کے جذبے کے تحت صدق دل سے کبھی اپنے ان بھائی یعنی جمشید صاحب کے اکیلے میں اللہ سے دعا بھی کی کہ اللہ تعالی ان کے دل کو بھی اس حق کی طرف پھیر دے کہ جسے میں نے پورے شعور سے حق سمجھ کر اختیار کیا ہے ، اور یہ دعا اس طرح کی ہو جیسا کہ ہم اپنے کسی ذاتی یا دنیاوی مشکل اور مسئلہ میں اللہ سے دعا کرتے ہیں۔‘‘یہ تاثر علوی بھائی کی پوسٹ کے کس جملے سے اُبھرا کہ اہل الحدیث اور احناف کا اختلاف کفر واسلام کا اختلاف ہے؟؟؟
میرے بھائی! امت کے مسائل کے حل کی بنیاد ضرور بن سکتا ہے!ٖ! اور ان مباحث میں اپنے عقیدہ منہج اور اعمال کی اصلاح ضرور ممکن ہے۔ اور یہ ہی بنیاد ہے امت کے مسائل کے حل کی!!!اس کے لیے تو وہ مباحث ہی بہت ہیں کہ جو جمشید صاحب اور اہلِ حدیث افراد کے درمیان چلتے رہتے ہیں جن میں طرفین اسی دلچسپی و دلجمعی سے حصہ لیتے ہیں گویا کہ امت کے مسائل کا حل ان کے بحث کرنے میں ہی مضمر ہو۔
جزاک الله خیر علوی صاحب،جب یہ خیال میرے دل میں پیدا ہوا تو کم از کم میں نے اپنے آپ کو اس سے خالی پایا اور میرے دل میں پھر یہ خیال پیدا ہوا کہ جتنا ذہن اور وقت ہم ان بھائی کی تردید کرنے میں لگا دیتے ہیں، اگر ہم رد عمل کی نفسیات سے نکل کر اس کا نصف وقت صرف انہی کے لیے دعا پر لگاتے تو شاید آج یہ منہج اہل الحدیث سے متفقین کی صفوں میں کھڑے نظر آتے۔ واللہ اعلم بالصواب
اور اگر یہی دعا جمشید صاحب میرے حق میں فرمائیں تو میں بھی اس کا بہت محتاج ہوں۔ ہاں! اگر دعا یوں ہو کہاے اللہ سبحانہ و تعالی جو آپ کے نزدیک حق ہے، آپ وہ جمشید بھائی پر کھول دیں اور انہیں اسے قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائیں
تو میں تو ذاتی طور اس اسلوب میں دعا کا عادی نہیں ہوں اور نہ ہی یہ سمجھتا ہوں کہ ہمارے کوئی بھائی اس طرح دعا کرنے کو ترجیح دیں گے۔اے اللہ تعالی! جسے میں نے حق سمجھا ہے، وہ جمشید بھائی پر کھول دے اور انہیں قبول کرنے کی توفیق عطا فرما
اب جس بحث و مباحثہ سے ہم اصلاح اور خیر خواہی کی باتیں کر کے نکلنا چاہتے ہیں تو آپ ہمارے ان اصلاح اور خیر خواہی کی باتوں کی بھی ایسی تشریح کرنا چاہتے ہیں کہ وہ کفر و اسلام کا مسئلہ نظر آئے اور ہمارا اصلاح و خیر خواہی کا جذبہ بھی مناٍظرانہ اسلوب میں ڈھل جائے تو شاید آپ لاشعوری طور یہ کوئی عقلمندی کا کام نہیں کر رہے ہیں۔ اگر لوگ بحث و مباحثے کے ماحول سے کسی طرح خیر خواہی کے جذبے کی طرف بھی منتقل ہونا چاہتے ہیں تو آپ جیسے افراد کو ان کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے نہ کہ انہیں واپس اسی مناظرانہ بحث میں لے جانے کی کوشش۔ویسے اس کے لیے تو وہ مباحث ہی بہت ہیں کہ جو جمشید صاحب اور اہلِ حدیث افراد کے درمیان چلتے رہتے ہیں جن میں طرفین اسی دلچسپی و دلجمعی سے حصہ لیتے ہیں گویا کہ امت کے مسائل کا حل ان کے بحث کرنے میں ہی مضمر ہو۔
اللہ گواہ ہے کہ میں نے جمشید اور ان جیسے دیگر دیوبندیوں سے اگر کچھ سیکھا ہے تو وہ ہے تاویل کرنا۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ دیوبندی حضرات حق کے انکار کے لئے تاویلات کا سہارا لیتے ہیں جبکہ ہم ان ہی سے یہ فن سیکھ کر حق پر کئے گئے اعتراضات کا بعض اوقات جائز تاویل کے ذریعہ جواب دیتے ہیں۔اور ویسے بھی جمشید بھائی کافی اچھی بحث کرتے ہے اور ہمیں ایسی بحثوں سے کافی کچھ سیکھنا بھی چاہیے.
اس پوسٹ کے ذریعے یہ خطرناک مغالطہ دیا گیا ہے کہ جمشید صاحب نے حنفی مذہب تحقیق کے بعد اختیار کیا ہے۔ جبکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ تحقیق کے بعد غیر متعصب شخص حنفی مذہب کو چھوڑ دیتا ہے۔ حنفیوں کا گھڑا ہوا مذہب ایسا مذہب ہے کہ اس کی جس زوایے اور جس سمت سے بھی تحقیق کی جائے اس کا باطل ہونا روشن ہو کر سامنے آجاتا ہے۔ حنفی مذہب کے مقتدمین بھی قرآن و حدیث کے دشمن تھے متاخرین بھی اس دشمنی میں اپنے پیشروں سے ہرگز پیچھے نہ تھے۔ایسی صورت میں تو ہر مسلمان کی دعا یہ ہونی چاہیے کہ یا اللہ مجھے حنفی مذہب کی ہر شکل سے اپنی پناہ میں رکھ۔طالب علمی کے زمانے میں اکثرمیرے ہم درس طالب علم مجھے اہل حدیث یاغیرمقلد سمجھاکرتے تھے۔ وجہ یہ تھی کہ میں احناف کے مستدلات پر کثرت سے اعتراض کیاکرتاتھا۔
ایک بڑاعرصہ اسی میں گزرا کہ امام ابوحنیفہ کی تقلید پر دل اآمادہ نہیں تھا اورتقریبااہل حدیث ہوگیاتھا۔
پھرتوفیق نے یاوری کی اورعنایت ازلی نے دستگیری کی اورمیں نے فقہ حنفی کو متاخرین سے سمجھنے کے بجائے متقدمین کے طرز پر اورمتقدمین کی کتابوں سےسمجھنے کی کوشش کی۔تقلید اورعدم تقلید کے مباحث کو سنجیدگی اورغیرجانبداری سے پڑھا۔اس کے علاوہ اوربھی بہت کچھ۔
جس کے بعد دل مطمئن ہوگیا
اب اس میں شاہد نذیر صاحب سے کیابحث کروں!وہ مجھے برابھلاکہیں یاپھر حنفی مذہب کو !اس کیلئے اپنی غزل کا ایک مقطع عرض کردیتاہوںاس پوسٹ کے ذریعے یہ خطرناک مغالطہ دیا گیا ہے کہ جمشید صاحب نے حنفی مذہب تحقیق کے بعد اختیار کیا ہے۔ جبکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ تحقیق کے بعد غیر متعصب شخص حنفی مذہب کو چھوڑ دیتا ہے۔ حنفیوں کا گھڑا ہوا مذہب ایسا مذہب ہے کہ اس کی جس زوایے اور جس سمت سے بھی تحقیق کی جائے اس کا باطل ہونا روشن ہو کر سامنے آجاتا ہے۔ حنفی مذہب کے مقتدمین بھی قرآن و حدیث کے دشمن تھے متاخرین بھی اس دشمنی میں اپنے پیشروں سے ہرگز پیچھے نہ تھے۔ایسی صورت میں تو ہر مسلمان کی دعا یہ ہونی چاہیے کہ یا اللہ مجھے حنفی مذہب کی ہر شکل سے اپنی پناہ میں رکھ۔
بصیرت، عقل اور تحقیق صرف اور صرف قرآن و حدیث کو اختیار کرنے کے لئے چاہیے ہوتی ہے جبکہ حنفی مذہب کو اختیار کرنے کے لئے اگر کسی چیز کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ صرف اور صرف جہالت اندھاپن اور بدبختی ہے۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ جمشید بھائی کو سچ بولنے کی توفیق عطا فرمائے اور حنفی مذہب کے اندھے کنویں سے انہیں نکال کر قرآن و حدیث کی روشن راہ پر گامزن فرمادے۔ آمین یا رب العالمین