اسلام ڈیفینڈر
رکن
- شمولیت
- اکتوبر 18، 2012
- پیغامات
- 368
- ری ایکشن اسکور
- 1,006
- پوائنٹ
- 97
کتاب اللہ کا اطلاق صرف قرآنِ مجید پر نہیں ہوتا کیونکہ لغت کی کتب میں معروف ہے کہ کتاب سے مراد فرائض اور حکم ہیں۔ (قاموس المحیط ۱۶۵/۱) یہ بات کسی پر مخفی نہیں ہے کہ قرآن مجید کی تفصیل بعین منشاء الہٰی کے مطابق صرف احادیث صحیحہ ہی ہیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿اِنَّ عِدَّةَ الشُّهُوْرِ عِنْدَ اللّٰهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِيْ كِتٰبِ اللّٰهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ مِنْهَآ اَرْبَعَةٌ حُرُمٌ﴾ (التوبہ: ۳۶/۹)
ترجمہ:’’مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک کتاب اللہ میں بارہ (مہینوں) کی ہے۔ اسی دن سے جب آسمان اور زمین کو پیدا کیا ان میں چار حرمت اور ادب کے ہیں۔‘‘
آیت کریمہ نے بارہ مہینوں کی گنتی کتاب اللہ میں قرار دی ہے، اور لازمی سی بات ہے کہ اگر کتاب اللہ صرف قرآن ہی کو کہا گیا ہے تو اس میں بارہ ماہ اور ساتھ ہی چار مہینوں کی تفصیل جو حرمت والے ہیں لازمی ہونی چاہیے۔ مگر برعکس ہمیں قرآن مجید سے نہ ہی بارہ مہینوں کی گنتی اور نہ ہی ان چار ماہ کی تفصیل ملتی ہے جسے حرمت والے مہینوں سے قرآن نے متعارف کروایا ۔ بعضے لوگوں کا خیال ہے کہ کتاب اللہ سے مراد لوح محفوظ ہے، مگر یہ خیال صرف خیال ہی ہے کیونکہ اگر یہاں سے مراد لوح محفوظ ہے تو ہم کس طرح سے ان مہینوں کا حساب و کتاب رکھیں گے۔ یقیناً لوح محفوظ تک کسی کی بھی پہنچ نہیں ، تو لہٰذا اگر ایمان والوں کی پہنچ لوح محفوظ تک نہیں تو یہ تقاضا کرنا کہ حرمت والے مہینوں میں لڑنا حرام ہے ، ان مہینوں کا تقدس و احترام کیا جائے، بے معنی ہو کر رہ جاتے ہیں۔ بعضے لوگوں کا خیال ہے کہ مہینوں کا تعین جس طرح سے نبی ﷺ سے قبل چلا آ رہا ہے اب اسی طریقے سے چلتا رہے گا، یہ خیال بھی باطل ہے کیونکہ کیا اللہ کا دین غیروں، یہودیوں، یا نصرانیوں کا محتاج ہے کہ جس طرح سے چلتا رہا اسی طرح سے آپ بھی شمار کریں۔ ہم جانتے ہیں کہ سورة توبہ کی آیت نمبر ۳۷ میں واضح اعلان کر دیا گیا کہ مہینوں کے آگے پیچھے کرنا کفر میں زیادتی ہے۔ لہٰذا ہم کسی قسم کا رسک نہیں اٹھا سکتے ۔ اب ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ رسول اللہ ﷺ نے ان بارہ مہینوں کی گنتی اور چار مہینوں کی تفصیل واضح کر دی جن کی تفصیل ان جگہوں پر دیکھی جا سکتی ہے۔
ö
صحیح البخاری کتاب التفسیر ج ۸ ، حدیث نمبر ۴۶۶۲۔
ö صحیح بخاری کتاب الطب ج ۱۰، حدیث نمبر ۵۷۰۷۔
ö صحیح بخاری کتاب الصوم ج ۳، حدیث نمبر ۱۸۹۸،۹۹۔
ö المنتظم لابن الجوزی ج ۳، صفحہ ۳۹۔
ö امام نسائی کی’الکبری‘ رقم الحدیث
۵۵۷۲
ان مقامات پر بارہ مہینوں کے نام درج ہیں ۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ کتاب اللہ کا اطلاق حدیثِ رسول پر بھی ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے بھی اپنی احادیث کو کتاب اللہ قرار دیا ہے، کتب احادیث میں یہ واقعہ ’’واقعہ عسیف‘‘ (بمعنی مزدوری) کے معروف ہے۔ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے کہا میں آپ کو قسم دے کر کہتا ہوں کہ آپ ہمارے درمیان کتاب اللہ سے فیصلہ کر دیجیے۔ مختصراً یہ کہ دونوں گروہ نے اپنا معاملہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے بیان کیا تو آپ نے فرمایا:
’’اس پروردگار کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اور جس کا ذکر بلند ہے ! میں تم دونوں کے درمیان کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کروں گا۔ سو بکریاں اور غلام (جو تونے دیئے) تجھے واپس ہوں گے اور تیرے بیٹے کی سزا سو کوڑے ہوں گے اور ایک سال کی جلا وطنی ، اور اے انیس رضی اللہ عنہ کل صبح اس عورت کے پاس جاؤ اگر وہ زنا کا اعتراف کرے تو اسے رجم کر دو ۔ چنانچہ صبح انیس رضی اللہ عنہ اس کے پاس گئے ، اس نے اعتراف کیا تو انیس رضی اللہ عنہ نے اسے رجم کر دیا۔ ‘‘
(صحیح البخاری ، کتاب المحاربین، رقم: ۲۶۹۵)
مندرجہ بالا حدیث سے واضح ہوا کہ حدیث بھی کتاب اللہ ہے ، کیونکہ جو حکم رسول اللہ نے نافذ فرمایا اور رجم کا حکم دیا ، یہ حکم قرآن میں موجود نہیں۔ مگر یہ حکم احادیث میں موجود ہے اور رسول اللہ نے قسم کھا کر یہ بات فرمائی کہ میں تم میں کتاب اللہ سے ضرور فیصلہ کروں گا۔امام ابو جعفر الطحاوی رحمۃاللہ علیہ مندرجہ بالا حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں:
’’کتاب اللہ سے رسول اللہ ﷺ نے (واللہ اعلم) اللہ کا حکم مراد لیا ہے۔ اگرچہ وہ حکم کتاب اللہ (قرآن مجید) میں بالتصریح مذکور نہیں ہے، لیکن ہم نے رسول اللہ ﷺ کا حکم کتاب اللہ (قرآن مجید) کے ساتھ قبول کیا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے ’’جو کچھ رسول تمہیں دے تو وہ لے لو اور جس سے تمہیں منع کرے تو باز آجاؤ۔ ‘‘ لہٰذا جب وہ (رسول اللہ ﷺ کی اطاعت) کتاب اللہ کی وجہ سے ہے تو آپ کا حکم قبول کرنا بھی واجب ہوا۔ یقیناً رسول اللہ ﷺ کا ہر فیصلہ جو آپ نے صادر فرمایا پس وہ کتاب اللہ کے ساتھ ہے ، اگرچہ وہ حکم کتاب اللہ میں بالتصریح مذکورہ نہ ہو۔‘‘ (ذم الکلام واٴھلہ ۹۱/۲)
محترم قارئین جب صاحب وحی ہی اپنی احادیث کو کتاب اللہ قرار دے رہے ہیں تو ہمیں ماننے سے کس چیز نے روکا ہے؟ ایمان والوں کے سامنے جب اللہ کا حکم آجائے تو وہ فوراً اپنی بات کو چھوڑ کر اللہ اور اس کے رسول کے حکم پر لبیک کہتے ہیں۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے صحابہ کے سامنے ایک خطبہ ارشاد فرمایا، جس میں آپ رضی اللہ عنہ نے احادیث کو کتاب اللہ قرار دیا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی موجودگی تھی، تمام صحابہ کا یہ خطبہ سننا ، جس میں عمر رضی اللہ عنہ نے حدیث کو کتاب اللہ کہا اور صحابہ کرام خاموش رہے تو اس سے مراد یہی ہے کہ صحابہ کا اس بات پر اجماع تھا کہ حدیث بھی کتاب اللہ ہے، اور اس فیصلے کے خلاف کسی ایک صحابی کا بھی قول مروی نہیں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے خطبہ ارشاد فرمایا:
’’ان اللہ بعث محمد ﷺ بالحق وانزل علیہ الکتب فکان مما انزل اللہ اٰیة الرجم فقرانا ھا وعقلناھا ووعیناھا۔ رجم رسول اللہ ورجمنا بعدہ فاخشیٰ ان طال بالناس ذمان ان یقول قائل واللہ ما نجد اٰیة الرجم فی کتاب اللہ فیضلوا بترک فریضة انزلھا اللہ والرجم فی کتاب اللہ حق علی من ذنٰی اذا احصن من الرجال والنساء‘‘(صحیح البخاری المعاربین، رقم الحدیث ۶۸۳۰)
ترجمہ: ’’بے شک اللہ تعالیٰ نے محمد ﷺ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا اور آپ ﷺ پر کتاب اتاری اور جو کچھ اللہ نے نازل فرمایا اس میں آیت رجم بھی ہے۔ ہم نے اسے پڑھا ، سمجھا اور محفوظ کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے رجم کیا اور ہم نے آپ کے بعد بھی رجم کیا ہے۔ میں ڈرتا ہوں کہ ایک مدت دراز کے بعد کہنے والا یہ نہ کہے کہ ہم رجم کی آیت کو کتاب اللہ میں نہیں پاتے۔ اس طرح وہ اللہ تعالیٰ کے اس فریضے کو جس کو اللہ نے نازل فرمایا ہے چھوڑ کر گمراہ نہ ہو جائیں اور (خبردار) رجم کی سزا اللہ کی کتاب میں حق ہے اس مرد عورت کے لیے جو شادی شدہ ہو کر زنا کرے۔‘‘
رجم کا حکم قرآن مجید میں کہیں موجود نہیں ہے، لیکن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا یہ حکم ہم کتاب اللہ میں پاتے ہیں۔ اس سے واضح یہی مراد ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ کا ایمان تھا کہ قرآنِ مجید کے علاوہ احادیثِ و سنت بھی کتاب اللہ ہی ہیں اور عمر رضی اللہ عنہ اسے بھی منزل من اللہ ہی سمجھتے تھے اور علی الاعلان حدیث کو کتاب اللہ قرار دیا اور کسی صحابی نے اس کا انکار نہیں کیا ۔ تو معلوم ہوا اس مسئلے پر اجماع صحابہ ہے۔ اسی لیے رسول اللہ ﷺ نے واضح فرمایا دیا تھا کہ :
’’یا ایھا الناس انی ترکت فیکم ما ان اعتصمتم بہ فلن تضلوا ابداً کتاب اللہ وسنة لنبیہ‘‘(المستدرک الحاکم، ج۱، رقم۲۱۷)
’’اے لوگو! میں تم میں وہ چیز چھوڑ رہا ہوں کہ اگر تم اس کو مضبوطی سے تھامے رہو گے تو کبھی گمراہ نہ ہوگے وہ چیز اللہ کی کتاب اور اس کے نبی کی سنت ہے۔‘‘
ان احادیث سے واضح ہوا کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے فرامین کو ماخذ قانون ٹھہرایا اور اس کا اعلان فرما کر تمام انسانیت کے لیے حق کا پیمانہ مقرر فرما دیا ۔ اب قرآن اور صحیح حدیث یہ دونوں ہدایت کا منبہ اور سر چشمہ ہیں۔ آپ ﷺ نے خود فرمایا تھا کہ:
’’إنی ترکت شیئین لن تضلوا بعدھما کتاب الہ وسنتی ولن یتفرّقا حتّی یردا علیّ الحوض‘‘ (مستدرک للحاکم، ج۱، صفحہ ۹۳)
’’میں تم میں دو چیزیں چھوڑ رہا ہوں، ان کے بعد تم ہر گز گمراہ نہیں ہو سکتے۔ اللہ کی کتاب اور میری سنت اور یہ دونوں ایک دوسرے سے ہر گز علیحدہ نہیں ہوں گی یہاں تک کہ وہ دونوں میرے پاس حوض کوثر پر آئیں۔‘‘
اسی لیے سلف صالحین نے یہ برملا اعلان فرما دیا کہ جس نے سنت کا انکار کیا اس نے یقیناً کفر کیا کیونکہ یہ دونوں ماخذ قانون اور وحی پر مبنی ہیں۔ اور وحی کا انکار سو فیصد کفر ہے۔ اب ہم یہاں ائمہ کرام سے اقوال اور محدثین کے اقتباسات نقل کیے دیتے ہیں۔ جس سے یہ بات آشکارا ہوگی کہ کسی بھی صحیح حدیث کا انکار کہ جب اس کی صحت کا علم ہو جائے کفر ہے۔
u عن اٴبی ایوب عن قلابة قال اذا حدثت الرجل بالسنة فقال دع ھذا وھات کتاب اللہ فاعلم انہ ضال۔ (ذم الکلام للھروی ۱۴۳/۲)
’’ابو ایوب بیان کرتے ہیں کہ ابو قلابہ رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں جب تم کسی آدمی کے سامنے سنت بیان کرو تو وہ کہے اس (سنت ) کو چھوڑ دو اور اللہ کی کتاب لاؤ! تو جان لو کہ وہ گمراہ آدمی ہے۔‘‘
v قال المعتمر بن سلیمان سمعت ابی یقول: احادیث النبی عندنا کالتنذیل: قالو ابو موسیٰ: یعنی فی الاستعمال یستعمل سنة رسول اللہ ﷺ کما یستعمل کلام اللہ عزوجل۔ (ذم الکلام ، ج۲، صفحہ ۱۵۷)
’’معتمر بن سلیمان سلیمان کہتے ہیں کہ میں نے اپنے باپ سلیمان بن طرفان کو کہتے ہوئے سنا نبی کریم ﷺ کی احادیث ہمارے نزدیک قرآن مجید کی طرح ہیں ابو موسیٰ کہتے ہیں یعنی عمل کے اعتبار سے جس طرح اللہ کے کلام (قرآن مجید) پر عمل کیا جاتا ہے ویسے ہی رسول اللہ ﷺ کی سنت پر بھی عمل کیا جائے۔‘‘
w
جلال الدین السوطی رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں:
اعلموا رحمکم اللہ ان من انکر ان کون حدیث النبی ﷺ قولا کان او فعلاً بشرطہ المعروف فی الاصول حجة کفر وخرج عن دائرة الاسلام وحشر مع الیھود والنصاری۔ (مفتاح الجنة، صفحہ ۵)
’’جان لو! اللہ تم پر رحم کرے جو شخص رسول اللہ ﷺ کے قول یا فعل کا انکار کرے اس کے معروف شرائط جو اصول میں حجت ہیں تو وہ شخص (حدیث کے انکار کے سبب) اسلام کے دائرے سے خارج ہے اس کا حشر یہود و نصاری کے ساتھ ہوگا۔‘‘
x
امام احمد بن حنبل رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں:
من ردّ حدیث رسول فھو علی شفر ھلکة فقال تعالیٰ:’’فلیحذر الذین یخالفون عن امرہ‘‘(النور ۶۳/۲۴)، وای فتنة انما ھی الکفر۔
(مختصر الصواعق المرسلة ، صفحہ ۵۴۴)
’’جو شخص رسول اللہ ﷺ کی حدیث کو رد کرتا ہے وہ ہلاکت کے گھڑے پر ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’پس وہ لوگ جو رسول کی مخالفت کرتے ہیں انہیں ڈرتے رہنا چاہیے کہ وہ کسی فتنے م یں مبتلا نہ کر دیئے جائیں۔‘‘(تو یہاں آیت میں جو لفظ) ’’فتنة‘‘ ہے اس سے مراد کفر ہے (یعنی جس نے حدیث کا انکار کیا اس نے کفر کیا)۔‘‘y
حافظ ابن حزم اندلسی فرماتے ہیں:
وکل من کفر بما بلغہ وصح عندہ عن النبی ﷺ او اجمع علیہ المومنون مما جاء بہ النبی فھو کافر کما قال اللہ تعالیٰ:’’ومن یشاقق الرسول من بعد ما تبین ‘‘ الآیہ۔ (المعلی لابن حزم، ج۱، مسئلہ ۲۰)
’’جو شخص نبی ﷺ کی صحیح حدیث معلوم ہو جانے یا نبی ﷺ جو لائے ہیں اس پر مومنین کا اجماع ہونے کے بعد اس کا انکار کرے تو وہ کافر ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ’’اور جو شخص ہدایت معلوم ہو جانے کے بعد رسول کی مخالفت کرے اور مومنین کے راستے کو چھوڑ کر دوسرے راستے پر چلے تو وہ جدھر جاتا ہے ہم اُسے اسی طرف پھیر دیتے ہیں اور اُسے جہنم میں داخل کریں گے۔‘‘
z امام شافعی a سے ایک حدیث روایت کی گئی تو آپ نے فرمایا’’انہ صحیح‘‘ کہ یہ حدیث صحیح ہے۔ ایک شخص نے کہا ’’اتقول بہ یا ابا عبداللہ؟ فاضطرب‘‘ کیا آپ اے ابو عبداللہ کہتے ہیں کہ ’’فاضطرب‘‘(یعنی حدیث میں کسی قسم کی کوئی علت نہیں) امام شافعی نے یہ سن کر جواب دیا کہ کیا تو نے مجھے نصرانی سمجھا ہے؟ یا کنیسہ (عیسائیوں کا عبادت خانہ چرچ) سے نکلتا ہوا؟ (مفتاح الجنة، صفحہ ۶)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حدیث کا منکر امام شافعی کے نزدیک نصرانی ہےوہ مسلمان نہیں کیونکہ مسلمان حدیث کی بھی تاویل پیش نہیں کرے گا، بلکہ اسے قبول کرے گا۔
{ حدثنا محمد بن عبدالوہاب ، قال: قلت لعلی بن عثام رجل یقول: لیس فی حدیث رسول اللہ ﷺ فقہ : فقال ھذا فاجر فاین الفقہ؟ واین الخیر؟ الافیہ۔ (ذم الکلام ، ج۲، صفحہ ۱۵۷)
’’محمد بن عبدالوہاب نے کہا کہ میں نے علی بن عثام سے کہا کہ ایک شخص کہتا ہے کہ حدیث رسول میں فقہ نہیں ہے (علی بن عثام) نے کہا یہ کہنے والا فاجر ہے (اگر حدیث میں فقہ نہیں تو) فقہ کہاں ہے؟ خیر کہاں ہے؟ سوائے حدیث رسول کے۔‘‘
|
امام ابو بکر عبداللہ بن زبیر a نے فرمایا:
اللہ کی قسم ! اگر میں ان لوگوں سے جہاد کروں جو رسول اللہ ﷺ کی حدیث کا رد کرتے ہیں تو میرے نزدیک ان جتنے (کافر) ترکوں سے جہاد کرنے سے زیادہ پسندیدہ ہوں۔‘‘ (ذم الکلام: ۲۲۸)
}
ملا علی قاریفرماتے ہیں کہ:
مونچھوں کا کاٹنا اور صاف کرنا انبیاء علیہم السلام کی سنتوں میں سے ہے سو اس کو برا سمجھنا باتفاق علماء کفر ہے۔ (شرح الفقہ الاکبر ، صفحہ ۲۱۳)
~ محمد جمال الدینقاسمی نے ہر اس شخص کو جو احادیث کا انکار کرتا ہے اور اس کے باوجود اللہ سے محبت کے دعوؤں کا دم بھی بھرتا ہے تو ایسے منافق کے بارے میں لکھتے ہیں:
ھذا الایة الکریمة حاکمة علی کل من داعی محبة اللہ، ولیس ھو علی الطریقة المحمدیة، فانہ کاذب فی دعوہ تلک ، حتی یتبع الشرع المحمدی فی جمیع اقوالہ وافعالہ۔ (تفسیر القاسمی، ج۲، صفحہ ۶۸۶)
’’اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری اتبا کرو۔‘‘ الایہ (آل عمران ۳۱/۳) یہ آیت کریمہ فیصلہ کرتی ہے ہر اس دعوے دار کے بارے میں جو اللہ سے محبت کا دعوی کرتا ہے (جو حدیث کا منکر ہوگا) وہ محمد ﷺ کے طریقے پر نہ ہوگا۔ پس یقیناً (بغیر حدیث پر عمل اور ایمان کے) وہ شخص اپنے دعوے میں کاذب ، جھوٹا ہوگا۔ یہاں تک کہ وہ محمد ﷺ کی شریعت کی اتباع نہ کرے آپ کے تمام اقوال اور افعال کی۔‘‘
امام ابن القیم رحمۃاللہ علیہ نے ہر اس شخص یا گروہ جو حدیث کے انکار کی کچھ نہ کچھ تاویلات پیش کرتے مثلاً حدیث قرآن کے موافق ہو، عدم خبر آحاد نہ ہو، عقل کے خلاف نہ ہو وغیرہ وغیرہ۔ ان لوگوں کو جو احادیث صحیحہ کا انکار کسی سبب سے بھی کرتے ہوں ان کو خوارجی گردانا ہے، اور دلیل کے طور پر ذوالخویصرہ کا واقعہ نقل فرمایا ہے جس میں اس نے رسول اللہ ﷺ کو کہا تھا کہ ’’اعدل ونائد لم معتدل‘‘ انصاف کریں یقیناً آپ انصاف نہیں کر رہے ۔‘‘ (یہ حدیث صحیح مسلم ، حدیث نمبر ۱۰۶۴ میں موجو دہے)۔
امام ابن قیمرحمۃاللہ علیہ نے منکرین حدیث کو ذوالخویصرہ کے صف میں کھڑا کیا ہے۔ کیونکہ اس نے بھی رسول اللہ ﷺ کے فعل کا انکار کیا تھا اور اہل علم جانتے ہیں کہ حدیث کا اطلاق نبی کریم ﷺ کے قول و فعل تقریر پر ہوتا ہے۔ (مختصر صواعق المرسلة، صفحہ ۵۴۰- ۵۳۶)
معروف ثقہ امام عبداللہ قاسم نے فرمایا:
المتبع السنة کالقابض علی الجمرہ وھو عندی افضل من ضرب السیف فی سبیل اللہ عزوجل‘‘ (تاریخ بغداد، ج۱۲، صفحہ ۴۰۷، عقیدہ السلف واصحاب الحدیث ، صفحہ ۲۵۲)
’’متبع سنت (سنت کی پیروی کرنے والا اور اسے حجت سمجھنے والا) ہاتھ میں انگارے پکڑنے والے کی طرح ہے اور وہ میرے نزدیک آج اللہ کے رستے میں تلوار چلانے سے زیادہ افضل ہے۔‘‘
ائمہ دین کی نظر میں سنت کی کتنی اہمیت ہے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں۔ کیونکہ قرآن مجید میں کئی مقامات پر رسول اللہ ﷺ کی اتباع کو فرض قرار دیا گیا ۔آپ کے قول ، فعل اور تقریر کو حجت مانا گیا ہے۔
امام احمد بن حنبل رحمۃاللہ علیہنے فرمایا:
نظرت فی المصحف فوجدت فیہ طاعة الرسول فی ثلاثة وثلاثین موضعا، ثم جعل یتلوا ھذ الایة ’’فلیحذر الذین یخالفون عن امرہ‘‘ (النور )۔
(الطیوریات، ج۴، رقم: ۱۳۴۳، رجالہ ثقات)
’’میں نے قرآن میں تینتیس مقامات میں رسول اللہ ﷺ کی اتباع کا ذکر پایا ہے اور پھر ان آیات کو پڑھا ’’سنو جو لوگ حکم رسول کی مخالفت کرتے ہیں انہیں ڈرتے رہنا چاہیے کہ کہیں ان پر کوئی زبردست فتنہ نہ آن پڑے یا انہیں درد ناک عذاب (نہ) آن پہنچے۔‘‘امام ابن تیمیہ رحمۃاللہ علیہنے فرمایا کہ:
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں تقریباً چالیس مقامات پر اطاعت رسول کو واجب قرار دیا ہے۔ (مجموع الفتاوی ، ج۹، صفحہ ۲۶۱)
چالیسمقامات پر اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام میں رسول ﷺ کی سنت کو واجب قرار دیا ہے، اور اس کے باوجود اگر کوئی احادیث رسول کی مخالفت کرے تو وہ بدترین شخص ہے اور وہ اپنی مخالفت کی وجہ سے کفر کی حد تک پہنچ جاتا ہے۔
بقیہ بن ولیدرحمۃاللہ علیہنے فرمایا کہ مجھے امام اوزاعی a نے فرمایا:
یا ابا محمد ما تقول فی قوم یبغضون حدیث نبیھم ﷺ؟ قال: قلت : قوم سوء قال لیس من صاحب بدعة تحدثہ عن رسول اللہ ﷺ بخلاف بدعتہ الا ابغض الحدیث۔ (الطیوریات لابی طاھر السلفی ، ج۴، صفحہ ۱۳۷۸، اخرجہ الالکائی فی اعتقاد اھل السنة ۳/۴۳۰)
’’اے ابا محمد !تم کیا کہتے ہو ان لوگوں کے بارے میں جو اپنے نبی ﷺ کی حدیث سے بغض رکھتے ہیں؟ ابو محمد نے فرمایا کہ وہ قوم بدترین قوم ہے (جو رسول اللہ ﷺ کی حدیث سے بغض رکھتے ہیں) تو امام اوزاعی رحمۃاللہ علیہ نے فرمایا کہ کوئی صاحب بدعت
ایسا نہیں جو اپنی بدعت کے خلاف حدیث بیان کرے (حق کو واضح کرنے کے لیے) مگر وہ حدیث سے نفرت کرتا ہے۔‘‘
معلوم ہوتا ہے کہ حدیث کی اتباع کرنے والا حدیث سے محبت رکھتا ہے اور صاحب بدعت اپنے عمل سے حدیث کے انکار کی دلیل فراہم کرتا ہے۔
سماحة الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز aرحمۃاللہ علیہ نے بھی اس مسئلے پر ایک مختصر رسالہ تحریر فرمایا ہے جس کا نام ہے ’’وجوب العمل بسنة الرسول وکفر من انکرھا‘‘ یعنی نبی ﷺ کی سنت پر عمل کرنا واجب ہے اور جس نے انکار کیا تو اس نے (سنت سے) کفر کیا۔
لہٰذا ان اقتباسات اور اقوال سے ہمارا مقصد یہ ہے کہ سلف والصالحین احادیث رسول سے انحراف کرنے والے کو بدعتی ، گمراہ، یا خارج عن الدین سمجھا کرتے تھے۔ قرآن مجید میں بھی اس شخص کو ایمان والوں سے خارج قرار دیا ہے جو اللہ کے رسول ﷺ کے فیصلے اور آپ کے حکم سے رو گردانی کرتا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُوْنَ حَتّٰي يُحَكِّمُوْكَ فِيْمَا شَجَــرَ بَيْنَھُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوْا فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوْا تَسْلِــيْمًا 65﴾ (النساء: ۴/۶۵)
’’سوقسم ہے تیرے رب کی یہ ایمان والے نہیں ہو سکتے جب تک کہ تمام آپس کے اختلاف میں آپ کو حاکم نہ مان لیں ، پھر جو فیصلے آپ ان میں کر دیں ان سے اپنے دل میں کسی طرح کی تنگی اور نا خوشی نہ پائیں اور فرمانبرداری کے ساتھ (حکم رسول کو) قبول کر لیں۔‘‘
منکر سنت اور منکر حدیث کے بارے میں قرآن نے کفر کا حکم لگایا ، اور رسول اللہ ﷺ کی زبان مبارک سے ایسے بندے پر اللہ کی لعنت ہے جو حدیثِ رسول کو چھوڑتا ہے۔ اس کی مخالفت کرتا ہے۔
امام ابن حبان رحمۃاللہ علیہ اپنی صحیح میں حدیث ذکر فرماتے ہیں :
عن عائشة رضی اللہ عنہا ان رسول اللہ قال: ستة لعنتھم ولعنھم اللہ وکل نبی مجاب: الذائد فی کتاب اللہ والمکذب بقدر اللہ والمسلط بالجبروت لیذل بذالک من اعذاللہ، ولیعذ بہ من اذل اللہ، والمستحل لحرم اللہ، والمستحل من عترتی ما حرم اللہ والتارک لسنتی۔ (صحیح ابن حبان مع ابن بلبان، ج۱۳، صفحہ ۶۰، ابن ابی عاصم فی السنة، رقم: ۴۴، وقال الالبانی اسنادہ حسن واخرجہ الطحاوی، ج۴، صفحہ ۳۱۶، والحاکم، ج۱، صفحہ ۳۱)
’’رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: چھ ایسے شخص ہیں جن پر میں نے لعنت کی اور اللہ تعالیٰ نے بھی: وہ شخص جو کتاب اللہ میں زیادتی کرتا ہے ۔اللہ کی تقدیر کو جھٹلاتا ہے ۔جو زبردستی مسلط ہو جائے ۔اسے عزت دے جسے اللہ نے ذلیل کیا ہو، اور اُسے ذلیل کرے جیسے اللہ نے عزت دی ہو ۔وہ شخص جو اللہ کی حرام کردہ چیزوں کو حلال کر دے اور جو میرے اہل بیت کے لیے اللہ نے حرام کیا ہو اسے حلال کرے ۔جو (نبی کریمﷺ) کی سنت کا تارک ہو۔‘‘
لہٰذا ان لعنتیوں میں وہ شخص بھی لعنتی ہے جو احادیث کا انکار کرتا ہے یا اپنی نفسانی خواہشات کو بروئے کار لا کر تارک سنت ہو جاتا ہے ۔ اسی طرح وہ شخص بھی تارک سنت قرار دیا جائے گا جو اپنے ولی، امام، پیر، مرشد کی وجہ سے حدیث کی تاویل یا اس سے انحراف کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’قال الامام الشافعی رحمہ اللہ : اجمع المسلمون ان من استبان لہ سنة عن رسول اللہ لم یحل لہ ان یدعھا بقول احد‘‘
ترجمہ: ’’امت مسلمہ کا اس بات پر اجماع ہے کہ جس شخص پر رسول اللہ ﷺ کی سنت ثابت ہو جائے تو پھر اس کے لیے کسی امتی کے قول و اجتہاد کے پیش نظر اس سنت ثابتہ کو چھوڑنا حلال نہیں۔‘‘
(صلاة التراویح للشیخ ناصر الدین الالبانی رحمہ اللہ صفحہ ۹۶)
اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن و سنت پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے اور ہمیں اس عمل کی بھی توفیق عطا کرے کہ ہم اپنی خواہشات اور عقل کو قرآن و سنت کے تابع بنائیں نہ کہ قرآن و حدیث کو اپنی خواہشات کے تابع کریں ، نبی کریم ﷺ کا ارشاد عالی شان ہے:’’تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنی خواہشات کو اس چیز کے تابع نہ کر دے جو میں لایا (یعنی قرآن و حدیث)۔‘‘
(رواہ البغوی فی شرح السنة، قواعد التحدیث، صفحہ ۵۴)
وما علینا الا البلاغ المبین
وانا العبد احقر العباد
محمد حسین میمن( خادم حدیث رسول ﷺ)