أن عبد الله بن عمرو بن العاص يحدث أنه سيكون ملك من قحطان
ترجمہ داؤد راز
عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما یہ حدیث بیان کرتے ہیں کہ عنقریب (قرب قیامت میں) بنی قحطان سے ایک حکمراں اٹھے گا۔
جب یہ حدیث عبداللہ بن عمرو بیان کریں تو یہ حدیث رسولﷺ نہیں اور جب یہ حدیث ابو ھریرہ بیان کریں تو حدیث رسولﷺ
اصل بات یہ ہے کہ اس بادشاہ کا ایک نظریہ تھا کہ جو اس کے مفادات سے ٹکرائے ایسے حدیث رسولﷺ نہیں مانا جائے اس لئے اس حدیث سے انکار کیا گیا اور ایک اور حدیث اس کے مقابلے پر فوری طور سے پیش کردی گئی کہ
یہ خلافت قریش میں رہے گی
اگر یہ حدیث رسولﷺ ہوتی تو سقیفہ بنی ساعدہ میں اپنی تقریر میں حضرت ابو بکر ضرور اس حدیث کی دلیل دیتے لیکن حضرت ابو بکر نے قریش کےخلافت کے حق پر اعلیٰ نسب ہونے کی دلیل دی
پھریہ کوئی ایک بار نہیں ہوا کہ اس بادشاہ نے اپنے مفادات سے ٹکراتی ہوئی حدیث رسولﷺ کا انکار کیا ہو بلکہ اس طرح کا ایک قصہ تو امام مسلم نے اپنی صحیح مسلم میں بھی بیان کیا ہے کچھ اس طرح کہ
غزوْنا غزاةً . وعلى الناسِ معاويةُ . فغنِمْنا غنائمَ كثيرةً . فكان ، فيما غنِمْنا ، آنيةً من فضةٍ . فأمر معاويةُ رجلًا أن يبيعَها في أُعطياتِ الناسِ . فتسارع الناسُ في ذلك . فبلغ عبادةَ بن َالصامتِ فقام فقال : إني سمعتُ رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ ينهى عن بيعِ الذهبِ بالذهبِ والفضةِ بالفضةِ والبُرِّ بالبُرِّ والشعيرِ بالشعيرِ والتمرِ بالتمرِ والملحِ بالملحِ إلا سواءً بسواءٍ . عينًا بعينٍ . فمن زاد أو ازداد فقد أرْبى . فردَّ الناسُ ما أخذوا . فبلغ ذلك معاويةَ فقام خطيبًا فقال : ألا ما بالُ رجالٍ يتحدَّثون عن رسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ أحاديثَ . قد كنا نشهدُه ونصحبُه فلم نسمعْها منه . فقام عبادةُ بنُ الصامتِ فأعاد القصةَ . ثم قال : لنحدّثنَّ بما سمعْنا من رسولِ اللهِ صلّى اللهُ عليه وسلَّمَ وإن كره معاويةُ ( أو قال : وإن رغِمَ ) . ما أُبالي أن لا أصحبَه في جُندِه ليلةً سوداءَ . قال حماد : هذا أو نحوه .
الراوي: عبادة بن الصامت المحدث: مسلم - المصدر: صحيح مسلم - الصفحة أو الرقم: 1587
خلاصة حكم المحدث: صحيح
ہم معاویہ کے ساتھ مل کر ایک جنگ لڑی تو ہمیں بہت ذیادہ غنیمتیں حاصل ہوئی اورہماری غنیمتوں میں چاندی کے برتن بھی تھے معاویہ نے ایک آدمی کو انھیں بیچنے کا حکم دیا لوگوں کی تنخواہوں میں لوگوں نے اس کو خریدنے میں جلدی کی یہ بات حضرت عبادہ بن صامت کو پہنچی تو آپ کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ" میں نے رسول اللہﷺ سے سنا ہے آپﷺ سونے کی سونے کے ساتھ چاندی کی چاندی کے ساتھ کھجورکی کھجور کے ساتھ اور نمک کی نمک کے ساتھ برا بر برابر اور نقد بہ نقد کے علاوہ بیع کرنے سے منع فرماتے تھے جس نے ذیادہ دیا یا ذیادہ لیا تو اس نے سود کا کام کیا تو لوگوں نے لیا ہوا مال واپس کردیا یہ بات جب معاویہ کو پہنچی تو کھڑے ہوکر کہا " ان لوگوں (یعنی عبادہ بن صامت) کا کیا حال ہے جو رسول اللہﷺ سے احادیث روایت کرتے ہیں حالانکہ ہم بھی آپﷺ کے ساتھ رہتے تھے اس بارے رسول اللہﷺ سے نہیں سنا اس پر عبادہ بن صامت کھڑے ہوئے اور پھر اس حدیث رسولﷺ کو دھرایا اور فرمایا ہم نے وہی بیان کیا جو رسول اللہﷺ سے سماعت کیا اگرچہ اس سے معاویہ کو برا ہی کیوں نہ لگے یا معاویہ کی ناک خاک آلود ہو ، مجھے اس کی پرواہ نہیں کہ میں اس کےلشکر میں تاریک رات میں اس کے ساتھ نہ رہوں ،حماد نے ایسا ہی کہا
ایسی روایت کو ابن ابی شیبہ نے مصنف ابن ابی شیبہ اس طرح بیان کیا ہے
كنا في غزاة وعلينا معاوية ، فأصبنا فضة وذهبا ، فأمر معاوية رجلا أن يبيعها الناس في أعطياتهم ، فتسارع الناس فيها ، فقام عبادة فنهاهم ، فردوها ، فأتى الرجل معاوية فشكا إليه ، فقال معاوية خطيبا فقال : ما بال رجلا يحدثون عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أحاديث يكذبون فيها عليه ، لم نسمعها ؟ فقام عبادة فقال : والله لنحدثن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم وإن كره معاوية
ہم ایک دفعہ معاویہ ابن ابی سفیان کی سرکردگی میں جنگ پر تھے۔ پس جنگ کے بعد سونا اور چاندی ہمارے ہاتھ آئی۔ پھر معاویہ نے ایک شخص کو حکم دیا کہ وہ اسے لوگوں کے ہاتھ بیچ دے، چنانچہ لوگ اسکی طرف متوجہ ہو گئے۔ پھر صحابی عبادہ بن الصامت نے انہیں ایسا کرنے سے منع کر دیا۔ اس پر اُس شخص نے معاویہ سے شکایت کر دی اور معاویہ نے کہا: 'کیوں یہ شخص (صحابی عبادہ بن الصامت) رسول (ص) پر جھوٹ باندھ رہا ہے؟' اس پر عبادہ نے جواب دیا: 'اللہ کی قسم ہم رسول اللہ( ص) کی حدیث بیان کرتے رہیں گے چاہے یہ معاویہ کو بُرا ہی کیوں نہ لگتا رہے'۔
مصنف ابن ابی شیبہ، جلد7، صفحہ 510-511؛ طبع قاہرہ
امید ہے اب آپ کی تسلی ہو گئی ہوگی کہ اس روایت میں عبادہ بن صامت کی بیان کی گئی حدیث رسول ﷺ ہی سے انکار کیا گیا ہے اب یہاں آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ
ترجمہ داؤد راز
عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما یہ حدیث بیان کرتے ہیں کہ عنقریب (قرب قیامت میں) بنی قحطان سے ایک حکمراں اٹھے گا۔
جب یہ حدیث عبداللہ بن عمرو بیان کریں تو یہ حدیث رسولﷺ نہیں اور جب یہ حدیث ابو ھریرہ بیان کریں تو حدیث رسولﷺ
اصل بات یہ ہے کہ اس بادشاہ کا ایک نظریہ تھا کہ جو اس کے مفادات سے ٹکرائے ایسے حدیث رسولﷺ نہیں مانا جائے اس لئے اس حدیث سے انکار کیا گیا اور ایک اور حدیث اس کے مقابلے پر فوری طور سے پیش کردی گئی کہ
یہ خلافت قریش میں رہے گی
اگر یہ حدیث رسولﷺ ہوتی تو سقیفہ بنی ساعدہ میں اپنی تقریر میں حضرت ابو بکر ضرور اس حدیث کی دلیل دیتے لیکن حضرت ابو بکر نے قریش کےخلافت کے حق پر اعلیٰ نسب ہونے کی دلیل دی
پھریہ کوئی ایک بار نہیں ہوا کہ اس بادشاہ نے اپنے مفادات سے ٹکراتی ہوئی حدیث رسولﷺ کا انکار کیا ہو بلکہ اس طرح کا ایک قصہ تو امام مسلم نے اپنی صحیح مسلم میں بھی بیان کیا ہے کچھ اس طرح کہ
غزوْنا غزاةً . وعلى الناسِ معاويةُ . فغنِمْنا غنائمَ كثيرةً . فكان ، فيما غنِمْنا ، آنيةً من فضةٍ . فأمر معاويةُ رجلًا أن يبيعَها في أُعطياتِ الناسِ . فتسارع الناسُ في ذلك . فبلغ عبادةَ بن َالصامتِ فقام فقال : إني سمعتُ رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ ينهى عن بيعِ الذهبِ بالذهبِ والفضةِ بالفضةِ والبُرِّ بالبُرِّ والشعيرِ بالشعيرِ والتمرِ بالتمرِ والملحِ بالملحِ إلا سواءً بسواءٍ . عينًا بعينٍ . فمن زاد أو ازداد فقد أرْبى . فردَّ الناسُ ما أخذوا . فبلغ ذلك معاويةَ فقام خطيبًا فقال : ألا ما بالُ رجالٍ يتحدَّثون عن رسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ أحاديثَ . قد كنا نشهدُه ونصحبُه فلم نسمعْها منه . فقام عبادةُ بنُ الصامتِ فأعاد القصةَ . ثم قال : لنحدّثنَّ بما سمعْنا من رسولِ اللهِ صلّى اللهُ عليه وسلَّمَ وإن كره معاويةُ ( أو قال : وإن رغِمَ ) . ما أُبالي أن لا أصحبَه في جُندِه ليلةً سوداءَ . قال حماد : هذا أو نحوه .
الراوي: عبادة بن الصامت المحدث: مسلم - المصدر: صحيح مسلم - الصفحة أو الرقم: 1587
خلاصة حكم المحدث: صحيح
ہم معاویہ کے ساتھ مل کر ایک جنگ لڑی تو ہمیں بہت ذیادہ غنیمتیں حاصل ہوئی اورہماری غنیمتوں میں چاندی کے برتن بھی تھے معاویہ نے ایک آدمی کو انھیں بیچنے کا حکم دیا لوگوں کی تنخواہوں میں لوگوں نے اس کو خریدنے میں جلدی کی یہ بات حضرت عبادہ بن صامت کو پہنچی تو آپ کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ" میں نے رسول اللہﷺ سے سنا ہے آپﷺ سونے کی سونے کے ساتھ چاندی کی چاندی کے ساتھ کھجورکی کھجور کے ساتھ اور نمک کی نمک کے ساتھ برا بر برابر اور نقد بہ نقد کے علاوہ بیع کرنے سے منع فرماتے تھے جس نے ذیادہ دیا یا ذیادہ لیا تو اس نے سود کا کام کیا تو لوگوں نے لیا ہوا مال واپس کردیا یہ بات جب معاویہ کو پہنچی تو کھڑے ہوکر کہا " ان لوگوں (یعنی عبادہ بن صامت) کا کیا حال ہے جو رسول اللہﷺ سے احادیث روایت کرتے ہیں حالانکہ ہم بھی آپﷺ کے ساتھ رہتے تھے اس بارے رسول اللہﷺ سے نہیں سنا اس پر عبادہ بن صامت کھڑے ہوئے اور پھر اس حدیث رسولﷺ کو دھرایا اور فرمایا ہم نے وہی بیان کیا جو رسول اللہﷺ سے سماعت کیا اگرچہ اس سے معاویہ کو برا ہی کیوں نہ لگے یا معاویہ کی ناک خاک آلود ہو ، مجھے اس کی پرواہ نہیں کہ میں اس کےلشکر میں تاریک رات میں اس کے ساتھ نہ رہوں ،حماد نے ایسا ہی کہا
ایسی روایت کو ابن ابی شیبہ نے مصنف ابن ابی شیبہ اس طرح بیان کیا ہے
كنا في غزاة وعلينا معاوية ، فأصبنا فضة وذهبا ، فأمر معاوية رجلا أن يبيعها الناس في أعطياتهم ، فتسارع الناس فيها ، فقام عبادة فنهاهم ، فردوها ، فأتى الرجل معاوية فشكا إليه ، فقال معاوية خطيبا فقال : ما بال رجلا يحدثون عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أحاديث يكذبون فيها عليه ، لم نسمعها ؟ فقام عبادة فقال : والله لنحدثن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم وإن كره معاوية
ہم ایک دفعہ معاویہ ابن ابی سفیان کی سرکردگی میں جنگ پر تھے۔ پس جنگ کے بعد سونا اور چاندی ہمارے ہاتھ آئی۔ پھر معاویہ نے ایک شخص کو حکم دیا کہ وہ اسے لوگوں کے ہاتھ بیچ دے، چنانچہ لوگ اسکی طرف متوجہ ہو گئے۔ پھر صحابی عبادہ بن الصامت نے انہیں ایسا کرنے سے منع کر دیا۔ اس پر اُس شخص نے معاویہ سے شکایت کر دی اور معاویہ نے کہا: 'کیوں یہ شخص (صحابی عبادہ بن الصامت) رسول (ص) پر جھوٹ باندھ رہا ہے؟' اس پر عبادہ نے جواب دیا: 'اللہ کی قسم ہم رسول اللہ( ص) کی حدیث بیان کرتے رہیں گے چاہے یہ معاویہ کو بُرا ہی کیوں نہ لگتا رہے'۔
مصنف ابن ابی شیبہ، جلد7، صفحہ 510-511؛ طبع قاہرہ
امید ہے اب آپ کی تسلی ہو گئی ہوگی کہ اس روایت میں عبادہ بن صامت کی بیان کی گئی حدیث رسول ﷺ ہی سے انکار کیا گیا ہے اب یہاں آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ
حضرت عبادہ بن صامت نے اس حدیث کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کی ہی نہیں ۔ لہذا معاویہ کا ان کی بات کا انکار کرنا حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار کیسے ہوسکتا ہے ۔