اگر بغض صحابہ کی بناء پر اس طرح بعض آپسی فقہی اختلافات کو انکارِ حدیث قرار دینا ہے تو پھر سیدنا علی کے بارے میں کیا کہیں گے جنہوں نے درج ذیل حدیث میں کسی سے سنی حدیث رسول کی بجائے نبی کریمﷺ کے ذاتی حکم کے جواب میں حجّت کی:
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، قَالَ أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ أَخْبَرَنِي عَلِيُّ بْنُ حُسَيْنٍ، أَنَّ حُسَيْنَ بْنَ عَلِيٍّ، أَخْبَرَهُ أَنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ أَخْبَرَهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ طَرَقَهُ وَفَاطِمَةَ بِنْتَ النَّبِيِّ ـ عَلَيْهِ السَّلاَمُ ـ لَيْلَةً فَقَالَ " أَلاَ تُصَلِّيَانِ ". فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَنْفُسُنَا بِيَدِ اللَّهِ، فَإِذَا شَاءَ أَنْ يَبْعَثَنَا بَعَثَنَا. فَانْصَرَفَ حِينَ قُلْنَا ذَلِكَ وَلَمْ يَرْجِعْ إِلَىَّ شَيْئًا. ثُمَّ سَمِعْتُهُ وَهْوَ مُوَلٍّ يَضْرِبُ فَخِذَهُ وَهْوَ يَقُولُ "وَكَانَ الإِنْسَانُ أَكْثَرَ شَىْءٍ جَدَلاً}"... صحيح البخاري
ہم سے ابو الیمان نے بیان کیا ، کہا کہ ہمیں شعیب نے زہری سے خبر دی ، کہا کہ مجھے حضرت زین العابدین علی بن حسین نے خبر دی ، اور انہیں حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے انہیں خبر دی کہ رسول اللہ ﷺ ایک رات ان کے اور فاطمہ رضی اللہ عنہما کے پاس آئے ، آپ ﷺ نے فرمایا کہ کیا تم لوگ ( تہجد کی ) نماز نہیں پڑھو گے ؟ میں عرض کی کہ یا رسول اللہ ! ہماری روحیں خدا کے قبضہ میں ہیں ، جب وہ چاہے گا ہمیں اٹھا دے گا ۔ ہماری اس عرض پر آپ ﷺ واپس تشریف لے گئے ۔ آپ ﷺ نے کوئی جواب نہیں دیا لیکن واپس جاتے ہوئے میں نے سنا کہ آپ ﷺ ران پر ہاتھ مار کر ( سورۃ الکہف کی یہ آیت پڑھ رہے تھے ) آدمی سب سے زیادہ جھگڑالو ہے
«وكان الإنسان أكثر شىء جدلا» ۔
http://sunnah.com/bukhari/19/7
آپ کی منطق کے مطابق اسے کیا کہا جائے گا؟؟؟