یعنی صحابہ دور میں جب صحابی کوئی حدیث رسول ﷺ بیان کرتے تو اس میں اختلاف کیا جاتا لیکن اس کو انکار حدیث کا نام نہیں دیا جاتا لیکن ایک بات تو ہے کہ صحابی کی بات پر آنکھ بند کرکے یقین بھی نہیں کیا جاتا تھا اب ایسے کیا نام دیا جاسکتا ہے کیونکہ منکر حدیث بھی ہر ہر حدیث رسول ﷺ جو صحابہ نے بیان کی اس پر آنکھ بند کرکے یقین نہیں کرتے
اہل سنت والجماعت کا متفقہ اصول ہےکہ جب صحابہ کا آپس میں اختلاف ہو جائے تو ایک صحابی کی بات دوسرے کے لیے حجت نہیں ۔ بعض احادیث کی صحت و ضعف کی نسبت سے آج تک اختلاف چل رہا ہے ۔ اس کو انکار حدیث قرار دینا نری جہالت ہے ۔
کسی صحابی کا دوسرے صحابی کی بنیاد کردہ حدیث کے انکار کو ’’ منکرین حدیث ‘‘ کے ’’ انکار ‘‘ کے ساتھ نہیں ملایا جاسکتا ۔ کیونکہ کسی صحابی کا اپنے ہم عصر کی بات کا رد کرنا سمجھ میں آتا ہے جبکہ اس وقت ان کے سامنے ’’ تعامل امت ‘‘ موجود نہیں تھا ۔
جبکہ آج کل کے منکرین حدیث کی مصیبت یہ ہے کہ یہ شروع سے لے کر آج تک کے تمام علماء بشمول صحابہ کرام کے متفق علیہ منہج کا انکار کرتے ہیں ۔
آج کل کے منکرین حدیث کے ’’ انکار ‘‘ کو صحابہ کرام کے ’’ انکار ‘‘ کے ساتھ ملانا قیاس مع الفارق ہے ۔ ہاں یہ قیاس اس وقت شاید درست رہے کہ آج کل کا منکرحدیث اپنے ہم عصر کی کسی بات کا انکار کرے ۔ اور بطور دلیل کے صحابہ کرام کے آپسی اختلاف کو پیش کرے ۔
اس مسئلے کو مزید اس طرح سمجھ لیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے دور میں بعض مسائل میں اختلاف ہوا لیکن پھر بعد میں دلائل واضح ہونے اور تبادلہ خیال کے بعد یہ اختلاف اتفاق میں بدل گیا ۔
اب آج کے دور میں کوئی پھر اسی اختلاف کو لے کر کھڑ ا ہو جائے اور پھر کہے کہ میں نے کون سا نیا کام کیا ہے ۔ یہ تو صحابہ کے دور میں بھی موجود تھا ۔
لہذا اگر یہ کام کرنے کی وجہ سے صحابہ کرام پر کوئی فتوی نہیں لگ سکتا تو میرے اوپر کیوں یہ سختی ؟
تو جہا جائے گا کہ آپ ایک ایسے اختلاف کو دلیل بنا رہے ہیں جو ’’ اتفاق ‘‘ میں تبدیل ہوگیا تھا ۔ گویا اس اختلاف کے خاتمے پر امت کا اجماع ہوگیا ۔ اب اس اختلاف کو پھر سے زندہ کرنا اجماع امت کی مخالفت کرنا ہے ۔ جو کہ جائز نہیں ۔
اس کا ایک مطلب یہ بھی ہوا کہ صحابہ کلھم عدول کا فلسفہ یہ بعد کی ایجاد ہے یعنی بدعت ہے لیکن آج کے دور میں یہ فرق آگیا ہے کہ حدیث کے تمام راویوں کی جانچ پڑتال کی جاتی ہے لیکن جب بات کسی صحابی تک آتی ہے تو کہا جاتا ہے صحابہ کلھم عدول لیکن صحابہ کے دور میں یہ نہیں ہوتا تھا بلکہ آپ کے قول کے مطابق اگر کوئی صحابی کوئی حدیث رسول ﷺ بیان کرتے تو اس میں اختلاف کیا جاتا تھا
آپ کی بات بالکل درست ہے کہ صحابہ کرام ایک دوسرے کے لیے اس معنی میں عدول بالکل نہیں تھے کہ کوئی کسی کی بات سے اختلاف نہیں کرسکتا تھا ۔
لیکن جب صحابہ کا دور گزر گیا اور بعد میں عصر در عصر تمام مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہوگیا کہ صحابہ کرام سب کے سب عادل ہیں تو پھر کسی کے لیے یہ حق باقی نہیں رہ جاتا کہ وہ صحابہ کرام میں سے کسی کی عدالت پر زبان درازی کرے ۔
ایک بات اور سمجھ لیں کہ کسی صحابی کا ایک دوسرے صحابی کی کسی بات سے اختلاف یا انکار کرنا اس کے یہ معنی ہرگز نہیں کہ وہ ان کے نزدیک ’’ عادل ‘‘ نہیں ہیں ۔ بلکہ کسی خاص موقعے پر کسی صحابی کی بیان کردہ حدیث سے انکار کی یہ وجہ بھی ہوسکتی ہے کہ ’’ متن حدیث ‘‘ کی بجائے ان کا آپس میں ’’ مفہوم و معنی حدیث ‘‘ یا ’’ تشریح حدیث ‘‘ میں اختلاف ہو ۔
ایک صحابی کو دوسرے صحابی کی بیان کردہ حدیث پر نقد کرنے کا حق ہے کہ وہ خود صحابی ہے ۔ لیکن جو خود صحابی نہیں ہے وہ کس منہ سے اور کس اصول سے صحابی کی بات کو رد کرتا ہے ؟
اب ایک الزامی جواب سنئے : جس چیز کو آپ انکار حدیث سمجھتے ہیں وہ چیزیں تو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بھی منقول ہیں ( جیساکہ اوپر گزر چکا ) ۔ اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ پر انکار حدیث کا فتوی آپ نہیں لگاتے تو دیگر صحابہ کرام پر کیوں ؟
صرف اس وجہ سے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے آپ کو محبت کا نام نہاد دعوی ہے اور دیگر صحابہ کرام کو یہ خصوصیت حاصل نہیں ؟
تلك إذا قسمة ضيزى
انتباہ : موضوع سے ادھر ادھر اگر کوئی بھی بات ہوئی تو اس پر بحث نہیں کی جائیگی بلکہ غیر متعلقہ ’’ شراکتیں ‘‘ حذف ہونے کا پورا پورا حق رکھتی ہیں ۔