• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حدیث سبعۃ أحرف اور اس کا مفہوم

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
’حرف‘ کا معنی باعتبار لغت
لغوی اعتبار سے حرف تقریباً چھ معانی میں استعمال ہوا ہے ، حافہ، ناحیہ، وجہ، طرف،حد کسی چیز کاٹکڑا ۔
(لسان العرب:۹؍۴۱، ۴۲ تحت لفظ الحرف، القاموس المحیط:۱؍۶۲۲، ۶۲۳، تحت لفظ الحرف)
نوٹ: لفظ ’ حرف ‘ جو اَحادیث سبعہ احرف میں وارد ہو رہا ہے اس کی مزید تشریح و توجیہ ان شاء اللہ ہم آگے چل کر بیان کریں گے۔
نکتہ: یاد رہے کہ سبعہ احرف کی تعبیر مختلف اَئمہ نے ان الفاظ کے ساتھ کی ہے۔
(١) سبعہ اَوجہ (٢) سبعہ لغات (٣) سبعہ قراء ات
ان تینوں کا مفہوم ایک ہی ہے ۔مزید وضاحت آگے آرہی ہے (اِن شاء اللہ) ہمارے زمانے میں سبعہ احرف سے مراد سات قراء ات یا کلمات میں( سات طرح کا تغیر ) مشہو ر ہوگیا ہے ۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
سبعہ اَحرف کی وضاحت میں اَقوال کا اختلاف اور اس کاحل
سات حروف کی وضاحت میں اہل علم کے ہاں مختلف اقوال ملتے ہیں:
(١)تعدد
کچھ کے ہاں سبعہ اَحرف سے تعدد مراد ہے۔
رد:یہ قول محل نظر ہے،کیونکہ یہ حدیث کے خلاف ہے۔ حدیث سبعہ میں لفظ سبعۃسے مراد معین عددہے تعدد ہرگزنہیں۔
(٢)اَقسام احکام
کچھ نے سبعہ احرف سے مختلف قسم کے احکام مراد لیے۔اس طرح کے اقوال کی تعداد ۴۰ کے لگ بھگ ہے ۔
رد:یہ قول بھی حدیث سبعۃ کے سراسر خلاف ہے،کیونکہ مخاصمات صحابہ والی حدیث میں قراء ت کاپڑھنا نماز کی حالت میں ہے اور نماز میں قرآن کے متن کی تلاوت ہوتی ہے نہ کہ تفسیر بیان کی جاتی ہے اورنہ اس طرح کی کوئی اورتشریح جیسا کہ مسئلہ نمبر۴ کے تحت یہ بات گزری چکی ہے۔
گویا کہ صحابہ کرام کا نزاع کلمات میں تلفظ کے تغیرات پر تھا نہ کہ تفسیر و احکام میں۔ لہٰذا یہ قول بعید از عقل معلوم ہوتا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٣)مرویات اَئمہ سبعہ
بعض کو غلط فہمی اس حد تک لگ گئی ہے کہ سبعۃ اَحر ف سے مراد سات قراء کی قراء ات ہیں یا ان کی مرویات ہیں۔
رد:یہ قول تو انتہائی مردود ہے وجہ واضح ہے کہ نبیﷺنے ’سبعۃ احر ف‘ والی اَحادیث میں سات مشہور قاری مراد نہیں لیے تھے۔یہ قراء تو اس وقت پیدا بھی نہ ہوئے تھے۔ گویا آپﷺکے فرمان سے مراد کلمات میں تغیر بالاداء والنطق تھا نہ کہ قراء سبعہ۔
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’لا نزاع بین العلماء المعتبرین أن الأحرف السبعۃ التی ذکر النبی ﷺ أن القران أنزل علیہا لیست ہی القراء ات القراء السبعۃ المشہورۃ‘‘
’’اس بات میں اہل علم میں کوئی اختلاف نہیں کہ جن احرف سبعہ کو نبیﷺنے بیان فرمایا ہے اس سے مراد مشہور قراء سبعہ کی قراء ات نہیں ہیں۔‘‘(دقائق التفاسیر:۱؍۶۸)
اس بات کو اس طرح بھی سمجھا جا سکتاہے کہ قراء سبعہ کی قراء ات ہی سبعہ احر ف نہیں بلکہ یہ بھی سبعہ احرف ہیں قراء ات قرا ء سبعہ ،سبعہ احر ف کے تابع ہیں نہ کہ سبعہ احرف ان کا تابع ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
سبعہ احرف کے متعلق راجح اَقوال
اہل علم کے ہاں جمہور علماء کے اَقوال درست اورصحیح سمجھے جاتے ہیں۔
٭ حافظ ابن عبد البررحمہ اللہ کہتے ہیں:
’’إن المراد بالسبعۃ،سبعۃ أوجہٍ من المعانی المتفقۃ بالفاظ مختلفۃ‘‘
’’سبعۃ اَحرف سے مراد (پڑھی جانے والی) سات وجوہ ہیں کہ جوالفاظ (یعنی تلفظ و ادا اورنطق میں) مختلف ہیں اورمعانی میں اتفاق رکھتی ہیں۔ (عون المعبود:۱؍۵۵۰)
لغت میں حرف کا معنی وجہ ہے لہٰذا حرف اوروجہ کہنے میں کوئی تضاد نہیں ۔
٭ امام خلیل الفراہیدی النحوی رحمہ اللہ:
’’احر ف سبعۃ سے مراد قراء ات ہیں۔‘‘ (البر ہان فی علوم القرآن:۱؍۲۱۴)
٭ امام ابو داؤدرحمہ اللہ:
’’امام ابو داؤدرحمہ اللہ نے کی کتاب ابوداؤد شریف میں حدیث سبعہ احر ف لانے کے لئے باب اس طرح قائم کیا ہے۔‘‘
’’أبواب القراء ات عن رسول اﷲ ﷺ‘‘
معلوم ہوتا ہے کہ امام ابوداؤدرحمہ اللہ کے ہاں سبعہ احر ف سے مراد قراء ات قرآنیہ ہے۔
٭امام نووی رحمہ اللہ:
امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ حدیث سبعہ احر ف سے مراد اداء ِ کلمات کی کیفیت ہے جیسے ادغام، اظہار، تفخیم، ترقیق، امالہ، مد وقصر، کیونکہ اہل عرب کے ہاں مختلف لغات تھیں اور اللہ نے انہیں اجازت دی کہ جو ان کی لغت کے موافق ہو وہ پڑھیں تاکہ ان کی زبانوں پر آسانی ہو۔ (عون المعبود:۱؍۵۴۹)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭علامہ سندی رحمہ اللہ:
’’سبعہ احرف سے مراد سات مشہور فصیح لغات ہیں سیدنا عثمان رضی اللہ نے ان کو مصاحف میں جمع کیا تاکہ لوگ اختلاف میں نہ پڑیں۔ اورقرآن مجید کی تکذیب نہ کریں۔‘‘ (عون المعبود:۱؍۵۵۰)
٭مکی بن ابی طالب القیسی رحمہ اللہ:
’’إن الأحرف السبعۃ التی نزل بہا القران ہی لغات متفرقۃ فی القران‘‘
’’بے شک وہ سبعۃ احرف جن پر قرآن نازل ہوا وہ متفرق لغات ہیں۔ جو قرآن مجید میں موجود ہیں۔ ‘‘(الابانۃ:۷۱)
اَقوالِ ائمہ ذکر کرنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہسبعۃ احرف کوبعض نے (سبعۃ أوجہ) اور بعض نے (سبعۃ لغات) اوربعض نے (سبعۃ قراء ات) کہا۔ ان تینوں شروح یا تینوں ناموں میں بظاہر الفاظ کا تو فرق ہے البتہ مفہوم ایک ہی ہے گویا یہ اہل علم کی اصطلاحات ہیں۔
یعنی من حیث التلاوۃ ان کو قراء ات کہا جاتا ہے۔چونکہ لفظ قراء ۃ مصد رہے جس کا معنی ہے پڑھنا ۔ تواسی مناسبت سے احرف سبعہ کوقراء ات کا نام دے دیاگیا ۔اور’’من حیث اللغۃ العربیۃ‘‘ان کولغات کہتے ہیں جیسا کہ مکی بن ابی طالب القیسی رحمہ اللہ نے ’’الکشف عن وجوہ القراء ات ‘‘ میں جلد نمبر۱ صفحہ نمبر۳۳ پر لکھا ہے۔
بِرَبْوَۃٍ عاصم رحمہ اللہ اور ابن عامر شامی رحمہ اللہ نے بفتح الراء پڑھا ہے ۔ بِرُبْوَۃٍ نافع ،ابن کثیر، ابوعمرو ،حمزہ اورکسائی رحمہم اللہ نے بضم الراء پڑھا ہے۔
مکی رحمہ اللہ نے کہا (وہما لغتان مشہورتان)وہ دومشہورلغتیں ہیں۔
اورکئی دیگر مواقع پر ایسا ہی لکھا ہے۔
اسی طرح ابن عبد البررحمہ اللہ نے سبعہ اوجہ حرف بمعنی ’وجہ‘ کہہ کر سبعۃ أحرف کی تشریح کی ہے۔
ان تینوں میں کوئی منافات نہیں۔
آئمہ کے تمام اقوال کو سامنے رکھتے ہوئے سبعہ احرف کی تعریف اس طرح کریں گے۔
’’اوجہ مقروۃٌ مختلفۃ لا تزید عن السبعۃ‘‘
’’سات پڑھی جانے والی وجوہ جو (تلفظ وادا میں) مختلف ہیں او رسات سے زیادہ نہیں۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
محدث ومقری امام ابن جزری رحمہ اللہ کی تشریح
موصوف قراء ت میں سند کادرجہ رکھتے ہیں۔ ایک لاکھ حدیث کے حافظ ہیں فرماتے ہیں:
کہ میں حدیث سبعہ احرف پر تیس سال تک جستجو میں لگا رہا ہوں اس کے بعد تمام صحیح او رشاذ قراء ات کوسامنے رکھا تومعلوم ہوا کہ ان قراء ات میں تلفظ واَدا کے لحاظ سے سات طرح کا تغیر وتبدل ہوتا ہے۔
(١)اَسماء میں واحد، تثنیہ جمع کا اختلاف
مثالیں: فِدْیَۃٌ طَعَامُ مِسْکِیْن۔۔۔۔فِدْیَۃٌ طَعَامُ مَسَاکِیْن (البقرۃ:۱۸۴)
فاصلحوا بین اخویکم۔۔۔۔۔۔فاصلحوا بین اخوتکم (الحجرات:۱۰)
اٰیۃ للسآئلین۔۔۔۔۔۔۔۔آیات للسآئلین (یوسف:۷)
(٢)افعال میں ماضی ،مضارع اورامر کااختلاف
مثالیں:تَطَوَّعَ خَیْرًا۔۔۔۔۔۔۔یَطَّوَّعْ خَیْرًا (البقرۃ:۱۵۸)
رَبَّنَا بَاعِدْ بَیْنَ اَسْفَارِنَا۔۔۔۔۔۔رَبَّنَا بَعَّدَ بَیْنَ اَسْفَارِنَا (النساء:۱۹)
قَالَ رَبِّیْ یَعْلَمُ الْقَوْلَ۔۔۔۔۔۔۔قُلْ رَّبِّیْ یَعْلَمُ الْقَوْلَ (الانبیاء:۴)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٣) نقص وزیادہ کا اختلاف
مثالیں: سَارِعُوْا اِلٰی مَغْفِرَۃٍ۔۔۔۔۔۔۔وَسَارِعُوْا اِلٰی مَغْفِرَ ۃٍ (آل عمران:۱۵۳)
یَا بُشْرَایَ ہٰذَا غُلَامٌ۔۔۔۔۔۔یَا بُشْرٰی ہٰذَا غُلَامٌ (یوسف:۱۹)
تَجْرِیْ تَحْتَہَا الْاَنْہٰرُ۔۔۔۔۔۔۔۔۔تِجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الأْنْہٰرُ (التوبہ:۱۰۰)
(٤)وجوہِ اعراب کا اختلاف
مثالیں:
لا تسئل عن أصحب الجحیم لا تسئل عن اصحب الجحیم (البقرۃ:۱۱۹)
لایضآرَّ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لایضآرُّ (النساء:۲۲۸)
فتلقّٰی اٰدمُ من ربہ کلماتٍ۔۔۔۔۔فتلقّٰی اٰدمَ من ربہ کلماتٌ (البقرۃ:۳۷)
(٥)تقدیم وتاخیر کا اختلاف
مثالیں: قُتِلُوا وَقٰتَلُوا۔۔۔۔۔۔۔قٰتلوا وَقُتِلُوا (آل عمران:۱۹۵)
فَیَقْتُلُونَ وَیُقْتَلُونَ۔۔۔۔۔۔۔۔فَیُقْتَلُونَ وَیَقْتُلُونَ (التوبۃ:۱۱۱)
وَنَاٰ بِجَانِبِہٖ۔۔۔۔۔۔۔۔وَنآء بِجَانِبِہٖ (الاسراء:۸۳)
(٦)اختلاف بالابدال (بالبدل)
مثالیں: کَیْفَ نُنْشِزِہَا۔۔۔۔۔۔۔۔کَیفَ نُنْشِرُہَا (البقرۃ:۲۵۹)
فَتَبَیَّنُوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فَتَثَبَّتُوا (النساء:۴۳)
فَتَوَکَّلْ عَلَی الْعَزِیْزِ الرَّحِیمِ۔۔۔۔۔۔وَتَوَکَّلْ عَلَی الْعَزِیزِ الرَّحِیمِ (الشعراء:۲۱۷)
(٧) لہجات کا اختلاف
اس سے فتح امالہ، تسہیل ، تحقیق، تفخیم ، ترقیق اورقبائل عرب کی لغات مراد ہیں۔
ساتواں اختلاف جو لہجات کا ہے وہ ماہر استاذ سے سننے کے بعد بھی سمجھ آسکتا ہے، کیونکہ یہ کتابت کے ذریعہ بالکل واضح نہیں ہو سکتا اس کا تعلق تلقی کے ساتھ ہے ۔ قراء ات میں سارا انحصار تلقی پر ہوتا ہے۔
نوٹ:جن لوگوں نے لفظ لغات استعمال کیااس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ تمام اختلافی کلمات کو اگر سامنے رکھا جائے تو اس میں مرادفات وغیرہ کا اختلاف تعداد میں کم اور لغات متفرقہ کا اختلاف زیادہ تعداد میں موجود ہے ۔ اس لحاظ سے انہوں نے جمیع اختلاف پر لغات کا لفظ بول دیا۔تلقی پر مفصل بحث عنقریب آئے گی۔ اِن شاء اللہ
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
بزبان رسو لﷺسبعۃ احرف کی تشریح نہ ہونے کی وجہ
آپﷺنے متعدد مواقع پر (سبعہ احرف) کے الفاظ مختلف الفاظ کے ساتھ ذکر فرمائے، لیکن سبعۃ أحرف کی وضاحت کسی ایک موقع پر بھی ثابت نہیں نہ کسی صحابی نے اس کے متعلق کوئی سوال کیا۔
اس کی وجہ واضح طور پر یہ نظر آرہی ہے کہ جو بات لوگوں کے ہاں معروف ہوا کرتی ہے اس کی وضاحت کرنے کی چنداں ضرورت نہیں ہوتی، کیونکہ تحصیل حاصل ہوتا ہے چونکہ نبی ﷺکی مراد سبعۃ أحرف کے الفاظ میں کلمات میں پایا جانے والا تلفظ و ادا کا اختلاف تھا ۔لہٰذا آپﷺنے وضاحت نہ فرمائی ۔ چونکہ صحابہ کرام بھی اس کامفہوم سمجھتے تھے، لہٰذاانہوں نے سوال کرنے کی ضرورت محسوس نہ کی اگر یہ معاملہ اس طرح نہیں تھا تو ڈائریکٹ منصب نبوت پر الزام آئے گا کہ آپﷺنے (بلغ ما أنزل…) کے خلاف کیاہے۔ حالانکہ نبیﷺکے بارے میں ایسا کہنا تو درکنار سوچنا بھی خارج ازاسلام ہونے کے برابر ہو گا۔ آپﷺنے ہر بات کی وضاحت فرمائی ہے جو بات عند الناس مشہورتھی اس کی وضاحت کوئی ضروری نہیں ہوتی۔
جیسا کہ حدیث میں آیا ہے کہ صحابہ کرام کو لفظ’ظلم‘ کا مفہوم سمجھ نہ آیا تو انہوں نے فوراً نبیﷺسے سوال کر کے وضاحت پوچھ لی، لیکن سبعۃ أحرف کے متعلق کبھی کوئی سوال نہ کیا ۔چونکہ وہ اس کا مفہوم اور اس کی مراد سے بخوبی واقف تھے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
لغات کے نزول کے ساتھ دیگر اختلافی تلفظ اور مرادفات کا نزول
نبیﷺنے آسانیٔ اُمت کی دعا لغات کے اختلاف کی وجہ سے فرمائی ، لیکن لغات مختلفہ میں آسانی کی اجازت کے ساتھ ساتھ دیگرکئی چیزیں بھی نازل کر دی گئیں، مثلاً بعض جگہ مرادفات کا استعمال کیا گیا ۔ اس کی توجیہ یہ ہے:
(١)کچھ اختلافات کے نزول کا مقصد کلام الٰہی کوفصاحت وبلاغت کا نمونہ ثابت کرنا ہے۔
(٢)کچھ اختلافات تفسیری کلام ومسائل کی وضاحت کے لئے استعمال ہوئے ۔جیسے لِأَہَبَ لِیَہَبَ
آیت:’’ لِاَہَبَ لَکِ غُلَاماً زَکِیَّا ‘‘ (مریم:۱۹)
’’لِیَہَبَ لَکِ غُلَاماً زَکِیَّا‘‘ (مریم:۱۹)
لِاَہَبَ والی قراء ت میں فرشتہ اپنی طرف نسبت کر کے مریم علیہا السلام کو کہہ رہا ہے کہ
’’میں تجھے پاکباز لڑکا عطا کروں گا۔‘‘
اور دوسری قراء ت بصیغہ واحد مذکر غائب ہونے کی وجہ سے مفہوم یہ نکلے گا ’’وہ اللہ تجھے پاکباز لڑکا عطا کرے گا۔‘‘اگرچہ واحد متکلم والی قراء ت میں فرشتے کی طرف نسبت مجازی ہے ممکن ہے کوئی باطل عقیدہ شخص اس سے غلط مفہوم اخذ کر لیتا کہ اگر فرشتہ مریم کوبیٹا عطا کر سکتا ہے تو کیا آج کے بزرگ یا اولیاء اللہ کسی کو بیٹا نہیں دے سکتے؟مگر دوسری قراء ت لانے سے باطل عقیدہ لوگوں کاردہو گیا کہ اولادکا عطا کیا جانا اللہ کے حکم سے ہوتاہے ۔
(٣)کچھ اختلافات لانے کا مقصدصرف اعجازِ قرآنی کو واضح کرنا ہے۔
گویا کہ لغات مختلفہ نزول کے ساتھ ساتھ دیگر کئی طرح کے اختلافات کا مقصدِنزول اضافی فوائد کا حامل ہے۔
(والحمد ﷲ علی ذلک)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ہر کلمہ میں سات وجوہ۔ ایک اِشکال
کچھ لوگوں کویہ غلط فہمی لگ گئی ہے کہ شاید ہر کلمہ میں سات وجوہ ہوتی ہیں یاد رہے کہ سبعۃ أحرف کا قطعاً یہ مطلب نہیں کہ ہر کلمہ سات طرح پڑھا جاتا ہے اگر سبعہ کی تشریح وتوضیح جو ہم بیان کر چکے ہیں اس کو سامنے رکھا جائے تو سبعۃ أحرف کی وضاحت میں اشکال پیدا نہیں ہو سکتا۔ اس سلسلہ میں امام ابو عبید قاسم بن سلام کبار تابعی کاقول ان شاء اللہ کافی ہے۔ فرماتے ہیں:
’’ولیس معنی تلک السبعۃ أن یکون فی حرفٍ واحدٍ یقرأ علی سبعۃ أحرفٍ ،ہذا شیئٌ غیرُ موجودٍ لکنہ عندنا أنہ نزل علی سبع لغات متفرقۃٌ فی جمیع القرآن من لغات العرب‘‘
’’سبعۃ أحرف کے یہ معنی نہیں ہیں کہ سات وجوہ ایک کلمہ میں پائی جاتی ہیں بلکہ وہ سات لغات متفرق طور پرپورے قرآن میں موجودہیں اور یہ سات لغات عرب کی لغات سے ہیں۔‘‘ (فضائل القرآن:۳۳۹)
لہٰذا اگر کوئی اس کا دعویدار ہے تو وہ غلطی پر ہے اس کے پاس اس کی ادنی سی دلیل بھی نہیں۔
 
Top