• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حصول جنت کے آسان طریقے

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
حصول جنت کے آسان طریقے
ذیل میں درج ہر آسان طریقہ جنت کی ضمانت دیتا ہے بشرطیکہ اس پر اچھی طرح عمل کیا جائے۔۔
پہلا آسان طریقہ: گناہوں سے بچنا
ارشاد باری تعالی ہے :
‘‘ اگر تم بڑے بڑے گناہوں سے بچو گے، جن سے تمہیں روکا جاتا ہے، تو ہم تمھاری چھوٹی چھوٹی برائیاں تم سے دور کر دیں گےاور تمہیں عزت کی جگہ داخل کریں گے۔ ’’
النساء :31
دوسرا آسان طریقہ: فرض نماز کے بعد آیت الکرسی پڑھنا ۔ ( السنن الکبری للنسائی )
تیسرا آسان طریقہ : وضو کرنے کے بعد دو رکعات نماز نفل ادا کرنا ۔ ( صحیح مسلم)
چوتھا آسان طریقہ : نماز عصر اور نماز فجر مسجد میں جماعت کے ساتھ ادا کرنا۔ (صحیح مسلم )
پانچواں آسان طریقہ : لا حول ولا قوۃ الا باللہ کا ورد۔ ( سنن ابن ماجہ )
چھٹا آسان طریقہ : سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم کا ورد ۔ ( جامع الترمذی)
آٹھواں آسان طریقہ : حج بیت اللہ (صحیح البخاری )
نواں آسان طریقہ : اذان کا جواب دینا ۔ ( سنن النسائی )
دسواں آسان طریقہ :جہاد فی سبیل الله (صحیح البخاری )
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
اہل سنت کے لئے چونکہ یہ مہینہ گیارویں کا ہے تو ایسی نسبت سے گیارہواں آسان طریقہ جنت کے حصول کا عرض کرتا ہوں
حضرت ابوہریرہ سے ایک طویل روایت صحیح مسلم میں بیان ہوئی اس حدیث میں ابوھریرہ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ ایک باغ میں تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ

يا أبا هريرة وأعطاني نعليهِ قالَ اذهب بنعليَّ هاتينِ فمن لقيتَ من وراءِ هذا الحائطَ يشهدُ أن لا إلهَ إلَّا اللَّهُ مستيقِنًا بها قلبُهُ فبشِّرْهُ بالجنَّة


رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی نعلین مبارک مجھے دے کر فرمایا "ابوہریرہ! میری یہ دونوں نعلین (بطور نشانی) کے لے جاؤ اورجو شخص باغ کے باہر دل کے یقین کے ساتھ
لا إله إلا الله

کہتا ہوا ملے اس کو جنت کی بشارت دے دو"
اب ابوھریرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کی تعمیل میں چل پڑے لیکن حضرت ابو ھریرہ کی بد قسمتی کہ باغ کے باہر سب سے پہلے ان کی ملاقات حضرت عمر سے ہوگئی اور عمر بن خطاب نے ابوھریرہ سے پوچھا کہ

فقالَ ما هاتانِ النَّعلانِ يا أبا هريرةَ

یہ جوتیاں کیسی ہیں ؟ اے ابوہریرہ
اس پر ابوھریرہ نے کہا کہ
هاتانِ نعلا رسولِ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ بعثني بهما من لقيتُ يشهدُ أن لا إلهَ إلَّا اللَّهُمستيقِنًا بها قلبهُ بشَّرتُهُ بالجنَّةِ

یہ نعلین مبارک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہیں
آپ نے مجھے یہ نعلین دے کر بھیجا ہے کہ جو مجھے دل کے یقین کے ساتھ اس بات کی گواہی دیتا ہوا ملے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں، اس کو جنت کی بشارت دے دوں۔
لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ ارشاد سنتے ہی معلوم نہیں حضرت عمر کو کیوں اس قدر غصہ آیا کہ انھوں نے حضرت ابوھریرہ کو مارا
ضربَ عمرُ بيدِهِ بينَ ثدييَّ فخررتُ لِاستي فقالَ ارجِع يا أبا هريرةَ

ابو ھریرہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر نے یہ سن کر ہاتھ سے میرے سینے پر اک زور دارضرب رسید کی جس کی وجہ سے میں سرینوں کے بل گر پڑا۔ کہنے لگے اے ابوہریرہ ! لوٹ جا۔
الراوي: أبو هريرة المحدث: مسلم - المصدر: صحيح مسلم - الصفحة أو الرقم: 31 خلاصة حكم المحدث: صحيح
کیا حضرت عمر نے کلمہ پڑھ کر جنت کی بشارت کو قبول نہیں کیا !!!! ؟؟؟؟؟
شاید اب کوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بشارت کو قبول کرلے
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
اہل سنت کے لئے چونکہ یہ مہینہ گیارویں کا ہے تو ایسی نسبت سے گیارہواں آسان طریقہ جنت کے حصول کا عرض کرتا ہوں
حضرت ابوہریرہ سے ایک طویل روایت صحیح مسلم میں بیان ہوئی اس حدیث میں ابوھریرہ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ ایک باغ میں تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ

يا أبا هريرة وأعطاني نعليهِ قالَ اذهب بنعليَّ هاتينِ فمن لقيتَ من وراءِ هذا الحائطَ يشهدُ أن لا إلهَ إلَّا اللَّهُ مستيقِنًا بها قلبُهُ فبشِّرْهُ بالجنَّة


رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی نعلین مبارک مجھے دے کر فرمایا "ابوہریرہ! میری یہ دونوں نعلین (بطور نشانی) کے لے جاؤ اورجو شخص باغ کے باہر دل کے یقین کے ساتھ
لا إله إلا الله

کہتا ہوا ملے اس کو جنت کی بشارت دے دو"
اب ابوھریرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کی تعمیل میں چل پڑے لیکن حضرت ابو ھریرہ کی بد قسمتی کہ باغ کے باہر سب سے پہلے ان کی ملاقات حضرت عمر سے ہوگئی اور عمر بن خطاب نے ابوھریرہ سے پوچھا کہ

فقالَ ما هاتانِ النَّعلانِ يا أبا هريرةَ

یہ جوتیاں کیسی ہیں ؟ اے ابوہریرہ
اس پر ابوھریرہ نے کہا کہ
هاتانِ نعلا رسولِ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ بعثني بهما من لقيتُ يشهدُ أن لا إلهَ إلَّا اللَّهُمستيقِنًا بها قلبهُ بشَّرتُهُ بالجنَّةِ

یہ نعلین مبارک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہیں
آپ نے مجھے یہ نعلین دے کر بھیجا ہے کہ جو مجھے دل کے یقین کے ساتھ اس بات کی گواہی دیتا ہوا ملے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں، اس کو جنت کی بشارت دے دوں۔
لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ ارشاد سنتے ہی معلوم نہیں حضرت عمر کو کیوں اس قدر غصہ آیا کہ انھوں نے حضرت ابوھریرہ کو مارا
ضربَ عمرُ بيدِهِ بينَ ثدييَّ فخررتُ لِاستي فقالَ ارجِع يا أبا هريرةَ

ابو ھریرہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر نے یہ سن کر ہاتھ سے میرے سینے پر اک زور دارضرب رسید کی جس کی وجہ سے میں سرینوں کے بل گر پڑا۔ کہنے لگے اے ابوہریرہ ! لوٹ جا۔
الراوي: أبو هريرة المحدث: مسلم - المصدر: صحيح مسلم - الصفحة أو الرقم: 31 خلاصة حكم المحدث: صحيح
کیا حضرت عمر نے کلمہ پڑھ کر جنت کی بشارت کو قبول نہیں کیا !!!! ؟؟؟؟؟
شاید اب کوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بشارت کو قبول کرلے
@خضر حیات

@اسحاق سلفی


بھائی ان کو جواب دیں
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
سیدنا امیر مومنین ، فاروق اعظم عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ
دیگر خوبیوں کے ساتھ ساتھ ایمانی ذہانت و فطانت کا بے مثل نمونہ تھے ۔
اسی لئے تو نبی اکرم ﷺ کا فرمان تھا کہ :میرے بعد اگر کوئی نبی ہوتا ،تو یقیناً عمر بن خطاب ہوتا ۔
عقبة بن عامر، يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " لو كان من بعدي نبي، لكان عمر بن الخطاب "
(مسند الإمام أحمد بن حنبل 17405 ) و الترمذی
ایسا عظیم انسان کیسے سید الانبیاء ﷺ کے فرمان کو رد کر سکتا ہے ۔اوپر علی بہرام کی پوسٹ میں محولہ حدیث پوری نقل نہیں کی گئی ۔
پوری حدیث اس پوسٹ کے میں نقل کریں گے ان شاء اللہ ۔
بات دراصل یہ تھی ایک دفعہ سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو جناب نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا :
عن أنس، أن معاذ بن جبل، حدثه: أن النبي صلى الله عليه وسلم قال له: " يا معاذ بن جبل " قال: لبيك يا رسول الله وسعديك، قال:
" لا يشهد عبد أن لا إله إلا الله، ثم يموت على ذلك إلا دخل الجنة " قال: قلت:
أفلا أحدث الناس؟ قال: " لا، إني أخشى أن يتكلوا عليه " صحیح مسلم
(مسند الإمام أحمد بن حنبل 22009 )إسناده صحيح على شرط الشيخين.
کہ جو آدمی ،لا الہ الااللہ ،کی گواہی دے ،اور پھر اسی پر اس کو موت آئے تو وہ جنت میں جائے گا ،
جناب معاذ نے پوچھا :کہ میں یہ بات عام لوگوں کو نہ بتاوں ؟
آپ ﷺ نے فرمایا :نہیں ۔۔کیونکہ مجھے اندیشہ ہے کہ وہ (عمل ترک کرکے ) اسی پر بھروسہ نہ کر لیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو سیدنا امیر المومنین عمر نے جب یہی اجمالی بشارت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو بتاتے سنا ،تو انہیں روک دیا ۔
اور حقیقت حال جاننے کیلئے خود جناب رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔
(( قَالَ: ارْجِعْ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَا عُمَرُ، مَا حَمَلَكَ عَلَى مَا فَعَلْتَ؟» قَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ، بِأَبِي أَنْتَ، وَأُمِّي، أَبَعَثْتَ أَبَا هُرَيْرَةَ بِنَعْلَيْكَ، مَنْ لَقِيَ يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُسْتَيْقِنًا بِهَا قَلْبُهُ بَشَّرَهُ بِالْجَنَّةِ؟ قَالَ: «نَعَمْ»، قَالَ: فَلَا تَفْعَلْ، فَإِنِّي أَخْشَى أَنْ يَتَّكِلَ النَّاسُ عَلَيْهَا، فَخَلِّهِمْ يَعْمَلُونَ، قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «فَخَلِّهِمْ»
آپ ﷺ نے پوچھا: اے عمر ! آپ نے ایسا کیوں کیا ؟
عمر بولے ۔۔میرے ماں ،باپ آپ پر قربان ۔۔۔کیا آپ نے ابو ہریرہ کو کلمہ شہادت پر جنت کی بشارت سنانے کیلئے بھیجا تھا ؟
فرمایا :ہاں میں نے بھیجا تھا ۔
عرض کیا ،مجھے اندیشہ ہے اس طرح لوگ (غلط فہمی میں ) عمل کی اہمیت چھوڑ کرصرف کلمہ پڑھنے پر اکتفاء کرلیں گے ۔
نبی پاک ﷺ نے فرمایا :ٹھیک ہے ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سیدنا ابو ہریرہ کی مکمل حدیث درج ذیل ہے ۔۔
حدثني أبو هريرة، قال: كنا قعودا حول رسول الله صلى الله عليه وسلم، معنا أبو بكر، وعمر في نفر، فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم من بين أظهرنا، فأبطأ علينا، وخشينا أن يقتطع دوننا، وفزعنا، فقمنا، فكنت أول من فزع، فخرجت أبتغي رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى أتيت حائطا للأنصار [ص:60] لبني النجار، فدرت به هل أجد له بابا؟ فلم أجد، فإذا ربيع يدخل في جوف حائط من بئر خارجة - والربيع الجدول - فاحتفزت، فدخلت على رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: «أبو هريرة» فقلت: نعم يا رسول الله، قال: «ما شأنك؟» قلت: كنت بين أظهرنا، فقمت فأبطأت علينا، فخشينا أن تقتطع دوننا، ففزعنا، فكنت أول من فزع، فأتيت هذا الحائط، فاحتفزت كما يحتفز الثعلب، وهؤلاء الناس ورائي، فقال: «يا أبا هريرة» وأعطاني نعليه، قال: «اذهب بنعلي هاتين، فمن لقيت من وراء هذا الحائط يشهد أن لا إله إلا الله مستيقنا بها قلبه، فبشره بالجنة»، فكان أول من لقيت عمر، فقال: ما هاتان النعلان يا أبا هريرة؟ فقلت: هاتان نعلا رسول الله صلى الله عليه وسلم، بعثني بهما من لقيت يشهد أن لا إله إلا الله مستيقنا بها قلبه، بشرته بالجنة، فضرب عمر بيده بين ثديي فخررت لاستي، فقال: ارجع يا أبا هريرة، فرجعت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فأجهشت بكاء، وركبني عمر، فإذا هو على أثري، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ما لك يا أبا هريرة؟» قلت: لقيت عمر، فأخبرته بالذي بعثتني به، فضرب بين ثديي ضربة خررت لاستي، قال: ارجع، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «يا عمر، ما حملك على ما فعلت؟» قال: يا رسول الله، بأبي أنت، وأمي، أبعثت أبا هريرة بنعليك، من لقي يشهد أن لا إله إلا الله مستيقنا بها قلبه بشره بالجنة؟ قال: «نعم»، قال: فلا تفعل، فإني أخشى أن يتكل الناس عليها، فخلهم يعملون، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «فخلهم»
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
تو سیدنا امیر المومنین عمر نے جب یہی اجمالی بشارت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو بتاتے سنا ،تو انہیں روک دیا ۔
اور حقیقت حال جاننے کیلئے خود جناب رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔
حضرت عمر بن خطاب نے ابو ہریرہ کو زبانی طور سے نہیں کہ بڑی زور دار ضرب لگا کر اس حدیث کو بیان کرنے پر روکا اور جیسا کہ آپ نے ارشاد فرمایا کہ حقیقت حال جانے کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ حاضر ہوئے یعنی اس کا مطلب یہ ہوا کہ حضرت عمر نے ابوہریرہ کو صدوق نہیں مانا یعنی آپ کا جو عقیدہ ہے کہ صحابہ کلھم صدوق اس کا رد کیا جبکہ اس حدیث کو بیان کرنے کے لئے بطور نشانی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی نعلین پاک بھی حضرت ابو ہریرہ کو عطاء فرمائی تھی پھر بھی اس کے حدیث رسول ہونے میں حضرت عمر کا شک کرنا کیا معنی رکھتا ہے اور کوئی یہ ایک موقع نہیں جب حضرت عمر نے صحابی کی جانب سے حدیث رسول بیان کرنے پر ایسے حدیث رسول ماننے سے انکار کیا ہو مثلا تیمم کے بارے میں حضرت عمار کی بیان کی ہوئی حدیث رسول کو ماننے سے انکار کرنا یا ابوہریرہ کا حضرت عمر کے مرنے کے بعد حدیث رسول بیان کرنے کے بعد یہ فرمانا کہ حضرت عمر کے زمانے میں یہ حدیث بیان کرتا تو وہ میرا سر توڑ دیتے وغیرہ وغیرہ
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,799
پوائنٹ
1,069
اہل سنت کے لئے چونکہ یہ مہینہ گیارویں کا ہے تو ایسی نسبت سے گیارہواں آسان طریقہ جنت کے حصول کا عرض کرتا ہوں
حضرت ابوہریرہ سے ایک طویل روایت صحیح مسلم میں بیان ہوئی اس حدیث میں ابوھریرہ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ ایک باغ میں تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ

يا أبا هريرة وأعطاني نعليهِ قالَ اذهب بنعليَّ هاتينِ فمن لقيتَ من وراءِ هذا الحائطَ يشهدُ أن لا إلهَ إلَّا اللَّهُ مستيقِنًا بها قلبُهُ فبشِّرْهُ بالجنَّة


رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی نعلین مبارک مجھے دے کر فرمایا "ابوہریرہ! میری یہ دونوں نعلین (بطور نشانی) کے لے جاؤ اورجو شخص باغ کے باہر دل کے یقین کے ساتھ
لا إله إلا الله

کہتا ہوا ملے اس کو جنت کی بشارت دے دو"
اب ابوھریرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کی تعمیل میں چل پڑے لیکن حضرت ابو ھریرہ کی بد قسمتی کہ باغ کے باہر سب سے پہلے ان کی ملاقات حضرت عمر سے ہوگئی اور عمر بن خطاب نے ابوھریرہ سے پوچھا کہ

فقالَ ما هاتانِ النَّعلانِ يا أبا هريرةَ

یہ جوتیاں کیسی ہیں ؟ اے ابوہریرہ
اس پر ابوھریرہ نے کہا کہ
هاتانِ نعلا رسولِ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ بعثني بهما من لقيتُ يشهدُ أن لا إلهَ إلَّا اللَّهُمستيقِنًا بها قلبهُ بشَّرتُهُ بالجنَّةِ

یہ نعلین مبارک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہیں
آپ نے مجھے یہ نعلین دے کر بھیجا ہے کہ جو مجھے دل کے یقین کے ساتھ اس بات کی گواہی دیتا ہوا ملے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں، اس کو جنت کی بشارت دے دوں۔
لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ ارشاد سنتے ہی معلوم نہیں حضرت عمر کو کیوں اس قدر غصہ آیا کہ انھوں نے حضرت ابوھریرہ کو مارا
ضربَ عمرُ بيدِهِ بينَ ثدييَّ فخررتُ لِاستي فقالَ ارجِع يا أبا هريرةَ

ابو ھریرہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر نے یہ سن کر ہاتھ سے میرے سینے پر اک زور دارضرب رسید کی جس کی وجہ سے میں سرینوں کے بل گر پڑا۔ کہنے لگے اے ابوہریرہ ! لوٹ جا۔
الراوي: أبو هريرة المحدث: مسلم - المصدر: صحيح مسلم - الصفحة أو الرقم: 31 خلاصة حكم المحدث: صحيح
کیا حضرت عمر نے کلمہ پڑھ کر جنت کی بشارت کو قبول نہیں کیا !!!! ؟؟؟؟؟
شاید اب کوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بشارت کو قبول کرلے
10690175_780482765340472_5187660246011118274_n.jpg
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,799
پوائنٹ
1,069
اہل سنت کے لئے چونکہ یہ مہینہ گیارویں کا ہے تو ایسی نسبت سے گیارہواں آسان طریقہ جنت کے حصول کا عرض کرتا ہوں
حضرت ابوہریرہ سے ایک طویل روایت صحیح مسلم میں بیان ہوئی اس حدیث میں ابوھریرہ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ ایک باغ میں تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ

يا أبا هريرة وأعطاني نعليهِ قالَ اذهب بنعليَّ هاتينِ فمن لقيتَ من وراءِ هذا الحائطَ يشهدُ أن لا إلهَ إلَّا اللَّهُ مستيقِنًا بها قلبُهُ فبشِّرْهُ بالجنَّة


رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی نعلین مبارک مجھے دے کر فرمایا "ابوہریرہ! میری یہ دونوں نعلین (بطور نشانی) کے لے جاؤ اورجو شخص باغ کے باہر دل کے یقین کے ساتھ
لا إله إلا الله

کہتا ہوا ملے اس کو جنت کی بشارت دے دو"
اب ابوھریرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کی تعمیل میں چل پڑے لیکن حضرت ابو ھریرہ کی بد قسمتی کہ باغ کے باہر سب سے پہلے ان کی ملاقات حضرت عمر سے ہوگئی اور عمر بن خطاب نے ابوھریرہ سے پوچھا کہ

فقالَ ما هاتانِ النَّعلانِ يا أبا هريرةَ

یہ جوتیاں کیسی ہیں ؟ اے ابوہریرہ
اس پر ابوھریرہ نے کہا کہ
هاتانِ نعلا رسولِ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ بعثني بهما من لقيتُ يشهدُ أن لا إلهَ إلَّا اللَّهُمستيقِنًا بها قلبهُ بشَّرتُهُ بالجنَّةِ

یہ نعلین مبارک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہیں
آپ نے مجھے یہ نعلین دے کر بھیجا ہے کہ جو مجھے دل کے یقین کے ساتھ اس بات کی گواہی دیتا ہوا ملے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں، اس کو جنت کی بشارت دے دوں۔
لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ ارشاد سنتے ہی معلوم نہیں حضرت عمر کو کیوں اس قدر غصہ آیا کہ انھوں نے حضرت ابوھریرہ کو مارا
ضربَ عمرُ بيدِهِ بينَ ثدييَّ فخررتُ لِاستي فقالَ ارجِع يا أبا هريرةَ

ابو ھریرہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر نے یہ سن کر ہاتھ سے میرے سینے پر اک زور دارضرب رسید کی جس کی وجہ سے میں سرینوں کے بل گر پڑا۔ کہنے لگے اے ابوہریرہ ! لوٹ جا۔
الراوي: أبو هريرة المحدث: مسلم - المصدر: صحيح مسلم - الصفحة أو الرقم: 31 خلاصة حكم المحدث: صحيح
کیا حضرت عمر نے کلمہ پڑھ کر جنت کی بشارت کو قبول نہیں کیا !!!! ؟؟؟؟؟
شاید اب کوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بشارت کو قبول کرلے
میرے بھائی پہلے بھی آپ کو اس کا جواب دیا جا چکا ہے لہذا اس کو یہاں پوسٹ کر دیتا ہو -


اولاً:

اگر احادیث مبارکہ کو آپ مانتے ہیں تو پھر دیگر صحیح احادیث کو بھی آپ مانتے ہوں گے، جن میں سیدنا عمررضی اللہ عنہ متعدد فضائل بیان کیے گئے ہیں اور انہیں جنت کی بشارت دی گئی ہے۔ (مانتے ہیں تو مزید بحث کی ضرورت نہیں) اور اگر نہیں مانتے تو یہودیوں كا كردار كيوں اپنا رہے ہیں:

أفتؤمنون ببعض الكتاب وتكفرون ببعض فما جزاء من يفعل ذلك منكم إلا خزي في الحياة الدنيا ويوم القيامة يردون إلى أشد العذاب وما الله بغافل عما تعلمون

ثانیا:

آپ نے احادیث میں سے صرف اپنے مطلب کی باتیں کیوں بیان کی ہیں، پورا قصہ کیوں ذکر نہیں کیا؟؟؟ کیونکہ اس سے آپ کا موقف کی چھت بنیادوں سے ہی گر پڑے گی؟؟؟

مثلاً پہلی باغ والی حدیث میں آپ نے صرف وہ حصہ بیان کیا، جس میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو دھکا دیا اور اس سے آپ نے سیدنا عمر سے اپنا بغض ظاہر کرتے ہوئے انہیں منکر حدیث ثابت کرنے کی کوشش کی۔ حالانکہ اسی حدیث مبارکہ میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو جنت کی بشارت دی گئی ہے۔ (آپ اس کے منکر ہیں تو در اصل رسول کریمﷺ کی باتوں کو نہ ماننے والے آپ ہوئے نہ کہ سیدنا عمر) اور پھر جب سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے واپس آکر نبی کریمﷺ سے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی شکایت کی تو نبی کریمﷺ نے بھی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی موافقت کی، اس کا بھی آپ نے ذکر نہیں کیا۔ کیوں؟؟؟ کیا نعوذ باللہ نبی کریمﷺ بھی اپنی ہی احادیث کا انکار کرنے والے تھے؟؟؟ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کیا صاحب قصہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بھی اس حدیث کی بناء پر آپ کی طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو منکر حدیث سمجھتے تھے۔ بہرام صاحب تقیہ کیوں کرتے ہو، تمہارے نزدیک تو سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بھی کافر ومنافق ہیں (نعوذ باللہ) تو اپنا مطلب نکالنے کیلئے انہیں کی احادیث کیوں پیش کر رہے ہو؟

قد مكر الذين من قبلهم فأتى الله بنيانهم من القواعد فخر عليهم السقف من فوقهم وأتاهم العذاب من حيث لا يشعرون

ان سے پہلے بھی لوگوں مکر ودھوکا کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کی عمارت کی بنیادیں ہی اکھاڑ دیں اور ان کے اوپر چھٹ دھڑام سے گر پڑی اور پھر انہیں وہاں سے عذاب آیا جہاں سے وہ شعور بھی نہ رکھتے تھے۔


ثالثا:

آپ نے صلح حدیبیہ کا قصہ بیان کیا ہے آپ کو بخوبی معلوم ہے کہ اس قصے میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے بھی نبی کریم ﷺ کے حکم سے صریح خلاف ورزی کی، نبی کریمﷺ نے انہیں رسول اللہ مٹانے کا حکم دیا تو انہوں نے نہیں مانا! کیا آپ اسے بھی سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا انکار حدیث کہیں گے؟؟!!

اللہ تعالیٰ سب کو ہدایت دے اور نبی کریمﷺ کے صحابہ سے محبت کرنے والا بنا دے!

والذين جاءوا من بعدهم يقولون ربنا اغفر لنا ولإخواننا الذين سبقونا بالإيمان ولا تجعل في قلوبنا غلا للذين ءامنوا ربنا إنك رؤوف رحيم

اس آیت کریمہ سے مراد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے علاوہ اور کون لوگ ہو سکتے ہیں؟

http://forum.mohaddis.com/threads/کیا-یہ-بھی-انکار-حدیث-ہے؟؟؟؟.9305/page-7#post-81058
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
میرے بھائی پہلے بھی آپ کو اس کا جواب دیا جا چکا ہے لہذا اس کو یہاں پوسٹ کر دیتا ہو -


اولاً:

اگر احادیث مبارکہ کو آپ مانتے ہیں تو پھر دیگر صحیح احادیث کو بھی آپ مانتے ہوں گے، جن میں سیدنا عمررضی اللہ عنہ متعدد فضائل بیان کیے گئے ہیں اور انہیں جنت کی بشارت دی گئی ہے۔ (مانتے ہیں تو مزید بحث کی ضرورت نہیں) اور اگر نہیں مانتے تو یہودیوں كا كردار كيوں اپنا رہے ہیں:

أفتؤمنون ببعض الكتاب وتكفرون ببعض فما جزاء من يفعل ذلك منكم إلا خزي في الحياة الدنيا ويوم القيامة يردون إلى أشد العذاب وما الله بغافل عما تعلمون

ثانیا:

آپ نے احادیث میں سے صرف اپنے مطلب کی باتیں کیوں بیان کی ہیں، پورا قصہ کیوں ذکر نہیں کیا؟؟؟ کیونکہ اس سے آپ کا موقف کی چھت بنیادوں سے ہی گر پڑے گی؟؟؟

مثلاً پہلی باغ والی حدیث میں آپ نے صرف وہ حصہ بیان کیا، جس میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو دھکا دیا اور اس سے آپ نے سیدنا عمر سے اپنا بغض ظاہر کرتے ہوئے انہیں منکر حدیث ثابت کرنے کی کوشش کی۔ حالانکہ اسی حدیث مبارکہ میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو جنت کی بشارت دی گئی ہے۔ (آپ اس کے منکر ہیں تو در اصل رسول کریمﷺ کی باتوں کو نہ ماننے والے آپ ہوئے نہ کہ سیدنا عمر) اور پھر جب سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے واپس آکر نبی کریمﷺ سے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی شکایت کی تو نبی کریمﷺ نے بھی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی موافقت کی، اس کا بھی آپ نے ذکر نہیں کیا۔ کیوں؟؟؟ کیا نعوذ باللہ نبی کریمﷺ بھی اپنی ہی احادیث کا انکار کرنے والے تھے؟؟؟ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کیا صاحب قصہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بھی اس حدیث کی بناء پر آپ کی طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو منکر حدیث سمجھتے تھے۔ بہرام صاحب تقیہ کیوں کرتے ہو، تمہارے نزدیک تو سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بھی کافر ومنافق ہیں (نعوذ باللہ) تو اپنا مطلب نکالنے کیلئے انہیں کی احادیث کیوں پیش کر رہے ہو؟

قد مكر الذين من قبلهم فأتى الله بنيانهم من القواعد فخر عليهم السقف من فوقهم وأتاهم العذاب من حيث لا يشعرون

ان سے پہلے بھی لوگوں مکر ودھوکا کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کی عمارت کی بنیادیں ہی اکھاڑ دیں اور ان کے اوپر چھٹ دھڑام سے گر پڑی اور پھر انہیں وہاں سے عذاب آیا جہاں سے وہ شعور بھی نہ رکھتے تھے۔


ثالثا:

آپ نے صلح حدیبیہ کا قصہ بیان کیا ہے آپ کو بخوبی معلوم ہے کہ اس قصے میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے بھی نبی کریم ﷺ کے حکم سے صریح خلاف ورزی کی، نبی کریمﷺ نے انہیں رسول اللہ مٹانے کا حکم دیا تو انہوں نے نہیں مانا! کیا آپ اسے بھی سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا انکار حدیث کہیں گے؟؟!!

اللہ تعالیٰ سب کو ہدایت دے اور نبی کریمﷺ کے صحابہ سے محبت کرنے والا بنا دے!

والذين جاءوا من بعدهم يقولون ربنا اغفر لنا ولإخواننا الذين سبقونا بالإيمان ولا تجعل في قلوبنا غلا للذين ءامنوا ربنا إنك رؤوف رحيم

اس آیت کریمہ سے مراد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے علاوہ اور کون لوگ ہو سکتے ہیں؟

http://forum.mohaddis.com/threads/کیا-یہ-بھی-انکار-حدیث-ہے؟؟؟؟.9305/page-7#post-81058
دیانت داری تو یہ ہوتی کہ اس پوسٹ کے جواب میں میں نے جو عرض کیا تھا آپ ایسے بھی یہاں پیش فرمادیتے
جی ہاں میں صحیح احادیث کو مانتا ہوں لیکن ایسی اصول کے ساتھ جو وہابیوں کا اصول ہے کہ حضرت علی کے مناقب اور فضائل بیان کرتی ہوئی حدیث کا اگر کوئی ایک بھی راوی حضرت علی سے محبت کرنے والا یعنی شیعان علی میں سے ہو تو یہ حدیث قبول نہیں کی جائے گی اگر اسی اصول کو حضرت عمر پر لاگو کیا جائے تو جس روایت کے تمام راوی حضرت عمر سے محبت کرنے والا ہو اور وہ حضرت عمر کے مناقب و فضائل بیان کرتی ہوئی کوئی حدیث بیان کرے تو پھر اس راویت کو کیسے قبول کرسکتا ہوں ؟
لیکن میں نے یہاں سوال جو اٹھایا ہے وہ یہ کہ کیا حضرت عمر احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مانتے تھے یا نہیں اس پر اگر دلائل دیں تو بات بنے گی یا پھر مجھ اس بات کی اجازت ہو کہ میں حضرت عمر کے منکر احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہونے پر دلائل دوں مگر مجھے اس بات اجازت نہیں کہ میں وہابیوں کے عقائد کے خلاف دلائل ان ہی کی متعبر کتابوں سے دوں
منکر حدیث آج جو نعرہ لگاتے ہیں کہ
ہمارے لئے اللہ کی کتاب کافی ہے
یہ نعرہ سب سے پہلے حضرت عمر نے ہی لگایا تھا
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,799
پوائنٹ
1,069
اہل سنت کے لئے چونکہ یہ مہینہ گیارویں کا ہے تو ایسی نسبت سے گیارہواں آسان طریقہ جنت کے حصول کا عرض کرتا ہوں
حضرت ابوہریرہ سے ایک طویل روایت صحیح مسلم میں بیان ہوئی اس حدیث میں ابوھریرہ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ ایک باغ میں تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ

يا أبا هريرة وأعطاني نعليهِ قالَ اذهب بنعليَّ هاتينِ فمن لقيتَ من وراءِ هذا الحائطَ يشهدُ أن لا إلهَ إلَّا اللَّهُ مستيقِنًا بها قلبُهُ فبشِّرْهُ بالجنَّة


رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی نعلین مبارک مجھے دے کر فرمایا "ابوہریرہ! میری یہ دونوں نعلین (بطور نشانی) کے لے جاؤ اورجو شخص باغ کے باہر دل کے یقین کے ساتھ
لا إله إلا الله

کہتا ہوا ملے اس کو جنت کی بشارت دے دو"
اب ابوھریرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کی تعمیل میں چل پڑے لیکن حضرت ابو ھریرہ کی بد قسمتی کہ باغ کے باہر سب سے پہلے ان کی ملاقات حضرت عمر سے ہوگئی اور عمر بن خطاب نے ابوھریرہ سے پوچھا کہ

فقالَ ما هاتانِ النَّعلانِ يا أبا هريرةَ

یہ جوتیاں کیسی ہیں ؟ اے ابوہریرہ
اس پر ابوھریرہ نے کہا کہ
هاتانِ نعلا رسولِ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ بعثني بهما من لقيتُ يشهدُ أن لا إلهَ إلَّا اللَّهُمستيقِنًا بها قلبهُ بشَّرتُهُ بالجنَّةِ

یہ نعلین مبارک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہیں
آپ نے مجھے یہ نعلین دے کر بھیجا ہے کہ جو مجھے دل کے یقین کے ساتھ اس بات کی گواہی دیتا ہوا ملے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں، اس کو جنت کی بشارت دے دوں۔
لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ ارشاد سنتے ہی معلوم نہیں حضرت عمر کو کیوں اس قدر غصہ آیا کہ انھوں نے حضرت ابوھریرہ کو مارا
ضربَ عمرُ بيدِهِ بينَ ثدييَّ فخررتُ لِاستي فقالَ ارجِع يا أبا هريرةَ

ابو ھریرہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر نے یہ سن کر ہاتھ سے میرے سینے پر اک زور دارضرب رسید کی جس کی وجہ سے میں سرینوں کے بل گر پڑا۔ کہنے لگے اے ابوہریرہ ! لوٹ جا۔
الراوي: أبو هريرة المحدث: مسلم - المصدر: صحيح مسلم - الصفحة أو الرقم: 31 خلاصة حكم المحدث: صحيح
کیا حضرت عمر نے کلمہ پڑھ کر جنت کی بشارت کو قبول نہیں کیا !!!! ؟؟؟؟؟
شاید اب کوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بشارت کو قبول کرلے
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ !!!



10636340_868504153192074_8664057595081209620_n.png




 
Top