• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی سماعِ موتٰی کے منکر تھے !

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
بھائی اگر آپ سماع موتیٰ سے مراد برزخی زندگی کے بارے میں بھی سمجھ رہے ہیں تو آپ کا یہاں بحث کرنا بلکل فضول ہے، کیوں کہ آپ یہاں پر ہمارے جن جن اہل حدیث بھائیوں سے محو بحث ہیں وہ سب کے سب برزخی زندگی کے قائل ہیں، جو مرنے کے بعد شروع ہوتی ہے.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قلیب بدر کے کفار سے اس طرح کلام کیا
فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو يلقيهم ‏"‏ هل وجدتم ما وعدكم ربكم حقا ‏"‏‏
جب (بدر کے) کفار مقتولین کنویں میں ڈالے جانے لگے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کیا تم نے اس چیز کو پا لیا جس کا تم سے تمہارے رب نے وعدہ کیا تھا؟

اس پر صحابہ نے سوال کیا
قال ناس من أصحابه يا رسول الله تنادي ناسا أمواتا
چند صحابہ نے عرض کیا، یا رسول اللہ! آپ ایسے لوگوں کو آواز دے رہے ہیں جو مرچکے ہیں؟

اس سوال کا جواب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح ارشاد فرمایا

قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ ما أنتم بأسمع لما قلت منهم ‏"‏‏
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جو کچھ میں نے ان سے کہا ہے اسے خود تم نے بھی ان سے زیادہ بہتر طریقہ پر نہیں سنا ہو گا۔



ترجمہ از داؤد راز
صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 4026
اس ارشاد میں کہیں ذکر نہیں کہ یہ معجزہ ہے
اگر آپ یہ ثابت کرنا چاہتی ہیں کہ یہ معجزہ ہے تو اس کے لئے دلیل رسول اللہ کے ارشاد سے عنایت فرمادیں
کیونکہ
نبی کریمﷺ کے علاوہ ہر ایک کی بات صحیح بھی ہو سکتی ہے اور غلط بھی
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
نہیں!

کیونکہ وہ نبی کریمﷺ کا معجزہ تھا۔

جیسے ہر ایک پتہ ہے اور اس پر سینکڑوں دلائل ہیں کہ مردوں کو زندہ کرنا صرف اور صرف اللہ کا کام ہے، تو کیا سیدنا عیسیٰ﷤ اللہ کے حکم سے مردوں کو زندہ کرنے سے رک گئے تھے؟؟!

اگر نہیں تو کیوں؟؟؟

اس لئے وہ ان کا معجزہ تھا!
کیا سیدنا عیسیٰ﷤ اللہ کے حکم سے مردوں کو زندہ کرنے سے رک گئے تھے
ہائی لائٹ کردہ آپ ہی کے الفاظ پر آپ خود ہی غور فرمالیتے تو ایسا بے تکا سوال نہیں فرماتے !
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
امام بخاری اور تقیہ کیلئے الگ دھاگہ قائم کریں!
تقیہ کی بحث میں نے شروع نہیں کی اس لئے یہ مشورہ ان لوگوں کو دیا جائے جنھوں نے اس دھاگہ میں یہ بحث شروع کی ہے شکریہ
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
إنا لله وإنا إليه راجعون
یہی تو آپ کی کج فہمی بلکہ مغالطہ آمیزی کی ناروا کوشش ہے۔ نبی کریمﷺ کی بات کو کون مسلمان ردّ کر سکتا ہے؟ جب ہم بار بار کہہ رہے ہیں کہ یہ نبی کریمﷺ کا معجزہ تھا تو یہ آپ کی بات ماننا ہی ہوا، ردّ کیسے ہوگیا؟؟؟ اگر آپ کو سمجھ نہیں آتی یا آپ ’مخصوص مقاصد‘ کے تحت ’تجاہل عارفانہ‘ سے کام لے رہے ہیں تو کوئی بات نہیں۔ روزِ قیامت اس کا فیصلہ ہو جائے گا۔



جی! اب آپ صحیح ٹریک پر آئے ہیں!

ہمارا موقف ہے کہ قلیب بدر والوں کو اللہ کے حکم سے اپنی بات سنانا نبی کریمﷺ کا معجزہ تھا۔ اس کی دلیل درج ذیل حدیث مبارکہ میں نبی کریمﷺ کے فرمان میں لفظ الآن ہے، ’مومنوں‘ کی ماں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اسی لفظ سے استدلال فرمایا ہے:

وقف النبيُّ ﷺ على قليبِ بدرٍ، فقال: «هل وجدتُم ما وعد ربُّكم حقًّا». ثم قال: «إنهم الآن يسمعون ما أقولُ» . فذكر لعائشةَ، فقالتْ : "إنما قال النبيُّ ﷺ : «إنهم الآن ليعلمون أنَّ الذي كنتُ أقول لهم هو الحقَّ » . ثم قرأت : ﴿ إِنَّكَ لاَ تُسْمِعَ الموْتَى ﴾ . حتى قرأت الآيةَ .
الراوي: عبدالله بن عمر المحدث: البخاري - المصدر: صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 3980


یعنی یہ لوگ اس وقت سن رہے ہیں جو میں انہیں کہہ رہا ہوں۔ یعنی اگر کوئی انہیں آئندہ سنانا چاہے گا تو یہ ممکن نہ ہوگا کیونکہ فرمانِ باری ہے: ﴿ إنك لا تسمع الموتى ﴾

واللہ تعالیٰ اعلم
آپ نے جو حدیث پیش کی اس کا ترجمہ داؤد راز صاحب نے اس طرح کیا ہے
مجھ سے عثمان نے بیان کیا ' ہم سے عبدہ نے بیان کیا'ان سے ہشام نے'ان سے ان کے والد نے اور ان سے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے کنویں پر کھڑے ہو کر فرمایا ' کیا جو کچھ تمہارے رب نے تمہارے لیے وعدہ کر رکھا تھا ' اسے تم نے سچا پا لیا؟ پھر آپ نے فر مایا ' جو کچھ میں کہہ رہا ہوں یہ اب بھی اسے سن رہے ہیں۔ اس حدیث کا ذکر جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا کہ انہوں نے اب جان لیا ہو گا کہ جو کچھ میں نے ان سے کہا تھا وہ حق تھا۔ اس کے بعد انہوں نے آیت "بیشک آپ ان مردوں کو نہیں سنا سکتے" پوری پڑھی۔
یہاں ترجمہ میں اب بھی کہا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے جس طرح یہ جب زندہ تھے سنا کرتے تھے اب مرنے کے بعد بھی سن رہیں ہیں
یہ تو ہوا گھر کے بھیدی کا انکشاف
اور یہ ہیں قلیب بدر کے کفار سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خطاب سے متعلق صحیح بخاری کی حدیث جس میں الآن نہیں آیا

فقال رسولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم وهو يُلْقيهُم : هل وجدْتم ما وعدَكم ربُّكم حقًا ؟,قال موسى: قال نافعُ: قال عبدُ اللهِ: قال ناسٌ من أصحابِه: يا رسولَ اللهِ تنادي ناسًا أمواتًا! قال رسولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم: ما أنتم بأسمعَ لما قلتُ منهم.
الراوي: عبدالله بن عمر المحدث:البخاري - المصدر: صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 4026
خلاصة حكم المحدث: [صحيح]
ترجمہ از داؤد راز
جب (بدر کے) کفار مقتولین کنویں میں ڈالے جانے لگے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کیا تم نے اس چیز کو پا لیا جس کا تم سے تمہارے رب نے وعدہ کیا تھا؟ موسیٰ نے بیان کیا، ان سے نافع نے اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چند صحابہ نے عرض کیا، یا رسول اللہ! آپ ایسے لوگوں کو آواز دے رہے ہیں جو مرچکے ہیں؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جو کچھ میں نے ان سے کہا ہے اسے خود تم نے بھی ان سے زیادہ بہتر طریقہ پر نہیں سنا ہو گا۔
 

shizz

رکن
شمولیت
مارچ 10، 2012
پیغامات
48
ری ایکشن اسکور
166
پوائنٹ
31
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قلیب بدر کے کفار سے اس طرح کلام کیا
فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو يلقيهم ‏"‏ هل وجدتم ما وعدكم ربكم حقا ‏"‏‏
جب (بدر کے) کفار مقتولین کنویں میں ڈالے جانے لگے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کیا تم نے اس چیز کو پا لیا جس کا تم سے تمہارے رب نے وعدہ کیا تھا؟

اس پر صحابہ نے سوال کیا
قال ناس من أصحابه يا رسول الله تنادي ناسا أمواتا
چند صحابہ نے عرض کیا، یا رسول اللہ! آپ ایسے لوگوں کو آواز دے رہے ہیں جو مرچکے ہیں؟

اس سوال کا جواب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح ارشاد فرمایا

قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ ما أنتم بأسمع لما قلت منهم ‏"‏‏
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جو کچھ میں نے ان سے کہا ہے اسے خود تم نے بھی ان سے زیادہ بہتر طریقہ پر نہیں سنا ہو گا۔



ترجمہ از داؤد راز
صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 4026
اس ارشاد میں کہیں ذکر نہیں کہ یہ معجزہ ہے
اگر آپ یہ ثابت کرنا چاہتی ہیں کہ یہ معجزہ ہے تو اس کے لئے دلیل رسول اللہ کے ارشاد سے عنایت فرمادیں
کیونکہ
نبی کریمﷺ کے علاوہ ہر ایک کی بات صحیح بھی ہو سکتی ہے اور غلط بھی
کیا تمام معجزات میں لفظ معجزہ کا ہونا لازمی ہے ورنہ وہ معجزہ نہیں ہے؟؟؟
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
آپ نے جو حدیث پیش کی اس کا ترجمہ داؤد راز صاحب نے اس طرح کیا ہے

یہاں ترجمہ میں اب بھی کہا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے جس طرح یہ جب زندہ تھے سنا کرتے تھے اب مرنے کے بعد بھی سن رہیں ہیں
یہ تو ہوا گھر کے بھیدی کا انکشاف
اور یہ ہیں قلیب بدر کے کفار سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خطاب سے متعلق صحیح بخاری کی حدیث جس میں الآن نہیں آیا

فقال رسولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم وهو يُلْقيهُم : هل وجدْتم ما وعدَكم ربُّكم حقًا ؟,قال موسى: قال نافعُ: قال عبدُ اللهِ: قال ناسٌ من أصحابِه: يا رسولَ اللهِ تنادي ناسًا أمواتًا! قال رسولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم: ما أنتم بأسمعَ لما قلتُ منهم.
الراوي: عبدالله بن عمر المحدث:البخاري - المصدر: صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 4026
خلاصة حكم المحدث: [صحيح]
ترجمہ از داؤد راز
جب (بدر کے) کفار مقتولین کنویں میں ڈالے جانے لگے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کیا تم نے اس چیز کو پا لیا جس کا تم سے تمہارے رب نے وعدہ کیا تھا؟ موسیٰ نے بیان کیا، ان سے نافع نے اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چند صحابہ نے عرض کیا، یا رسول اللہ! آپ ایسے لوگوں کو آواز دے رہے ہیں جو مرچکے ہیں؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جو کچھ میں نے ان سے کہا ہے اسے خود تم نے بھی ان سے زیادہ بہتر طریقہ پر نہیں سنا ہو گا۔
احادیث ایک دوسرے کی وضاحت کرتی ہیں، اگر ایک حدیث میں الآن کا لفظ نہیں اور دوسری میں ہے تو اس سے الآن کا انکار نہیں ہو سکتا۔ یہ ایک بدیہی بات ہے۔ قرآن کریم میں بہت سے قصے کئی مرتبہ آئے ہیں اور ان میں الفاظ کا اختلاف ہے، ہم ان الفاظ میں سے کسی لفظ کو صرف اس بنا پر ردّ نہیں کر سکتے کہ یہ لفظ ایک جگہ موجود ہے دوسری جگہ موجود نہیں۔ کیا خیال ہے؟؟

جہاں تک لفظ الآن کے معنیٰ کا تعلق ہے تو ہم عجمیوں کی نسبت وہ عرب جن کے محاورہ میں قرآن اُترا اور جن کے محاورہ میں نبی کریمﷺ کلام فرمایا کرتے تھے - خصوصاً ’مؤمنوں‘ کی ماں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا - ہم سے بہتر عربی جانتے تھے۔ آج کون مائی کا لال ہے کہ جو نبی کریمﷺ کی حدیث مبارکہ سے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے اخذ کردہ فہم کا انکار کرے؟؟! سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے الآن کا مفہوم یہی بیان کیا ہے کہ وہ اسے ’اس وقت‘ سن رہے ہیں اور یہ کوئی دائمی اصول نہیں ہے۔ دائمی اور قرآنی اصول تو إنك لا تسمع الموتى والا ہی ہے۔
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
احادیث ایک دوسرے کی وضاحت کرتی ہیں، اگر ایک حدیث میں الآن کا لفظ نہیں اور دوسری میں ہے تو اس سے الآن کا انکار نہیں ہو سکتا۔ یہ ایک بدیہی بات ہے۔ قرآن کریم میں بہت سے قصے کئی مرتبہ آئے ہیں اور ان میں الفاظ کا اختلاف ہے، ہم ان الفاظ میں سے کسی لفظ کو صرف اس بنا پر ردّ نہیں کر سکتے کہ یہ لفظ ایک جگہ موجود ہے دوسری جگہ موجود نہیں۔ کیا خیال ہے؟؟

جہاں تک لفظ الآن کے معنیٰ کا تعلق ہے تو ہم عجمیوں کی نسبت وہ عرب جن کے محاورہ میں قرآن اُترا اور جن کے محاورہ میں نبی کریمﷺ کلام فرمایا کرتے تھے - خصوصاً ’مؤمنوں‘ کی ماں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا - ہم سے بہتر عربی جانتے تھے۔ آج کون مائی کا لال ہے کہ جو نبی کریمﷺ کی حدیث مبارکہ سے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے اخذ کردہ فہم کا انکار کرے؟؟! سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے الآن کا مفہوم یہی بیان کیا ہے کہ وہ اسے ’اس وقت‘ سن رہے ہیں اور یہ کوئی دائمی اصول نہیں ہے۔ دائمی اور قرآنی اصول تو إنك لا تسمع الموتى والا ہی ہے۔
یہ داؤد راز کا کیا گیا ترجمہ تھا جس پر آپ اعتراض فرمارہیں ہیں اور داؤد راز صاحب کو آپ سلف صالحین میں شمار کرتے ہیں اور ان کے منہج سے آپ حضرات استدلال کرتے ہیں یہ آپ ہی کے سلف کا منہج ہے غور کریں
اور جہاں تک بات ہے إنك لا تسمع الموتى کی تو ایسی آیت سے استدلال کرتے ہوئے حضرت عمر نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مردوں سے کلام کرنے سے روکنا چاہا تھا لیکن آپ نے اس استدلال کو رد کرتے ہوئے مردوں سے کلام فرمایا اور ایسی آیت سے حضرت عائشہ بھی استدلال کرتے ہوئے مردوں کے سنے کی نفی فرمارہی ہیں جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہلے ہی استدلال کو رد فرماچکے ہیں
نبی کریمﷺ کے علاوہ ہر ایک کی بات صحیح بھی ہو سکتی ہے اور غلط بھی
آپ کے مذکورہ عقیدے کے مطابق نبی کریمﷺ کے علاوہ ہر ایک کی بات صحیح بھی ہوسکتی ہے اور غلط بھی تو پھر کس طرح امی عائشہ کا یہ قول صحیح ہوسکتا جس کو کہ پہلے ہی نبی کریمﷺ رد فرماچکے ہیں ؟؟؟
اسلئے اب یہ دیکھنا پڑے گا کہ اس آیت قرآنی کا اصل مفہوم کیا ہے
اس لئے کہ تم مُردوں کو نہیں سناتے اور نہ بہروں کو پکارنا سناؤ جب وہ پیٹھ دے کر پھریں
اور نہ تم اندھوں کو ان کی گمراہی سے راہ پر لاؤ تم تو اسی کو سناتے ہو جو ہماری آیتوں پر ایمان لائے تو وہ گردن رکھے ہوئے ہیں
الروم : 52 ۔53
( مترجم : امام احمد رضا بریلوی )
ان دونوں آیت قرآنی پر غور کرنے سے معلوم ہوا کہ اللہ کا یہ ارشاد کافروں کے لئے ہے کہ کافروں کے دل مر چکے اور ان سے کسی طرح قبولِ حق کی توقع نہیں رہی کیونکہ اگلی آیت میں جن لوگوں کا سن کر ایمان لانے کا ذکر ان کو اللہ نے مُّسْلِمُوْنَؒ کہا ہے اور گرامر کے قاعدے کے مطابق مردے کی ضد زندہ ہوتی ہے نہ کہ مسلمان ہاں مگر مسلمان کی ضد کافر ہی ہوتی ہے یہاں ایک بات یاد رہے کہ کافروں کے مطلق سماع کی نفی نہیں بلکہ ایسے سنے کی نفی ہے جو ان کو فائدہ دے سکے
کیونکہ اہلسنت والجماعت کے عالم جناب نعیم الدین مرادآبادی نے ان آیت کی تفسیر ایسی مفہوم کے ساتھ کی ہے
اس لنک پر
http://dawateislami.net/quran/tafseer#section:surah_30.53
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
کیا تمام معجزات میں لفظ معجزہ کا ہونا لازمی ہے ورنہ وہ معجزہ نہیں ہے؟؟؟
پھر ہمیں کیسا پتہ چلے گا کہ قلیب بدر کے کفار سے کلام کرنا معجزہ تھا کیونکہ آپ یہ مانتی ہیں کہ
نبی کریمﷺ کے علاوہ ہر ایک کی بات صحیح بھی ہو سکتی ہے اور غلط بھی
پھر نبی کریمﷺ کے علاہ کسی اور کی بات ہمارے لئے کس طرح حجت ہوسکتی ہے کہ اس میں غلطی کا امکان بھی ہے
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
یہ داؤد راز کا کیا گیا ترجمہ تھا جس پر آپ اعتراض فرمارہیں ہیں اور داؤد راز صاحب کو آپ سلف صالحین میں شمار کرتے ہیں اور ان کے منہج سے آپ حضرات استدلال کرتے ہیں یہ آپ ہی کے سلف کا منہج ہے غور کریں
اور جہاں تک بات ہے إنك لا تسمع الموتى کی تو ایسی آیت سے استدلال کرتے ہوئے حضرت عمر نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مردوں سے کلام کرنے سے روکنا چاہا تھا لیکن آپ نے اس استدلال کو رد کرتے ہوئے مردوں سے کلام فرمایا اور ایسی آیت سے حضرت عائشہ بھی استدلال کرتے ہوئے مردوں کے سنے کی نفی فرمارہی ہیں جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہلے ہی استدلال کو رد فرماچکے ہیں

آپ کے مذکورہ عقیدے کے مطابق نبی کریمﷺ کے علاوہ ہر ایک کی بات صحیح بھی ہوسکتی ہے اور غلط بھی تو پھر کس طرح امی عائشہ کا یہ قول صحیح ہوسکتا جس کو کہ پہلے ہی نبی کریمﷺ رد فرماچکے ہیں ؟؟؟
اسلئے اب یہ دیکھنا پڑے گا کہ اس آیت قرآنی کا اصل مفہوم کیا ہے
اس لئے کہ تم مُردوں کو نہیں سناتے اور نہ بہروں کو پکارنا سناؤ جب وہ پیٹھ دے کر پھریں
اور نہ تم اندھوں کو ان کی گمراہی سے راہ پر لاؤ تم تو اسی کو سناتے ہو جو ہماری آیتوں پر ایمان لائے تو وہ گردن رکھے ہوئے ہیں
الروم : 52 ۔53
( مترجم : امام احمد رضا بریلوی )
ان دونوں آیت قرآنی پر غور کرنے سے معلوم ہوا کہ اللہ کا یہ ارشاد کافروں کے لئے ہے کہ کافروں کے دل مر چکے اور ان سے کسی طرح قبولِ حق کی توقع نہیں رہی کیونکہ اگلی آیت میں جن لوگوں کا سن کر ایمان لانے کا ذکر ان کو اللہ نے مُّسْلِمُوْنَؒ کہا ہے اور گرامر کے قاعدے کے مطابق مردے کی ضد زندہ ہوتی ہے نہ کہ مسلمان ہاں مگر مسلمان کی ضد کافر ہی ہوتی ہے یہاں ایک بات یاد رہے کہ کافروں کے مطلق سماع کی نفی نہیں بلکہ ایسے سنے کی نفی ہے جو ان کو فائدہ دے سکے
کیونکہ اہلسنت والجماعت کے عالم جناب نعیم الدین مرادآبادی نے ان آیت کی تفسیر ایسی مفہوم کے ساتھ کی ہے
اس لنک پر
http://dawateislami.net/quran/tafseer#section:surah_30.53
اب آپ نے ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے، لہٰذا مزید گفتگو کا فائدہ نہیں۔

عقل سلیم رکھنے والوں کیلئے اوپر موجود دلائل کافی ہیں، جن سے ان شاء اللہ حق وباطل کا فیصلہ ہو جائے گا۔

اللهم أرنا الحق حقا وارزقنا اتباعه وأرنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابه ولا تجعله ملتبسا علينا فنضل واجعلنا للمتقين إماما
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
پھر ہمیں کیسا پتہ چلے گا کہ قلیب بدر کے کفار سے کلام کرنا معجزہ تھا کیونکہ آپ یہ مانتی ہیں کہ
نبی کریمﷺ کے علاوہ ہر ایک کی بات صحیح بھی ہو سکتی ہے اور غلط بھی
پھر نبی کریمﷺ کے علاہ کسی اور کی بات ہمارے لئے کس طرح حجت ہوسکتی ہے کہ اس میں غلطی کا امکان بھی ہے
کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ نبی کریم صل الله علیہ وسلم نے اور کتنے مواقع پر قبر کے مردوں سے خطاب فرمایا تھا ؟؟؟ اگر نہیں تو مان لیں کہ یہ ایک معجزہ تھا - اور اگر یہ عام روٹین تھی تو نبی کی اسوہ آپ کے سامنے ہے -ثابت کیجیے کہ اپنی زندگی میں نبی کریم صل الله علیہ وسلم اکثر و بیشتر مرنے والے یا شہید ہونے والے صحابہ کرام رضوان الله اجمعین سے یا کفار و مشرکین سے خطاب کرتے رہے؟؟؟ -
 
Top