نبی کریمﷺ کے علاوہ ہر ایک کی بات صحیح بھی ہو سکتی ہے اور غلط بھی
مگر معاف کیجئے گا کہ یہاں ہم ایسی بات پر بحث کررہیں ہیں کہ حضرت عمر نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مردوں سے کلام کرنے سے روکنا چاہا لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مردوں سے کلام فرمایا مذکورہ عقیدے کے مطابق ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات کو رد کرنے کے بجائے حضرت عمر کی بات رد کیا جاتا لیکن ہو اس کے برعکس رہا ہے جو کہ مذکورہ بالا عقیدے کی نفی ہے
إنا لله وإنا إليه راجعون
یہی تو آپ کی کج فہمی بلکہ مغالطہ آمیزی کی ناروا کوشش ہے۔ نبی کریمﷺ کی بات کو کون مسلمان ردّ کر سکتا ہے؟ جب ہم بار بار کہہ رہے ہیں کہ
یہ نبی کریمﷺ کا معجزہ تھا تو یہ آپ کی بات ماننا ہی ہوا، ردّ کیسے ہوگیا؟؟؟ اگر آپ کو سمجھ نہیں آتی یا آپ ’مخصوص مقاصد‘ کے تحت ’تجاہل عارفانہ‘ سے کام لے رہے ہیں تو کوئی بات نہیں۔ روزِ قیامت اس کا فیصلہ ہو جائے گا۔
اگر آپ یہ کہیں کے مردوں سے کلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معجزہ تھا تو اس کے لئے بھی دلیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد سے ہی دینی پڑی گی کیونکہ " نبی کریمﷺ کے علاوہ ہر ایک کی بات صحیح بھی ہو سکتی ہے اور غلط بھی "
جی! اب آپ صحیح ٹریک پر آئے ہیں!
ہمارا موقف ہے کہ قلیب بدر والوں کو اللہ کے حکم سے اپنی بات سنانا نبی کریمﷺ کا معجزہ تھا۔ اس کی دلیل درج ذیل حدیث مبارکہ میں نبی کریمﷺ کے فرمان میں لفظ
الآن ہے، ’مومنوں‘ کی ماں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اسی لفظ سے استدلال فرمایا ہے:
وقف النبيُّ ﷺ على قليبِ بدرٍ، فقال: «هل وجدتُم ما وعد ربُّكم حقًّا». ثم قال: «إنهم الآن يسمعون ما أقولُ» . فذكر لعائشةَ، فقالتْ : "إنما قال النبيُّ ﷺ : «إنهم الآن ليعلمون أنَّ الذي كنتُ أقول لهم هو الحقَّ » . ثم قرأت : ﴿ إِنَّكَ لاَ تُسْمِعَ الموْتَى ﴾ . حتى قرأت الآيةَ .
الراوي: عبدالله بن عمر المحدث: البخاري - المصدر: صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 3980
یعنی یہ لوگ
اس وقت سن رہے ہیں جو میں انہیں کہہ رہا ہوں۔ یعنی اگر کوئی انہیں آئندہ سنانا چاہے گا تو یہ ممکن نہ ہوگا کیونکہ فرمانِ باری ہے:
﴿ إنك لا تسمع الموتى ﴾
واللہ تعالیٰ اعلم