• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حضرت عیسی علیہ السلام بھی حنفی مقلد ہوں گے؟؟

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,101
ری ایکشن اسکور
1,462
پوائنٹ
344
محترمی حافظ صاحب!
میں نے اس کا جواب یہ عرض کیا ہے کہ عمر رض کے اصول و فروع ہمارے پاس اس طرح موجود نہیں ہیں جن کی مدد سے ہم تمام یا اکثر مسائل کا حل نکال سکیں۔
باقی تو آپ نے اوپر سے پیسٹ کردیا ہے۔ کیا آپ مجھے کوثریؒ کی اس بات کا حوالہ یا اسکین عنایت فرمائیں گے؟
علامہ کوثری نے امام الحرمین کی اس بات کی تردید کی ہے اور اسے صحابہ کرام اور تابعین کی توہین قرار دیا ہے، چناچہ وہ لکھتے ہیں :
فتصور کفایۃ اصول الائمہ بخلاف اصول الصحابۃ اخسار فی المیزان و ایفاء فی الہزیان (احقاق الحق:ص۱۹
ائمہ کے دور کے اصول کافی ہونے اور اس کے برعکس صحابہ کے اصول نا کافی ہونے کا تصور( صحابہ اور ائمہ کی شان میں گستاخی ) سراسر نا انصافی اور مکمل طور پر بیہودہ گوئی کا ارتکاب ہے"
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
ایک بار پھر وضاحت کر دوں آپ پر یہ اعتراض نہیں کیا گیا کہ مقلد کتنی اقسام ہیں بلکہ یہ قدغن لگائی گئی ہے کہ تم سیدنا عمر کی تقلید کیوں نہیں کرتے حالاں کہ ان کی راے پر قرآن نازل ہوتا تھا، اس لیے وہ جناب ابو حنیفہ سے کہیں بڑھ کر قابل تقلید ہیں
قابل غور بات یہ ہے کہ صحابہ اور تابعین کے فتاوی تو ابدی قانون زندگی نہ بن سکے مگر ان کے بعد آنے والے فقہا کے مرتب کردہ فتاوی ابدی قانون زندگی بن گئے،آخر کیسے ؟؟
لطف کی بات یہ ہے کہ یہی بات امام الحرمین عبد الملک جوینی نے اس طرح بیان کی ہے:
صحابہ کرام کے اصول عام احوال کے لیے کافی نہ تھے ،اسی لیے سائل کو عہد صحابہ میں اختیار تھا کہ وہ ایک مسئلہ میں ابو بکر اور دوسرے میں حضرت عمر کے قول کو لے لے، بر عکس ائمہ کے دور کے کہ ان کے اصول کافی تھے "
(مغیث الخلق:۱۵
علامہ کوثری نے امام الحرمین کی اس بات کی تردید کی ہے اور اسے صحابہ کرام اور تابعین کی توہین قرار دیا ہے، چناچہ وہ لکھتے ہیں :
فتصور کفایۃ اصول الائمہ بخلاف اصول الصحابۃ اخسار فی المیزان و ایفاء فی الہزیان
ائمہ کے دور کے اصول کافی ہونے اور اس کے برعکس صحابہ کے اصول نا کافی ہونے کا تصور( صحابہ اور ائمہ کی شان میں گستاخی ) سراسر نا انصافی اور مکمل طور پر بیہودہ گوئی کا ارتکاب ہے"


جزاك الله خیرا حافظ بهائی یہ قیمتی حوالہ عنایت فرمانے کے لیے۔
امید ہے آپ نے کوثریؒ کی یہ بحث مکمل پڑھی ہوگی۔ جوینیؒ نے یہ کہا تھا کہ صحابہ کرام رض کے اصول "کافی" نہیں تھے۔ کوثری نے ان کا رد کیا کہ اس کا معنی یہ ہوا کہ صحابہ کے پاس ایسے اصول ہی نہیں تھے جن پر وہ مسائل کی بنا کر سکیں۔ ظاہر ہے ایک فقیہ کے لحاظ سے یہ بعید ہے۔ اس لیے انہوں نے یہ کہا کہ اصول ائمہ کو "کافی" ماننا اور اصول صحابہ کو "کافی" نہ ماننا یہ درست نہیں۔
یہ بات واقعی درست ہے کہ من حیث المجموع یا فردا ہی ہم فقہاء صحابہ سے ان اصول کی نفی کر دیں۔
میں کیا کہتا ہوں یہ بھی دیکھیے:۔
محترمی حافظ صاحب!
میں نے اس کا جواب یہ عرض کیا ہے کہ عمر رض کے اصول و فروع ہمارے پاس اس طرح موجود نہیں ہیں جن کی مدد سے ہم تمام یا اکثر مسائل کا حل نکال سکیں۔
باقی تو آپ نے اوپر سے پیسٹ کردیا ہے۔ کیا آپ مجھے کوثریؒ کی اس بات کا حوالہ یا اسکین عنایت فرمائیں گے؟

عدم وجود اور عدم کفایت میں بہت فرق ہوتا ہے۔ غالبا کسی جگہ میں یہ بات بھی کرچکا ہوں کہ یہ عدم وجود کیوں ہوتا ہے۔
البتہ عدم کفایت کا میں نہیں کہتا کیوں کہ یہ فی الحال بلا دلیل ہی ہوگا۔

آپ کی تحقیق کے مطابق امام صاحب کے دور میں اصول کی کتنی کتابیں موجود تھیں ، اگر آپ کے علم میں اصول حدیث، اصول تفسیر اور اصول فقہ پر کوئی کتاب اس وقت موجود ہو تو اس کتاب کے مصنف کا نام بتا دیں،
جی نہیں میرے علم میں نہیں ہے۔ بلکہ میرے علم میں تو امامؒ کے ابتدائی دور میں حدیث کی کوئی کتاب بھی نہیں ہے۔
البتہ انتہائی دور میں امام اعظمؒ کا عثمان البتی کی طرف رسالہ اور امام مالک کی موطا وغیرہ ایسی کتابیں ذکر کی جاتی ہیں جن میں بعض اصولوں کو اثناء کلام میں ذکر کیا گیا ہے۔ (موطا کی درست تاریخ کا مجھے علم نہیں)
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
کس بھائی کےپاس فوائد فریدیہ ہو تو اس میں ذرا تلاش کرکے بتائیں کہ یہ قول ’’ عیسی حنفی مقلد ہوں گے ‘‘ اس میں ہے کہ نہیں ؟
(صرف معلومات کے لیے پوچھا ہے ۔ ورنہ دیگر کتابوں کے حوالے پہلے گزر چکے ہیں ۔ )
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
یہ پوری بحث خلط مبحث پرمبنی ہے۔
بعض احناف سے امام ابوحنیفہ کے فضائل میں یہ منقول ہےتوکون نہیں جانتاکہ فضائل اورمناقب کے باب میں اس طرح کی افراط وتفریط عام ہے۔بڑی بڑی شخصیات ایسی گزری ہیں جن کے مناقب اورفضائل میں غلو سے کام لیاگیاہے،اس چیز کو غلو ،افراط وتفریط یاپھر عقیدت میں تجاوز کا شاخسانہ قراردینے کے بجائے اس کو یوں تسلیم کیاجارہاہے کہ جیسے تمام احناف اس کو مانتے چلے آرہے ہوں۔
یہ بات سب سے پہلے موفق نے اپنی کتاب میں لکھی تھی جس کی غلطیوں پر استدراک کیلئے علامہ کردری نے کتاب لکھی اورہ وہ کتاب موفق کی مناقب امام ابوحنیفہ کے ساتھ ساتھ شائع ہوئی ہے۔پھر یہ بات خواجہ نقشبند پارسا سے منقول ہے جس کی تردید اورتنقیح حضرت مجدد الف ثانی نے اپنے مکتوبات میں کی ہے۔
بعض فقہاء سے جو اس طرح کی بات منقول ہے تواس کی تردید علامہ عبدالحی لکھنوی نے الفوائد البہیہ میں بھی کی ہے۔ اگرعلامہ علاء الدین حصکفی نے یہ بات لکھی ہے تواس کےشارح علامہ ابن عابدین نے اس کی تردید بھی کردی ہے۔اگرکوئی منصف مزاج شخص ان تمام امور کا جائزہ لے گا تو وہ یقینااس نتیجے پر پہنچے گاکہ
بعض علماء احناف نے امام ابوحنیفہ کی عقیدت مین غلو کیاہے جس کی علماء احناف نے تردید کی ہے۔
دوسرے اہل علم کا یہ طریقہ رہاہے کہ اگرکسی بظاہرخراب کی تاویل کے ذریعہ اچھے معانی مراد لئے جاسکتےہیں تو اس کی تاویل حسن ظن کے ساتھ کرتے ہیں، یہاں بھی ایک تاویل یہی ممکن ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام آئیں گے تو وہ حضورپاک صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی بن کر آئیں گے،امتی بننے کی صورت میں لازماکتاب وسنت میں غورکرکے مسائل کا استنباط کریں گےاب یہ استنباط یاتو ائمہ کرام میں سے کسی کے اجتہاد کے موافق ہوگا،ایساتوہوگانہیں کہ ان کےسارے اجتہاد تمام پیشرو ائمہ کے مخالف ہوں گے توجس نے تقلید کی بات کہی ہے اس نے تعبیر غلط اختیار کی ہے لیکن کہنایہ چاہاہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کےبیشتر اجتہادات امام ابوحنیفہ کے اجتہاد کے موافق ہوں گے۔ یہی بات حضرت مجدد الف ثانی علیہ الرحمہ نے کہی ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ امام ابوحنیفہ کو اللہ نے جو فضیلت بخشی ہے اس کا عمومااہل علم نے اعتراف کیاہے رغم انف بعض الناساورہردور میں کیاہے۔خاص بات یہ رہی ہے کہ ان کے فضائل میں مالکیہ،شافعیہ اورحنابلہ نے کتابیں لکھی ہیں جس سے ان کی اونچی شخصیت کااندازہ لگایاجاسکتاہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ کتب فضائل ومناقب میں ڈھیرساری باتیں ایسی ہوتی ہیں جو عقیدت کے زور میں لکھ دی جاتی ہیں ،ان کو بہت کم کوئی قابل اعتناء سمجھتاہے اس کو لے کر ہنگامہ آرائی کرنااہل علم کا شیوہ نہیں۔
اگرمعترض اعتراض کرے کہ فقہ حنفی کے ایک معتبر فقیہہ نے فقہ کی کتاب میں اس کو نقل کیاہے تواسکا جواب یہ ہےکہ ان فقیہہ صاحب سے ماقبل اورمابعد بہت سارے فقہاء احناف گزرے ہیں کیاکسی اورنے اس بات کو اپنی کتاب کی زینت بنایاہے ،اگریقینی طورپر جواب نہیں میں ہے تویہ ایک شاذ واقعہ ہے اورالشاذکالمعدوم ،بالخصوص جب کہ اسی کتاب کے شارح دوسرے حنفی نے اس کی بخوبی تردید کردی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وماتوفیقی الاباللہ
 
Top