• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حضرت عیسی علیہ السلام بھی حنفی مقلد ہوں گے؟؟

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
بھائی اشماریہ صاحب !
اس طرح کے اقوال کے سلسلے میں آپ نے دو موقف اپنائے ہیں :
1۔ ان اقوال کے قائلین کے شاذ ( غیر صحیح ) اقوال ہیں جن کا دیگر حنفی علماء نے رد کیاہے ۔
2۔ اس طرح کے اقوال کرنےمیں کسی قسم کی گستاخی نہیں ۔ اگر ہوتی تو علماء بیان فرمادیتے ۔
میرے خیال سےپہلی توجیہ ہی درست ہے ۔
بات یہ ہے کہ تقلید کے جواز کے قائلین کے نزدیک بھی تقلید کوئی مطلوب شرعی نہیں ہے بلکہ یہ بطور ضرورت کرنا پڑتی ہے ۔
دیکھیں تقلید کی بنیادی ساری مباحث ان لوگوں کے ار گرد گھومتی ہیں جو بذات خود قرآن وسنت کو سمجھنے کی اہلیت یا استطاعت نہیں رکھتے ۔ یہی وجہ ہے کہ مقلدین حضرات اپنے آئمہ مثلا ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو مجتہد بلکہ صراحتا غیر مقلد بھی قرار دیتے ہیں ۔ یہ ساری کوشش کیوں کہ ان کے نزدیک بھی تقلید ایک ’’ نقص ‘‘ اور ’’ خامی ‘‘ ہے ۔ جس کو وہ امام صاحب کے لیے برداشت نہیں کرسکتے ۔


احناف امام اعظمؒ کو مقلد جو تسلیم نہیں کرتے وہ اس لیے کہ وہ خود مجتہد تھے اور یہ بات ثابت ہے۔ اور یہ بھی درست ہے کہ مجتہد کسی کی تقلید نہیں کرتا۔ لیکن بالفرض ابو حنیفہؒ مجتہد نہ ہوتے تو وہ بھی تقلید کرتے۔ اس سے ان کی شان میں کمی تو نہیں آتی۔ امام ابو یوسفؒ اور امام محمدؒ اس پائے کے علماء ہیں کہ بہت سے علماء نے انہیں مجتہد مطلق قرار دیا ہے لیکن ہم لوگ انہیں اکثر اصول میں امام اعظمؒ کا پیروکار مانتے ہیں لیکن اس سے ان کی شان میں کمی نہیں ہوتی اور نہ ہی ہمارے ذہنوں میں ان کے بارے میں کچھ ایسا خیال آتا ہے۔ بلکہ اکثر مقامات پر ان کے اقوال پر فتوی دیا جاتا ہے۔ حتی کہ قضا میں تو اکثر ہی فتوی ابو یوسفؒ کے قول پر ہوتا ہے۔ اگر اس سے نقص شان ہوتا تو یہ کیسے ممکن تھا۔ لہذا یہ بات درست نہیں۔
دوسری بات کسی نبی کا مجتہد ہونا اور مقلد نہ ہونا منصوص نہیں۔ یہ تو عقلی بات ہے کہ نبی کا فہم سب سے زیادہ ہوتا ہے۔ اور ممکن ہے یہ عقلی بات کسی کے نزدیک مسلم نہ ہو۔ ہر کسی کے سوچنے کا الگ انداز ہے۔ عمر رض کا مشورہ بدر کے قیدیوں کو قتل کرنے کا تھا اور نبی ﷺ کا فدیہ لینے کا۔ اور قرآن نے تائید عمر کی بات کی کی۔ میری مراد اس سے نقص شان نہیں نبی ﷺ کی نہ میں ایسا سوچ سکتا ہوں لیکن یہ بتا رہا ہوں کہ مختلف معاملات میں سمجھی جانے والی بات میں فرق ہوتا ہے۔ کبھی ایک درست سمجھتا ہے اور کبھی دوسرا۔ مدینہ میں صحابہ کرام رض کو نبی ﷺ نے کھجور کی نسل بڑھانے کے عمل سے منع کیا تھا۔ اس کا نتیجہ درست نہیں نکلا۔ تو ان واقعات سے یہ پتا چلتا ہے کہ نبی کا فہم ہر معاملے میں سب سے اعلی ہونا لازم نہیں۔ یہ میں اس نکتہ نظر سے کہہ رہا ہوں کہ یہ عقلی بات کسی کے نزدیک مسلم نہ ہو تو وہ بآسانی یہ دلائل دے سکتا ہے جس کے نتیجے میں ہم تاویل کریں گے۔ لیکن ہم اس بات کو درست سمجھتے ہیں کہ نبی کا فہم سب سے اعلی ہوتا ہے لہذا وہ مجتہد ہوں گے نہ کہ مقلد۔ اس لیے نہیں کہ مقلد ہونے سے نقص شان لازم آئے گی بلکہ اس لیےکہ اس اعلی فہم کا مالک مجتہد ہی ہونا چاہیے، مقلد کیسے ہو سکتا ہے۔

اس سب بات کو ایک جانب رکھیے اور موجودہ بحث میں آئیے۔
علامہ حصکفی اور قہستانی نے یہ کہا ہے:۔
وَقَدْ جَعَلَ اللَّهُ الْحُكْمَ لِأَصْحَابِهِ وَأَتْبَاعِهِ مِنْ زَمَنِهِ إلَى هَذِهِ الْأَيَّامِ، إلَى أَنْ يَحْكُمَ بِمَذْهَبِهِ عِيسَى - عَلَيْهِ السَّلَامُ
یہاں حکم دینے اور فیصلہ کرنے کا ذکر ہے خود تقلید کرنے کا نہیں۔ اور کسی کے نزدیک بھی غالبا قاضی کے لیے اپنے مقلد امام کے مطابق فیصلہ کرنے کی شرط نہیں ہے جب وہ اجتہاد کی صلاحیت رکھتا ہو بلکہ اپنے اجتہاد پر عمل کرنا لازم ہے الا یہ کہ وہ فیصلہ دلائل قطعیہ کے خلاف ہو۔
اب یہاں دلیل کی جانب آئیے:۔
وكأنه أخذه مما ذكره أهل الكشف أن مذهبه آخر المذاهب انقطاعا فقد قال الإمام الشعراني في الميزان ما نصه: قد تقدم أن الله تعالى لما من علي بالاطلاع على عين الشريعة رأيت المذاهب كلها متصلة بها، ورأيت مذاهب الأئمة الأربعة تجري جداولها كلها، ورأيت جميع المذاهب التي اندرست قد استحالت حجارة، ورأيت أطول الأئمة جدولا الإمام أبا حنيفة ويليه الإمام مالك، ويليه الإمام الشافعي، ويليه الإمام أحمد، وأقصرهم جدولا الإمام داود، وقد انقرض في القرن الخامس، فأولت ذلك بطول زمن العمل بمذاهبهم وقصره فكما كان مذهب الإمام أبي حنيفة أول المذاهب المدونة فكذلك يكون آخرها انقراضا
اس سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ جب امام کا مذہب آخری رہے گا تو قرب قیامت میں عیسیؑ کے آنے کے وقت یہی مذہب کثرت کے ساتھ ہوگا۔ چنانچہ واضح بات ہے کہ عیسیؑ کا اجتہاد یہی ہوگا کہ اسی مذہب کے مطابق فیصلہ کریں تاکہ لوگوں کے لیے عمل میں آسان ہو اگرچہ چاروں مذاہب حق ہوں گے۔ یہ فیصلے ان مسائل میں ہوتے ہیں جن میں نص نہ ہو۔ ائمہ نے اپنے اپنے اجتہاد کے مطابق فیصلے کیے ہوئے ہیں۔ امت کی کثرت کی وجہ سے سے امام اعظمؒ کے مسلک پر عمل کرنا آسان ہوگا۔
تو یہاں ان کے ذاتی اعمال میں تقلید کا تو ذکر ہی نہیں ہے بلکہ فیصلوں کا ذکر ہے۔ اس سے ان کا مقلد ہونا لازم نہیں آتا۔

پھر اس سب بات کے ساتھ یہی بات پھر آتی ہے کہ اسے کسی زمانے میں بھی کسی نے گستاخی قرار نہیں دیا۔ گستاخی تو ایسا لفظ ہے کہ اس پر بھی کہا جا سکتا ہے کہ میں نے آپ کو یہ جواب کیوں لکھا جب کہ آپ مجھ سے بڑے ہیں۔ لیکن حقیقت میں گستاخی کیا ہوگی اس کو دیکھنا ایک باریک کام ہے۔
(کچھ ایسا ہی مسئلہ ہمارے قانون توہین رسالت کے ساتھ ہے جو ہے تو بالکل صحیح لیکن اس میں یہ واضح نہیں ہے کہ گستاخی ہے کیا۔ اور اسی چیز کا الٹ فائدہ آزادئ رائے کے نام پر بھی اٹھایا جاتا ہے۔)
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
دوسری بات کسی نبی کا مجتہد ہونا اور مقلد نہ ہونا منصوص نہیں۔ ۔۔۔ لیکن ہم اس بات کو درست سمجھتے ہیں کہ نبی کا فہم سب سے اعلی ہوتا ہے لہذا وہ مجتہد ہوں گے نہ کہ مقلد۔ اس لیے نہیں کہ مقلد ہونے سے نقص شان لازم آئے گی بلکہ اس لیےکہ اس اعلی فہم کا مالک مجتہد ہی ہونا چاہیے، مقلد کیسے ہو سکتا ہے۔
تأویلات کے بعد آخر آپ نے یہ تسلیم کیا ہے کہ حضرت عیسی مجتہد ہوں گے ۔ اور مجتہد کسی کی تقلید نہیں کرتا ۔ لہذا جو لوگ کہتے ہیں کہ مقلد ہوں گے ان کی بات آپ کےنزدیک بھی غلط ہے۔
لیکن انبیاء کے بارے میں اجتہاد و تقلید کے منصوص و غیر منصوص والی بات شروع کرکے آپ نے کہیں یہ بحث شروع نہیں کرنا چاہی کہ اب انبیاء کے مجتہد ہونے کے دلائل دیے جائیں ۔ ؟
انتہائی عجیب بات ہے ۔ مجتہد مقلد یہ بحثیں امتیوں کے لیے ہیں انبیاء کے لیے نہیں ہیں ۔ اب کسی کو نبوت کا تاج پہنا دینے کے بعد بھی حاجت رہ جاتی ہے کہ اس کے مجتہد ہونے پر بھی لوگوں کو دلائل دیے جائیں ؟
صحابہ کے بارے میں عموما ’’ ثقۃ ‘‘ وغیرہ کے الفاظ استعمال نہیں ہوتے کیونکہ وہ جس درجہ پر فائز ہیں یہ بعد والی سب ڈگریاں اس کے اندر بدرجہ اتم موجود ہیں ۔ کل کو کوئی صحابہ کا دشمن کہہ دے گا کہ صحابہ کو کسی نے ’’ ثقہ ‘‘ قرار نہیں دیا ۔
نبی کا فہم سب سے اعلی ہوتا ہے ۔ یہ بات آپ کے نزدیک مسلم ہے ۔ کسی کو جانتےہیں جس کے نزدیک یہ بات غیر مسلم ہو ؟
یہ تو عقلی بات ہے کہ نبی کا فہم سب سے زیادہ ہوتا ہے۔ اور ممکن ہے یہ عقلی بات کسی کے نزدیک مسلم نہ ہو۔ ہر کسی کے سوچنے کا الگ انداز ہے۔ عمر رض کا مشورہ بدر کے قیدیوں کو قتل کرنے کا تھا اور نبی ﷺ کا فدیہ لینے کا۔ اور قرآن نے تائید عمر کی بات کی کی۔ میری مراد اس سے نقص شان نہیں نبی ﷺ کی نہ میں ایسا سوچ سکتا ہوں لیکن یہ بتا رہا ہوں کہ مختلف معاملات میں سمجھی جانے والی بات میں فرق ہوتا ہے۔ کبھی ایک درست سمجھتا ہے اور کبھی دوسرا۔ مدینہ میں صحابہ کرام رض کو نبی ﷺ نے کھجور کی نسل بڑھانے کے عمل سے منع کیا تھا۔ اس کا نتیجہ درست نہیں نکلا۔ تو ان واقعات سے یہ پتا چلتا ہے کہ نبی کا فہم ہر معاملے میں سب سے اعلی ہونا لازم نہیں۔ یہ میں اس نکتہ نظر سے کہہ رہا ہوں کہ یہ عقلی بات کسی کے نزدیک مسلم نہ ہو تو وہ بآسانی یہ دلائل دے سکتا ہے جس کے نتیجے میں ہم تاویل کریں گے۔
اب یہ دلیل آپ کے حق میں ہے یا آپ کے خلاف ۔ نبی سے جب لغزش ہوتی تو وحی کے ذریعے اس کو باخبر کردیا جاتا ۔ لیکن جن مجتہدین کی تقلید کیجاتی ہے ان کے پاس کون سا فرشتہ آکر متنبہ کرتا تھا کہ آپ سے فلاں معاملہ ( اصول و قواعد ہی سمجھ لیں ) میں چوک ہوگئی ہے ؟ یقینا یہ تو آپ نہیں کہیں گے کہ ان سے غلطی ہوتی ہی نہیں !
آپ کا یہاں اس بحث کو شروع کرنا بالکل بے محل ( بلکہ عذر گناہ بد تر از گناہ کے قبیل سے ) لگاہے ۔کیا آپ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں پیش آنے والے ان واقعات کو اس لیے پیش کر رہے ہیں تاکہ مجتہدین کی نبوت و رسالت میں شراکت داری مان لی جائے ؟
احناف امام اعظمؒ کو مقلد جو تسلیم نہیں کرتے وہ اس لیے کہ وہ خود مجتہد تھے اور یہ بات ثابت ہے۔ اور یہ بھی درست ہے کہ مجتہد کسی کی تقلید نہیں کرتا۔ لیکن بالفرض ابو حنیفہؒ مجتہد نہ ہوتے تو وہ بھی تقلید کرتے۔ اس سے ان کی شان میں کمی تو نہیں آتی۔ امام ابو یوسفؒ اور امام محمدؒ اس پائے کے علماء ہیں کہ بہت سے علماء نے انہیں مجتہد مطلق قرار دیا ہے لیکن ہم لوگ انہیں اکثر اصول میں امام اعظمؒ کا پیروکار مانتے ہیں لیکن اس سے ان کی شان میں کمی نہیں ہوتی اور نہ ہی ہمارے ذہنوں میں ان کے بارے میں کچھ ایسا خیال آتا ہے۔ بلکہ اکثر مقامات پر ان کے اقوال پر فتوی دیا جاتا ہے۔ حتی کہ قضا میں تو اکثر ہی فتوی ابو یوسفؒ کے قول پر ہوتا ہے۔ اگر اس سے نقص شان ہوتا تو یہ کیسے ممکن تھا۔ لہذا یہ بات درست نہیں۔
میں سمجھتا ہوں یہ قیاس مع الفارق کے قبیل سے ہے ۔ صاحبین شاگرد ہیں امام صاحب کے ۔ لہذا تلمیذ استاد کی بات کو مانے تو کون اس میں کلام کرےگا ۔
گویا استاد شاگرد کی مثال دیکر آپ حضرت عیسی بمقابلہ امام صاحب والے مسئلے کو نپٹانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ یارب سلم ۔
اور بین السطور آپ یہ بھی پیغام دینا چاہ رہے ہیں کہ جناب اگر کسی نے نبی کو مقلد کہہ دیا ہے تو کون سا پہاڑ ٹوٹ پڑا ہے نبوت اور اجتہاد لازم و ملزوم تھوڑی ہیں ۔ کیا ایسا نہیں ہے ؟
اگر ایسا نہیں ہے تو پھر آپ سے جو گزارش کی گئی تھی ، کہ جناب ’’ علماء احناف کا تفرد یا شذوذ ‘‘ کہہ دینا کافی ہے اس سے اگلی بات ’’ گستاخی پر تحقیق ‘‘ شروع نہ کریں ، اس سے آپ کو اتفاق کیوں نہیں ہے ؟
اور ہاں تقلید نقص ہے یا نہیں ؟ آپ اس کو کسی اور اعتبار سے دیکھ رہے ہیں ۔ مثال کے طور پر کسی مسئلہ کو سمجھنے کے لیے کسی صحابی کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کرنا یہ خوبی ہے یا خامی ہے ؟ یقینا خوبی ہے ۔ لیکن اگر یہی سوال نبی امتی سے کرنا شروع کردے تو ؟
جس طرح عموما سائل کا سوال اس کے عجز و نقص پر دلالت کرتا ہے لیکن سوال کرنا بذات خود خوبی ہے اسی طرح مقلد کا تقلید کرنا ( جواز کے قائلین کے نزدیک ) یہ بذات خود خوبی سمجھا جاتا ہے لیکن تقلید کرنا دلالت کرتا ہے کہ مقلِد کے اندر عجز و نقص ہے تبھی تو اسے تقلید کرنا پڑی ۔
اس سب بات کو ایک جانب رکھیے اور موجودہ بحث میں آئیے۔
علامہ حصکفی اور قہستانی نے یہ کہا ہے:۔
وَقَدْ جَعَلَ اللَّهُ الْحُكْمَ لِأَصْحَابِهِ وَأَتْبَاعِهِ مِنْ زَمَنِهِ إلَى هَذِهِ الْأَيَّامِ، إلَى أَنْ يَحْكُمَ بِمَذْهَبِهِ عِيسَى - عَلَيْهِ السَّلَامُ
یہاں حکم دینے اور فیصلہ کرنے کا ذکر ہے خود تقلید کرنے کا نہیں۔ اور کسی کے نزدیک بھی غالبا قاضی کے لیے اپنے مقلد امام کے مطابق فیصلہ کرنے کی شرط نہیں ہے جب وہ اجتہاد کی صلاحیت رکھتا ہو بلکہ اپنے اجتہاد پر عمل کرنا لازم ہے الا یہ کہ وہ فیصلہ دلائل قطعیہ کے خلاف ہو۔
اب یہاں دلیل کی جانب آئیے:۔
وكأنه أخذه مما ذكره أهل الكشف أن مذهبه آخر المذاهب انقطاعا فقد قال الإمام الشعراني في الميزان ما نصه: قد تقدم أن الله تعالى لما من علي بالاطلاع على عين الشريعة رأيت المذاهب كلها متصلة بها، ورأيت مذاهب الأئمة الأربعة تجري جداولها كلها، ورأيت جميع المذاهب التي اندرست قد استحالت حجارة، ورأيت أطول الأئمة جدولا الإمام أبا حنيفة ويليه الإمام مالك، ويليه الإمام الشافعي، ويليه الإمام أحمد، وأقصرهم جدولا الإمام داود، وقد انقرض في القرن الخامس، فأولت ذلك بطول زمن العمل بمذاهبهم وقصره فكما كان مذهب الإمام أبي حنيفة أول المذاهب المدونة فكذلك يكون آخرها انقراضا
اس سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ جب امام کا مذہب آخری رہے گا تو قرب قیامت میں عیسیؑ کے آنے کے وقت یہی مذہب کثرت کے ساتھ ہوگا۔ چنانچہ واضح بات ہے کہ عیسیؑ کا اجتہاد یہی ہوگا کہ اسی مذہب کے مطابق فیصلہ کریں تاکہ لوگوں کے لیے عمل میں آسان ہو اگرچہ چاروں مذاہب حق ہوں گے۔ یہ فیصلے ان مسائل میں ہوتے ہیں جن میں نص نہ ہو۔ ائمہ نے اپنے اپنے اجتہاد کے مطابق فیصلے کیے ہوئے ہیں۔ امت کی کثرت کی وجہ سے سے امام اعظمؒ کے مسلک پر عمل کرنا آسان ہوگا۔
تو یہاں ان کے ذاتی اعمال میں تقلید کا تو ذکر ہی نہیں ہے بلکہ فیصلوں کا ذکر ہے۔ اس سے ان کا مقلد ہونا لازم نہیں آتا۔
اس بات سے پہلے بھی ایک مفروضہ ہے کہ اس وقت اتنا کچھ ہونے کے باوجود اور اللہ کی طرف سے بھیجے گئے حضرت عیسی علیہ السلام کے ظہور بعد بھی لوگ أئمہ کی ضرورت و حاجت صرف محسوس ہی نہیں کریں گے بلکہ ان کی آراء پر ڈٹے ہوئے ہوں گے ۔ ۔۔۔ آپ کے نزدیک اس مفروضے کی سند کسی کاکشف ہوگا ۔۔۔۔ لیکن ہم ان چیزوں کو خرافات کے قبیل سے سمجھتے ہیں بلکہ صوفی حضرات جب انہیں بنیادوں پر اتنے بلندو بانگ دعوی کرتے ہیں تو ان کےبطلان پر مزید یقین پختہ ہو جاتا ہے ۔
اسی طرح یہاں عدالتی فیصلہ اور تقلید کے حوالے سے آپ نے فرق کرنا چاہا ہے ۔۔۔ یہ بات کہنے کی حد تک آپ کو اچھی لگی ہوگی آپ نے کہ دی ۔۔ لیکن ذرا سوچیں عملا اس کی شکل کیا ہوسکتی ہے اور کیسے ہوسکتی ہے ؟
گویا عدالتی فیصلہ حضرت عیسی کچھ اور کریں گے اور عملی مسائل مثلا نماز روزہ کسی اور طریقہ سےکریں گے ؟؟
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
کیا یہ نبی کو چھوڑ کر ابو حنیفہ کی پیروی نہیں ہے؟؟؟؟؟؟؟؟
محمود الحسن دیوبندی فرماتے ہیں:
والحق والانصاف ان الترجیح للشافعی فی ھذہ المسالۃ ونحن مقلدون یجب علینا تقلید امامنا ابی حنیفۃ۔
کہ حق اور انصاف یہ ہے کہ خیار مجلس کے مسئلہ میں امام شافعی کو ترجیح حاصل ہے لیکن ہم مقلد ہیں ہم پر امام ابوحنیفہ کی تقلید واجب ہے۔
(تقریر ترمذی، جلد 1، صفحہ 49)
اللہ سے ڈر جاو کیا یہ نبی کو چھوڑ کر ابو حنیفہ کی پیروی نھیں ہے؟
"أن کل آیۃ تخالف قول أصحابنا فإنہا تحمل علی النسخ أو علی الترجیح۔"
اور حدیث کے بارے میں یہ کہا:
"أن کل خبر یجیئ بخلاف قول أصحابنا فإنہ یحمل علی النسخ أو أنہ معارض بمثلہ۔"
اور کتاب ہدایہ کے بارے میں ایسی ترجمانی کی:
؂
إن الہدایۃ کالقرآن قد نسخت
ما صنفواقبلہا فی الشرع من کتب

کیا تم نے ھدایہ کو یہ مرتبہ نھیں دیا ہے؟؟…
اشماریہ صاحب نا پسند کر کے جواب نہ دینا کس بات کی عکاسی کرتا ہے ؟ اس سے ثابت ہو رہا ہے کہ تم واقعی نبی کو چھوڑ کر ابو حنیفہ کی پیروی کرتے ہو جس کو تمہارے علما نے اپنی باتوں سے ثابت کر دیا ہے اور تمہارا اس بات کی تردید نہ کرنا بھی اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ تقلید کے بارے تمہارا بھی یہی نظریہ ہے جو اوپر بیان ہوا ہے اللہ سب کو ہدایت سے ہمکنار کرے
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
آپ کو علم غیب کب سے حاصل ہوگیا ؟؟؟ لگتا ہے بریلویت کی اثرات ابھی باقی ہیں
علم غیب کا دعوی تو آپ کا ہے اسی لیے تو آپ کو میرے بریلوی ہونے غلط علم ہوا ہے ،میں آپ کی جناب عرض گزار ہوں کہ میں پہلے دیوبندی تھا بعد میں اہل حدیث ہوا ہوں
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
تأویلات کے بعد آخر آپ نے یہ تسلیم کیا ہے کہ حضرت عیسی مجتہد ہوں گے ۔ اور مجتہد کسی کی تقلید نہیں کرتا ۔ لہذا جو لوگ کہتے ہیں کہ مقلد ہوں گے ان کی بات آپ کےنزدیک بھی غلط ہے۔
لیکن انبیاء کے بارے میں اجتہاد و تقلید کے منصوص و غیر منصوص والی بات شروع کرکے آپ نے کہیں یہ بحث شروع نہیں کرنا چاہی کہ اب انبیاء کے مجتہد ہونے کے دلائل دیے جائیں ۔ ؟
انتہائی عجیب بات ہے ۔ مجتہد مقلد یہ بحثیں امتیوں کے لیے ہیں انبیاء کے لیے نہیں ہیں ۔ اب کسی کو نبوت کا تاج پہنا دینے کے بعد بھی حاجت رہ جاتی ہے کہ اس کے مجتہد ہونے پر بھی لوگوں کو دلائل دیے جائیں ؟
صحابہ کے بارے میں عموما ’’ ثقۃ ‘‘ وغیرہ کے الفاظ استعمال نہیں ہوتے کیونکہ وہ جس درجہ پر فائز ہیں یہ بعد والی سب ڈگریاں اس کے اندر بدرجہ اتم موجود ہیں ۔ کل کو کوئی صحابہ کا دشمن کہہ دے گا کہ صحابہ کو کسی نے ’’ ثقہ ‘‘ قرار نہیں دیا ۔

اب یہ دلیل آپ کے حق میں ہے یا آپ کے خلاف ۔ نبی سے جب لغزش ہوتی تو وحی کے ذریعے اس کو باخبر کردیا جاتا ۔ لیکن جن مجتہدین کی تقلید کیجاتی ہے ان کے پاس کون سا فرشتہ آکر متنبہ کرتا تھا کہ آپ سے فلاں معاملہ ( اصول و قواعد ہی سمجھ لیں ) میں چوک ہوگئی ہے ؟ یقینا یہ تو آپ نہیں کہیں گے کہ ان سے غلطی ہوتی ہی نہیں !
آپ کا یہاں اس بحث کو شروع کرنا بالکل بے محل ( بلکہ عذر گناہ بد تر از گناہ کے قبیل سے ) لگاہے ۔کیا آپ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں پیش آنے والے ان واقعات کو اس لیے پیش کر رہے ہیں تاکہ مجتہدین کی نبوت و رسالت میں شراکت داری مان لی جائے ؟

میں سمجھتا ہوں یہ قیاس مع الفارق کے قبیل سے ہے ۔ صاحبین شاگرد ہیں امام صاحب کے ۔ لہذا تلمیذ استاد کی بات کو مانے تو کون اس میں کلام کرےگا ۔
گویا استاد شاگرد کی مثال دیکر آپ حضرت عیسی بمقابلہ امام صاحب والے مسئلے کو نپٹانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ یارب سلم ۔
اور بین السطور آپ یہ بھی پیغام دینا چاہ رہے ہیں کہ جناب اگر کسی نے نبی کو مقلد کہہ دیا ہے تو کون سا پہاڑ ٹوٹ پڑا ہے نبوت اور اجتہاد لازم و ملزوم تھوڑی ہیں ۔ کیا ایسا نہیں ہے ؟
اگر ایسا نہیں ہے تو پھر آپ سے جو گزارش کی گئی تھی ، کہ جناب ’’ علماء احناف کا تفرد یا شذوذ ‘‘ کہہ دینا کافی ہے اس سے اگلی بات ’’ گستاخی پر تحقیق ‘‘ شروع نہ کریں ، اس سے آپ کو اتفاق کیوں نہیں ہے ؟
اور ہاں تقلید نقص ہے یا نہیں ؟ آپ اس کو کسی اور اعتبار سے دیکھ رہے ہیں ۔ مثال کے طور پر کسی مسئلہ کو سمجھنے کے لیے کسی صحابی کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کرنا یہ خوبی ہے یا خامی ہے ؟ یقینا خوبی ہے ۔ لیکن اگر یہی سوال نبی امتی سے کرنا شروع کردے تو ؟
جس طرح عموما سائل کا سوال اس کے عجز و نقص پر دلالت کرتا ہے لیکن سوال کرنا بذات خود خوبی ہے اسی طرح مقلد کا تقلید کرنا ( جواز کے قائلین کے نزدیک ) یہ بذات خود خوبی سمجھا جاتا ہے لیکن تقلید کرنا دلالت کرتا ہے کہ مقلِد کے اندر عجز و نقص ہے تبھی تو اسے تقلید کرنا پڑی ۔


اس بات سے پہلے بھی ایک مفروضہ ہے کہ اس وقت اتنا کچھ ہونے کے باوجود اور اللہ کی طرف سے بھیجے گئے حضرت عیسی علیہ السلام کے ظہور بعد بھی لوگ أئمہ کی ضرورت و حاجت صرف محسوس ہی نہیں کریں گے بلکہ ان کی آراء پر ڈٹے ہوئے ہوں گے ۔ ۔۔۔ آپ کے نزدیک اس مفروضے کی سند کسی کاکشف ہوگا ۔۔۔۔ لیکن ہم ان چیزوں کو خرافات کے قبیل سے سمجھتے ہیں بلکہ صوفی حضرات جب انہیں بنیادوں پر اتنے بلندو بانگ دعوی کرتے ہیں تو ان کےبطلان پر مزید یقین پختہ ہو جاتا ہے ۔
اسی طرح یہاں عدالتی فیصلہ اور تقلید کے حوالے سے آپ نے فرق کرنا چاہا ہے ۔۔۔ یہ بات کہنے کی حد تک آپ کو اچھی لگی ہوگی آپ نے کہ دی ۔۔ لیکن ذرا سوچیں عملا اس کی شکل کیا ہوسکتی ہے اور کیسے ہوسکتی ہے ؟
گویا عدالتی فیصلہ حضرت عیسی کچھ اور کریں گے اور عملی مسائل مثلا نماز روزہ کسی اور طریقہ سےکریں گے ؟؟
شاید آپ نے پوسٹس صحیح طرح ملاحظہ نہیں فرمائیں۔
اچھا ایک بات بتا دیجیے۔ کیا عیسیؑ پر وحی نازل ہوگی؟
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
اشماریہ صاحب نا پسند کر کے جواب نہ دینا کس بات کی عکاسی کرتا ہے ؟ اس سے ثابت ہو رہا ہے کہ تم واقعی نبی کو چھوڑ کر ابو حنیفہ کی پیروی کرتے ہو جس کو تمہارے علما نے اپنی باتوں سے ثابت کر دیا ہے اور تمہارا اس بات کی تردید نہ کرنا بھی اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ تقلید کے بارے تمہارا بھی یہی نظریہ ہے جو اوپر بیان ہوا ہے اللہ سب کو ہدایت سے ہمکنار کرے
ناپسند کر کے جواب نہ دینا اس بات کی عکاسی کرتا ہے میرے محترم کہ ان باتوں کا جواب یا تو پہلے ہو چکا ہے یا پھر یہ اس قابل نہیں کہ جواب دیا جائے۔
پہلی دو باتوں کا جواب کئی جگہ دیا گیا ہے۔ آپ نے نہیں ماننا تو میں کیا کر سکتا ہوں؟ بار بار لکھنے سے تو رہا۔
اور آخری بات پر آپ نے اشکال ہی واضح نہیں کیا۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
شاید آپ نے پوسٹس صحیح طرح ملاحظہ نہیں فرمائیں۔
اچھا ایک بات بتا دیجیے۔ کیا عیسیؑ پر وحی نازل ہوگی؟
ٹھیک ہے اگر ماقبل کی بحث پر ہی ابھی سیر حاصل بحث نہیں ہوئی تو پھر نئے سوال کو ایک طرف کیجیے اور ذرا وضاحت فرمادیں کہ آپ کی کون سی بات یا اشکال ہے جو تشنہ بحث رہ گیا ہے ۔ میں نے اپنے تئیں تمام ضروری باتوں پر تبصرہ کرنے کی کوشش کی ہے ۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
ٹھیک ہے اگر ماقبل کی بحث پر ہی ابھی سیر حاصل بحث نہیں ہوئی تو پھر نئے سوال کو ایک طرف کیجیے اور ذرا وضاحت فرمادیں کہ آپ کی کون سی بات یا اشکال ہے جو تشنہ بحث رہ گیا ہے ۔ میں نے اپنے تئیں تمام ضروری باتوں پر تبصرہ کرنے کی کوشش کی ہے ۔
میرے محترم خضر بھائی میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اسے ہم نقص شان یا گستاخی نہیں کہہ سکتے۔ ماضی میں علماء کرام نے بھی نہیں کہا۔
باقی ہم خود اس بات سے متفق نہیں ہیں۔ کیا یہ درست ہے کہ کسی بھی عالم کے قول کو لے کر اس پر گستاخی کا فتوی جھاڑ دیا جائے؟ حالاں کہ ہم ان علماء کے بارے میں جانتے ہیں کہ یہ متقی اور اہل علم اشخاص تھے۔ ایک کام جو ایک عام شخص نہیں کر سکتا وہ ایک عالم کیسے کر سکتا ہے؟ لہذا بہتر ہے کہ اسے اس کی رائے سمجھ کر چھوڑ دیا جائے۔
اسی لیے میں نے ان کے موقف کی وضاحت کی تھی کہ انہوں نے اس پیرائے میں یہ بات کہی ہے۔ البتہ بطور دلیل کے ہمیں بھی اتفاق نہیں۔ آپ شاید اسے دوسری طرف لے گئے:۔
میں سمجھتا ہوں یہ قیاس مع الفارق کے قبیل سے ہے ۔ صاحبین شاگرد ہیں امام صاحب کے ۔ لہذا تلمیذ استاد کی بات کو مانے تو کون اس میں کلام کرےگا ۔
گویا استاد شاگرد کی مثال دیکر آپ حضرت عیسی بمقابلہ امام صاحب والے مسئلے کو نپٹانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ یارب سلم ۔
اور بین السطور آپ یہ بھی پیغام دینا چاہ رہے ہیں کہ جناب اگر کسی نے نبی کو مقلد کہہ دیا ہے تو کون سا پہاڑ ٹوٹ پڑا ہے نبوت اور اجتہاد لازم و ملزوم تھوڑی ہیں ۔ کیا ایسا نہیں ہے ؟

آپ کا یہاں اس بحث کو شروع کرنا بالکل بے محل ( بلکہ عذر گناہ بد تر از گناہ کے قبیل سے ) لگاہے ۔کیا آپ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں پیش آنے والے ان واقعات کو اس لیے پیش کر رہے ہیں تاکہ مجتہدین کی نبوت و رسالت میں شراکت داری مان لی جائے ؟
ظاہر ہے کہ آپ بھی جانتے ہیں اور میں بھی کہ میری مراد کیا ہے اور کس اعتبار سے۔
میں یہ دلائل ایک عالم کے موقف کو واضح کرنے کے لیے دے رہا ہوں۔
اب یہ دلیل آپ کے حق میں ہے یا آپ کے خلاف ۔
میرے محترم اسی لیے میں نے پوچھ لیا کہ عیسیّ “پر وحی نازل ہوگی یا نہیں؟ اگر ہوگی تو انہیں اپنے اجتہاد میں اللہ پاک کی جانب سے درست کر دیا جائے گا۔ اور اگر نہیں تو پھر وہ بھی زیادہ سے زیادہ ایک مجتہد ہوں گے۔ تجدید دین وہ کریں گے لیکن اس میں ان کا فیصلے بھی نئے طرز پر کرنا ضروری تو نہیں۔ عوام کے لحاظ سے اگر دیکھیں تو حصکفیؒ کی بات بھی ممکن ہے۔
لیکن چوں کہ اس بحث کا طرز تبدیل ہو گیا ہے اس لیے مناسب یہی لگتا ہے کہ اسے یہاں ختم کر دیا جائے۔
 
Top