آپ حضرت امیر معاویہ کو اور ان کی فضلیت ودرجات کے کس حد تک قائل ہیں؟ ہمیں تو بتائیں۔
میں بس ان کو ایک صحابی سمجھتا ہوں اس سے زیادہ اور کیا سمجھوں ?
کچھ اللہ کا خوف کھائیں! سیدنا معاویہ کا بغض آپ سے چھپائے نہیں چھپ رہا۔ اگر آپ ان کے بارے میں اچھی بات نہیں کر سکتے تو منفی بات کرکے اپنی آخرت برباد نہ کریں!
جب آپ کو تسلیم ہے کہ وہ صحابئ رسول ہیں، اس کے بعد آپ کو مزید کون سی فضیلتوں کی ضرورت ہے؟؟!!
کیا آپ کے نزدیک صحابی ہونا کوئی فضیلت نہیں؟!!
لیجئے مجموعی طور پر صحابہ کرام کے فضائل بیان کرتا ہوں،
اگر آپ کو ان فضائل میں سے کسی پر اعتراض ہے تو بتائیں۔
﴿ وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ آمِنُوا كَمَا آمَنَ النَّاسُ قَالُوا أَنُؤْمِنُ كَمَا آمَنَ السُّفَهَاءُ ۗ أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهَاءُ وَلَـٰكِن لَّا يَعْلَمُونَ ١٣ ﴾ ۔۔۔ سورة البقرة
اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ ویسے ایمان لاؤ جیسے
لوگ (یعنی صحابہ) ایمان لائے تو جواب دیتے ہیں کہ کیا ہم ایسا ایمان ﻻئیں جیسا بیوقوف ﻻئے ہیں، خبردار ہوجاؤ! یقیناً یہی بیوقوف ہیں، لیکن جانتے نہیں (
13)
﴿ فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ مَا آمَنتُم بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوا ۖ وَّإِن تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا هُمْ فِي شِقَاقٍ ۖ فَسَيَكْفِيكَهُمُ اللَّـهُ ۚ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ ١٣٧ ﴾ ۔۔۔ سورة البقرة
اگر وه
تم (صحابہ) جیسا ایمان ﻻئیں تو ہدایت پائیں، اور اگر منھ موڑیں تو وه صریح اختلاف میں ہیں، اللہ تعالی ان سے عنقریب آپ کی کفایت کرے گا اور وه خوب سننے اور جاننے واﻻ ہے (
137)
صحابہ کرام کے ایمان کو بطور مثال پیش کیا گیا ہے، اور اس سے کوئی صحابی بھی مستثنیٰ نہیں۔
﴿ مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّـهِ ۚ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ ۖ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللَّـهِ وَرِضْوَانًا ۖ سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِم مِّنْ أَثَرِ السُّجُودِ ۚ ذَٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَاةِ ۚ وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنجِيلِ كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَهُ فَآزَرَهُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَىٰ عَلَىٰ سُوقِهِ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ ۗ ٢٩ ﴾ ۔۔۔ سورة الفتح
محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ کافروں پر سخت ہیں آپس میں رحمدل ہیں، تو انہیں دیکھے گا کہ رکوع اور سجدے کر رہے ہیں اللہ تعالیٰ کے فضل اور رضامندی کی جستجو میں ہیں، ان کا نشان ان کے چہروں پر سجدوں کے اثر سے ہے، ان کی یہی مثال تورات میں ہے اور ان کی مثال انجیل میں ہے، مثل اسی کھیتی کے جس نے اپنا انکھوا نکالا پھر اسے مضبوط کیا اور وه موٹا ہوگیا پھر اپنے تنے پر سیدھا کھڑا ہوگیا اور کسانوں کو خوش کرنے لگا تاکہ ان کی وجہ سے کافروں کو چڑائے۔
اس سے کوئی صحابی مستثنیٰ نہیں۔
﴿ وَمَا لَكُمْ أَلَّا تُنفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ وَلِلَّـهِ مِيرَاثُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ لَا يَسْتَوِي مِنكُم مَّنْ أَنفَقَ مِن قَبْلِ الْفَتْحِ وَقَاتَلَ ۚ أُولَـٰئِكَ أَعْظَمُ دَرَجَةً مِّنَ الَّذِينَ أَنفَقُوا مِن بَعْدُ وَقَاتَلُوا ۚ وَكُلًّا وَعَدَ اللَّـهُ الْحُسْنَىٰ ۚ وَاللَّـهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ ١٠ ﴾ ۔۔۔ سورة الحديد
تمہیں کیا ہو گیا ہے جو تم اللہ کی راه میں خرچ نہیں کرتے؟ دراصل آسمانوں اور زمینوں کی میراث کا مالک (تنہا) اللہ ہی ہے تم میں سے جن لوگوں نے فتح سے پہلے فی سبیل اللہ دیا ہے اور قتال کیا ہے وه (دوسروں کے) برابر نہیں، بلکہ ان سے بہت بڑے درجے کے ہیں جنہوں نے فتح کے بعد خیراتیں دیں اور جہاد کیے۔
ہاں بھلائی (جنت) کا وعده تو اللہ تعالیٰ کاان سب سے ہے جو کچھ تم کر رہے ہو اس سے اللہ خبردار ہے (
10)
اللہ تعالیٰ نے سب صحابہ سے خواہ وہ فتح مکہ سے قبل ایمان لائے ہوں یا بعد میں حسنیٰ کا وعدہ فرمایا ہے، اور یہاں
’حسنیٰ‘ سے مراد
جنت ہے، ثابت ہوا کہ تمام صحابہ کرام جنتی ہیں، خواہ کسی شیعہ رافضی کی ناک خاک آلود ہو، خواہ کوئی نا پسند کرے۔ دیکھئے:
Tanzil - Quran Navigator | القرآن الكريم
تفسیر طبری میں بھی اس بات کی وضاحت موجود ہے۔
﴿ وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ رَّضِيَ اللَّـهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۚ ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ ١٠٠ ﴾ ۔۔۔ سورة التوبة
اور جو مہاجرین اور انصار سابق اور مقدم ہیں اور جتنے لوگ اخلاص کے ساتھ ان کے پیرو ہیں اللہ ان سب سے راضی ہوا اور وه سب اس سے راضی ہوئے اور اللہ نے ان کے لیے ایسے باغ مہیا کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی جن میں ہمیشہ رہیں گے یہ بڑی کامیابی ہے (
100)
یہ آیت کریمہ بھی تمام صحابہ کرام کو شامل ہے۔
﴿ قُلِ الْحَمْدُ لِلَّـهِ وَسَلَامٌ عَلَىٰ عِبَادِهِ الَّذِينَ اصْطَفَىٰ ۗ آللَّـهُ خَيْرٌ أَمَّا يُشْرِكُونَ ٥٩ ﴾ ۔۔۔ سورة النمل
کہہ دیجئے کہ تمام تعریف اللہ ہی کے لیے ہے اور اس کے چنے ہوئے بندوں پر سلام ہے۔ کیا اللہ تعالیٰ بہتر ہے یا وه جنہیں یہ لوگ شریک ٹھہرا رہے ہیں (
59)
سیدنا ابن عباس کے مطابق اللہ کے چنے ہوئے بندوں سے مراد نبی کریمﷺ کے ساتھی ہیں۔ دیکھئے
تفسیر ابن کثیر
اس سے بھی کوئی صحابی مستثنیٰ نہیں۔
حدیث مبارکہ میں ہے:
« لا تسبوا أحدا من أصحابي . فإن أحدكم لو أنفق مثل أحد ذهبا ، ما أدرك مد أحدهم ولا نصيفه » ۔۔۔ صحيح مسلم
میرے صحابہ میں سے کسی کو گالی نہ دو، اگر تم میں سے کوئی ایک احد پہاڑ کے برابر بھی سونا خرچ کرے تو وہ ان کے ایک یا آدھ چلو (گندم یا جو وغیرہ) کے صدقے کے برابر بھی نہ ہوگا۔
حدیث مبارکہ میں ہے:
« من سب أصحابي، فعليه لعنة الله و الملائكة و الناس أجمعين » ۔۔۔ صحيح الجامع: 6285
’’جس میرے صحابہ کو برا بھلا کہا، اس پر اللہ، فرشتوں اور سب لوگوں (بشمول نبی کریمﷺ) کی لعنت ہے۔‘‘
صحیحین کی روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا:
« يأتي على الناس زمان يغزو فئام من الناس , فيقال لهم: فيكم من رأى الرسول صلى الله عليه وسلم؟ فيقولون نعم , فيفتح لهم , ثم يغزو فئام من الناس , فيقال لهم فيكم من رأى من صحب رسول الله صلى الله عليه وسلم ؟ فيقولون نعم , فيفتح لهم , ثم يغزو فئام من الناس , فيقال لهم: هل فيكم من رأى من صحب من صحب رسول الله صلى الله عليه وسلم ؟ فيقولون: نعم , فيفتح لهم » ۔۔۔ صحيح البخاري ومسلم
ایک وقت آئے گا کہ جب کچھ لوگ جہاد کریں گے، تو کہا جائے گا کہ کیا تم میں کوئی صحابی ہے؟ وہ کہیں گے، ہاں! تو انہیں (اس صحابی کی برکت سے) فتح ہوجائے گی، پھر کچھ جہاد کریں گے اور کہا جائے گا کہ تم میں کوئی تابعی ہے؟ وہ کہیں گے: ہاں! تو انہیں بھی فتح ہوجائے گی۔ پھر کچھ لوگ لڑائی کریں گے اور کہا جائے گا کہ کیا تم میں کوئی تبع تابعی ہے؟ وہ کہیں گے: ہاں! تو اس برکت سے انہیں بھی فتح ہوجائے گی۔
صحابہ کرام کی ایک فضیلت یہ بھی ہے کہ وہ امت کیلئے امن کا باعث ہے، ان کے وجود کی برکت سے امت بہت سی مشکلات سے بچی رہے گی، نبی کریمﷺ کا فرمان ہے:
« النجوم أمنة للسماء , فإذا ذهبت النجوم أتى السماء ما توعد , وأنا أمنة لاصحابي , فإذا ذهبت أتى أصحابي ما یوعدون , واصحابي أمنة , لأمتي فإذا ذهب أصحابي أتي أمتي ما يوعدون » ۔۔۔ صحيح مسلم
کہ ستارے آسمان کیلئے باعث امن ہیں، جب ستارے جھڑ جائیں گے تو آسمان پر وہ آئے گا، جس کا وعدہ کیا گیا ہے (یعنی قیامت) میں اپنے صحابہ کیلئے باعث امن ہوں جب میں فوت ہوجاؤں گا تو میرے صحابہ پر وہ آزمائشیں آئیں گی جس کا وعدہ کیا گیا ہے، اور میرے صحابہ امت کیلئے باعث امن ہیں جب صحابہ چلے جائیں گی تو امت پر وہ مصیبتیں آئیں گی جن کا وعدہ دیا گیا ہے۔
ان تمام احادیث مبارکہ سے بھی کوئی صحابہ مستثنیٰ نہیں۔
سیدنا عبد اللہ بن مسعود سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا:
إن الله نظر في قلوب العباد فوجد قلب محمد ﷺ خير قلوب العباد ، فاصطفاه لنفسه ، فإبتعثه برسالتة ، ثم نظر في قلوب العباد بعد قلب محمد فوجد قلوب أصحابه خير قلوب العباد ، فجعلهم وزراء نبيه ، يقاتلون على دينه ، ما رأى المسلمون حسنا فهو عند الله حسن وما رأوا سيئا فهو عند الله سيئ ۔۔۔ مسند أحمد