میں نذیر حسین ف ہلوی صاحب کا مقلد نہیں ہوں
پہلی بات تو آپ نے کہاکہ یہودی وسیلہ لیتے تھے اور یہ کام یہ یہودیوں کا ہے تو میں نے الزامی جواب دیتے ہوئے کہاتھا کہ نذیر حسین نے بھی وسیلہلیا ہے اس کوبھی یہودی کہو جو آپ نے ابھی تک نہیں کہا اور انشا اللہ قیامت کی صبح تک نہیں کہیں گئے۔یہی ہمارے حق پر ہونے کی واضح دلیل ہے۔اگلی بات عرض نورانوار اور روح المعانی وغیرہ میں تصریح ہے کہ سابقہ امتوں کے ایسے احکام جن کوہماری شریعت نے منسوخ نہیں کیا جائز ہیں۔
اگلی بات عرض ہے کہ غار والا واقعہ جو آپ لوگ بھی پیش کرتے ہو وہ بھی تو بنی اسرائیل کے اولیا تھے۔تو اعمال کا وسیلہ لینا بھی تو یہودیوں والا فعل ہوا؟
پھر جیسے اللہ نے ان کے اس عمل کی تردیدی نہیں کی اسی طرح حدیث میں بھی غار والے واقعے کے حوالے سے اعمالکے وسیلہ کی تردید نہیں۔لہذا یہ دونوں جائز ہیں۔
اور جہاں تک حضرت آدم والی حدیث کی بات تو حضرت عرض ہے کہ آپ کے اعتراضات کے جوابمیں ہی ابن تیمیہ کا قولپیش کیا گیا تھا کہ اسنے بھی اس کی سند کو صحیح کہا ہے۔جبکہ ابن تیمیہ کی پیروی میں اھادیث کو ضعیف کہتے ہو تو صحیح کیوںنہیں مانت۔
اب تک آپ پر دو چیزیں قرض ہیں چکائیں۔
ایک نذیر حسین کو یہودی کہے۔
اور صدیق حسن صاحب کو یہودیوں کا باپ۔
اللہ ہدایت دے