اس حدیث کے کونسے الفاظ اس چیز پر دلالت کرتے ہیں کہ بعد از وفات وسیلہ شرک ہے؟دوسری بات اس سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ صالحین کا توسل بھی جائز ہے۔اور میں نے جو باقی صحابہ کا عمل پیش کیا ہے اس کا جواب کس نے دینا ہے؟اور مان جاو بھائی وسیلہ حق ہے حق ہے حق ہے۔
قادری رانا صاحب اللہ آپ کو اس حدیث کا فہم عتہ کرے۔صاحب حیات لوگوں سے اپنے لئے دعا کروا کر ان کووسیلہ بنانا جائز ہے۔
آپ لوگ تو وفات شدہ لوگوں کو وسیلہ بناتے ہو۔یہ کام تو مشرکین مکہ بھی کرتے تھی۔وہ بھی اپنے بتوں کو آپ کی طرح اللہ کے سامنے
وسیلہ بناتے تھے۔فرک صرف اتنا ہے وہ بتوں کو آپ قبروں میں وفات شدہ بزرگوں کو۔میں نے جو حدیث بھیجی اس میں حیات لوگوں
کا وسیلہ ہے وفات شدہ کا نہیں۔آپ کو حدیث سمجھ نہیں آتی لیجئےمیں سمجھا دیتا ہوں۔
ہم سے حسن بن محمد بن صباح نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے محمد بن عبداللہ بن مثنی انصاری نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے باپ عبداللہ بن مثنی نے بیان کیا، ان سے ثمامہ بن عبداللہ بن انس رضی اللہ عنہ نے، ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ جب کبھی عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں قحط پڑتا تو عمر رضی اللہ عنہ عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کے وسیلہ سے دعا کرتے اور فرماتے کہ اے اللہ! پہلے ہم تیرے پاس اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وسیلہ لایا کرتے تھے۔1 تو، تو پانی برساتا تھا۔ اب ہم اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کو وسیلہ بناتے ہیں تو، تو ہم پر پانی برسا2۔ انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ چنانچہ بارش خوب ہی برسی۔(صحٰیح بخاری)
وضاحت:اس حدیث میں دو باتیں ہیں۔1پہلے ہم تیرے پاس اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وسیلہ لایا کرتے تھے۔
پہلے نبی کا وسیلہ لایا کرتے تھے کا کیا مطلب یہ لفظ ماضی کا ہے۔اور حال میں کیا عمل ہے۔
2۔ اب ہم اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کو وسیلہ بناتے ہیں تو، تو ہم پر پانی برسا۔ اب نبیﷺ وفات پا چکے
اس لیے صحابہ نے ان کے چچا کا وسیلہ لیا۔اس سے پتا چلتا ہےصحابہ بھی وفات شدہ یہاں تک کے اپنے نبی کا بھی (جبکے آپ وفات پا گئے ہوں)
وسیلہ ناجائز سمجھتے تھے جب ہی تو نبی کے چچا کا وسیلہ مانگ رہے ہیں۔
کبھی تو اس حدیث پےغور کیا ہو تا۔جب یہ نا بولتے۔جبکہ یہ حدیث پکار کر کہ رہی ہے۔
زندوں کو وسیلہ بنانا جائز ہے جائز ہے۔اور
وفات شدہ(قبر والے کو)وسیلہ بنانا باطل ہے باطل ہے۔