محمد ارسلان
خاص رکن
- شمولیت
- مارچ 09، 2011
- پیغامات
- 17,859
- ری ایکشن اسکور
- 41,096
- پوائنٹ
- 1,155
انسان کو صرف مخلص ہو کر دعوت دینی چاہئے، اور خیرخواہی کا جذبہ ہو تو اللہ تعالیٰ ضرور مدد کرتے ہیں، باقی صرف بجا سختی کرنے اور موقف کو بغیر کسی ملاوٹ کے بیان کرنے سے کوئی نتائج برآمد نہ ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ یہ غیر موثر ہے، بعض اوقات جن کو دعوت دی جاتی ہے ان کا دماغ حق قبول کرنے کی استعداد سے محروم ہوتا ہے، ورنہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر کسی اور کا طریقہ بہتر ہو ہی نہیں سکتا لیکن ایک وقت کیفیت یہ تھی کہ:محترم بھائی ہم نے نتیجہ دیکھنا ہے اور غور کرنا ہے کہ اگر آپ جوابا اس طرح نہ کرتے تو وہ ڈھیلا نہ پڑتا تو دین کا کیا نقصان ہوتا اور آپ کا کیا نقصان ہوتا اور اسکے ڈھیلا پڑنے سے دین کا کیا فائدہ ہوا اور آپ کا کیا فائدہ ہوا
فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ عَلَىٰ آثَارِهِمْ إِن لَّمْ يُؤْمِنُوا بِهَـٰذَا الْحَدِيثِ أَسَفًا ﴿٦﴾۔۔۔سورة الكهف
ترجمه: پس اگر یہ لوگ اس بات پر ایمان نہ ﻻئیں تو کیا آپ ان کے پیچھے اسی رنج میں اپنی جان ہلاک کر ڈالیں گے؟
اب اگر کوئی یہ سمجھے یا یہ ذہن رکھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت میں اثر نہ تھا یا طریقہ میں کچھ فرق تھا تو اس کی آخرت تو برباد ہو گئی، میں اللہ کی پناہ چایتا ہوں ایسا سمجھنے سے۔
اور ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَ بَنِي إِسْرَائِيلَ لَا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّـهَ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَقُولُوا لِلنَّاسِ حُسْنًا وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ ثُمَّ تَوَلَّيْتُمْ إِلَّا قَلِيلًا مِّنكُمْ وَأَنتُم مُّعْرِضُونَ ﴿٨٣﴾۔۔۔سورۃ البقرۃ
ترجمہ: اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے وعده لیا کہ تم اللہ تعالیٰ کے سوا دوسرے کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرنا، اسی طرح قرابتداروں، یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ اور لوگوں کو اچھی باتیں کہنا، نمازیں قائم رکھنا اور زکوٰة دیتے رہا کرنا، لیکن تھوڑے سے لوگوں کے علاوه تم سب پھر گئے اور منھ موڑ لیا
یہاں بھی نصیحت کو تھوڑے لوگوں نے قبول کیا اور بہت سارے منہ موڑ گئے، کیوں؟ کیا دعوتی انداز میں کوئی مسئلہ تھا؟ ہرگز نہیں، دعوت تو بڑی زبردستی تھی (لَا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّـهَ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَقُولُوا لِلنَّاسِ حُسْنًا وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ) لیکن چونکہ ان کے تھوڑے لوگوں کے سوا دیگر لوگوں کے قلوب و اذہان میں حق کو قبول کرنے اور عمل کرنے کی استعداد نہیں تھی، ان کی سرکشی اس قدر بڑھ گئی تھی کہ وہ اللہ کے احکامات کو پامال کرنے سے گریز نہیں کرتے تھے اسی لئے وہ مثبت نتائج سے محروم رہے، لیکن نہ اللہ کے دین کو کوئی نقصان پہنچا نہ اللہ کے نبیوں کا کوئی کچھ بگاڑ سکا۔ الحمدللہ
واللہ اعلم