• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حنفیوں کی غلط گائیڈنگ کا نقصان۔۔ ایک حنفی کا سچا واقعہ

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
کیا قرآن میں اس سے مراد حلالہ ہے؟
کیا قرآن و حدیث میں کوئی ایسی دلیل ہے جس سے یہ حلالہ ثابت ہو (بلکہ اس پر وعید ہیں)

کیا ایک رات اپنی بیوی کو کسی غیر مرد کے حوالے کر کے صبح اس کو طلاق دلوا کر خود شادی کر لینا، کیا قرآن کا یہی مقصود ہے؟ ہر گز نہیں

کچھ تو اللہ کا خوف کریں
قرآن میں اس سے مراد نکاح جماع ہیں۔ حلالہ کے بارے میں صراحتا منع نہیں ہے۔
باقی عقلی باتیں نہیں چل سکتیں۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

حلالہ کیا ہے،وضاحت فر ما دیں؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال​
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!​
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!​
حلالہ یہ ہے کہ کسی مطلقہ عورت کا،( اس کو اس کے پہلے خاوند کےلئے حلال کرنے کی غرض سے ،)کسی دوسرے مرد کے ساتھ ایک متعین وقت کے لئے نکاح کر دیا جاتا ہے، پھر وہ اس مدت کے پورا ہونے کے بعداس عورت کو طلاق دے دیتا ہے اور پہلا خاوند اس سے دوبارہ نکاح کر لیتا ہے ۔​
یہ طریقہ نکاح قطعاً جائز نہیں ہے ،بلکہ نبی کریمﷺ نے لعنت فرمائی ہے :​

«لعن اللہ المُحَلِّل والمُحَلَّل لہ»أبوداود کتاب النکاح باب فی التحلیل (٢٠٧٦)،ترمذی أبواب النکاح باب ماجاء فی المحل والمحلل لہ (١١١٩)​
''حلالہ کرنے والے اور جس کے لیے حلالہ کیا جائے ان دونوں پراللہ کی لعنت ہو۔''​
لغت حدیث کی معروف کتاب النہایة فی غریب الأثر والحدیث لابن أثیر ١/٤٣١میں حلالہ کی تعریف یوں کی گئی ہے:​
«هو أن یطلق رجل امرأته ثلاثا فیتزوجها رجل آخر علی شریطة أن یطلقها بعد وطئها لتحل لزوجها الأول »

حلالہ یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دے تو اس عورت کے ساتھ دوسرا آدمی اس شرط پر نکاح کرے کہ وہ اس عورت سے جماع کرنے کے بعد اس کو طلاق دے دے گا تاکہ وہ عورت پہلے خاوند کے لے حلال ہوجائے۔​
احناف کی فقہی اصطلاح پر لکھی گئی کتاب القاموس الفقہی کے صفحہ ١٠٠ پر مُحَلِّل (حلالہ کرنیوالا)کی یہ تعریف درج ہے:​
«المُحَلِّلُ:هو المتزوج ثلاثا لتحل للزوج الأوّل وفی الحديث الشريف لعن الله المحلِّل والمحلَّل له»

محلِّل سے مراد وہ آدمی ہے جو تین دفعہ طلاق شدہ عورت سے شادی کرتا ہے تاکہ اس عورت کو پہلے خاوند کے لیے حلال کر دے​
اور حدیث شریف میں آتا ہے کہ اللہ حلالہ کرنے والے پر اور جس کے لیے حلالہ کیا جاتا ہے دونوں پر لعنت کرے ۔لہذا حلالہ کا مروجہ طریقہ کار بالکل حرام ہے۔​
هذا ما عندی والله اعلم بالصواب​
فتوی کمیٹی​
محدث فتوی​
بھائی جان یہی تو میں بتا رہا ہوں حلالہ نا جائز ہے لیکن یہ کہاں ہے کہ کر لیا تو عورت حلال نہیں ہوگی؟
قرآن کے مطابق دو کام عورت کے حلال ہونے کے لیے۔ نکاح و جماع
اور دونوں حلالہ میں موجود ہیں۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
آپ کے خیال میں نکاح حلالہ کے بارے میں شریعت کی کیا رائے ہے؟
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

پہلے یہ بتانا ضروری ہے کہ نکاح حلالہ کیا ہے، نکاح حلالہ یہ ہے کہ مرد کسی ایسی عورت سے نکاح کا قصد کرے جسے اس کے شوہر نے تین طلاقیں دی ہیں، یعنی پہلے ایک طلاق دی اور رجوع کر لیا، پھر دوسری طلاق دی اور رجوع کر لیا اور پھر تیسری طلاق دی، اب یہ عورت اس شوہر کے لئے حلال نہیں ہے جس نے اسے تین طلاقیں دے دیں ہیں الا یہ کہ یہ کسی دوسرے مرد سے برضا و رغبت شادی کرے اور وہ اس سے صحبت بھی کرے اور پھر وہ اسے طلاق دے دے یا فوت ہو جائے یا نکاح فسخ کر دے تو پھر پہلے شوہر کے لئے اس سے نکاح کرنا حلال ہو گا کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿الطَّلـٰقُ مَرَّ‌تانِ ۖ فَإِمساكٌ بِمَعر‌وفٍ أَو تَسر‌يحٌ بِإِحسـٰنٍ ۗ ...﴿٢٢٩﴾... ۗ فَإِن طَلَّقَها فَلا جُناحَ عَلَيهِما أَن يَتَر‌اجَعا إِن ظَنّا أَن يُقيما حُدودَ اللَّهِ ۗ وَتِلكَ حُدودُ اللَّهِ يُبَيِّنُها لِقَومٍ يَعلَمونَ ﴿٢٣٠﴾... سورة البقرة
''طلاق( جس کے بعد رجوع ہو سکتا ہے صرف) دو بار ہے (یعنی جب دو دفعہ طلاق دی جائے تو ) پھر عورتوں کو یا تو بطریق شائستہ نکاح میں رہنے دینا ہے یا بھلائی کے ساتھ چھوڑ دینا... پھر اگر شوہر(دو طلاقوں کے بعد تیسری) طلاق عورت کو دے دے تو اس کے بعد جب تک عورت کسی دوسرے شخص سے نکاح نہ کر لے اس پہلے شوہر کے لئے حلال نہ ہو گی ہاں اگر دوسرا خاوند بھی طلاق دے دے اور عورت اور پہلا خاوند پھر ایک دوسرے کی طرف رجوع کر لیں تو ان پر کچھ گناہ نہیں بشرطیکہ دونوں یقین کر لیں کہ اللہ تعالیٰ کی حدوں کو قائم رکھ سکیں گے۔''
تو اگر کوئی ایسی عورت کی طرف قصد کرے جسے اس کے شوہر نے تین طلاقیں دی ہوں اور وہ اس سے اس نیت سے شادی کرے کہ جب یہ عورت پہلے شوہر کے لئے حلال ہو جائے گی تو یہ اسے طلاق دے دے گا یعنی اس سے مباشرت کرنے کے بعد اسے طلاق دے دے گا اور پھر عدت گزرنے کے بعد یہ نئے نکاح کے ساتھ اپنے پہلے شوہر کے پاس چلی جائے گی تو یہ نکاح فاسد ہے نبیﷺ نے حلالہ کرنے والے اور کروانے والے پر لعنت فرمائی اور حلالہ کرنے والے کو کرائے کا سانڈ قرار دیا، کیونکہ یہ اس سانڈ بکرے کی طرح ہے جسے بکریوں کا مالک ایک معین مدت کے لئے کسی سے ادھار لیتا ہے اور پھر اسے اس کے مالک کو واپس کر دیتا ہے یہ مرد بھی سانڈ کی طرح ہے کہ اسے بھی کہا جاتا ہے کہ اس عورت سے شادی کر لو اور پھر اس سے مباشرت کر کے اسے طلاق دے دینا۔ یہ ہے نکاح حلالہ! اور اس کی حسب ذیل دو صورتیں ہوتی ہیں۔
1۔ بوقت عقد ہی یہ شرط لگائی جائے، مثلاً شوہر سے کہا جائے کہ ہم آپ کی شادی اس عورت سے اس شرط پر کرتے ہیں کہ اس سے مباشرت کر کے اسے طلاق دے دو۔
2۔ ایسی شرط تو عائد نہ کی جائے لیکن نیت یہی ہو ، نیت شوہر کی طرف سے بھی ہو سکتی ہے اور بیوی اور اس کے وارثوں کی طرف سے بھی، اگر نیت شوہر کی طرف سے ہے تو چونکہ اسے تو علیحدگی کا اختیار حاصل ہے لہٰذا اس طرح کے عقد کی صورت میں اس کے لئے یہ بیوی حلال نہ ہو گی کیونکہ اس نے وہ نیت نہیں کی جو مقصود نکاح ہوتی ہے کیونکہ نکاح سے مقصود تو یہ ہوتا ہے کہ الفت و محبت سے بیوی کے ساتھ زندگی بسر کی جائے، عفت و پاکدامنی اختیار کی جائے اور اورلاد حاصل کی جائے تو چونکہ یہ نیت نکاح کے بنیادی مقصد ہی کے خلاف ہے لہٰذا یہ نکاح صحیح نہ ہو گا۔
عورت اور اس کے وارثوں کی نیت کے بارے میں علماء میں اختلاف ہے اور اب تک میرے نزدیک یہ واضح نہیں ہو سکا کہ ان میں سے کون سا قول زیادہ صحیح ہے خلاصہ کلام یہ ہے کہ نکاح حلالہ حرام ہے، اس سے بیوی پہلے شوہر کے لئے حلال نہیں ہوتی کیونکہ یہ نکاح ہی صحیح نہیں ہے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فتاویٰ اسلامیہ
ج3ص277
محدث فتویٰ
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
شرع شریف میں حلالہ کس کو کہتے ہیں۔ ہمارے بعض علاقوں میں مروجہ حلالہ عمل میں لاتے ہیں۔ کسی کےلئے حلالہ کرتے ہیں۔ بعض مفتی اس پرجواز کا فتویٰ دیتے ہیں آیا یہ جائز ہے یا نہیں؟اگر جائز ہے تو حدیث
لعن رسول الله صليٰ لله عليه وسلم المحلل ولمحلل له
كا كيا مطلب ہے۔ ؟
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!


حلالہ مطلقہ عورت کسی دوسرے خاوند سے نکاح کرنے اور پھر اس سے طلاق یا موت زوج کی وجہ سے علیحدہ ہوکر پہلے ذوج مطلق کے لئے حلال ہوجاتی ہے اس کانام ہے۔ لیکن ذوج اول یا زوجہ یا اس کے کسی ولی کی طرف سے زوج ثانی سے یہ شرط کرنی کہ وہ طلاق دے دے اور زوج ثانی کا اس شرط کو قبول کر کے نکاح کرنا یہ حرام ہے اس میں فریقین پرلعنت کی گئی ہے حدیث جو سوال میں مذکور ہے اس کا مطلب یہی ہے کہ تحلیل کی شرط کرکے نکاح کرنا موجب لعنت ہے ۔ (نکاح محمدی ص 71 تا 80) (محمد کفایت اللہ عفا عنہ ربہ مدرسہ الصیغیہ دھلی۔ )(منقول از اخبار الجمعیۃ دھلی جلد نمبر 14 ۔ 44 مورخہ 6 شعبان المعظم 1350 ء۔ 16دسمبر 1931ء)
طلاق کامسئلہ
ہفتہ دو ہفتے میں ایک باریہ واقعہ ضرور سامنے آتا ہے۔ کہ کوئی مسلمان غصہ میں یا بغیر غصہ کے ہی سہی ایک جلسہ میں تین بار طلاق دیتا ہے یا حمل یا ماہواری کے زمانہ میں طلاق دیتا ہے۔ تو ان تمام حالتوں میں بعض مولوی طلاق بائن کا فتویٰ لگادیتے ہیں۔ جو بالکل غلط ہوتا ہے۔ چند باتیں یاد درکھئے۔
1۔ غصے کی طلاق سرے سے ہی طلاق ہوتی ہی نہیں۔ لہذا رجوع کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
2۔ ماہواری کے ایام میں بھی طلاق طلاق نہیں ہوتی۔ طہر کی حالت شرط لازم ہے۔
3۔ اگر ایک صحبت میں تین طلاقیں دے۔ تو وہ ایک طلاق رجعی مانی جائے گی۔ رجعی سے یہ مطلب ہے کہ شوہر اس طلاق کو واپس لے کر پھرمیاں بیوی کے تعلقات قائم کرسکتا ہے۔ 4۔ اگر بزریعہ خط طلاق دی ہے۔ تو خواہ مضمون میں کتنی ہی سختی کی گئ ہو۔ تو ایک ہی رجعی طلاق مانی جائےگی۔ جسے واپس لیا جاسکتا ہے۔ نیز خط کا مضمون اسی طرح صاف ہوا کہ ''کہ میں فلاں بنت فلاں کو طلاق دیتاہوں'' خط غصے میں نہ لکھا ہو اور حالت طہر میں پہنچے۔
5۔ اگررجوع کرنے اتنی دیر کی کہ عدت کی مدت سے زیادہ وقت گزر گیا تو ایسی حالت میں تجدید نکاح کا حق ہے یعنی دو گواہوں کے سامنے ایجاب وقبول ہوجائے اگر عورت دور ہے تو تجدید نکاح بغیر سفر کیے بذریعہ وکیل کہا جاسکتا ہے۔
6۔ ایک اور اصولی بات یاد رہے کہ اگر طلاق کے شرعی طریقہ میں کوئی شبہ کی بات ہے۔ توشبہ کافائدہ طلاق کے خلاف ہوگا نہ کہ طلاق کے حق ہیں۔
(حافظ علی بہادرخان۔ ایڈیٹر روزنامہ ھلال نو بمبئی ۔ اخبارحلال تو 11 دسمبر 1953ء)
ایک وقت کی تین طلاقیں اور حنفی علماء کا فتویٰ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ زید نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیں۔ اور تیسری طلاق دینے کے ساتھ ہی ساتھ یہ کہا کہ میں تیسری طلاق تاکید کے ساتھ دے رہا ہوں کیا اس صورت میں زید رجوع کرسکتا ہے۔ ؟بینوا توجروا۔
الجواب
صورت مسئولہ میں اس کی تصدیق فیما بینہ وبین اللہ کی جائے گی۔ جیسا کہ در مختار میں ہے۔
لفظ الطلاق وقع الكل وان نوي اكتا كيد دين
اس قول کی بناء پر زید اپنی بیوی سے رجوع کرسکتا ہے۔ واللہ اعلم وعلمہ اتم سید حفیظ اللہ الدین احمد غفرلہ امام مسجد رنگریزاں باڑہ دھلی )
اگر تیسری طلاق تاکید کی نیت سے دی تھی۔ تو تین طلاقیں عند اللہ نہ ہوں گی۔ اور خاوند رجوع کرسکتا ہے مگر اس کو کوئی یہ حکم نہیں دے سکتا۔ (محمد کفایت اللہ دھلی۔ مطبوعہ اخبار اہل حدیث دھلی 10 نومبر 1951ء)
فتاویٰ ثنائیہ
جلد 2 ص 258
محدث فتویٰ
بھائی آپ تو عالم نہیں ہیں لیکن میری بات امید ہے آپ کی سمجھ سے باہر نہیں ہوگی۔
قرآن متواتر ہے۔ اس میں صراحت ہے کہ نکاح اور جماع کے بعد عورت حلال ہو جائے گی۔ اسی طرح حدیث میں بھی جماع کا ذکر ہے۔
لیکن قرآن و حدیث میں کہیں یہ صراحت نہیں ہے کہ حلالہ سے حلال نہیں ہوگی۔ جب کہ حلالہ میں بھی نکاح اور جماع موجود ہیں۔
تو کیا قرآن کی صراحت کو فقط قیاس سے رد کیا جا سکتا ہے؟ یہ کام ہم کریں تو مجرم اور آپ کریں تو درست ہو سکتا ہے؟
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
بھائی جان یہی تو میں بتا رہا ہوں حلالہ نا جائز ہے لیکن یہ کہاں ہے کہ کر لیا تو عورت حلال نہیں ہوگی؟
قرآن کے مطابق دو کام عورت کے حلال ہونے کے لیے۔ نکاح و جماع
اور دونوں حلالہ میں موجود ہیں۔
لیکن جب صحیح طلاق دے دی جائے گی جیسے اسلام میں ہے، پھر اس کے بعد عورت کسی اور مرد سے نکاح کرے گی پھر وہ زندگی گزاریں گے، پھر اگر ان کی آپس میں نہ بنے یا کسی شرعی عذر کے تحت طلاق ہو جائے یا اس عورت کا خاوند فوت ہو جائے تب وہ پہلے کے لیے حلال ہو گی۔ واللہ اعلم

یہ ہے صحیح طریقہ، یہ نہیں کہ طلاق طلاق طلاق، ہاں بھئی اب کیا کرنا ہے، ایک رات کے لیے کسی اور کو دے دو، صبح وہ طلاق دے دے گا، شادی کر لینا، اب آدمی کہہ سکتا ہے یہ تو حلالہ ہے یہ بے غیرتی ہے، اب اس کو کہا جائے گا کہ ہے تو بے غیرتی لیکن بیوی تو حلال ہو گئی نا۔ استغفراللہ واتوب الیہ

اللہ ایسے لوگوں سے محفوظ فرمائے آمین
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
ایک طرف آپ کہہ رہے ہیں
بھائی جان یہی تو میں بتا رہا ہوں حلالہ نا جائز ہے
اور دوسری طرف
لیکن قرآن و حدیث میں کہیں یہ صراحت نہیں ہے کہ حلالہ سے حلال نہیں ہوگی۔
توبہ، استغفراللہ
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
لیکن جب صحیح طلاق دے دی جائے گی جیسے اسلام میں ہے، پھر اس کے بعد عورت کسی اور مرد سے نکاح کرے گی پھر وہ زندگی گزاریں گے، پھر اگر ان کی آپس میں نہ بنے یا کسی شرعی عذر کے تحت طلاق ہو جائے یا اس عورت کا خاوند فوت ہو جائے تب وہ پہلے کے لیے حلال ہو گی۔ واللہ اعلم

یہ ہے صحیح طریقہ، یہ نہیں کہ طلاق طلاق طلاق، ہاں بھئی اب کیا کرنا ہے، ایک رات کے لیے کسی اور کو دے دو، صبح وہ طلاق دے دے گا، شادی کر لینا، اب آدمی کہہ سکتا ہے یہ تو حلالہ ہے یہ بے غیرتی ہے، اب اس کو کہا جائے گا کہ ہے تو بے غیرتی لیکن بیوی تو حلال ہو گئی نا۔ استغفراللہ واتوب الیہ

اللہ ایسے لوگوں سے محفوظ فرمائے آمین
صحیح طریقہ نہ سہی لیکن حلال کیوں نہیں۔
زندگی اور آپس میں نہ بنے وغیرہ قرآن و حدیث میں کہیں ہے؟ اس کے بغیر تو یہ قیاس و عقل ہے جو نص قرآنی کے مقابلے میں آ رہا ہے۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
ایک طرف آپ کہہ رہے ہیں


اور دوسری طرف


توبہ، استغفراللہ
یہ غلط بات ہے کہ اگر جواب نہ بنے تو یہ کام شروع کر دیں۔
دیکھیں محمد ارسلان بھائی یہ سب فقہ ہے۔ فقہ القرآن و فقہ الحدیث۔
ایک فریق نے ایک طرح سمجھا وہ بھی ماجور ہے اور ہم نے جس طرح سمجھا ہم بھی ماجور ہیں۔ جو جس کی تحقیق سے مطمئن ہو وہ اس پر عمل کر لے۔ اسی کو تقلید کہتے ہیں۔
لیکن اگر اسے علمی ابحاث میں لائیں گے تو احناف کی دلیل مضبوط ہے۔ البتہ ضد نہ کریں اس طرح۔ آپ کو اس پر عمل کرنے پر مجبور تو نہیں کر رہا۔
میں نے بارہا کہا ہے کہ ناجائز عمل ہے لیکن یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ناجائز عمل سے قرآنی حکم لاگو ہونا ختم ہو جائے؟ دونوں باتیں الگ الگ ہیں۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
زندگی اور آپس میں نہ بنے وغیرہ قرآن و حدیث میں کہیں ہے؟ اس کے بغیر تو یہ قیاس و عقل ہے جو نص قرآنی کے مقابلے میں آ رہا ہے۔
تو کیا عورت کو بغیر کسی شرعی عذر کے طلاق دینا عین درست ہے؟ قرآن پڑھ کر دیکھیں طلاق کے مسئلے کے وقت اللہ تعالیٰ نے کیا فرمایا ہے۔ زوجین کا آپس میں جھگڑا اور ان کے صلح کا طریقہ کار، اور پھر طلاق کے مسائل کا ذرا بغور مطالعہ کر لیں، اللہ نہ کرے کہ کبھی ایسا موقع آئے کہ ہم نص قرآنی کو چھوڑ کر اپنی قیاس و عقل کو مانیں، اللہ ہم کو اس سے محفوظ فرمائے آمین

یہ غلط بات ہے کہ اگر جواب نہ بنے تو یہ کام شروع کر دیں۔
دیکھیں محمد ارسلان بھائی یہ سب فقہ ہے۔ فقہ القرآن و فقہ الحدیث۔
ایک فریق نے ایک طرح سمجھا وہ بھی ماجور ہے اور ہم نے جس طرح سمجھا ہم بھی ماجور ہیں۔ جو جس کی تحقیق سے مطمئن ہو وہ اس پر عمل کر لے۔ اسی کو تقلید کہتے ہیں۔
لیکن اگر اسے علمی ابحاث میں لائیں گے تو احناف کی دلیل مضبوط ہے۔ البتہ ضد نہ کریں اس طرح۔ آپ کو اس پر عمل کرنے پر مجبور تو نہیں کر رہا۔
میں نے بارہا کہا ہے کہ ناجائز عمل ہے لیکن یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ناجائز عمل سے قرآنی حکم لاگو ہونا ختم ہو جائے؟ دونوں باتیں الگ الگ ہیں۔
بھائی میں آپ کی باتوں پر استغفار نہ کروں تو اور کیا کروں، اتنا کچھ میں نے اوپر ذکر کیا ہے، لیکن آپ نے ایک بات بھی نہیں مانی،مزید کیا کہا جا سکتا ہے، اتنا تو طے ہے کہ آپ بھی حلالے کو غلط مان رہے ہیں۔ تو میری آپ کو نصیحت ہے کہ آئندہ کوئی صحیح معنوں میں اپنی عورت کو طلاق دے کر آپ سے مسئلہ پوچھے تو آپ نے اس کو کہنا ہے کہ بھائی اب تمہاری عورت کسی اور سے شادی کرے پھر اگرکسی شرعی عذر کے تحت طلاق ہو جائے یا اس عورت کا خاوند فوت ہو جائے تب وہ تمہارے کے لیے حلال ہو گی۔ واللہ اعلم

اور اگر اس نے طلاق طلاق طلاق والی طلاق دے رکھی ہو تو اس کو کہنا کہ بھائی ابھی ایک طلاق ہوئی ہے جا کر رجوع کر لو۔

اللہ آپ کو دین حق کی صحیح سمجھ عطا فرمائے آمین
 

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
اشماریہ صاحب،
ذرا اطمینان سے ملاحظہ کیجئے کہ حلالہ کے مسئلے پر شروع سے اب تک آپ نے اپنا مؤقف کیا بیان کیا ہے ۔

پہلے آپ کا فرمانا ہمارے لئے باعث تعجب ہوا کہ:

مون لائیٹ آفریدی نے کہا ہے: ↑
کیا حلالہ کرنا یا کروانا زنا سے متشابہ نہیں ہے ؟
نہیں لیکن حلالہ شرط لگا کر یا دل میں رکھ کر کرنا جائز نہیں ہے۔ اتفاقا صورت پیدا ہو جائے تو ٹھیک ہے
جیسے ایک عورت کو طلاق ہوئی اور اس نے دوسرے شوہر سے شادی کر لی۔ پھر دوسرا شوہر مر گیا یا اس سے بھی اسے طلاق مل گئی تو پہلے شوہر کے پاس جا سکتی ہے۔
شرط کے ساتھ حلالہ کرنا انتہائی بے غیرتی اور بے حیائی ہے۔ اللہ پاک اس سے بچا کر رکھے۔
آپ اب تک ایک بھی فتویٰ علمائے دیوبند سے نہیں دکھا سکے کہ دل میں رکھ کر حلالہ کرنا جائز نہیں ہے۔۔!
اگر کسی دیوبندی عالم نے ایسا فتویٰ دیا ہے تو پیش فرمائیے۔

پھر آپ نے یہ عجیب و غریب قسم کا دعویٰ کیا کہ :
کسی ایک کا بھی تحریر کردہ فتوی دکھائیں کہ حلالہ کروادو۔
ورنہ یاد رکھیں کہ حلالہ کی شرط سے نکاح احناف کے نزدیک بھی جائز نہیں ہے اور حرام کام ہے

اس کے جواب میں میں نے بالکل ایک علیحدہ موضوع میں ایسے کئی فتاویٰ جات اکٹھے کر دئیے۔ لنک ملاحظہ کیجئے:
حلالہ کی شرعی حیثیت (اہل تقلید کو تحقیق کی دعوت)

ان فتاویٰ سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ایسے لوگ جو اپنی بیوی کو تین طلاق دے بیٹھے، مفتیان کرام انہیں حلالہ کروانے کا مشورہ دیتے رہے۔ یہی بات ارسلان بھائی نے پیش کی، تو آپ نے فرمایا تھا: موجودہ دھاگا پوسٹ نمبر 4
محمد ارسلان نے کہا ہے:
آپ کے مولوی اسی طرح حلالہ کروانے کی تلقین کرتے ہیں، اوپر اس بیچارے کے انکل کو حلالے کے چکر میں پھنسوا دیا، سیدھا سادھا مسئلہ بیان کر دینے میں کیا چیز مانع ہے؟​
غلط کام کرنے والے ہر جماعت میں ہوتے ہیں۔ اس لیے ہم تحریر شدہ فتوی مانگتے ہیں۔ اسے حنفیوں کی مس گائیڈنگ کیوں کہتے ہیں؟
کچھ نہیں پتا عالم نے یہ کہا بھی تھا یا اس نے کچھ اور کہا تھا اور انکل جی نے مطلب یہ نکالا اپنی خواہش کو پورا کرنے کے لیے۔
تو پھر جو دیوبندی مولوی حلالے کا فتویٰ دیتے ہیں ان کا رد کیوں نہیں کرتے آپ لوگ؟
لکھ کر نہیں دیتے نا۔ لکھ کر دیں تو رد بھی ہو جائے گا۔ ایسے کیسے رد کریں؟
آپ ایک کام کریں ایسے کسی عالم کے پاس جائیں اور جب وہ کہے کہ حلالہ کروا لو تو اسے کہیں کہ بعینہ یہی الفاظ "حلالہ کروا لو" مجھے آپ تحریرا دے دیں۔ وہ کبھی نہیں دے گا۔ کچھ اور لکھے گا مثلا اگر حلالہ ہو جائے تو دوبارہ نکاح ہو سکتا ہے وغیرہ۔ لیکن اگر دیدے تو مجھے بتائیے گا۔ میں آپ کو ملک کے مختلف دار الافتاء بتاؤں گا۔ وہاں جمع کروا دیجیے گا۔ رد آ جائے گا۔

اپنی درج بالا پوسٹ کو بار بار پڑھئے، کیونکہ ہمیں سب سے بڑا اعتراض آپ حضرات پر یہی ہے کہ آپ اپنے علماء کے دفاع میں حق بات کو چھوڑنے اور ناجائز بات کو قبول کرنے میں بہت جری ہیں۔

آپ نے اول تو فرمایا کہ ایسے فتاویٰ کوئی لکھ کر نہیں دیتا، لکھے گا تو رد بھی ہو جائے گا۔

اب جب یہ فتاویٰ آپ کے سامنے آ گئے ، تو آپ ہمیں فرماتے ہیں کہ آپ خود تحقیق کریں؟؟؟
اللہ کے بندے، جب آپ کی جماعت کا یہ مؤقف ہے ہی نہیں، اور دارالعلوم دیوبند ہی سے یہ فتاویٰ شائع ہو رہے ہیں، تو یا تو یہ مفتیان کرام کی غلطی ہے۔
اور یا پھر آپ کی جماعت کا مؤقف ہی یہی ہے جسے آپ خود بار بار حرام اور شرمناک کام قرار دے چکے ہیں۔
 
Top