• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حنفیوں کی غلط گائیڈنگ کا نقصان۔۔ ایک حنفی کا سچا واقعہ

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
ہم نے تو آپ پر اعتراض کیا ہے، یہ تو آپ کو چاہیے کہ ہمارا اعتراض دور کریں، لہذا مولوی سے آپ پوچھیں ، ہم کیوں پوچھیں، مولوی نے انٹرنیٹ پر فتویٰ دیا ہے، جہاں عوام کی کثیر تعداد بیٹھی ہوتی ہے اور پڑھتی ہے، اگر مولوی نے غلط فتویٰ دیا ہے تو اس میں گمراہی پھیلے گی۔
مولوی نے جس کو فتوی دیا ہے اس کی صورت حال اور اپنے دلائل کو سامنے رکھ کر دیا ہے۔ بہتر ہے کہ اعتراض اسی پر ہو کیوں کہ وہ ابھی زندہ ہے۔
عمومی جو فتوی ہے وہ میں نے ذکر کردیا ہے۔ یعنی یہ کام جائز نہیں ہے لیکن اگر کر لیا تو عورت حلال ہو جائے گی۔ اب اگر یہ مفتی صاحب اس کو جائز سمجھتے ہیں تو کوئی تو وجہ ہوگی۔ چوں کہ اعتراض آپ کو ہے اس لیے آپ وضاحت سے بیان بھی کر سکتے ہیں اور پوچھ بھی سکتے ہیں۔ اور فاسئلوا اہل الذکر کا حکم بھی آپ کو ہے۔ میں تو پوچھنے لگا تو سارا دن پوچھتا ہی رہوں گا آپ حضرات کے مختلف اعتراضات۔ اور وضاحت سے پوچھ بھی نہیں سکوں گا۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
[/hl]
۔[/quote]

استغفراللہ -
کیا الله رب العزت ایک حرام کام کے ذریے ایک عورت کو اپنے پہلے خاوند کے لئے جائز کر رہا ہے - ذرا قران کو غور سے پڑھیے -
[/quote]

اللہ نے صرف یہ بتایا ہے کہ اگر نکاح ہو گیا اور جماع ہو گیا تو عورت حلال ہے۔ آگے کی تفصیل آپ کی نکالی ہوئی ہے کہ نہیں حلال نہیں ہے اگر حلالہ کی نیت سے نکاح ہوا ہے۔ یہ نکالیے ذرا قرآن سے۔

١- قرآن کا مطابق ایک عورت طلاق کے بعد اس وقت تک اپنے پہلے خاوند کے لئے جائز نہیں ہو سکتی جب تک کہ وہ کسی دوسرے شخص سے نکاح نہ کر لے اور ایک ایسی ازدواجی زندگی اس کے ساتھ گزارے جیسی اس نے اپنے پہلے خاوند کے ساتھ گزاری تھی -اور پھر وہ شخص اس کو یا تو اپنی مرضی سے طلاق دے یا وہ عورت بیوہ ہو جائے -
ازدواجی زندگی سے صرف جماع تک کا ذکر قرآن میں ہے وہ بھی صراحتا نہیں۔ ترتیب الفاظ کے ذریعے اور حدیث عسیلہ میں بھی صرف جماع کا ذکر ہے۔ اگر اس سے زیادہ زندگی کے قائل ہیں تو دلیل لائیے۔
حلالہ میں کس کی مرضی سے طلاق دے رہا ہوتا ہے؟

- حنفی فقہ کے مطابق عورت اس وقت اپنے پہلے خاوند کے لئے جائز ہو گی جب اس کا نکاح ایک "کراے کے سانڈ" (یہ میرے نہیں بلکہ نبی کریم صل الله علیہ و آلہ وسلم کے الفاظ ہیں) کے ساتھ ہو گا اور وہ مخصوص وقت کے لئے اس سے نکاح کرے گا (دوسرے لفظوں میں زنا کرے گا) اور پھر طلاق دے گا تو وہ اپنے پہلے شوہر کے لئے جائز ہو جائے گی -
قرآن بغیر کسی شرط کے کہہ رہا ہے کہ نکاح اور جماع کے بعد حلال ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حلال ہونے سے منع نہیں کیا ہے اس کام کو برا بتانے کے باوجود بھی۔ (اگرچہ خبر واحد پر الفاظ قرآنی کو ترجیح ہوتی ہے۔)
اور فقہ اہل حدیث نئی شرط لگا رہا ہے۔ کیوں؟

جہاں تک حضرت عمر رضی الله عنہ کے فیصلے کا تعلق ہے تو ان کا یہ فیصلہ تعزیری تھا نہ کہ شرعی - جب ہی بعد میں وہ اپنے اس فیصلے پر پشیمان ہوے تھے - اگر عین شرعی ہوتا تو پشیمان ہونے کی کیا ضرورت تھی انھیں- اور اگر آپ حضرت عمر رضی الله عنہ ہی کی بات کرتے ہیں تو انہوں نے فرمایا تھا کہ "اگر حلالہ کرنے والے اور کروانے والے کو مرے پاس لایا گیا تو میں اس کو رجم کی سزا دونگا" (ابو بکر ابن شیبہ)-
عمر رضی اللہ عنہ نے کیا تین طلاق کا فیصلہ کرنے کے بعد یہ کہا تھا کہ حلالہ کر لیا کرو؟ پھر پشیمانی کس بات پر؟ اگر فیصلہ پر تو کیا اس سے رجوع کیا تھا؟ ایک ہاتھ ذرا سر پر مارئیے۔
انہوں نے حلالہ کرنے والے کو سزا دینے کا کہا ہے لیکن فیصلہ واپس نہیں لیا۔ اس سے تو پتا چلتا ہے کہ عمر رض کے نزدیک فیصلہ کا نتیجہ یہ نہیں تھا اور فیصلہ بالکل درست تھا۔
حلالہ کرنے والے کے بارے میں اگر یہ فرمایا بھی ہے تو اس سے بیوی کا حلال نہ ہونا تو ثابت نہیں ہوتا اور اس فعل کے برے ہونے کے ہم بھی قائل ہیں۔
باقی عمر رض کی روایت پر کامل تحقیق نہیں ہے ورنہ تعزیری فیصلہ کے بارے میں بھی کچھ عرض کرتا۔ لہذا اسے چھوڑئیے۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
مولوی نے جس کو فتوی دیا ہے اس کی صورت حال اور اپنے دلائل کو سامنے رکھ کر دیا ہے۔ بہتر ہے کہ اعتراض اسی پر ہو کیوں کہ وہ ابھی زندہ ہے۔
عمومی جو فتوی ہے وہ میں نے ذکر کردیا ہے۔ یعنی یہ کام جائز نہیں ہے لیکن اگر کر لیا تو عورت حلال ہو جائے گی۔ اب اگر یہ مفتی صاحب اس کو جائز سمجھتے ہیں تو کوئی تو وجہ ہوگی۔ چوں کہ اعتراض آپ کو ہے اس لیے آپ وضاحت سے بیان بھی کر سکتے ہیں اور پوچھ بھی سکتے ہیں۔ اور فاسئلوا اہل الذکر کا حکم بھی آپ کو ہے۔ میں تو پوچھنے لگا تو سارا دن پوچھتا ہی رہوں گا آپ حضرات کے مختلف اعتراضات۔ اور وضاحت سے پوچھ بھی نہیں سکوں گا۔

عورت کیسے حلال ہو جائے گی؟ جب طریقہ ہی غلط ہے تو عورت کا حلال ہونا محل نظر ہے۔ طلاق ہی غلط طریقے سے دی گئی ہے اور حلالہ بھی غلط ہے حلالہ کرنے والا اور حلالہ کرنے والا دونوں حدیث کے مطابق لعنتی بھی ہوں گے۔

مجھے دلیل چاہیے کہ عورت حلال ہو جائے گی۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
عورت کیسے حلال ہو جائے گی؟ جب طریقہ ہی غلط ہے تو عورت کا حلال ہونا محل نظر ہے۔ طلاق ہی غلط طریقے سے دی گئی ہے اور حلالہ بھی غلط ہے حلالہ کرنے والا اور حلالہ کرنے والا دونوں حدیث کے مطابق لعنتی بھی ہوں گے۔

مجھے دلیل چاہیے کہ عورت حلال ہو جائے گی۔
قرآن کہہ رہا ہے حلال ہوگی اتنا کام کرنے پر
فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجا غیرہ
حتی ما قبل معاملہ کی انتہا بتاتا ہے۔ ما قبل نفی حلت کی انتہا نکاح و جماع سے ہو گئی۔

آپ دلیل دیں کہ کیوں نہیں ہوگی؟ کہیں صراحت آئی ہے؟ ورنہ قرآن کی صراحت کو صرف خیالات سے چھوڑ دیں؟
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
قرآن کہہ رہا ہے حلال ہوگی اتنا کام کرنے پر
فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجا غیرہ
حتی ما قبل معاملہ کی انتہا بتاتا ہے۔ ما قبل نفی حلت کی انتہا نکاح و جماع سے ہو گئی۔

آپ دلیل دیں کہ کیوں نہیں ہوگی؟ کہیں صراحت آئی ہے؟ ورنہ قرآن کی صراحت کو صرف خیالات سے چھوڑ دیں؟
ابھی کچھ مصروف ہوں۔۔۔ تھوڑی دیر تک میں دیتا ہوں دلائل ۔۔۔ ان شاءاللہ
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
قرآن کہہ رہا ہے حلال ہوگی اتنا کام کرنے پر
فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجا غیرہ
حتی ما قبل معاملہ کی انتہا بتاتا ہے۔ ما قبل نفی حلت کی انتہا نکاح و جماع سے ہو گئی۔

آپ دلیل دیں کہ کیوں نہیں ہوگی؟ کہیں صراحت آئی ہے؟ ورنہ قرآن کی صراحت کو صرف خیالات سے چھوڑ دیں؟
کیا قرآن میں اس سے مراد حلالہ ہے؟
کیا قرآن و حدیث میں کوئی ایسی دلیل ہے جس سے یہ حلالہ ثابت ہو (بلکہ اس پر وعید ہیں)

کیا ایک رات اپنی بیوی کو کسی غیر مرد کے حوالے کر کے صبح اس کو طلاق دلوا کر خود شادی کر لینا، کیا قرآن کا یہی مقصود ہے؟ ہر گز نہیں

کچھ تو اللہ کا خوف کریں
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

حلالہ کیا ہے،وضاحت فر ما دیں؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال​
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!​
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!​
حلالہ یہ ہے کہ کسی مطلقہ عورت کا،( اس کو اس کے پہلے خاوند کےلئے حلال کرنے کی غرض سے ،)کسی دوسرے مرد کے ساتھ ایک متعین وقت کے لئے نکاح کر دیا جاتا ہے، پھر وہ اس مدت کے پورا ہونے کے بعداس عورت کو طلاق دے دیتا ہے اور پہلا خاوند اس سے دوبارہ نکاح کر لیتا ہے ۔​
یہ طریقہ نکاح قطعاً جائز نہیں ہے ،بلکہ نبی کریمﷺ نے لعنت فرمائی ہے :​

«لعن اللہ المُحَلِّل والمُحَلَّل لہ»أبوداود کتاب النکاح باب فی التحلیل (٢٠٧٦)،ترمذی أبواب النکاح باب ماجاء فی المحل والمحلل لہ (١١١٩)​
''حلالہ کرنے والے اور جس کے لیے حلالہ کیا جائے ان دونوں پراللہ کی لعنت ہو۔''​
لغت حدیث کی معروف کتاب النہایة فی غریب الأثر والحدیث لابن أثیر ١/٤٣١میں حلالہ کی تعریف یوں کی گئی ہے:​
«هو أن یطلق رجل امرأته ثلاثا فیتزوجها رجل آخر علی شریطة أن یطلقها بعد وطئها لتحل لزوجها الأول »

حلالہ یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دے تو اس عورت کے ساتھ دوسرا آدمی اس شرط پر نکاح کرے کہ وہ اس عورت سے جماع کرنے کے بعد اس کو طلاق دے دے گا تاکہ وہ عورت پہلے خاوند کے لے حلال ہوجائے۔​
احناف کی فقہی اصطلاح پر لکھی گئی کتاب القاموس الفقہی کے صفحہ ١٠٠ پر مُحَلِّل (حلالہ کرنیوالا)کی یہ تعریف درج ہے:​
«المُحَلِّلُ:هو المتزوج ثلاثا لتحل للزوج الأوّل وفی الحديث الشريف لعن الله المحلِّل والمحلَّل له»

محلِّل سے مراد وہ آدمی ہے جو تین دفعہ طلاق شدہ عورت سے شادی کرتا ہے تاکہ اس عورت کو پہلے خاوند کے لیے حلال کر دے​
اور حدیث شریف میں آتا ہے کہ اللہ حلالہ کرنے والے پر اور جس کے لیے حلالہ کیا جاتا ہے دونوں پر لعنت کرے ۔لہذا حلالہ کا مروجہ طریقہ کار بالکل حرام ہے۔​
هذا ما عندی والله اعلم بالصواب​
فتوی کمیٹی​
محدث فتوی​
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
آپ کے خیال میں نکاح حلالہ کے بارے میں شریعت کی کیا رائے ہے؟
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

پہلے یہ بتانا ضروری ہے کہ نکاح حلالہ کیا ہے، نکاح حلالہ یہ ہے کہ مرد کسی ایسی عورت سے نکاح کا قصد کرے جسے اس کے شوہر نے تین طلاقیں دی ہیں، یعنی پہلے ایک طلاق دی اور رجوع کر لیا، پھر دوسری طلاق دی اور رجوع کر لیا اور پھر تیسری طلاق دی، اب یہ عورت اس شوہر کے لئے حلال نہیں ہے جس نے اسے تین طلاقیں دے دیں ہیں الا یہ کہ یہ کسی دوسرے مرد سے برضا و رغبت شادی کرے اور وہ اس سے صحبت بھی کرے اور پھر وہ اسے طلاق دے دے یا فوت ہو جائے یا نکاح فسخ کر دے تو پھر پہلے شوہر کے لئے اس سے نکاح کرنا حلال ہو گا کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿الطَّلـٰقُ مَرَّ‌تانِ ۖ فَإِمساكٌ بِمَعر‌وفٍ أَو تَسر‌يحٌ بِإِحسـٰنٍ ۗ ...﴿٢٢٩﴾... ۗ فَإِن طَلَّقَها فَلا جُناحَ عَلَيهِما أَن يَتَر‌اجَعا إِن ظَنّا أَن يُقيما حُدودَ اللَّهِ ۗ وَتِلكَ حُدودُ اللَّهِ يُبَيِّنُها لِقَومٍ يَعلَمونَ ﴿٢٣٠﴾... سورة البقرة
''طلاق( جس کے بعد رجوع ہو سکتا ہے صرف) دو بار ہے (یعنی جب دو دفعہ طلاق دی جائے تو ) پھر عورتوں کو یا تو بطریق شائستہ نکاح میں رہنے دینا ہے یا بھلائی کے ساتھ چھوڑ دینا... پھر اگر شوہر(دو طلاقوں کے بعد تیسری) طلاق عورت کو دے دے تو اس کے بعد جب تک عورت کسی دوسرے شخص سے نکاح نہ کر لے اس پہلے شوہر کے لئے حلال نہ ہو گی ہاں اگر دوسرا خاوند بھی طلاق دے دے اور عورت اور پہلا خاوند پھر ایک دوسرے کی طرف رجوع کر لیں تو ان پر کچھ گناہ نہیں بشرطیکہ دونوں یقین کر لیں کہ اللہ تعالیٰ کی حدوں کو قائم رکھ سکیں گے۔''
تو اگر کوئی ایسی عورت کی طرف قصد کرے جسے اس کے شوہر نے تین طلاقیں دی ہوں اور وہ اس سے اس نیت سے شادی کرے کہ جب یہ عورت پہلے شوہر کے لئے حلال ہو جائے گی تو یہ اسے طلاق دے دے گا یعنی اس سے مباشرت کرنے کے بعد اسے طلاق دے دے گا اور پھر عدت گزرنے کے بعد یہ نئے نکاح کے ساتھ اپنے پہلے شوہر کے پاس چلی جائے گی تو یہ نکاح فاسد ہے نبیﷺ نے حلالہ کرنے والے اور کروانے والے پر لعنت فرمائی اور حلالہ کرنے والے کو کرائے کا سانڈ قرار دیا، کیونکہ یہ اس سانڈ بکرے کی طرح ہے جسے بکریوں کا مالک ایک معین مدت کے لئے کسی سے ادھار لیتا ہے اور پھر اسے اس کے مالک کو واپس کر دیتا ہے یہ مرد بھی سانڈ کی طرح ہے کہ اسے بھی کہا جاتا ہے کہ اس عورت سے شادی کر لو اور پھر اس سے مباشرت کر کے اسے طلاق دے دینا۔ یہ ہے نکاح حلالہ! اور اس کی حسب ذیل دو صورتیں ہوتی ہیں۔
1۔ بوقت عقد ہی یہ شرط لگائی جائے، مثلاً شوہر سے کہا جائے کہ ہم آپ کی شادی اس عورت سے اس شرط پر کرتے ہیں کہ اس سے مباشرت کر کے اسے طلاق دے دو۔
2۔ ایسی شرط تو عائد نہ کی جائے لیکن نیت یہی ہو ، نیت شوہر کی طرف سے بھی ہو سکتی ہے اور بیوی اور اس کے وارثوں کی طرف سے بھی، اگر نیت شوہر کی طرف سے ہے تو چونکہ اسے تو علیحدگی کا اختیار حاصل ہے لہٰذا اس طرح کے عقد کی صورت میں اس کے لئے یہ بیوی حلال نہ ہو گی کیونکہ اس نے وہ نیت نہیں کی جو مقصود نکاح ہوتی ہے کیونکہ نکاح سے مقصود تو یہ ہوتا ہے کہ الفت و محبت سے بیوی کے ساتھ زندگی بسر کی جائے، عفت و پاکدامنی اختیار کی جائے اور اورلاد حاصل کی جائے تو چونکہ یہ نیت نکاح کے بنیادی مقصد ہی کے خلاف ہے لہٰذا یہ نکاح صحیح نہ ہو گا۔
عورت اور اس کے وارثوں کی نیت کے بارے میں علماء میں اختلاف ہے اور اب تک میرے نزدیک یہ واضح نہیں ہو سکا کہ ان میں سے کون سا قول زیادہ صحیح ہے خلاصہ کلام یہ ہے کہ نکاح حلالہ حرام ہے، اس سے بیوی پہلے شوہر کے لئے حلال نہیں ہوتی کیونکہ یہ نکاح ہی صحیح نہیں ہے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فتاویٰ اسلامیہ
ج3ص277
محدث فتویٰ
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
شرع شریف میں حلالہ کس کو کہتے ہیں۔ ہمارے بعض علاقوں میں مروجہ حلالہ عمل میں لاتے ہیں۔ کسی کےلئے حلالہ کرتے ہیں۔ بعض مفتی اس پرجواز کا فتویٰ دیتے ہیں آیا یہ جائز ہے یا نہیں؟اگر جائز ہے تو حدیث
لعن رسول الله صليٰ لله عليه وسلم المحلل ولمحلل له
كا كيا مطلب ہے۔ ؟
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!


حلالہ مطلقہ عورت کسی دوسرے خاوند سے نکاح کرنے اور پھر اس سے طلاق یا موت زوج کی وجہ سے علیحدہ ہوکر پہلے ذوج مطلق کے لئے حلال ہوجاتی ہے اس کانام ہے۔ لیکن ذوج اول یا زوجہ یا اس کے کسی ولی کی طرف سے زوج ثانی سے یہ شرط کرنی کہ وہ طلاق دے دے اور زوج ثانی کا اس شرط کو قبول کر کے نکاح کرنا یہ حرام ہے اس میں فریقین پرلعنت کی گئی ہے حدیث جو سوال میں مذکور ہے اس کا مطلب یہی ہے کہ تحلیل کی شرط کرکے نکاح کرنا موجب لعنت ہے ۔ (نکاح محمدی ص 71 تا 80) (محمد کفایت اللہ عفا عنہ ربہ مدرسہ الصیغیہ دھلی۔ )(منقول از اخبار الجمعیۃ دھلی جلد نمبر 14 ۔ 44 مورخہ 6 شعبان المعظم 1350 ء۔ 16دسمبر 1931ء)
طلاق کامسئلہ
ہفتہ دو ہفتے میں ایک باریہ واقعہ ضرور سامنے آتا ہے۔ کہ کوئی مسلمان غصہ میں یا بغیر غصہ کے ہی سہی ایک جلسہ میں تین بار طلاق دیتا ہے یا حمل یا ماہواری کے زمانہ میں طلاق دیتا ہے۔ تو ان تمام حالتوں میں بعض مولوی طلاق بائن کا فتویٰ لگادیتے ہیں۔ جو بالکل غلط ہوتا ہے۔ چند باتیں یاد درکھئے۔
1۔ غصے کی طلاق سرے سے ہی طلاق ہوتی ہی نہیں۔ لہذا رجوع کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
2۔ ماہواری کے ایام میں بھی طلاق طلاق نہیں ہوتی۔ طہر کی حالت شرط لازم ہے۔
3۔ اگر ایک صحبت میں تین طلاقیں دے۔ تو وہ ایک طلاق رجعی مانی جائے گی۔ رجعی سے یہ مطلب ہے کہ شوہر اس طلاق کو واپس لے کر پھرمیاں بیوی کے تعلقات قائم کرسکتا ہے۔ 4۔ اگر بزریعہ خط طلاق دی ہے۔ تو خواہ مضمون میں کتنی ہی سختی کی گئ ہو۔ تو ایک ہی رجعی طلاق مانی جائےگی۔ جسے واپس لیا جاسکتا ہے۔ نیز خط کا مضمون اسی طرح صاف ہوا کہ ''کہ میں فلاں بنت فلاں کو طلاق دیتاہوں'' خط غصے میں نہ لکھا ہو اور حالت طہر میں پہنچے۔
5۔ اگررجوع کرنے اتنی دیر کی کہ عدت کی مدت سے زیادہ وقت گزر گیا تو ایسی حالت میں تجدید نکاح کا حق ہے یعنی دو گواہوں کے سامنے ایجاب وقبول ہوجائے اگر عورت دور ہے تو تجدید نکاح بغیر سفر کیے بذریعہ وکیل کہا جاسکتا ہے۔
6۔ ایک اور اصولی بات یاد رہے کہ اگر طلاق کے شرعی طریقہ میں کوئی شبہ کی بات ہے۔ توشبہ کافائدہ طلاق کے خلاف ہوگا نہ کہ طلاق کے حق ہیں۔
(حافظ علی بہادرخان۔ ایڈیٹر روزنامہ ھلال نو بمبئی ۔ اخبارحلال تو 11 دسمبر 1953ء)
ایک وقت کی تین طلاقیں اور حنفی علماء کا فتویٰ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ زید نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیں۔ اور تیسری طلاق دینے کے ساتھ ہی ساتھ یہ کہا کہ میں تیسری طلاق تاکید کے ساتھ دے رہا ہوں کیا اس صورت میں زید رجوع کرسکتا ہے۔ ؟بینوا توجروا۔
الجواب
صورت مسئولہ میں اس کی تصدیق فیما بینہ وبین اللہ کی جائے گی۔ جیسا کہ در مختار میں ہے۔
لفظ الطلاق وقع الكل وان نوي اكتا كيد دين
اس قول کی بناء پر زید اپنی بیوی سے رجوع کرسکتا ہے۔ واللہ اعلم وعلمہ اتم سید حفیظ اللہ الدین احمد غفرلہ امام مسجد رنگریزاں باڑہ دھلی )
اگر تیسری طلاق تاکید کی نیت سے دی تھی۔ تو تین طلاقیں عند اللہ نہ ہوں گی۔ اور خاوند رجوع کرسکتا ہے مگر اس کو کوئی یہ حکم نہیں دے سکتا۔ (محمد کفایت اللہ دھلی۔ مطبوعہ اخبار اہل حدیث دھلی 10 نومبر 1951ء)
فتاویٰ ثنائیہ
جلد 2 ص 258
محدث فتویٰ
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
حلالہ کرنا بالکل غلط ہے، قرآن و حدیث کو صحیح طریقے سے سمجھو، اور ان فتاویٰ جات کا بغور مطالعہ کرو۔
 
Top