• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حنفی حضرات کا اس آیت سے فاتحہ نہ پڑھنے کا استدلال غلط ہے

شمولیت
فروری 06، 2013
پیغامات
156
ری ایکشن اسکور
93
پوائنٹ
85
حنفی حضرات کا اس آیت سے فاتحہ نہ پڑھنے کا استدلال غلط ہے۔
اور جب قرآن پڑھا جایا کرے تو اس کی طرف کان لگا دیا کرو اور خاموش رہا کرو امید ہے کہ تم پر رحمت ہو۔
سورة اعراف۔ آیت 204 ۔ مکی ہے۔
یہ ان کافروں کو کہا جا رہا ہے جو قرآن کی تلاوت کرتے وقت شور کرتے تھے اور اپنے ساتھیوں کو کہتے
تھے

﴿ لا تسمعو الھذا القرآن والغوا فیہ﴾ حم السجدة 26
یہ قرآن مت سنو اور شورکرو ان سے کہا گیا کہ اس کے بجائے تم اگر غور سے سنو اور خاموش رہو تو شاید اللہ تعالی تمہیں ہدایت سے نوازدے ۔ اور یوں تم رحمت الٰہی کے مستحق بن جاو۔
بعض ائمہ دین اسے عام مراد لیتے ہیں یعنی جب بھی قرآن پڑھا جائے چاہے نماز ہو یا غیر نماز سب کو خاموشی سے قرآن سننے کا حکم ہے اور پھر وہ اس عموم سے استدلال کرتے ہوئے جہری نمازوں میں مقتدی کے سورہ ٴ فاتحہ پڑھنے کو بھی اس قرآنی حکم کے خلاف بتاتے ہیں ۔
لیکن دوسرے علما کی رائے یہ کہ جہری نمازوں میں امام کے پیچھے سورہ ٴ فاتحہ پڑھنے کی تاکید نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ان کے نزدیک اس آیت کو صرف کفار کے متعلق ہی سمجھنا صحیح ہے جیسا کہ اس کے مکی ہونے سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ لیکن اگر اسے عام سمجھا جائے تب بھی اس عموم سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مقتدیوں کو خارج فرما دیا اور یوں قرآن کے اس عموم سے باوجود جہری نمازوں میں مقتدیوں کا سورة فاتحہ پڑھنا ضروری ہوگا۔
کیونکہ قرآن کے اس عموم کی یہ تخصیص صحیح و قوی احادیث سے ثابت ہے۔
جہری نمازوں میں بھی سورة فاتحہ کا پڑھنا ضروری ہوگا کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تاکید فرمائی ہے۔
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
یہ ان کافروں کو کہا جا رہا ہے جو قرآن کی تلاوت کرتے وقت شور کرتے تھے اور اپنے ساتھیوں کو کہتے
تھے
جناب یہ تفسیر کس نے کی؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےیا کسی صحابی نے یا خیر القرون کے کسی شخص نے؟
بحوالہ تحریر فرمائیں وگرنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وعید؛
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ قَالَ فِي الْقُرْآنِ بِغَيْرِ عِلْمٍ فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنْ النَّارِ
 

جوش

مشہور رکن
شمولیت
جون 17، 2014
پیغامات
621
ری ایکشن اسکور
320
پوائنٹ
127
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ آیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی تو کیا نعوذ باللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کے مفہوم کو نہیں سمجھا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمادیا کہ :لا صلوۃ لمن لم یقرا بفاتحۃ الکتاب ۔اور نماز فجر میں جب لوگ آپ صلی اللہ کے پیچھے کچھ پڑھنے لگے تو نماز کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم لوگ میرے پیچھے اپنے جی میں سورہ فاتحہ کے سوا کچھ مت پڑھو۔۔ نیز اس آیت کریمہ کی تفسیر میں ابن جریر طبری نے تقریبا 36 اقوال نقل کئے ہیں جن میں سے کچھ مطلق ہیں اور کچھ مقید ،لیکن ان اقوال میں کہیں یہ قول نہیں ہے کہ لوگ سورہ فاتحہ پڑھ رہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس سورت کے پڑھنے سے روکا ہو۔ خود بھٹی نے اوپر جتنے اقوال نقل کئے ہیں انمیں کہیں یہ نہیں ہے کہ لوگ اس سورت کو پڑھ رہے تھے تو انہیں اسکے پڑھنے سے روک دیا گیا ۔یہ حقیقت ہے کہ جب عقل پر خناسیت کا پردہ پڑ جاے تو ہر جگہ خناسیت ہی نظر آتی ہے ۔ میں بھٹی سے یہ سوال کرتا ہوں کہ اگر یہ آیت نماز کے باے میں ہے اور اس مین ممانعت قرات دکھاتے ہو تو اس آیت کا کیا جواب دوگے جو نماز کے بارے ہی نازل ہوئی ہے اور اس میں قرات کو ضروری قرار دیا گیا ہے وہ آیت ہے (فاقرءواما تیسر من القرآن )المزمل:20۔۔ اب تو دونوں آیتوں میں ٹکراو پیدا ہوگیا حالانکہ کلام اللہ میں ٹکراو نہیں ہے اور جو کلام اللہ میں ٹکراو دکھائیگا اسکا ایمان خطرے میں ہے ۔
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ آیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی تو کیا نعوذ باللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کے مفہوم کو نہیں سمجھا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمادیا کہ :لا صلوۃ لمن لم یقرا بفاتحۃ الکتاب ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو یقیناً اس آیت کو سمجھا مگر صرف نام نہاد غیر مقلدین (حقیقتاً اندھوں کے اندھے مقلد) نہیں سمجھے۔ لا صلوۃ لمن لم یقرا بفاتحۃ الکتاب میں خود قراءت کرنے کا حکم تنہا نماز پڑھنے والے(اور امام) کے لئے ہے جیسا کہ ابوداؤد میں اس حدیث کو بیان کرکے لکھا ہے قَالَ سُفْيَانُ لِمَنْ يُصَلِّي وَحْدَهُ۔
دوسرے یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ امام کی قراءت مقتدی کو کفایت کرتی ہے (ابن ماجہ)۔ لہٰذا مقتدی کی نماز بغیر سورہ فاتحہ کے نہیں بلکہ سورہ فاتحہ والی ہی ہوئی۔

نماز فجر میں جب لوگ آپ صلی اللہ کے پیچھے کچھ پڑھنے لگے تو نماز کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم لوگ میرے پیچھے اپنے جی میں سورہ فاتحہ کے سوا کچھ مت پڑھو۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا فرمان ہے؛
سنن ابن ماجه: كِتَابُ إِقَامَةِ الصَّلَاةِ، وَالسُّنَّةُ فِيهَا بَاب إِذَا قَرَأَ الْإِمَامُ فَأَنْصِتُوا
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ، عَنِ ابْنِ عَجْلَانَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِنَّمَا جُعِلَ الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ، فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا، وَإِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوا، وَإِذَا قَالَ: {غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ} [الفاتحة: 7] ، فَقُولُوا: آمِينَ، وَإِذَا رَكَعَ فَارْكَعُوا، وَإِذَا قَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، فَقُولُوا: اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ، وَإِذَا سَجَدَ فَاسْجُدُوا، وَإِذَا صَلَّى جَالِسًا، فَصَلُّوا جُلُوسًا أَجْمَعِينَ

حکم : حسن صحیح

سنن ابن ماجه: نماز کی اقامت اور اس کا طریقہ جب امام قرأت کرےتو خاموش رہو سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’امام اس لئے مقرر کیا جاتا ہے کہ اس کی پیروی کی جائے، چنانچہ جب وہ اللہ اکبر کہتے تو تم اللہ اکبر کہو، جب وہ قراءت کرے تو خاموش رہو، اور جب وہ ( غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَ لَا الضَّآلِّيْنَ ) پڑھے تو آمین کہو، جب وہ رکوع کرے تو رکوع کرو، جب وہ ( سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ) کہے تو کہو(اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ) ’’اے اللہ! اے ہمارے رب! تیرے ہی لئے تعریفیں ہیں‘‘جب وہ سجدہ کرے تو تم سجدہ کرو اور جب وہ بیٹھ کر نماز پڑھائے تو تم سب بیٹھ کر نماز پڑھو‘‘۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقتدی کو امام کی اقتدا میں سورہ فاتحہ پڑھنے کی ممانعت فرمادی۔ یہ حدیث قرآن پاک اور دوسری احادیث کے موافق ہے اور صحیح ہے جبکہ آپ کی پیش کردہ حدیث کا متن قرآن اور دیگر صحیح احادیث سے متصادم ہے اور ضعیف بھی ہے۔ لہٰذا یہی صحیح ہے کہ امام کی اقتدا میں مقتدی خود قراءت نہیں کرے گا بلکہ امام کی قراءت اس کو کفایت کرے گی۔

اس آیت کریمہ کی تفسیر میں ابن جریر طبری نے تقریبا 36 اقوال نقل کئے ہیں جن میں سے کچھ مطلق ہیں اور کچھ مقید ،لیکن ان اقوال میں کہیں یہ قول نہیں ہے کہ لوگ سورہ فاتحہ پڑھ رہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس سورت کے پڑھنے سے روکا ہو۔ خود بھٹی نے اوپر جتنے اقوال نقل کئے ہیں انمیں کہیں یہ نہیں ہے کہ لوگ اس سورت کو پڑھ رہے تھے تو انہیں اسکے پڑھنے سے روک دیا گیا ۔
سورہ فاتحہ قرآن کی 114 سوتوں میں سے ایک ہے۔ اسی سورہ کو اللہ تعالیٰ نے ”قرآن العظیم“ کہا ہے (الحجر) اور اللہ تعالیٰ نے ہی ”قرآن“ کی قراءت کے وقت قراءت کو منع فرمایا ہے اور سننے کا حکم دیا ہے۔ حقیقتا اس عظیم سورت (سورۃ الفاتحہ) کی تلاوت کے وقت خاموش رہنے کا حکم خصوصی طور پر اور دیگر سورتوں کا عمومی طور پر فرمایا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسی سورہ فاتحہ کو ”قرآن العظیم“ (بخاری)کہا اور اس کی قراءت کے وقت خاموشی سے سننے کا حکم صادر فرمایا۔
اب جس کا جی چاہے وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کرتے ہوئے کفار کا شیوہ اپنائے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تربیت یافتہ صحابہ کرام کا۔

یہ حقیقت ہے کہ جب عقل پر خناسیت کا پردہ پڑ جاے تو ہر جگہ خناسیت ہی نظر آتی ہے ۔
جناب آپ ہی اپنی اداؤں پہ ذرا غور کریں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں بھٹی سے یہ سوال کرتا ہوں کہ اگر یہ آیت نماز کے باے میں ہے اور اس مین ممانعت قرات دکھاتے ہو تو اس آیت کا کیا جواب دوگے جو نماز کے بارے ہی نازل ہوئی ہے اور اس میں قرات کو ضروری قرار دیا گیا ہے وہ آیت ہے (فاقرءواما تیسر من القرآن )المزمل:20۔۔ اب تو دونوں آیتوں میں ٹکراو پیدا ہوگیا حالانکہ کلام اللہ میں ٹکراو نہیں ہے اور جو کلام اللہ میں ٹکراو دکھائیگا اسکا ایمان خطرے میں ہے ۔
جناب نے خود ہی لکھا ہے؛
یہ حقیقت ہے کہ جب عقل پر خناسیت کا پردہ پڑ جاے تو ہر جگہ خناسیت ہی نظر آتی ہے
جناب اس آیت(فاقرءواما تیسر من القرآن ) کا تعلق یا تو منفرد سے ہے یا پھر امام سے اس میں مقتدی کو کیوں زبردستی گھسیڑ رہے ہو۔ مقتدی کو تو سننے کا حکم ہے اور یہ حکم اس آیت (وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ) میں ہے۔ أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآَنَ أَمْ عَلَى قُلُوبٍ أَقْفَالُهَا
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
خوب یاد رکھیں کہ :
روزانہ پنج وقتہ نماز کی کل سترہ رکعات فرض ہیں ،یعنی جماعت کے ساتھ سترہ ۱۷ رکعات پڑھی جاتی ہیں ،
ان میں صرف چھ رکعت میں جہری قراءت ہوتی ہے ، باقی گیارہ میں سراً پڑھا جاتا ہے ،
اور آیت کریمہ :( وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا ) ’’ اور جب بھی قرآن پڑھا جائے ،تو توجہ سے سنو ، اور خاموش رہو ‘‘
اگر اس آیت کریمہ کو مقتدی کیلئے بھی مانا جائے تو ۔۔مقتدی جہری رکعات جو صرف چھ ہیں ، میں امام کی قراءت سننے کیلئے خاموش رہے گا ۔باقی گیارہ رکعات میں اس کیلئے کیا حکم ہوگا ؟
اور نماز فجر کی جماعت ہوتے ہوئے جو مقلدین سنتیں پڑھ رہے ہوتے ہیں ،(جب امام جہری قراءت کر رہا ہوتا ہے ،اور اس دوران آنے والا مقلد قراءت سننے کی بجائے ،اپنی سنتیں پڑھنے لگتا ہے ) اس کی ’’ تخصیص ‘‘ تقلیدی مفتیوں نے قرآن کی کس آیت مبارکہ سے اخذ کی ہے ؟
اور یا رہے کہ :
اس کی تخصیص قرآن سے ثابت کرنا ضروری ہے کیونکہ امام کی پیچھے فاتحہ پڑھنے والوں کو مقلدین یہی کہتے ہیں ۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اور یہ آیت ( وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ ) پیش کرنے والے مقلد پتا نہیں کیوں ۔۔ختم شریف ۔۔پڑھتے وقت بھول جاتے کہ وہ سب ہی بالجہر قرآن پڑھ رہے ہیں ،
کوئی کسی کی نہیں سنتا ۔۔شاید اس وقت حلوے کی طلب انہیں اندھا کردیتی ہے ۔
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
روزانہ پنج وقتہ نماز کی کل سترہ رکعات فرض ہیں ،یعنی جماعت کے ساتھ سترہ ۱۷ رکعات پڑھی جاتی ہیں ،
ان میں صرف چھ رکعت میں جہری قراءت ہوتی ہے ، باقی گیارہ میں سراً پڑھا جاتا ہے ،
اور آیت کریمہ :( وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا ) ’’ اور جب بھی قرآن پڑھا جائے ،تو توجہ سے سنو ، اور خاموش رہو ‘‘
اگر اس آیت کریمہ کو مقتدی کیلئے بھی مانا جائے تو ۔۔مقتدی جہری رکعات جو صرف چھ ہیں ، میں امام کی قراءت سننے کیلئے خاموش رہے گا ۔باقی گیارہ رکعات میں اس کیلئے کیا حکم ہوگا ؟
کیا جناب اس کے قائل و فائل ہیں کہ جہری نماز میں مقتدی قراءت نہ کرے؟؟؟؟؟

اس کی تخصیص قرآن سے ثابت کرنا ضروری ہے کیونکہ امام کی پیچھے فاتحہ پڑھنے والوں کو مقلدین یہی کہتے ہیں ۔
اس قسم کی شرائط لگانا یہود کا شیوہ تھا
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
لا صلوۃ لمن لم یقرا بفاتحۃ الکتاب میں خود قراءت کرنے کا حکم تنہا نماز پڑھنے والے(اور امام) کے لئے ہے جیسا کہ ابوداؤد میں اس حدیث کو بیان کرکے لکھا ہے قَالَ سُفْيَانُ لِمَنْ يُصَلِّي وَحْدَهُ۔
دوسرے یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ امام کی قراءت مقتدی کو کفایت کرتی ہے (ابن ماجہ)۔ لہٰذا مقتدی کی نماز بغیر سورہ فاتحہ کے نہیں بلکہ سورہ فاتحہ والی ہی ہوئی۔
اس متفق علیہ حدیث میں حکم عام ہے۔کہ جو بھی نماز میں سورہ فاتحہ نہیں پڑھے گا ،اس کی نماز نہیں ۔اس عموم کی تخصیص کیلئے بھی ایسی اعلیٰ درجہ کی حدیث چاہئے ،
اس درجہ صحیح اور واضح حدیث نبوی میں تخصیص ڈیڑھ سو سال بعد کے ایک عالم کے قول سے نہیں ہو سکتی ۔
اور ۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِنَّمَا جُعِلَ الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ، فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا، وَإِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوا، وَإِذَا قَالَ: {غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ} [الفاتحة: 7] ، فَقُولُوا: آمِينَ،
سیدنا ابوہریرہ کی یہ حدیث شریف (ما عدا الفاتحہ )یعنی امام کی فاتحہ کے بعد کی قراءت کیلئے ہے ؛
اس کی دلیل خود جناب ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی صحیح مسلم میں نقل کردہ حدیث میں بصراحت موجود ہے :
« عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «من صلى صلاة لم يقرأ فيها بأم القرآن فهي خداج» ثلاثا غير تمام. فقيل لأبي هريرة: إنا نكون وراء الإمام؟ فقال: «اقرأ بها في نفسك»
ترجمہ « جس نے بھی نماز میں سورہ فاتحہ نہیں پڑھی ،اس کی نماز ناقص ،اور غیر مکمل ہے ۔تو سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے پوچھا گیا ،جب ہم امام کے پیچھے ہوں تو کیا کریں؟
فرمایا :تم سورہ فاتحہ آہستہ پڑھ لو ۔‘‘
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
اس قسم کی شرائط لگانا یہود کا شیوہ تھا
آپ کو شاید علم نہیں ، یاآپ بھول گئے کہ ۔۔تقلید شیوہ یہود ۔۔ہے ،جنہوں نے اپنے علماء و مشائخ کو ۔۔رب کا درجہ دے رکھا تھا ۔۔
ان کے ہر قول کو ’’ خدائی حکم ‘‘ سمجھ قبول کرتے تھے ۔
قرآن کا بیان ہے :
(( اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ ))
’’ انہوں نے اپنے علماء اور درویشوں کو اللہ کے سوا اپنا رب بنا لیا ‘‘
اس کی تفسیر خود امام اعظم جناب نبی اکرم ﷺ نے کی ہے :
’’ عن عدي بن حاتم، قال: أتيت النبي صلى الله عليه وسلم وفي عنقي صليب من ذهب. فقال: «يا عدي اطرح عنك هذا الوثن»، وسمعته يقرأ في سورة براءة: {اتخذوا أحبارهم ورهبانهم أربابا من دون الله} [التوبة: 31]، قال: «أما إنهم لم يكونوا يعبدونهم، ولكنهم كانوا إذا أحلوا لهم شيئا استحلوه، وإذا حرموا عليهم شيئا حرموه»:
سیدنا عدی بن حاتم کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ کے پاس آیا میری گردن میں سونے کی صلیب تھی۔ آپ نے فرمایا ''عدی! اس بت کو پرے پھینک دو ۔ '' اور میں نے آپ کو سورۃ برأت کی یہ آیت پڑھتے سنا (اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَالْمَسِيْحَ ابْنَ مَرْيَمَ ۚ وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِيَعْبُدُوْٓا اِلٰــهًا وَّاحِدًا ۚ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ ۭسُبْحٰنَهٗ عَمَّا يُشْرِكُوْنَ ) التوبہ :31) پھر آپ نے فرمایا وہ لوگ ان مولویوں اور درویشوں کی عبادت نہیں کرتے تھے، لیکن جب یہ علماء اور درویش کسی چیز کو حلال کہہ دیتے تو وہ حلال جان لیتے اور جب کسی چیز کو حرام کہہ دیتے تو حرام سمجھ لیتے تھے (ترمذی۔ ابو اب التفسیر)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہی روش ان مقلدین کی ہے، جن کا مذہب ہے کہ :
’’ ہمارے علماء و فقہاء کا ہر ہر قول عین حق ہے ،
بلکہ خود ان کے مولوی واشگاف اپنے آپ کو اس درجہ پر فائز بتاتے نہیں شرماتے :

تذکرۃ الرشید (۲/۱۷میں رشید احمد گنگوھی کے متعلق لکھا ہوا ہے کہ :’’ آپ نے کئی مرتبہ بحیثیت تبلیغ یہ الفاظ زبان فیض ترجمان سے فرمائے‘ سن لو حق وہی ہے جو رشید احمد کی زبان سے نکلتا ہے اور بقسم کہتا ہوں کہ میں کچھ نہیں مگر اس زمانے میں ہدایت و نجات موقوف میری اتباع پر...‘‘
 
Last edited:
Top