• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حنفی مقلدوں سے ایک سوال؟

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
اب اگر اللہ کے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی رضی اللہ عنہ نے خلفاء راشدین حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنھما کے بات کے رد پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان پیش کیا تو اس کا سہارا لے کر دل کے ارمان کیوں پورے کئے جارہے ہیں یہ بات کم سے کم میں تو سمجھنے سے قاصر ہوں اور وہ جو ایران میں سزاؤں کے تعلق سے سوال کیا تھا اس پر آپ کے جواب کا منتظر ہوں بہرام یعنی کتنی عجب بات ہے کہ ایک طرف ابن عباس رضی اللہ عنہ امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ مسائل پر مشاورت بھی کرتے ہیں یعنی شورٰی کا حصہ بھی ہیں تو عقل کے اندھوں کے لئے یہ مثال کافی ہے کہ وہ خلیفہ مانتے تھے جب ہی تو ان کی شورٰی میں تھے۔ کیا سورۃ النصر کی آیت کے تعلق سے حضرت عمر اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما کی رائے ایک نہیں تھی۔
حضرت حضرت عمر اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی مشاورت کس طرز پر ہوتی تھی اس کا منظر امام طبری نے تاریخ طبری میں خلافت اور نبوت کا اجتماع کے عنوان پیش کیا ہے آپ کی نذر کرتا ہوں
خلافت اور نبوت کا اجتماع

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ابن خطاب اور ان کے ساتھی شعر و شاعری پر گفتگو کررہے تھے کسی نے کہا فلان سب سے بڑا شاعر ہے جب میں آگیا تو حضرت عمر نے فرمایا کہ تمہارے پاس اس فن کا سب سے بڑا عالم آگیا ہے کون سب سے بڑا شاعر ہے ؟ میں نے کہا زہیر بن ابی سلمی آپ نے فرمایا تم اس کے کچھ اشعار پڑھ کر سناؤں جس سے تمہارا یہ دعویٰ ثابت ہوسکے
زہیر کے دیگر اشعار
زہیر نے قبیلہ عبداللہ بن غظغان کے کچھ افراد کی تعریف میں یہ شعر کہے ہیں (اشعار کا ترجمہ )
1:۔ اگر کوئی جماعت اپنی اولیت یا بزرگی کی وجہ سے کرم و شرافت کے آفتاب پر اگر بیٹھ سکتی ہے تو وہ اس پر بیٹھ جائے گی
2:۔ یہ وہ جماعت ہے جن کے والد کا نام سنان ہے اور جب ان کے خاندان کا ذکر ہوگا تو ان کے ابا و اجداد بھی پاکیزہ ہونگے اوران کی جو اولاد پیدا ہوئی ہے وہ بھی پاکیزہ نسب ہے
3:۔ امن و امان کی حالت میں وہ انسان ہیں اور جب جنگ کے لئے بلائے جائیں تو جنات ہیں جب وہ اکھٹا ہوتے ہیں تو بہادر اور ہمت والے سردار ثابت ہوتے ہیں
4:۔ انھیں قابل رشک و حسد نعمتیں عطاء ہوتی ہیں مگر اللہ ان سے قابل رشک و حسد نعمتوں کو چھینتا نہیں ہے

اشعار کا صحیح مصداق
حضرت عمر نے کہا کہ "اس نے بہت خوب اشعار کہے میرے علم میں قبیلہ بنو ہاشم سے بڑھ کر کوئی ان اشعار کا صحیح مصداق نہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قرابت داری کی وجہ سے انھیں فضیلت حاصل ہے "
میں نے کہا " آپ نے صحیح بات کہی ہے اور توفیق خداوندی آپ کے شامل حال رہی ہے "
خلافت کا معاملہ
آپ نے فرمایا اے ابن عباس کیا تم جانتے ہو کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد تمہار قوم کو تم سے کس چیز نے روکا ہے ؟
میں نے اس کلا جواب دینا پسند نہیں کیا اس لئے میں نے کہا " اگر میں نہیں جانتا تو آپ مجھ اس سے باخبر کردیں گے
قریش کی رائے

آپ نے فرمایا " وہ نہیں چاہتے تھے کہ تمہارے اندر نبوت اور خلافت دونوں چیزیں جمع رہیں مبادا کہ تم اپنی قوم سے بد سلوکی کرو ( جس طرح اس سے پہلے تم نے قریشیوں کو جنگ بدر جنگ احد اور جنگ خندق میں مار مار کر ان سے بد سلوکی کی ) اس لئے قریش نے اسے ( خلافت کو ) اپنے لئے پسند کیا کہ ان کی رائے درست تھی اور وہ اس میں کامیاب رہے ۔"
حضرت ابن عباس کی رائے

میں نے کہا "اے امیر المومینین اگر آپ مجھے بات کرنے کی اجازت دیں اور مجھ سے ناراض نہ ہو تو کچھ عرض کروں "
آپ نے فرمایا " اے ابن عباس تمہیں بولنے کی اجازت ہے " میں نے کہا " آپ نے فرمایا کہ قریش نے خلافت کے لئے اپنا انتخاب کیا اور اس میں وہ درست تھے اور کامیاب رہے اس کے بارے میں یہ عرض ہے کہ قریش اپنے لئے یہ انتخاب اس وقت کرلیتے جب اللہ تعالیٰ نے انہیں اختیار دیا تھا تو اس وقت یہ صحیح معاملہ نہ قابل رد اور ناقابل حسد ہوتا "
نا پسندیدہ جماعت

آپ نے یہ بھی فرمایا کہ وہ لوگ نہیں چاھتے تھے کہ نبوت اور خلافت دونوں چیزیں بنو ہاشم میں جمع ہوجائیں تو اللہ تعالیٰ نے بھی ایک جماعت کی ناپسندیدگی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے
" یہ اس وجہ سے ہوا کہ انھوں نے اس (وحی کو) جو اللہ نے نازل کی پسند نہیں کیا اس لئے اس نے ان کے اعمال اکارت کردئے "

مخالفانہ خبریں

اس پر حضرت عمر نے فرمایا " ہائے افسوس خدا کی قسم اے ابن عباس مجھے تمہارے بارے میں ایسی خبریں ملتی تھیں جن پر یقین کرنا مجھے پسند نہیں تھا کیونکہ اس سے تمہاری قدر منزلت میرے دل سے دور ہوجانے کا اندیشہ تھا "

حضرت ابن عباس کا سوال

میں نے کہا " وہ کیا باتیں ہیں اگر وہ صحیح ہیں تو آپ کے لئے مناسب نہیں کہ میرا مرتبہ گھٹائیں اور اگر وہ جھوٹی ہیں تو میرے جیسا انسان ایسے دور کرسکتا ہے "

حسد اور ظلم کا الزام

آپ نے فرمایا " مجھے اطلاع ملی ہے کہ تم یہ کہتے ہو کہ انھوں نے خلافت سے ہمیں حسد اور ظلم کی وجہ سے دور رکھا ہے "
الزام کا جواب

آپ نے ظلم کا کہا تو وہ ہر عقلمند اور جاہل پر ظاہر ہے جہاں تک حسد کی بات ہے تو ابلیس نے حضرت آدم پر بھی کیا تھا اور انہیں کی ہم اولاد ہیں جن پر حسد کیا جارہا ہے "
آزادی رائے

حضرت عمر نے فرمایا " اے بنو ہاشم تمہارے دلوں سے حسد اور کینہ کبھی نہ جائے گا " میں نے کہا " ٹھہرئے آپ ایسے لوگوں کے دلوں پر الزام نہ لگائیں جن کی الائش کو اللہ نے دور کردیا ہے اور ان کے دلوں کو حسد اورمکر وفریب کی الائش سے بالکل پاک وصاف کردیا ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قلب مبارک بھی بنی ہاشم کے قلوب کا ایک حصہ ہے
اس پر حضرت عمر نے مجھ سے کہا کہ " تم میرے پاس سے چلے جاؤ "
(نوٹ لال رنگ والے جملے کی وضاحت میری طرف سے ہے )

دیکھا آپ نے مشاورت کا اندازکہ خلافت سے کس سازش کے تحت بنو ہاشم کو دور رکھا گیا اور کس طرح حضرت عمر نے بنو ہاشم کے قلوب پر حسد اور کینہ کا الزام لگایا مگر شاباش ہے حضرت عمر کے مشیر کو کہ کس طرح اس الزام کا منہ توڑ جواب دے کر لاجواب کردیا ۔
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436


ایک ایسے شخص کی روایت بھی دلیل کے طور پر پیش کی جارہی ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے زبان نبی سے لعنت کی تھی جبکہ یہ اپنے باپ کے صلب میں تھا
وربِّ هذَا البيتِ لقدْ لعنَ اللهُ الحكَمَ وما وَلدَ على لسانِ نبيهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلمَ

الراوي: عبدالله بن الزبير المحدث:الألباني - المصدر: السلسلة الصحيحة - الصفحة أو الرقم: 7/720
خلاصة حكم المحدث: إسناده صحيح


حضرت عبدالله بن زبيرسے روایت ہے کہ رب کعبہ کی قسم اللہ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان مبارک سے حکم اور اس کی اولاد پر لعنت کی ہے ۔

یہ اس وقت کی بات ہے جب مروان بن حکم بن ابی العاص اپنے باپ کے صلب میں تھا

كنت بين الحسن والحسين ومروان يتسابان فجعل الحسن يسكت الحسين فقال مروان أهل بيت ملعونون فغضب الحسن وقال قلت أهل بيت ملعونون فوالله لقد لعنك الله وأنت في صلب أبيك

الراوي: مصدع أبو يحيى الأعرج المحدث:الهيثمي - المصدر: مجمع الزوائد - الصفحة أو الرقم: 10/75

حضرت حسن بن علي بن أبي طالب سے روایت ہے کہ میں حسن وحسین علیہا السلام مروان کے پاس تھے کہ ایک دوسرے کو سب و شتم کر رہے ہیں حسن علیہ السلام حسین علیہ السلام کو کچھ کہنے سے مانع ہو رہے تھے لیکن مروان نے کہا اہل بیت سب کے سب ملعون اور لعنتی ہیں امام حسن علیہ السلام غضبناک ہو کر فرماتے ہیں :کیا اہل بیت سلام اللہ علیہم ملعون ہیں؟ اللہ کی قسم اللہ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان مبارک سے تجھ پر لعنت کی ہے اس زمانہ میں جب تو اپنے باپ کی صلب میں تھا



کیا مروان بن حکم نے سب و شتم کیا؟

حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ذکر مروان بن حکم نے اپنے خطبے میں "ابو تراب" کہہ کر کیا تو اسے ان باغیوں نے "سب و شتم" قرار دے دیا۔صحیح بخاری کی روایت ہے:

عبداللہ بن مسلمہ نے ہم سے روایت بیان کی، ان سے عبدالعزیز بن ابی حازم نے اور ان سے ان کے والد نے کہ : ایک شخص حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور بولا: " امیر مدینہ (مروان بن حکم کے خاندان کا کوئی شخص) منبر پر کھڑے ہو کر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو سبّ کر رہے ہیں۔ " انہوں نے پوچھا : "وہ کیا کہتے ہیں؟" بولا: "وہ انہیں ابو تراب کہہ رہے ہیں۔" سہل یہ سن کر ہنس پڑے اور بولے: "واللہ! یہ نام تو انہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا تھا اور انہیں اس نام سے زیادہ کوئی اور نام پسند نہ تھا۔ " میں (ابو حازم) نے ان سے پوچھا: "ابو عباس، یہ کیا معاملہ ہے؟" وہ بولے: علی، فاطمہ کے گھر میں داخل ہوئے، پھر باہر نکلے اور مسجد میں سو گئے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے (سیدہ فاطمہ) سے پوچھا: "آپ کے چچا زاد کہاں گئے؟" وہ بولیں: "مسجد میں۔" آپ باہر تشریف لائے تو دیکھا کہ ان (حضرت علی) کی چادر ان کی پیٹھ سے الگ ہوئی ہے اور مٹی سے ان کی کمر بھری ہوئی ہے۔ آپ نے ان کی کمر سے مٹی جھاڑ کر دو مرتبہ فرمایا: "ابو تراب (مٹی والے!) اب اٹھ بھی جاؤ۔

صحیح مسلم میں اس روایت کا ایک مختلف ورژن بیان ہوا ہے:

قتیبہ بن سعید، عبدالعزیز بن ابی حازم سے، وہ اپنے والد سے اور وہ حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ مروان کے خاندان کا ایک آدمی مدینہ منورہ میں کسی سرکاری عہدے پر مقرر کیا گیا۔ اس نے حضرت سہل بن سعد کو بلایا اور انہیں حکم دیا کہ وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو برا کہیں۔ حضرت سہل نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔ اس عہدے دار نے حضرت سہل سے کہا: "اگر آپ انکار کر رہے ہیں تو یہی کہہ دیجیے کہ ابو تراب پر اللہ کی لعنت ہو۔" حضرت سہل فرمانے لگے: "علی کو تو ابو تراب سے زیادہ کوئی نام محبوب نہ تھا۔ جب انہیں اس نام سے پکارا جاتا تو وہ خوش ہوتے تھے۔ " وہ عہدے دار حضرت سہل سے کہنے لگا: "یہ بتائیے کہ ان کا نام ابو تراب کیوں رکھا گیا۔ ۔۔۔ (اس کے بعد حضرت سہل رضی اللہ عنہ نے وہی بات سنائی جو اوپر بیان ہوئی ہے۔)

اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ مروان کے خاندان کا ایک شخص ، جس کا نام معلوم نہیں، حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بغض رکھتا تھا۔ روایت میں نہ تو اس کا نام مذکور ہے اور نہ ہی اس کا عہدہ۔ یہ وہ واضح ہے کہ وہ گورنر نہیں تھا۔ پھر اس نے اپنے بغض کا اظہار برسر منبر نہیں بلکہ نجی محفل میں کیا۔ اس دور میں چونکہ ناصبی فرقے کا ارتقاء ہو رہا تھا، اس وجہ سے ایسے لوگوں کی موجودگی کا امکان موجود ہے۔ تاہم یہ نہ تو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا مقرر کردہ گورنر تھا اور نہ ہی کوئی اور اہم عہدے دار۔ کسی چھوٹے موٹے عہدے پر فائز رہا ہو گا اور اس کے زعم میں وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ پر سب و شتم کروانے چلا تھا لیکن حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے اسے منہ توڑ جواب دے کر خاموش کر دیا۔

مروان بن حکم سے متعلق طبری کی یہ روایت بھی قابل غور ہے:

علی بن حسین رضی اللہ عنہما نے مروان کے ساتھ یہ سلوک کیا تھا کہ جس زمانے میں بنو امیہ مدینہ سے نکالے گئے تھے، انہوں نے مروان کے مال و متاع کو اور ان کی بیوی ام ابان بنت عثمان رضی اللہ عنہ کو لٹنے سے بچا لیا تھا اور اپنے گھر میں پناہ دی تھی۔ پھر جب ام ابان طائف کی طرف روانہ ہوئیں تو علی بن حسین نے ان کی حفاظت کے لیے اپنے بیٹے عبداللہ کو ان کے ساتھ کر دیا تھا۔ مروان نے اس احسان کا شکریہ بھی ادا کیا تھا۔

اس روایت میں 63/683 میں ہونے والی اہل مدینہ کی بغاوت کا ذکر ہے۔ جب اہل مدینہ نے یزید کے خلاف بغاوت کی تو انہوں نے مدینہ میں مقیم بنو امیہ پر حملے کیے۔ اس موقع پر حضرت علی بن حسین زین العابدین رضی اللہ عنہما سامنے آئے اور انہوں نے مروان اور ان کی اہلیہ کو گھر میں پناہ دی۔ اگر مروان بن حکم ، برسر منبر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو گالیاں دیتے، تو کیا انہی حضرت علی کے پوتے زین العابدین انہیں اپنے گھر میں پناہ دیتے؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی دو بیٹیوں کی شادیاں مروان کے دو بیٹوں معاویہ اور عبدالملک سے ہوئیں۔ اس کے علاوہ آپ کی متعدد پوتیوں کی شادیاں مروان کے گھرانے میں ہوئی۔ اگر مروان بن حکم نے ایسی حرکت کی ہوتی تو پھر کم از کم یہ رشتے داریاں ہمیں نظر نہ آتیں۔

حوالہ جات

بخاری، کتاب فضائل الصحابہ، حدیث 3500

مسلم، کتاب فضائل الصحابہ، حدیث 2409

طبری۔ 4/1-263

ابن حزم، جمہرۃ الانساب العرب۔ 38, 87۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
نماز تراویح کو کون بدعت کہہ رہا اور نہ ہی اس بات سے انکار ہے کہ اس کی ترغیب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زور دے کر دلائی

ہاں یہی بات ہے کہ نماز تراویح کی باجماعت ادائیگی وہ بھی پورے رمضان فرض نماز والے مصلے پر بدعت ہے کیونکہ اس طرز پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز تراویح کبھی نہیں پڑھائی
اسی لیےجب حضرت عمر نے مسلمانوں کو ایک قاری پر جمع کردیا اورانہيں باجماعت نماز تراویح پڑھنے کا کہا لیکن خود کبھی نہیں پڑھی یا اگر پڑھی ہے تو اس کی دلیل عنایت کی جائے اور لوگوں کو اس طرز پر نماز تراویح پڑھتے دیکھ کر انھوں نے بھی اس طرز عمل کو بدعت ہی کہا اور سلفی عقیدے کےمطابق ہربدعت بدعت ضلالہ ہی ہوتی ہے اچھی نہیں ہوتی یا تو اب یہ مان لیا جائے کہ بدعت اچھی اور بری دونوں طرح کی ہوتی ہے یا پھر نماز تراویح باجماعت وہ بھی پورے رمضان فرض نماز والے مصلے پر بدعت ہے مان لیا جائے


بعض لوگوں كا دعوى ہے كہ يہ عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ كا طريقہ اور سنت ہے، اور اس كى دليل يہ ديتے ہيں كہ:
عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ نے ابى بن كعب رضى اللہ تعالى عنہ اور تميم دارى رضى اللہ تعالى عنہ كو حكم ديا كہ وہ لوگوں كو گيارہ ركعات پڑھائيں، اور ايك رات عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ باہر نكلے تو لوگ نماز ادا كر رہے تھے، تو عمر رضى اللہ تعالى عنہ كہنے لگے:
" يہ بدعت اور طريقہ اچھا ہے"
يہ اس كى دليل ہے كہ اس سے قبل يہ مشروع نہ تھى .....
ليكن يہ قول ضعيف ہے، اور اس كا قائل صحيحين وغيرہ كى اس حديث سے غافل ہے كہ:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنے صحابہ كرام كو تين راتيں قيام كروايا اور چوتھى رات نماز نہ پڑھائى، اور فرمايا: مجھے خدشہ تھا كہ تم پر فرض نہ كر ديا جائے"
صحيح بخارى حديث نمبر ( 872 ).
اور مسلم شريف كے الفاظ يہ ہيں:
" ليكن مجھے يہ خوف ہوا كہ تم پر رات كى نماز فرض كر دى جائے اور تم اس كى ادائيگى سے عاجز آجاؤ"
صحيح مسلم حديث نمبر ( 1271 ).
لہذا سنت نبويہ سے تراويح ثابت ہيں، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے تسلسل كے ساتھ جارى نہ ركھنے كا مانع ذكر كيا ہے نہ كہ اس كى مشروعيت كا، اور وہ مانع اور علت فرض ہو جانے كا خدشہ تھا، اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى وفات سے يہ خوف زائل ہو چكا ہے، كيونكہ جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم فوت ہو گئے تو وحى بھى منقطع ہو گئى اور اس كى فرضيت كا خدشہ بھى جاتا رہا، لہذا جب انقطاع وحى سے علت زائل اور ختم ہو چكى جو كہ فرضيت كا خدشہ اور خوف تھا، تو معلول كا زوال ثابت ہو گيا، توپھر اس وقت اس كا سنت ہونا واپس پلٹ آئے گا. اھـ
ديكھيں: الشرح الممتع لابن عثيمين ( 4 / 78 ).
اور صحيحين ميں عائشہ رضى اللہ تعالى عنہ سے حديث مروى ہے وہ بيان كرتى ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم جو كام بھى كرنا پسند كرتے اور اسے صرف اس خدشہ سے ترك كر ديتے تھے كہ لوگ اس پر عمل شروع كردينگے اور يہ ان پر فرض كر ديا جائے گا...
صحيح بخارى حديث نمبر ( 1060 ) صحيح مسلم صلاۃ المسافرين حديث نمبر ( 1174 ).
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
بعض لوگوں كا دعوى ہے كہ يہ عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ كا طريقہ اور سنت ہے، اور اس كى دليل يہ ديتے ہيں كہ:
عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ نے ابى بن كعب رضى اللہ تعالى عنہ اور تميم دارى رضى اللہ تعالى عنہ كو حكم ديا كہ وہ لوگوں كو گيارہ ركعات پڑھائيں، اور ايك رات عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ باہر نكلے تو لوگ نماز ادا كر رہے تھے، تو عمر رضى اللہ تعالى عنہ كہنے لگے:
" يہ بدعت اور طريقہ اچھا ہے"
يہ اس كى دليل ہے كہ اس سے قبل يہ مشروع نہ تھى .....
ليكن يہ قول ضعيف ہے، اور اس كا قائل صحيحين وغيرہ كى اس حديث سے غافل ہے كہ:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنے صحابہ كرام كو تين راتيں قيام كروايا اور چوتھى رات نماز نہ پڑھائى، اور فرمايا: مجھے خدشہ تھا كہ تم پر فرض نہ كر ديا جائے"
صحيح بخارى حديث نمبر ( 872 ).
اور مسلم شريف كے الفاظ يہ ہيں:
" ليكن مجھے يہ خوف ہوا كہ تم پر رات كى نماز فرض كر دى جائے اور تم اس كى ادائيگى سے عاجز آجاؤ"
صحيح مسلم حديث نمبر ( 1271 ).
لہذا سنت نبويہ سے تراويح ثابت ہيں، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے تسلسل كے ساتھ جارى نہ ركھنے كا مانع ذكر كيا ہے نہ كہ اس كى مشروعيت كا، اور وہ مانع اور علت فرض ہو جانے كا خدشہ تھا، اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى وفات سے يہ خوف زائل ہو چكا ہے، كيونكہ جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم فوت ہو گئے تو وحى بھى منقطع ہو گئى اور اس كى فرضيت كا خدشہ بھى جاتا رہا، لہذا جب انقطاع وحى سے علت زائل اور ختم ہو چكى جو كہ فرضيت كا خدشہ اور خوف تھا، تو معلول كا زوال ثابت ہو گيا، توپھر اس وقت اس كا سنت ہونا واپس پلٹ آئے گا. اھـ
ديكھيں: الشرح الممتع لابن عثيمين ( 4 / 78 ).
اور صحيحين ميں عائشہ رضى اللہ تعالى عنہ سے حديث مروى ہے وہ بيان كرتى ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم جو كام بھى كرنا پسند كرتے اور اسے صرف اس خدشہ سے ترك كر ديتے تھے كہ لوگ اس پر عمل شروع كردينگے اور يہ ان پر فرض كر ديا جائے گا...
صحيح بخارى حديث نمبر ( 1060 ) صحيح مسلم صلاۃ المسافرين حديث نمبر ( 1174 ).
صحیح بخاری کی روایت کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز تراویح کی کیفیت
" نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجدنبوی میں چٹائی سے گھیر کر ایک حجرہ بنا لیا اور رمضان کی راتوں میں اس کے اندر نماز پڑھنے لگے پھر اور لوگ بھی جمع ہو گئے تو ایک رات آنحضرت کی آواز نہیں آئی۔ لوگوں نے سمجھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے ہیں۔ اس لیے ان میں سے بعض کھنگار نے لگے تاکہ آپ باہر تشریف لائے ' پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تم لوگوں کے کام سے واقف ہوں ' یہاں تک کہ مجھے ڈر ہوا کہ کہیں تم پر یہ نماز تراویح فرض نہ کر دی جائے اور اگر فرض کر دی جائے تو تم اسے قائم نہیں رکھ سکو گے۔ پس اے لوگو! اپنے گھروں میں یہ نماز پڑھو کیونکہ فرض نماز کے سوا انسان کی سب سے افضل نماز اس کے گھر میں ہے۔"
صحیح بخاری : حدیث نمبر : 7290
ہم سے محمد بن سلام بیکندی نے بیان کیا ، کہا کہ ہم سے عبدہ بن سلیمان نے یحییٰ بن سعید انصاری کے واسطہ سے بیان کیا ، انہوں نے عمرہ بنت عبدالرحمن سے ، انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ، آپ نے بتلایا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم رات میں اپنے حجرہ کے اندر ( تہجد کی ) نماز پڑھتے تھے ۔ حجرے کی دیواریں پست تھیں اس لیے لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ لیا اور کچھ لوگ آپ کی اقتدا میں نماز کے لیے کھڑے ہو گئے ۔ صبح کے وقت لوگوں نے اس کا ذکر دوسروں سے کیا ۔ پھر جب دوسری رات آپ کھڑے ہوئے تو کچھ لوگ آپ کی اقتدا میں اس رات بھی کھڑے ہو گئے ۔ یہ صورت دو یا تین رات تک رہی ۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ رہے اور نماز کے مقام پر تشریف نہیں لائے ۔ پھر صبح کے وقت لوگوں نے اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا کہ میں ڈرا کہ کہیں رات کی نماز ( تہجد ) تم پر فرض نہ ہو جائے ۔ ( اس خیال سے میں نے یہاں کا آنا ناغہ کر دیا ) (صحیح بخاری ٧٢٩ کتاب الاذان)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسجد نبوی میں اپنے لئے ایک جگہ گھیر کر چٹائی سے حجرہ بنا لیا جس طرح کہ رمضان میں اعتکاف میں بیٹھنے والے بنا تے ہیں اور رمضان کی راتوں میں اس کے اندر نماز پڑھنے لگے اور دوسری روایت کے مطابق اس حجرے کی دیواریں پست تھی اس لئے لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھ لیا اور کچھ لوگ آپ کی اقتدا میں نماز کے لیے کھڑے ہو گئے جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسا کرنے کا انھیں حکم نہیں دیا تھا اور یہ صورت حال ود یا تین دن رہی اس کے بعد آپ نے اس عمل کو ترک کردیا اور لوگوں کو حکم دیا کہ " پس اے لوگو! اپنے گھروں میں یہ نماز پڑھو کیونکہ فرض نماز کے سوا انسان کی سب سے افضل نماز اس کے گھر میں ہے۔"

فی زمانہ پڑھی جانے والی نماز تراویح کی کیفیت

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کے مطابق الگ حجرے میں نہیں بلکہ فرض نماز والے مصلے پر ہی نماز تراویح ادا کی جاتی ہے اس طرز پر نماز تراویح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت نہیں
رمضان کی راتوں میں نماز تراویح باجماعت دو یا تین دن نہیں جو کہ صحیح بخاری کی حدیث سے ثابت ہے بلکہ پورے رمضان نماز تراویح باجماعت کا اہتمام کیا جاتا ہے اس طرز پر نماز تراویح باجماعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت نہیں
نماز تراویح باجماعت پڑھنے کا حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی کو نہیں دیا بلکہ اس کے برعکس یہ حکم دیا کہ " پس اے لوگو! اپنے گھروں میں یہ نماز پڑھو کیونکہ فرض نماز کے سوا انسان کی سب سے افضل نماز اس کے گھر میں ہے۔"
اب جو عمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کے خلاف ہو وہ بدعت کس بناء پر نہیں ہوسکتا ایسی لئے حضرت عمر نے جب پہلے پہل اس طرز پر نماز تراویح کی رسم ڈالی تو اس رسم کو دیکھ کر انھوں نے بھی ایسے بدعت ہی کہا

جہاں تک بات ہے اس قول کی کہ نماز تراویح باجماعت اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پورے رمضان میں نہ پڑھی کہ کہیں یہ نماز امت پر فرض نہ ہوجائے اور چونکہ حضرت عمر کے زمانے میں وحى بھى منقطع ہو گئى اور اس كى فرضيت كا خدشہ بھى جاتا رہا، لہذا جب انقطاع وحى سے علت زائل اور ختم ہو چكى جو كہ فرضيت كا خدشہ اور خوف تھا، تو معلول كا زوال ثابت ہو گيا، توپھر اس وقت اس كا سنت ہونا واپس پلٹ آئے گا
لیکن کیسی دھاگہ میں کیسی نے یہ کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد بھی آیت کی منسوخی کا الہام صحابہ پر ہوتا رہا ہے جس کی پیروی صحیح العقیدہ مسلمان کرتےرہیں ہیں
درج ذیل لنک کی پوسٹ نمبر 42
http://forum.mohaddis.com/threads/۲-واسطوں-پر-بھروسا۔-نواقض-اسلام۔-ڈاکٹر-شفیق-الرحمن.15055/page-5

اب سوال یہ ہے کہ جب قرآن کی آیات کی منسوخی کا الہام صحابہ پر ہوسکتا ہے اور اس الہام کی پیروی کرنے والے لوگ ہی صحیح العقیدہ مانے جائیں گے تو پھر نماز تراویح باجماعت کی فرضیت کا الہام صحابہ پر کیوں نہیں ہوسکتا ؟
یا یہ الہام صرف قرآن کی آیات کی منسوخی تک محدود ہے دوسرے امور کے لئے نہیں تو اس کےلئے دلیل چاہئے ۔
والسلام
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
عبداللہ بن مسلمہ نے ہم سے روایت بیان کی، ان سے عبدالعزیز بن ابی حازم نے اور ان سے ان کے والد نے کہ : ایک شخص حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور بولا: " امیر مدینہ (مروان بن حکم کے خاندان کا کوئی شخص) منبر پر کھڑے ہو کر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو سبّ کر رہے ہیں۔ " انہوں نے پوچھا : "وہ کیا کہتے ہیں؟" بولا: "وہ انہیں ابو تراب کہہ رہے ہیں۔" سہل یہ سن کر ہنس پڑے اور بولے: "واللہ! یہ نام تو انہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا تھا اور انہیں اس نام سے زیادہ کوئی اور نام پسند نہ تھا۔ " میں (ابو حازم) نے ان سے پوچھا: "ابو عباس، یہ کیا معاملہ ہے؟" وہ بولے: علی، فاطمہ کے گھر میں داخل ہوئے، پھر باہر نکلے اور مسجد میں سو گئے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے (سیدہ فاطمہ) سے پوچھا: "آپ کے چچا زاد کہاں گئے؟" وہ بولیں: "مسجد میں۔" آپ باہر تشریف لائے تو دیکھا کہ ان (حضرت علی) کی چادر ان کی پیٹھ سے الگ ہوئی ہے اور مٹی سے ان کی کمر بھری ہوئی ہے۔ آپ نے ان کی کمر سے مٹی جھاڑ کر دو مرتبہ فرمایا: "ابو تراب (مٹی والے!) اب اٹھ بھی جاؤ۔

صحیح مسلم میں اس روایت کا ایک مختلف ورژن بیان ہوا ہے:

قتیبہ بن سعید، عبدالعزیز بن ابی حازم سے، وہ اپنے والد سے اور وہ حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ مروان کے خاندان کا ایک آدمی مدینہ منورہ میں کسی سرکاری عہدے پر مقرر کیا گیا۔ اس نے حضرت سہل بن سعد کو بلایا اور انہیں حکم دیا کہ وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو برا کہیں۔ حضرت سہل نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔ اس عہدے دار نے حضرت سہل سے کہا: "اگر آپ انکار کر رہے ہیں تو یہی کہہ دیجیے کہ ابو تراب پر اللہ کی لعنت ہو۔" حضرت سہل فرمانے لگے: "علی کو تو ابو تراب سے زیادہ کوئی نام محبوب نہ تھا۔ جب انہیں اس نام سے پکارا جاتا تو وہ خوش ہوتے تھے۔ " وہ عہدے دار حضرت سہل سے کہنے لگا: "یہ بتائیے کہ ان کا نام ابو تراب کیوں رکھا گیا۔ ۔۔۔ (اس کے بعد حضرت سہل رضی اللہ عنہ نے وہی بات سنائی جو اوپر بیان ہوئی ہے۔)
دونوں روایت اہل سنت کے نزدیک صحیح مانی جاتی ہے لیکن دونوں روایت میں زمین آسمان کا فرق ہے
دونوں روایت میں مروان بن حکم کہ جس پر اللہ نے زبان مصطفٰے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعہ لعنت کی ہے اس کے خاندان کے کسی فرد کا ذکر ایک روایت میں کسی نے آکر حضرت سہل بن سعد سے کہا کہ یہ شخص علی علیہ السلام کو
سبّ کرتا ہے تو حضرت سہل بن سعد نے اس سے پوچھا کہ کیا کہتا ہے تو اس نے جواب دیا کہ وہ علی علیہ السلام کو ابوتراب کہتا ہے اس پر حضرت سہل فرمانے لگے: "علی علیہ السلام کو تو ابو تراب سے زیادہ کوئی نام محبوب نہ تھا یہاں ہوسکتا ہے اس شخص کو وہ الفاظ جو مروان بن حکم کا خاندان کا یہ آدمی کہتا تھا وہ اپنی زبان پر لانا برا محسوس ہوا ہو اس لئے اس نے پوری بات نہ بتائی ہو یا پھر یہ ہوسکتا ہے امام بخاری نے ہی اس روایت کے ساتھ یہ سلوک کیا ہو لیکن جب حضرت سہل بن سعد کی ملاقات اس مروان کے خاندان کے آدمی سے ہوئی تو اس نے خود حضرت سہل بن سعد کو حکم دیا کہ وہ علی علیہ السلام پر سبّ کریں لیکن جب حضرت سہل بن سعد نے اس سے انکار کیا تو اس نے ان سے کہا
"اگر آپ انکار کر رہے ہیں تو یہی کہہ دیجیے کہ ابو تراب پر اللہ کی لعنت ہو۔" نعوذباللہ من ذلک
مراون کے خاندان کے اس شخص کی اتنی جسارت پر بھی پر بھی جو کہ اہل سنت کی صحیح حدیث سے ثابت ہے آپ کا اس کی اتنی حمایت کرنا اور اس کے اس فعل بد کا انکار کرنا سوائے بغض علی علیہ السلام کے اور کچھ بھی نہیں
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
صحیح بخاری کی روایت کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز تراویح کی کیفیت
" نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجدنبوی میں چٹائی سے گھیر کر ایک حجرہ بنا لیا اور رمضان کی راتوں میں اس کے اندر نماز پڑھنے لگے پھر اور لوگ بھی جمع ہو گئے تو ایک رات آنحضرت کی آواز نہیں آئی۔ لوگوں نے سمجھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے ہیں۔ اس لیے ان میں سے بعض کھنگار نے لگے تاکہ آپ باہر تشریف لائے ' پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تم لوگوں کے کام سے واقف ہوں ' یہاں تک کہ مجھے ڈر ہوا کہ کہیں تم پر یہ نماز تراویح فرض نہ کر دی جائے اور اگر فرض کر دی جائے تو تم اسے قائم نہیں رکھ سکو گے۔ پس اے لوگو! اپنے گھروں میں یہ نماز پڑھو کیونکہ فرض نماز کے سوا انسان کی سب سے افضل نماز اس کے گھر میں ہے۔"
صحیح بخاری : حدیث نمبر : 7290


نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسجد نبوی میں اپنے لئے ایک جگہ گھیر کر چٹائی سے حجرہ بنا لیا جس طرح کہ رمضان میں اعتکاف میں بیٹھنے والے بنا تے ہیں اور رمضان کی راتوں میں اس کے اندر نماز پڑھنے لگے اور دوسری روایت کے مطابق اس حجرے کی دیواریں پست تھی اس لئے لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھ لیا اور کچھ لوگ آپ کی اقتدا میں نماز کے لیے کھڑے ہو گئے جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسا کرنے کا انھیں حکم نہیں دیا تھا اور یہ صورت حال ود یا تین دن رہی اس کے بعد آپ نے اس عمل کو ترک کردیا اور لوگوں کو حکم دیا کہ " پس اے لوگو! اپنے گھروں میں یہ نماز پڑھو کیونکہ فرض نماز کے سوا انسان کی سب سے افضل نماز اس کے گھر میں ہے۔"

فی زمانہ پڑھی جانے والی نماز تراویح کی کیفیت

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کے مطابق الگ حجرے میں نہیں بلکہ فرض نماز والے مصلے پر ہی نماز تراویح ادا کی جاتی ہے اس طرز پر نماز تراویح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت نہیں
رمضان کی راتوں میں نماز تراویح باجماعت دو یا تین دن نہیں جو کہ صحیح بخاری کی حدیث سے ثابت ہے بلکہ پورے رمضان نماز تراویح باجماعت کا اہتمام کیا جاتا ہے اس طرز پر نماز تراویح باجماعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت نہیں
نماز تراویح باجماعت پڑھنے کا حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی کو نہیں دیا بلکہ اس کے برعکس یہ حکم دیا کہ " پس اے لوگو! اپنے گھروں میں یہ نماز پڑھو کیونکہ فرض نماز کے سوا انسان کی سب سے افضل نماز اس کے گھر میں ہے۔"
اب جو عمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کے خلاف ہو وہ بدعت کس بناء پر نہیں ہوسکتا ایسی لئے حضرت عمر نے جب پہلے پہل اس طرز پر نماز تراویح کی رسم ڈالی تو اس رسم کو دیکھ کر انھوں نے بھی ایسے بدعت ہی کہا



جہاں تک بات ہے اس قول کی کہ نماز تراویح باجماعت اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پورے رمضان میں نہ پڑھی کہ کہیں یہ نماز امت پر فرض نہ ہوجائے اور چونکہ حضرت عمر کے زمانے میں وحى بھى منقطع ہو گئى اور اس كى فرضيت كا خدشہ بھى جاتا رہا، لہذا جب انقطاع وحى سے علت زائل اور ختم ہو چكى جو كہ فرضيت كا خدشہ اور خوف تھا، تو معلول كا زوال ثابت ہو گيا، توپھر اس وقت اس كا سنت ہونا واپس پلٹ آئے گا
لیکن کیسی دھاگہ میں کیسی نے یہ کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد بھی آیت کی منسوخی کا الہام صحابہ پر ہوتا رہا ہے جس کی پیروی صحیح العقیدہ مسلمان کرتےرہیں ہیں
درج ذیل لنک کی پوسٹ نمبر 42


http://forum.mohaddis.com/threads/۲-واسطوں-پر-بھروسا۔-نواقض-اسلام۔-ڈاکٹر-شفیق-الرحمن.15055/page-5

اب سوال یہ ہے کہ جب قرآن کی آیات کی منسوخی کا الہام صحابہ پر ہوسکتا ہے اور اس الہام کی پیروی کرنے والے لوگ ہی صحیح العقیدہ مانے جائیں گے تو پھر نماز تراویح باجماعت کی فرضیت کا الہام صحابہ پر کیوں نہیں ہوسکتا ؟
یا یہ الہام صرف قرآن کی آیات کی منسوخی تک محدود ہے دوسرے امور کے لئے نہیں تو اس کےلئے دلیل چاہئے ۔
والسلام
پہلی بات تو یہ ہے کہ حضرت عمر رضی الله عنہ نے باجماعت نماز تراویح کا حکم نہیں دیا بلکہ صرف اتنا فرمایا کہ کتنا اچھا ہو کہ لوگ متفرق نماز پڑھنے کے بجاے ایک امام پر مجتمع ہو جائیں - یہ آپ کا اجتہاد تھا - اور پھر صحابہ کرام نے اس کی تعمیل کی - بشمول حضرت علی رضی الله عنہ کے- (ورنہ آپ ثابت کجیے کے اگر یہ بدعت تھی تو حضرت علی رضی الله عنہ اور دوسرے صحابہ نے اس سے ا عراض کیوں نہیں کیا ؟؟؟؟) کیا صحابہ کرام بدعت کے معنی سے آ گاہ نہیں تھے ؟؟؟

دوسری بات یہ کہ حضرت عمر رضی الله عنہ نے اس امر پر پسندیدگی کا اظھار اس بنا پر کیا تھا کہ ایک تو لوگ پہلے ہی نبی کریم صل الله علیہ وسلم کے پیچھے تراویح کی نماز ادا کرچکے تھے اور دوسرے یہ امر ایک انتظامی امر تھا - بدعت نہیں تھا- یعنی اس باجماعت تراویح کے ذریے وہ چاہتے تھے کہ قرآن لوگوں کے ذہنوں میں محفوظ ہو جائے - کیا آپ کو معلوم نہیں کہ آج کے دور میں جو درس و تدریس، علم و نحو اور دوسرے فقہی مسائل جو آج طالب علموں کو پڑھاہے جاتے ہیں یہ سب انتظامی امور دور نبوی میں نہیں تھے -ایسے انتظامی امور بدعت نہیں کہلاتے - کیوں کہ دور نبوی میں اس کی ضرورت نہیں تھی -

اسی طرح کا حضرت عمر رضی الله عنہ کا اجتہاد اس وقت کے انتظامی امر سے متعلق تھا -حضرت عمر رضی الله عنہ کے خلافت کے دور میں صحابہ کی اکثریت جو قرآن کی حافظ تھی اس دنیا سے کوچ کرچکی تھی - اس صورت حال کے پیش نظر حضرت عمر رضی الله عنہ کو یہ ڈر تھا کہ نو مسلم لوگ قرآن سے بہرا مند نہیں ہوسکیں گے اس لئے انہوں نے یہ قدم اٹھایا کہ مسلمان جن میں نو مسلم بھی شامل تھے کو ایک امام کے پیچہے کھڑا کر کے ان کو قرآن سنوایا جائے تا کہ ان کے ذہنوں سے قرآن کے آیات محو نا ہوں - یہی وجہ ہے کہ کسی بھی صحابی نے آپ کے اس اقدام کی مخالفت نہیں کی -بات صرف اتنی ہے کہ حضرت عمر رضی الله عنہ نے نبی کریم کی اس سنّت کو اپنے اجتہاد کے ذریے تا قیامت تک کے لئے جاری کردیا -

اگر آپ سمجھتے ہیں کہ حضرت عمر رضی الله عنہ کا یہ اجتہاد بدعت تھی - تو حضرت علی رضی الله عنہ کے اس اجتہاد کے بارے میں آپ کیا کہیں گے کہ جب انہوں نے بنو حنفیہ قبیلے کی مردوں اور عورتوں کو انھیں خدا ماننے کی پاداش میں زندہ جلو ا دیا تھا - جس پر حضرت عباس رضی الله عنہ نے ان کو ڈانٹا کہ نبی کرم صل الله علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ انسان کو زندہ جلانا صرف الله کی صفت ہے - انسان کو اس کا اختیار نہیں- اگر ان کو سزا دینی تھی تو تلوار کے ذریے دینی چاہیے تھی -جس پر حضرت علی رضی الله عنہ نے اپنے اس اجتہاد سے رجوع کر لیا -

جب کہ حضرت عمر رضی الله عنہ کے اجتہاد پر کسی نے کوئی ا عترا ض نہیں کیا-
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
یہ تو علامہ ملا علی قاری حنفی کا فتوہ ہے اور اس دھاگہ میں آپ حنفی مقلدوں کا ہی رد پیش فرمارہیں ہیں اور دلیل بھی حنفی مقلدوں کی لے کر آرہیں ہیں
بلفرض اس فتوہ کا جواب دے بھی دیا جائے تو آپ نے یہی کہنا ہے کہ یہ فتوہ سلفیوں کا نہیں ہے حنفیوں کا ہے
اگر آپ اس طرح سے نہ کرنے کا وعدہ کریں تو میں اس کا جواب آپ کی خدمت میں پیش کردیتا ہوں اور یہ بھی بتادیں کہ اس فتوہ سے کسی کو اشتثناء تو حاصل نہیں ؟
پہلے دور کے احناف کا امام ابو حنیفہ رحمللہ سے استاد شاگرد کا تعلق تھا - وہ آج کے احناف کی طرح اندھے بہروں کی طرح اپنے امام کی تقلید نہیں کرتے تھے - انہوں نےبہت سے مسائل میں امام صاحب کی فقہ سے اختلاف بھی کیا ہے - درمختار اور ہدایہ جیسی کتابوں میں آپ کو ان فقہی اختلافات کی مثالیں مل سکتی ہیں -

ویسے بھی جو فتویٰ احدیث نبوی سے مطابقت رکھتا ہو گا وہ چاہے سلفیوں کا ہو یا حنفیوں کا ماننے کے قابل ہو گا -ویسے ببھی متعدد احدیث میں نبی کریم صل الله علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام پر تعن تشنیح سے سختی سے منع فرمایا ہے اور اس کی وعید بھی سنائی ہے -جو لگتا ہےابھی تک آپ کو نا سنائی دی ہے اور نا دکھائی دی ہے -

اب آپ اپنا فتویٰ پیش کریے - جو احدیث نبوی یا صحابہ کرام کے اقوال کی روشنی میں ہو-یا کم سے کم اہل بیت کی اقوال کی روشنی میں ہو -
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,332
پوائنٹ
180
اولاایک سوال ہے کہ
بقیہ ائمہ کرام کے نام ہیں
توبھائی کتب سیرت وسوانح پڑھو اوران کے حالات اورنام معلوم کرو اوراگرعربی اردو سے نابلداورجاہل ہوتوپھرگھر بیٹھو اورکچھ ایساکام کروجس سے دین ودنیاکی بھلائی ہو
ان کی تقلید کاکیاحکم ہے جب کہ وہ ان سے بھی علم وفہم اورتقوی وعبادت گزاری مین زیادہ تھے۔
یہ بھی ایک جاہلانہ سوال ہی ہے اگرکچھ کتابیں اوربالخصوص حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی عقدالجید پڑھ رکھی ہوتی تو پھر اس سوال کی ضرورت نہ رہ جاتی ۔
اب شاہ ولی اللہ علیہ الرحملہ کی تحریر نقل کردیتاہوں

بَاب تَأْكِيد الْأَخْذ بِهَذِهِ الْمذَاهب الْأَرْبَعَة، التَّشْدِيد فِي تَركهَا وَالْخُرُوج عَنْهَا - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم َ -

اعْلَم أَن فِي الْأَخْذ بِهَذِهِ الْمذَاهب الْأَرْبَعَة مصلحَة عَظِيمَة وَفِي الْإِعْرَاض عَنْهَا كلهَا مفْسدَة كَبِيرَة وَنحن نبين ذَلِك بِوُجُوه
أَحدهَا أَن الْأمة اجْتمعت على أَن يعتمدوا على السّلف فِي معرفَة الشَّرِيعَة فالتابعون اعتمدوا فِي ذَلِك على الصَّحَابَة وَتبع التَّابِعين اعتمدوا على التَّابِعين وَهَكَذَا فِي كل طبقَة اعْتمد الْعلمَاء على من قبلهم وَالْعقل يدل على حسن ذَلِك لِأَن الشَّرِيعَة لَا تعرف إِلَّا بِالنَّقْلِ والإستنباط وَالنَّقْل لَا يَسْتَقِيم إِلَّا بِأَن تَأْخُذ كل طبقَة عَمَّن قبلهَا بالإتصال وَلَا بُد فِي الإستنباط أَن تعرف مَذَاهِب الْمُتَقَدِّمين لِئَلَّا يخرج عَن أَقْوَالهم فيخرق الْإِجْمَاع وَيَبْنِي عَلَيْهَا ويستعين فِي ذَلِك كل بِمن سبقه لِأَن جَمِيع الصناعات كالصرف والنحو والطب وَالشعر والحدادة والنجارة والصياغة لم تتيسر لأحد إِلَّا بملازمة أَهلهَا وَغير ذَلِك نَادِر بعيد لم يَقع وَإِن كَانَ جَائِزا فِي الْعقل

وَإِذا تعين الإعتماد على أقاويل السّلف فَلَا بُد من أَن تكون أَقْوَالهم الَّتِي يعْتَمد عَلَيْهَا مروية بِالْإِسْنَادِ الصَّحِيح أَو مدونة فِي كتب مَشْهُورَة وَأَن تكون مخدومة بِأَن يبين الرَّاجِح من محتملاتها ويخصص عمومها فِي بعض الْمَوَاضِع ويقيد مُطلقهَا فِي بعض الْمَوَاضِع وَيجمع الْمُخْتَلف مِنْهَا وَيبين علل أَحْكَامهَا وَإِلَّا لم يَصح الِاعْتِمَاد عَلَيْهَا وَلَيْسَ مَذْهَب فِي هَذِه الْأَزْمِنَة الْمُتَأَخِّرَة بِهَذِهِ الصّفة إِلَّا هَذِه الْمذَاهب الْأَرْبَعَة اللَّهُمَّ إِلَّا مَذْهَب الإمامية والزيدية وهم أهل الْبِدْعَة لَا يجوز الِاعْتِمَاد على أقاويلهم

وَثَانِيها قَالَ رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم اتبعُوا السوَاد الْأَعْظَم وَلما اندرست الْمذَاهب الحقة إِلَّا هَذِه الْأَرْبَعَة كَانَ اتباعها اتبَاعا للسواد الْأَعْظَم وَالْخُرُوج عَنْهَا خُرُوجًا عَن السوَاد الْأَعْظَم

عقدالجیدفی احکام الاجتھاد والتقلید ص14
حضرت شاہ ولی اللہ کی اس عبارت مین غورکریں ۔ سوال کا جواب بھی ملے گااورمغالطے کے جوپردے سامنے پڑے ہین ان کی حقیقت بھی واضح ہوگی۔
لیکن یہ ان لوگوں کیلئے ہے جو حق کو سمجھناچاہتے ہیں
رہاان کی بات جوسب کچھ جانتے بوجھتے بھی ایک مخصوص ایجنڈا کے تحت چلتے ہیں توپھر جب قران ہدایت ہونے کے باوجود صرف متقین کیلئے ہدایت بنتی ہے توشاہ ولی اللہ کی یہ تحریر ان کیلئے کیسے راہ ہدایت دکھاسکتی ہے جو سمجھناہی نہ چاہتے ہوں۔

والسلام
 
Top