حضرت حضرت عمر اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی مشاورت کس طرز پر ہوتی تھی اس کا منظر امام طبری نے تاریخ طبری میں خلافت اور نبوت کا اجتماع کے عنوان پیش کیا ہے آپ کی نذر کرتا ہوںاب اگر اللہ کے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی رضی اللہ عنہ نے خلفاء راشدین حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنھما کے بات کے رد پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان پیش کیا تو اس کا سہارا لے کر دل کے ارمان کیوں پورے کئے جارہے ہیں یہ بات کم سے کم میں تو سمجھنے سے قاصر ہوں اور وہ جو ایران میں سزاؤں کے تعلق سے سوال کیا تھا اس پر آپ کے جواب کا منتظر ہوں بہرام یعنی کتنی عجب بات ہے کہ ایک طرف ابن عباس رضی اللہ عنہ امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ مسائل پر مشاورت بھی کرتے ہیں یعنی شورٰی کا حصہ بھی ہیں تو عقل کے اندھوں کے لئے یہ مثال کافی ہے کہ وہ خلیفہ مانتے تھے جب ہی تو ان کی شورٰی میں تھے۔ کیا سورۃ النصر کی آیت کے تعلق سے حضرت عمر اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما کی رائے ایک نہیں تھی۔
خلافت اور نبوت کا اجتماع
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ابن خطاب اور ان کے ساتھی شعر و شاعری پر گفتگو کررہے تھے کسی نے کہا فلان سب سے بڑا شاعر ہے جب میں آگیا تو حضرت عمر نے فرمایا کہ تمہارے پاس اس فن کا سب سے بڑا عالم آگیا ہے کون سب سے بڑا شاعر ہے ؟ میں نے کہا زہیر بن ابی سلمی آپ نے فرمایا تم اس کے کچھ اشعار پڑھ کر سناؤں جس سے تمہارا یہ دعویٰ ثابت ہوسکے
زہیر کے دیگر اشعار
زہیر نے قبیلہ عبداللہ بن غظغان کے کچھ افراد کی تعریف میں یہ شعر کہے ہیں (اشعار کا ترجمہ )
1:۔ اگر کوئی جماعت اپنی اولیت یا بزرگی کی وجہ سے کرم و شرافت کے آفتاب پر اگر بیٹھ سکتی ہے تو وہ اس پر بیٹھ جائے گی
2:۔ یہ وہ جماعت ہے جن کے والد کا نام سنان ہے اور جب ان کے خاندان کا ذکر ہوگا تو ان کے ابا و اجداد بھی پاکیزہ ہونگے اوران کی جو اولاد پیدا ہوئی ہے وہ بھی پاکیزہ نسب ہے
3:۔ امن و امان کی حالت میں وہ انسان ہیں اور جب جنگ کے لئے بلائے جائیں تو جنات ہیں جب وہ اکھٹا ہوتے ہیں تو بہادر اور ہمت والے سردار ثابت ہوتے ہیں
4:۔ انھیں قابل رشک و حسد نعمتیں عطاء ہوتی ہیں مگر اللہ ان سے قابل رشک و حسد نعمتوں کو چھینتا نہیں ہے
اشعار کا صحیح مصداق
حضرت عمر نے کہا کہ "اس نے بہت خوب اشعار کہے میرے علم میں قبیلہ بنو ہاشم سے بڑھ کر کوئی ان اشعار کا صحیح مصداق نہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قرابت داری کی وجہ سے انھیں فضیلت حاصل ہے "
میں نے کہا " آپ نے صحیح بات کہی ہے اور توفیق خداوندی آپ کے شامل حال رہی ہے "
خلافت کا معاملہ
آپ نے فرمایا اے ابن عباس کیا تم جانتے ہو کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد تمہار قوم کو تم سے کس چیز نے روکا ہے ؟
میں نے اس کلا جواب دینا پسند نہیں کیا اس لئے میں نے کہا " اگر میں نہیں جانتا تو آپ مجھ اس سے باخبر کردیں گے
قریش کی رائے
آپ نے فرمایا " وہ نہیں چاہتے تھے کہ تمہارے اندر نبوت اور خلافت دونوں چیزیں جمع رہیں مبادا کہ تم اپنی قوم سے بد سلوکی کرو ( جس طرح اس سے پہلے تم نے قریشیوں کو جنگ بدر جنگ احد اور جنگ خندق میں مار مار کر ان سے بد سلوکی کی ) اس لئے قریش نے اسے ( خلافت کو ) اپنے لئے پسند کیا کہ ان کی رائے درست تھی اور وہ اس میں کامیاب رہے ۔"
حضرت ابن عباس کی رائے
میں نے کہا "اے امیر المومینین اگر آپ مجھے بات کرنے کی اجازت دیں اور مجھ سے ناراض نہ ہو تو کچھ عرض کروں "
آپ نے فرمایا " اے ابن عباس تمہیں بولنے کی اجازت ہے " میں نے کہا " آپ نے فرمایا کہ قریش نے خلافت کے لئے اپنا انتخاب کیا اور اس میں وہ درست تھے اور کامیاب رہے اس کے بارے میں یہ عرض ہے کہ قریش اپنے لئے یہ انتخاب اس وقت کرلیتے جب اللہ تعالیٰ نے انہیں اختیار دیا تھا تو اس وقت یہ صحیح معاملہ نہ قابل رد اور ناقابل حسد ہوتا "
نا پسندیدہ جماعت
آپ نے یہ بھی فرمایا کہ وہ لوگ نہیں چاھتے تھے کہ نبوت اور خلافت دونوں چیزیں بنو ہاشم میں جمع ہوجائیں تو اللہ تعالیٰ نے بھی ایک جماعت کی ناپسندیدگی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے
" یہ اس وجہ سے ہوا کہ انھوں نے اس (وحی کو) جو اللہ نے نازل کی پسند نہیں کیا اس لئے اس نے ان کے اعمال اکارت کردئے "
مخالفانہ خبریں
اس پر حضرت عمر نے فرمایا " ہائے افسوس خدا کی قسم اے ابن عباس مجھے تمہارے بارے میں ایسی خبریں ملتی تھیں جن پر یقین کرنا مجھے پسند نہیں تھا کیونکہ اس سے تمہاری قدر منزلت میرے دل سے دور ہوجانے کا اندیشہ تھا "
حضرت ابن عباس کا سوال
میں نے کہا " وہ کیا باتیں ہیں اگر وہ صحیح ہیں تو آپ کے لئے مناسب نہیں کہ میرا مرتبہ گھٹائیں اور اگر وہ جھوٹی ہیں تو میرے جیسا انسان ایسے دور کرسکتا ہے "
حسد اور ظلم کا الزام
آپ نے فرمایا " مجھے اطلاع ملی ہے کہ تم یہ کہتے ہو کہ انھوں نے خلافت سے ہمیں حسد اور ظلم کی وجہ سے دور رکھا ہے "
الزام کا جواب
آپ نے ظلم کا کہا تو وہ ہر عقلمند اور جاہل پر ظاہر ہے جہاں تک حسد کی بات ہے تو ابلیس نے حضرت آدم پر بھی کیا تھا اور انہیں کی ہم اولاد ہیں جن پر حسد کیا جارہا ہے "
آزادی رائے
حضرت عمر نے فرمایا " اے بنو ہاشم تمہارے دلوں سے حسد اور کینہ کبھی نہ جائے گا " میں نے کہا " ٹھہرئے آپ ایسے لوگوں کے دلوں پر الزام نہ لگائیں جن کی الائش کو اللہ نے دور کردیا ہے اور ان کے دلوں کو حسد اورمکر وفریب کی الائش سے بالکل پاک وصاف کردیا ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قلب مبارک بھی بنی ہاشم کے قلوب کا ایک حصہ ہے
اس پر حضرت عمر نے مجھ سے کہا کہ " تم میرے پاس سے چلے جاؤ "
(نوٹ لال رنگ والے جملے کی وضاحت میری طرف سے ہے )
دیکھا آپ نے مشاورت کا اندازکہ خلافت سے کس سازش کے تحت بنو ہاشم کو دور رکھا گیا اور کس طرح حضرت عمر نے بنو ہاشم کے قلوب پر حسد اور کینہ کا الزام لگایا مگر شاباش ہے حضرت عمر کے مشیر کو کہ کس طرح اس الزام کا منہ توڑ جواب دے کر لاجواب کردیا ۔