• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حنفی مقلدوں سے ایک سوال؟

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ کا فتویٰ:
شرح فقہ اکبر میں فرماتے ہیں: ''جو شخص ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی خلافت کا انکار کرے تو وہ کافر ہے، کیونکہ ان دونوں کی خلافت پر تو صحابہؓ کا اجماع ہے''۔
(شرح فقہ اکبر:۱۹۸)

''اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ ابوبکر و عمرو عثمان رضی اللہ عنہم اجمعین میں سے کسی ایک کی خلافت کا منکر کافر ہے''۔
(کفار ملحدین:۵۱)
یہ تو علامہ ملا علی قاری حنفی کا فتوہ ہے اور اس دھاگہ میں آپ حنفی مقلدوں کا ہی رد پیش فرمارہیں ہیں اور دلیل بھی حنفی مقلدوں کی لے کر آرہیں ہیں
بلفرض اس فتوہ کا جواب دے بھی دیا جائے تو آپ نے یہی کہنا ہے کہ یہ فتوہ سلفیوں کا نہیں ہے حنفیوں کا ہے
اگر آپ اس طرح سے نہ کرنے کا وعدہ کریں تو میں اس کا جواب آپ کی خدمت میں پیش کردیتا ہوں اور یہ بھی بتادیں کہ اس فتوہ سے کسی کو اشتثناء تو حاصل نہیں ؟
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا عمل بدعت کیسے ہوسکتا ہے پہلے اس کو ثابت کرو۔ بعد اس پر بحث کریں گے کہ یہ قول صحیح ہے یا آپ رضی اللہ عنہ سے منسوب کیا گیا ہے۔
کیا اب ہر شخص کو علیحدہ علیحدہ بتانا پڑے گا


حضرت ابن عباس رضی اﷲعنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث کے مقابلے پر جب قول ابو بکر و عمر سنا تو یہ فرمایا کہ
میں تمہیں رسول صلی اﷲعلیہ وسلم کی حدیث سنا رہا ہوں اور تم ہمیں ابوبکر وعمر رضی اﷲ عنہما کی بات بتا رہے ہو؟

اس روایت کو پڑھ کر ایسا لگا کہ حضرت ابن عباس رضی اﷲعنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے وہ حدیث نہیں سنی ہوگی جس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ
میری اور میرے ہدایت یافتہ خلفاء کی سنت کو مضبوطی سے دانتوں سے تھام لو ، پکڑ لو۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے جب حضرت ابن عباس رضی اﷲعنہ کو صحیح بخاری کی حدیث کا علم نہیں تو پھر وہ اتنے بڑے مفسر و فقہی کس طرح ہو گئے کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ حدیث تو ان کے علم میں ہو لیکن ابو بکر و عمر کو وہ ہدایت یافتہ خلفاء میں شمار نہ کرتے ہوں اس لئے ان کی سنت پر عمل کرنا وہ ضروری نہ سمجھتے ہوں یا پھر تیسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ یہ حدیث حضرت ابن عباس رضی اﷲعنہ کے وصال کے بعدجعل کی گئی ہو
اگر اس کے علاوہ کوئی صورت ہے تو بیان کی جائے
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
الحمد للہ
مسلمانوں کا اجماع ہے کہ نماز تراویح ادا کرنا سنت ہے ، جیسا کہ امام نووی رحمہ اللہ تعالی نے بھی اپنی کتاب " المجموع " میں بھی اس کا ذکر کیا ہے ۔
اوراسی طرح نماز تراویح کی ادائيگي میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رغبت دلاتے ہوئے فرمایا :
( جس نے بھی رمضان المبارک میں ایمان اوراجرو ثواب کی نیت سے قیام کیا اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کردیے جاتے ہیں ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 37 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 760 ) ۔
تو پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس فعل پر عمل کے ساتھ ترغیب اورمسلمانوں کا نماز تراویح کے استحباب پر اجماع ہونے کے باوجود نماز تراویح بدعت کیسے ہوسکتی ہے ؟
اوریہ ہوسکتا کہ جس نے اسے بدعت کہا ہو وہ مساجد میں باجماعت ادائيگي کو بدعت قراردیتا ہو ۔
لیکن یہ قول بھی صحیح نہیں کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود صحابہ کرام کوکچھ راتیں اس کی جماعت کروائي تھی ، پھر اسے باجماعت اس لیے ترک کیا کہ کہيں تروایح کی جماعت مسلمانوں پر فرض ہی نہ ہوجائے ، لھذا جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوگئے اورفرض ہونے کا خطرہ جاتا رہا کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد کسی چيز کا فرض ہونا ممکن نہيں رہا ۔
اسی لیے عمر رضي اللہ تعالی عنہ نے مسلمانوں کو ایک قاری پر جمع کردیا اورانہيں باجماعت نماز تراویح پڑھنے کا کہا ۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
الحمد للہ :
يہ كہنا كہ نماز تراويح بدعت ہے، سراسر غلط اور ناانصافى ہے، بلكہ يہ كہا جا سكتا ہے كہ:
كيا يہ عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ كى سنت ہے، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور مبارك ميں ايسا نہيں تھا، بلكہ يہ عمر رضى اللہ تعالى عنہ كے دور ميں ہوا ہے، يا كہ يہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا طريقہ اور سنت ہے ؟!
لہذا بعض لوگوں كا دعوى ہے كہ يہ عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ كا طريقہ اور سنت ہے، اور اس كى دليل يہ ديتے ہيں كہ:
عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ نے ابى بن كعب رضى اللہ تعالى عنہ اور تميم دارى رضى اللہ تعالى عنہ كو حكم ديا كہ وہ لوگوں كو گيارہ ركعات پڑھائيں، اور ايك رات عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ باہر نكلے تو لوگ نماز ادا كر رہے تھے، تو عمر رضى اللہ تعالى عنہ كہنے لگے:
" يہ بدعت اور طريقہ اچھا ہے"
يہ اس كى دليل ہے كہ اس سے قبل يہ مشروع نہ تھى .....
ليكن يہ قول ضعيف ہے، اور اس كا قائل صحيحين وغيرہ كى اس حديث سے غافل ہے كہ:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنے صحابہ كرام كو تين راتيں قيام كروايا اور چوتھى رات نماز نہ پڑھائى، اور فرمايا: مجھے خدشہ تھا كہ تم پر فرض نہ كر ديا جائے"
صحيح بخارى حديث نمبر ( 872 ).
اور مسلم شريف كے الفاظ يہ ہيں:
" ليكن مجھے يہ خوف ہوا كہ تم پر رات كى نماز فرض كر دى جائے اور تم اس كى ادائيگى سے عاجز آجاؤ"
صحيح مسلم حديث نمبر ( 1271 ).
لہذا سنت نبويہ سے تراويح ثابت ہيں، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے تسلسل كے ساتھ جارى نہ ركھنے كا مانع ذكر كيا ہے نہ كہ اس كى مشروعيت كا، اور وہ مانع اور علت فرض ہو جانے كا خدشہ تھا، اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى وفات سے يہ خوف زائل ہو چكا ہے، كيونكہ جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم فوت ہو گئے تو وحى بھى منقطع ہو گئى اور اس كى فرضيت كا خدشہ بھى جاتا رہا، لہذا جب انقطاع وحى سے علت زائل اور ختم ہو چكى جو كہ فرضيت كا خدشہ اور خوف تھا، تو معلول كا زوال ثابت ہو گيا، توپھر اس وقت اس كا سنت ہونا واپس پلٹ آئے گا. اھـ
ديكھيں: الشرح الممتع لابن عثيمين ( 4 / 78 ).
اور صحيحين ميں عائشہ رضى اللہ تعالى عنہ سے حديث مروى ہے وہ بيان كرتى ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم جو كام بھى كرنا پسند كرتے اور اسے صرف اس خدشہ سے ترك كر ديتے تھے كہ لوگ اس پر عمل شروع كردينگے اور يہ ان پر فرض كر ديا جائے گا...
صحيح بخارى حديث نمبر ( 1060 ) صحيح مسلم صلاۃ المسافرين حديث نمبر ( 1174 ).
امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
اس ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا اپنى امت پر مكمل شفقت و مہربانى كا بيان پايا جاتا ہے. اھـ
لہذا يہ كہنا كہ نماز تروايح نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى سنت نہيں بلا وجہ اورغلط ہے، بلكہ يہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى سنت ہے، صرف نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس خدشہ كے پيش نظر اسے ترك كيا تھا كہ كہيں يہ امت پر فرض نہ ہو جائے، اور جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم فوت ہو گئے تو يہ خدشہ جاتا رہا.
اور ابو بكر رضى اللہ تعالى عنہ مرتدين كے ساتھ لڑائى اور جنگ ميں مشغول رہے، اور پھر ان كى خلافت كا عرصہ بھى بہت ہى قليل ( دو برس ) ہے، اور جب عمر رضى اللہ تعالى عنہ كا دور آيا اور مسلمانوں كے معاملات درست ہو گئے تو لوگ رمضان المبارك ميں اسى طرح نماز تراويح كے ليے جمع ہو گئے جس طرح رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ جمع ہوئے تھے.
لہذا عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے جو كچھ كيا ہے وہ زيادہ سے زيادہ يہ ہے كہ انہوں اس سنت كا احياء كيا اور اسے كى طرف واپس گئے.
اللہ تعالى ہى توفيق بخشنے والا ہے.
واللہ اعلم .
الشيخ محمد صالح المنجد
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
نبی کریم صل الله علیہ وسلم نوافل گھر میں پڑھتے تھے - کیوں کہ یہ افضل ہے - لیکن اہل سنّت کی اکثریت نوافل اور سنتیں مسجدوں میں پڑھتی ہے -اس سے ثواب میں کمی تو ہوتی ہے لیکن آپ نے اس منع بھی نہیں کیا -
یہ تو بریلویوں کا طرز استدلال ہے ۔
مروجہ قرآن خوانی جائز کیوں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے منع بھی تو نہیں فرمایا ۔
اذان سے پہلے درود شریف جائز کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے منع بھی تو نہیں فرمایا
وغیرہ وغیرہ

وہاں تو آپ بریلویوں سے کہتے ہیں کہ اپنی اعمال کو کتاب و سنت سے ثابت کرو ورنہ عمل بدعت کہلائے گا اور آج آپ ایک اہل تشیع کے سامنے آپ کا مسلک اتنا کمزور ہو گیا کہ بریلوی طریقہ استدلال پر اتر آئے ۔ کیا غیر مقلدیں کے الگ الگ مسلک سے بحث کرنے کے الگ الگ باٹ ہیں
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
بعض لوگوں كا دعوى ہے كہ يہ عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ كا طريقہ اور سنت ہے، اور اس كى دليل يہ ديتے ہيں كہ:
عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ نے ابى بن كعب رضى اللہ تعالى عنہ اور تميم دارى رضى اللہ تعالى عنہ كو حكم ديا كہ وہ لوگوں كو گيارہ ركعات پڑھائيں، اور ايك رات عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ باہر نكلے تو لوگ نماز ادا كر رہے تھے، تو عمر رضى اللہ تعالى عنہ كہنے لگے:
" يہ بدعت اور طريقہ اچھا ہے"
يہ اس كى دليل ہے كہ اس سے قبل يہ مشروع نہ تھى .....
ليكن يہ قول ضعيف ہے، اور اس كا قائل صحيحين وغيرہ كى اس حديث سے غافل ہے كہ:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنے صحابہ كرام كو تين راتيں قيام كروايا اور چوتھى رات نماز نہ پڑھائى، اور فرمايا: مجھے خدشہ تھا كہ تم پر فرض نہ كر ديا جائے"
صحيح بخارى حديث نمبر ( 872 ).
اور مسلم شريف كے الفاظ يہ ہيں:
" ليكن مجھے يہ خوف ہوا كہ تم پر رات كى نماز فرض كر دى جائے اور تم اس كى ادائيگى سے عاجز آجاؤ"
صحيح مسلم حديث نمبر ( 1271 ).
لہذا سنت نبويہ سے تراويح ثابت ہيں، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے تسلسل كے ساتھ جارى نہ ركھنے كا مانع ذكر كيا ہے نہ كہ اس كى مشروعيت كا، اور وہ مانع اور علت فرض ہو جانے كا خدشہ تھا، اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى وفات سے يہ خوف زائل ہو چكا ہے، كيونكہ جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم فوت ہو گئے تو وحى بھى منقطع ہو گئى اور اس كى فرضيت كا خدشہ بھى جاتا رہا، لہذا جب انقطاع وحى سے علت زائل اور ختم ہو چكى جو كہ فرضيت كا خدشہ اور خوف تھا، تو معلول كا زوال ثابت ہو گيا، توپھر اس وقت اس كا سنت ہونا واپس پلٹ آئے گا. اھـ
ديكھيں: الشرح الممتع لابن عثيمين ( 4 / 78 ).
اور صحيحين ميں عائشہ رضى اللہ تعالى عنہ سے حديث مروى ہے وہ بيان كرتى ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم جو كام بھى كرنا پسند كرتے اور اسے صرف اس خدشہ سے ترك كر ديتے تھے كہ لوگ اس پر عمل شروع كردينگے اور يہ ان پر فرض كر ديا جائے گا...
صحيح بخارى حديث نمبر ( 1060 ) صحيح مسلم صلاۃ المسافرين حديث نمبر ( 1174 ).
 

ضدی

رکن
شمولیت
اگست 23، 2013
پیغامات
290
ری ایکشن اسکور
275
پوائنٹ
76
اگر اس کے علاوہ کوئی صورت ہے تو بیان کی جائے
کیا ضرورت ہے اس کے علاوہ کوئی صورت نکالی جائے آپ نے ابن عباس رضی اللہ کے قول پر مفروضوں کی ایک عمارت قائم کرلی یہ پڑھیں۔


یہ حدیث سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کی خلافت کی واضح دلیل ہے کہ ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) کے بعد وہی خلیفہ راشد قرار پائیں گے۔

سیدنا حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ خود بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے مداح تھے۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں ان لوگوں میں کھڑا تھا جو عمر (رضی اللہ عنہ) کیلئے اُس وقت دعا کر رہے تھے جب آپ کو چارپائی پر لٹایا گیا تھا۔ اچانک میرے پیچھے سے ایک شخص نے اپنی کہنی میرے کندھوں پر رکھی اور یوں دعا کی :

{اللہ تعالیٰ آپ پر رحم فرمائے ، مجھے اللہ تعالیٰ سے امید تھی کہ وہ آپ کو آپ کے دونوں ساتھیوں کے ساتھ ہی جمع کر دے گا، کیونکہ میں اکثر و بیشتر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ الفاظ سنا کرتا تھا کہ ۔۔۔۔ "میں ، ابوبکر اور عمر تھے، میں ابوبکر اور عمر نے یوں کیا، میں ابوبکر اور عمر گئے" ۔۔۔ تو اسی لیے مجھے (پہلے سے) امید تھی کہ آپ کو اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھیوں کے ساتھ ہی اکٹھا کر دے گا۔}

ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہ علی (رضی اللہ عنہ) تھے جو یہ دعا کر رہے تھے۔

یہ بات بھی بہت مشہور ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جو موقف اختیار کرتے تھے تو اس کی تائید میں قرآن مجید نازل ہو جاتا تھا۔
جیسا کہ صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ ۔۔۔
مقام ابراہیم کو مستقل جائے نماز بنانے کی رائے
امہات المومنین کو حجاب کا حکم دینے کی رائے
بدر کے قیدیوں سے متعلق رائے
کے ذریعے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے رب سے موافقت کی تھی۔
إِيهًا يَا ابْنَ الْخَطَّابِ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا لَقِيَكَ الشَّيْطَانُ سَالِكًا فَجًّا قَطُّ إِلَّا سَلَكَ فَجًّا غَيْرَ فَجِّكَ
اے ابن خطاب ! اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! جب کبھی شیطان کا سرِ راہ تم سے سامنا ہوتا ہے تو وہ تمہارا راستہ چھوڑ کر دوسرے راستے پر چل دیتا ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائی تھی کہ ۔۔۔
اللَّهُمَّ أَعِزَّ الْإِسْلَامَ بِأَحَبِّ هَذَيْنِ الرَّجُلَيْنِ إِلَيْكَ : بِأَبِي جَهْلٍ , أَوْ بِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ
اے اللہ ! ابوجہل اور عمر بن خطاب میں سے جو آپ کو زیادہ محبوب ہو اس کے ذریعے اسلام کو غلبہ عطا فرما۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ یہ روایت بیان کر کے آگے کہتے ہیں کہ :
وَكَانَ أَحَبَّهُمَا إِلَيْهِ عُمَرُ .
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دونوں میں سے عمر (رضی اللہ عنہ) زیادہ محبوب تھے۔
اب کس کے قول کو تسلیم کریں۔
 

ضدی

رکن
شمولیت
اگست 23، 2013
پیغامات
290
ری ایکشن اسکور
275
پوائنٹ
76
اب اگر اللہ کے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی رضی اللہ عنہ نے خلفاء راشدین حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنھما کے بات کے رد پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان پیش کیا تو اس کا سہارا لے کر دل کے ارمان کیوں پورے کئے جارہے ہیں یہ بات کم سے کم میں تو سمجھنے سے قاصر ہوں اور وہ جو ایران میں سزاؤں کے تعلق سے سوال کیا تھا اس پر آپ کے جواب کا منتظر ہوں بہرام یعنی کتنی عجب بات ہے کہ ایک طرف ابن عباس رضی اللہ عنہ امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ مسائل پر مشاورت بھی کرتے ہیں یعنی شورٰی کا حصہ بھی ہیں تو عقل کے اندھوں کے لئے یہ مثال کافی ہے کہ وہ خلیفہ مانتے تھے جب ہی تو ان کی شورٰی میں تھے۔ کیا سورۃ النصر کی آیت کے تعلق سے حضرت عمر اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما کی رائے ایک نہیں تھی۔
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
عن محمّد ابن الحنفيّة قال : قلت لأ بي : أيّ النّاس خير بعد رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ؟ قال : أبوبکر، قلت : ثمّ من؟ قال : ثمّ عمر و خشيت أن يّقول عثمان، قلت : ثمّ أنت؟ قال : ما أنا إلّا رجل مّن المسلمين.
''حضرت محمد بن حنفیہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا : میں نے اپنے والد (حضرت علی رضی اللہ عنہ) سے دریافت کیا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد سب سے بہتر کون ہے؟ انہوں نے فرمایا : ابوبکر رضی اللہ عنہ پھر میں نے کہا : ان کے بعد؟ انہوں نے فرمایا : عمر رضی اللہ عنہ۔ تو میں نے اس خوف سے کہ اب وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا نام لیں گے خود ہی کہہ دیا کہ پھر آپ ہیں؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ''نہیں میں تو مسلمانوں میں سے ایک عام مسلمان ہوں۔'' 1. بخاري، الصحيح، 3 : 1342، کتاب المناقب، رقم :


بخاری کی روایت کے مطابق حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت کے بعد جب حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ آئے تو فرمایا آپ رضی اللہ تعالی عنہ پر اللہ رحمت بھیجے کوئی شخص مجھے تمہارے درمیان اس ڈھکے ہوئے آدمی (مراد حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی میت سے تھی) سے زیادہ پسند نہیں کہ میں اس کے نامہ اعمال کے ساتھ اللہ سے ملوں۔

اب آپ باتیں کہ کیا حضرت عمر رضی الله عنہ سے کراہت رکھنے والا انسان یہ الفاظ که سکتا ہے؟؟؟؟؟ [/hl]-


یہ بات بھی مسلم ہے اور اس میں مسلمانوں کے درمیان کوئی اختلاف نہیں کہ حضرت محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام انبیاء میں سب سے افضل و برتر ہیں لیکن جب دیگر انبیاء علیہ السلام کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حضور کیا جاتا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عاجزی و انکساری کا پیکر بن کر اس طرح ارشاد فرماتے ہیں

لا ينبغي لعبدٍ أن يقولَ : أنا خيرٌ من يونسَ بنِ متّى
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کسی شخص کو یوں نہ کہنا چاہئے کہ میں یونس بن متی سے بہتر ہوں ۔

الراوي: عبدالله بن عباس المحدث:البخاري - المصدر: صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 3395
خلاصة حكم المحدث: [صحيح]

الراوي: أبو هريرة المحدث:البخاري - المصدر: صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 3416
خلاصة حكم المحدث: [صحيح]

الراوي: عبدالله بن عباس المحدث:البخاري - المصدر: صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 4630
خلاصة حكم المحدث: [صحيح]

ایسی طرح مولا علی علیہ السلام کے اس قول کو بھی ایسی انداز میں سمجھنا چاہئے کہ عاجزی و انکساری کے طور پر کہا گیا ہے پھر دوسری بات یہ کہ یہ فرمان حضرت عمر کے وصال کے بعد کا ہے
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مردہ کی برائی کرنے سے منع فرمایا ہے
 

ضدی

رکن
شمولیت
اگست 23، 2013
پیغامات
290
ری ایکشن اسکور
275
پوائنٹ
76
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مردہ کی برائی کرنے سے منع فرمایا ہے
حضرت عمر رضی اللہ عنہ تو شہید ہیں اور قرآن میں اللہ تعالٰی نے شہید کے متعلق کیا فرمایا ہے ذرا وہ بھی پیش کردیں۔ بہرام
 
Top