• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حنفی مقلد جواب دیں

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
بھائی دیکھنے تو دیں کہ اشماریہ صاحب کیا تعریف کرتے ہیں اور ان کے نزدیک تقلید کی کیا تعریف ہے؟ کوئی بات نہیں وہ جس چیز کو تقلید سمجھتے ہیں وہی بیان کر دیں۔
جزاک اللہ خیرا
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
تقلید کی تعریف محمد بن علی تھانوی (المتوفی بعد 1158ھ) نے یہ لکھی ہے:۔
العمل بقول الغير من غير حجة
بغیر دلیل کے دوسرے کے قول پر عمل کرنا۔
اور بعض شروح حسامی (اصول فقہ کی مشہور اور مختصر کتاب) کے حوالے سے لکھی ہے:۔
التقليد اتّباع الإنسان غيره فيما يقول أو يفعل معتقدا للحقية من غير نظر إلى الدليل
الکشاف اصطلاحات العلوم و الفنون، 1۔500، مکتبۃ لبنان ناشرون۔
تقلید ایک انسان کا دوسرے کی اتباع کرنا ہے ان چیزوں میں جو وہ کہتا یا کرتا ہے دلیل میں غور و فکر کیے بغیر۔

عرض یہ ہے کہ من غیر حجۃ یا دلیل قید اتفاقی ہے۔
واللہ اعلم
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
تقلید کی تعریف محمد بن علی تھانوی (المتوفی بعد 1158ھ) نے یہ لکھی ہے:۔
العمل بقول الغير من غير حجة
بغیر دلیل کے دوسرے کے قول پر عمل کرنا۔
اور بعض شروح حسامی (اصول فقہ کی مشہور اور مختصر کتاب) کے حوالے سے لکھی ہے:۔
التقليد اتّباع الإنسان غيره فيما يقول أو يفعل معتقدا للحقية من غير نظر إلى الدليل
الکشاف اصطلاحات العلوم و الفنون، 1۔500، مکتبۃ لبنان ناشرون۔
تقلید ایک انسان کا دوسرے کی اتباع کرنا ہے ان چیزوں میں جو وہ کہتا یا کرتا ہے دلیل میں غور و فکر کیے بغیر۔
شکریہ، آپ نے تقلید کی تعریف پیش کی، ہمارے نزدیک بھی تقلید کی تعریف اس سے ملتی جلتی ہے۔ ہمارے نزدیک تقلید کی تعریف:
"کسی بھی انسان کا قول اگر کتاب و سنت سے ٹکرا جائے تو کتاب و سنت کے خلاف اس کی بات کو تسلیم کرنا تقلید کہلاتا ہے"
اسی لیے ہم کسی امام کی تقلید نہیں کرتے کیونکہ یہ گمراہی کا راستہ ہے۔
عرض یہ ہے کہ من غیر حجۃ یا دلیل قید اتفاقی ہے۔
آپ اپنے اس جملے کی وضاحت بھی کر دیں۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
اشماریہ بھائی! اگر آپ مجھ سے کوئی سوال کرنا چاہیں تو ضرور کریں، ورنہ میرا آپ سے اگلا سوال:
جب میں نے آپ کے تعارف میں یہ بات لکھی تھی:
ہم اہلحدیث حضرات کا بھی یہی منہج ہے کہ ہر وہ بات چاہے وہ کسی امام کی ہو یا کسی صحابی کی اگر وہ اللہ کی کتاب اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے ٹکرا جائے تو فورا اسے چھوڑ کر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی جائے، یہی سیدھا منہج ہے،اور یہی ہمارا منہج ہے۔لنک
تو آپ نے کہا تھا:

اس منہج سے بھی اختلاف رکھتا ہوں (ابتسامہ)۔
لیکن اس کو بالکل غلط نہیں کہتا۔لنک
تو اس کا کیا مطلب ہے؟
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
شکریہ، آپ نے تقلید کی تعریف پیش کی، ہمارے نزدیک بھی تقلید کی تعریف اس سے ملتی جلتی ہے۔ ہمارے نزدیک تقلید کی تعریف:
"کسی بھی انسان کا قول اگر کتاب و سنت سے ٹکرا جائے تو کتاب و سنت کے خلاف اس کی بات کو تسلیم کرنا تقلید کہلاتا ہے"
اسی لیے ہم کسی امام کی تقلید نہیں کرتے کیونکہ یہ گمراہی کا راستہ ہے۔



پھر اس صورت میں تو آپ کی بتائی ہوئی تعریف کے مطابق مقلد شاذ و نادر ہی کوئی ہوگا۔ یہ میری بتائی ہوئی تعریف سے تو کہیں سے بھی ملتی جلتی محسوس نہیں ہوتی۔
اگر حقیقت میں کتاب و سنت سے ٹکرا جائے تو ہم بھی رد کر دیتے ہیں لیکن شرط یہ ہے کہ حقیقت میں ٹکرائے۔ یعنی امام کے قول کے حق میں کوئی دلیل موجود نہ ہو۔ ایسا صرف اس وقت ممکن ہوتا ہے جب امام تک سرے سے نہ کوئی روایت پہنچی ہو اور نہ اس نے اپنے اسلاف جو کہ تابعین اور فقہ و حدیث کے امام تھے ان کو بھی ایسا کرتے نہ دیکھا ہو۔ جب کہ ایسی روایات دنیا میں موجود ہوں۔ یعنی وہ ناواقف رہا ہو باوجود موجود ہونے کے۔ پھر اس نے اجتہاد کیا ہو۔
لیکن خیر القرون کے زمانے میں جب کہ لوگ اسلام پر حریص تھے اور باریک سے باریک باتوں کو یاد بھی رکھتے تھے اور عمل بھی کرتے تھے ایسا نہیں ہوتا تھا۔

آپ اپنے اس جملے کی وضاحت بھی کر دیں۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی دلائل ڈھونڈے یا مانگے تو بھی وہ تقلید سے نکلتا نہیں ہے۔ اسے کسی امام کا مقلد یوں کہا جاتا ہے کہ وہ اکثر مسائل میں اس امام کی اطاعت کرتا ہے۔ یا کسی مسئلہ کی دلیل ڈھونڈنے کے بعد امام کے موقف پر شرح صدر ہونے پر اپنے اس عمل کی نسبت امام کی طرف ہی کرتا ہے۔ یا پھر اگر مجتہد فی المذہب کے درجے پر ہو تو اپنے اکثر مسائل میں امام کے اصولوں کی اتباع کرتا ہے۔

تو اس کا کیا مطلب ہے؟
محمد ارسلان بھائی اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی علم رکھتا ہو اور پھر اختلاف کرے تو بالکل درست ہے۔ لیکن اگر اسے علم نہ ہو اور صرف ترجمہ دیکھ کر یا کسی ایک یا ایک سے زائد احادیث مبارکہ کی عربی عبارت پڑھ کر دوسرے کے فتوی کو رد کرے اور کہے کہ یہ اللہ کی کتاب اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے مخالف ہے تو پھر یہ کیسے صحیح ہو سکتا ہے؟ جب اسے ناسخ و منسوخ کا نہیں پتا، جب اسے متعارض احادیث کا نہیں پتا اور جب اسے احادیث کے اصولوں، ان سے مسئلہ اخذ کرنے کے طریقوں اور الفاظ کے اصل مفہوم کا نہیں پتا تو کیا وہ درست ہوگا؟
ہوتا یہ ہے کہ ہم خود تو تحقیق کرنا جانتے نہیں ہیں اور کسی ایک جانب کے عالم سے یا اس کی کتاب سے معلوم کرتے ہیں۔ وہ ہمیں بتاتے ہیں کہ یہ مسئلہ اس طرح فلاں فلاں حدیث سے ثابت ہے (ظاہر ہے وہ تو درست کرتے ہیں) اور ہم ان احادیث کو دیکھ کر یہ کہتے ہیں کہ فلاں نے غلط کہا ہے۔ حالاں کہ ہمیں اس فلاں کے دلائل کا پتا نہیں ہوتا۔
پھر بسا اوقات یہ ہوتا ہے کہ ہم مخالف کے دلائل ان عالم سے ڈسکس کرتے ہیں تو وہ انہیں کمزور ثابت کر دیتے ہیں۔ اور ہمیں اس علم کا پتا نہیں ہوتا تو ہم کہتے ہیں انہوں نے درست کہا ہے۔
اور سب سے بڑھ کر یہ مرحلہ ہوتا ہے کہ دونوں قسم کے علماء سے مسئلہ کے دلائل پوچھتے ہیں اور ایک عالم کی اس خاص مسئلہ پر تحقیق نہیں ہوتی اس لیے وہ دوسرے کے دلائل کو کمزور ثابت نہیں کر سکتا یا ایک (حدیث مبارکہ کے مطابق) بولنے میں دوسرے سے تیز ہوتا ہے تو ہم کہتے ہیں کہ یہ درست ہے۔ ہم۔۔۔ ہمیں تو علم ہی نہیں اس کا۔
میرے محترم بھائی کیا یہ تقلید نہیں ہے؟ پہلے ایک عالم (یا امام) کے قول کی تقلید تھی اور اب ایک عالم کے علم کی تقلید ہے۔
ہم میں کیا فرق آیا؟ صرف یہ کہ پہلے جس کا موقف موافق نہیں تھا اسے غلط نہیں سمجھتے تھے اور اب جس کا موقف موافق نہیں ہے اسے قرآن و حدیث کے خلاف اور بسا اوقات تو کافر تک سمجھ لیتے ہیں۔

تقلید چھوڑئیے۔ اگر اللہ پاک آپ کو موقع دے تو ضرور چھوڑئیے لیکن اس وقت جب آپ خود اپنے مسائل پر اپنے لیے دلیل اور مخالف کے لیے رد تلاش کر سکتے ہوں۔
دین اسلام فقہ حنفی میں بند نہیں ہے نہ ہی فقہ شافعی، مالکی یا حنبلی میں۔ لیکن آپ اپنے عمل کے لیے خود تیار تو ہوں اگر انہیں چھوڑتے ہیں۔

یہ میرا موقف ہے اور یہی میں اپنے ایک جماعت المسلمین کے ساتھی کو کہتا ہوں۔
اور اسی کے مطابق جہاں مجھے علم ہوتا ہے دلائل کا وہاں میں احناف سے اختلاف کرتا ہوں۔
ایک بار اسے پڑھئیے گا ضرور۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
اشماریہ بھائی! شکریہ آپ نے اپنا موقف پیش کیا۔آپ لکھتے ہیں:
اگر حقیقت میں کتاب و سنت سے ٹکرا جائے تو ہم بھی رد کر دیتے ہیں لیکن شرط یہ ہے کہ حقیقت میں ٹکرائے۔ یعنی امام کے قول کے حق میں کوئی دلیل موجود نہ ہو۔ ایسا صرف اس وقت ممکن ہوتا ہے جب امام تک سرے سے نہ کوئی روایت پہنچی ہو اور نہ اس نے اپنے اسلاف جو کہ تابعین اور فقہ و حدیث کے امام تھے ان کو بھی ایسا کرتے نہ دیکھا ہو۔ جب کہ ایسی روایات دنیا میں موجود ہوں۔ یعنی وہ ناواقف رہا ہو باوجود موجود ہونے کے۔ پھر اس نے اجتہاد کیا ہو۔
میں آپ کو ایک مسئلہ بتاتا ہوں، حدیث میں شوال کے 6 روزے رکھنے کا حکم ہے، اور ابوحنیفہ صاحب کے نزدیک شوال کے چھ روزے مکروہ ہیں، میں عالم نہ سہی عامی ہونے کی حیثیت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سے ابوحنیفہ صاحب کے قول کو ٹکراتا واضح دیکھ رہا ہوں، میں تو اس صورتحال میں شوال کے چھ روزے رکھوں گا کیونکہ مجھ تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم پہنچ چکا ہے۔
آپ بتائیے اگر کوئی ابوحنیفہ صاحب کی بات مانتا ہے تو وہ کس کیٹگری میں شامل ہو گا؟
آپ لکھتے ہیں:
لیکن خیر القرون کے زمانے میں جب کہ لوگ اسلام پر حریص تھے اور باریک سے باریک باتوں کو یاد بھی رکھتے تھے اور عمل بھی کرتے تھے ایسا نہیں ہوتا تھا۔
پھر ابوحنیفہ صاحب نے شوال کے6 روزوں کو مکروہ کیوں قرار دیا؟ اگر وہ (یعنی ابو حنیفہ)اسلام پر حریص تھے اور باریک سے باریک باتوں کو بھی یاد رکھتے تھے اور عمل بھی کرتے تھے تو انہوں نے شوال کے 6روزوں کو مکروہ قرار کیوں دیا؟
  • اگر آپ کہتے ہیں کہ ان تک حدیث نہیں پہنچی ہو گی تو مان لیں کہ فقہ حنفی میں اکثر مسائل اسی طرح ابوحنیفہ صاحب تک احادیث نا پہنچنے کی وجہ سے ناقابل عمل ہیں۔
  • اگر آپ کہتے ہیں کہ ان کی طرف یہ قول منسوب کیا گیا ہے،انہوں نے ایسا نہیں کہا، تو آپ مان لیں کہ فقہ حنفی میں ابوحنیفہ صاحب کی طرف کئی باتیں غلط منسوب کی گئی ہیں۔
اس پر آپ کیا کہنا چاہیں گے؟
 

ابو عبدالله

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 28، 2011
پیغامات
723
ری ایکشن اسکور
448
پوائنٹ
135
کسی مسئلہ کی دلیل ڈھونڈنے کے بعد امام کے موقف پر شرح صدر ہونے پر اپنے اس عمل کی نسبت امام کی طرف ہی کرتا ہے۔ یا پھر اگر مجتہد فی المذہب کے درجے پر ہو تو اپنے اکثر مسائل میں امام کے اصولوں کی اتباع کرتا ہے۔
ایک نظر اس فتویٰ کو بھی دیکھ لیں کہ مفتی صاحب نے دلیل مانگنے پر کیا فرمایا، اور فیصلہ فرمادیں کہ کون صحیح ہے اور کون غلط، آپ یا دارلعلوم دیوبند کے مفتی صاحب؟
http://darulifta-deoband.org/showuserview.do?function=answerView&all=ur&id=37856&limit=3&idxpg=0&qry=%3Cc%3EPAD%3C%2Fc%3E%3Cs%3EFAE%3C%2Fs%3E%3Cl%3Eur%3C%2Fl%3E

شرط یہ ہے کہ حقیقت میں ٹکرائے۔ یعنی امام کے قول کے حق میں کوئی دلیل موجود نہ ہو۔ ایسا صرف اس وقت ممکن ہوتا ہے جب امام تک سرے سے نہ کوئی روایت پہنچی ہو
اس بات کا بہترین جواب اوپر والے لنک میں مفتی صاحب نے پہلی لائن میں دیا ہے کہ "جس قدر عربی میں کتب فتاویٰ متداول ہیں، ان میں کہیں دلائل نہیں لکھے ہوئے ہیں، نہ ہی ہم مقلدین کے لیے دلائل کی ضرورت ہے۔"

ہم میں کیا فرق آیا؟ صرف یہ کہ پہلے جس کا موقف موافق نہیں تھا اسے غلط نہیں سمجھتے تھے اور اب جس کا موقف موافق نہیں ہے اسے قرآن و حدیث کے خلاف اور بسا اوقات تو کافر تک سمجھ لیتے ہیں۔
کیا واقعی آپ سمجھتے ہیں کہ پہلے مخالف موقف والے کو غلط نہیں سمجھتے تھے؟

ع اتنی نہ بڑھا پاکی داماں کی حکایت

تقلید چھوڑئیے۔
100 فیصد متفق

اشماریہ بھائی

ایک بار اسے پڑھئیے گا ضرور۔


اللہ ہم سب کو ہدایت دے اور اس رستے پر چلائے جو انعام یافتگان کا راستہ ہے۔ آمین
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
اشماریہ بھائی! شکریہ آپ نے اپنا موقف پیش کیا۔آپ لکھتے ہیں:
میں آپ کو ایک مسئلہ بتاتا ہوں، حدیث میں شوال کے 6 روزے رکھنے کا حکم ہے، اور ابوحنیفہ صاحب کے نزدیک شوال کے چھ روزے مکروہ ہیں، میں عالم نہ سہی عامی ہونے کی حیثیت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سے ابوحنیفہ صاحب کے قول کو ٹکراتا واضح دیکھ رہا ہوں، میں تو اس صورتحال میں شوال کے چھ روزے رکھوں گا کیونکہ مجھ تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم پہنچ چکا ہے۔
آپ بتائیے اگر کوئی ابوحنیفہ صاحب کی بات مانتا ہے تو وہ کس کیٹگری میں شامل ہو گا؟

جزاک اللہ محمد ارسلان بھائی
یہ بتائیے کیا اس مسئلہ میں ابوحنیفہ رح کے پاس کوئی دلیل ہے یا انہوں نے بلا کسی دلیل یہ بات کہ دی ہے؟
اگر شوال کے چھ روزوں پر کسی کا بھی عمل تھا اور کوئی ایک شخص بھی ان کے بارے میں روایت کرتا تھا تو کیا ابو حنیفہ رح بلا دلیل اس کا انکار کر سکتے ہیں۔
جب آپ اپنے بیان کیے ہوئے مسئلہ پر اس تناظر میں تحقیق کریں گے تو آپ کے سامنے بآسانی واضح ہو جائے گا۔

اگر وہ (یعنی ابو حنیفہ)اسلام پر حریص تھے
صرف ابو حنیفہ نہیں تمام تابعین۔ آپ خود سوچیں کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ بغداد اور اس کے قریب کوفہ میں جب کہ یہ اسلامی سلطنت کے دار الحکومت بھی رہے ہیں کوئی ایک ایسا صحابی یا تابعی بھی نہ تھا جو ایک حدیث نہیں جانتا تھا اور نہ اس پر کسی کا عمل تھا؟


اگر آپ کہتے ہیں کہ ان تک حدیث نہیں پہنچی ہو گی تو مان لیں کہ فقہ حنفی میں اکثر مسائل اسی طرح ابوحنیفہ صاحب تک احادیث نا پہنچنے کی وجہ سے ناقابل عمل ہیں۔
حیرت ہے اکثر مسائل کیسے ناقابل عمل ہو گئے۔ خیر ہم اسے بالفرض ممکن مان لیتے ہیں۔
لیکن مسئلہ یہ ہے کہ آپ کو فقہ حنفی (نہ صرف فقہ حنفی بلکہ تمام فقہ) کا شاید صحیح علم نہیں ہے۔ ابو حنیفہ رح کے فورا بعد ہی مسائل پر تحقیق شروع ہو گئی تھی اور ہر زمانے میں یہ تحقیق جاری رہی ہے۔ فقہ میں بے شمار جگہیں ایسی ہیں جہاں ابو حنیفہ رح کے قول پر فتوی نہیں دیا گیا۔ بلکہ امام ابو یوسف رح، امام محمد رح اور بسا اوقات تو امام زفر رح کے قول پر فتوی دیا گیا ہے۔
بلکہ ذرا اور تحقیق پر نظر ڈالیں تو کچھ مقامات پر امام احمد بن حنبل رح اور امام مالک رح کے قول پر بھی فتوی دیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ خود حنفی مفتیان کرام کی آراء ہر زمانے میں ظاہر ہوتی رہی ہیں۔
دیگر فقہ میں بھی یہ ہوا ہے چنانچہ موجودہ دور میں بیع عینہ کے مسئلے میں امام شافعی رح کے قول پر خود شافعی علماء بھی بہت کم فتوی دیتے ہیں۔
یہ سب کیوں ہے؟ ایسا کیوں ہوا؟ صرف تحقیق کی وجہ سے۔ جہاں ایک امام کی رائے کو کمزور خیال کیا گیا اور دوسرے کی رائے کو مضبوط تو اس پر فتوی دیا گیا۔ اور یہ کن لوگوں نے کیا؟ علمی میدان کے بڑے بڑے شہسواروں نے۔
تو جب معاملہ یوں ہو تو کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ کسی جگہ فقہ حنفی کا مسئلہ حدیث سے ٹکرائے گا اور بلا دلیل ہم فقہ حنفی کو ہی مانتے رہیں گے؟
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
ایک نظر اس فتویٰ کو بھی دیکھ لیں کہ مفتی صاحب نے دلیل مانگنے پر کیا فرمایا، اور فیصلہ فرمادیں کہ کون صحیح ہے اور کون غلط، آپ یا دارلعلوم دیوبند کے مفتی صاحب؟


میرا ذاتی خیال ہے کہ یہ مفتی صاحب ابھی حیات ہوں گے۔ بجائے اس کے کہ آپ میرا اور ان کا موازنہ کریں آپ ان کا نمبر حاصل کر کے ان سے فون پر تفصیل پوچھ لیں۔

بھائی جان آپ نے میرا موقف تو تعارف میں پڑھا ہی ہوگا۔
مجھے جہاں اختلاف ہوتا ہے میں وہاں اپنی الگ رائے رکھتا ہوں۔ اگر مفتی صاحب واقعی یہ سمجھتے ہیں تو یہ ان کی رائے ہے۔ آپ مجھے مہربانی فرما کر اس کا مکلف مت ٹھہرائیں۔ باقی رائے کے مختلف ہونے سے ایک صحیح اور دوسرا غلط ہو جاتا ہے؟ اس طرح تو بے شمار مقامات پر علی رض، عمر رض اور ابن مسعود رض وغیرہ کی رائے میں اختلاف ہوتا تھا۔
مجھے اس بات پر کافی حیرت ہوئی۔ میرے بھائی تھوڑی سی وسعت پیدا کیجیئے نظر میں۔

کیا واقعی آپ سمجھتے ہیں کہ پہلے مخالف موقف والے کو غلط نہیں سمجھتے تھے؟
غلط سے مراد سراسر غلط ہے یعنی بالکل باطل۔ اور ہم دوسرے کو بالکل باطل نہیں سمجھتے۔
 

ابو عبدالله

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 28، 2011
پیغامات
723
ری ایکشن اسکور
448
پوائنٹ
135
جب آپ اپنے بیان کیے ہوئے مسئلہ پر اس تناظر میں تحقیق کریں گے تو آپ کے سامنے بآسانی واضح ہو جائے گا۔
ماشاء اللہ اہل حدیثوں کی محنت کچھ تو رنگ لائی کہ اب لوگوں کو "مقلد" بنانے کے لیے بھی تحقیق کی دعوت دی جانے لگی۔ فللہ الحمد

میرے بھائی تھوڑی سی وسعت پیدا کیجیئے نظر میں۔


غلط سے مراد سراسر غلط ہے یعنی بالکل باطل۔ اور ہم دوسرے کو بالکل باطل نہیں سمجھتے۔

بھائی میں تو وسعت پیدا کر لوں گا نظر میں، لیکن آپ جواب لکھنے کے بعد پڑھ لیا کریں تاکہ آپ کو اپنی پوسٹ کے عام فہم الفاظ کی بھی "مزید تشریح" نہ کرنی پڑے۔۔۔۔ ابتسامہ
 
Top