• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حکمران بیورو کریسی اور عوام ۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ کی کتاب السیاسۃ الشرعیہ کی تفہیم

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
حال یہ کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے۔ آپﷺ فرماتے تھے:

اَنَّ النَّاسَ اِذَا رَاَوُا الْمُنْکَرَ فَلَمْ یُغَیِّرُوْا اَوْ شَکَ اَنْ یَعُمَّھُمُ اللہُ بِعِقَابٍ مِّنْہُ
جب لوگ منکر، ناجائز کام کو دیکھیں اور اس کی اصلاح نہ کریں تو قریب ہے ان پر عذاب الٰہی عام ہو جائے۔

اور ایک دوسری حدیث میں ہے :

اِنَّ الْمَعْصِیَۃَ اِذَا اُخْفِیَتْ لَمْ تَضُرَّ اِلَّا صَاحِبَھَا وَلٰکِنْ اِذَا ظَھَرَتْ فَلَمْ تُنْکَرْ ضَرَّتِ الْعَامَّۃُ
معصیت و گناہ مخفی طور پر کیا جائے تو معصیت و گناہ کے اثر سے کرنیوالے ہی کو نقصان پہنچتا ہے لیکن جب کھلے طور پر کیا جائے اور اس کی اصلاح نہ کریں تو عام لوگوں کو نقصان ہوتا ہے
اور اسی قسم کو ہم نے حدودِ الٰہی، اور حقوق اللہ کے اندر پیش کیاہے جس کا بڑے سے بڑامقصود امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے۔

اور امر بالمعروف مثلاً نماز، زکوٰۃ، روزہ، حج، صدقہ و امانت، والدین کے ساتھ نیکی اور بھلائی، صلہ رحمی، اہل وعیال اور پڑوسیوں سے حسن معاشرت وغیرہ۔ پس ولی الامر{سردار، چودھری، افسر وغیرہ}، حاکم {وقت} کا فرض ہے کہ جن پر قدرت رکھتا ہے انہیں فرض نماز کا حکم کرے۔ اور تارکِ نماز کو عقاب و عذاب دے۔ اس پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہے۔ اگر تارکِ نماز باغی و ہٹ دھرم و سرکش گروہ ہے تو ان کے خلاف جہاد کرے، اس پر بھی مسلمانوں کا اجماع ہے۔
اسی طرح زکوٰۃ اور روزے ترک کرنے والوں کے خلاف بھی جہاد کیا جائے۔ یہی حکم ہے ان محرمات کا جن پر اجماع ہے۔ ان محرمات کو حلال جاننے والوں کے خلاف بھی جہاد کیا جائے۔ مثلاً محارم سے نکاح کرنا، اللہ کی زمین پر فساد پھیلانا وغیرہ۔ ان کے خلاف جہاد فرض ہے۔ ہر مضبوط اور سخت گروہ اگر التزامِ شریعت اور شرائع اسلام جو ظاہر اور متواتر ہیں، ان کا انکار کرے تو ان کے خلاف جہاد کرنا فرض ہے یہاں تک کہ تمام دین اللہ تعالیٰ کا دین ہو جائے۔ اس مسئلہ پر تمام علماء کا اتفاق ہے۔


اگر تارکِ نماز ایک شخص ہے تو اس کے متعلق کہا گیا ہے کہ اُسے سزا دی جائے، مار ماری جائے، قید و حبس میں رکھا جائے یہاں تک کہ وہ نماز کا پابند ہو جائے۔ اور جمہور علماء اس پر ہیں کہ اُسے قتل کر دیا جائے۔ اور اُسے قتل کرنا واجب ہے جبکہ وہ نماز ترک کرنے پر اڑ جائے۔ پہلے اُسے کہا جائے کہ توبہ کرو۔ اگر وہ توبہ کر لے اور نماز پڑھنے لگے تو بہتر وگرنہ قتل کر دیا جائے۔ اب اس کے بارے میں یہ فیصلہ باقی ہے کہ آیا یہ کافر ہو گیا اس لیے قتل کر دیا جائے، یا فاسق ہے اس لئے؟ اس مسئلہ میں دو قول ہیں۔ اور سلف کی اکثریت اس پر ہے کہ وہ کافر ہو گیا اس لیے قتل کر دیا جائے۔ اور یہ اس وقت ہے جبکہ وجوب کا اقرار کرتا ہو۔ لیکن جب وجوب ہی کا انکار کرے تو تمام مسلمان اس پر متفق ہیں کہ وہ اس انکار کی وجہ سے کافر ہو جاتا ہے۔ یہی حال تمام واجبات اور محرمات کا ہے جن کے خلاف اقدام کرنے پر اُسے قتل کرنا واجب ہو گا۔ کیونکہ ترک واجبات اور فعل محرمات کی عقوبت و سزا جہاد فی سبیل اللہ کا اصل مقصود ہے۔ اور یہ جہاد اُمت مسلمہ پر بالاتفاق واجب ہے جیسا کہ کتاب اللہ اور کتاب الرسول ﷺ اس پر دلالت کرتی ہیں۔ اور یہ جہاد بندوں کا بہترین عمل ہو گا
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
رسول اللہ ﷺ سے کسی نے درخواست کی کہ:

یَا رَسُوْلَ اللہ دُلَّنِیْ عَلٰی عَمَلٍ یَعْدِلُ الْجِھَادَ فِیْ سَبِیْلِ اللہ قَالَ لَا تَسْتَطِیْعُہٗ اَوْ لَا تُطِیْقُہ‘ قَالَ اَخْبِرْنِیْ بِہٖ قَالَ تَسْتَطِیْعُ اِذَا خَرَجَ الْمُجَاھِدُ اَنْ تَصُوْمَ وَلَا تَفْطَرْ وَ تَقُوْمَ وَلَا تَفْتِرْ قَالَ وَمَنْ یَسْتَطِیْعُ ذٰلِکَ فَذَا الَّذِیْ یَعْدِلُ الْجِھَادَ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ
یارسول اللہ ﷺ! مجھے ایسا عمل بتلائیے جو جہاد فی سبیل اللہ کے برابر ہو۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تم ایسے عمل کی طاقت نہیں رکھتے۔ اُس نے کہا مجھے بتلا تو دیجئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تم یہ طاقت رکھتے ہو کہ مجاہد جہاد کے لیے نکلے، اُس وقت سے تم روزہ رکھو اور کبھی ناغہ نہ کرو۔ اور رات بھر نماز پڑھو اور کبھی نہ چھوڑو۔ پھر فرمایا اس کی طاقت کون رکھتا ہے؟ پھر فرمایا یہ عمل جہاد فی سبیل اللہ کے برابر ہو سکتا ہے۔

اور آپ ﷺ نے فرمایا ہے:

اِنَّ فِی الْجَنَّۃِ لَمِأَۃَ دَرَجَۃٍ بَیْنَ الدَّرَجَۃِ اِلَی الدَّرَجَۃِ کَمَا بَیْنَ السَّمَائِ وَالْاَرْضِ اَعَدَّ اللہُ لِلْمُجَاھِدِیْنَ فِیْ سَبِیْلِہٖ
جنت میں سو درجے ہیں اور ہر دو درجوں کے درمیان آسمان و زمین کا فاصلہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مجاہدین فی سبیل اللہ کے لیے تیار رکھے ہیں۔

یہ دونوں حدیثیں صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں مروی ہیں۔ اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

رَاْسُ الْاَمْرِ الْاِسْلَامُ وَ عُمُوْدُہٗ الصَّلٰوۃُ وَ ذِرْوَۃُ سِنَامِہٖ الْجِھَادُ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ
اسلام راس الامر ہے۔ اور اس کا ستون نماز ہے۔ اور اس کی بلندی جہاد فی سبیل اللہ ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللہِ وَرَسُوْلِہٖ ثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوْا وَجَاھَدُوْا بِاَمْوَالِھِمْ وَ اَنْفُسِھِمْ فِی سَبِیْلِ اللہِ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الصَّادِقُوْنَ (الحجرات:15)
پس سچے مسلمان تو وہ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول ﷺپر ایمان لائے، پھر کسی قسم کا شک و شبہ نہیں کیا۔ اور اللہ کی راہ میں اپنے جان و مال سے جہاد کرتے رہے۔ حقیقت میں یہی سچے مسلمان ہیں۔

اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

اَجَعَلْتُمْ سِقَایَۃَ الْحَآجِّ وَ عِمَارَۃَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ کَمَنْ اٰمَنَ بِاللہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَجَاھَدَ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ لَا یَسْتَوٗنَ عِنْدَ اللہِ وَاللہُ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الظَّالِمِیْنَO اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ ھَاجَرُوا وَجَاھَدُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللہِ بِاَمْوَالِھِمْ وَاَنْفُسِھِمْ اَعْظَمُ دَرَجَۃً عِنْدِاللہ وَاُولٰئِٓکَ ھُمُ الْفَآئِزُوْنَ یُبَشِّرُھُمْ رَبُّھُمْ بِرَحْمَۃٍ مِّنْہُ وَ رِضْوَانٍ وَّ جَنّٰتٍ لَّھُمْ فِیْھَا نَعِیْمٌ مُّقِیْمٌ O خَالِدِیْنَ فِیْھَا اَبَدًا اِنَّ اللہَ عِنْدَہٗ اَجْرٌ عَظِیْمٌ
کیا تم لوگوں نے حاجیوں کو پانی پلانے اور مسجد حرام (یعنی بیت اللہ) آباد رکھنے کو اس شخص جیسا سمجھ لیا ہے جو اللہ اور روزِ آخرت پر ایمان لاتا اور اللہ کی راہ میں جہاد کرتا ہے، اللہ کے نزدیک تو یہ لوگ برابر نہیں۔ اور اللہ ظالم لوگوں کو راہِ راست نہیں دکھایا کرتا۔ جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے ہجرت کی اور اپنے جان و مال سے اللہ کے راستے میں جہاد کیا، یہ لوگ اللہ کے ہاں درجے میں کہیں بڑھ کر ہیں اور یہی لوگ منزل مقصود کو پہنچنے والے ہیں۔ ان کا رب ان کو اپنی مہربانی اور رضامندی اور باغوں میں رہنے کی خوشخبری دیتا ہے جن میں ان کو دائمی آسائش ملے گی، ان باغوں میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے، بیشک اللہ کے ہاں ثواب کا بڑا ذخیرہ موجود ہے۔ (سورہ توبہ:19 تا22)۔
 
Top