محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
صحیحین میں اُمّ المومنین عائشہ صدیقہ r سے مر وی ہے وہ کہتی ہیں:
مَا ضَرَبَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ بِیَدِہٖ خَادِمًا لَہٗ وَلَا اِمْرَأَۃً وَلَا دَابَّۃً وَلَا شَیءٍ قَطُّ اِلَّا اَنْ یُّجَاھِدَ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ وَ لَا نِیْلَ مِنْہٗ شَیْئٍ فَانْتَقَمْ لِنَفْسِہٖ قَطُّ اِلَّا اَنْ تَنْتِھَکَ حُرُمَاتِ اللہِ فَاِذَا اِنْتَھَکَ حُُُُُُُُُُرُمَاتِ اللہِ لَمْ یَقُمْ لِنَفْسِہٖ شَیءٌ حَتّٰی یَنْتَقِمَ لِلہِ
نبی کریم ﷺ نے نہ کبھی اپنے خادم کو مارا، نہ عورت کو، نہ جانور کو، اور نہ کسی اور کو، مگر جہاد فی سبیل اللہ کے وقت، اور آپ کو نہیں دیکھا گیا کہ اپنے لیے آپ ﷺ نے انتقام لیا ہو، مگر ہاں جب حدود اللہ کا مذاق اُڑایا جائے، جب تو آپ ﷺ کا غصہ کوئی تھام نہیں سکتا تھا۔ یہاں تک کہ آپ ﷺ اللہ تعالیٰ کا انتقام لے لیتے۔
جس کا غضب و غصہ اپنے لیے اپنی جان کے لیے ہے، پروردگا رِ عالم کے لیے نہیں یا جو اپنے لیے وصول کرتا ہے، پروردگا ر عالم کے لیے نہیں اور دوسروں کو نہیں دیتا تو یہ چوتھی قسم کے لوگ مخلوق میں شریر ترین لوگ ہیں۔ نہ ان سے دین کی اصلاح ممکن ہے نہ دنیا کی۔
مسلمانو! اللہ تم کو حکم دیتا ہے کہ امانت رکھوانے والوں کی امانتیں ان کے حوالے کر دیا کرو۔
۱ ؎ یہ ہے وہ اسلامی حکومت جسے اللہ کی حکومت کہا جاتا ہے۔ اور’’ سروری دردین ما خدمت گریست ‘‘ اسی کا نام ہے۔ آج کرۂ زمین پر بڑی بڑی حکو متیں قائم ہیں، لیکن کھوج لگاؤ کہ اَنْ تُؤدُّوا الْاَمَانَاتِ اِلٰیٓ اَہْلِہَا۔ کا وجود بھی ملتا ہے؟ اسلامی سلطنتو ں پر نگاہ ڈالو کہ کہیں بھی لا لنفسہ ولکن لربہ حکومت ہوئی ہے؟ ساری دنیا ایک ہی رنگ میں رنگی ہوئی ہے۔ سا ری دنیا پر آج وہی رنگ چڑھا ہوا ہے جو اسلام سے قبل روم و عجم پر چڑھا ہوا تھا بلکہ اس سے کہیں زیادہ۔
امام الہند شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نے حجۃاللہ البالغہ کے اندر باب ارتفاقات و اصلاح الرسوم میں رومیوں اور عجمیوں کا حا ل لکھا ہے، ہم اس کی تلخیص یہا ں پیش کرتے ہیں، اس پر غور کیجئے اور ’’اَنْ تُؤدُّوا الْاَمَانَاتِ اِلٰیٓ اَہْلِہَا‘‘ کی بحث سا منے لے آیئے، اور غور کیجئے کہ اللہ کیا چاہتا ہے، اور دنیا کدھر جا رہی ہے؟ اور دنیا کس قسم کا انقلاب چاہتی ہے، شاہ صاحب رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
رومیو ں اور عجمیوں کو جب خلافت ملی اور طویل مدت تک و ہ اس منصب پر سرفراز رہے، تو لذّات دنیا میں گم ہو کر رہ گئے، اور شیطان ان پر ایسا مسلط ہو گیا کہ زیا دہ سے زیا دہ اسباب عیش فراہم کرنا او ر ایک دوسرے سے بڑھ کر اپنی خوش حالی و نمائش کرنا، ان کی زندگی کا مقصد قرار پا گیا۔ عقل و حکمت کا استعمال بھی ان کے یہاں بس یہی تھا کہ معاشی فوائد کے چھوٹے سے چھوٹے وسائل تلاش کئے جائیں، اور پھر ان سے لطف اندوزی کے عجیب عجیب طریقے نکالے جائیں، ان کے رؤسا اپنی شان ریاست کے اظہار میں جس طرح دولت صرف کرتے تھے اس کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ جس شخص کا شمار رئیسوں میں ہوتا اس کے لیے دولاکھ درہم سے کم قیمت کا تا ج پہننا عار کی بات تھی، اس کے لیے ضروری تھا کہ ایک عالی شان محل میں رہے، جس کے ساتھ آبزن (پانی کے فوارے)، حمام اور باغ بھی ہو ں۔ غلاموں کی ایک فوج اس کی خدمت میں اور قیمتی گھوڑوں کی ایک کثیر تعداد اس کے اصطبل میں ہو۔ اس کا دستر خوان نہایت وسیع ہو اور بہتر سے بہتر کھانے اس کے باورچی خانے (کچن) میں ہر وقت تیار رہیں۔ غرض یہ کہ یہی چیزیں ان کے اصول معاش میں گھس گئیں اور ایسی جم گئیں کہ دلوں سے ان کا نکلنا محال ہو گیا۔ یہ ایک بیماری تھی جو اُن کے تمدن کی رگ رگ میں اتر گئی۔ اس کے اثرات بازاروں اور گھروں تک میں پھیل گئے مزدور اور کسان تک ان سے نہ بچ سکے۔ اس نے چند محلوں میں عیش و عشرت کے سامان جمع کرنے کے لیے ملکوں اور اقلیموں کی بے شمار مخلوق کو مصائب میں مبتلا کر دیا۔ اس لیے کہ یہ سا مان جمع نہیں ہو سکتے تھے جب تک کہ ان کے لیے پانی کی طرح روپیہ نہ بہا یا جائے۔ اور اتنی کثیر دولت فراہم کرنے کی اس کے سوا کوئی صورت نہ تھی کہ تاجروں اور کا شتکاروں اور دوسرے محنت پیشہ طبقوں پر زیادہ سے زیادہ ٹیکس لگائے جائیں۔ پھر اگر ٹیکسوں کی زیادتی سے تنگ آکر یہ غریب طبقے روپیہ دینے سے انکار کریں تو ان کو فوجوں سے پامال کرایا جائے، اور اگر طاقت سے ڈر کر وہ اطاعت میں سر جھکادیں تو ان کو گدھوں اور بیلوں کی طرح محنت میں جوت دیا جائے کہ وہ دن رات رئیسوں کے لیے دولت پیداکریں اور ان کو دم لینے کی بھی فرصت نہ ملے، کہ خود اپنی سعادت دنیا اور آخرت کے لیے بھی کچھ کر سکیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ لاکھوں کروڑوں کی آبادی میں مشکل ہی سے کوئی ایسا شخص ملتا تھا جس کی نگاہ میں دین و اخلاق کی کوئی اہمیت ہو، وہ بڑے بڑے کام جن پر نظام عالم کی بنیاد قائم ہے، اور جن پر انسانی فلاح و ترقی کا مدار ہے قریب قریب معطل ہو گئے تھے، لوگ زیادہ تر یا تو ان صنعتوں میں لگ جاتے تھے جو روساء کے لیے لوازم عیش پیدا کرنے کے لیے ضروری ہیں یا پھر ان فنون اور ان پیشوں کو اختیار کرتے تھے جن سے رئیسوں کو عموماً دلچسپی ہوا کرتی ہے، اس لیے کہ ان کے بغیر کوئی شخص روساء کے ہاں مقام حاصل نہیں کر سکتا تھا، اور رؤساء کے ہاں مقام حاصل کرنے کے لیے سوائے خوشحالی کے دوسرا کوئی ذریعہ نہ تھا۔ ایک اچھی جماعت شاعروں، مسخروں، نقالوں، گلوکاروں، رنڈیوں، مصاحبوں، شکاریوں اور اسی طرح کے لوگوں کی پیدا ہوگئی تھی جو دربار وں سے وابستہ رہتی تھی، اور ان کے ساتھ اگر اہل دین تھے بھی تو وہ حقیقت میں دیندار نہ تھے، بلکہ کسب معاش کے لیے دین کا پیشہ کر تے تھے، تاکہ اپنے زُہد کی نمائش سے یا شعبدوں سے یا اپنے مکروفریب سے کچھ کما کھائیں۔ اس طرح یہ مرض ان ممالک میں انسانی جماعت کو اوپر سے نیچے تک گھن کی طرح کھاگیا تھا۔ اس نے پوری پوری قوموں کے اخلاق گرادئے تھے۔ اور ان کے اندر رذیل خصلتیں پیوست کر دی تھیں۔ اس کی نحوست کی وجہ سے ان کی سر زمین میں اتنی صلاحیت ہی نہ رہی تھی کہ عبادت الٰہی اور مکارم اخلاق کا بیج اس کے اندر جڑ پکڑسکے۔ جب روم و عجم کے ممالک پر یہ مصیبت حد سے بڑھ گئی اور حد سے متجاوز ہو گئی تو اللہ تعالیٰ کا غضب بھڑک اٹھا۔ اور اس نے اس مرض کا علاج کرنے کا فیصلہ کر دیا کہ مرض کی جڑ کاٹ ڈالی جائے۔ چنانچہ ایک نبی اُمی (ﷺ) کو مبعوث فرمایا جو رومیوں اور عجمیوں سے گھلا ملا نہ تھا۔ اور جس تک ان کی عادات اطوار، خصائل کا کوئی اثر نہ پہنچا تھا۔ اس کو صحیح اور غلط، صالح اور فاسد، میں امتیاز کرنے والی میزان بنا دیا۔ اس کی زبان سے عجمی اور رومی عاداتِ قبیحہ کی مذمت کرائی۔ حیاتِ دنیا میں استغراق اور لذات دینوی میں انہماک کو مردود ٹھہرایا، عجمی عیش پرستی کے ارکان میں سے ایک ایک کو چن چن کر حرام کیا مثلاً سونے اور چاندی کے برتن، سونے جواہرات کے زیور، ریشمی کپڑے، تصاویر اور مجسمے وغیرہ وغیرہ۔ غرض یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اس نبی اُمی ﷺ کی سرداری سے روم وعجم کی سرداری کا استیصال کر دیااور اعلان کرادیا کہ: ہَلَکَ کِسْر یٰ فلَاَ کِسْریٰ بَعْدَہَ۔ وَ ہَلَکَ قَیْصَرُ فلَاَ قَیْصَرَ بَعْدَہٗ۔(انتھی ملخصاً ازباب اقامتہ الارتفاقات واصلاح الرسوم)
غرض! بعثت ِ نبوی ﷺ کے وقت جو حال ایران و روم کا تھا کہ معمورۂ دنیا پر چھا ئے ہوئے تھے، ساری دنیا انہی دو سلطنتوں کی غلامی کے شکنجہ میں کسئی ہوئی تھی، آج دنیا امریکہ اور یورپی یونین کی غلامی کے شکنجہ میں کسی ہوئی ہے۔ کہنے کو آزادہیں، لیکن حقیقت میں غلام ہیں۔ انہی کی غیر صالحہ سیاست کو سیاست سمجھتی ہے، انہی کے مفرطانہ عیش پرستی، عیش کوشی کو زندگی کا ڈھانچہ سمجھتی ہے، انہی کے اخلاق وکر دار کی غلامی میں زندگی گذارتی ہے، اورآج انہی کی سائنس نے دنیا کو عذاب الیم میں مبتلا کر رکھا ہے۔
اگر دنیا آج اپنے لیے امن چاہتی ہے، روٹی چاہتی ہے، امن و سکون کی زندگی گذارنا چاہتی ہے۔ دنیا اور آخرت بنانا چاہتی ہے، دنیا میں امن وچین سے رہ کر اللہ کو یا د کرنا چاہتی ہے، دنیا اور آخرت دونوں بنانا چاہتی ہے، تو اسلام کے دستور کو اپنائے، کہ یہ آسمانی دستور ہے، قرآنی دستور العمل ہے، ملک اللہ کا ہے تو حکومت بھی اللہ کی ہونی چاہئے ’’اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلہِ‘‘ (یونس:67) قواعد و ضوابط بھی اللہ ہی کے نافذ ہونے چاہئیں۔ رسول اللہ ﷺ اور آپ کے خلفاء ث اجمعین نے انہی قواعد و ضوابط کی طاقت سے ایسا انقلاب پیدا کر دیا کہ دنیا کا نقشہ تبدیل کر دیا۔ روم و ایران کا تختہ الٹ دیا اور دنیا پر اللہ کی حکومت قائم کر دی۔ نصف صدی بھی نہ گذرنے پائی تھی کہ قرآنی حکومت دنیا پر قائم کر دی۔ اور دنیا کے لیے رحمت و رافت، امن وچین، رحمت وسکون کی حکومت کھڑی کر دی۔ اور ’’اَنْ تُؤدُّوا الْاَمَانَاتِ اِلٰیٓ اَھْلِھَا‘‘ کی ہمہ گیر طاقت ساری دنیا پر چھا گئی۔ کاش مسلمان جاگیں اور رسول اللہ ﷺ اور خلفاء راشدین ث اجمعین کی پیروی کریں تو پھر یہ دنیا والوں کے لیے جنت بن جائے۔ لَعَلَّ اللہَ یُحْدِثُ بَعْدَ ذَالِکَ اَمْرًا (طلاق:1) (ابوالعلاء محمد اسمٰعیل گودھروی کان اﷲ لہٗ)
مَا ضَرَبَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ بِیَدِہٖ خَادِمًا لَہٗ وَلَا اِمْرَأَۃً وَلَا دَابَّۃً وَلَا شَیءٍ قَطُّ اِلَّا اَنْ یُّجَاھِدَ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ وَ لَا نِیْلَ مِنْہٗ شَیْئٍ فَانْتَقَمْ لِنَفْسِہٖ قَطُّ اِلَّا اَنْ تَنْتِھَکَ حُرُمَاتِ اللہِ فَاِذَا اِنْتَھَکَ حُُُُُُُُُُرُمَاتِ اللہِ لَمْ یَقُمْ لِنَفْسِہٖ شَیءٌ حَتّٰی یَنْتَقِمَ لِلہِ
نبی کریم ﷺ نے نہ کبھی اپنے خادم کو مارا، نہ عورت کو، نہ جانور کو، اور نہ کسی اور کو، مگر جہاد فی سبیل اللہ کے وقت، اور آپ کو نہیں دیکھا گیا کہ اپنے لیے آپ ﷺ نے انتقام لیا ہو، مگر ہاں جب حدود اللہ کا مذاق اُڑایا جائے، جب تو آپ ﷺ کا غصہ کوئی تھام نہیں سکتا تھا۔ یہاں تک کہ آپ ﷺ اللہ تعالیٰ کا انتقام لے لیتے۔
جس کا غضب و غصہ اپنے لیے اپنی جان کے لیے ہے، پروردگا رِ عالم کے لیے نہیں یا جو اپنے لیے وصول کرتا ہے، پروردگا ر عالم کے لیے نہیں اور دوسروں کو نہیں دیتا تو یہ چوتھی قسم کے لوگ مخلوق میں شریر ترین لوگ ہیں۔ نہ ان سے دین کی اصلاح ممکن ہے نہ دنیا کی۔
صالح اور نیک بندوں کی سیاست کامل تھی، ان کا طریقہ یہ تھا کہ واجبات پر پورا پورا عمل کرتے تھے، محرمات سے قطعاً بچتے تھے، یہ ایسے مقدس لوگ تھے کہ ان کے عطیہ سے دین کی اصلاح ہوتی تھی۔ اور وہی چیز وہ لیتے تھے جو اُن کے لیے مباح تھی۔ اُن کا غضب و غصہ رب العالمین کے لیے ہوتا تھا اور اس وقت ہوتا تھا جبکہ حدود اللہ توڑی جاتی تھیں اور اپنا حصہ، اپنا حق معاف کر دیتے تھے۔
اِنَّ اللہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمَانَاتِ اِلٰٓی اَہْلِہَا ۱ ؎ (نساء:58)یہ اخلا ق نبوی تھے، مال خرچ کرنے میں مال کے لینے میں اور جو کچھ آپ کر تے تھے کامل اور مکمل تھا۔ اور جوشخص ان اخلاق کے قریب ہو گا وہ افضل وبر تر ہو گا، پس مسلمانوں کا فرض اوّلین ہے کہ پوری پوری کوشش کریں اور طریق نبوی ﷺ کے قریب تر ہو جائیں اور کوشش کے بعد اپنے قصور تقصیر اور خطا کی معافی کے لیے بارگاہ الٰہی میں توبہ واستغفار کریں۔ اور سمجھ لیں کہ اللہ تعالیٰ نے جو دین دے کر نبی کریم ﷺ کو مبعوث فرمایا ہے کامل و مکمل ہے۔ اور یہ اُمور اللہ تعالیٰ کے اس قول میں موجود ہیں:
مسلمانو! اللہ تم کو حکم دیتا ہے کہ امانت رکھوانے والوں کی امانتیں ان کے حوالے کر دیا کرو۔
۱ ؎ یہ ہے وہ اسلامی حکومت جسے اللہ کی حکومت کہا جاتا ہے۔ اور’’ سروری دردین ما خدمت گریست ‘‘ اسی کا نام ہے۔ آج کرۂ زمین پر بڑی بڑی حکو متیں قائم ہیں، لیکن کھوج لگاؤ کہ اَنْ تُؤدُّوا الْاَمَانَاتِ اِلٰیٓ اَہْلِہَا۔ کا وجود بھی ملتا ہے؟ اسلامی سلطنتو ں پر نگاہ ڈالو کہ کہیں بھی لا لنفسہ ولکن لربہ حکومت ہوئی ہے؟ ساری دنیا ایک ہی رنگ میں رنگی ہوئی ہے۔ سا ری دنیا پر آج وہی رنگ چڑھا ہوا ہے جو اسلام سے قبل روم و عجم پر چڑھا ہوا تھا بلکہ اس سے کہیں زیادہ۔
امام الہند شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نے حجۃاللہ البالغہ کے اندر باب ارتفاقات و اصلاح الرسوم میں رومیوں اور عجمیوں کا حا ل لکھا ہے، ہم اس کی تلخیص یہا ں پیش کرتے ہیں، اس پر غور کیجئے اور ’’اَنْ تُؤدُّوا الْاَمَانَاتِ اِلٰیٓ اَہْلِہَا‘‘ کی بحث سا منے لے آیئے، اور غور کیجئے کہ اللہ کیا چاہتا ہے، اور دنیا کدھر جا رہی ہے؟ اور دنیا کس قسم کا انقلاب چاہتی ہے، شاہ صاحب رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
رومیو ں اور عجمیوں کو جب خلافت ملی اور طویل مدت تک و ہ اس منصب پر سرفراز رہے، تو لذّات دنیا میں گم ہو کر رہ گئے، اور شیطان ان پر ایسا مسلط ہو گیا کہ زیا دہ سے زیا دہ اسباب عیش فراہم کرنا او ر ایک دوسرے سے بڑھ کر اپنی خوش حالی و نمائش کرنا، ان کی زندگی کا مقصد قرار پا گیا۔ عقل و حکمت کا استعمال بھی ان کے یہاں بس یہی تھا کہ معاشی فوائد کے چھوٹے سے چھوٹے وسائل تلاش کئے جائیں، اور پھر ان سے لطف اندوزی کے عجیب عجیب طریقے نکالے جائیں، ان کے رؤسا اپنی شان ریاست کے اظہار میں جس طرح دولت صرف کرتے تھے اس کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ جس شخص کا شمار رئیسوں میں ہوتا اس کے لیے دولاکھ درہم سے کم قیمت کا تا ج پہننا عار کی بات تھی، اس کے لیے ضروری تھا کہ ایک عالی شان محل میں رہے، جس کے ساتھ آبزن (پانی کے فوارے)، حمام اور باغ بھی ہو ں۔ غلاموں کی ایک فوج اس کی خدمت میں اور قیمتی گھوڑوں کی ایک کثیر تعداد اس کے اصطبل میں ہو۔ اس کا دستر خوان نہایت وسیع ہو اور بہتر سے بہتر کھانے اس کے باورچی خانے (کچن) میں ہر وقت تیار رہیں۔ غرض یہ کہ یہی چیزیں ان کے اصول معاش میں گھس گئیں اور ایسی جم گئیں کہ دلوں سے ان کا نکلنا محال ہو گیا۔ یہ ایک بیماری تھی جو اُن کے تمدن کی رگ رگ میں اتر گئی۔ اس کے اثرات بازاروں اور گھروں تک میں پھیل گئے مزدور اور کسان تک ان سے نہ بچ سکے۔ اس نے چند محلوں میں عیش و عشرت کے سامان جمع کرنے کے لیے ملکوں اور اقلیموں کی بے شمار مخلوق کو مصائب میں مبتلا کر دیا۔ اس لیے کہ یہ سا مان جمع نہیں ہو سکتے تھے جب تک کہ ان کے لیے پانی کی طرح روپیہ نہ بہا یا جائے۔ اور اتنی کثیر دولت فراہم کرنے کی اس کے سوا کوئی صورت نہ تھی کہ تاجروں اور کا شتکاروں اور دوسرے محنت پیشہ طبقوں پر زیادہ سے زیادہ ٹیکس لگائے جائیں۔ پھر اگر ٹیکسوں کی زیادتی سے تنگ آکر یہ غریب طبقے روپیہ دینے سے انکار کریں تو ان کو فوجوں سے پامال کرایا جائے، اور اگر طاقت سے ڈر کر وہ اطاعت میں سر جھکادیں تو ان کو گدھوں اور بیلوں کی طرح محنت میں جوت دیا جائے کہ وہ دن رات رئیسوں کے لیے دولت پیداکریں اور ان کو دم لینے کی بھی فرصت نہ ملے، کہ خود اپنی سعادت دنیا اور آخرت کے لیے بھی کچھ کر سکیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ لاکھوں کروڑوں کی آبادی میں مشکل ہی سے کوئی ایسا شخص ملتا تھا جس کی نگاہ میں دین و اخلاق کی کوئی اہمیت ہو، وہ بڑے بڑے کام جن پر نظام عالم کی بنیاد قائم ہے، اور جن پر انسانی فلاح و ترقی کا مدار ہے قریب قریب معطل ہو گئے تھے، لوگ زیادہ تر یا تو ان صنعتوں میں لگ جاتے تھے جو روساء کے لیے لوازم عیش پیدا کرنے کے لیے ضروری ہیں یا پھر ان فنون اور ان پیشوں کو اختیار کرتے تھے جن سے رئیسوں کو عموماً دلچسپی ہوا کرتی ہے، اس لیے کہ ان کے بغیر کوئی شخص روساء کے ہاں مقام حاصل نہیں کر سکتا تھا، اور رؤساء کے ہاں مقام حاصل کرنے کے لیے سوائے خوشحالی کے دوسرا کوئی ذریعہ نہ تھا۔ ایک اچھی جماعت شاعروں، مسخروں، نقالوں، گلوکاروں، رنڈیوں، مصاحبوں، شکاریوں اور اسی طرح کے لوگوں کی پیدا ہوگئی تھی جو دربار وں سے وابستہ رہتی تھی، اور ان کے ساتھ اگر اہل دین تھے بھی تو وہ حقیقت میں دیندار نہ تھے، بلکہ کسب معاش کے لیے دین کا پیشہ کر تے تھے، تاکہ اپنے زُہد کی نمائش سے یا شعبدوں سے یا اپنے مکروفریب سے کچھ کما کھائیں۔ اس طرح یہ مرض ان ممالک میں انسانی جماعت کو اوپر سے نیچے تک گھن کی طرح کھاگیا تھا۔ اس نے پوری پوری قوموں کے اخلاق گرادئے تھے۔ اور ان کے اندر رذیل خصلتیں پیوست کر دی تھیں۔ اس کی نحوست کی وجہ سے ان کی سر زمین میں اتنی صلاحیت ہی نہ رہی تھی کہ عبادت الٰہی اور مکارم اخلاق کا بیج اس کے اندر جڑ پکڑسکے۔ جب روم و عجم کے ممالک پر یہ مصیبت حد سے بڑھ گئی اور حد سے متجاوز ہو گئی تو اللہ تعالیٰ کا غضب بھڑک اٹھا۔ اور اس نے اس مرض کا علاج کرنے کا فیصلہ کر دیا کہ مرض کی جڑ کاٹ ڈالی جائے۔ چنانچہ ایک نبی اُمی (ﷺ) کو مبعوث فرمایا جو رومیوں اور عجمیوں سے گھلا ملا نہ تھا۔ اور جس تک ان کی عادات اطوار، خصائل کا کوئی اثر نہ پہنچا تھا۔ اس کو صحیح اور غلط، صالح اور فاسد، میں امتیاز کرنے والی میزان بنا دیا۔ اس کی زبان سے عجمی اور رومی عاداتِ قبیحہ کی مذمت کرائی۔ حیاتِ دنیا میں استغراق اور لذات دینوی میں انہماک کو مردود ٹھہرایا، عجمی عیش پرستی کے ارکان میں سے ایک ایک کو چن چن کر حرام کیا مثلاً سونے اور چاندی کے برتن، سونے جواہرات کے زیور، ریشمی کپڑے، تصاویر اور مجسمے وغیرہ وغیرہ۔ غرض یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اس نبی اُمی ﷺ کی سرداری سے روم وعجم کی سرداری کا استیصال کر دیااور اعلان کرادیا کہ: ہَلَکَ کِسْر یٰ فلَاَ کِسْریٰ بَعْدَہَ۔ وَ ہَلَکَ قَیْصَرُ فلَاَ قَیْصَرَ بَعْدَہٗ۔(انتھی ملخصاً ازباب اقامتہ الارتفاقات واصلاح الرسوم)
غرض! بعثت ِ نبوی ﷺ کے وقت جو حال ایران و روم کا تھا کہ معمورۂ دنیا پر چھا ئے ہوئے تھے، ساری دنیا انہی دو سلطنتوں کی غلامی کے شکنجہ میں کسئی ہوئی تھی، آج دنیا امریکہ اور یورپی یونین کی غلامی کے شکنجہ میں کسی ہوئی ہے۔ کہنے کو آزادہیں، لیکن حقیقت میں غلام ہیں۔ انہی کی غیر صالحہ سیاست کو سیاست سمجھتی ہے، انہی کے مفرطانہ عیش پرستی، عیش کوشی کو زندگی کا ڈھانچہ سمجھتی ہے، انہی کے اخلاق وکر دار کی غلامی میں زندگی گذارتی ہے، اورآج انہی کی سائنس نے دنیا کو عذاب الیم میں مبتلا کر رکھا ہے۔
اگر دنیا آج اپنے لیے امن چاہتی ہے، روٹی چاہتی ہے، امن و سکون کی زندگی گذارنا چاہتی ہے۔ دنیا اور آخرت بنانا چاہتی ہے، دنیا میں امن وچین سے رہ کر اللہ کو یا د کرنا چاہتی ہے، دنیا اور آخرت دونوں بنانا چاہتی ہے، تو اسلام کے دستور کو اپنائے، کہ یہ آسمانی دستور ہے، قرآنی دستور العمل ہے، ملک اللہ کا ہے تو حکومت بھی اللہ کی ہونی چاہئے ’’اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلہِ‘‘ (یونس:67) قواعد و ضوابط بھی اللہ ہی کے نافذ ہونے چاہئیں۔ رسول اللہ ﷺ اور آپ کے خلفاء ث اجمعین نے انہی قواعد و ضوابط کی طاقت سے ایسا انقلاب پیدا کر دیا کہ دنیا کا نقشہ تبدیل کر دیا۔ روم و ایران کا تختہ الٹ دیا اور دنیا پر اللہ کی حکومت قائم کر دی۔ نصف صدی بھی نہ گذرنے پائی تھی کہ قرآنی حکومت دنیا پر قائم کر دی۔ اور دنیا کے لیے رحمت و رافت، امن وچین، رحمت وسکون کی حکومت کھڑی کر دی۔ اور ’’اَنْ تُؤدُّوا الْاَمَانَاتِ اِلٰیٓ اَھْلِھَا‘‘ کی ہمہ گیر طاقت ساری دنیا پر چھا گئی۔ کاش مسلمان جاگیں اور رسول اللہ ﷺ اور خلفاء راشدین ث اجمعین کی پیروی کریں تو پھر یہ دنیا والوں کے لیے جنت بن جائے۔ لَعَلَّ اللہَ یُحْدِثُ بَعْدَ ذَالِکَ اَمْرًا (طلاق:1) (ابوالعلاء محمد اسمٰعیل گودھروی کان اﷲ لہٗ)