• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حکمران بیورو کریسی اور عوام ۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ کی کتاب السیاسۃ الشرعیہ کی تفہیم

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
صحیحین میں اُمّ المومنین عائشہ صدیقہ r سے مر وی ہے وہ کہتی ہیں:

مَا ضَرَبَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ بِیَدِہٖ خَادِمًا لَہٗ وَلَا اِمْرَأَۃً وَلَا دَابَّۃً وَلَا شَیءٍ قَطُّ اِلَّا اَنْ یُّجَاھِدَ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ وَ لَا نِیْلَ مِنْہٗ شَیْئٍ فَانْتَقَمْ لِنَفْسِہٖ قَطُّ اِلَّا اَنْ تَنْتِھَکَ حُرُمَاتِ اللہِ فَاِذَا اِنْتَھَکَ حُُُُُُُُُُرُمَاتِ اللہِ لَمْ یَقُمْ لِنَفْسِہٖ شَیءٌ حَتّٰی یَنْتَقِمَ لِلہِ
نبی کریم ﷺ نے نہ کبھی اپنے خادم کو مارا، نہ عورت کو، نہ جانور کو، اور نہ کسی اور کو، مگر جہاد فی سبیل اللہ کے وقت، اور آپ کو نہیں دیکھا گیا کہ اپنے لیے آپ ﷺ نے انتقام لیا ہو، مگر ہاں جب حدود اللہ کا مذاق اُڑایا جائے، جب تو آپ ﷺ کا غصہ کوئی تھام نہیں سکتا تھا۔ یہاں تک کہ آپ ﷺ اللہ تعالیٰ کا انتقام لے لیتے۔

جس کا غضب و غصہ اپنے لیے اپنی جان کے لیے ہے، پروردگا رِ عالم کے لیے نہیں یا جو اپنے لیے وصول کرتا ہے، پروردگا ر عالم کے لیے نہیں اور دوسروں کو نہیں دیتا تو یہ چوتھی قسم کے لوگ مخلوق میں شریر ترین لوگ ہیں۔ نہ ان سے دین کی اصلاح ممکن ہے نہ دنیا کی۔

صالح اور نیک بندوں کی سیاست کامل تھی، ان کا طریقہ یہ تھا کہ واجبات پر پورا پورا عمل کرتے تھے، محرمات سے قطعاً بچتے تھے، یہ ایسے مقدس لوگ تھے کہ ان کے عطیہ سے دین کی اصلاح ہوتی تھی۔ اور وہی چیز وہ لیتے تھے جو اُن کے لیے مباح تھی۔ اُن کا غضب و غصہ رب العالمین کے لیے ہوتا تھا اور اس وقت ہوتا تھا جبکہ حدود اللہ توڑی جاتی تھیں اور اپنا حصہ، اپنا حق معاف کر دیتے تھے۔
یہ اخلا ق نبوی تھے، مال خرچ کرنے میں مال کے لینے میں اور جو کچھ آپ کر تے تھے کامل اور مکمل تھا۔ اور جوشخص ان اخلاق کے قریب ہو گا وہ افضل وبر تر ہو گا، پس مسلمانوں کا فرض اوّلین ہے کہ پوری پوری کوشش کریں اور طریق نبوی ﷺ کے قریب تر ہو جائیں اور کوشش کے بعد اپنے قصور تقصیر اور خطا کی معافی کے لیے بارگاہ الٰہی میں توبہ واستغفار کریں۔ اور سمجھ لیں کہ اللہ تعالیٰ نے جو دین دے کر نبی کریم ﷺ کو مبعوث فرمایا ہے کامل و مکمل ہے۔ اور یہ اُمور اللہ تعالیٰ کے اس قول میں موجود ہیں:
اِنَّ اللہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمَانَاتِ اِلٰٓی اَہْلِہَا ۱ ؎ (نساء:58)
مسلمانو! اللہ تم کو حکم دیتا ہے کہ امانت رکھوانے والوں کی امانتیں ان کے حوالے کر دیا کرو۔

۱ ؎ یہ ہے وہ اسلامی حکومت جسے اللہ کی حکومت کہا جاتا ہے۔ اور’’ سروری دردین ما خدمت گریست ‘‘ اسی کا نام ہے۔ آج کرۂ زمین پر بڑی بڑی حکو متیں قائم ہیں، لیکن کھوج لگاؤ کہ اَنْ تُؤدُّوا الْاَمَانَاتِ اِلٰیٓ اَہْلِہَا۔ کا وجود بھی ملتا ہے؟ اسلامی سلطنتو ں پر نگاہ ڈالو کہ کہیں بھی لا لنفسہ ولکن لربہ حکومت ہوئی ہے؟ ساری دنیا ایک ہی رنگ میں رنگی ہوئی ہے۔ سا ری دنیا پر آج وہی رنگ چڑھا ہوا ہے جو اسلام سے قبل روم و عجم پر چڑھا ہوا تھا بلکہ اس سے کہیں زیادہ۔

امام الہند شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نے حجۃاللہ البالغہ کے اندر باب ارتفاقات و اصلاح الرسوم میں رومیوں اور عجمیوں کا حا ل لکھا ہے، ہم اس کی تلخیص یہا ں پیش کرتے ہیں، اس پر غور کیجئے اور ’’اَنْ تُؤدُّوا الْاَمَانَاتِ اِلٰیٓ اَہْلِہَا‘‘ کی بحث سا منے لے آیئے، اور غور کیجئے کہ اللہ کیا چاہتا ہے، اور دنیا کدھر جا رہی ہے؟ اور دنیا کس قسم کا انقلاب چاہتی ہے، شاہ صاحب رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

رومیو ں اور عجمیوں کو جب خلافت ملی اور طویل مدت تک و ہ اس منصب پر سرفراز رہے، تو لذّات دنیا میں گم ہو کر رہ گئے، اور شیطان ان پر ایسا مسلط ہو گیا کہ زیا دہ سے زیا دہ اسباب عیش فراہم کرنا او ر ایک دوسرے سے بڑھ کر اپنی خوش حالی و نمائش کرنا، ان کی زندگی کا مقصد قرار پا گیا۔ عقل و حکمت کا استعمال بھی ان کے یہاں بس یہی تھا کہ معاشی فوائد کے چھوٹے سے چھوٹے وسائل تلاش کئے جائیں، اور پھر ان سے لطف اندوزی کے عجیب عجیب طریقے نکالے جائیں، ان کے رؤسا اپنی شان ریاست کے اظہار میں جس طرح دولت صرف کرتے تھے اس کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ جس شخص کا شمار رئیسوں میں ہوتا اس کے لیے دولاکھ درہم سے کم قیمت کا تا ج پہننا عار کی بات تھی، اس کے لیے ضروری تھا کہ ایک عالی شان محل میں رہے، جس کے ساتھ آبزن (پانی کے فوارے)، حمام اور باغ بھی ہو ں۔ غلاموں کی ایک فوج اس کی خدمت میں اور قیمتی گھوڑوں کی ایک کثیر تعداد اس کے اصطبل میں ہو۔ اس کا دستر خوان نہایت وسیع ہو اور بہتر سے بہتر کھانے اس کے باورچی خانے (کچن) میں ہر وقت تیار رہیں۔ غرض یہ کہ یہی چیزیں ان کے اصول معاش میں گھس گئیں اور ایسی جم گئیں کہ دلوں سے ان کا نکلنا محال ہو گیا۔ یہ ایک بیماری تھی جو اُن کے تمدن کی رگ رگ میں اتر گئی۔ اس کے اثرات بازاروں اور گھروں تک میں پھیل گئے مزدور اور کسان تک ان سے نہ بچ سکے۔ اس نے چند محلوں میں عیش و عشرت کے سامان جمع کرنے کے لیے ملکوں اور اقلیموں کی بے شمار مخلوق کو مصائب میں مبتلا کر دیا۔ اس لیے کہ یہ سا مان جمع نہیں ہو سکتے تھے جب تک کہ ان کے لیے پانی کی طرح روپیہ نہ بہا یا جائے۔ اور اتنی کثیر دولت فراہم کرنے کی اس کے سوا کوئی صورت نہ تھی کہ تاجروں اور کا شتکاروں اور دوسرے محنت پیشہ طبقوں پر زیادہ سے زیادہ ٹیکس لگائے جائیں۔ پھر اگر ٹیکسوں کی زیادتی سے تنگ آکر یہ غریب طبقے روپیہ دینے سے انکار کریں تو ان کو فوجوں سے پامال کرایا جائے، اور اگر طاقت سے ڈر کر وہ اطاعت میں سر جھکادیں تو ان کو گدھوں اور بیلوں کی طرح محنت میں جوت دیا جائے کہ وہ دن رات رئیسوں کے لیے دولت پیداکریں اور ان کو دم لینے کی بھی فرصت نہ ملے، کہ خود اپنی سعادت دنیا اور آخرت کے لیے بھی کچھ کر سکیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ لاکھوں کروڑوں کی آبادی میں مشکل ہی سے کوئی ایسا شخص ملتا تھا جس کی نگاہ میں دین و اخلاق کی کوئی اہمیت ہو، وہ بڑے بڑے کام جن پر نظام عالم کی بنیاد قائم ہے، اور جن پر انسانی فلاح و ترقی کا مدار ہے قریب قریب معطل ہو گئے تھے، لوگ زیادہ تر یا تو ان صنعتوں میں لگ جاتے تھے جو روساء کے لیے لوازم عیش پیدا کرنے کے لیے ضروری ہیں یا پھر ان فنون اور ان پیشوں کو اختیار کرتے تھے جن سے رئیسوں کو عموماً دلچسپی ہوا کرتی ہے، اس لیے کہ ان کے بغیر کوئی شخص روساء کے ہاں مقام حاصل نہیں کر سکتا تھا، اور رؤساء کے ہاں مقام حاصل کرنے کے لیے سوائے خوشحالی کے دوسرا کوئی ذریعہ نہ تھا۔ ایک اچھی جماعت شاعروں، مسخروں، نقالوں، گلوکاروں، رنڈیوں، مصاحبوں، شکاریوں اور اسی طرح کے لوگوں کی پیدا ہوگئی تھی جو دربار وں سے وابستہ رہتی تھی، اور ان کے ساتھ اگر اہل دین تھے بھی تو وہ حقیقت میں دیندار نہ تھے، بلکہ کسب معاش کے لیے دین کا پیشہ کر تے تھے، تاکہ اپنے زُہد کی نمائش سے یا شعبدوں سے یا اپنے مکروفریب سے کچھ کما کھائیں۔ اس طرح یہ مرض ان ممالک میں انسانی جماعت کو اوپر سے نیچے تک گھن کی طرح کھاگیا تھا۔ اس نے پوری پوری قوموں کے اخلاق گرادئے تھے۔ اور ان کے اندر رذیل خصلتیں پیوست کر دی تھیں۔ اس کی نحوست کی وجہ سے ان کی سر زمین میں اتنی صلاحیت ہی نہ رہی تھی کہ عبادت الٰہی اور مکارم اخلاق کا بیج اس کے اندر جڑ پکڑسکے۔ جب روم و عجم کے ممالک پر یہ مصیبت حد سے بڑھ گئی اور حد سے متجاوز ہو گئی تو اللہ تعالیٰ کا غضب بھڑک اٹھا۔ اور اس نے اس مرض کا علاج کرنے کا فیصلہ کر دیا کہ مرض کی جڑ کاٹ ڈالی جائے۔ چنانچہ ایک نبی اُمی (ﷺ) کو مبعوث فرمایا جو رومیوں اور عجمیوں سے گھلا ملا نہ تھا۔ اور جس تک ان کی عادات اطوار، خصائل کا کوئی اثر نہ پہنچا تھا۔ اس کو صحیح اور غلط، صالح اور فاسد، میں امتیاز کرنے والی میزان بنا دیا۔ اس کی زبان سے عجمی اور رومی عاداتِ قبیحہ کی مذمت کرائی۔ حیاتِ دنیا میں استغراق اور لذات دینوی میں انہماک کو مردود ٹھہرایا، عجمی عیش پرستی کے ارکان میں سے ایک ایک کو چن چن کر حرام کیا مثلاً سونے اور چاندی کے برتن، سونے جواہرات کے زیور، ریشمی کپڑے، تصاویر اور مجسمے وغیرہ وغیرہ۔ غرض یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اس نبی اُمی ﷺ کی سرداری سے روم وعجم کی سرداری کا استیصال کر دیااور اعلان کرادیا کہ: ہَلَکَ کِسْر یٰ فلَاَ کِسْریٰ بَعْدَہَ۔ وَ ہَلَکَ قَیْصَرُ فلَاَ قَیْصَرَ بَعْدَہٗ۔(انتھی ملخصاً ازباب اقامتہ الارتفاقات واصلاح الرسوم)

غرض! بعثت ِ نبوی ﷺ کے وقت جو حال ایران و روم کا تھا کہ معمورۂ دنیا پر چھا ئے ہوئے تھے، ساری دنیا انہی دو سلطنتوں کی غلامی کے شکنجہ میں کسئی ہوئی تھی، آج دنیا امریکہ اور یورپی یونین کی غلامی کے شکنجہ میں کسی ہوئی ہے۔ کہنے کو آزادہیں، لیکن حقیقت میں غلام ہیں۔ انہی کی غیر صالحہ سیاست کو سیاست سمجھتی ہے، انہی کے مفرطانہ عیش پرستی، عیش کوشی کو زندگی کا ڈھانچہ سمجھتی ہے، انہی کے اخلاق وکر دار کی غلامی میں زندگی گذارتی ہے، اورآج انہی کی سائنس نے دنیا کو عذاب الیم میں مبتلا کر رکھا ہے۔

اگر دنیا آج اپنے لیے امن چاہتی ہے، روٹی چاہتی ہے، امن و سکون کی زندگی گذارنا چاہتی ہے۔ دنیا اور آخرت بنانا چاہتی ہے، دنیا میں امن وچین سے رہ کر اللہ کو یا د کرنا چاہتی ہے، دنیا اور آخرت دونوں بنانا چاہتی ہے، تو اسلام کے دستور کو اپنائے، کہ یہ آسمانی دستور ہے، قرآنی دستور العمل ہے، ملک اللہ کا ہے تو حکومت بھی اللہ کی ہونی چاہئے ’’اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلہِ‘‘ (یونس:67) قواعد و ضوابط بھی اللہ ہی کے نافذ ہونے چاہئیں۔ رسول اللہ ﷺ اور آپ کے خلفاء ث اجمعین نے انہی قواعد و ضوابط کی طاقت سے ایسا انقلاب پیدا کر دیا کہ دنیا کا نقشہ تبدیل کر دیا۔ روم و ایران کا تختہ الٹ دیا اور دنیا پر اللہ کی حکومت قائم کر دی۔ نصف صدی بھی نہ گذرنے پائی تھی کہ قرآنی حکومت دنیا پر قائم کر دی۔ اور دنیا کے لیے رحمت و رافت، امن وچین، رحمت وسکون کی حکومت کھڑی کر دی۔ اور ’’اَنْ تُؤدُّوا الْاَمَانَاتِ اِلٰیٓ اَھْلِھَا‘‘ کی ہمہ گیر طاقت ساری دنیا پر چھا گئی۔ کاش مسلمان جاگیں اور رسول اللہ ﷺ اور خلفاء راشدین ث اجمعین کی پیروی کریں تو پھر یہ دنیا والوں کے لیے جنت بن جائے۔ لَعَلَّ اللہَ یُحْدِثُ بَعْدَ ذَالِکَ اَمْرًا (طلاق:1) (ابوالعلاء محمد اسمٰعیل گودھروی کان اﷲ لہٗ)
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
باب:10۔

فیصلے، سفارش اور رشوت وغیرہ

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: وَاِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْابِالْعَدْلِ۔ حدود و حقوق کسی ایک قوم کے لیے خاص خاص نہیں ہیں۔ حدود میں سفارش حرام و نا جائز ہے۔ رشوت دینے والا رشوت لینے والا او ر رشوت دینے دلانے والا دلال سب گناہ گار ہیں۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَاِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بِالْعَدْلِ (نساء:ع:8)
اور جب لوگوں کے باہمی جھگڑوں کا فیصلہ کر نے لگو تو انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو۔

لوگوں کو حکم {فیصلہ} کرنے کا مطلب یہ ہے کہ حدودو حقوق میں حکم {یعنی فیصلہ} کیا جائے۔ یہ حدود و حقوق دو قسم کے ہیں۔ حدود و حقوق کی ایک قسم وہ ہے جو کسی ایک خاص قوم کے لیے معیّن اور خاص نہیں ہے بلکہ اس کی منفعت مطلقاً مسلمانوں کے لیے ہے، مثلاً قطاع الطریق {راستے کاٹنے والے} ڈاکو، راہزن، چور، زانی وغیرہ پر حد جاری کرنا۔ مثلاً اموالِ سلطانی، اموالِ اوقاف اور وصایا، کہ یہ کسی ایک قوم کے لیے متعین اور مخصوص نہیں ہیں۔ اور یہ چیزیں حکومت، ولی الامر اور حاکم {وقت} کے لیے خاص توجہ کے محتاج ہیں۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب نے اسی لیے فرمایا ہے:

لَا بُدَّ لِلنَّاسِ مِنْ اِمَارَۃٍ بِرَّۃً کَانَتْ اَوْ فَاجِرَۃً
لوگوں کے لیے امارت قائم کرنا ضروری ہے نیک ہو یا بری ۔

لوگوں نے کہا: اے امیر المومنین نیک تو ٹھیک ہے۔ بُرا امیر کیوں مقرر کیا جائے؟ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا:

یُقَامُ بِھَا الْحُدُوْدُ وَتَاْمَنُ بِھَا السُّبُلُ وَ یُجَاھَدُ بِھَا الْعُدْوُّ وَ یُقْسَمُ بِھَا الْفِیْئیُ

اس امارت سے حدود اللہ کا اجراء ہوتا ہے، راستوں میں امن ملتاہے، دشمنوں سے اس کے ذریعہ جہاد کیا جاتا ہے، اور اس کے ذریعہ مال فئے تقسیم ہوا کرتا ہے۔
یہ وہ قسم ہے کہ والیانِ ملک {حاکمِ وقت}، امراء ولایت {قاضی و جج} پر اس سے بحث کرنا، اس پر غور کرنا فرض ہے اور بلا کسی دعویدار کے دعویٰ اور مطالبہ کے {یعنی حاکم اور کورٹ کو از خود نوٹس لیتے ہوئے} یہ حدود قائم کرنی چاہئیں۔ اور یہی حکم شہادت (گواہی) کا ہے، بغیر کسی کے دعوی کے لینی چاہیئے۔ اگر چہ فقہاء نے چور کے ہاتھ کاٹنے میں اختلاف کیا ہے کہ جو مال چوری ہو گیا، کیا اس کے مطالبہ کی ضرورت ہے کہ جس کا چوری ہوا ہے وہ اپنا ما ل طلب کر ے تو چور پر حد جاری ہوگی وگر نہ نہیں۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ وغیرہ کہتے ہیں کہ مطالبہ کے بغیر حد جاری نہیں کی جائے گی، لیکن سب فقہاء اس پر متفق ہیں کہ جس کی چوری ہوئی ہے، {چور پر} حد جاری کرنے کے لیے اس کے مطالبے کی ضرورت نہیں ہے۔ بعض علماء مال کے مطالبہ کی شرط لگاتے ہیں تاکہ چور کو کسی قسم کا شبہ نہ رہے۔

یہ جرائم کی وہ قسم ہے کہ جس میں حدود جاری کرنا واجب {یعنی فرض} ہے، شریف ہو یا کمین، اونچے خاندان اور بڑی برادری والا ہو یا نہیں۔ طاقتور ہو، یا ضعیف، سب پر حد جاری کرنا فرض ہے۔ جو {حاکم، جج یا قاضی} کسی کی شفاعت و سفارش سے، یا ہدیہ اور تحفہ لے کر، یا کسی دوسری وجہ سے حد کو معطل اور ساقط کرے گا تو اُس پر اللہ اور اس کے رسول، اور فرشتوں اور لوگوں کی لعنت ہو گی۔ اس میں کسی کی سفارش مقبول نہیں ہو گی۔ اور سفارش کرنے والا اس قبیل سے ہو گا۔ مَنِ اشْتَرٰی بِٰایٰاتِ اللہِ ثَمَنًا قَلِیْلًا۔ (اللہ کی آیتوں کو تھوڑے داموں بیچتا ہے )۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
اور امام ابو داوٗد رحمہ اللہ نے اپنی سنن میں سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

مَنْ حَالَتْ شَفَاعَتُہٗ دُوْنَ حَدٍّ مِنْ حُدُوْدِ اللہِ فَقَدْ ضَادَّ اللہَ فِیْ اَمْرِہِ وَمَنْ خَاصَمَ فِیْ بَاطِلٍ وَھُوَ یَعْلَمُ لَمْ یَزَلْ فِیْ سَخَطِ اللہِ حَتّٰی یَنْزِعَ وَمَنْ قَالَ فِیْ مُسْلِمٍ مَا لَیْسَ فِیْہِ حُبِسَ فِیْ رَدْغَۃِ الْخِبَالِ حَتّٰی یَخْرُجَ مِمَّا قَالَ قِیْلَ یَارَسُوْلَ اللہِ وَمَا رَدْغَۃُ الْخِبَالِ؟ قَالَ عُصَارَۃُ اَھْلِ النَّارِ
جس کی شفاعت و سفارش حدود اللہ میں سے کسی حد کے آڑ ے آئی تو وہ اللہ کا مقابلہ کرتا ہے اور جو شخص باطل پر جھگڑتا ہے اور وہ جانتا ہے کہ باطل ہے تو وہ اللہ کی خفگی میں رہے گا۔ یہانتک کہ وہ اس جھگڑے کو چھوڑ دے، اور جس نے کسی مسلمان کے خلاف ایسی بات کہی جو اس میں نہیں ہے، تو ایسے لوگ ردغۃ الخبال میں قید ہوں گے، صحابہ ث نے عرض کیا: یارسول اللہ ﷺ: ردغۃ الخبال کیا چیز ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اہل دوزخ کا نچوڑا ہوا خون اور پیپ۔(رواہ ابوداؤد)

نبی کریم ﷺ نے حکام، گواہوں اور جھگڑنے والوں کا ذکر اسی لیے فرمایا ہے کہ یہی لوگ حکم {یعنی فیصلے} کے اصل ارکان ہیں اور فیصلہ انہی کی منصفی (یعنی بیانات) پر ہو تا ہے۔

اور صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ r سے مروی ہے، سفارش و شفاعت کے بارے میں مہتم بالشان واقعہ اس عور ت کا ہے جو بنی مخزوم میں سے تھی۔ جس نے چوری کی تھی۔ کچھ لوگ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، گفتگو کرنا چاہی تو لوگوں نے کہا نبی کریم ﷺ سے گفتگو کون کرے گا؟ گفتگو کی جرأت وہمت سوائے اُسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کے کوئی نہیں کر سکتا، چنانچہ سیدنا اُسامہ رضی اللہ عنہ نے یہ بات نبی کریم ﷺ کے حضور میں پیش کی۔ آپ ﷺ نے فرمایا:

أَتَشْفَعُ فِیْ حَدٍّ مِنْ حُدُوْدِ اللہِ؟ اِنَّمَا ھَلَکَ بَنُوْا اِسْرَائِیْلَ لِاَنَّھُمْ کَانُوْا اِذَا سَرَقَ فِیْھِمُ الشَّرِیْفُ تَرَکُوْہُ وَ اِذَا سَرَقَ فِیْھِمُ الضَّعِیْفُ اَقَامُوْا عَلَیْہِ الْحَدَّ وَالَّذِیْ نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہٖ لَوْ اَنَّ فَا طِمَۃَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَرَقَتْ لَقَطَعْتُ یَدَھَا

کیا حدود الٰہی میں شفاعت و سفارش کر رہے ہو؟ بنی اسرائیل اسی لیے ہلاک ہوئے ہیں کہ جب ان میں کوئی ’’شریف آدی‘‘ (یعنی سیاستدان، بیوروکریٹ، چوھدری،وڈیرا، فوجی افسر، پولیس افسر، وزیر، مشیر، بزنس مین وغیرہ) چوری کرتا تو اُسے چھوڑ دیتے، جب کوئی ضعیف کمزور آدمی چوری کرتا تو اُس پر حد جاری کرتے، قسم اُس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے! اگر محمد ﷺ کی بیٹی فاطمہ چو ری کرتی تو میں اس کا ہاتھ بھی کاٹ دیتا۔
یہ واقعہ بڑا عبرت انگیز، نصیحت آموز ہے کیونکہ قریش میں اشرف {افضل} ترین خاندان دو بطن دو خاندان ہی تھے۔ بنو مخزوم اور بنو عبدمنا ف، جب اس پر ہاتھ کاٹنا واجب ٹھہرا، اور ایسی چیز کے عوض کہ بعض علماء کے نزدیک عاریت {یعنی ادھار} لی گئی تھی اور بعض کے نزدیک خاص چوری کی گئی تھی۔ تو بدیگر چہ رسد۔ یہ قبیلہ سب سے بڑا قبیلہ تھا۔ سب سے زیادہ شریف {یعنی افضل}۔ اور خاص رسول اللہ ﷺ کے خادم اور دوست سیدنا اُسامہ بن زید رضی اللہ عنہ نے سفارش کی تھی۔ ان پر رسول اللہ ﷺ خفا ہوئے۔ اس شفاعت و سفارش سے سخت برہم ہوئے اور کہا، تم ایک حرام و ناجائز بات لے کر آئے ہو۔ یہ حدودِ الٰہی کے بارے میں سفارش ہے۔ اور پھر آپ نے مثال میں اپنی بیٹی سیدۃ النساء فاطمہ r کی مثال پیش کی کہ اگر یہ بھی چوری کرتی تو میں اس کا ہاتھ کٹوا دیتا۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
روایت کی گئی ہے کہ جس عورت کا ہاتھ کاٹا گیا تھا، اس نے توبہ کی تھی۔ اور ہاتھ کٹنے کے بعد یہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضری دیا کرتی تھی۔ اور رسول اللہ ﷺ اس کی کوئی حاجت ہوتی تو پوری فرما دیا کرتے تھے۔ اور وایت کی گئی ہے:

اِنَّ السَّارِقَ اِذَا تَابَ سَبَقَتْہٗ یَدَہٗ اِلَی الْجَنَّۃِ وَاِنْ لَمْ یَتُبْ سَبَقَتْہٗ یَدُہٗ اِلَی النَّارِ

چور جب توبہ کر لے گا تو وہی ہاتھ جو کاٹا گیا ہے جنت میں داخل ہونے میں سبقت کرے گا۔ اور اگر اس نے توبہ نہیں کی تو اس کا یہی ہاتھ دوزخ کی طرف سبقت کرے گا۔

امام مالک رحمہ اللہ نے اپنی مؤطا میں روایت کی ہے۔ ایک جماعت نے ایک چور کو پکڑ لیا تاکہ اُسے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ تک پہنچائیں، راستے میں سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ ملے، ان لوگوں نے درخواست کی کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے آپ اس کی شفاعت و سفارش کر دیں۔ سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ’’جب حدود کا معاملہ جج یا حاکم و سلطان تک پہنچ جائے تو اللہ تعالیٰ سفارش کرنے والے پر اور جس کے لیے سفارش کی جائے اس پر لعنت بھیجتا ہے‘‘۔
سیدنا صفوان بن اُمیہ رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ مسجد نبوی میں سوئے ہوئے تھے۔ ایک چور آیا اور اُن کی چادر لے کر چلتا بنا۔ سیدنا صفوان رضی اللہ عنہ نے اُسے پکڑلیا اور خدمت نبوی ﷺ میں اُسے پیش کیا۔ آپ ﷺ نے مقدمہ سن کر چور کا ہاتھ کا ٹنے کا حکم دیا۔ سیدنا صفوان رضی اللہ عنہ نے کہا کیا میری چادر میں اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا؟ میں اسے بخش دیتا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا:

فَھَلَّا قَبْلَ اَنْ تَأتِیَنِیْ بِہٖ عَفَوْتَ عَنْہُ ثُمَّ قَطَعَ یَدَہَ (رواہ اھل السنن)
کیوں میرے پاس لانے سے پہلے اُسے معاف نہیں کر دیا؟ اس کے بعد آپ ﷺ نے اُس کا ہاتھ کٹوادیا۔

جس سے رسول اللہ ﷺ کی مراد یہ تھی کہ اگر میرے پاس لانے سے پہلے تم معاف کر دیتے تو ایسا ہو سکتا تھا۔ جب میرے پاس لے آئے تو اب تعطیل حد کسی طرح بھی ممکن نہیں۔ نہ معاف کرنے سے ممکن ہے، نہ سفارش سے نہ بخشش سے۔ میرے علم کے مطابق علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ راہزن، ڈاکو، لٹیرے اور چور وغیرہ جب ولی الامر یعنی حاکمِ وقت، جج یا قاضی وغیرہ کے سامنے پیش کر دیئے جائیں اور پھر ڈاکو، چور توبہ کرے تو حد ساقط نہیں ہوگی بلکہ حد قائم رکھنا اور جاری کرنا فرض و لازم ہے۔ اگر ان لوگوں نے توبہ کی اور یہ اپنی توبہ میں سچے تھے تو یہ حدان کے لیے کفارہ بن جائے گی۔ اور توبہ میں استقامت ان کی توبہ کو استوار اور مضبوط کر دے گی، اور یہ چیز حقدار کے حقوق کا پورا پورا قصاص و بدلہ۔ اور بدلہ کی قدرت پانے کے برابر ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے اس قول میں اس کی اصل موجود ہے:
مَنْ یَّشْفَعْ شَفَاعَۃً حَسَنَۃً یَّکُنْ لَّہٗ نَصِیْبٌ مِّنْھَا وَمَنْ یَّشْفَعْ شَفَاعَۃً سَیِّئَۃً یَّکُنْ لَّہٗ کِفْلٌ مِّنْھَا ط وَکَانَ اللہُ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ مُّقِیْتًا o (نساء:85)
اور جو شخص نیک با ت کی سفارش کرے اس نیک کام کے اجر میں سے اس کو بھی حصہ ملے گا اور جو بری بات کی سفارش کرے، اس کے وبال میں وہ بھی شریک ہو گا۔ اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر ضابط ہے۔

کیونکہ شفاعت کے معنی ہی طلب اعانت کے ہیں۔ شفیع {سفارش کرنے والا} اور شفع {جس کے لیے سفارش کی جائے} دو کو کہتے ہیں۔ اس کے مقابلہ میں وتر آتا ہے۔ تو شفیع اس وتر کے ساتھ ہو گیا تو گویا ایک تھا، دوہو گئے، پس اگر نیکی اور تقویٰ کی اعانت کروگے تو یہ شفاعت حسنہ ہو گی۔ اگر اثم گناہ اور عدوان کی شفاعت و سفارش کرو گے تو یہ شفاعت سیئہ {بری شفاعت} ہو گی۔ اور یہ ظاہر ہے کہ نیکی اور تقویٰ میں شفاعت اور سفارش کا تمہیں حکم دیاگیا ہے اور اِثم و گناہ کی شفاعت وسفارش سے تمہیں روکا گیا ہے۔
پس اگر وہ اپنے عمل میں کاذب اور جھوٹے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کے فریب دل کو پھلنے پھولنے نہیں دے گا۔

اَنَّ اللہَ لَا یَہْدِیْ کَیْدَ الْخَائِنِیْنَ 0 (سورۂ یوسف:52)
بیشک اللہ تعالیٰ خیانت کرنے والوں کی تدبیروں کو چلنے نہیں دیتا۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

اِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِیْنَ یُحَارِبُوْنَ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ وَ یَسْعَوْنَ فِی الْاَرْضِ فَسَادًا اَنْ یُّقَتَّلُوْآ اَوْ یُصَلَّبُوْآ اَوْ تُقَطَّعَ اَیْدِیْھِمْ وَاَرْجُلُھُمْ مِنْ خِلَافٍ اَوْ یُنْفَوْا مِّنَ الْاَرْضِ ذَالِکَ لَھُمْ خِزْیٌ فِی الدُّنْیَا وَلَھُمْ فِی الْاٰخِرَۃِ عَذَابٌ عَظِیْمٌ اِلَّا الَّذِیْنَ تَابُوْامِنْ قَبْلِ اَنْ تَقْدِرُوْاعَلَیْھِمْ فَاعْلَمُوْااَنَّ اللہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
جو لوگ اللہ اور اس کے رسول (ﷺ)سے لڑنے اور فساد پھیلانے کی غرض سے ملک میں دوڑے دوڑے پھرتے ہیں ان کی سزا تو بس یہی ہے کہ ڈھونڈ ڈھونڈ کر قتل کر دیئے جائیں یا ان کو سولی دے دی جائے یا ان کے ہاتھ پاؤں الٹے سیدھے (یعنی سیدھا ہاتھ تو الٹا پاؤں یا الٹا ہاتھ اور سیدھا پاؤں)کا ٹ دئے جائیں، یا ان کو دیس نکالا {یعنی جلا وطن کر} دیا جائے، یہ تو دنیا میں ان کی رسوائی ہے اور آخرت میں ان کے لیے بڑا عذاب ہے، مگر جو لوگ اس سے پہلے کہ تم ان پر قابو پاؤ، تو بہ کر لیں تو جانے دو کہ اللہ معاف کرنے والا بڑا مہربان ہے۔ (مائدہ:34-33)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو مستثنیٰ کر دیا ہے جو قدرت پانے (یعنی گرفتار ہونے) سے پہلے تائب ہوگئے ہیں۔ ولی الامر {جج یا} حاکم کے پاس پہنچنے سے پہلے جو تو بہ کر چکاہو فقط وہی مستثنیٰ ہے۔ جو قدرت پانے کے بعد اور حاکم کے سامنے پیش ہونے کے بعد توبہ کرے تو اس پر حد کا اجراء فرض اور ضروری ہے۔ اس پر حد جاری کی جائے گی۔ آیت کا عموم اور اس کا مفہوم اور علت جو اللہ نے بیان کی ہے، اسی پر دلالت کرتی ہے۔ اور یہ اس وقت ہے جبکہ بینہ {دلیل} اور گواہ سے جرم ثابت ہو اور یا جب خود مجرم اپنے جرم کا اقرار کر لے۔ اور اگر وہ خود آکر جرم و گنا ہ کا اقرار کر لے اور اس سے پہلے توبہ بھی کر لی ہے، تو اس میں اختلاف ہے جو دوسرے مقام پر مذکور ہے۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا ظاہر مذہب یہ ہے کہ ایسی صورت میں حد جاری نہیں ہو گی۔ ہا ں خودبخود حد کا طالب ہے تو اس پر حد جاری کی جائے گی۔ اور اگر وہ چلا گیا، اور حد جاری کرانا نہیں چاہتا تو حد اس پر جاری نہیں کی جائے گی۔ اور سیدنا ماعز بن مالک رضی اللہ عنہ کی حدیث اسی پر محمول ہے، جس وقت صحابہ نے رجم کے وقت کی ان کی کیفیت بیا ن کی تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا تھا:

ھَلَّا تَرَکْتُمُوْہُ
ان کو تم نے چھوڑ کیوں نہیں دیا ؟

اس کے علاوہ دیگر احادیث و آثار بھی پائے جاتے ہیں کہ جن سے ثابت ہے کہ قدرت پانے سے پہلے، جج، حاکم یا قاضی کے سامنے پیش ہو نے سے پہلے توبہ کر چکا ہے تو اس پر حد جاری نہیں کی جائے گی۔

اور سنن ابی داوٗد، اور سنن نسائی میں سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

تَعَافُوا الْحُدُوْدَ فِیْمَا بَیْنَکُمْ فَمَا بَلَغَنِیْ مِنْ حَدٍّ فَقَدْ وَجَبَ (ابوداوٗد۔نسائی)
تم آپس میں ایک دوسرے کو معاف کر دیا کرو، کیونکہ جب میرے سامنے معاملہ پیش کر دیا جائے گا تو حد کاجاری کرنا واجب ہوجائے گا۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
اور سنن نسائی، اور ابن ماجہ میں سیدنا ابو ہریر ہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

حَدٌّ یُعْمَلُ بِہٖ فِی الْاَرْضِ خَیْرٌ لِاَھْلِ الْاَرْضِ مِنْ اَنْ یُّمْطَرُوْا اَرْبَعِیْنَ صَبَاحًا
زمین پر (ایک) حد جاری کرنا، چالیس دن برسات برسنے سے (پیدا ہونے والے معاشی و علاقائی فوائد سے) زمین والوں کے لیے بہتر ہے۔

اور یہ اس لیے کہ گناہ و معاصی: کمی رزق اور دشمن سے خوف کا سبب ہیں۔ جیسا کہ کتاب اللہ اور کتا ب الرسول ﷺ اس پر دلا لت کرتی ہیں۔ جب حدود کا اجراء و قیا م ہو گا اور اطاعت الٰہی غالب اور ظاہر ہو جائے گی تو گناہ، معاصی اور اللہ کی نافرمانی کم ہو جائے گی۔ اور جب معاصی اور گناہ کم ہو جائیں گے تو رزق بھی خوب ملے گا اور اللہ کی نصرت و امداد بھی نصیب ہو گی۔

اور زانی، چور اور شرابی، راستے کاٹنے والے راہزن وغیرہ سے {رشوت کا} مال لے کرحد کو معطل کرنا کسی طرح جائز نہیں ہے، نہ بیت المال میں شامل کرنا جائز ہے نہ کسی اور کے لیے لینا جائز ہے۔ اور جو مال بھی تعطیل حد، اور حد ساقط کرنے کے لیے لیا جائے گا سُحت {رشوت} اور حرام {مال} ہوگا۔ اگر ولی الامر {جج، قاضی یا} حاکم نے ایسا کیا تو اس نے دو خرابیاں جمع کر لیں۔ ایک تو یہ کہ اس نے حد ساقط کر دی اور حرام مال لیا۔ دوسری یہ کہ اُس نے فرض ترک کیا۔ اور حرام چیز کا مرتکب ہوا، اللہ تعالیٰ کا ارشادہے:

لَوْ لَا یَنْھَا ھُمُ الرَّبَّانِیُّوْنَ وَالْاَحْبَارُ عَنْ قَوْ لِھِمُ الْاِثْمَ وَاَکْلِھِمُ السُّحْتَ لَبِئْسَ مَا کَانُوْا یَصْنَعُوْنَ O (مائدہ:63)
ان کو ان کے مربی یعنی مشائخ اور علماء جھوٹ بولنے اور حرام مال کھانے سے کیوں نہیں منع کرتے، البتہ بہت ہی بُری ہے وہ در گذر جو ان کے مشائخ اور علماء کرتے رہے ہیں۔
اور اللہ تعالیٰ یہود کی کیفیت بیان فرماتا ہے:

سَمَّاعُوْنَ لِلْکَذِبِ اَکَّالُوْنَ لِلسُّحْتِ (مائدہ:42)
یہ لوگ جھوٹی باتیں بنانے کے لیے جاسوسی کرنے والے اور (رشوت کا) حرام مال کھانے والے ہیں۔

کیونکہ یہودی سُحت {یعنی رشوت} حرام اور خبیث مال لیا کرتے تھے، رشوت کھاتے تھے، جس کا نام اُنہوں نے ’’برطل‘‘ رکھا تھا۔ اور جسے ہدیہ {یعنی تحفہ} وغیرہ کہا کرتے تھے۔
جب جج، قاضی یا حاکم {رشوت کا} حرام مال لے گا تو ضرور وہ جھوٹی گواہی وغیرہ بھی لے گا۔ اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے:
لَعَنَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ اَلرَّاشِیْ وَالْمُرْتَشِیْ وَالرَّائِشُ الْوَاسِطَۃُ الَّذِیْ یَمْشِیْ بَیْنَھُمَا
رشوت لینے والا رشوت دینے والا اور جو دونوں کے درمیان ذریعہ (Middle man) ہے سب برابر کے گنہگار ہیں۔(رواہ اہل السنن ) ۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
اور صحیح بخاری، اور صحیح مسلم میں ہے دو آدمیوں نے اپنا جھگڑا نبی کریم ﷺ کی خدمت میں پیش کیا۔ ان میں سے ایک نے کہا یا رسول اللہ ﷺ ہمارا فیصلہ کتا ب اللہ سے فرما دیجئے۔ دوسرا آدمی ذرا ہوشیار تھا، اُس نے بھی کہا ہاں یارسول اللہ کتا ب اللہ سے ہمارا فیصلہ فرما دیجئے۔ اور مجھے کچھ کہنے کی اجازت دیجئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا اچھا کہو۔ وہ بولا میرا لڑکا اس کے گھر پر اُجرت پر کام کیا کرتا تھا، اُس سے اس کی عورت کے ساتھ زنا ہو گیا ہے۔ اُس کی جانب سے میں نے سو بکریاں جرمانہ میں دے دی ہیں اور ایک غلام بھی آزاد کر دیا ہے۔ میں نے علماء سے مسئلہ پوچھ کر ایسا کیا ہے، آپ ﷺ نے جواب دیا: تمہارے لڑکے کے لیے سو کوڑے اور ایک سال جلا وطنی ہے اور اس کی عورت کے لیے رجم کی حد جاری ہو گی۔ آپ ﷺ نے فرمایا:

وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ لَاَ قْضِیَنَّ بَیْنَکُمَا بِکِتَابِ اللہِ اَلْمِائَۃُ وَالْخَادِمُ رَدٌّ عَلَیْکَ وَ عَلَی ابْنِکَ جَلْدُ مِائَۃٍ وَ تَغْرِیْبُ عَامٍ واغد یَا اُنَیْسُ عَلَی امْرَأَۃِ ھٰذَا فَاسْئَلْھَا فَاِنِ اعْتَرَفَتَ فَارْجُمْھَا فَسَئَلَھَا فَاعْتَرَفَتْ فَرَجَمَھَا
قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ میں کتاب اللہ سے تمہارا فیصلہ کروں گا: سو بکریاں اور خادم تم واپس لے لو۔ تمہارے لڑکے کو سو کوڑے لگیں گے۔ اور ایک سال جلاوطن رہے گا۔ اے انیس رضی اللہ عنہ تم صبح ہوتے ہی اس عورت کے پاس جاؤ اور پوچھو۔ اگر وہ گناہ کا اعتراف کرے تو تم اُسے رجم کردو۔ جب پوچھا گیا تو اُس نے زنا کا اعتراف کر لیا تو اُسے رجم کر دیا گیا۔ (صحیح بخاری)۔
غور کیجئے کہ مسلمانوں کو، مجاہدین اسلام کو، فقراء و مساکین کو مال مل رہا تھا لیکن آپ ﷺ نے قبول نہیں فرمایا، اور حد ساقط نہیں فرمائی۔

چنانچہ تمام مسلمانوں کا اجماع ہے کہ تعطیل حد، یعنی حد ساقط کرنے کے لیے مال وغیرہ لینا جائز نہیں ہے۔ اور تمام مسلمانوں کا اس پر اجماع ہے کہ زانی، چور، شراب خور، ڈاکو اور راستے کاٹنے والے قطاع الطریق، راہ زن وغیرہ سے حد ساقط کرنے کے لیے جو مال لیا جائے وہ حرام اور خبیث ہے۔ اور عام طور پر بیشمار لوگوں کے اُمور فاسد اور خراب ہی ہوا کرتے ہیں {یعنی وہ} مال و دولت اور جاہ جلال اور قوت و طاقت کے ذریعہ حدود ساقط کرادیتے ہیں۔ اور دیہات، قصبے، شہر، دیہاتی اعراب، ترکمان، کرد، فلاحین اور اہل ہوا ونفس{نفس و خواہشات کی پیروی کرنے والے} ۔ مثلاً قبس و یمن اور شہر کے رؤسائ، امرائ، غریبوں اور فقیروں کو بڑی بڑی امداد دینے والے، ان کے سردار اور مقدم، عوام اور لشکروں کی خرابی کا موجب ہوتے ہیں۔ اور یہی چیزولی الامر جج/قاضی اور حاکمِ وقت کی عزت و حرمت بھی ختم کر دیتی ہے۔ دونوں سے اس کی عزت و حرمت ختم ہو جاتی ہے۔ اور جج، قاضی، ولی الامر اور حاکم کی حکومت بھی خطرے میں پڑ جاتی ہے جبکہ وہ رشوت لیتا ہے۔ اور رشوت لے کر حد ساقط کر دیتا ہے۔ جب ایک کی حد ساقط کر دی تو دوسروں پر حد جاری کرانا اس کے لیے دشوار ہو جاتا ہے۔ حد جاری کرنے میں اس کا دل، اس کا ضمیر بالکل کمزور ہو جاتا ہے۔ اور پھر یہ ملعون یہودیوں کے قبیل سے ہو جاتا ہے جیسا کہ ایک اثر کے اندر ہے:

اِذَا دَخَلَتِ الرِّشْوَۃُ مِنَ الْبَابِ خَرَجَتْ اَمَانَۃٌ مِّنْ کُوَّۃٍ
جب رشوت ایک دروازے سے داخل ہوتی ہے تو دوسرے راستے سے امانت چلی جاتی ہے
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
یہی حال اس مال {یعنی ٹیکس} کا ہے جو دولت و سلطنت باقی رکھنے کے لیے لیتے ہیں۔ جس کا نام ان لوگوں نے تادیبات {ٹیکس و جرمانہ} رکھاہے۔ یہ مال قطعاً حرام ہے۔ تم ان اعراب و بدو و گنوار مفسدوں کو دیکھو جب یہ اپنے لیے یا کچھ لوگوں کے لیے کچھ کر لیتے ہیں تو جج، قاضی، ولی الا مر یا حاکمِ وقت کے یہاں کس شان سے پہنچتے ہیں۔ اور یہ گھوڑے (اور آجکل بڑی بڑی گاڑیاں) پیش کرتے ہیں۔ اس پیش کش کے بعد طمع، لالچ اور فساد کا جذبہ کس قدر بڑھ جاتا ہے، یہ لوگ ولایت و سلطنت اور حکومت کی حرمت وعزت کس طرح توڑ دیتے ہیں۔ اور رعایا کیسی خراب ہو جاتی ہے۔ یہی حال فلاحین کسانوں کا ہے۔ اسی طرح شراب نوش لوگوں کا ہے۔ جب کوئی شرابی پکڑا جاتا ہے اور کچھ مال پیسہ رشوت میں دے دیتا ہے تو وہ کیسی کیسی اور کس کس قسم کی امیدیں قائم کر لیتا ہے؟ ہر شرابی کا یہ خیال ہوتا ہے کہ جب ہم پکڑ ے جائیں گے تو کچھ دے دلا کر چھوٹ جائیں گے۔ پس جو مال جج، قاضی، ولی الامر یا حاکمِ وقت لیتا ہے اس میں برکت نہیں ہوتی اور فساد بدستور قائم اور موجود رہتا ہے۔ اسی طرح جب کوئی بڑا آدمی صاحب عزت و جاہ کسی کی حمایت کرتا ہے اور اس کو حد جاری کرنے سے بچالیتا ہے۔ مثلاً بعض فلاحین {خوشحال} و کسان {زمیندار} کسی جرم کا ارتکاب کرتے ہیں اور اس کے بعد جج، قاضی، نائب سلطان (آئی۔جی۔پولیس، بڑے بڑے سول و فوجی افسروں) یا امیر {حاکمِ وقت} کے پاس پہنچتے ہیں، اور اللہ اور رسول ﷺ کے مقابلہ میں وہ مجرم کی حمایت و سفارش کرتے ہیں اور مجرم کو چھڑا کر لے جاتے ہیں، تو وہ وہی سفارش و حمایت ہے جس پر اللہ اور اس کے رسول ﷺنے لعنت بھیجی ہے۔ جیسا کہ صحیح مسلم میں امیر المؤمنین سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

لَعَنَ اللہُ مَنْ اَحْدَثَ حَدَثًا اَوْ اٰویٰ مُحْدِثًا فَکُلُّ مَنْ اٰوٰی مُحْدِثًا مِنْ ھٰؤُُلاَئِ الْمُحَدِثِیْنَ فَقَدْ لَعَنَہُ اللہُ وَرَسُوْلُـہٗ ﷺ
جس شخص نے کوئی بدعت ایجاد کی یا جو شخص گناہ گار کو پناہ دے تو جو مجرم کو پنا ہ دے گا تو اللہ اور رسول ﷺ کی اس پر لعنت ہو گی۔
اور رسول اللہ ﷺ یہ تو فرما ہی چکے ہیں:

مَنْ حَالَتْ شَفَاعَتُہٗ دُوْنَ حَدٍّ مِنْ حُدُوْدِ اللہِ فَقَدْ ضَادَّ اللہَ فِیْ حُکْمِہٖ۔
جس کی شفاعت و سفارش حد ود جاری کرنے میں آڑ ے آئی تو سمجھ لینا چاہئے کہ وہ اللہ کا مقابلہ کرتا ہے۔
پس بتایئے کہ جن کے ہاتھ میں حدود کے اجراء و قیام کے اختیارات ہیں وہ ان مجرموں گنہگاروں سے معاوضہ لے کر چھوڑ دیں، اور ان کا جرم معاف کردیں تو کتنا بڑا فساد برپا ہو گا؟ اور بڑے سے بڑا فساد تو یہ ہے کہ وہ معتدین، ظالموں کی حمایت کر رہا ہے۔ کسی کے جاہ و مرتبہ اور اثر و رسوخ کی وجہ سے حمایت کی جائے یا مال اور رشوت لے کر {مجرم کو اسلامی سزا نہ دینے والا جج اور مجرم} دونوں برابر ہیں۔ اور پھر یہ کہ جو مال ان سے لیا جاتا ہے، وہ بیت المال کا مال ہوتا ہے، یا والی {قاضی، جج یا حاکم وقت} کا۔ اور والی حاکم {حاکم یا قاضی و جج} مخفی طور پر کبھی لیتا ہے اور کبھی اعلانیہ۔ اور ظاہر ہے کہ سب کا سب حرام مال ہے، اور اس کی حرمت پر سارے مسلمانوں کا اجماع ہے۔ مثلاً خمرو شراب کی دوکانوں کی ضمانت (یعنی پرمٹ) وغیرہ کہ جو شخص بھی اس کی قدرت رکھتا ہے، اور اس کو جگہ دیتا ہے، یا دلواتا ہے، یا اس کی کسی قسم کی امداد و اعانت کرتا ہے، یا مال اور رشوت لے کر اُسے اجازت دیتا ہے، یہ سب کے سب مجرم ہیں اور سب کے سب ایک ہی جنس کے لوگ ہوں گے اور یہ مہر بغی {یعنی} زنا کی اُجرت و معاوضہ کے برابر ہیں۔ کاہن اور کتے کی قیمت، اور حرام معاملہ کرانے والے قواد اور دلال کے مشابہ ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

ثَمَنُ الْکَلْبِ خَبِیْثٌ وَمَھْرُالْبَغْیِ خَبِیْثٌ وَ حَلْوَانُ الْکَاھِنِ خَبِیْثٌ (بخاری)
کتے کی قیمت حرام اور ناپاک ہے، زنا کا معاوضہ لینا خبیث حرام و ناپاک ہے اور کاہن، نجومی، ہاتھ دیکھنے والے، فال نکالنے والے وغیرہ (ان سب) کی اُجرت حرام و ناپاک ہے
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
زنا کی اُجرت ، متعہ کی اُجرت و معاوضہ، قحبہ عورتوں {طوائفوں، نائٹ کلب میں ناچنے گانے والی عورتوں} کی اُجرت و معاوضہ لینا قطعاً حرام ہے۔ اور یہی حکم ہے مخنث لڑکوں کا، ہیجڑوں کا خواہ آزاد ہوں یا غلام اور ان کے ساتھ فسق و فجور کرنے والوں کا اور کاہن، ہاتھ دیکھنے والے، اور نجومیوں کا۔ ان حرام کاموں کے عوض مال لینا قطعاً حرام ہے۔

اور یہ ظاہر ہے کہ جو ولی الامر، جج، قاضی، حکمران، ٹریفک پولیس وغیرہ منکرات وجرائم کو روکے گا نہیں، اور حدود کا اجراء نہیں کرے گا اور مال لے کر چھوڑ دے گا تو اس کا حال حرامیوں اور چوروں کے سردارکا سا ہو گا۔ اور یہ بمنزلہ فحش کام کرنے والوں کے دلال کے ہیں جو دو زانیوں کو باہم ملا دیا کرتا ہے۔ اور ان سے مال لیا کرتا ہے۔ اس کا حال و ہی ہو گا جو لوط علیہ السلام کی بڑھیا عورت کا ہو گا، جو فاسق و فاجر لوگوں کو لوط علیہ السلام کے مہمانوں کی خبر دیتی تھی۔
جس کے انجام کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

فَاَنْجَیْنَاہُ وَاَھْلَہٗ اِلَّا امْرَأَتَہٗ کَانَتْ مِنَ الْغَابِرِیْنَ O (اعراف:83)
پس ہم نے لوط علیہ السلام کو اوران کے گھر والوں کو عذاب اور عذاب پانے والی قوم سے نجات دی مگر ایک اُن کی بی بی کہ پیچھے رہ جانے والوں میں وہ بھی رہی۔

اسی طرح اللہ تعالیٰ کا اِرشادِ گرامی ہے :

فَاَسْرِ بِاَھْلِکَ بِقِطْعٍ مِنَ اللَّیْلِ وَلَا یَلْتَفِتْ مِنْکُمْ اَ حَدٌ اِلَّا امْرَاَتَکَ اِنَّہٗ مُصِیْبُھَا مَآ اَصَابَھُمْ ( ھود:81)
تو تم اپنے اہل و عیال کو لے کر کچھ رات رہے سے نکل بھاگو۔ اور پھر تم میں سے کوئی مڑ کر بھی ادھر کو نہ دیکھے۔ مگر تمہاری بی بی کہ وہ بے دیکھے رہنے کی نہیں، اور جو عذاب ان لوگوں پر نازل ہونے والا ہے وہ اس پر بھی ضرور نازل ہوگا۔

اللہ تعالیٰ نے اس بدترین بڑھیا کو جو دلالی کرتی تھی اِسی عذاب میں مبتلا کیا جو اس بدترین قوم خبیث و جرائم پیشہ لوگو ں کو دیا۔ اور یہ اس لیے کہ یہ سب کا سب اثم وعدوان {گناہِ کبیرہ} ہے، اور اس پر مال لینا اثم وعدوان {گناہوں} کی اعانت وامداد ہے۔ اور ولی الامر {حاکم} اسی لیے قائم کیا گیا ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فرض انجام دے یہی ولایت و حکومت کا اصل مقصود ہے۔ ولی الامر {قاضی، جج یا} حاکم مال لے کر، رشوت وصول کر کے کسی منکر کو پھلنے پھولنے دے گا {جیسا کہ پاکستان کا ہر حکمران اپنے ’’آقاؤں‘‘ کے اشاروں پر کرتا چلا آ رہا ہے} تو یہ عمل اصل مقصود کے خلاف اور اس کی ضد ہو گا۔ اور یہ اس کے مثل ہو گا کہ تم نے کسی کو دشمن کے خلاف لڑنے کو بھیجا اور وہ تمہارے خلاف تمہارے دشمن کی اعانت و امداد کر رہا ہے۔ اور بمنزلہ اس مال کے ہوگا کہ تم نے کسی کو جہادمیں خرچ کرنے کو دیا اور وہ اُسے مسلمانوں کے قتل کرنے میں خرچ کر رہا ہے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
اس کی مزید توضیح کے لیے یہ سمجھ لیجئے کہ بندوں کی اصلاح، فلاح وبہبود امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے ہوتی ہے۔ اس لیے کہ بندوں کی معاش ومعاشرت اور اس کی فلاح و بہبود اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت میں ہے۔ اور یہ اُسی وقت پوری ہوتی ہے جبکہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کیا جائے۔ اسی امر بالمعروف، نہی عن المنکر سے یہ اُمت خیر الامم اور بہترین اُمت کہی گئی ہے جو دنیا جہان کی اصلاح کے لیے کھڑی کی گئی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ
لوگوں کی رہنمائی کے لیے جس قدر امتیں پیداہوئیں ان میں تم مسلمان سب سے بہتر ہو کہ اچھے کام کرنے کو کہتے ہو اور برے کاموں سے منع کرتے ہو۔(آل عمران:110)
اسی طرح ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَیَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ (آل عمران:104)
اور تم میں ایک ایسا گروہ بھی ہونا چاہیئے جو لوگو ں کو نیک کاموں کی طرف بلائے، اچھے کام کرنے کو کہے اور برے کاموں سے منع کرے۔

اور اللہ تعالیٰ بنی اسرائیل کی حالت بیان فرماتا ہے:

کَانُوْا لَا یَتَنَاھَوْنَ عَنْ مُّنْکَرٍ فَعَلُوْہُ ط لَبِئْسَ مَا کَانُوْا یَفْعَلُوْنَ
جو گناہ وہ کر بیٹھتے تھے اس سے باز نہیں آتے تھے البتہ بہت ہی برے فعل تھے جو وہ لوگ کیا کرتے تھے۔(مائدہ:79)۔

اسی طرح فرمایا:
فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُکِّرُوْا بِہٖٓ اَنْجَیْنَا الَّذِیْنَ یَنْھَوْنَ عَنِ ا لسُّوْئِ وَاَخَذْنَا الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا بِعَذَابٍ بَئِیْسٍ بِمَا کَانُوْا یَفْسُقُوْنَ O (اعراف:165)
تو جب ان نافرمانوں نے وہ نصیحتیں جو ان کو کی گئی تھیں بھلا دیں تو جو لوگ برے کاموں سے منع کرتے تھے ان کو ہم نے بچا لیا۔ اور جو شرارت کرتے رہے ان کی نافرمانیوں کی پاداش میں ہم نے ان کو سخت عذاب میں مبتلا کر دیا۔

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے خبر دی کہ جب اللہ کا عذاب اُتر چکا تو اللہ نے ان لوگوں کو نجات دی جو گناہوں سے بچتے رہے، اور بدعمل ظالموں کو سخت ترین عذاب میں مبتلا کردیا۔ اور سیدنا ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے منبر نبوی ﷺ پر کھڑے ہو کر خطبہ دیا، اثناء خطبہ {یعنی خطبہ کے دوران} میں فرمایا: مسلمانو! تم اس آیت کو پڑھتے ہو اور غلط مراد لیتے ہو:

یٰٓاََیُّھاَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا عَلَیْکُمْ اَنْفُسَکُمْ لَا یَضُرُّکُمْ مَّنْ ضَلَّ اِذَا اھْتَدَ یْتُمْ
مسلمانو! تم اپنی خبر رکھو، جب تم راہ راست پر ہو تو کسی کی گمراہی تمہیں نقصان نہیں پہنچا سکتی۔(مائدہ:105)
 
Top