• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حکمران بیورو کریسی اور عوام ۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ کی کتاب السیاسۃ الشرعیہ کی تفہیم

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
جناب مسروق رحمہ اللہ سے روایت ہے، انہوں نے ابن زیاد سے کسی مظلمہ کے متعلق بات چیت کی، اور انہوں نے ظلم کو دفع کر دیا۔ اس نے تحفہ میں ایک غلا م دیا۔ انہوں نے اُسے مسترد کر دیا اور کہا میں نے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے سنا ہے وہ فرماتے تھے کہ جس نے مسلمان کا ظلم دور کیا، اور اس نے اس کے مقابلہ میں تھوڑا یا بہت کچھ دیا تو یہ حرام ہے، تو وہ کہتے ہیں میں نے کہا اے ابو عبد الرحمٰن رضی اللہ عنہ ہم تو سخت رشوت کے سوا کسی چیز کو حرام نہیں سمجھتے تھے۔ انہوں نے فرما یا ’’رشوت تو کفر ہے‘‘۔

پس اگر والی، امیر، اپنے لیے ایسی چیز عمال سے نکلواتا ہے جو انہوں نے اپنے لیے اور اپنی اولاد کے لیے مخصوص کر رکھی ہے، تو اس صورت میں دونوں میں سے کسی کی اعانت نہیں کرنی چاہئیے، دونوں کے دونوں ظالم ہیں، جس طرح کہ ایک چور دوسرے چور کا مال چرالیتا ہے، یا دو گروہ عصبیت اور ریاست کے لیے لڑتے ہیں تو یہ کسی طرح جائز نہیں کہ آدمی ظلم کی اعانت و امداد کرے، کیونکہ تعاون و امداد دو طرح کی ہے، ایک نیکی اور تقویٰ میں تعاون و امداد مثلاً جہاد کرنا، حدود قائم کرنا، حقوق العباد دلوانا، مستحق اور حقداروں کے حقوق دلوانا وغیرہ، ایسی اعانت و امداد ایسا تعاون تو مامور من اللہ ہے۔ اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے ایسا تعاون فرض قرار دیا ہے۔ {صد افسوس! آج اسی چیز کو بنیاد پرستی، دقیانوسی، شدت پسندی، دہشت گردی، ترقی کی راہ میں رکاوٹ اور ’’علمائ‘‘ کی زبان میں ’’تکفیری ٹولہ‘‘ وغیرہ کے ناموں سے یاد کیا جاتا ہے} اور اگر ڈر کے مارے نیکی اور نیک کام سے رک جائے، اور ظالم سے ڈر جائے مظلوم کی اعانت و امداد نہ کرے تو یہ بھی فرض عین یا فرضِ کفایہ کا تارک ہے، اور تارکِ فرض کا مجرم ہے، اگر چہ اپنی خوش فہمی سے وہ یہ سمجھ رہا ہے کہ میں ورع {یعنی انتہائی زیادہ عبادت} و تقویٰ کا پابند ہوں۔ اس لیے کہ اکثر جبن {یعنی کم ہمتی و} بزدلی، اور ورع و تقویٰ میں اشتباہ {یعنی شبہ} ہو جاتا ہے، اور جبن و بزدلی اور ورع دونوں میں انسان حق کی اعانت سے رُک جاتا ہے۔
دوسرا تعاون ’’اثم و عدوان‘‘ کا تعاون ہے مثلاً معصوم بے گناہ کا خون کیا جائے، یا اس کا مال لے لیا جائے۔ اور جو مار کا حقدار نہیں اسے مارا پیٹا جائے، یہ اور اس قسم کے گناہوں میں اعانت و امداد کرنا ’’اثم و عدوان‘‘ کی اعانت و امداد ہے، اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ نے ایسی اعانت و امداد کو حرام قرار دیا ہے۔

البتہ جب کسی کا مال بلا استحقاق لے لیا گیا یا چھین لیا گیا، اور مال کے مالکوں تک اس کا پہنچانا کسی وجہ سے دشوار ہے مثلاً سلطانی مال کہ ایسا مال مسلمانوں کے مصالح پر خرچ کرنا چاہئے جیسے جہاد، اور لڑائی کے مورچے {چوکیاں، چیک پوسٹیں، چھاؤنیاں} وغیرہ قائم کرنے پر خرچ کیا جائے، یا مجاہدین اور جنگ کرنے والو ں پر خرچ کیا جائے تو یہ نیکی و تقویٰ کی اعانت و امداد ہو گی، کیونکہ سلطان {حاکم وقت} پر واجب و لازم ہے کہ اس قسم کا مال جبکہ اصل مالکوں کی وجہ سے نہ پہنچا سکے، اور نہ دے سکے، اور اس کے وارثوں کو نہ دے سکے تو سلطان کا فرض ہے کہ اگر اسی نے ظلم کیا ہے تو پہلے توبہ کرے، اور پھر مال کو مسلمانوں کی مصلحتوں پر مسلمانوں کے کاموں میں خرچ کرے، اور یہ جمہورعلماء کا قول ہے، امام مالک، امام ابو حنیفہ، امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ وغیرہ بھی یہی کہتے ہیں، اور بہت سے صحابہ رضی اللہ عنہ سے بھی ایسا منقول ہے، اور شرعی دلائل بھی اسی پر دلالت کرتے ہیں، جیسا کہ دوسری جگہ منصوص ہے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
اگر وہ مال دوسروں نے لے لیا ہے توسلطان کا فرض ہے کہ وہ اس مال کو اسی طرح خرچ کرے، اگر وہ مال جو سلطان نے کسی وجہ سے اصل مالک کو نہ دیا ہو تو مالک مال کی مصلحتوں پر خرچ کرنے میں اعانت کرے، کیونکہ مال ضائع کرنے کے مقابلہ میں مسلمانوں کی مصلحتوں میں خر چ کرنا اولیٰ اور بہتر ہے، اس لیے کہ شریعت کا دارو مدار اللہ کے اس قول پر ہے:

فَاتَّقُوا اللہَ مَا اسْتَطَعْتُمْ (تغابن:16)
مسلمانو! جہاں تک تم سے ہو سکے اللہ سے ڈرتے رہو۔

جو۔ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ حَقَّ تُقَاتَہٖ (آل عمران:102) اے ایمان والو اللہ سے ڈرو جیسا اس سے ڈرنے کا حق ہے۔ کی تفسیر کرتا ہے، اور رسول اللہ ﷺ کے اس قول پر دارو مدار ہے:

اِذَا اَمَرْتُکُمْ بِاَمرٍ فَأْتُوْا مِنْہُ مَا اسْتَطَعْتُمْ (اخرجاہ فی الصحیحن)
جب میں تم کو کسی چیز کا حکم دوں تو تم اپنی طاقت کے مطابق اُسے انجام دو۔

اور اس قول پر دارومدار ہے، ’’مصالح کی تحصیل و تکمیل کرنا‘‘۔ اور مفاسد کو کلیۃً دور کرنا یا کم کرنا واجب و ضروری ہے۔

جب مصالح اور مفاسد میں باہم ٹکر ہو تو دو مصلحتوں میں سے جو بڑی ہو اختیار کی جائے۔ اور ادنیٰ کو چھوڑ دیا جائے۔ اور جو بڑا مفسد {فسادِ اکبر} ہو اسے دُور کیا جائے، ادنیٰ مفسد {چھوٹا فساد} کے احتمال کے مقابلہ میں، یہی مشروع {عمل} ہے ۱؎ ۔

اور اثم عدوان کی اعانت کرنے والا وہ ہے جو ظالم کی اعانت کرے، لیکن وہ شخص جو مظلوم کی اعانت {و مدد} کرتا ہے یا جو ظلم ہورہا ہے اس میں کمی ہو اس کی اعانت کررہا ہے، یا جو ظلم ہوا ہے اس کا بدلہ دلوانے کی کوشش کر رہا ہے تو یہ مظلوم کا وکیل ہو گا نہ کہ ظالم کا۔ اور یہ بمنزلہ اس شخص کے ہو گا جس نے قرض دیا۔ یا ظالم کے ظلم سے بچانے کے لیے کسی کے مال کا وکیل ہوا۔ مثلاً یتیم کا مال، یا وقف کا مال ہے، اور یتیم اور وقف کے مال میں سے کسی ظالم نے خواہ مخواہ طلب کیا، اور اس کے ولی نے بوجہء مجبوری کم سے کم دینے کی کوشش کی، ظالم کو دیا، یا ظالم نے دلوایا، اور ولی نے پور ی پوری کوشش کر کے کم سے کم دیا تو

اگر اصلاح کی یہ صورت ہے کہ اس کی اصلاح سے دوسرا منکر اس کے مساوی پیدا ہوتا ہے ،لیکن باعتبار مفاسد اس سے کم درجہ رکھتا ہے ،یا اس کی جگہ کم درجہ کا فساد پیدا ہوتا ہے یا جو مفاسد پیدا ہوئے ہیں کم درجہ کے ہوتے ہیں یا امر مستحسن پیدا ہوتا ہے،ان تین صورتوں میں اصلاح کے لیے اقدام فرض ہے اور اقدام میں کوتاہی کرنا گناہ ہے۔( ابو العلاء محمد اسمٰعیل کان اللہ لہٗ)

یہ محسن ہو گا۔ وَمَاعَلَی الْمُحْسِنِیْنَ مِنْ سِبِیْلٍ (توبہ:91) ۔
اور اس حکم میں وہ وکیل بھی داخل ہیں جو مال ادا کرانے میں شہادت دیتے ہیں۔ اور اس کے لکھنے میں شریک ہیں۔ اور جو عقد (ڈیلنگ)میں قبضہ کرنے میں اور مال دلوانے میں شریک ہیں ان کا بھی یہی حکم ہے۔

اس ظلم کے متعلق جو کسی آبادی، قریہ، راستہ، بازار، یا کسی شہر پر کیا جائے اور کوئی محسن شخص اس ظلم کو دفع کرنے میں درمیانگی کرنے کے لیے کھڑا ہو جائے، اور ہر امکانی کوشش عدل و انصا ف کے ساتھ بر تنے، اور بقدر طاقت بلا خوف، بلا لومتہ لائم{طعن و تشنیع اور لعن طعن سے بے خوف و بے پرواہ}، بغیر رشوت لیے مال دلوانے اور دینے میں کوشش کرے تو وہ بھی محسن ہو گا۔

لیکن آج کل غالب یہ ہے کہ جو شخص بھی مداخلت کرتا ہے ظالم لوگوں ہی کی وکالت کرتا ہے، ان سے ڈرتا ہے اور جو رشوت ملتی ہے، اس پر فخر کرتاہے، اور جن سے جو چاہتا ہے لیتا ہے، اور یہ اکثر و بیشتر ظالم ہیں جن کا ٹھکانہ جہنم ہے، ان کے اعوان و مدد گار بھی جہنمی ہیں، یقینا ایسے لوگ جہنم میں جھونک دیئے جائیں گے۔

-----------------------------------------------------------------
۱ ؎ اصلاح کے لیے پہلے اصول اصلاح کی اعانت فرض ہے،جب کوئی شخص کسی غیر مشروع منکر کی اصلاح کا قصد کرے تو پہلے اسے سوچ لینا چاہئے کہ غیر مشروع منکر کس درجہ کا ہے ،اگر اس کی اصلاح کی گئی تو کیا اس کی بجائے کوئی دوسرا غیر مشروع منکر تو نہیں پیدا ہوتا ، جو اس سے بڑھ کر ہو ۔ اگر اس سے بڑھ کر نہیں تو پھر اس کے مساوی اور با عتبار ثمرات و مفاسد اس سے بڑھ کر تو نہیں ہے ،ان ہر دو صورتوں میں اصلاح کا قصدکرنا جائز نہیں ہے کیونکہ ایک فساد کی جگہ اس سے بڑھ کر فساد پیدا ہو رہا ہے ،جیسے کہ نبی کریم ﷺکعبۃ اللہ کی اصلاح کا ارادہ رکھتے تھے ، حطیم کے حصہ کو کعبۃ اللہ میں داخل کر کے پورا کر لینا چاہتے تھے ،اور دو دروازے بنانا چا ہتے تھے ایک سے کعبتہ اللہ میں داخل ہوں دوسرے نکل جائیں لیکن اس اصلاح سے مفاسد پیدا ہونیکا اندیشہ تھا ۔تو مسلم لوگ طرح طرح کے خیا لا ت دوڑانے لگتے اور بری طرح کی خرابیاں پیداہونیکا اندیشہ تھا ،اس لیے آپ ﷺنے اصلاح کا خیال ترک فرمادیا ۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
باب:9

مال و دولت کی تقسیم۔


مال کی تقسیم اہم فالاہم کے اصول کے مطابق ہونی چاہئے۔ اہلِ نصرت و جہاد سب سے زیا د ہ مستحق ہیں۔ مال فئے میں علماء کا اختلاف ہے کہ آیا یہ تمام مصالح مسلمین میں خرچ کیا جائے یا خاص مجاہدین کے لیے ہے۔ نبی کریم ﷺ مؤلفتہ القلوب کو بھی فئے سے دیا کرتے تھے’’اَنْ تُؤَدُّوا الْامَانَاتِ اِلٰیٓ اَھْلِھَا‘‘ (نساء:58) کی صحیح راہ ۔

مال کے مصارف اور اس کی تقسیم مسلمانوں کے مصالح میں ہونی چاہئے۔ اور اہم فالاہم کے اصول کو مدنظر رکھنا واجب اور ضروری ہے، مثلاً عام مسلمانوں کو عمومی نفع اور فائدہ پہنچے، انہی لوگو ں میں اربابِ نصرت و جہاد بھی ہیں، اور مال فئے میں سب سے زیادہ مستحق مجاہدین اسلام ہیں، کیونکہ مجاہدین کے بغیر مال فئے کا حاصل ہونا نا ممکن ہے، انہی مجاہدین کے ذریعہ ہی یہ مال وصول ہو تا ہے، اور اسی لیے فقہاء اسلام نے اختلاف کیا ہے کہ مال فئے انہی مجاہدین پر صرف کیا جائے یا یہ کہ ہر قسم کے مصالح {اصلاحی کام} میں صرف کیا جائے؟ مال فئے کے علاوہ جس قدر بھی مال ہے اس میں تمام مسلمان، اور مسلمانوں کے تمام مصالح شامل ہیں، اور اس میں سب کا اتفاق ہے۔ اور یہ کہ صدقات، زکوٰۃ، اور مالِ غنیمت کو مخصوص کر دیا ہے، اور مستحقین و حقدار یہ لوگ ہیں۔

عاملین{اکٹھا کرنے والے}، صاحب ولایت {حکام} وغیرہ، مثلاً والیان امر {گورنر و مجاز افسر}۔ قضاۃ/جج، علماء اور وہ لوگ جو مال جمع کرنے، اس کی حفاظت اور تقسیم وغیرہ جن کے سپرد ہے، یہاں تک کہ نماز کے امام اور مسجدوں کے مؤذن وغیرہ بھی ان میں شامل ہیں، اسی طرح وہ اُجرت بھی اس میں داخل ہے جس سے عوام کو فائدہ پہنچتا ہے، مثلاً سرحدوں پر مورچے باندھنا، اسلحہ وغیرہ کے لیے خرچ کرنا۔ اور وہ عمارتیں بنوانا جن کی تعمیر ضروری ہے، لوگوں کے لیے راستے درست و ہموار کرنا، چھوٹے بڑے پل تعمیر کرنا، پانی کے راستے ہموار کرنا، نہریں ڈیم وغیرہ بنوانا، یہ تما م چیزیں مال کے مصارف میں شامل ہیں۔ صاحب ضرورت اور مستحق لوگ بھی اس میں شامل ہیں۔

فقہاء نے اختلاف کیا ہے کہ صدقہ و زکوٰۃ کے علاوہ مال فئے وغیرہ میں ضرورت مند لوگوں کو مقدم رکھا جائے یا نہیں؟ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ وغیرہ کے مذہب میں دو قول ہیں، کچھ لوگ ان کو مقدم رکھتے ہیں اور کچھ لوگ کہتے ہیں نہیں بلکہ اسلام {کے کاموں} کا استحقاق رہے گا۔ یہ لوگ سب کو مشترک اور برابر کے حقدار مانتے ہیں، جس طرح کہ وارث میراث و ترکہ میں مشترک ہیں۔

لیکن صحیح مسلک یہی ہے کہ ضرورت مندوں کو مقدم رکھا جائے، اس لیے کہ نبی کریم ﷺ حاجتمندوں کو مقدم رکھتے تھے، مثلاً بنی نضیر کے مال میں حاجتمندوں اور ضرورت مندوں کو آپ ﷺ نے مقدم رکھا تھا، چنانچہ سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

لَیْسَ اَحَدٌ اَحَقُّ بِھٰذَا الْمَالِ مِنْ اَحَدٍ اِنَّمَا ھُوَ الرَّجُلُ وَسَابِقَۃٌ وَالرَّجُلُ وَ عِنَایَتُہٗ وَالرَّجُلُ وَ بَلَائُہٗ وَالرَّجُلُ وَحَاجَتُہٗ
یہ مال سب میں مشترک ہے یہ مال اس آدمی کو ملے گا جس نے جہاد میں سبقت کی اس کو ملے گا جس نے مشقت برداشت کی، اس آدمی کا حق ہے جو ابتلاء میں پھنس گیا، اور وہ حقدار ہے جو ضرورت مند ہے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے مال چار قسم کے لوگوں پر تقسیم فرمایا:

1۔ سوابق پر جن کی مسابقت کی وجہ سے مال وصول ہوا ہے۔

2۔ ان لوگوں پر جو مسلمانوں کے لیے خاص قسم کی سعی و کوشش کرتے ہیں، مثلاً والیان امر {حکام}، اور وہ علماء جو لوگوں کو دین و دنیا کے منافع حاصل کرنے کے راستے بتلاتے ہیں اور جو نقصان اور ضرر کی مدافعت کے لیے مصائب برداشت کرتے ہیں۔ مثلاً مجاہدین فی سبیل اللہ جو اسلام کے لشکر میں موجود ہیں۔

3۔ اور وہ خاص خاص لوگ جو جہاد و قتال کے طریقے بتلاتے ہیں اور انہیں وعظ و نصیحت کرتے ہیں، اور ان کے مثل۔

4۔ وہ لوگ جو حاجت مند او رضرورت مند ہیں۔

جس وقت ان چار قسم کے لوگوں کی جانب سے اطمینان ہو جائے گا تو سمجھ لو اللہ تعالیٰ نے اس مال سے لوگوں کو غنی کر دیا، اس کے بعد کفایت کے مطابق دیا جائے، یا اس کے عمل کے مطابق۔

جب ہمیں معلوم ہو گیا کہ مال باعتبار آدمی کی منفعت اور بلحاظ اس کی ضرورت و حاجت کے دیا جائے گا اور یہ مال وہ ہو گا جو مسلمانوں کے لیے ہے۔ صدقہ و زکوٰۃ کابھی یہی حال ہے، اور اگر اس سے زیادہ مال ہے، اس میں بھی اسی قدر استحقاق ہے جس قدر اس جیسے مال میں حقداروں کا حق ہے مثلاً مالِ غنیمت، اور مالِ میراث، ان کے حقداربھی متعین و مقرر ہیں۔

امام المسلمین {حاکمِ وقت} کو کسی طرح یہ جائز نہیں ہے کہ اپنے نفس کی خاطر یا قرابت کی وجہ سے یا دوستی اور محبت کی وجہ سے غیر مستحق و غیر حقدار کو کچھ دیدے، چہ جائیکہ حرام میں خرچ کرے مثلاً مخنث/ خسروں لڑکوں اور امرد آزاد غلاموں کو دیا جائے، طوائف بازاری عورتوں، ادارکار، اداکاراؤں، گلوکاروں، سنگرز، مسخروں کو دیا جائے، یا ہاتھ دیکھنے والوں، کاہنوں، نجومیوں وغیرہ کو دیا جائے، ہاں تألیف قلبی کے لیے ایسا شخص ہے کہ اس کے لیے یہ مال لینا حرام و نا جائز ہے، قرآن مجید میں مؤلفتہ القلوب کے لیے صدقہ و زکوٰۃ دینا بھی مباح کردیا ہے۔ نبی کریم ﷺ بھی مؤلفتہ القلوب کو فئے کے مال میں سے دیا کرتے تھے اور ان لوگو ں کو بھی دیا جائے جو اپنے قبیلہ کے مانے ہوئے سردار ہوں، جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے اقرع بن حابس سردار بنی تمیم، اور عیینہ بن حصن سردار بنی فزارہ، اور زید الخیر الطائی سردار بنی نبہان، اور علقمہ بن علاشہ سردار بنی کلاب کو دیا تھا، اور جیسا کہ سردار ان قریش اور خلفاء وغیرہ کو دیا تھا۔ مثلاً صفوان بن امیّہ، عکرمہ بن ابی جہل، ابو سفیان بن حرب، سہیل بن عمرو بن ہشام ث اور بہت سے لوگوں کو نبی کریم ﷺ نے دیا تھا، چنا نچہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے یمن سے ایک سونے کا ہار رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بھیجا، نبی کریم ﷺ نے اس ہار کو چار آدمیوں میں تقسیم کردیا۔ اقرع بن حا بس الحنظلی، عیینہ بن حصن فزاری، علقمہ بن علاشۃ العامری، اور بنی کلاب کے آدمی زیدالخیر الطائی جو بنی نبہان کا سردار تھا۔ وہ کہتے ہیں اس تقسیم سے قریش اور انصار بہت خفا ہوئے اور کہنے لگے، آپ ﷺ صنا دید نجد کو دیتے ہیں، اور ہمیں چھوڑدیتے ہیں، نبی کریم ﷺ نے جواب دیا یہ میں نے اس لیے کیا ہے کہ ان کی تألیف قلبی مقصود ہے، اس وقت ایک آدمی آیا جس کی داڑھی بہت گھنی تھی، رخسار اُٹھے ہوئے، آنکھیں چمکدار، پیشانی بڑی، اور سر منڈا ہو اتھا، کہنے لگا:

اِتَّقِ اللہَ یَا مُحَمَّدُ ﷺ اے محمد (ﷺ) اللہ سے ڈرو!

آپ ﷺ نے فرمایا:

فَمَنْ یُّطِعِ اللہَ اِنْ عَصَیْتُہٗ أَیَا مَنِنِیْ اَھْلُ الْاَرْضِ وَلَا تَأْمَنُوْنِیْ
اگر میں اللہ کی نافرمانی کرتا ہوں تو پھر کون اس کی اطاعت کر تا ہے؟ کیا سارے اہل زمین مجھے امین سمجھیں اور تم مجھے امین نہ سمجھو۔

راوی کہتا ہے یہ آدمی اتنا کہہ کر چلتا ہو گیا، اس وقت قوم میں سے ایک شخص کھڑا ہو گیا کہ اسے قتل کر دے، صحابہ ث کہتے ہیں یہ آدمی خالد بن ولید رضی اللہ عنہ تھے، غیرتِ اسلامی اور رسول اللہ ﷺ کی محبت کی وجہ سے اٹھے او رنبی کریم ﷺ سے اُسے قتل کرنے کی اجازت مانگی، نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

اَنَّ مَنْ ضَئْضَی ھٰذَا قَوْمًا یَقْرَؤُنَ الْقُرْاٰنَ اَنْ لَا یُجَاوِزَ حُنَاجِرَھُمْ فَیَقْتُلْوْنَ اَھْلَ الْاِسْلَامِ وَ یَدْعُوْنَ اَھْلَ الْاَوْثَانِ یَمْزُوْنُ مِنَ الْاِسْلَامِ کَمَا یَمُرُّ السَّھْمُ مِنْ رَمْیِہِ لَئِنْ اَدْرَکْتُھُمْ لَاَقْتُلَنَّھُمْ قَتْلَ عَادٍ
اس کی نسل میں سے ایک قوم ہوگی جو قرآن پڑھے گی لیکن اُن کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا، مسلمانوں سے جنگ کریں گے اور بت پرستوں کو دعوت دیں گے، اسلام سے وہ اس طرح نکل بھاگیں گے جس طرح کمان سے تیر نکل بھاگتا ہے۔ اگر میں انہیں پاؤں گا تو انہیں اسی طرح قتل کروں گا جس طرح قوم عاد قتل ہوئی تھی۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
سیدنارافع بن خدیج رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے سیدنا ابو سفیا ن بن حرب، صفوان بن امیہ ،اور اقرع بن حابس ث کو سو سو اونٹ دیئے، اور عباس بن مرداس رضی اللہ عنہ کو کچھ کم دیئے تھے، عباس بن مرداس نے یہ اشعار پڑھے:

اَتَجْعَلُ نَہْبِیْ وَنَہْبِ الَعُبَ
یْدِ بَیْنَ عُیَیْنَہ وَ وَالْاِقْرَعِ
کیا آپ میری اور میرے گھوڑے عبید کی لوٹ (یعنی مالِ غنیمت) عیینہ اور اقرع کو دیتے ہیں
وَ مَا کَانَ حَصْنٌ وَ لَا حَابِسٌ
یَفُوْقَانِ مَرْدَاسَ فِی الْمَجْمَع
حصن اور حابس اجتماع میں مرد اس سے فو قیّت نہیں لے جاتے تھے۔
وَ مَا کُنْتُ دُوْنَ اَمْرَئٍ مِنْہُمَا
وَ مَنْ یَخفِضُ الیَوْمَ لَا یُرْ فَعٍ
ان دونوں میں میں کسی سے کم تھا؟ وہ پلّہ جو اٹھایا نہیں جاتا کس نے جھکا دیا؟​

یہ سُن کر رسول اللہ ﷺ نے اُسے بھی سو اونٹ دے دیئے۔ صحیح مسلم میں یہ روایت موجود ہے اور عبید، مرداس کے گھوڑے کا نام تھا۔​
مؤلفۃالقلوب دو قسم کے ہیں، کافر اور مسلمان۔ کافر کی تألیف یہ ہے کہ اس سے فائدہ کی اُمیدیں وابستہ کی جائیں، کہ یہ اسلام لے آئیں گے، یا جو نقصان ان سے پہنچتا ہے وہ کم ہو جائے گا کہ دیئے بغیر یہ نقصان دُور نہیں ہوتا۔​
مسلمان مؤلفۃ القلوب وہ ہیں جنہیں دینے سے فائدہ کی اُمیدیں وابستہ ہوں۔ مثلًا وہ مسلمان ہیں مال دیا جائے گا، پختہ اسلام سچے مسلمان بن جائیں گے، یا ان جیسے لوگ اسلام میں پختہ اور اچھے بن جائیں گے، یا دشمنوں کو ڈر اکر ان سے ما ل نکلوائیں گے۔ یا جن مسلمانوں کو نقصان اور ضرر پہنچ رہا ہے اس سے بچالیں گے، کہ دیئے بغیر یہ ممکن نہیں ہے۔​
اس قسم کے عطیات گو بظاہر رئیسوں اور مالداروں کو دیئے جاتے ہیں، اور ضعیف اور کمزور چھوڑ دیئے جاتے ہیں جیسا کہ بادشاہوں کا دستور ہے، لیکن نیتیں مختلف ہوتی ہیں کیونکہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔ اگر دینے سے دینی مصلحت، اور مسلمانوں کی فلاح و بہبود مقصود ہے تو یہ دینا اسی قبیل سے ہو گا جیسا کہ نبی کریم ﷺ اور خلفاء دیا کرتے تھے، اور اگر اس دینے سے مقصود علو فی الارض کبر وغرور اور فسا د مقصود ہے تو یہ دینا اُسی قبیل سے ہو گا جیسا کہ فرعون اپنے لگے بندھے لوگوں کو دیا کرتا تھا۔​
ان عطیات کو وہی لوگ بُرا سمجھتے ہیں جو فاسد دین رکھتے ہیں۔ اور بدنیت ہوتے ہیں جیسے ذی الخویصرہ کہ اس آدمی نے رسول اللہ ﷺ کے عطیے کو بُرا سمجھا یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ نے اُس کے حق میں جو کچھ کہنا تھا کہہ دیا، اور بدعا کی۔ اور جیسا کہ اس کے گروہ خوارج نے امیر المؤمنین سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے خلاف علم بغاوت بلند کردیا۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے حکم (یعنی ثالث) بنا کر فیصلہ کیا۔ کسی مصلحت کی بنا پر کیا تھا، لیکن خوارج کھڑے ہو گئے، بگڑ گئے او ر بغاوت شروع کر دی، اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا نام تک اس تحکیم و فیصلہ سے مٹا دیا۔ مسلما نو ں کی عورتوں، بچوں کو اسیر بنا کر لے گئے۔ یہی لوگ تھے جن کے خلاف جہاد و جنگ، قتال او رلڑائی کرنے کا رسول اللہ ﷺ نے حکم فرمایا تھا کیونکہ اُن کے پاس فاسد اور باطل دین تھا، جس سے نہ ان کی دنیا درست ہوتی تھی نہ آخرت۔​
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
بسا اوقات ورع {انتہائی زیادہ عبادت} اور جُبن و بُزدلی اور بخل میں اشتباہ {شبہ} ہو جاتا ہے، کیونکہ ترکِ عمل دونوں میں پایا جاتا ہے۔ خشیت ِ الٰہی سے فسا د کو ترک کرنے اور بوجہ جبن وبزدلی اور بخل کے جہادِ مامور میں خرچ نہ کرنے میں اشتباہ ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے:

شَرُّ مَا فِی الْمَرْئِ شُحٌّ ھَا لِعٌ وَجُبْنٌ خَالِعٌ (قال الترمذی حدیث صحیح)
آدمی میں بُری سے بُری بدی بخل اور حرص اور جبن (کم ہمتی) و بزدلی ہے۔

اسی طرح بسا اوقات انسان عمل ترک کردیتا ہے، اور گمان کرتا ہے، یا ظاہر کرتا ہے کہ یہ ورع و تقوٰی ہے حالانکہ یہ کبر و غرور اور اپنے آپ کو بلند درجہ پر لے جانے کا قصد ہو تا ہے۔ اور اس بارے میں نبی کریم ﷺ نے ایک ایسا جامع کامل، مکمل جملہ فرمایا ہے جو ترازو کا حکم رکھتا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ
اعمال نیتوں کے مطابق ہوا کرتے ہیں۔

عمل کے لیے نیت ایسی چیز ہے جیسی جسم کے لیے روح، اگر ایسا نہیں ہے تو ایک شخص اللہ کے سامنے سجدہ کرتا ہے، دوسرا شخص سورج اور چاند کے سامنے سجدہ کرتا ہے، کیا فرق ہے؟ دونوں اپنی پیشانی زمین پر رکھ دیتے ہیں، دونوں کی صور ت اور وضع ایک ہی ہے، غور کرو کہ اللہ کے سامنے پیشانی ٹیکنے والا تو اللہ تعالیٰ کے نزدیک اقرب الخلق ہے، اور سورج و چاند کے سامنے ٹیکنے والا اللہ سے بعید سے بعید ہے، یہ نیت ہی کا فرق ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشادِ گرامی ہے:

وَتَوَا صَوْا بِالصَّبْرِ وَتَوَا صَوْا بِالْمَرْحَمَۃِ o (سورۂ بلد:17)
اور ایک دوسرے کو صبر کی ہدایت کرتے رہے اور نیز ایک دوسرے کو رحم کرنے کی ہدایت کرتے رہے۔

اور اثر میں ہے:

اَفْضَلُ الْاِیْمَانِ السَّمَاحَۃُ وَالصَّبْرُ بہترین ایمان سماحت اور صبر ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ اللہ کی مخلوق کی نگرانی، رعایا پروری، ان کی سیاست بغیر جود و سخاوت کے جسے عطیات کہتے ہیں اور بلا تجدد و شجاعت، بہادری و دلیری کے ہو ہی نہیں سکتی، بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ دین و دنیا کی اصلاح، فلاح و بہبود ان دو چیزوں کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے، پس جو شخص ان دو چیزوں میں قائم اور مستقیم نہیں ہے اس سے امر و حکومت اور ولایت چھین لینی چاہیئے اور دوسرے کو دے دینی چاہیے۔


جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَا لَکُمْ اِذَا قِیْلَ لَکُمُ انْفِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللہِ اثَّاقَلْتُمْ اِلَی الْاَرْضِ اَرَضِیْتُمْ بِالْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا مِنَ الْاٰخِرَۃِ فَمَا مَتَاعُ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا فِی الْاٰخِرَۃِ اِلَّا قَلِیْلٌo اِلَّا تَنْفِرُوْا یُعَذِّبْکُمْ عَذَابًا اَلِیْمًا وَّ یَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَیْرَکُمْ وَ لَا تَضُرُّوْہُ شَیْئًا وَ اللہُ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ (توبہ:39)
اے ایمان والو! تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ جب تم سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کی راہ میں لڑنے کے لیے نکلو تو تم زمین پر ڈھیر ہوئے جاتے ہو، کیا آخرت کے بدلے دنیا کی زندگی پر قناعت کر بیٹھے ہو، اگر یہ بات ہے تو یہ تمہاری سخت غلط فہمی ہے کیو نکہ آخرت کے فائدوں کے مقابلے میں دنیا کی زندگی کے فائدے محض بے حقیقت ہیں۔ اگر تم بلائے جانے پر بھی اللہ کی راہ میں لڑنے کیلئے نہ نکلو گے تو اللہ تمہیں بڑا دردناک عذاب دیگا، اور تمہارے بدلے دوسرے لوگوں کو لا کھڑا کر ے گا، اور تم اس کا کچھ بھی بگاڑ نہ سکو گے، اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
لَا یَسْتَوِیْ مِنْکُمْ مَّنْ اَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَقَاتَلَ اُولٰئِٓکَ اَعْظَمُ دَرَجَۃً مِّنَ الَّذِیْنَ اَنْفَقُوْا مِنْ بَعْدُ وَ قَا تَلُوْا وَکُلًّا وَّعَدَ اللہُ الْحُسْنٰی ۱ ؎ ھُوَ الَّذِیْ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہِ وَلَوْکَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَo (توبہ:33)
تم مسلمانوں میں سے جن لوگوں نے فتح مکہ سے پہلے اللہ کی راہ میں مال خرچ کئے اور دشمنوں سے لڑے وہ دوسرے مسلمانوں کے برابر نہیں ہو سکتے یہ لوگ درجے میں ان مسلمانوں سے بڑھ کر ہیں جنہوں نے فتح مکہ کے بعد خرچ کئے ہیں اور حسن سلوک کا وعدہ تو اللہ نے سب ہی سے کر رکھا ہے ۔(حدید:10)

۱ ؎ فتح مکہ سے پہلے اللہ کی راہ میں خرچ کرنے اور جہاد کرنے کا اجروثواب اس لیے بہت بڑا تھا کہ اسلام صرف مدینہ طیبہ ہی میں محدود تھا ۔ اور مدینہ طیبہ بھی منافقوں اور اسلام کے دشمنوں سے بھرا ہوا تھا پس اللہ تعالیٰ نے اعظم ترین درجہ کو انفاق وسخاوت ،قتال وجنگ ،شجاعت و بہادری کے ساتھ معین کردیا ۔ مدینہ کی ہجرت سے پیشتر کفار مکہ آپ ﷺ کے خلاف جیسی جیسی سازشیں کرتے تھے وہ ظاہر ہے ۔مجبورًا طائف کا ارادہ کرتے ہیں کہ وہاں کچھ کا میابی نصیب ہو ،لیکن وہاں کے لوگوں کی سرکشی سے مایوس ہو کر واپس لوٹتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ اور آپ کے رفقاء کا بائیکاٹ کیا گیا شعب ابی طالب (یعنی غار) میں تین سا ل نظر بند رکھا گیا ۔چند صحابہ کو مجبورًا ہجرت حبشہ کی اجازت دی ،تو کفّار مکہ کا وفد ان کے خلاف بھیجا گیا ۔کفار مکہ دارلندوہ میں جمع ہو کر آپ کے خلاف تدبیریں سوچا کرتے ہیں اور بالآخر سرداران مکہ آپ ﷺ کو (نعوذبا للہ ) قتل کر نے کا ارادہ کرتے ہیں۔ آپ ﷺ ہجرت کے لیے مجبور ہوتے ہیں ہجرت کرتے ہیں تو آپ ﷺ کی گر فتاری کے لیے بڑے بڑے انعامات کے وعدے ہوتے ہیں ۔مکہ میں آپ اور آپ ﷺ کے رفقاء اللہ کی عبادت بھی کھلی طور پر نہیں کر سکتے تھے ۔آپ ﷺ باہر تبلیغ کے لیے تشریف لے جاتے ہیں تو آپ ﷺ کے پیچھے پیچھے کفارکے نمائندے چلے جاتے ہیں اور آپ ﷺ کے خلاف آوازیں کستے ہیں ،جب ہجرت کر کے مدینہ طیبہ تشریف لے جاتے ہیں تو یہودونصاریٰ اور منافقوں سے آپ ﷺ کو پالا پڑ تا ہے ۔یہ لوگ شب وروز مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرتے ہیں،کفار مکہ کو روزانہ یہاں کی خبریں بھیجتے ہیں،کفار مکہ دارلندوہ میں جمع ہو کر آپ ﷺ کے خلاف سازشیں سوچا کرتے ہیں ۔غزوہ بدر ،غزوہ احد ان کی سازشوں کا ادنیٰ سا شاخسانہ تھا۔
غرض ! اسلام محدود تھا۔اور مسلمان ہر طرح بے بس تھے،مسلمانوں کا یہ حال تھا کہ کھانے پینے کے سامان سے بھی قاصر تھے ۔اور سا را ملک یہ سوچ رہا ہے کہ اسلام کو کس طرح مٹا دیا جائے ،فتح مکہ سے پہلے اسلام کا خاتمہ صرف یہی ہے کہ صرف چند مسلمان ہیں ان کو ختم کر دیا جائے ،اسلام عام طور پر پھیلانہیں تھا۔ کہ اگر ایک جگہ کے مسلمانوں کو ختم کر دیاجائے تو دوسری جگہ باقی ہیں ،آج اگر چین میں ختم کر دئے جائیں تو ہندوستان، پاکستان ،افغانستان اور ملک کے دوسرں خطوں میں موجود ہیں لیکن فتح مکہ سے قبل یہ صورت نہیں تھی۔کفاریہ چاہتے تھے اسلا م کا خاتمہ کر دیں،اور وہ یہ دیکھ رہے ہیں کہ چند نفر (مٹھی بھر لوگ) ہیں ان کو مٹانا کیا دشوار ہے ؟ لیکن اللہ ان کی حمایت کر رہا تھا ،مسلمان پیغمبر اسلام کے وعدوں پر یقین رکھتے ہوئے اسلام کی سر بلندی کے لیے کوشاں تھے۔ کفار یہ یقین کئے بیٹھے تھے کہ ان چند مسلمانوں کو مٹا دینا اور اسلام کاخاتمہ کر دینا کیا مشکل ہے اگر آج نہیں تو کل ہم انہیں ختم کر دیں گے ،لیکن اللہ کی امداد و اعا نت مسلمانوں کے ساتھ تھی۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
اور قرآن مجید میں بہت سے مقامات میں اس کا ذکر کیا ہے۔چنانچہ فرمایا جاتا ہے:

وَجَاھَدُوْافِیْ سَبِیْلِ اللہِ بِاَمْوَالِھِمْ وَاَنْفُسِھِمْ (توبہ:2)
اور اپنے جان و مال سے اللہ کے رستے میں جہاد کئے ۔

اور بخل کو کبیرہ گناہ کہا ہے۔ اِرشادی باری تعالیٰ ہے:
وَلَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ بِمَا اٰتَاھُمُ اللہُ مِنْ فَضْلِہٖ ھُوَ خَیْرًا لَّھُمْط بَلْ ھُوَ شَرٌّ لَّھُمْ سَیُطَوَّقُوْنَ مَا بَخِلُوْا بِہٖ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ (آل عمران:180)
اور جن لوگو ں کو اللہ نے اپنے فضل وکرم دیا ہے اور وہ اسے خرچ کرنے میں بخل کرتے ہیں، وہ اسے اپنے حق میں بہتر نہ سمجھیں، بلکہ وہ ان کے حق میں بدتر ہے کیونکہ جس مال کا بخل
کرتے ہیں عنقریب قیامت کے دن اس کا طوق بنا کر ان گلے میں پہنایا جائے گا۔

دوسری جگہ پر اِرشاد فرما یا:

وَالَّذِیْنَ یَکْنِزُوْنَ الذََّھَبَ وَالْفِضَّۃَ وَلَا یُنْفِقُوْنَھَا فِیْ سَبِیْلِ اللہِ
بقیہ صفحہ گذشتہ= (اللہ) وہی ذات ہے جس نے اپنے رسول ﷺ کو ہدایت اور دین حق دیکر بھیجا تا کہ اس کو تمام دینوں پر غالب کرے گو مشرکوں کو بُراہی کیوں نہ لگے۔

غرض ان حالات میںایسی بے بسی و بے کسی میں جہاد کرنا جہاد کے لیے خرچ کرنا، جان و مال کی بازی لگا دینا، جس قد ر دشوار اور قابل قدر ہو سکتا ہے، وہ ظاہر ہے اور یہی وجہ ہے کہ فتح مکہ سے پہلے جہاد کرنے والوں، خرچ کرنے والوں کا درجہ بہت بڑا ہے اللہ رب العزت ان سربلندوں، اور بزرگوں، ایمان و یقین اور احسان کے ستونوں کے نقش قدم پر چلنے کی ہمیں تو فیق دے۔ ان بزرگوں کا ہم پر بڑا احسان ہے۔ آج ہم انہیں کی کوششوں کی وجہ سے اسلام کا کلمہ پڑھ رہے ہیں۔ اور قیامت تک دنیا میں اسلام کو قائم کر دیا۔ اور اسلام ہمیشہ باقی رہے گا۔ سر بلند رہے گا۔ کوئی اسے مٹانہیں سکتا۔ بلکہ وہ ہمیشہ پھلتا پھولتا ہی رہے گا۔ اور انہیں بزرگوں کی کوششو ں کی وجہ سے پھلتا پھولتا رہے گا۔ (ابو العلاء محمد اسمٰعیل کا ن اللہ لہٗ)

فَبَشِّرْھُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ (توبہ:34)
اور جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرتے رہتے ہیں اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے تو ان کو روزِ قیامت کے دردناک عذاب کی خوش خبری سُنا دو۔

اسی طرح جبن او ربزدلی کی مذمت فرمائی ہے مثلاً فرمایا جاتا ہے:

وَمَنْ یُّوَلِّھِمْ یَوْمَئِذٍ دُبُرَہٗ اِلَّا مُتَحَرِّفًا لِّقِتَالٍ اَوْ مُتَحَیِّزًا اِلٰی فِئَۃٍ فَقَدْ بَآئَ بِغَضَبٍ مِّنَ اللہِ وَمَاْوٰہُ جَھَنَّمُ وَبِئْسَ الْمَصِیْرُ (انفال:16)
اور جو شخص ایسے موقع پر کافروں کو اپنی پیٹھ دکھائے گا تو سمجھنا وہ اللہ کے غضب میں آ گیا اور اس کا ٹھکانا دوزخ ہے، اور وہ بہت بری جگہ ہے مگر لڑائی کے لیے پینترا بدلنا ہو، یا اپنے لوگوں میں جا شامل ہونے کے لیے پھر جائے تو مضائقہ نہیں۔

اور فرمایا ہے :

وَیَحْلِفُوْنَ بِاللہِ اِنَّھُمْ لَمِنْکُمْ وَمَاھُمْ مِنْکُمْط وَلٰکِنَّھُمْ قَوْمٌ یَّفْرَقُوْنَ
اور مسلمانو! یہ منافق تمہارے سامنے قسمیں کھاتے ہیں کہ وہ بھی تم ہی میں سے ہیں حالانکہ وہ تم میں سے نہیں ہیں بلکہ وہ بُزدل لوگ ہیں۔(توبہ:56)۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
اور کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ کے اندر بیشمار جگہ اس چیز کا بیان ہے اور یہ تو ایک ایسی چیز ہے کہ روئے زمین کے بسنے والے اس پر متفق ہیں۔ یہاں تک کہ عام ضرب المثل ہو گئی ہے کہ:
لَا طَعْنَۃَ وَ لَا جَفْنَۃَ
نہ نیزہ چلانا جانتا ہے نہ سخی مرد ہے۔
اور کہا کرتے ہیں :
لَا فَارِسَ الْخَیْلِ وَلَا وَجْہَ الْعَرَبِ
نہ گھوڑے کی سواری جانتا ہے نہ عرب کا وجیہ انسان ہے۔

یہاں {بیورو کریسی میں} تین قسم کے لوگ ہیں۔

ایک وہ جن پر دنیا کی محبت غالب ہے۔ ان کا مقصد صرف اللہ کی زمین پر اپنی برتری، علو اور بڑائی، غرور، تکبر، فساد و افساد ہے۔ آخرت کا انہیں مطلقاً خیال نہیں ہے۔ اور یہ سمجھ رہے ہیں کہ عطیہ اور انعام و اکرام کے بغیر ان کی سلطنت باقی نہیں رہ سکتی، اور یہ اس کی قدر نہیں رکھتے، اور اس لیے وہ حرام مال وصول کرنا اپنے لیے ضروری سمجھتے ہیں۔ اور ایسے لوگ غارتگر، اور لٹیرے بن جاتے ہیں، اور کہتے ہیں:


’’ولایت و امارتِ سلطنت و حکومت اسی کو ملتی ہے جو کھاتے کھلاتے، دیتے دلاتے رہتے ہیں۔ عفیف، پاک دامن لوگ قطعاً محروم رکھے جاتے ہیں اور اس پر اس کے امراء رؤسا خفا ہو جاتے ہیں، بگڑ جاتے ہیں اور اُسے معزول کر دیتے ہیں‘‘
ایسے لوگ دنیائے عاجل کو دیکھتے ہیں اور کل آنے والی دنیا کو بھول جاتے ہیں۔ اور آخرت کو بھی بھول جاتے ہیں۔ اگر انہیں توبہ نصیب نہ ہوئی، اصلاح آخرت کی توفیق میسر نہ آئی تو خسرالدنیا و الآخرۃ کے مصداق بن کر رہ جاتے ہیں۔

دوسرا فریق {بیورو کریسی میں} وہ ہے جو اللہ کا خوف رکھتا ہے۔ مخلوق و رعایا پر ظلم کرنا بُرا سمجھتے ہیں۔ حرام مال سے بچنے کا اعتقاد بھی رکھتے ہیں۔ اور کہتے ہیں یہ عمدہ سے عمدہ اور اچھا سے اچھا فرض ہے۔ باوجود اس کے وہ یہ اعتقاد بھی رکھتے ہیں کہ

سیاست پوری طرح انجام نہیں پاتی جب تک حرام نہ لیا جائے اور حرام نہ کھایا جائے اور اس لیے وہ سیاست ہی سے علیحدہ ہو جاتے ہیں۔ اور اس قسم کے کاموں سے مطلقاً علیحدہ رہتے ہیں۔
اور بسا اوقات ان میں قدرتی جبن {کم ہمتی} بزدلی اور مخلوق اللہ سے چڑ ہو جاتی ہے۔ کیو نکہ ان کے پاس ایسا دین ہو تا ہے کہ واجب کو ترک کر دیتے ہیں۔ اور یہ ترک بعض محرمات سے زیادہ مضر ہوا کرتا ہے، فرض چیز کو چھوڑدینا، اللہ کی راہ میں جہاد کرنے سے رک جانا، ترکِ جہاد کے مترادف ہوا کرتا ہے۔ کبھی یہ لوگ غلط تاویل کر لیتے ہیں، اور تاویل کر کے اچھے اور فرض کام سے رُک جاتے ہیں۔
اور کبھی یہ اعتقاد رکھتے ہیں اس کام سے انکار واجب ہے۔ اور یہ انکار قتال و جنگ کے بغیر پورا نہیں ہوتا۔ اور اس لیے وہ مسلمانوں کے مقابلہ میں بھی قتال و جنگ کر لیتے ہیں۔ جیسا کہ خوارج نے کیا،
یہ ایسے لوگ ہیں جن سے نہ دنیا بنتی ہے اور نہ دین بنتا ہے
۔
لیکن کبھی کبھی ان لوگوں سے دین کے بعض گوشے، اور بعض اُمورِ دنیا، اصلاح پزیر ہو جاتے ہیں۔ اور کبھی ان کی اجتہادی غلطی معاف بھی ہو جاتی ہے۔ ان کا قصور اور خطا بخش دی جاتی ہے۔ اور کبھی ایسے لوگ سب سے زیادہ نقصان اور گھاٹے میں پڑ جاتے ہیں۔ اور یہ وہ لوگ ہوا کرتے ہیں جن کی سعی و کوشش ضلالت وگمراہی کے سوا کچھ نہیں ہوتی۔ اور وہ یہ سمجھتے ہیںکہ وہ اچھا کام کر رہے ہیں۔ اور یہ طریقہ ان لوگوں کا ہوتا ہے جو نہ تو اپنے لیے کچھ حاصل کرتے ہیں نہ غیر کو کچھ دیتے ہیں، صرف فاسق فاجر لوگوں کی تالیف قلبی کرتے ہیں اور یہ خیال کرتے ہیں کہ مولفۃ القلوب کو دینا ایک قسم کا ظلم و جور ہے۔ ان کو دینا حرام ہے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
{بیورو کریسی میں} تیسرا گروہ اُمت وسط کا ہے، اور یہ دین محمدی اور خلفاء کا ہے جو خواص و عوام اور ساری اُمت کے لیے اور قیامت تک کے لیے ہے۔ اور وہ یہی ہے کہ مال خرچ کیا جائے اور رعایا کے فائدہ کے لیے خرچ کیا جائے۔ مال دیا جائے اگرچہ وہ جن کو مال دیا جاتا ہے رؤسا اور مالدار ہی کیوں نہ ہوں۔ ان کی ضرورت اور احتیاجات پوری کی جائیں۔ اور حالات کی اصلاح اور اقامتِ دین و دنیا عفت نفس کو ملحوظ رکھتے ہوئے ان کی ضروریات و احتیاجات پوری کرنی چاہیے۔ بلا استحقاق مال نہ لیا جائے۔ اور تقویٰ اور احسان دونوں کو جمع کر لیا جائے کیونکہ سیاست شرعیہ {شرعی حکومت} ان دو کے بغیر پوری نہیں ہو سکتی، دین و دنیا کی اصلاح ان کے بغیر ناممکن ہے۔ اللہ کا اِرشادہے:

اِنَّ اللہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّالَّذِیْنَ ھُمْ مُّحْسِنُوْنَ (نحل:128)
کیونکہ جو لوگ پرہیزگاری کرتے ہیں اور جو حسن سلوک سے پیش آتے ہیں اللہ انکا ساتھی ہے

اور یہ وہی ہے کہ لوگوں کی روٹی کپڑے کا انتظام کیا جائے۔ ان کی ضرورتیں پوری کی جائیں۔ اور خود حلال وطیب کھائیں۔ اور یہ کہ اوپر کے لوگ (یعنی حاکم و بااختیار لوگ) خرچ کم کر دیں کیونکہ قدرتی بات ہے کہ اوپر کے بسنے والے سے لوگ لینے کی تمنا زیادہ رکھتے ہیں، عفیف (سفید پوش) سے اتنی تمنا نہیں رکھتے ۱؎ اور جس قدر عفیف سے لوگ اپنی اصلاح کر لیتے ہیں غیر عفیف سے نہیں کرسکتے۔

کیونکہ قدرت و امکان کے ساتھ عفت سے کام لینا، یہی تقویٰ اور دین کی حرمت ہے۔صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں سیدنا ابو سفیان بن حر ب سے روایت ہے کہ ہرقل شاہ روم نے ابو سفیان کو جواب دیتے ہوئے کہا یہ پیغمبر کیا تعلیم دیتے ہیں؟ تو ابو سفیان نے جواب دیا وہ ہمیں نماز پڑھنے کو کہتے ہیں، سچائی و پاکدامنی اور صلہ رحمی کا حکم کرتے ہیں۔

اور ایک اثر میں ہے، اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام پر وحی اتاری کہ اے ابراہیم تمہیں خبر ہے کہ میں نے تم کو اپنا خلیل کیوں بنایا ہے؟ اس لیے بنایا ہے کہ تم کو دینا زیادہ محبوب ہے اور لینا کم محبوب ہے۔

او رہم عطا اور بخشش دینے کا ذکر کر چکے ہیں کہ سخاوت اور قومی فوائد کو پیش نظر رکھنا ہر حال میں ضروری ہے، اور صبر و غضب میں دفعِ مضرت کا خیا ل رکھنا شجاعت و بہادری ہے اسے پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔

اور غضب و غصہ کے بارے میں لوگ تین قسم کے ہیں، ایک وہ جو اپنے لیے اور پروردگار عالم کے لیے غضب و غصہ کر تے ہیں۔ دوسرے وہ جو نہ اپنے لیے غضب و غصہ کرتے ہیں نہ پروردگار عالم کے لیے۔ تیسرے وہ جس کو امت وسط کہتے ہیں ان کا غضب و غصہ صرف پروردگار عالم کے لیے ہی ہوتا ہے، اور اس لیے وہ غضب و غصہ سے آشنا ہی نہیں ہوئے،
۱ ؎ مثلًا سلاطین اور بادشاہ وزراء اور ان کے نائب، گورنر اور ان کے نائب۔ اگر آج کل کی نمائشی جمہوری حکومت کے صدر۔ غرض طبقہء بالا کا پورے ملک پر، پوری سلطنت پر اثرپڑا کرتا ہے، اگر اوپر کا طبقہ صالح ہے تو سارا ملک سا ری سلطنت صالح ہو جائے گی۔ اور برا ہے تو ساری سلطنت پر اس کا اثر پڑے گا۔ رعایا پروری کا اقتضاء یہ ہے کہ رعیت کی فلاح و بہبود کو سب سے زیادہ پیش نظر رکھا جائے شیخ سعدی رحمہ اللہ کا مقولہ ہے ۔
گو سپند از برائے چوپان نیست بلکہ چوپان برائے خدمت اوست
اگر بالائی طبقہ کے لوگ لیں گے، کھائیں گے تو ماتحتوں سے کفایت شعاری کی امیدیں بیکا ر ہیں۔ سب لیں گے، کھائیں گے شیخ سعدی رحمہ اللہ نے کیا اچھا کہا ہے ۔
بہ پنج بیضہ کہ سلطان ستم روا دارد زنند لشکر یانش ہزار مرغ بسیخ!
غر ض یہ کہ رعایا پروری کا تقاضا یہ ہے کہ رعیت کا پورا پورا خیال رکھا جائے شیخ سعدی رحمہ اللہ نے کیا اچھاکہا ہے۔ بررعیت ضعیف رحمت کن تا از دشمن قوی زحمت نہ بینی ضعیف و کمزور رعیت پر رحم کرو تاکہ قوی دشمن سے زحمت نہ اٹھاؤ۔ اور سچ تو یہ ہے کہ زمین اللہ کا ملک ہے، اس پر اللہ ہی کا دستور اور حکومت چلنی چاہیئے۔ اسی سے دنیا و آخرت درست ہو سکتی ہے اور سب کی ذمہ داری دو گروہوں پر ہے، اور وہ امراء اور علماء ہیں۔ اگر یہ دونوں گروہ درست ہیں تو ساری مخلوق اور معاشرت درست ہو جائے گی، اگر یہ ناہموار ہیں تو ہر چیز (مثلاً معاشرت، معیشت، دولت و حکومت) ناہموار ہو گی۔
 
Top