محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
جناب مسروق رحمہ اللہ سے روایت ہے، انہوں نے ابن زیاد سے کسی مظلمہ کے متعلق بات چیت کی، اور انہوں نے ظلم کو دفع کر دیا۔ اس نے تحفہ میں ایک غلا م دیا۔ انہوں نے اُسے مسترد کر دیا اور کہا میں نے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے سنا ہے وہ فرماتے تھے کہ جس نے مسلمان کا ظلم دور کیا، اور اس نے اس کے مقابلہ میں تھوڑا یا بہت کچھ دیا تو یہ حرام ہے، تو وہ کہتے ہیں میں نے کہا اے ابو عبد الرحمٰن رضی اللہ عنہ ہم تو سخت رشوت کے سوا کسی چیز کو حرام نہیں سمجھتے تھے۔ انہوں نے فرما یا ’’رشوت تو کفر ہے‘‘۔
پس اگر والی، امیر، اپنے لیے ایسی چیز عمال سے نکلواتا ہے جو انہوں نے اپنے لیے اور اپنی اولاد کے لیے مخصوص کر رکھی ہے، تو اس صورت میں دونوں میں سے کسی کی اعانت نہیں کرنی چاہئیے، دونوں کے دونوں ظالم ہیں، جس طرح کہ ایک چور دوسرے چور کا مال چرالیتا ہے، یا دو گروہ عصبیت اور ریاست کے لیے لڑتے ہیں تو یہ کسی طرح جائز نہیں کہ آدمی ظلم کی اعانت و امداد کرے، کیونکہ تعاون و امداد دو طرح کی ہے، ایک نیکی اور تقویٰ میں تعاون و امداد مثلاً جہاد کرنا، حدود قائم کرنا، حقوق العباد دلوانا، مستحق اور حقداروں کے حقوق دلوانا وغیرہ، ایسی اعانت و امداد ایسا تعاون تو مامور من اللہ ہے۔ اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے ایسا تعاون فرض قرار دیا ہے۔ {صد افسوس! آج اسی چیز کو بنیاد پرستی، دقیانوسی، شدت پسندی، دہشت گردی، ترقی کی راہ میں رکاوٹ اور ’’علمائ‘‘ کی زبان میں ’’تکفیری ٹولہ‘‘ وغیرہ کے ناموں سے یاد کیا جاتا ہے} اور اگر ڈر کے مارے نیکی اور نیک کام سے رک جائے، اور ظالم سے ڈر جائے مظلوم کی اعانت و امداد نہ کرے تو یہ بھی فرض عین یا فرضِ کفایہ کا تارک ہے، اور تارکِ فرض کا مجرم ہے، اگر چہ اپنی خوش فہمی سے وہ یہ سمجھ رہا ہے کہ میں ورع {یعنی انتہائی زیادہ عبادت} و تقویٰ کا پابند ہوں۔ اس لیے کہ اکثر جبن {یعنی کم ہمتی و} بزدلی، اور ورع و تقویٰ میں اشتباہ {یعنی شبہ} ہو جاتا ہے، اور جبن و بزدلی اور ورع دونوں میں انسان حق کی اعانت سے رُک جاتا ہے۔
دوسرا تعاون ’’اثم و عدوان‘‘ کا تعاون ہے مثلاً معصوم بے گناہ کا خون کیا جائے، یا اس کا مال لے لیا جائے۔ اور جو مار کا حقدار نہیں اسے مارا پیٹا جائے، یہ اور اس قسم کے گناہوں میں اعانت و امداد کرنا ’’اثم و عدوان‘‘ کی اعانت و امداد ہے، اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ نے ایسی اعانت و امداد کو حرام قرار دیا ہے۔
البتہ جب کسی کا مال بلا استحقاق لے لیا گیا یا چھین لیا گیا، اور مال کے مالکوں تک اس کا پہنچانا کسی وجہ سے دشوار ہے مثلاً سلطانی مال کہ ایسا مال مسلمانوں کے مصالح پر خرچ کرنا چاہئے جیسے جہاد، اور لڑائی کے مورچے {چوکیاں، چیک پوسٹیں، چھاؤنیاں} وغیرہ قائم کرنے پر خرچ کیا جائے، یا مجاہدین اور جنگ کرنے والو ں پر خرچ کیا جائے تو یہ نیکی و تقویٰ کی اعانت و امداد ہو گی، کیونکہ سلطان {حاکم وقت} پر واجب و لازم ہے کہ اس قسم کا مال جبکہ اصل مالکوں کی وجہ سے نہ پہنچا سکے، اور نہ دے سکے، اور اس کے وارثوں کو نہ دے سکے تو سلطان کا فرض ہے کہ اگر اسی نے ظلم کیا ہے تو پہلے توبہ کرے، اور پھر مال کو مسلمانوں کی مصلحتوں پر مسلمانوں کے کاموں میں خرچ کرے، اور یہ جمہورعلماء کا قول ہے، امام مالک، امام ابو حنیفہ، امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ وغیرہ بھی یہی کہتے ہیں، اور بہت سے صحابہ رضی اللہ عنہ سے بھی ایسا منقول ہے، اور شرعی دلائل بھی اسی پر دلالت کرتے ہیں، جیسا کہ دوسری جگہ منصوص ہے۔
پس اگر والی، امیر، اپنے لیے ایسی چیز عمال سے نکلواتا ہے جو انہوں نے اپنے لیے اور اپنی اولاد کے لیے مخصوص کر رکھی ہے، تو اس صورت میں دونوں میں سے کسی کی اعانت نہیں کرنی چاہئیے، دونوں کے دونوں ظالم ہیں، جس طرح کہ ایک چور دوسرے چور کا مال چرالیتا ہے، یا دو گروہ عصبیت اور ریاست کے لیے لڑتے ہیں تو یہ کسی طرح جائز نہیں کہ آدمی ظلم کی اعانت و امداد کرے، کیونکہ تعاون و امداد دو طرح کی ہے، ایک نیکی اور تقویٰ میں تعاون و امداد مثلاً جہاد کرنا، حدود قائم کرنا، حقوق العباد دلوانا، مستحق اور حقداروں کے حقوق دلوانا وغیرہ، ایسی اعانت و امداد ایسا تعاون تو مامور من اللہ ہے۔ اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے ایسا تعاون فرض قرار دیا ہے۔ {صد افسوس! آج اسی چیز کو بنیاد پرستی، دقیانوسی، شدت پسندی، دہشت گردی، ترقی کی راہ میں رکاوٹ اور ’’علمائ‘‘ کی زبان میں ’’تکفیری ٹولہ‘‘ وغیرہ کے ناموں سے یاد کیا جاتا ہے} اور اگر ڈر کے مارے نیکی اور نیک کام سے رک جائے، اور ظالم سے ڈر جائے مظلوم کی اعانت و امداد نہ کرے تو یہ بھی فرض عین یا فرضِ کفایہ کا تارک ہے، اور تارکِ فرض کا مجرم ہے، اگر چہ اپنی خوش فہمی سے وہ یہ سمجھ رہا ہے کہ میں ورع {یعنی انتہائی زیادہ عبادت} و تقویٰ کا پابند ہوں۔ اس لیے کہ اکثر جبن {یعنی کم ہمتی و} بزدلی، اور ورع و تقویٰ میں اشتباہ {یعنی شبہ} ہو جاتا ہے، اور جبن و بزدلی اور ورع دونوں میں انسان حق کی اعانت سے رُک جاتا ہے۔
دوسرا تعاون ’’اثم و عدوان‘‘ کا تعاون ہے مثلاً معصوم بے گناہ کا خون کیا جائے، یا اس کا مال لے لیا جائے۔ اور جو مار کا حقدار نہیں اسے مارا پیٹا جائے، یہ اور اس قسم کے گناہوں میں اعانت و امداد کرنا ’’اثم و عدوان‘‘ کی اعانت و امداد ہے، اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ نے ایسی اعانت و امداد کو حرام قرار دیا ہے۔
البتہ جب کسی کا مال بلا استحقاق لے لیا گیا یا چھین لیا گیا، اور مال کے مالکوں تک اس کا پہنچانا کسی وجہ سے دشوار ہے مثلاً سلطانی مال کہ ایسا مال مسلمانوں کے مصالح پر خرچ کرنا چاہئے جیسے جہاد، اور لڑائی کے مورچے {چوکیاں، چیک پوسٹیں، چھاؤنیاں} وغیرہ قائم کرنے پر خرچ کیا جائے، یا مجاہدین اور جنگ کرنے والو ں پر خرچ کیا جائے تو یہ نیکی و تقویٰ کی اعانت و امداد ہو گی، کیونکہ سلطان {حاکم وقت} پر واجب و لازم ہے کہ اس قسم کا مال جبکہ اصل مالکوں کی وجہ سے نہ پہنچا سکے، اور نہ دے سکے، اور اس کے وارثوں کو نہ دے سکے تو سلطان کا فرض ہے کہ اگر اسی نے ظلم کیا ہے تو پہلے توبہ کرے، اور پھر مال کو مسلمانوں کی مصلحتوں پر مسلمانوں کے کاموں میں خرچ کرے، اور یہ جمہورعلماء کا قول ہے، امام مالک، امام ابو حنیفہ، امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ وغیرہ بھی یہی کہتے ہیں، اور بہت سے صحابہ رضی اللہ عنہ سے بھی ایسا منقول ہے، اور شرعی دلائل بھی اسی پر دلالت کرتے ہیں، جیسا کہ دوسری جگہ منصوص ہے۔