مماتی اہل حدیث !
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
نبی سب حیات ہے یانہیں؟
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
قرآن مجید میں صاف ارشاد ہے۔ إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُم مَيِّتونَ ﴿
٣٠﴾
(اے نبیﷺ تم بھی مرنے والے ہو۔ اور یہ مخالفین بھی سب ایک دن مرنے والے ہیں۔ (مترجم) حدیث بخاری شریف میں ہے۔ آپﷺ کا انتقال پر اختلاف ہوا کہ آپ ﷺ زندہ ہیں۔ یا آپﷺ فوت ہوچکے ہیں۔ تو حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ ﷺ کے چہرہ مبارک سے کپڑا اٹھایا اور دیکھ کر فرمایا۔ اما اموتة الاولي فقد ذقتهاحضورﷺ ایک موت کا زائقہ چکھ چکے ہیں۔ رہی روحانی زندگی سو وہ انیباء اور اولیاء اور شہدا ء سب کو حاصل ہے۔ يُرزَقونَ ﴿
١٦٩﴾ فَرِحينَ بِما ءاتىٰهُمُ اللَّهُ مِن فَضلِهِ(سورۃ آل عمران)
اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل وکرم سے جو کچھ ان کو دیا ہے۔ اس پر وہ مگن رہتے ہیں۔ (اہل حدیث جلد نمبر 44 صفحہ نمبر 15)
تشریح از علامہ ابو القاسم سیف بنارسی ؒ
حیات برزخی کا مسئلہ قیاسی نہیں ہے کہ حیات شہداء پر آپ ﷺ کی حیات بعد الممات کو قیاس کیا جائے۔ بلکہ اس کے لئے نص کا ہونا ضروری ہے۔ آپ ﷺ کے لئے صاف ارشاد ہے۔ إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُم مَيِّتونَ ﴿٣٠﴾
(زمرپ23) أَفَإِي۟ن ماتَ أَو قُتِلَ .... ﴿
١٤٤﴾ (آل عمران)
حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خطبہ میں ہزارہا صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین کی موجودگی میں فرمایا تھا۔ من كان يعبد محمد اذان محمد قد مات 1 (بخاری پ5)اور اسی پ سب صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین نے سکوت فرمایا۔ ابو دائود میں ہے آپﷺ نے ارشاد فرمایا۔ مامن احد يسلم وعلي الا رد الله علي روحي حتي ارد عليه (مشکواۃ) ص 78)
اگرآپﷺ قبر میں زند ہ ہوتے در روح چہ معنی ورد۔ بخلاف شہداکے کے ان کی بابت اللہ تعالیٰ نے صاف فرمایا ہے۔ بَل أَحياءٌ عِندَ رَبِّهِم يُرزَقونَ ﴿
١٦٩﴾
(ارسال کردہ مولانا عبد الروف جھنڈے نگری)
1۔ جو محمد رسول اللہ ﷺ کا پجاری تھا۔ یعنی آپﷺ کے محض ڈر سے مسلمان ہوا تھا۔ ا س کو معلوم ہونا چاہیے کہ آج محمد رسول اللہﷺ انتقال فرما چکے ہیں۔ ایسے لوگوں کو اختیار ہے کہ مسلمان رہیں یا کافر ہوجایئں۔ جو لوگ اسلام کو دین الہٰی برحق مذہب جان کر مسلمان ہوئے ہیں۔ ان کو حضور ﷺ کی وفات سے کوئی مخالفانہ اثر نہیں لینا چاہیے۔ جس اللہ پر وہ ایمان لائے ہیں۔ وہ ہمیشہ ہمیشہ رہنے والا سفیر فانی ہے۔ الخ
فتاویٰ ثنائیہ
جلد 01 ص 107
محدث فتویٰ