• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

خالد بشیر رحمہ اللہ کی شہادت کی لرزہ خیز واردات

مشکٰوۃ

سینئر رکن
شمولیت
ستمبر 23، 2013
پیغامات
1,466
ری ایکشن اسکور
939
پوائنٹ
237
اگر آپ کے کوئی معلومات ہیں تو بلا جھجک منظر پر لائیں تاکہ دونوں اطراف کے موقف کو پڑھیں اور سمجھیں کے آخر یہ سارا ماجرہ کیا ہے
جماعت ہی اپنی تحقیق کو سامنے لے آئے تو زیادہ بہتر ہے۔۔ ۔ ہم کچھ کہیں گے تو اعتراض ہو گا۔ ۔ ۔

اپنی سی آئی اے سے تحقیقی کرا لیں چلو ہمیں بھی پتا چل جائے گا۔
ہمیں جتن کرنے کی چنداں ضررت نہیں ۔ ۔ ویسے بھی جہاں سے جماعت الدعوۃ تحقیقات کروا رہی ہے سی آئی اے تو اس کی خاک پا کو بھی نہیں پہنچنے والی۔ ۔ ۔!
واضح ہونے کے بعد بھی کوئی معصوم بنے تو پھر کچھ کہا نہیں جا سکتا ۔ ۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
جناب فورم کے بھائی گواہ ہیں کہ فیض عالم کے دفاع میں آپ نے کیا پاپڑ نہیں بیلے ۔آپ بتائیں کون سی بات ہے جو اخلاقیات کے خلاف ہے ۔
جب ااپ دو امور کے مابین فرق نہیں کر سکتے میں فیض عالم صدیقی صاحب کا دفاع کر رہا ہوں یا حق کا تو مزید بات کرنا بے کار ہے میں نے صرف یہ بات سمجھنی چاہی تھی کہ جن بنیادوں پر فیض عالم صدیقی صاحب کو مطعون ٹھہرایا جا رہا ہے اگر وہی اسباب کسی اور میں بھی پائے جائیں گے تو کیا وہ بھی اسی طرح مطعون ہو گا یا نہیں ؟؟ کیا میں نے کسی بھی مقام پر یہ کہا کہ فیض عالم صدیقی صاحب پر یہ الزامات غلط ہیں اور میں ان کا رد کررہا ہوں وغیرہ وغیرہ اور جہاں تک بات ہے اخلاقیات کی تو آپ کا یہ خطاب فیض عالم صدیقی کے پرستار ۔۔۔ یہ کیا ہے جب کہ آپ کے نزدیک فیض عالم صدیقی صاحب ناصبی ہیں اور ان کی دعائے مغفرت نہیں کرنی چاہیے وغیرہ تو آپ بزعم خویش مجھے ایسے شخص کا پرستار بنا رہے ہیں جو آپ کے نزدیک اچھا نہیں ہے تو یہ آپ میری مدح کر رہے ہیں یا تنقیص ۔۔۔ اب اس کا مطلب مجھ سے نہیں پوچھیے گا
 
شمولیت
جنوری 19، 2013
پیغامات
301
ری ایکشن اسکور
571
پوائنٹ
86
جب ااپ دو امور کے مابین فرق نہیں کر سکتے میں فیض عالم صدیقی صاحب کا دفاع کر رہا ہوں یا حق کا تو مزید بات کرنا بے کار ہے میں نے صرف یہ بات سمجھنی چاہی تھی کہ جن بنیادوں پر فیض عالم صدیقی صاحب کو مطعون ٹھہرایا جا رہا ہے اگر وہی اسباب کسی اور میں بھی پائے جائیں گے تو کیا وہ بھی اسی طرح مطعون ہو گا یا نہیں ؟؟ کیا میں نے کسی بھی مقام پر یہ کہا کہ فیض عالم صدیقی صاحب پر یہ الزامات غلط ہیں اور میں ان کا رد کررہا ہوں وغیرہ وغیرہ اور جہاں تک بات ہے اخلاقیات کی تو آپ کا یہ خطاب فیض عالم صدیقی کے پرستار ۔۔۔ یہ کیا ہے جب کہ آپ کے نزدیک فیض عالم صدیقی صاحب ناصبی ہیں اور ان کی دعائے مغفرت نہیں کرنی چاہیے وغیرہ تو آپ بزعم خویش مجھے ایسے شخص کا پرستار بنا رہے ہیں جو آپ کے نزدیک اچھا نہیں ہے تو یہ آپ میری مدح کر رہے ہیں یا تنقیص ۔۔۔ اب اس کا مطلب مجھ سے نہیں پوچھیے گا
جناب آپ کے نزدیک تو فیض عالم صدیقی اچھا ہے تو ٹنشن کیوں لے رہیں ۔مجھے کوئی کہے کہ عبداللہ بہاولپوری کا پرستار تو میں ہوں چاہے حنفی ان کے خلاف جو کہیں ۔فیض عالم کا دفاع یا حق کا۔ جناب آپ کو سمجھ نہیں آرہی اگر آپ حق کا دفاع کر رہے ہیں تو اس کا مطلب سیدھا سا ہے کہ فیض عالم حق پر ہے کیوں بات کو گول مول کرتے ہیں۔
 
شمولیت
جنوری 19، 2013
پیغامات
301
ری ایکشن اسکور
571
پوائنٹ
86
اپنے لوگوں کو ٹھکانے لگانے کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔جماعۃ الدعوۃ ہی سے نکلے ہوئے لوگوں نے اس بارے میں بہت سے انکشافات کئے ہیں۔اگر وہ فورم پر نقل کردیئے جائیں تو ان حضرات کے لئے مشکل پیش آسکتی ہے۔​
جناب لکھیں ہمیں بھی پتہ چلے ۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
جناب آپ کے نزدیک تو فیض عالم صدیقی اچھا ہے تو ٹنشن کیوں لے رہیں ۔مجھے کوئی کہے کہ عبداللہ بہاولپوری کا پرستار تو میں ہوں چاہے حنفی ان کے خلاف جو کہیں ۔فیض عالم کا دفاع یا حق کا۔ جناب آپ کو سمجھ نہیں آرہی اگر آپ حق کا دفاع کر رہے ہیں تو اس کا مطلب سیدھا سا ہے کہ فیض عالم حق پر ہے کیوں بات کو گول مول کرتے ہیں۔
میں ایک مورخ ہونے کے ناطے ان کا احترام ضرور کرتا ہوں لیکن محض ان کا دفاع حق کا دفاع نہیں ہے کئی مقامات پر ان کی تحقیق سے مجھے اختلاف ہے لہذا حق کا دفاع علی الاطلاق کیا جاتا ہے اور کسی بھی شخصیت کا دفاع اس وقت تک جب تک وہ حق کا ساتھ دے وگرنہ احترام تو ہر صورت میں باقی رہنا چاہیے اور اختلاف رائےکا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ مخالف کی ایسی تیسی پھیر دی جائے ۔
آپ مجھے کسی ایسی شخصیت کا پرستار کہتے جو متفق علیہ محترم و مکرم ہوتی تو میں آپ کی بات کا رد نہیں کرتا آپ یہ کہیں کہ میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ کا پرستار ہوں ( وہ الگ بات ہے کہ ان پر بھی ناصبیت کا الزام لگا ہے) تو میں آپ کی بات پر اعتراض نہ کرتا البتہ اگر فیض عالم صدیقی صاحب آپ کے لیے محترم و مکرم ہیں تو میں اپنے سابقہ کلمات واپس لے لیتا ہوں
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,013
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
روز قیامت مجھ سے یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ فلاں قتل کے بارے میں تمہاری رائے کیا ہے بلکہ جو کچھ پوچھا جائے گا وہ حق ہے
لیکن یہ ضرور پوچھا جائے گا کہ تم نے ایک عالم دین پر بہتان کیوں گھڑا تھا؟؟؟
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اور حدیث رسول کی مخالفت کیوں کی تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم دشنام طرازی نہیں کیا کرتے تھے جبکہ آپ کی گفتگو الزامات اور دشنام طرازی کے بغیر مکمل ہی نہیں ہوتی
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاۃ 17 مئی 2013 کو جماعۃ الدعوۃ کے شہید قائد اور امیر جماعت حافظ محمد سعید حفظہ اللہ کے سیکیورٹی چیف محترم خالد بشیر رحمہ اللہ کی شہادت کی لرزہ خیز واردات رونما ہوئی۔ جس سے ساری جماعت سکتہ میں آگئی۔ پھر وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ اس واردات سے جب پردہ اٹھا تو وہ اس واردات سے کہیں زیادہ حیران کن حقائق سامنے آئے۔

اس واردات میں "را" کے بھارتی اور پاکستانی ایجنٹوں نے کس طرح محب اسلام اور محب وطن و ملت قائد کو نشانہ ، اس کا انکشاف ان کے دو قاتلوں کی گرفتاری کے بعد سامنا آیا۔ اس واردات میں بھارتی افراد کے علاوہ "را" نے جماعت کے اندر نقب لگا کر ایک ضمیر و ایمان فروش مقامی ہینڈلر پیدا کیا گیا جس نے، دو دہشتگردوں کو ، جنہیں افغانستان میں "را" نے اس مشن کی تربیت دی تھی، کیساتھ مل کر اس کاروائی کو انجام تک پہنچایا۔۔۔ ((((ہم آپ کے سامنے ایک پاکستانی اخبار "پاکستان ٹوڈے " کے توسط سے منظر عام پر آنے والی رپورٹ کا ترجمہ پیش کر رہے ہیں جس میں کسی قسم کے اضافے سے اجتناب کرتے ہوئے ، اس کو اسکے ماخذ کے قریب ترین رکھا گیا ہے۔

اور اس رپورٹ میں جو تھا اسے من و عن پیش کیا جارہا ہے، لہذا اس رپورٹ میں کسی سقم یا کمی و زیادتی کی ذمہ داری ہم پر نہیں ہوگی۔)))) تفصیلی رپورٹ:: {{{محترم خالد بشیر رحمہ اللہ کی شہادت ؛ بھارتی اور پاکستانی دہشتگردوں کا مشترکہ خفی آپریشن}}} جب بھارت مقبوضہ جموں کو کشمیر کے علاقے پونچھ سیکٹرمیں اپنے 5 فوجیوں کی ہلاکت کا الزام پاکستانی باڈر فورسز پر لگارہاتھا تو دوسری جانب ، جماعت الدعوۃ پاکستان کے سربراہ جناب حافظ محمد سعید حفظہ اللہ کے قتل کی خفیہ منصوبہ بندی کرنے والے بھارتی بدنام زمانہ خفیہ ایجنسی" را " کے ایک نیٹ ورک کو کوپاکستان کے سیکیورٹی وخفیہ اداروں نےلاہور میں ننگا کردیا۔ اس منصوبہ کا انکشاف تب ہوا جب جماعۃ الدعوۃ کے قائد اور امیر جماعۃالدعوۃ کے سیکیورٹی چیف محترم خالد بشیر رحمہ اللہ کی المناک شہادت تفشیش کی جارہی تھی۔ نئی دہلی کافی عرصے سے جماعۃ الدعوۃ کے امیر حافظ محمد سعید کی بھارت میں دہشتگردانہ کاروائیوں کا ذمہ دا ہونے کا الزام لگاتا آرہا تھا۔

حافظ سعید صاحب اس کے علاوہ ممبئی میں 2008 میں ہونے والے خونخوار حملے میں بھی مورد الزام ٹھہرائے گئے اور اسی کاروائی کے نتیجے میں ہی امریکی حکومت نے بھارت کو خوش کرنے کے لئے انکے سر پر 10 ملین ڈالر کا انعام رکھا تھا۔ علاوہ ازیں ،پاکستانی اعلی عہدیدار کہتے ہیں کہ حافظ محمد سعید صاحب پاکستان میں انتہاءپسندی کے خاتمے اور سابقہ انتہاءپسند لوگوں کی اصلاح اور ان کو صحیح جہاد کی جانب گامزن کرنے میں مدد کر رہے ہیں۔ اور اس کام کی وجہ سے (انکو پاکستانی دہشت گردوں کی جانب سے کافی پہلے سے قاتلانہ حملوں اور خودکش بم دھماکوں کی دھمکیاں موصول ہو رہی تھی)ان کو باقاعدہ سیکیورٹی بھی فراہم کی گئی ہے، کیونکہ پاکستان میں لڑنے والے جنگجو ان کو حکومت سے تعاون کی وجہ سے نشانہ بنا سکتے ہیں۔ منصوبہ قتل:۔ پاکستان ٹوڈے کو تحقیقاتی اداروں نے اپنی ایک رپورٹ کے بارے میں بتایا کہ حافظ محمد سعید اور ان کے دیگر قریبی رفقاء و قائدین جماعت کے قتل کے منصوبہ جات دبئی میں "را" نے ترتیب دیئے تھے اور اس کی ذمہ داری ایک ایجنٹ "ونود" کے ہاتھ میں دی گئ ۔ تحقیقاتی اداروں کے مطابق اس مقصد کی تکمیل کے لئے "را" نے دو مقامی جنگجووں کو ایک نامعلوم مقامی ہینڈلر کے ذریعے اس کام کے لئےچنا تھا۔

بیالیس سالہ خالد بشیر جو کہ 7 بچوں کا باپ تھا، 15 مئی 2013 کی رات کو لاہور سے ظفر قیوم اور بلال احمد چیمہ نامی دو نوجوانوں نے اغواء کیا ۔ ان دونوں نوجوانوں کو بھارتی خفیہ ایجنسی "را" نے افغانستان میں جہاد کی غرض سے آنے کے بعد اپنے رابطے میں لیا تھا۔ خالد بشیر شہید رحمہ اللہ کا جسد خاکی بعد میں 17 مئی کو شیخوپورہ کے قریب ، اپر چناب نہر سے ملا تھا۔اور لاش پر شدید تشدد اورمتعدد گولیوں کے نشانات تھے۔ تحقیقاتی اداروں نے ان دونوں قاتلوں سے تفشیش کے دوران حاصل ہونے والے معلومات کا تذکرہ کرتے ہوئےبتایا کہ ظفر قیوم اور بلال احمد چیمہ نامی قاتلوں کو "را" کے ایک پاکستانی ہینڈلر نے یہ ٹاسک دیا تھا اور ان کو بتایا تھا کہ "خالد بشیر اوپر اوپر سے جماعت کے ساتھ ہے جبکہ اندر کھاتے یہ بھارتی ایجنٹ ہے جو جماعت کے خلاف خفیہ طور پر کام کر رہا ہے"۔ خالد بشیر رحمہ اللہ 25 سال سے جماعت الدعوۃ سے منسلک تھے اور حافظ محمد سعید کے بہت ہی قریبی ساتھیوں میں سے تھے۔

ان کی شہادت کی سنسی خیز اور لرزہ خیر واردات نے حافط محمد سعید اور جماعت کے دیگر قائدین اور کارکنان کو شدید صدمے میں مبتلا کردیا تھا کیونکہ اس اکیلے انسان نے امیر جماعت حافظ محمد سعید صاحب پر قاتلانہ اور خودکش حملوں کے بہت سے منصوبہ جات کو ناکام بنانے میں اہم کردار ادا کیا تھا اور ان کی نقل و حرکت کے نگران بھی تھے۔ خالد بشیر رحمہ اللہ کے خاندان والوں نے پولیس کو بتایا تھا کہ مرحوم کو 14 مئی کی رات ایک فون کال آئی اور کال کرنے والے نے خالد بشیر رحمہ اللہ کو اگلے دن شام رات کھانے اورمیٹنگ کی دعوت دی تھی۔اور جب اگلے دن یعنی 15 مئی کو خالد بشیر رحمہ اللہ اس میٹنگ کے بعد گھر نہیں لوٹےتو ہم نے جماعت کی قیادت کو فوری رابطہ میں لیا۔

اسی دوران ہمیں ایک نامعلوم کی شخص کی کال آئی کے خالد بشیر رحمہ اللہ کو اغواء کر لیا گیا ہے۔ اس کے بعد ہربنس پورہ تھانہ لاہور میں 346/2013 ایف آئی آر سیکشن 365 کے تحت درج کی گئ مگر بعد جب خالد بیشیر رحمہ اللہ کی جسد خاکی نہر سے مل گئی تو اس ایف آئی آر کو سیکشن 302 میں تبدیل کر دیا گیا۔ منصوبے کی حقیقی وسعت:۔ اس واقعہ کی حساسیت کو دیکھتے ہوئے تحقیقاتی اداروں نے اس کی تفشیش کو وسعت دیتے ہوئے مرحوم کا فون کال ڈیٹا حاصل کیا گیا تو معلوم ہوا کہ انہیں ایک سم کارڈ سے کال آئی تھی جو کہ مبینہ طور پر "را" کے پاکستانی ہینڈلر نے کی تھی۔ اور جب اس مشتبہ سم کارڈ کا مزید ریکارڈ نکلوایا گیا تو اس کی مدد سے ان دو قاتلوں ، ظفر قیوم اور بلال احمد چیمہ کو گرفتار کیا گیا ۔ تحقیقاتی اداروں کے مطابق جب ان دو افراد پر نظر رکھی گئی اور ان کی کالز کے دیٹا کی خفیہ نگرانی جاری رکھی تو معلوم کہ دونوں قاتل اپنے پاکستانی ہیڈلر کے ساتھ مسلسل رابطے میں تھےاور یہ رابطہ ان کی شہادت کے بعد باکثرت دیکھنے میں آیا تھا۔ اور مزید یہ انکشاف بھی سامنے آیا کہ یہ دونوں نوجوان گوجرانوالہ کے رہائشی تھے جنہیں ان کا پاکستانی ہینڈلر اس کام کے لئے لاہور لے کر آیا تھا۔

ان دونوں قاتلوں ، ظفر قیوم اور بلال احمد چیمہ سے تفشیش کے دوران یہ انکشاف سامنے آیا کہ ان کے ہینڈلر نے ان کے ساتھ جعلی نام استعمال کیا تھا اور اس نے ان کو 15 مئی لاہور میں جناح اسپتال کے قریب اتارا تھا، جہاں منصوبہ کے مطابق خالد بشیر رحمہ اللہ کے ساتھ میٹنگ طے تھی۔ گرفتار شدہ قاتلوں نے مزید تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ انکے پاکستانی ہینڈلر نے خالد بشیر رحمہ اللہ کو جھانسہ دیا کہ آپکو جناح اسپتال کے قریب دو جہادی نوجوانوں سے ملوانا ہے۔پھر جناح اسپتال پہنچنےکے بعد ان یہ دونوں نوجوان بھی اس کار میں بیٹھ گئے۔ پھر ہینڈلر نے خالد بشیر رحمہ اللہ کو نشہ آور مشروب پلایا تو اس کے چند گھونٹ پیتے ہی خالد بشیر رحمہ اللہ بے ہوش ہوگئے۔پھر قیوم نامی قاتل نے خالد بشیر رحمہ اللہ کو پسٹل سے ایک فائر مار کر زخمی کر دیا اور انکو لے کر شیخوپورہ کی جانب روانہ ہوگئے۔ قاتلوں کے مطابق انکو قطعا یہ معلوم نہیں تھا کہ جس شخص کو اغواء کر کے قتل کرنے کے لئے لیجارہے ہیں یہ کون ہیں اور اس کا جماعت میں کیا مقام ہے۔انکو اس بارے پہلی بار خالد بشیر رحمہ اللہ کی اخبار میں شہادت کی خبر پڑھ کر معلوم ہوا کہ انکا مقتول کون تھا۔

اس کے بعد ان دونوں قاتلوں کو تھانہ ہربنس پورہ کے انچارج کے حوالہ کردیا گیا تاکہ ان سے مزید تفشیش کی جاسکے۔اس وقت قیوم اور چیمہ کو سیکیورٹی کی وجہ سے جیل منتقل کر دیا گیا ہے تاکہ ان سے مزید نشاندہی کروائی جاسکے۔ تھانے کے انسپکٹر مزید معلومات دینے سے انکار کردیا تھا۔ اصل ہدف؟:۔ تحقیقاتی اداروں کے مطابق تفصیلی تفشیش کے بعد اس بات کا انکشاف ہوا کہ خالد بشیر رحمہ اللہ کی شہادت کے لئےبھارتی خفیہ ایجنسی نے 5 سے 6 ملین روپے خرچ کئے تھےاور یہ محض اس ایجنسی کے لئے ایک تجرباتی مشن تھا،جبکہ اصل ہدف حافظ محمد سعید حفظہ اللہ تھے۔مگر اللہ نے ان کے خفیہ عزائم کو سب پر واضح کر دیا۔ ان دونوں قاتلوں نے بتایا کہ انکا ہینڈلر خالد بشیر رحمہ اللہ کی شہادت کے بعد وہاں سے اچانک غائب ہوگیاا ور اسکے بارے یہی خیال کیا جارہا ہے کہ وہ اس آپریشن کی تکمیل کے بعد دبئی فرار ہوچکا ہے۔
حوالہ
اللہ عالی خالد بھاءی کو جنت میں جگا دے آمین
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاۃ 17 مئی 2013 کو جماعۃ الدعوۃ کے شہید قائد اور امیر جماعت حافظ محمد سعید حفظہ اللہ کے سیکیورٹی چیف محترم خالد بشیر رحمہ اللہ کی شہادت کی لرزہ خیز واردات رونما ہوئی۔ جس سے ساری جماعت سکتہ میں آگئی۔ پھر وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ اس واردات سے جب پردہ اٹھا تو وہ اس واردات سے کہیں زیادہ حیران کن حقائق سامنے آئے۔

اس واردات میں "را" کے بھارتی اور پاکستانی ایجنٹوں نے کس طرح محب اسلام اور محب وطن و ملت قائد کو نشانہ ، اس کا انکشاف ان کے دو قاتلوں کی گرفتاری کے بعد سامنا آیا۔ اس واردات میں بھارتی افراد کے علاوہ "را" نے جماعت کے اندر نقب لگا کر ایک ضمیر و ایمان فروش مقامی ہینڈلر پیدا کیا گیا جس نے، دو دہشتگردوں کو ، جنہیں افغانستان میں "را" نے اس مشن کی تربیت دی تھی، کیساتھ مل کر اس کاروائی کو انجام تک پہنچایا۔۔۔ ((((ہم آپ کے سامنے ایک پاکستانی اخبار "پاکستان ٹوڈے " کے توسط سے منظر عام پر آنے والی رپورٹ کا ترجمہ پیش کر رہے ہیں جس میں کسی قسم کے اضافے سے اجتناب کرتے ہوئے ، اس کو اسکے ماخذ کے قریب ترین رکھا گیا ہے۔

اور اس رپورٹ میں جو تھا اسے من و عن پیش کیا جارہا ہے، لہذا اس رپورٹ میں کسی سقم یا کمی و زیادتی کی ذمہ داری ہم پر نہیں ہوگی۔)))) تفصیلی رپورٹ:: {{{محترم خالد بشیر رحمہ اللہ کی شہادت ؛ بھارتی اور پاکستانی دہشتگردوں کا مشترکہ خفی آپریشن}}} جب بھارت مقبوضہ جموں کو کشمیر کے علاقے پونچھ سیکٹرمیں اپنے 5 فوجیوں کی ہلاکت کا الزام پاکستانی باڈر فورسز پر لگارہاتھا تو دوسری جانب ، جماعت الدعوۃ پاکستان کے سربراہ جناب حافظ محمد سعید حفظہ اللہ کے قتل کی خفیہ منصوبہ بندی کرنے والے بھارتی بدنام زمانہ خفیہ ایجنسی" را " کے ایک نیٹ ورک کو کوپاکستان کے سیکیورٹی وخفیہ اداروں نےلاہور میں ننگا کردیا۔ اس منصوبہ کا انکشاف تب ہوا جب جماعۃ الدعوۃ کے قائد اور امیر جماعۃالدعوۃ کے سیکیورٹی چیف محترم خالد بشیر رحمہ اللہ کی المناک شہادت تفشیش کی جارہی تھی۔ نئی دہلی کافی عرصے سے جماعۃ الدعوۃ کے امیر حافظ محمد سعید کی بھارت میں دہشتگردانہ کاروائیوں کا ذمہ دا ہونے کا الزام لگاتا آرہا تھا۔

حافظ سعید صاحب اس کے علاوہ ممبئی میں 2008 میں ہونے والے خونخوار حملے میں بھی مورد الزام ٹھہرائے گئے اور اسی کاروائی کے نتیجے میں ہی امریکی حکومت نے بھارت کو خوش کرنے کے لئے انکے سر پر 10 ملین ڈالر کا انعام رکھا تھا۔ علاوہ ازیں ،پاکستانی اعلی عہدیدار کہتے ہیں کہ حافظ محمد سعید صاحب پاکستان میں انتہاءپسندی کے خاتمے اور سابقہ انتہاءپسند لوگوں کی اصلاح اور ان کو صحیح جہاد کی جانب گامزن کرنے میں مدد کر رہے ہیں۔ اور اس کام کی وجہ سے (انکو پاکستانی دہشت گردوں کی جانب سے کافی پہلے سے قاتلانہ حملوں اور خودکش بم دھماکوں کی دھمکیاں موصول ہو رہی تھی)ان کو باقاعدہ سیکیورٹی بھی فراہم کی گئی ہے، کیونکہ پاکستان میں لڑنے والے جنگجو ان کو حکومت سے تعاون کی وجہ سے نشانہ بنا سکتے ہیں۔ منصوبہ قتل:۔ پاکستان ٹوڈے کو تحقیقاتی اداروں نے اپنی ایک رپورٹ کے بارے میں بتایا کہ حافظ محمد سعید اور ان کے دیگر قریبی رفقاء و قائدین جماعت کے قتل کے منصوبہ جات دبئی میں "را" نے ترتیب دیئے تھے اور اس کی ذمہ داری ایک ایجنٹ "ونود" کے ہاتھ میں دی گئ ۔ تحقیقاتی اداروں کے مطابق اس مقصد کی تکمیل کے لئے "را" نے دو مقامی جنگجووں کو ایک نامعلوم مقامی ہینڈلر کے ذریعے اس کام کے لئےچنا تھا۔

بیالیس سالہ خالد بشیر جو کہ 7 بچوں کا باپ تھا، 15 مئی 2013 کی رات کو لاہور سے ظفر قیوم اور بلال احمد چیمہ نامی دو نوجوانوں نے اغواء کیا ۔ ان دونوں نوجوانوں کو بھارتی خفیہ ایجنسی "را" نے افغانستان میں جہاد کی غرض سے آنے کے بعد اپنے رابطے میں لیا تھا۔ خالد بشیر شہید رحمہ اللہ کا جسد خاکی بعد میں 17 مئی کو شیخوپورہ کے قریب ، اپر چناب نہر سے ملا تھا۔اور لاش پر شدید تشدد اورمتعدد گولیوں کے نشانات تھے۔ تحقیقاتی اداروں نے ان دونوں قاتلوں سے تفشیش کے دوران حاصل ہونے والے معلومات کا تذکرہ کرتے ہوئےبتایا کہ ظفر قیوم اور بلال احمد چیمہ نامی قاتلوں کو "را" کے ایک پاکستانی ہینڈلر نے یہ ٹاسک دیا تھا اور ان کو بتایا تھا کہ "خالد بشیر اوپر اوپر سے جماعت کے ساتھ ہے جبکہ اندر کھاتے یہ بھارتی ایجنٹ ہے جو جماعت کے خلاف خفیہ طور پر کام کر رہا ہے"۔ خالد بشیر رحمہ اللہ 25 سال سے جماعت الدعوۃ سے منسلک تھے اور حافظ محمد سعید کے بہت ہی قریبی ساتھیوں میں سے تھے۔

ان کی شہادت کی سنسی خیز اور لرزہ خیر واردات نے حافط محمد سعید اور جماعت کے دیگر قائدین اور کارکنان کو شدید صدمے میں مبتلا کردیا تھا کیونکہ اس اکیلے انسان نے امیر جماعت حافظ محمد سعید صاحب پر قاتلانہ اور خودکش حملوں کے بہت سے منصوبہ جات کو ناکام بنانے میں اہم کردار ادا کیا تھا اور ان کی نقل و حرکت کے نگران بھی تھے۔ خالد بشیر رحمہ اللہ کے خاندان والوں نے پولیس کو بتایا تھا کہ مرحوم کو 14 مئی کی رات ایک فون کال آئی اور کال کرنے والے نے خالد بشیر رحمہ اللہ کو اگلے دن شام رات کھانے اورمیٹنگ کی دعوت دی تھی۔اور جب اگلے دن یعنی 15 مئی کو خالد بشیر رحمہ اللہ اس میٹنگ کے بعد گھر نہیں لوٹےتو ہم نے جماعت کی قیادت کو فوری رابطہ میں لیا۔

اسی دوران ہمیں ایک نامعلوم کی شخص کی کال آئی کے خالد بشیر رحمہ اللہ کو اغواء کر لیا گیا ہے۔ اس کے بعد ہربنس پورہ تھانہ لاہور میں 346/2013 ایف آئی آر سیکشن 365 کے تحت درج کی گئ مگر بعد جب خالد بیشیر رحمہ اللہ کی جسد خاکی نہر سے مل گئی تو اس ایف آئی آر کو سیکشن 302 میں تبدیل کر دیا گیا۔ منصوبے کی حقیقی وسعت:۔ اس واقعہ کی حساسیت کو دیکھتے ہوئے تحقیقاتی اداروں نے اس کی تفشیش کو وسعت دیتے ہوئے مرحوم کا فون کال ڈیٹا حاصل کیا گیا تو معلوم ہوا کہ انہیں ایک سم کارڈ سے کال آئی تھی جو کہ مبینہ طور پر "را" کے پاکستانی ہینڈلر نے کی تھی۔ اور جب اس مشتبہ سم کارڈ کا مزید ریکارڈ نکلوایا گیا تو اس کی مدد سے ان دو قاتلوں ، ظفر قیوم اور بلال احمد چیمہ کو گرفتار کیا گیا ۔ تحقیقاتی اداروں کے مطابق جب ان دو افراد پر نظر رکھی گئی اور ان کی کالز کے دیٹا کی خفیہ نگرانی جاری رکھی تو معلوم کہ دونوں قاتل اپنے پاکستانی ہیڈلر کے ساتھ مسلسل رابطے میں تھےاور یہ رابطہ ان کی شہادت کے بعد باکثرت دیکھنے میں آیا تھا۔ اور مزید یہ انکشاف بھی سامنے آیا کہ یہ دونوں نوجوان گوجرانوالہ کے رہائشی تھے جنہیں ان کا پاکستانی ہینڈلر اس کام کے لئے لاہور لے کر آیا تھا۔

ان دونوں قاتلوں ، ظفر قیوم اور بلال احمد چیمہ سے تفشیش کے دوران یہ انکشاف سامنے آیا کہ ان کے ہینڈلر نے ان کے ساتھ جعلی نام استعمال کیا تھا اور اس نے ان کو 15 مئی لاہور میں جناح اسپتال کے قریب اتارا تھا، جہاں منصوبہ کے مطابق خالد بشیر رحمہ اللہ کے ساتھ میٹنگ طے تھی۔ گرفتار شدہ قاتلوں نے مزید تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ انکے پاکستانی ہینڈلر نے خالد بشیر رحمہ اللہ کو جھانسہ دیا کہ آپکو جناح اسپتال کے قریب دو جہادی نوجوانوں سے ملوانا ہے۔پھر جناح اسپتال پہنچنےکے بعد ان یہ دونوں نوجوان بھی اس کار میں بیٹھ گئے۔ پھر ہینڈلر نے خالد بشیر رحمہ اللہ کو نشہ آور مشروب پلایا تو اس کے چند گھونٹ پیتے ہی خالد بشیر رحمہ اللہ بے ہوش ہوگئے۔پھر قیوم نامی قاتل نے خالد بشیر رحمہ اللہ کو پسٹل سے ایک فائر مار کر زخمی کر دیا اور انکو لے کر شیخوپورہ کی جانب روانہ ہوگئے۔ قاتلوں کے مطابق انکو قطعا یہ معلوم نہیں تھا کہ جس شخص کو اغواء کر کے قتل کرنے کے لئے لیجارہے ہیں یہ کون ہیں اور اس کا جماعت میں کیا مقام ہے۔انکو اس بارے پہلی بار خالد بشیر رحمہ اللہ کی اخبار میں شہادت کی خبر پڑھ کر معلوم ہوا کہ انکا مقتول کون تھا۔

اس کے بعد ان دونوں قاتلوں کو تھانہ ہربنس پورہ کے انچارج کے حوالہ کردیا گیا تاکہ ان سے مزید تفشیش کی جاسکے۔اس وقت قیوم اور چیمہ کو سیکیورٹی کی وجہ سے جیل منتقل کر دیا گیا ہے تاکہ ان سے مزید نشاندہی کروائی جاسکے۔ تھانے کے انسپکٹر مزید معلومات دینے سے انکار کردیا تھا۔ اصل ہدف؟:۔ تحقیقاتی اداروں کے مطابق تفصیلی تفشیش کے بعد اس بات کا انکشاف ہوا کہ خالد بشیر رحمہ اللہ کی شہادت کے لئےبھارتی خفیہ ایجنسی نے 5 سے 6 ملین روپے خرچ کئے تھےاور یہ محض اس ایجنسی کے لئے ایک تجرباتی مشن تھا،جبکہ اصل ہدف حافظ محمد سعید حفظہ اللہ تھے۔مگر اللہ نے ان کے خفیہ عزائم کو سب پر واضح کر دیا۔ ان دونوں قاتلوں نے بتایا کہ انکا ہینڈلر خالد بشیر رحمہ اللہ کی شہادت کے بعد وہاں سے اچانک غائب ہوگیاا ور اسکے بارے یہی خیال کیا جارہا ہے کہ وہ اس آپریشن کی تکمیل کے بعد دبئی فرار ہوچکا ہے۔
حوالہ
جو تشدد ان پر کیا گیا ہے وہ یقینا کسی ایجنسی کا تشدد ہے ، اگر کسی نے ان کو مارنا ہوتا تو ان کے جسم سوراخ کیوں کیے گءے ہیں؟ جناب
 
Top