السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاۃ 17 مئی 2013 کو جماعۃ الدعوۃ کے شہید قائد اور امیر جماعت حافظ محمد سعید حفظہ اللہ کے سیکیورٹی چیف محترم خالد بشیر رحمہ اللہ کی شہادت کی لرزہ خیز واردات رونما ہوئی۔ جس سے ساری جماعت سکتہ میں آگئی۔ پھر وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ اس واردات سے جب پردہ اٹھا تو وہ اس واردات سے کہیں زیادہ حیران کن حقائق سامنے آئے۔
اس واردات میں "را" کے بھارتی اور پاکستانی ایجنٹوں نے کس طرح محب اسلام اور محب وطن و ملت قائد کو نشانہ ، اس کا انکشاف ان کے دو قاتلوں کی گرفتاری کے بعد سامنا آیا۔ اس واردات میں بھارتی افراد کے علاوہ "را" نے جماعت کے اندر نقب لگا کر ایک ضمیر و ایمان فروش مقامی ہینڈلر پیدا کیا گیا جس نے، دو دہشتگردوں کو ، جنہیں افغانستان میں "را" نے اس مشن کی تربیت دی تھی، کیساتھ مل کر اس کاروائی کو انجام تک پہنچایا۔۔۔ ((((ہم آپ کے سامنے ایک پاکستانی اخبار "پاکستان ٹوڈے " کے توسط سے منظر عام پر آنے والی رپورٹ کا ترجمہ پیش کر رہے ہیں جس میں کسی قسم کے اضافے سے اجتناب کرتے ہوئے ، اس کو اسکے ماخذ کے قریب ترین رکھا گیا ہے۔
اور اس رپورٹ میں جو تھا اسے من و عن پیش کیا جارہا ہے، لہذا اس رپورٹ میں کسی سقم یا کمی و زیادتی کی ذمہ داری ہم پر نہیں ہوگی۔)))) تفصیلی رپورٹ:: {{{محترم خالد بشیر رحمہ اللہ کی شہادت ؛ بھارتی اور پاکستانی دہشتگردوں کا مشترکہ خفی آپریشن}}} جب بھارت مقبوضہ جموں کو کشمیر کے علاقے پونچھ سیکٹرمیں اپنے 5 فوجیوں کی ہلاکت کا الزام پاکستانی باڈر فورسز پر لگارہاتھا تو دوسری جانب ، جماعت الدعوۃ پاکستان کے سربراہ جناب حافظ محمد سعید حفظہ اللہ کے قتل کی خفیہ منصوبہ بندی کرنے والے بھارتی بدنام زمانہ خفیہ ایجنسی" را " کے ایک نیٹ ورک کو کوپاکستان کے سیکیورٹی وخفیہ اداروں نےلاہور میں ننگا کردیا۔ اس منصوبہ کا انکشاف تب ہوا جب جماعۃ الدعوۃ کے قائد اور امیر جماعۃالدعوۃ کے سیکیورٹی چیف محترم خالد بشیر رحمہ اللہ کی المناک شہادت تفشیش کی جارہی تھی۔ نئی دہلی کافی عرصے سے جماعۃ الدعوۃ کے امیر حافظ محمد سعید کی بھارت میں دہشتگردانہ کاروائیوں کا ذمہ دا ہونے کا الزام لگاتا آرہا تھا۔
حافظ سعید صاحب اس کے علاوہ ممبئی میں 2008 میں ہونے والے خونخوار حملے میں بھی مورد الزام ٹھہرائے گئے اور اسی کاروائی کے نتیجے میں ہی امریکی حکومت نے بھارت کو خوش کرنے کے لئے انکے سر پر 10 ملین ڈالر کا انعام رکھا تھا۔ علاوہ ازیں ،پاکستانی اعلی عہدیدار کہتے ہیں کہ حافظ محمد سعید صاحب پاکستان میں انتہاءپسندی کے خاتمے اور سابقہ انتہاءپسند لوگوں کی اصلاح اور ان کو صحیح جہاد کی جانب گامزن کرنے میں مدد کر رہے ہیں۔ اور اس کام کی وجہ سے (انکو پاکستانی دہشت گردوں کی جانب سے کافی پہلے سے قاتلانہ حملوں اور خودکش بم دھماکوں کی دھمکیاں موصول ہو رہی تھی)ان کو باقاعدہ سیکیورٹی بھی فراہم کی گئی ہے، کیونکہ پاکستان میں لڑنے والے جنگجو ان کو حکومت سے تعاون کی وجہ سے نشانہ بنا سکتے ہیں۔ منصوبہ قتل:۔ پاکستان ٹوڈے کو تحقیقاتی اداروں نے اپنی ایک رپورٹ کے بارے میں بتایا کہ حافظ محمد سعید اور ان کے دیگر قریبی رفقاء و قائدین جماعت کے قتل کے منصوبہ جات دبئی میں "را" نے ترتیب دیئے تھے اور اس کی ذمہ داری ایک ایجنٹ "ونود" کے ہاتھ میں دی گئ ۔ تحقیقاتی اداروں کے مطابق اس مقصد کی تکمیل کے لئے "را" نے دو مقامی جنگجووں کو ایک نامعلوم مقامی ہینڈلر کے ذریعے اس کام کے لئےچنا تھا۔
بیالیس سالہ خالد بشیر جو کہ 7 بچوں کا باپ تھا، 15 مئی 2013 کی رات کو لاہور سے ظفر قیوم اور بلال احمد چیمہ نامی دو نوجوانوں نے اغواء کیا ۔ ان دونوں نوجوانوں کو بھارتی خفیہ ایجنسی "را" نے افغانستان میں جہاد کی غرض سے آنے کے بعد اپنے رابطے میں لیا تھا۔ خالد بشیر شہید رحمہ اللہ کا جسد خاکی بعد میں 17 مئی کو شیخوپورہ کے قریب ، اپر چناب نہر سے ملا تھا۔اور لاش پر شدید تشدد اورمتعدد گولیوں کے نشانات تھے۔ تحقیقاتی اداروں نے ان دونوں قاتلوں سے تفشیش کے دوران حاصل ہونے والے معلومات کا تذکرہ کرتے ہوئےبتایا کہ ظفر قیوم اور بلال احمد چیمہ نامی قاتلوں کو "را" کے ایک پاکستانی ہینڈلر نے یہ ٹاسک دیا تھا اور ان کو بتایا تھا کہ "خالد بشیر اوپر اوپر سے جماعت کے ساتھ ہے جبکہ اندر کھاتے یہ بھارتی ایجنٹ ہے جو جماعت کے خلاف خفیہ طور پر کام کر رہا ہے"۔ خالد بشیر رحمہ اللہ 25 سال سے جماعت الدعوۃ سے منسلک تھے اور حافظ محمد سعید کے بہت ہی قریبی ساتھیوں میں سے تھے۔
ان کی شہادت کی سنسی خیز اور لرزہ خیر واردات نے حافط محمد سعید اور جماعت کے دیگر قائدین اور کارکنان کو شدید صدمے میں مبتلا کردیا تھا کیونکہ اس اکیلے انسان نے امیر جماعت حافظ محمد سعید صاحب پر قاتلانہ اور خودکش حملوں کے بہت سے منصوبہ جات کو ناکام بنانے میں اہم کردار ادا کیا تھا اور ان کی نقل و حرکت کے نگران بھی تھے۔ خالد بشیر رحمہ اللہ کے خاندان والوں نے پولیس کو بتایا تھا کہ مرحوم کو 14 مئی کی رات ایک فون کال آئی اور کال کرنے والے نے خالد بشیر رحمہ اللہ کو اگلے دن شام رات کھانے اورمیٹنگ کی دعوت دی تھی۔اور جب اگلے دن یعنی 15 مئی کو خالد بشیر رحمہ اللہ اس میٹنگ کے بعد گھر نہیں لوٹےتو ہم نے جماعت کی قیادت کو فوری رابطہ میں لیا۔
اسی دوران ہمیں ایک نامعلوم کی شخص کی کال آئی کے خالد بشیر رحمہ اللہ کو اغواء کر لیا گیا ہے۔ اس کے بعد ہربنس پورہ تھانہ لاہور میں 346/2013 ایف آئی آر سیکشن 365 کے تحت درج کی گئ مگر بعد جب خالد بیشیر رحمہ اللہ کی جسد خاکی نہر سے مل گئی تو اس ایف آئی آر کو سیکشن 302 میں تبدیل کر دیا گیا۔ منصوبے کی حقیقی وسعت:۔ اس واقعہ کی حساسیت کو دیکھتے ہوئے تحقیقاتی اداروں نے اس کی تفشیش کو وسعت دیتے ہوئے مرحوم کا فون کال ڈیٹا حاصل کیا گیا تو معلوم ہوا کہ انہیں ایک سم کارڈ سے کال آئی تھی جو کہ مبینہ طور پر "را" کے پاکستانی ہینڈلر نے کی تھی۔ اور جب اس مشتبہ سم کارڈ کا مزید ریکارڈ نکلوایا گیا تو اس کی مدد سے ان دو قاتلوں ، ظفر قیوم اور بلال احمد چیمہ کو گرفتار کیا گیا ۔ تحقیقاتی اداروں کے مطابق جب ان دو افراد پر نظر رکھی گئی اور ان کی کالز کے دیٹا کی خفیہ نگرانی جاری رکھی تو معلوم کہ دونوں قاتل اپنے پاکستانی ہیڈلر کے ساتھ مسلسل رابطے میں تھےاور یہ رابطہ ان کی شہادت کے بعد باکثرت دیکھنے میں آیا تھا۔ اور مزید یہ انکشاف بھی سامنے آیا کہ یہ دونوں نوجوان گوجرانوالہ کے رہائشی تھے جنہیں ان کا پاکستانی ہینڈلر اس کام کے لئے لاہور لے کر آیا تھا۔
ان دونوں قاتلوں ، ظفر قیوم اور بلال احمد چیمہ سے تفشیش کے دوران یہ انکشاف سامنے آیا کہ ان کے ہینڈلر نے ان کے ساتھ جعلی نام استعمال کیا تھا اور اس نے ان کو 15 مئی لاہور میں جناح اسپتال کے قریب اتارا تھا، جہاں منصوبہ کے مطابق خالد بشیر رحمہ اللہ کے ساتھ میٹنگ طے تھی۔ گرفتار شدہ قاتلوں نے مزید تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ انکے پاکستانی ہینڈلر نے خالد بشیر رحمہ اللہ کو جھانسہ دیا کہ آپکو جناح اسپتال کے قریب دو جہادی نوجوانوں سے ملوانا ہے۔پھر جناح اسپتال پہنچنےکے بعد ان یہ دونوں نوجوان بھی اس کار میں بیٹھ گئے۔ پھر ہینڈلر نے خالد بشیر رحمہ اللہ کو نشہ آور مشروب پلایا تو اس کے چند گھونٹ پیتے ہی خالد بشیر رحمہ اللہ بے ہوش ہوگئے۔پھر قیوم نامی قاتل نے خالد بشیر رحمہ اللہ کو پسٹل سے ایک فائر مار کر زخمی کر دیا اور انکو لے کر شیخوپورہ کی جانب روانہ ہوگئے۔ قاتلوں کے مطابق انکو قطعا یہ معلوم نہیں تھا کہ جس شخص کو اغواء کر کے قتل کرنے کے لئے لیجارہے ہیں یہ کون ہیں اور اس کا جماعت میں کیا مقام ہے۔انکو اس بارے پہلی بار خالد بشیر رحمہ اللہ کی اخبار میں شہادت کی خبر پڑھ کر معلوم ہوا کہ انکا مقتول کون تھا۔
اس کے بعد ان دونوں قاتلوں کو تھانہ ہربنس پورہ کے انچارج کے حوالہ کردیا گیا تاکہ ان سے مزید تفشیش کی جاسکے۔اس وقت قیوم اور چیمہ کو سیکیورٹی کی وجہ سے جیل منتقل کر دیا گیا ہے تاکہ ان سے مزید نشاندہی کروائی جاسکے۔ تھانے کے انسپکٹر مزید معلومات دینے سے انکار کردیا تھا۔ اصل ہدف؟:۔ تحقیقاتی اداروں کے مطابق تفصیلی تفشیش کے بعد اس بات کا انکشاف ہوا کہ خالد بشیر رحمہ اللہ کی شہادت کے لئےبھارتی خفیہ ایجنسی نے 5 سے 6 ملین روپے خرچ کئے تھےاور یہ محض اس ایجنسی کے لئے ایک تجرباتی مشن تھا،جبکہ اصل ہدف حافظ محمد سعید حفظہ اللہ تھے۔مگر اللہ نے ان کے خفیہ عزائم کو سب پر واضح کر دیا۔ ان دونوں قاتلوں نے بتایا کہ انکا ہینڈلر خالد بشیر رحمہ اللہ کی شہادت کے بعد وہاں سے اچانک غائب ہوگیاا ور اسکے بارے یہی خیال کیا جارہا ہے کہ وہ اس آپریشن کی تکمیل کے بعد دبئی فرار ہوچکا ہے۔
حوالہ