شہزادے!۔
سب سے پہلی چیز جو ذہن میں رکھیں وہ یہ کہ ہم اس مقام پر نہیں آسکتے جس مقام پر رافضی شیعوں کو اُن کا بغض اور حسد لے آیا ہے۔۔۔ بڑا شوق ہے نا آپ کو اعتراض کرنے کا چلیں۔۔۔ آپ کے اعتراضات سے اچھا ہے میری بھی سستی ٹوٹ رہی ہے اور وہ معلومات سامنے آرہی ہیں جو پردے کے پیچھے چھپا کررکھی ہوئی ہیں ان شاء اللہ پڑھنے والا جس کا دل اللہ اسلام کے کھولنا چاہئے گا وہ موازنہ کر کے خود ہی حق تک پہنچ جائے گا حالانکہ مجھے ذاتی پیغامات میں کافی ہمدردوں نے سخت انداز اپنانے کامشورہ دیا ہے لیکن آپسی اختلاف بھلے شدید ہوں لیکن ایک پھر اللہ تعالٰی نے جو صبر دیا ہے میں اس پر اپنے رب وحدہ لاشریک کا بےحد ممنون ہیں۔۔۔
شروعات کرتے ہیں۔۔۔
آپ کو خلیفہ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کے طریقے پر اعتراض ہے۔۔۔ اگر آپ تاریخ کی کُتب کا مطالعہ کریں گے تو معلوم ہوگا کہ سقیفہ بنوساعدہ جو سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے مکان کا چبوترہ تھا، میں انصار نے اجتماع کیا تھا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمررضی اللہ عنہ اور ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کو جیسی ہی حالات کی سنگینی کا علم تو مجبورا انہیں وہاں جانا پڑا۔۔۔ طبری سے ملاحظہ ہو۔۔۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو (انصار کے اجتماع کی) خبر ملی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مکان پر آئے اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بلایا۔۔۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اسی مکان میں تھے اور حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کفن پیغمبر کی تیاری میں تھے پھر ابوبکررضی اللہ کی طرف قاصد بھیجا کہ میری طرف نکل کر آؤ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے قاصد کو جواب دے کر بھیجا انی مستغل میں تدفین کے بندوبست میں مشغول ہوں پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہلا بھیجا کہ ایک واقعہ پیش آچکا ہے آپ کا ہونا ضروری ہے تب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نکلے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ آپ کو پتہ نہیں کہ سقیفہ بنوساعدہ میں انصار جمع ہیں وہ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنانا چاہتے ہیں۔۔۔۔ الخ
اب یہ دونوں گئے راستے میں ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ بھی مل گئے عاصم بن عدی اور عویم بن ساعدی سامنے سے ملے تو کہنے لگے تم واپس جاؤ تمہارا مقصد پورا نہ ہوسکے گا یہ کہنے لگے ہم کچھ نہیں کریں گے جاتے ہی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اسلام کی آمدوبرکت، انصار کی فضیلت ایسے بیان کی اور الائمۃ من قریش سنایا کہ انصار آپ کی طرف متوجہ ہوگئے ایک آواز منا امیرومنکم امیر کی بھی آئی مگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ایک میان میں دو تلواریں نہیں رہ سکتیں پھر بشیر بن سعدرضی اللہ عنہ انصاری نے مہاجرین کی تائید کی تو میدان صاف ہوگیا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا عُمر اور ابوعبیدہ رضی اللہ عنھما میں سے جسے چاہو خلیفہ بنا لو تو ان دونوں نے فرمایا کہ اللہ کی قسم!۔ ہم آپ کے مقابل خلیفہ نہیں بن سکتے آپ سب مہاجرین سے افضل ہیں ثانی اثنین اذھما فی الغار ہیں نماز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ اور نماز دین اسلام کا سب سے پہلا اور افضل عمل ہے آپ سے کون بڑھ سکتا ہے یا آپ پر خلیفہ ہوسکتا ہے؟؟؟۔۔۔۔
ہاتھ برھائیے ہم بیعت کریں یہ بڑھے ہی تھے کے بشیر بن سعد رضی اللہ عنہ انصاری نے لپک کر بیعت کرلی پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کے بعد قبیلہ اوس نے اور قبیلہ خزرج سب نے بیعت کرلی پھر جوں جوں مہاجرین کو پتہ چلتا گیا سب آکر بیعت کرتے رہے صرف تکفین میں مشغول حضرات نے دوسرے دن بیعت کی۔۔۔ (انتہٰی مختصرا بلفظہ طبری صفحہ ٢١٩ تا ٢٢٢)۔۔۔
اب
بہرام انصاف سے سوچیں اس میں کیا خرابی کی بات ہوئی کس حکمت ودانش سے انصار کا پروگرام ختم ہوا پھر واقعی فضائل کی بناء پر ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت ہوئی ورنہ ان کا اپنا ارادہ یا نیت قطعی یہ نہیں تھی صرف اختلاف سے بچنے کی خاطر یہ ذمہ داری اٹھائی اگر نہ اُٹھاتے یا مہاجرین علی رضی اللہ عنہ سے مشورہ کرکے کچھ اور دیر سے آتے تو انصار بغیر مہاجرین کی رائے کا احترام کئے ہوئے خلیفہ کا تعین کرلیتے اور گو مہاجرین للہیت سے جھک بھی جاتے مگر باقی عرب اطاعت نہ کرتے اور انتشار واختلاف برقرار رہتا۔۔۔
عمر رضی اللہ عنہ نے کیوں کہا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت بلاسوچے ناگہانی طور پر واقع ہوئی تھی
تو اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ نامناسب حالات وحادثات کسی ضابطے کے تحت نہیں آتے انصار کے اجماع اور پروگرام کے پیش نظر سوچنے سمجھنے کا موقع ہی نہ تھا مگر یہ سوال تب اٹھایا جاتا کہ غیر مستحق خلیفہ بن جاتا جب فوری سوچ اور حکمت عملی سے انتخاب بھی مستحق ترین کا ہو اور ہنگامہ ونقصان مسئلہ کی نزاکت واہمیت کچھ نہ ہوا جبکہ آج ترقی یافتہ دور میں صدارت تو کیا معمولی ممبری کے انتخابات میں کتنے حادثات اور دشمنیاں پیدا ہوجاتی ہیں تو اس معاملہ کے خیر بن جانے میں کوئی شبہ نہیں پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہاں یہ بھی فرمایا ہے کہ تم میں سے ابوبکر رضی اللہ عنہ جیسا کون ہے جس کی طرف (سفر کرنے کے لئے) اونٹوں کی گردنیں کاٹی جائیں (طبقات ابن سعد جلد ٣ صفحہ ٢٨ بروایت ابن عباس رضی اللہ عنہ)۔۔۔
لغت میں فلتۃ کا معنی بغیر غور وفکر کا کام ہے۔۔۔
خرج الرجل فلتۃ سے مراد اچانک نکل گیا۔۔۔
وحدث الامر فلتۃ سے مراد اچانگ ہوگیا۔۔۔ (مصباح اللغات صفحہ ٦٤٤)۔۔۔
یہ ابتدائے واقعہ کے لحاظ سے فرمایا ہے کہ مہاجرین کا یا حضرت ابوبکر وعمر اور ابوعبیدہ رضی اللہ عنھم کا یہاں آتے وقت بھی کوئی ارادہ نہ تھا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت کریں جیسے کے راستے میں دو انصاری صاحبوں کے جواب میں کہا تھا ہم کچھ نہیں کریں گے بلکہ تاریخ تو یہ بتاتی ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس کی کبھی تمنا نہ کی نہ اللہ سے دُعا کی اقتدار وخلافت کرنے کا ان کا ذہن میں کبھی تصور بھی نہ آیا تھا موسٰی بن عقبہ کی مغازی اور مستدرک حاکم میں تصحیح شدہ روایت ملاحظہ ہو۔۔۔
حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے خطبہ دیا تو فرمایا!۔
اللہ کی قسم میں امارت کا کبھی ایک دن رات بھی امیدوار نہ تھا نہ شوقین تھا نہ خدا سے علانیہ یا پوشیدہ مانگی تھی لیکن میں نے تو فتنہ کے ڈر سے قبول کی۔۔۔۔ الخ (تاریخ الخلفاء صفحہ ٥٨)۔۔۔
ہاں جب بیعت شروع ہوگئی اور مہاجریں اور انصار سب نے کی جن دومہاجروں وانصار سب نے کی جن دو مہاجروں نے شریک مشورہ نہ ہونے کے رنج میں وقت تاخیر کی دو ایک دن بعد انہوں نے کرلی پھر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بیعت واپس بھی کی مگر کسی نے قبول نہ کی ملاحظہ ہو کنزالعمال جلد ٣ صفحہ ١٤٠ پر روایت ہے۔۔۔
اے لوگو! میں تمہاری بیعت واپس کرتا ہوں تم جس کی چاہو بیعت کر لو ہر دفعہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کھرے ہوجاتے اور فرماتے اللہ کی قسم تیری بیعت واپس نہ لیں گے نہ خلافت سے معزولی چاہیں گے کون ہے جو آپ کو پیچھے کرے جب کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تجھے آگے کیا ہے (ریاض النضرۃ جلد ١ صفحہ ٢٢٩ پر مستقل یہ باب ہے پھر پانچ حدیثیں بالامضمون کی ذکر کی ہیں۔۔۔
ان حقائق اور تمام صحابہ کرام کے اتفاق کی روشنی میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ خلافت کے شرعی اور آئینی ہونے میں کسی عقلمند اور مومن باللہ والرسول کو شک وشبہ نہیں ہوسکتا ہے۔۔۔
شہزادے آپ کو مشورہ ہے کہ اس قہہ کو بار بار نا چاٹو آپ کو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا احسان مند ہونا چاہئے کہ خلافت انصار سے لے کر مہاجرین کو پھر حضرت علی کو پہنچائی اگر یہ حضرات بروقت مداخلت نہ کرتے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ وحضرت حسن رضی اللہ عنہ کو خلافت کبھی نہ ملتی اب کیا ہوا اگر انہوں نے قوم کی رضا سے اس دیگ سے اپنا مقدر حصہ اولا کھا لیا اور پھر سب دیگ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے گھر آئی اور وہیں ختم ہوئی۔۔۔
ذرا غور فرمائیے!۔۔۔ اگر مسئلہ امامت شیعہ کے ہاں اتنا اہم ہے کہ کلمہ کا جزو ہے منکر کافر اور بیدار مغزی سے کام لینا چاہئے تھا بعد از وفات اس کا اعلان کرتے لوگوں سے بیعت لیتے جیسے حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تدفین سے پہلے یہ سب کام کرلیئے تھے (جلاالعیون)۔۔۔ آخر تکفین پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم میں رُکاوٹ تو نہ تھی جب ایسا نہ کیا اور انصار کو اپنے اجتماع وانتخاب کا موق مل گیا تو قاصد کو آپ کے پاس آنا چاہئے تھا مگر وہ تو سب سے افضل اور ہردلعزیز حضرت صدیق اکبر وعمررضی اللہ عنھما کے پاس آیا تھا جو اس بات کا بین ثبوت ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم تعلیم نبوی اور پیغمبرانہ برتاؤ کی وجہ سے حضرت ابوبکر وعمر رضی اللہ عنھما کو ہی افضل، مستحق خلافت او مشکل قضیئے نمٹانے والا جانتے تھے پھر جب صورت حال کاجائزہ لینے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ حضور کے مکان سے ہی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس سے چلے جیسے طبری جلد ٣ صفحہ ٢١٩ کی صراحت گذر چکی تو حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی ساتھ ہوجاتے یا اپنا نمائندہ بھیجدیتے یا اتنا ہی کہلا بھیجتے ذرا صبر کرو میں بھی آرہا ہوں یہ سب مواقع کھو دیئے اور انصار ابوبکر رضی اللہ عنہ پر ہی متفق ہوگئے تو اگلے دن جب حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ بیعت واپس کرنا چاہتے تھے تو اقالہ منظور کر لیتے اور خود بیعت کرلیتے مگر سب تاریخیں متفق ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی معذرت اور اچانک صورتحال کو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے قبول کیا مشورہ میں عدم شرکت کی شکایت کو نظر انداز کیا اور بیعت کر کے مسلمانوں کے ساتھ متفق ومتحد ہوگئے۔۔۔
اب صدیوں بعد ایک نادان دوست فرقہ غصب امامت کا فرضی راگ الاپ رہا ہے۔۔۔ تمام مومنین صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین پر کیچڑ اچھال رہا ہے فرقہ واریت اور منافرت کا بیج خود بو رہا ہے تو کیا کیا جاسکتا ہے۔۔۔ کیا آج کوئی عقلمند اسلام اور مسلمانوں کا ہمدرد ان حرکات کو پسند یا مفید اسلام سمجھ سکتا ہے؟؟؟۔۔۔
اب پچھتائے کیا ہوت۔۔۔ جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔۔
پھر کہتے ہیں کہ طالبان اور القاعدہ مارتی ہے۔۔۔