• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

خواتین کے سفر حج میں محرم کی ضرورت!

ماریہ انعام

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 12، 2013
پیغامات
498
ری ایکشن اسکور
377
پوائنٹ
164
خواتین کے سفر حج میں محرم کی ضرورت
(والدہ محترمہ)​

حج اسلام کے بنیادی ارکلان میں سے پانچواں رکن ہے
حج کی فرضیت قرآن مجید سے ثابت ہے ۔
سورہ آل عمران کی آیت نمبر 97 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔
’’لوگوں پر اللہ کا یہ حق ہے کہ جو اس گھر تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو وہ اس کا حج کرے۔‘‘
استطاعت سے مراد یہ ہے کہ
بیت اللہ شریف جانے اورآنے کا خرچ اس کے پاس موجود ہو ۔
اپنی غیر حاضری میں اہل خانہ کے لیے خرچ کا بھی معقول انتظام ہو ۔
راستہ پرخطر نہ ہو یعنی امن و امان ہو اور جان و مال کو خطرہ نہ ہو ۔
جسمانی صحت اس قابل ہو کہ حج اور سفر حج کی صعوبتیں برداشت کر سکتا ہو۔
عورتوں کے لئے ایک اضافی شرط یہ بھی ہے کہ کسی محرم کا ساتھ میسر ہو۔
چنانچہ جب کوئی عورت حج کا ا رادہ کرے تو اس کے لیے جسمانی صحت او رمالی اسباب کی موجودگی کے ساتھ محرم کا ہونا بھی ضروری ہے ۔ عورت کے لئے یہ شرط صرف سفر حج کے لیے ہی نہیں بلکہ عام سفر کے لیے بھی ہے ۔
 

ماریہ انعام

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 12، 2013
پیغامات
498
ری ایکشن اسکور
377
پوائنٹ
164
شرعی دلائل
حضرت عبد اللہ بن عباس بیان کرتے ہیں کہ ''میں نے نبی ﷺ کو ایک خطبے میں ارشاد فرماتے سنا ہے کہ
''کوئی مرد کسی اجنبی عورت کے ساتھ تنہائی میں نہ ملے مگر یہ کہ اس کے ساتھ اس کا محرم ہو اور کوئی عورت سفر نہ کرے مگر یہ کہ اس کے ساتھ اس کا محرم ہو ۔ ''
یہ سن کر ایک شخص اٹھا اور کہنے لگا یارسول اللہﷺ ! میری بیوی حج کےیے روانہ ہو گئی ہے اور میرا نام فلاں غزوہ میں جانے کے لیے درج ہو گیا ہے اس پر نبی ﷺ نے فرمایا :
(یہ بات ہے تو ) تم جاؤ اور اپنی بیوی کے ساتھ حج کرو ۔ ( متفق علیہ )
سفر کے علاوہ عام سفر کے لئے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
''عورت محرم کے بغیر سفر نہ کرے ۔'' ( صحیح مسلم )
اس موضوع پر نبی ﷺ سے تین طرح کی روایتیں مروی ہیں ۔
ایک روایت میں ''تین دن تین رات کا سفر'' ( متفق علیہ )
دوسری روایت میں '' ایک دن رات کی مسافت کا سفر'' ( متفق علیہ )
ایک اور روایت میں '' ایک دن کی مسافت کا سفر '' ( مسند احمد)
مزید ایک روایت میں '' ایک رات کا سفر '' (مسند احمد)
ایک اور روایت میں ''آدھے دن کا سفر '' ( ابوداؤد) اور پھر مطلقاً سفر کا تذکرہ ہے کہ ''عورت محرم کے بغیر سفر نہ کرے۔'' ( صحیح مسلم)
ایک حدیث میں نبی ﷺ نے مطلقاً سفر سے ہی منع فرما دیا
ابن عباس سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا :
''عورت محرم کے بغیر سفر نہ کرے۔'' ( صحیح مسلم )
ان روایات میں لفظ 'سفر' کی تعیین بھی ضروری ہے ۔ ان روایات میں زیادہ سے زیادہ مقدار 'تین دن اور رات' کی مسافت ہے ۔ فقہاء کےاندازے کے مطابق یہ تقریباً پچاسی کلومیٹر بنتا ہے خواہ یہ مسافت گاڑی یا جہاز یا موٹر کار سے طے کی جائے ۔ فقہاء نے اس مقدار کا اندازہ ایک اونٹ کی رفتار سے سفر سے لگایا ہے کہ تین دن رات میں ایک ایک اونٹ اتنی مسافت طے کر سکتا ہے ۔
واضح ہوا کہ اگر عورت کے سفر حج کے لئے محرم میسر نہ ہو تو اس پرحج فرض نہیں ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نےفرمایا :
راوی ابن عباس ہیں ۔ ''کوئی عورت حج کے لئے ہر گز نہ جائے جب تک اس کے ساتھ محرم نہ ہو ۔'' ( دار قطنی )
اس سلسلے میں جوان اور بوڑھی عورت میں کوئی فرق نہیں ہے ۔ محرم کی موجودگی دراصل عورت کے تحفظ اور تعاون کے لئے ہے تو یہ تحفظ اور تعاون جس طرح ایک جوان عورت کی ضرورت ہے اسی طرح ایک بوڑھی عورت کی بھی ضرورت ہے ۔
باقی رویات ان کے نزدیک غیر واضح او رمبہم ہیں ایک دن ، ایک رات ، آدھے دن والی روایات ۔ چنانچہ ان روایات سے حکم ثابت نہیں ہوتا ۔ ہاں تین دن رات والی حدیث اپنے مفہوم میں متعین اور واضح ہے ۔ تین دن رات یا اس سے زائد کا سفر عورت کسی دوسری عورت یا ایک سے زائد عورتوں کے ساتھ یا قابل ساتھیوں کے ساتھ نہیں کرسکتی ۔ کیونکہ احادیث میں شوہر او ر محرم کی شرط موجود ہے ۔۔۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے اصحاب کے نزدیک عورت کے لئے محرم کا ہونا 'استطاعت حج' میں داخل ہے کسی دوسری عورت یا قابل اعتماد ساتھیوں کےہمراہ عورت کو حج پر جانے کی اجازت نہیں ۔
 

ماریہ انعام

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 12، 2013
پیغامات
498
ری ایکشن اسکور
377
پوائنٹ
164
فقہائے اربعہ کا مسلک

(1)حنفی مسلک

احناف کے نزدیک عورت تین دن رات کی مسافت کا سفر صرف شوہر یا محرم کےساتھ کر سکتی ہے ۔
حنبلی مسلک
اگر محرم موجود نہ ہو توعورت پر حج قرض نہیں ہے ۔ ان کے نزدیک اگر فرض حج کے سفر کے دوران محرم فوت ہو جائے توعورت سفر جاری رکھ کر فرض حج ادا کرلے ۔ مگر نفلی حج میں اسے وہیں رک جانا چاہیے بشرطیکہ رکنا ممکن ہو ۔ لیکن امام احمد سے ایک دوسری روایت یہ ہے کہ سفر حج کے سفر میں عورت کے لئے محرم کی شرط نہیں ہے وہ دوسری قابل اعتماد عورتوں کے ساتھ جا سکتی ہے ۔ (فیاللعجب ، اپنےہی موقف کے خلاف فتویٰ)
(فتاویٰ شرعیہ ۔ للشیخ حسنین مخلوق)
شافعی مسلک
ان کےنزدیک عورت کے فرض حج کے لیے محرم کی موجودگی کسی صورت میں شرط نہیں ہے ۔ وہ قابل اعتماد ساتھیون کے ساتھ یا عورتوں کی جماعت کے ساتھ حج کے لیے جا سکتی ہے بشرطیکہ اسے اپنی ذات کے بارے میں حفاظت کی پوری تسلی ہو ۔
البتہ نفی حج میں محرم یا خاوند کے بغیر جانے کی اجازت نہیں ۔
مالکی مسلک
ان کےنزدیک قابل اعتماد ساتھیوں کے ساتھ حج پر جا سکتی ہے اگر اس کے شہر او رمکہ کے درمیان ایک دن رات کی مسافت ہو ۔ امام مالک کےبقول عورت حج کےلئے عورتوں کی جماعت کے ساتھ جا سکتی ہے ۔
امام نخعی ، امام حسن بصری ، امام سفیان ثوری ، امام اسحاق کے نزدیک عورت کے لیے محرم کا ہونا 'استطاعت حج' میں داخل ہے ۔ وہ محرم کے بغیر سفر حج نہیں کر سکتی ۔
آج کل خواتین اپنے محرم کے بغیر عورتوں کے قافلے میں حج کے لئے چلی جاتی ہیں اور اس کےلئے دلیل یہ دی جاتی ہے کہ ازواج مطہرات نےحضرت عمر کے دور خلافت میں حضرت عمر کیاجازت سے جو حج کیا اس میں ان کےہمراہ کوئی محرم نہیں تھا اور حضرت عمر نے حضرت عثمان اور حضرت عبد الرحمن بن عوف کوازواد مطہرات کےہمراہ بھیجا تھا ۔ حضرت عثمان یہ منادی کرتے تھے کہ ''خبردار ! کوئی شخص امہات المومنین کے قریب نہ جائے اور نہ ان کی طرف دیکھے۔''
علماء اس بات کا یہ جواب دیتے ہیں کہ امہات المومنین تو مومنوں پر حرام کر دی گئی ہیں ۔ وہ سب مومنوں کی مائیں ہیں ۔ حضرت عثمان اور حضرت عبدالرحمن بن عوف کے لیے بھی وہ مائیں ہی تھیں ۔ یہ روایت عام خواتین کے لئے جواز نہیں بن سکتی۔
 

ماریہ انعام

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 12، 2013
پیغامات
498
ری ایکشن اسکور
377
پوائنٹ
164
محرم کے بغیر حج
آپ سوال یہ ہے کہ اگر کوئی عورت لاعلمی میں محرم کے بغیر حج کر چکی ہے تو اما م ابن تیمیہ رحمہ اللہ 'سبل السلام' میں لکھتے ہیں کہ ایسی عورت کا حج تو ہو جائے گا یعنی فرض ساقط ہو جائے کا مگر وہ عورت گناہگار ہو گی ۔ مسئلے کا علم ہوتے ہوئے کسی عورت کو ایسی جرات نہیں کرنی چاہیے ۔
محرم کون لوگ ہیں
کسی عورت کا محرم اس کا وہ عاقل ، بالغ ، مسلمان رشتہ دار ہے جس کے ساتہ اس کا نکاح کبھی بھی نہیں ہو سکتا ۔ یعنی وہ ابدی حرام ہے ۔
یہ ابدی حرمت تین بنیادوں پر قائم ہوتی ہیں ۔
(1)نسب کی بنا ء پر
(2)رضاعت کی بنا پر
(3)نکاح کی بنیاد پر
نسب کی بناء پر حرمت
اس میں باپ ، بھائی ، بیٹا ، بھتیجا ، بھانجا ، چچا ، ماموں ، دادا ،اور نانا شامل ہیں
رضاعت کی بناء پرحرمت
رضائی بھائی ، رضاعی بیٹا ، رضاعی باپ ، رضاعی بھانجا ، رضاعی بھتیجا ، رضاعی چچا وغیرہ ۔
نکاح کی بناء پر حرمت
شوہر ، شوہر کا باپ یعنی سسر ، شوہر کا بیٹا یعنی سوتیلابیٹا ، بیٹی کا شوہر یعنی داماد۔
ابدی حرمت کی شرط کی وجہ سے بہنوئی ، پھوپھا اور خالو محرم نہیں ہیں ۔ کیونکہ ان کی حرمت ابدی نہیں ، وقتی ہے یہ اگر اپنی موجودگی بیویوں کو طلاق دے دیں یا کسی کی بیوی فوت ہو جائے تو اس عورت سے نکاح کر سکتے ہیں جس کے لیے یہ بہنوئی ، خالو یا پھوپھا تھے اور ایسا اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ ایک بہن کی فوتگی پر دوسری بہن سے نکاح ہو جاتا ہے ۔ خالہ کی فوتگی پر بھانجی سے اور پھوپھی کی فوتگی پر بھتیجی سے نکاح ہو جاتا ہے ۔
فرضی لوم یا عارضی محرم
آج کل ایک اصطلاح استعمال کی جاتی ہے 'فرضی لوم' یا ' عارضی محرم' یا منہ بولے باپ ، بھائی اور بیٹوں کو محرم سمجھ لیا جاتا ہے ۔ یا بھانجی ، بھتیجی کے خاوند و یا تند ) دیور کے بیٹوں کو محرم نبا لیا جاتا ہے ۔ محرم بننے اور بنانے کے یہ سارےمصنوعی طریقے غلط اور شریعت کے منافی ہیں ۔ بلکہ یہ سراسر جھوٹ پر مبنی ہیں ۔ اور جس حج یا عمرے کی بنیاد ہی جھوٹ پر مبنی ہو گی ۔ اس میں کیا خبر وبرکت ہو گی ۔
راستے میں یا دوران حج محرم کی وفات
اگر کوئی عورت اپنےمحرم کے ساتھ حج پر روانہ ہوئی اور محرم دوران سفر یا دوران حج فوت ہو گیا تو حالات کے مطابق اس کےلیے دو صورتیں ہیں ۔
(1)اگر محرم کی وفات احرام باندھنے سے پہلے ہی واقع ہو گئی ہے جب کہ حج یا عمرہ پر جانے کے انتظامات ہو چکے ہوتے تھے اور سفر بھی شروع ہو چکا تھا تو شافعی مسلک کے مطابق احرام کھولنا اور گھر لوٹنا واجب ہے ۔
(2)اگر محرم کی وفات عورت کے احرام باندھنے کے بعد واقع ہوئی ہے تو امام شافعی کے مطابق وہ عورت حج پورا کرے بشرطیکہ شر و فساد کا خطرہ نہ ہو اور معلم وغیرہ یا گروپ کے دوسرے افراد اس کی حفاظت کا ذمہ لیں ، لیکن اگر شر وفساد اور فتنہ کا خطرہ ہے تو عورت احرام کھول کر واپس آ جائے ۔ لیکن اسے دم دینا ہوگا اور بعد میں حج یا عمرہ جس کا بھی ارادہ تھا وہ بھی ادا کرنا ہو گا ۔
 

ماریہ انعام

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 12، 2013
پیغامات
498
ری ایکشن اسکور
377
پوائنٹ
164
ایک خاص صورت حال
اگر عورت اپنے شوہر کے ساتھ سفر حج پر روانہ ہوئی اور دوران سفر یا دوران حج اس کا شوہرفوت ہو جائے تو یہ ایک خاص صورت حال ہے ۔ کیونکہ شوہر کی فوتگی کے ساتھ ہی عورت کی عدت شروع ہو جاتی ہے ۔ اور عدت تو عورت کو شوہر کے گھر میں گزارتی ہے اور گھر سے باہر بھی جانا اس کےلیے جائز نہیں ہوتا سوائے کسی شرعی مجبوری کے ۔
امام احمد کےنزدیک اگر وہ گھر سے زیادہ دور جا چکی ہے تب تو سفر جاری رکھے اور حج پورا کرے اوراگر جس شہر سے روانہ ہوئی تھی وہ قریب ہے تو پھر گھر واپس لوٹ آئے اگر گھر سےزیادہ دور جا چکی ہے تو اسے اختیار ہے چاہے تو قابل اعتماد رفقاء کے ساتھ سفر حج کرے اور اگر چاہے تو کسی ایسے شہر میں عدت گزارنے کےلیے ٹھہر جائے جہاں اسے فتنہ سے محفوظ رہنے کا امکان ہو ۔
ایک رائے یہ بھی ہے کہ اگر کسی دوسرے محرم کو بلانے کاامکان موجود ہے تو اسے بلا لے ورنہ محرم کے بغیر ہی سفر جاری کرے مگر ایسی جگہ نہ جائے جہاں فتنہ کا ڈر ہو۔ (فضیلۃ الشیخ محمد بن ابراہیم آل شیخ)

عزیز خواتین! یہ مرحلہ واقعی بڑا جذباتی ہوتا ہے کہ ایک خاتون کے پاس حرم کعبہ پہنجنے کےسب وسائل موجود ہیں ۔ خواہش اور تڑپ بھی شدید ہے ۔ فرض کی ادائیگی کا احساس بھی غالب ہے مگر محرم کے نہ ہونے کی وجہ سے اس مقدس سفر میں نہیں جا سکتی مگر ۔۔۔۔ ایک لحظے کے لیے سوچیئے! ہم وہاں کیون جانا چاہتے ہیں ؟ اللہ اور رسول اللہ ﷺ کو راضی کرنے کے لیے نا ! اس کے علاوہ تو نہ کوئی نیت ہوسکتی ہے نہ کو ئی جذبہ ۔ تو پھر ہم صرف وہ کام کریں گی جس سے ہمارایہ مقصد ہمیں حاصل ہو ۔ رہ گئی ہمارےدل کی چاہت اور تڑپ ، تو آپ اس کو اگر اپنے رب کی رضا میں کنٹرول کرں گے تو انشاء اللہ دہرا اجر حاصل کریں گی ۔ ایک حکم رسول اللہ ﷺ کو پورا کرنے کا اجر۔ اور دوسرے اپنے نفس کی شدید خواہش کو اپنے رب کی رضا کی خاطر دبالینے کا اجر۔ کسی نامناسب عمل کے کرنے کا داعیہ جتنا شدید ہوتا ہے اس کو دبا کر درست چلنے کا اجر بھی اتنا ہی زیادہ ہوتا ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کی رحمت سے امید ہے کہ حج یا عمرہ کے لئے نہ جا کر بھی ، گھر رہتے ہوئے بھی ، آپ اللہ سے حج و عمرے کا اجر پا لیں ۔ جیسا کہ غزوہ تبوک سے واپس آتے ہوئے اپنے صحابہ کرام سے نبی ﷺ نے فرمایا ’’مدینہ میں کچھ ایسے لوگ ہیں کہ تم نے جس جگہ بھی سفر کیا اور جو وادی بھی طے کی ، وہ تمہارے ساتھ رہے انہیں عذر نے روک رکھتا تھا۔‘‘ لوگوں نے کہا ۔ یارسول اللہ ﷺ ! وہ مدینہ میں رہتے ہوئے بھی ہمارے ساتھ تھے ؟ آپﷺ نے فرمایا! ہاں ، مدینہ میں رہتے ہوئے بھی !
درحقیقت ہم نے اپنی تربیت اس انداز پر کرنی ہے کہ جدھر اللہ تعالیٰ ہمیں چلائیں ہم چل پڑیں اورجدھر اللہ تعالیٰ ہمیں روک دیں ہم رک جائیں ۔ اسی کا نام 'اسلام' ہے اور آپ غور کریں کہ ہم حج کرتے بھی تو اسی لئے ہیں کہ ہم بغیر کسی جذباتی دباؤ کے اللہ کے حکم ماننے کے عادی ہو جائیں ۔
 

حافظ اختر علی

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
768
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
317
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!ماشاء اللہ حالات کے عین مطابق بہترین انداز میں موضوع کو پیش کرنے پر بیٹی اور ماں دونوں شکریہ کے مستحق ہیں۔اللہ تعالیٰ دین کے لیے آپ کی مساعی جمیلہ کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور آخرت میں ذریعہ نجات بنائے۔آمین
استاد محترم انس صاحب آپ کو بھی مبار ک اور جزاک اللہ خیرا۔
 

حافظ اختر علی

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
768
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
317
(فضیلۃ الشیخ محمد بن ابراہیم آل شیخ)
یہ ایک چیز کی وضاحت مطلوب تھی کہ اس عبارت کا تعلق کس کے ساتھ ہے ؟اوپر والی عبارت کا حصہ ہے یا جو نیچے نئی بات شروع کی ہے اس کا حصہ ہے؟وضاحت کر دیں تاکہ قاری کو پڑھنے اور سمجھنے میں آسانی رہے۔جزاکم اللہ خیرا​
 

ابو عبدالله

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 28، 2011
پیغامات
723
ری ایکشن اسکور
448
پوائنٹ
135
ایک خاص صورت حال
اگر عورت اپنے شوہر کے ساتھ سفر حج پر روانہ ہوئی اور دوران سفر یا دوران حج اس کا شوہرفوت ہو جائے تو یہ ایک خاص صورت حال ہے ۔ کیونکہ شوہر کی فوتگی کے ساتھ ہی عورت کی عدت شروع ہو جاتی ہے ۔ اور عدت تو عورت کو شوہر کے گھر میں گزارتی ہے اور گھر سے باہر بھی جانا اس کےلیے جائز نہیں ہوتا سوائے کسی شرعی مجبوری کے ۔
امام احمد کےنزدیک اگر وہ گھر سے زیادہ دور جا چکی ہے تب تو سفر جاری رکھے اور حج پورا کرے اوراگر جس شہر سے روانہ ہوئی تھی وہ قریب ہے تو پھر گھر واپس لوٹ آئے اگر گھر سےزیادہ دور جا چکی ہے تو اسے اختیار ہے چاہے تو قابل اعتماد رفقاء کے ساتھ سفر حج کرے اور اگر چاہے تو کسی ایسے شہر میں عدت گزارنے کےلیے ٹھہر جائے جہاں اسے فتنہ سے محفوظ رہنے کا امکان ہو ۔
ایک رائے یہ بھی ہے کہ اگر کسی دوسرے محرم کو بلانے کاامکان موجود ہے تو اسے بلا لے ورنہ محرم کے بغیر ہی سفر جاری کرے مگر ایسی جگہ نہ جائے جہاں فتنہ کا ڈر ہو ۔
(فضیلۃ الشیخ محمد بن ابراہیم آل شیخ)۔
باجی جزاک اللہ خیرا

حافظ اختر علی
خضر حیات
برادران، اوپر والے اقتباس کے حوالے سے یہ معلوم کرنا تھا کہ اس طرح کسی شہر میں ٹھہر کر عدت گذارنا پرانے دور میں تو شاید ممکن ہوتا ہوگا لیکن آج کے دور میں جب کہ مسلم علاقے مختلف ممالک می‍ں تقسیم ہو گئے ہیں تو کیا صورت اختیار کرنی چاہیے؟
 
Top