سیرت و سوانح میں کسی کتاب کے مستند ہونے کا مطلب ہےکہ:
مصنف کتاب خود صحیح العقیدہ اور صاحب بصیرت شخصیت ہے ، اور جن ذرائع سے کسی کے حالات پیش کئے ہیں وہ بھی ثقہ و معتبر ہیں ،
اسماء رجال الحدیث کے مصنفین و مرتبین کو اور ان کی کتب دیکھ لیجئے ،شاید سمجھ آجائے
امام احمد بن حنبلؒ سے لے کر امام الذھبی اور علامہ ابن حجرؒ تک جن عظیم اور صاحب نظر حضرات نے سیر و تراجم پر داد تحقیق دی
اسی تحقیق پر علم حدیث و سیرت پر قائم ہے ، اس پر آج بھی امت بلاشبہ ناز کرتی ہے ،
اسے غفلت سے تعبیر کروں ،یاجہالت سے یامغالطہ سے۔
علم حدیث کا معمولی طالب بھی جانتاہے کہ جن راویوں نے حدیث کی روایت کی ہے، وہ اگرغلط عقیدہ کے بھی پیرو ہیں تو بھی ان کے غلط عقیدہ کی وجہ سے روایت ترک نہیں کی جاتی،کتنے خارجی اورکتنے شیعی اور کتنے دیگر گمراہ فرقہ اورعقیدہ کے افراد کتب حدیث کی روایتوں میں موجود ہیں،حضرت علیؓ کے قاتل کی تعریف کرنے والے خارجی کی روایت بخاری میں موجود ہے،جس کے بارے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد تھاکہ علی کوقتل کرنے والا بدبخت ترین آدمی ہوگا، ایسے افراد کی روایت میں غلط عقیدہ تو آڑے نہ آئے لیکن بزرگوں کی سیرت وسوانح میں مصنف کا صحیح العقیدہ ہونا لازمی سمجھاجائے،استغفراللہ ربی من کل ذنب واتوب الیہ
کہیں ایساتونہیں کہ آپ کی نگاہ میں بزرگان دین کی سیرت سوانح کا معیار احادیث سے بھی بالااور فزوں تر ہے؟
دوسری بات یہ ہے کہ یہ شرط کس نے لگائی ہے کہ سیرت سوانح میں مصنف کا صحیح العقیدہ ہونا ضروری ہے،محض اپنی دماغی اپج سے اصول وضع کرنا عقلمندوں کا کام نہیں ہے،کسی اور کاکام ہے،خود کو دوسری صف میں شامل مت کیجئے، عقل مندوں کے ہی گروہ میں رہئے۔
تو اس بنیاد پر ( اخبارالاخیار ) کے چند مقامات دیکھتے ہیں :
شیخ عبدالحق نے اخبار الاخیار جناب شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے احوال سے شروع کی ہے،
اور ایسے ایسے عجیب حالات و واقعات لکھے ہیں جن کو دیکھ کے لگتا ہے معاذاللہ شیخ رحمہ اللہ کوئی جوگی اور سادھو تھے ،
شیخ ؒعبدالقادرؒ کی پہلی حالت یہ لکھی ہے کہ وہ فرماتے ہیں : میں پچیس سال عراق کے صحراؤں ، بیابانوں میں اس حال میں گشت کرتا رہا کہ نہ میں کسی کو پہچانتا تھا ، نہ کوئی مجھے پہچانتا تھا ،
صرف رجال الغیب اور جن میرے پاس آتے اور راہ حق کی تعلیم پاتے ۔
اور فرماتے ہیں :
میں نے چالیس سال تک فجر کی نماز عشاء کے وضوء سے پڑھی ،
اور پندرہ سال تک یہ حال رہا کہ نماز عشاء کے بعد قرآن مجید اس طرح شروع کرتا کہ ایک پاؤں پر کھڑا ہوجاتا اور ایک ہاتھ سے دیوار کی میخ پکڑلیتا اور اسی حال میں ساری رات قرآن مجید پڑھتا حتی کہ صبح ہوجاتی اور قرآن ختم کرلیتا ۔
اگرہم مان لیں کہ کسی کتاب میں رطب ویابس سبھی کچھ جمع ہے،تواس سے اس کتاب کی قدروقیمت کم ہوجاتی ہےیاوہ کتاب درجہ استناد سے اورپایہ ثبوت سے گرجاتی ہے؟تاریخ طبری میں کیاکچھ نہیں ہے،تفیسر طبری میں کیسی کیسی روایتیں نہیں ہیں، آپ ہی کے حلقہ کے بڑے بزرگ حضرات یزید کے باب میں عرض کرتے پھرتے ہیں کہ ان کتابوں کے مولفین کی جلالت قدر مسلم لیکن انہوں نے تاریخ میں صحت کا اہتمام نہیں کیا اورسب کچھ نقل کردیا اور تحقیق کاکام بعد والوں کیلئے چھوڑدیا، سوال یہ ہے کہ اس رطب ویابس کے جمع ہونے سے کیاوہ کتابیں اب قابل اعتبار نہیں رہیں، کیا ابن اثیر کی الکامل اورابن کثیر کی البدایہ کی ساری وقعت ختم ہوگئی؟
شیخ عبدالقادر جیلانی پر شیخ نے جوکچھ لکھاہے وہ بہت کم ہے اس سے جو ان کے بارے میں دیگر کتابوں اوران کی سوانحات میں موجود ہے،شیخ عبدالقادرجیلانی کے بارے میں سب سےز یادہ مواد ندوہ کے کتب خانہ میں ہے کیونکہ آپ کے ہم مسلک نواب صدیق حسن خان کے صاحبزادے نواب نورالحسن خان صاحب کو شیخ عبدالقادرجیلانی سے خاص لگائو تھا اس لئے وہ دنیا جہان میں کہیں سے بھی شیخ عبدالقادرجیلانی کے تعلق سے کوئی بھی کتاب ہوتی ،اس کو اپنے کتب خانہ میں شامل کرتے،بعد میں نواب نورالحسن کا یہ کتب خانہ ندوہ کو عطیہ کردیاگیا،کبھی فرصت ملے تو دیکھئے کہ دیگر سوانح نگاروں نے کیاکچھ لکھاہے اور شیخ عبدالقادرجیلانی کاتذکرہ کبھی فرصت ملے تو ذہبی کے سیراعلام النبلاء میں بھی پڑھی لیجئے اور یاد کرلیجئے کہ وہ بھی صوفی تھے۔
بات دور نکل گئی،کہنایہ ہے شیخ عبدالحق محدث دہلوی شیخ عبدالقادرجیلانی کے ہم عصرنہیں،لہذا انہوں نے ماقبل کی کتابوں سے شیخ عبدالقادرجیلانی کے حالات نقل کردیئے ،یہ کہنا کہ ایسے حالات کیوں نقل کردیئے جو ناممکن معلوم ہوتے ہیں تواس کاجواب صرف اتناہے کہ جس طرح محدثین کرام میں سے بعض موضوع روایتیں نقل کرتے ہیں اوربعد والے تاویل کرنے لگ جاتے ہیں کہ انہوں نے سند بیان کرکے اپنی ذمہ داری پوری کردی ہے تو شیخ عبدالحق محدث دہلوی حضرات نے بھی حوالہ بیان کرکے اپنی ذمہ داری پوری کردی ہے،اب جیسے حدیث کے راویوں کی تحقیق ہوسکتی ہے، ان واقعات کی بھی تحقیق کی جاسکتی ہے؟
خلاصہ کلام یہ ہے کہ آپ کی اس طویل تحریر میں ایک بھی ایسی معتبر بات ،حوالہ نہیں ہے جس سے ثابت ہو کہ اخبارالاخیار غیرمعتبر اورغیرمستند کتاب ہے،کسی کتاب کو مستند اورغیرمستند قراردینے میں محض اپنی ذاتی رائے کو کام میں نہ لائیں، تاریخ وسیر کے ماہرین سے بھی تھوڑی مدد لے لیاکریں،اس طرح کی علمی خود رائی اورعجب پسندی انسان کے علمی ترقی کیلئے زہر قاتل ہے۔