طاہر اسلام
سینئر رکن
- شمولیت
- مئی 07، 2011
- پیغامات
- 843
- ری ایکشن اسکور
- 732
- پوائنٹ
- 256
آج کل فیس بک پر’داعش‘ کے متعلق مولانا سید سلمان صاحب ندوی کا ایک مضمون بڑے پیمانے پر شیئر کیا جا رہا ہے؛اس کا مطالعہ کیا تو بے حد افسوس ہوا کہ تجزیہ غیر جانب دارنہ نہیں ہے بل کہ غلطی ہاے مضامین کا شاہ کار ہے؛اس پرمفصل نقدکی خاطر تو ایک مضمون ہی کی ضرورت ہےجس کی یہاں گنجایش نہیں ؛البتہ چندمختصر نکات کی صورت میں ایک اجمالی تبصرہ پیش خدمت ہے:
1) تشدد اور بدامنی کا رشتہ سلفیت سے جوڑنا صریح ناانصافی اور خلاف حقیقت ہے؛سلفیت نام ہے: نصوص کتاب و سنت کو فہم سلف کی روشنی میں سمجھنے اور سمجھانےکا اور اپنے تمام تر افکار و اعمال کو ان کے مطابق ڈھالنے کا اور بس!قرون مفضلہ کےاسی نظریے کوقرون متوسطہ میں شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ نے اورعہدِ متاخر میں شیخ محمد بن عبدالوہابؒ نے پیش کیا؛فی زمانہ عرب کے سلفی علما اور برصغیر کے اصحاب الحدیث اسی کے پر چارک ہیں۔
2)شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ عظیم مصلح اور داعیِ توحید تھے جنھوں نے قرآن و حدیث کی واضح تعلیمات اور سلف صالحین کے طرز عمل کی اتباع میں عقیدۂ توحید کی تفصیلات کو اجاگرکیا اور معاشرے میں دَر آنے والی بدعات اور مزخرفات پر تنقید کی؛ان پر کفر سازی یا قتل مسلمین کے الزامات غلط فہمی پر مبنی ہیں جن کے ازالے کے لیے مولانا مسعود عالم ندویؒ کی وقیع کتاب’’شیخ محمد بن عبدالوہابؒ:ایک مظلوم اور بدنام مصلح ‘‘کا مطالعہ بے حد مفید رہے گا؛برصغیر میں بعض علماے دیوبند نے بھی ان پر اعتراضات کیے تھےلیکن اس کی وجہ ان کے احوال کی تفصیلات سے عدم واقفیت تھی جیسا کہ معروف دیوبندی عالم اور مناظر مولانا منظور احمد صاحب نعمانیؒ نے اپنی کتاب’’شیخ محمد بن عبدالوہابؒ کے خلاف پراپیگنڈا اور علماے حق پر اس کے اثرات‘‘میں اس امر کی وضاحت کی ہے؛واضح رہے کہ دارالافتا، دارالعلوم دیوبند کی آفیشل ویب سائٹ پر ایک سوال کے جواب میں اس کتاب کی تائید و تصدیق کرتے ہوئے امام محمد بن عبدالوہابؒ کو اہل سنت قرار دیا گیا ہے۔
3)داعش کا ناتا سلفیت سے جوڑنا اور پھر پورے سلفی مدرسۂ فکر کو اس کا ذمہ دار ٹھیراتے ہوئے اسے مطعون کرنا بالکل ایسے ہی ہے جیسے بعض لوگ پاکستانی طالبان ،لشکر جھنگوی اور بعض دیگر متشدد گروہوں کو حنفی دیوبندی قرار دے کر پورے دیوبندی مکتب خیال کو نشانۂ جرح بنالیتے ہیں اورخطے میں بپا قتل و غارت اور بد امنی و فساد کا منبع حنفیت اوردیوبندیت کو گردانتے ہیں!!ہماری راے میں دونو رویے نامنصفانہ اور افراط و تفریط کے مظہر ہیں؛کسی بھی مسلک کے عقائد و افکار کی نمایندگی اس کے معتبر اور کبار علماسے ہوتی ہے جب کہ یہاں عالم یہ ہے کہ سعودی عرب کے مفتیِ اعظم اپنے خطبۂ حج میں ’داعش‘کو گم راہ کہتے اور اس سے اظہارِ براءت کرتے ہیں اورآج تک کسی بھی معروف سلفی عالم نے اس تنظیم کی تائید و حمایت نہیں کی؛اس کے باوجود داعش کا نام لے کر سلفیت اور سلفیوں کو رگیدتے چلا جانا عدل و انصاف کے کون سے پیمانوں پر پورا اترتا ہے؟؟!!واضح رہے کہ یہاں ایسے ارباب دانش بھی موجود ہیں جو موجودہ صورت حال کی تمام تر ذمہ داری شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ،مفتی تقی عثمانی اور مولانا زاہدالراشدی سمیت پورے مذہبی حلقے پر ڈالتے ہیں!!
4)مولانا سلمان صاحب ندوی صاحب عالم دین ہیں ؛اس پہلوسے ان کا احترام واجب ہے لیکن دیکھا گیا ہے کہ وہ موقع بہ موقع سلفیت پرتند وتیز لہجے اور سخت الفاظ میں ناروا تنقید کرتے رہتے ہیں۔سیاسی مسائل ہوں یا دیگر فکری و مذہبی امور،ان میں اختلاف کی گنجایش ہمیشہ رہتی ہے اور صحت مند تنقیدسے معاملے کے نئے گوشےسامنے آتے ہیں جس کی اہمیت سے کسی طور انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن محترم موصوف اکثر و بیش تر حد اعتدال سے تجاوز کر جاتے ہیں؛پھرجذباتی انداز اور فکر کا الجھاو تحریر کی سلاست ،روانی اور ادبی چاشنی کو بھی سلب کر لیتا ہے اورقلم سے اس نوع کے جملے صفحۂ قرطاس پر آتے ہیں:’’یہ ساری تنظیمیں سلفیت کے پیٹ سے پیدا ہوئی ہیں۔۔؛اس کے فکری دھماکے۔۔۔؛اس کی شرعی ماں القاعدہ ہے!!‘‘بہ ہر حال ان کا اسلوب جارحانہ اور جانب دارانہ ہوتا ہے اور وہ مسائل یا نظریات پر گفت گو کے بجاے پورے مکتب فکر کو مورد الزام ٹھیراتے ہیں جو علمی تنقید کے معیارات سے مطابقت نہیں رکھتا۔
5)آج جب کہ امت کو کفر و الحاد کے خلاف متحد اور متفق ہونے کی اشد ضرورت ہے ،اس نوع کی تحریریں ہر گز سود مند نہیں ہو سکتیں بل کہ یہ حنفیت اور سلفیت میں فاصلوں کو بڑھانے کا موجب ہوں گی؛ جب کہ ہماری نگاہ میں یہ دونو مکاتب اپنے اپنے انداز سے اسلام کی تشریح و تعبیر کرتے ہیں ؛پس ہر دو کی توقیر لازم ہے اور ان سے وابستہ افراد کو ایک دوسرے سے قریب کرنا نہ صر ف یہ کہ مذہب کا ضروری مطالبہ ہے بل کہ حالات کا بھی اولین تقاضا ہے۔ جو احباب اس مضمون کو بہت ہی نادر اور قیمتی سوغات سمجھ کر اس کی اشاعت عام رہے ہیں ،اگرچہ یہ اُن کا حق ہے لیکن ہماری استدعا ہے کہ یہ ہر گز کوئی مستحسن عمل نہیں ہے کہ اس کی افادیت توشاید ایک فی صد بھی نہ ہو ،البتہ مضر اثرات بہت زیادہ ہیں؛اس لیے اس سے گریز ہی فرمائیں تو بہتر ہو گا:ع
مانیں، نہ مانیں، آپ کو یہ اختیار ہے
ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں!
وماعلینا البلاغ المبین؛والسلام علیکم و رحمۃ اللہ
(فیس بک اسٹیٹس)