محمد ارسلان
خاص رکن
- شمولیت
- مارچ 09، 2011
- پیغامات
- 17,859
- ری ایکشن اسکور
- 41,096
- پوائنٹ
- 1,155
مختصر سی بات تھی جس کو اس قدر لمبا کر دیا گیا، وفا صاحبہ کا دعویٰ تھا کہ:
"ہر وہ چیز جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مس ہو جائے وہ متبرک ہے"
اس پر میں نے دلیل دینے کو کہا، تو وفا صاحبہ نے پہلی پوسٹ میں موجود پوسٹرز میں جتنی بھی احادیث درج ہیں ان کا حوالہ دیا اور کہا کہ میں نے یہ مفہوم ان روایات سے حاصل کیا ہے
یہاں پر میرا یہ جواب تھا کہ ان احادیث سے ایسا مفہوم تو کہیں بھی نہیں نکل رہا، بلکہ یہاں سے تو صرف اتنا ثابت ہو رہا ہے کہ:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جن چیزوں کا ذکر صحیح احادیث میں آیا ہے اور جس قدر آیا ہے وہی متبرک ہیں، بشرطیکہ اس سے کوئی اپنا عقیدہ خراب نہ کر لے"(جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیارے اور خوبصورت ہونٹوں سے حجرہ اسود کا بوسہ لیا، اب ہم بھی بوسہ لیں گے، لیکن کوئی حجرہ اسود کو مشکل کشا، یا حاجت روائیں یا بلائیں دور کرنے والا پتھر سمجھنے لگ جائے گا تو بلاشک و شبہ وہ شخص مشرک اور دائرہ اسلام سے خارج ہے)
وفا صاحبہ نے میری ان باتوں کو تسلیم نہیں کیا، تو میں نے کھجور کے تنے کا ذکر کیا جس پر ٹیک لگا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دیا کرتے تھے، اب اسے چھوڑنے کے بعد اس کی تعظیم اور تبرک وفا صاحبہ کے نظریے کے مطابق ضروری اور لازمی امر تھا، لیکن اس کا کوئی ذکر نہیں ملتا، اب اس کے جواب میں وفا صاحبہ نے مزید کوئی بات نہیں کی بلکہ دوبارہ وہی پوسٹرز میں موجود روایات کی طرف توجہ دلائی۔
باتیں اور بھی میری اور وفا صاحبہ کے درمیان ہوئیں جنہیں پچھلے صفحات میں پڑھا جا سکتا ہے۔ اب ہم یہاں ایک اور دلیل وفا صاحبہ کو سمجھانے کے لئے اور ان کے خود ساختہ اصول کے باطل ہونے کے لئے دے رہے ہیں، ملاحظہ فرمائیں:
أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍحَدَّثَهُ، "أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُصَلِّي عِنْدَ الْبَيْتِ وَأَبُو جَهْلٍ وَأَصْحَابٌ لَهُ جُلُوسٌ، إِذْ قَالَ بَعْضُهُمْ لِبَعْض، أَيُّكُمْ يَجِيءُ بِسَلَى جَزُورِ بَنِي فُلَانٍ فَيَضَعُهُ عَلَى ظَهْرِ مُحَمَّدٍ، إِذَا سَجَدَ فَانْبَعَثَ أَشْقَى الْقَوْمِ، فَجَاءَ بِهِ، فَنَظَرَ حَتَّى إِذَا سَجَدَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَضَعَهُ عَلَى ظَهْرِهِ بَيْنَ كَتِفَيْهِ وَأَنَا أَنْظُرُ لَا أُغَيَّرُ شَيْئًا لَوْ كَانَ لِي مَنَعَةٌ، قَالَ: فَجَعَلُوا يَضْحَكُونَ وَيُحِيلُ بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَاجِدٌ لَا يَرْفَعُ رَأْسَهُ حَتَّى جَاءَتْهُ فَاطِمَةُ، فَطَرَحَتْ عَنْ ظَهْرِهِ، فَرَفَعَ رَأْسَهُ، ثُمَّ قَالَ: اللَّهُمَّ عَلَيْكَ بِقُرَيْشٍ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، فَشَقَّ عَلَيْهِمْ إِذْ دَعَا عَلَيْهِمْ، قَالَ: وَكَانُوا يَرَوْنَ أَنَّ الدَّعْوَةَ فِي ذَلِكَ الْبَلَدِ مُسْتَجَابَةٌ، ثُمَّ سَمَّى اللَّهُمَّ عَلَيْكَ بِأَبِي جَهْلٍ، وَعَلَيْكَ بِعُتْبَةَ بْنِ رَبِيعَةَ، وَشَيْبَةَ بْنِ رَبِيعَةَ، وَالْوَلِيدِ بْنِ عُتْبَةَ، وَأُمَيَّةَ بْنِ خَلَفٍ، وَعُقْبَةَ بْنِ أَبِي مُعَيْطٍ، وَعَدَّ السَّابِعَ، فَلَمْ يَحْفَظْ، قَالَ: فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَقَدْ رَأَيْتُ الَّذِينَ عَدَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَرْعَى فِي الْقَلِيبِ قَلِيبِ بَدْرٍ".(صحيح بخاري)
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما نے ان سے حدیث بیان کی کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کے نزدیک نماز پڑھ رہے تھے اور ابوجہل اور اس کے ساتھی (بھی وہیں) بیٹھے ہوئے تھے تو ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا کہ تم میں سے کوئی شخص ہے جو قبیلے کی (جو) اونٹنی ذبح ہوئی ہے (اس کی) اوجھڑی اٹھا لائے اور(لا کر) جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ میں جائیں تو ان کی پیٹھ پر رکھ دے۔ یہ سن کر ان میں سے ایک سب سے زیادہ بدبخت (آدمی)اٹھا اور وہ اوجھڑی لے کر آیا اور دیکھتا رہا جب آپ نے سجدہ کیا تو اس نے اس اوجھڑی کو آپ کے دونوں کندھوں کے درمیان رکھ دیا(عبداللہ بن مسعود کہتے ہیں) میں یہ (سب کچھ) دیکھ رہا تھا مگر کچھ نہ کر سکتا تھا۔ کاش! (اس وقت) مجھے روکنے کی طاقت ہوتی۔ عبداللہ کہتے ہیں کہ وہ ہنسنے لگے اور (ہنسی کے مارے) لوٹ پوٹ ہونے لگے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ میں تھے (بوجھ کی وجہ سے) اپنا سر نہیں اٹھا سکتے تھے۔ یہاں تک کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا آئیں اور وہ بوجھ آپ کی پیٹھ سے اتار کر پھینکا، تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر اٹھایا پھر تین بار فرمایا۔ یا اللہ! تو قریش کو پکڑ لے، یہ (بات) ان کافروں پر بہت بھاری ہوئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بددعا دی۔ عبداللہ کہتے ہیں کہ وہ سمجھتے تھے کہ اس شہر (مکہ) میں جو دعا کی جائے وہ ضرور قبول ہوتی ہے پھر آپ نے (ان میں سے)ہر ایک کا (جدا جدا) نام لیا کہ اے اللہ! ان ظالموں کو ضرور ہلاک کر دے۔ ابوجہل، عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ولید بن عتبہ، امیہ بن خلف اور عقبہ بن ابی معیط کو۔ ساتویں (آدمی) کا نام (بھی) لیا مگر مجھے یاد نہیں رہا۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے کہ جن لوگوں کے (بددعا کرتے وقت) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نام لیے تھے، میں نے ان کی (لاشوں) کو بدر کے کنویں میں پڑا ہوا دیکھا۔
جی تو وفا صاحبہ! آپ بتائیں کہ:
اور اس کے ساتھ ساتھ
وفا صاحبہ نے محمد ارسلان ملک کے پچھلے دو پوائنٹس جو اگنور کئے ہیں، جوابات کی اُمید نہ رکھتے ہوئے بھی دوبارہ لکھ دئیے جاتے ہیں، شاید جواب دے دیا جائے
"ہر وہ چیز جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مس ہو جائے وہ متبرک ہے"
اس پر میں نے دلیل دینے کو کہا، تو وفا صاحبہ نے پہلی پوسٹ میں موجود پوسٹرز میں جتنی بھی احادیث درج ہیں ان کا حوالہ دیا اور کہا کہ میں نے یہ مفہوم ان روایات سے حاصل کیا ہے
یہاں پر میرا یہ جواب تھا کہ ان احادیث سے ایسا مفہوم تو کہیں بھی نہیں نکل رہا، بلکہ یہاں سے تو صرف اتنا ثابت ہو رہا ہے کہ:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جن چیزوں کا ذکر صحیح احادیث میں آیا ہے اور جس قدر آیا ہے وہی متبرک ہیں، بشرطیکہ اس سے کوئی اپنا عقیدہ خراب نہ کر لے"(جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیارے اور خوبصورت ہونٹوں سے حجرہ اسود کا بوسہ لیا، اب ہم بھی بوسہ لیں گے، لیکن کوئی حجرہ اسود کو مشکل کشا، یا حاجت روائیں یا بلائیں دور کرنے والا پتھر سمجھنے لگ جائے گا تو بلاشک و شبہ وہ شخص مشرک اور دائرہ اسلام سے خارج ہے)
وفا صاحبہ نے میری ان باتوں کو تسلیم نہیں کیا، تو میں نے کھجور کے تنے کا ذکر کیا جس پر ٹیک لگا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دیا کرتے تھے، اب اسے چھوڑنے کے بعد اس کی تعظیم اور تبرک وفا صاحبہ کے نظریے کے مطابق ضروری اور لازمی امر تھا، لیکن اس کا کوئی ذکر نہیں ملتا، اب اس کے جواب میں وفا صاحبہ نے مزید کوئی بات نہیں کی بلکہ دوبارہ وہی پوسٹرز میں موجود روایات کی طرف توجہ دلائی۔
باتیں اور بھی میری اور وفا صاحبہ کے درمیان ہوئیں جنہیں پچھلے صفحات میں پڑھا جا سکتا ہے۔ اب ہم یہاں ایک اور دلیل وفا صاحبہ کو سمجھانے کے لئے اور ان کے خود ساختہ اصول کے باطل ہونے کے لئے دے رہے ہیں، ملاحظہ فرمائیں:
أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍحَدَّثَهُ، "أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُصَلِّي عِنْدَ الْبَيْتِ وَأَبُو جَهْلٍ وَأَصْحَابٌ لَهُ جُلُوسٌ، إِذْ قَالَ بَعْضُهُمْ لِبَعْض، أَيُّكُمْ يَجِيءُ بِسَلَى جَزُورِ بَنِي فُلَانٍ فَيَضَعُهُ عَلَى ظَهْرِ مُحَمَّدٍ، إِذَا سَجَدَ فَانْبَعَثَ أَشْقَى الْقَوْمِ، فَجَاءَ بِهِ، فَنَظَرَ حَتَّى إِذَا سَجَدَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَضَعَهُ عَلَى ظَهْرِهِ بَيْنَ كَتِفَيْهِ وَأَنَا أَنْظُرُ لَا أُغَيَّرُ شَيْئًا لَوْ كَانَ لِي مَنَعَةٌ، قَالَ: فَجَعَلُوا يَضْحَكُونَ وَيُحِيلُ بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَاجِدٌ لَا يَرْفَعُ رَأْسَهُ حَتَّى جَاءَتْهُ فَاطِمَةُ، فَطَرَحَتْ عَنْ ظَهْرِهِ، فَرَفَعَ رَأْسَهُ، ثُمَّ قَالَ: اللَّهُمَّ عَلَيْكَ بِقُرَيْشٍ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، فَشَقَّ عَلَيْهِمْ إِذْ دَعَا عَلَيْهِمْ، قَالَ: وَكَانُوا يَرَوْنَ أَنَّ الدَّعْوَةَ فِي ذَلِكَ الْبَلَدِ مُسْتَجَابَةٌ، ثُمَّ سَمَّى اللَّهُمَّ عَلَيْكَ بِأَبِي جَهْلٍ، وَعَلَيْكَ بِعُتْبَةَ بْنِ رَبِيعَةَ، وَشَيْبَةَ بْنِ رَبِيعَةَ، وَالْوَلِيدِ بْنِ عُتْبَةَ، وَأُمَيَّةَ بْنِ خَلَفٍ، وَعُقْبَةَ بْنِ أَبِي مُعَيْطٍ، وَعَدَّ السَّابِعَ، فَلَمْ يَحْفَظْ، قَالَ: فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَقَدْ رَأَيْتُ الَّذِينَ عَدَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَرْعَى فِي الْقَلِيبِ قَلِيبِ بَدْرٍ".(صحيح بخاري)
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما نے ان سے حدیث بیان کی کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کے نزدیک نماز پڑھ رہے تھے اور ابوجہل اور اس کے ساتھی (بھی وہیں) بیٹھے ہوئے تھے تو ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا کہ تم میں سے کوئی شخص ہے جو قبیلے کی (جو) اونٹنی ذبح ہوئی ہے (اس کی) اوجھڑی اٹھا لائے اور(لا کر) جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ میں جائیں تو ان کی پیٹھ پر رکھ دے۔ یہ سن کر ان میں سے ایک سب سے زیادہ بدبخت (آدمی)اٹھا اور وہ اوجھڑی لے کر آیا اور دیکھتا رہا جب آپ نے سجدہ کیا تو اس نے اس اوجھڑی کو آپ کے دونوں کندھوں کے درمیان رکھ دیا(عبداللہ بن مسعود کہتے ہیں) میں یہ (سب کچھ) دیکھ رہا تھا مگر کچھ نہ کر سکتا تھا۔ کاش! (اس وقت) مجھے روکنے کی طاقت ہوتی۔ عبداللہ کہتے ہیں کہ وہ ہنسنے لگے اور (ہنسی کے مارے) لوٹ پوٹ ہونے لگے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ میں تھے (بوجھ کی وجہ سے) اپنا سر نہیں اٹھا سکتے تھے۔ یہاں تک کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا آئیں اور وہ بوجھ آپ کی پیٹھ سے اتار کر پھینکا، تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر اٹھایا پھر تین بار فرمایا۔ یا اللہ! تو قریش کو پکڑ لے، یہ (بات) ان کافروں پر بہت بھاری ہوئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بددعا دی۔ عبداللہ کہتے ہیں کہ وہ سمجھتے تھے کہ اس شہر (مکہ) میں جو دعا کی جائے وہ ضرور قبول ہوتی ہے پھر آپ نے (ان میں سے)ہر ایک کا (جدا جدا) نام لیا کہ اے اللہ! ان ظالموں کو ضرور ہلاک کر دے۔ ابوجہل، عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ولید بن عتبہ، امیہ بن خلف اور عقبہ بن ابی معیط کو۔ ساتویں (آدمی) کا نام (بھی) لیا مگر مجھے یاد نہیں رہا۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے کہ جن لوگوں کے (بددعا کرتے وقت) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نام لیے تھے، میں نے ان کی (لاشوں) کو بدر کے کنویں میں پڑا ہوا دیکھا۔
جی تو وفا صاحبہ! آپ بتائیں کہ:
- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جو اوجھڑی ڈالی گئی (نعوذباللہ) وہ آپ کے نزدیک متبرک ہوئی یا نہیں؟
- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی نے اوجھڑی کو ہٹا دیا، جبکہ آپ کے اصول کے مطابق تو اوجھڑی متبرک ہو گئی تھی، اور اس کی تعظیم فرض تھی، لیکن فاطمہ رضی اللہ عنہا نے تو اسے اُتار پھینکا۔
- یہ اتنا بڑا جرم تھا اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اہانت کے پھر اس عمل کے بعد ان کافروں کے لئے بددعا بھی کی گئی۔
اور اس کے ساتھ ساتھ
وفا صاحبہ نے محمد ارسلان ملک کے پچھلے دو پوائنٹس جو اگنور کئے ہیں، جوابات کی اُمید نہ رکھتے ہوئے بھی دوبارہ لکھ دئیے جاتے ہیں، شاید جواب دے دیا جائے
- کھجور کا تنا کیوں نہ متبرک سمجھا گیا اور اس کی تعظیم کیوں نہ فرض ہوئی؟
- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن اُبی کی میت کے لئے جو کُرتا پیش کیا، اور آپ کے نظریے کے مطابق یہ کُرتا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم سے مس ہوا ہوا تھا اسی لئے متبرک تھا اور اس کی تعظیم فرض تھی، گزارش ہے کہ صرف اتنا بتا دیا جائے پھر کیا وجہ ہے کہ عبداللہ بن ابی کو اس کُرتے سے کیوں فائدہ نہ ہوا؟
Last edited: