• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

داعش خلافت: بدعت و شرک کے نام پر خانہ کعبہ، مسجد النبوی، مسجد الحرام اور ہر متبرک جگہ کی تباہی

وفا

مبتدی
شمولیت
جولائی 15، 2014
پیغامات
48
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
18
نبیﷺ کے تو پسینے سے بھی برکت حاصل کی جاتی تھی ۔
نفع و نقصان اللہ ہی طرف سے ہوتا ہے ۔لیکن اللہ اشیا، میں بھی اپنے حکم سے نفع و نقصان رکھ دیتا ہے ۔
بے شمار اشیا، سے ہم دن رات نفع حاصل کرتے ہیں ۔ لیکن یاد رہے کوئی شے بذات خود کسی نفع و نقصان کی مالک نہیں ۔
میں نے شروع سے سارا تھریڈ پڑھا ہے میری ذاتی رائے میں اتنے سب لوگوں کے مقابلے میں وفا کا پلڑا بھاری نظر آتا ہے ۔
جزاک اللہ کہ آپ نے حق کی تلاش میں پورا تھریڈ پڑھا۔ اللہ تعالی آپ پر اپنی رحمتیں و برکتیں نازل فرمائے۔ امین۔
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
عجیب و غریب منطق پیش کی ہے آپ نے۔ مسلمان کہاں سے جانے گا؟ کیا اس پر کوئی علیحدہ سے وحی ہو گی جسکا آپ کو علم نہیں ہو گا؟
میرا سوال مسلمانوں کے حوالے سے نہیں تھا ہی نہیں، بلکہ "آپ" کے حوالے سے تھا کہ کیا آپکے پاس دلیل ہے جس میں رسول (ص) نے کعبہ کو یوں دونوں ہاتھوں سے تھامنے، اور پھر چومنے کا حکم دیا تھا؟
اگر آپکے پاس دلیل نہیں، تو پھر آپ ان مسلمانوں کے "جاننے" کے نام پر ان پر بدعت یا شرک کا حکم کیوں جاری نہیں کر رہے؟
یہی کام جب ہم کرتے ہیں کہ لوگوں پر معین کر کے حکم لگانا تو آپکو برا لگتا ہے اور اب جب میں مطلقا حکم لگا کر آپکو بتا دیا تھا کہ اگر کسی کے پاس کوئی دلیل ہے کسی رکن کو چھونے کی تو وہ عمل سنت میں آئے گا اور اگر نہیں تو وہ بدعت میں آئے گا چاہے مکفرہ ہو اور چاہے غیر مکفرہ
لیکن آپ مجھ سے معین فتوی لگوانا چاہتی ہیں تو سن لیں کہ میرے ناقص علم کے مطابق تو رکن یمانی کو چھونے کی روایت آتی ہے اور ایک خاص دعا کا بھی شاید ذکر ہے پس ہم نہ تو اسکے علاوہ دعا کر سکتے ہیں اور نہ چھو سکتے ہیں ہمارا کوئی بھائی زیادہ علم رکھتا ہو تو وہ اسکی تصحیح کر سکتا ہے
اب آپ کے فتوی کی طرف آتے ہیں تو ہمارے نزدیک یہ بدعت ہے مگر بدعت کے بھی درجے ہوتے ہیں کچھ ہلکی ہوتی ہے کچھ بڑی
مثلا کوئی حاجی شیطان کو کنکریاں مارنے کی بجائے جذبات میں آ کر جوتے سے مارنا شروع کر دیتے ہیں اب وہ بیچارے اسکو سنت تو نہیں سمجھ رہے ہوتے لیکن جذبات میں آ کر اسکو کرنا درست سمجھتے ہیں یا درست یا غلط کا خیال ہی نہیں آتا پس اسی طرح جو کعبہ کو چھوتے ہیں انکا حال بھی اکثر ایسا ہی ہوتا ہے پس کوئی تو ان میں سے واقعی بدعت کا مرتکب ہو رہا ہوتا ہے اور کوئی علم ہی نہیں رکھتا
لیکن میرا سوال یہ ہے کہ آپ کو اس سے کیا ثابت کرنا ہے

کیا قیاس حرام نہیں؟
اگر آپ کو حدیث نہیں تو کیا آپکو قیاس کا حق حاصل ہو گیا؟
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی
پہلی بات تو یہ ہے کہ ہم میں سے کوئی قیاس کے مخالف نہیں بلکہ معلومات میں اضافہ کرنا ہے کہ قیاس کا انکار اہل ظاہر نے کیا ہے اہل حدیث نے نہیں
لیکن دوسری حیرت کی بات یہ ہے کہ میں نے یہاں کوئی شرعی قیاس کیا ہی نہیں بلکہ قیاس کے عمومی استعمال کو دیکھتے ہوئے یہ کہا ہے کہ جیسے علماء کرام حجر اسود میں چھونے کو بدعت قرار نہیں دیتے کیونکہ وہاں نص موجود ہے پس اسی طرح اگر کسی رکن کو چھونے کی نص بھی ہو تو اس پر بھی اسی طرح کا فتوی ہو گا کیونکہ بدعت تو وہی ہوتی ہے جس پر نص موجود نہ ہو
اگر آپکو حدیث کا علم نہیں، تو پھر قیاس پر کیسے آپ ہمارے سوال کا جواب دینے لگے؟
میں حدیث کو چھوڑ نہیں رہا بلکہ وہ میدان آپ کے لئے چھوڑ رہا تھا کہ جس پر فتوی لگانا ہو اس سے پوچھ لو کہ کسی رکن کو چھونے کی حدیث موجود ہے کہ نہیں- اسکی وجہ میں نے اوپر بتائی ہے کہ مطلقا فتوی سے میں بچنا چاہتا تھاق کیونکہ یہ راسخ العلم لوگوں کا کام ہے

آپکے خیال اور آپکے قیاس اس مسئلے میں پیش نہیں ہو سکتے ہیں۔
اصول یہ ہے کہ اگر آپ کو علم نہیں، تو آپ کو اس بحث سے علیحدہ ہو جانا چاہیے۔
جتنی بات کا علم تھا اتنا بتانا ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے کہ بلغوا عنی ولو ایۃ
اب مجھے آپ کے اماموں کے اس بارے حکم کا نہیں پتا لیکن اگر پتا بھی ہوتا تو میں نے تو اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی ہی پیروی کرنی تھی اور جتنی معلومات تھیں بتا دیں اور جن کے بارے علم نہیں تھا ولا تقف ما لیس لک بہ علم کے تحت خاموش رہنا چاہتا تھا مگر آپ کے آگے حوصلہ ہار گیا

یہ سوال بقیہ حضرات کے لیے ابھی بھی ویسے ہی جوں کا توں موجود ہے۔

آپ لوگوں کے عقیدے کے مطابق جو لوگ خانہ کعبہ کو متبرک سمجھتے ہوئے چھو رہے ہیں، اسے چوم رہے ہیں، اور اسکے وسیلے سے اپنی حاجات طلب کر رہے ہیں، تو کیا وہ بدعت و شرک کر رہے ہیں؟
محترم بھائیو جن کو بقیہ حضرات کہا گیا ہے کہ میں نے تو اپنی طرف سے بتا دیا ہے کہ کب کعبہ کو چھونا بدعت ہے اور کب شرک ہے مگر وہ شاید کسی اور طرح سے کہلوانا چاہتی تھیں جیسے باولر گیند کروائے تو بیٹسمین کے شاٹ لگانے پر کہے کہ یہ کیا بلا کو بیچ میں کیوں لے آئے پھر کہے کہ کوئی دوسرا آئے جو بیٹنگ بھی کرے مگر بلا بیچ میں نہ لائے- اب آپ میں سے ہے کوئی ایسی بیٹنگ کرنے والا کیونکہ محترمہ گیند کروانے کے لئے تیار کھڑی ہیں

اور جناب عائشہ کے متعلق سوال پر کیا آپکی نظر پڑی تھی؟
کون سا سوال اور کون سی نظر
بھئی ہم تو یہاں اپنی امی کی اور اپنے پیراے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کا رونا رو رہے ہیں کہ رافضی اپنی کتابوں میں لکھتے ہیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شرمگاہ بھی جہنم میں جائے گی اگر یقین نہ ہو تو اسی فورم پر اس کتاب کا عکس بھی ایک تھریڈ میں دیا گیا ہے غالبا محترم @محمد عامر یونس بھائی یا محترم @lovelyalltime بھائی نے لگایا تھا
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
اگر تبرکات سے نفع اٹھانے عقیدے کی خرابی ہے تو جناب عائشہ کا عقیدہ خراب تھا کیونکہ وہ رسول (ص) کے جبے سے نفع اٹھاتی تھیں، تمام کے تمام اجمعین صحابہ ، ان کُل صحابہ کا عقیدہ خراب تھا، کیونکہ وہ تبرکات نبی کو نفع اٹھانے کی غرض سے استعمال کرتے تھے، اور معاذ اللہ معاذ اللہ عقیدے کی خرابی کے آپکے اس الزام سے بذات خود رسول (ص) ذات اقدس تک پامال ہو گی کیونکہ رسول (ص) خود صحابہ میں اپنے بال اور کُلی کا پانی اور دیگر تبرکات تقسیم کرتے تھے، اور خود اپنے مرنے والے رشتے داروں اور صحابہ میں اپنے چادر اور کرتہ تقسیم کیا تاکہ وہ انکا کفن بنے اور انکو اسکی برکت سے نفع حاصل ہو۔
تبرکات کے متعلق تو میں نے واضح لکھا ہے کہ جو مشروع تبرک اھادیث سے ثابت ہے اور جس حد تک ثابت ہے اسی کو ہم جائز سمجھتے ہیں اور ساتھ میں یہ بات بھی یاد رکھیں کہ امی عائشہ رضی اللہ عنہا کا عقیدہ قطعا یہ نہیں تھا کہ اللہ کے سوا کوئی نفع یا نقصان کا مالک ہے، کسی صحابی نے یہ عقیدہ نہیں رکھا۔
سلفی حضرات کی بیماری یہ تھی کہ وہ کافروں کے لیے نازل ہونے والی آیات مسلمانوں پر چسپاں کر کے انہیں مشرک و کافر بناتے تھے۔ مگر یہ بیماری قرآنی آیات تک محدود نہ رہی، بلکہ یہ بیماری یہاں تک پہنچ گئی کہ تبرکات نبوی کے جو واقعات کفار کے لیے مخصوص تھے، انکو سلفی حضرات نے مسلمانوں پر چسپاں کر کر تبرکِ نبوی کا انکار کرنا شروع کر دیا۔ اوپر کی تمام کی تمام گفتگو اسی سلفی بیماری کی گواہی دے رہی ہے۔
خوارج کی اس بد عادت میں ملوث سلفی حضرات نہیں بلکہ بریلوی اور شیعہ ہیں، سلفی حضرات تو شرک و بدعت میں مبتلا لوگوں کا قرآن و حدیث کی روشنی میں رد کرتے ہیں، اوپر کی پوسٹس میں میرے بیان کردہ پوائنٹس ایسے تھے جس کا جواب دینے سے آپ شاید بوکھلاہٹ کا شکار ہو گئی ہیں۔
اور عامر یونس صاحب کی بات کہاں سے میرے سوال کا جواب ہے؟ بلکہ جو انہوں نے بمشکل 3 روایات رسول (ص) کے مشروع تبرکات کے نام سے نقل کی ہیں، وہ تو بذات خود آپ لوگوں کی تکذیب کر رہی ہیں اور یہ اصول ثابت کر رہی ہیں کہ جو چیز بھی رسول (ص) سے مس ہوئی، وہ متبرک بن گئی۔
ان 3 روایت میں پہلی رسول (ص) کے جبے کی ہے اور جناب اسماء بنت ابی بکر اور انکی بہن جناب عائشہ کی ہے کہ وہ رسول (ص) کے جبے کو دھوتی تھیں، اور پھر اس پانی کو بیماری سے شفا کے لیے استعمال کرتی تھیں۔ تو جبہ میں یہ بیماری سے شفا میں مدد دینے کا فائدہ کہاں سے آ گیا؟؟؟؟ یہ روایت بذات خود ثابت کر رہی ہے کہ جبہ میں یہ برکت یہ فائدہ اس لیے آیا کیونکہ وہ رسول (ص) سے مس شدہ تھا۔
دوسری اور تیسری روایات پیالے اور بالوں کے متعلق ہیں، اور بخاری و مسلم و صحاح ستہ کی احادیث کا پورا دفتر ہے جو ثابت کر رہا ہے کہ پیالے سے صحابہ برکت حاصل کرتے تھے اور رسول (ص) کے بالوں کو جناب ام سلمہ اور مدینہ کے سارے صحابہ بیماری کسے شفا کے لیے استعمال کرتے تھے اور نظر بد سے بچنے کے لیے بھی۔
تو اب آپ بتلائیے کہ یہ چیزیں اگر رسول (ص) سے مس ہونے کی وجہ سے متبرک نہیں بنیں تو پھر کس وجہ سے متبرک بنی ہیں؟
خیر مجھے تو 80 مراسلوں کے بعد خانہ کعبہ کو مس کرتے اور چومتے لوگوں کے متعلق کوئی جواب نہیں ملا تو پھر آپ کہاں اس سوال کا جواب دینے والے ہیں۔

مشروع تبرک کے متعلق عامر بھائی کی پوسٹس میں وضاحت موجود ہے۔
اور تنے کے متعلق میں تفصیلی جواب اوپر دے چکی ہوں۔ مگر آپ نے سوائے انکار کرنے کے کوئی ایک دلیل بھی جواب میں نہیں دی ہے۔ اور دلیل یہ ہوتی کہ کسی صحابی نے تنے سے برکت حاصل کرنے کو شرک اور بدعت کہا ہوتا۔ اور دلیل ہوتی جب آپ ان سینکڑوں روایات کا جواب دیتے جو یہ بیان کر رہی ہیں کہ ہر وہ چیز متبرک بن گئی جو رسول (ص) سے مس ہوئی اور صحابہ انکی تعظیم کرنے لگے اور ان سے نفع حاصل کرنے لگے۔
آپ نے جو جواب دیا ہے وہ میں نے دیکھ لیا ہے، بے فکر رہیں، آپ نے دعویٰ کیا تھا کہ جو چیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مس ہو جائے وہ متبرک ہو جاتی ہے اور اس کی تعظیم فرض ہو جاتی ہے، لیکن پھر اس تنے کے متبرک ہونے اور اس کی تعظیم کے فرض ہونے کی کوئی دلیل آپ نے نہیں پیش کی، اور عبداللہ بن ابی کے متعلق جو میں نے تین یا چار پوائنٹس پوچھے ہیں ان کا بھی کوئی جواب آپ نے نہیں دیا، کیوں وضاحت کرنے سے کیا ڈر لگتا ہے آپ کو؟
 

وفا

مبتدی
شمولیت
جولائی 15، 2014
پیغامات
48
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
18
رہا کسی کو ’’ قبر پرست ‘‘ قرار دینا ، تو اس چیز کا تعلق بالکل واضح حقائق کے ساتھ ہے ، اس کا مشاہدہ کیا ہے تو کہا گیا ہے ۔
رہا آپ کا ’’ ابلیسی توحید ‘‘ کا لفظ استعمال کرنا ، تو آپ کے علم میں یہ بات ہونی چاہیے کہ ’’ ابلیس ‘‘ کے عقیدہ توحید میں کسی قسم کا خلل نہیں تھا ، وہ اللہ کے ساتھ کسی کوشریک نہیں ٹھہراتا تھا ۔
تو پھر تو مشاہدہ تو ابلیسی توحید کے نام پر پچھلے کئی سو سال کے سلف و خلف مسلمانوں کو مشرک بنا دینے کے فتنے کا بھی ہے، اور خود ساختہ ابلیسی توحید کے نام پر رسول (ص) مس شدہ متبرک مقامات کو مسمار کرنے کا بھی ہے۔
اور یہاں بات "ابلیسی کی توحید" کی نہیں، بلکہ "ابلیسی توحید" کی ہو رہی ہے۔ عقل استعمال کیجئے، فرق سمجھ آ جائے گا۔

جس بات کا آپ رونا روہی رہی ہیں اس کی ابتداء آپ کی طرف سے سب سے پہلے ہوئی ہے اور آپ نے کمال عدم استحیاء کا مظاہرہ کرتے ہوئے جمیع علماء سعودیہ کو ’’ منافق ‘‘ قرار دیا ہے ۔
حالانکہ نفاق ایسی چیز کا جس کا تعلق دل کے ساتھ ہے ۔ کیا آپ دل کے بھید جانتی ہیں ؟
ہاں یہ تو درست ہے کہ آرٹیکل میں واقعی دو ایک جگہ سخت الفاظ استعمال ہوئے ہیں، اور انکے لیے معذرت بھی۔
لیکن کیا اب اسکی بنیاد پر قرآنی احکامات کو بھلا کر ایک دوسرے پر سب و شتم کا سلسلہ جاری رکھنا ہے؟

بہرحال، آرٹیکل کی الفاظ یہ ہیں:۔
سعودی مفتی حضرات اگرچہ کہ منافقت دکھاتے ہوئے داعش کی طرح کھل کر خانہ کعبہ کو مس کرنے اور چومنے اور حاجات طلب کرنے پر بدعت و شرک کا فتوی نہیں لگاتے، مگر اندر سے داعش اور ان میں کوئی فرق نہیں، اور انکے توحید کے عقیدے کے مطابق بھی یہ بدعت اور شرک ہے۔

یہاں منافقت کو شرعی معنوں میں نہ لیجئے جس میں یہ چیز اللہ کے ایمان سے مخصوص ہوتی ہے۔ بلکہ یہاں یہ سعودی مفتی حضرات کے اس عمومی رویے پر تنقید ہے جہاں واقعی میں انکا عقیدہ اندر سے یہی ہے کہ خانہ کعبہ کو مس کرتے اور چومتے یہ لوگ بدعت بھی کر رہے ہیں اور شرک بھی۔ اور یہ دلوں کا حال نہیں، بلکہ انکی شائع کردہ فتوے بذات خود اسکے گواہ ہیں۔ مگر اسکے باوجود کھل کر وہ جب یہ بات نہ کہیں تو پھر اس رویے کو کیا کہیں گے؟
اور سعودی مفتی حضرات ہی کیا، اسی فورم پر دیکھ لیجئے۔ 80 مراسلے گذر جانے کے باوجود اس سوال کا جواب دینے میں ہر قسم کے لیت و لعل سے کام لیا جا رہا ہے، ہر غیر متعلقہ چیز کو پکڑ کر بیچ میں گھسیڑا جا رہا ہے، مگر جواب پھر بھی نہیں دیا جا رہا۔
سوال بہت سادہ سا ہے:۔

کیا یہ آپکے عقیدے کے مطابق لوگ خانہ کعبہ کو دونوں ہاتھوں سے مس کر کے اور چوم کر، اور اس کے وسیلے سے اپنی حاجات طلب کر کے شرک کر رہے ہیں؟
کیا داعش سے منسوب بیان کی یہ بات درست ہے کہ خانہ کعبہ شرک کا اڈہ ہے؟

جب آپ لوگ 80 مراسلے گذر جانے کے باوجود اس سوال کا جواب نہ دیں، تو پھر اس رویے کو کیا نام دیں؟

توحید و شرک اور بدعت کے مسائل میں بھی اہل حدیث اور اہل بدعت کے درمیان ایک بنیادی فرق یہی ہے کہ اہل حدیث اللہ اور اس کے رسول فہم سلف کے پابند رہتے ہیں جبکہ اہل بدعت اپنی عقل پرستی اور قیاسی آرائیوں سے نصوص دینیہ سے تجاوز کرتے ہیں ۔
تبرکاتِ نبوی اور کعبہ کے فقط فزیکل برکت سے محروم بے جان پتھر اور اس چومنے کو بدعت و شرک سمجھنے کے متعلق فقط آپکا گمان ہے کہ آپ قرآن و حدیث یا سلف کی پیروی کر رہے ہیں۔ تبرکاتِ نبوی میں آپ انکی پیروی نہیں کر رہے، بلکہ غلطی پر ہیں۔



بالا مشارکات میں جو آپ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات یا آپ سے متعلقات سے تبرک کے حوالے سے بیان کی ہے ، اس ضمن میں ہمارے موقف کا خلاصہ درج ذیل ہے :
’’ تبرک ‘‘ کا معنی ہے ’’ خیر کا حصول ‘‘ کیونکہ یہ لفظ برکت سے جس کے معنی ہیں ’’ خیر اور بھلائی ‘‘ ۔ ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ ’’ خیر اور بھلائی ‘‘ سب اللہ کے ہاتھ میں ہے ، اللہ کا جہاں جی چاہتا ہے اللہ برکت رکھتا ہے ۔ کوئی چیز بابرکت ہے یا نہیں ؟ کسی چیز سے تبرک کیا جا سکتا ہے کہ نہیں ؟ اس کا فیصلہ صرف اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم کرسکتے ہیں ۔ گویا تبرک کا معاملہ عقل پرستی اور کسی کے ذوق پر مبنی نہیں بلکہ خالص توقیفی مسئلہ ہے ۔
آپکا عقیدہ بہت غلط ہے اور پھر آپ کو فقط کعبہ کو مس کرتے اور چومتے لوگوں پر ہی نہیں، بلکہ صحابہ پر معاذ اللہ بدتوفیقی اور بدعت و شرک کا فتوی لگانا پڑے گا۔ اوپر بہت روایات پیش ہو چکی ہیں، جہاں وہ ان چیزوں سے برکت حاصل کر رہے ہیں جو کہ رسول (ص) سے مس ہوئیں۔

اس اصول کی سب سے پہلے قرآن وسنت سے دلیل بیان فرمادیں ۔ اور اس کی جامع مانع وضاحت فرمادیں ۔ تاکہ بعد میں آپ کو اس میں استثناءیا تخصیص نہ کرنا پڑے جیسا کہ آپ نے ’’ ابو طالب اور عبد اللہ بن ابی ‘‘ کا حوالہ دینے پر ’’ کافر و مسلم ‘‘ کا بیان کرتے ہوئے یہ اعتراف کیا ہے کہ آپ کا بیان کردہ اصول مطلقا نہیں بلکہ اس کے کچھ مستثنیات بھی ہیں ۔
جسطرح آپ نے اوپر اپنے عقائد کا خلاصہ بیان کیا ہے، ایسے ہی ہم نے بھی بیان کر دیا ہے۔ اگر بیچ میں ہماری طرف سے، یا پھر آپکی طرف سے کوئی استثنیٰ پیش ہوا تو وہ اُدھر ہی اپنے مقام پر ڈسکس ہو جائے گا، جیسا کہ آپ لوگوں کی طرف سے کفار والے واقعات کو غلط طور پر مسلمانوں پر چسپاں کرنا۔

ایک ایک کرکے بات آگے بڑھاتے ہیں تاکہ آپ کووہ تمام شکوے شکایتیں نہ ہوں جو سابق میں آپ دہرا چکی ہیں ۔
کاش کہ یہ بات 80 مراسلوں کی بجائے شروع سے کی ہوتی۔
پہلی بات:

1) کیا سعودی مفتی حضرات کے عقیدے کے مطابق داعش سے منسوب بیان میں درست بات کی گئی ہے کہ خانہ کعبہ فقط ایک عام پتھر ہے، جس میں کوئی فزیکل برکت نہیں؟
2) کیا سعودی مفتی حضرات کے عقیدے کے مطابق لوگ خانہ کعبہ کو دونوں ہاتھوں سے مس کر کے اور چوم کر، اور اس کے وسیلے سے اپنی حاجات طلب کر کے شرک کر رہے ہیں؟
3) کیا سعودی مفتی حضرات داعش سے منسوب بیان کی اس بات کو درست جانتے ہیں کہ خانہ کعبہ شرک کا اڈہ ہے؟
 

aamirrafiq

رکن
شمولیت
ستمبر 28، 2011
پیغامات
19
ری ایکشن اسکور
26
پوائنٹ
46
1.png

شکریہ۔
مگر یہاں پر ہماری گفتگو مساجد میں نماز پڑھنے کے ثواب پر نہیں، بلکہ خانہ کعبہ اور مسجد الحرام او رمسجد النبی جیسی بابرکت جگہوں میں "فزیکل برکت" کے حوالے سے ہے، جسکے سعودی مفتی حضرات ایسے ہی منکر ہیں جیسے کہ داعش۔
جبکہ اصول یہ تھا کہ جو چیز رسول (ص) مس ہو جائے، اس میں فزیکل برکت پیدا ہو جاتی ہے، اس کی تعظیم فرض ہو جاتی ہے، اس میں نفع و نقصان کی صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے اور صحابہ رسول (ص) سے مس شدہ ہر ہر چیز سے یہ فزیکل برکت حاصل کرتے تھے، چاہے یہ پیالہ ہو، یا چادر، یا قمیص، یا سکہ یا پانی یا چھڑی وغیرہ۔


موضوع بہت آسان سا ہے۔ کیا آپ تمام حضرات جان بوجھ کر اس سے نظریں چرا رہے ہیں؟
صرف داعش ہی نہیں، بلکہ آپکے عقیدے کے مطابق بھی جو لوگ کعبہ کو مس کر رہے ہیں، اسے چوم رہے ہیں، اسکو عقیدت اور تعظیم کی نظر سے دیکھ رہے ہیں، جو اسے وسیلہ بنا کر دعائیں مانگ رہے ہیں ۔۔۔۔ تو یہ سب لوگ آپکے عقیدے کے مطابق بھی "بدعت" بھی کر رہے ہیں اور "شرک" بھی۔
میرا خیال آپ اتنی سادہ نہیں۔ جب یہ ثابت ہو گیا کہ سعودی علما مسجد النبی کا کتنا احترام کرتے ہیں تو مسجد الحرام کی اہمیت تو صاف ظاہر ہے۔ آپ نے مسجد النبی،مسجد الحرام مسمار کرنےکاالزام جو لگایا اس سے توبہ تو کرلے۔ تب ہی بات چلے گی نا۔
 

وفا

مبتدی
شمولیت
جولائی 15، 2014
پیغامات
48
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
18
یہی کام جب ہم کرتے ہیں کہ لوگوں پر معین کر کے حکم لگانا تو آپکو برا لگتا ہے اور اب جب میں مطلقا حکم لگا کر آپکو بتا دیا تھا کہ اگر کسی کے پاس کوئی دلیل ہے کسی رکن کو چھونے کی تو وہ عمل سنت میں آئے گا اور اگر نہیں تو وہ بدعت میں آئے گا چاہے مکفرہ ہو اور چاہے غیر مکفرہ
اب آپ کے فتوی کی طرف آتے ہیں تو ہمارے نزدیک یہ بدعت ہے مگر بدعت کے بھی درجے ہوتے ہیں کچھ ہلکی ہوتی ہے کچھ بڑی
کیا یہ درجے سنت سے ثابت ہیں یا پھر آپکی طرف سے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ آپ حضرات کی زبان پر کل بدعۃ ضلالۃ ہی ہر وقت سننے کو ملتا ہے۔

مثلا کوئی حاجی شیطان کو کنکریاں مارنے کی بجائے جذبات میں آ کر جوتے سے مارنا شروع کر دیتے ہیں اب وہ بیچارے اسکو سنت تو نہیں سمجھ رہے ہوتے لیکن جذبات میں آ کر اسکو کرنا درست سمجھتے ہیں یا درست یا غلط کا خیال ہی نہیں آتا پس اسی طرح جو کعبہ کو چھوتے ہیں انکا حال بھی اکثر ایسا ہی ہوتا ہے
لیکن میرا سوال یہ ہے کہ آپ کو اس سے کیا ثابت کرنا ہے
کیا شیطان کو کنکریوں کی جگہ جوتا مارنے کی بدعت اور کعبہ کو متبرک اور مقدس سمجھ کر مس کرنے اور چومنے اور پھر اسکے وسیلے سے کعبے پر ہاتھ رکھ کر حاجات طلب کرنے کی بدعت "برابر" ہیں؟
آپکے عقیدے کے مطابق رسول (ص) کی قبر کو چومنے کی بدعت اور کعبے کو چومنے والی بدعت برابر ہیں۔ آپکے نزدیک دونوں میں ضلالت ہے، اور دونوں میں شرک ہے۔
لیکن ایک بدعت اور شرک کے لیے آپکے سٹینڈرڈز کچھ اور ہیں، جبکہ دوسری بدعت اور شرک کے لیے آپکے سٹینڈرڈز کچھ اور ہیں۔

چنانچہ سوال سادہ سا ہے کہ سعودی مفتی حضرات نے خانہ کعبہ کو پھر شرک کا اڈہ کیوں بن جانے دیا کہ لوگ وہاں جا کر کھل کر شرک کریں؟ ادھر آپ لوگ 85 مراسلوں کے بعد کھل کر اسے بدعت و شرک قرار نہیں دیتے، اُدھر سعودی مفتی حضرات تو آپ سے دس ہاتھ آگے ہیں کہ اٹھارویں صدی سے کھل کر اس پر بدعت اور شرک کا فتوی نہیں دیتے اور 18 ویں صدی سے انہوں نے کعبہ کو شرک کا اڈہ کیوں بنا رہنے دیا ؟
پھر تو داعش سے منسوب خبر اگر درست ہے، اور داعش والے اگر آپ پر شرک جاری رکھنے اور کعبہ کو شرک کا اڈہ بنانے کا الزام لگا رہے ہیں تو بالکل ٹھیک کر رہے ہیں۔

کون سا سوال اور کون سی نظر
سوال تو بہت سادہ سا تھا:
اگر تبرکاتِ نبوی میں اللہ کے اذن سے کوئی نفع نہیں ہے، تو پھر جنابِ عائشہ رسول (ص) کے جبے کو دھو کر اسکے پانی کو شفا کے حصول کے لیے کیوں پی رہی تھیں؟

بھئی ہم تو یہاں اپنی امی کی اور اپنے پیراے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کا رونا رو رہے ہیں کہ رافضی اپنی کتابوں میں لکھتے ہیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شرمگاہ بھی جہنم میں جائے گی اگر یقین نہ ہو تو اسی فورم پر اس کتاب کا عکس بھی ایک تھریڈ میں دیا گیا ہے غالبا محترم @محمد عامر یونس بھائی یا محترم @lovelyalltime بھائی نے لگایا تھا
پہلے ریفرنس پیش فرما دیجئے۔ اگر وہ ضعیف روایت ہوئی تو پھر یہ الزام آپ پر جائے گا کہ آپ کیوں ایک ضعیف روایت کی بنیاد پر غلط الزام لگا رہے ہیں کہ یہ ہمارا "عقیدہ" ہے۔ کیا آپ کو ضعیف روایت اور عقیدے کے فرق کا علم ہے؟
 

aamirrafiq

رکن
شمولیت
ستمبر 28، 2011
پیغامات
19
ری ایکشن اسکور
26
پوائنٹ
46


سوال تو بہت سادہ سا تھا:
اگر تبرکاتِ نبوی میں اللہ کے اذن سے کوئی نفع نہیں ہے، تو پھر جنابِ عائشہ رسول (ص) کے جبے کو دھو کر اسکے پانی کو شفا کے حصول کے لیے کیوں پی رہی تھیں؟






100105: ایسے پانی سے تبرک حاصل کرنا جس کے بارے میں کہا جائے کہ اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بال مبارک ہے

سوال: میں اردن میں ایک درس میں شامل ہوئی، جس کا عنوان مسجد اقصی اور غلبہ دین کے متعلق تھا، اور درس دینے والی خاتون ہمارے لئے ایسا پانی بھی لیکر آئی تھی جس میں حبیب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا بال ڈبویا گیا تھا، یہ بال فلسطین کے شہر عکا کی ایک مسجد الجزار میں موجود ہے، اس پانی کو شیشے کی بوتل میں محفوظ کیا گیا تھا، پھر انہوں نے اس پانی کو ایک بڑی ٹینکی میں ملا دیا تا کہ زیادہ سے زیادہ خواتین کی تعداد مستفید ہوسکے، میں نے بھی انکی طرح پانی لے لیا، ، ، سوال یہ ہے کہ کیا اس پانی سے شفا یابی اور برکت کیلئے تبرک حاصل کرنا جائز ہے؟ ہمیں آپ فتوی دیں، اللہ تعالی آپکو ساری بھلائیاں بدلے میں عنائت فرمائے، یاد رہے! پانی ابھی تک میرے پاس موجود ہے، اور میں نے ابھی تک اسے استعمال نہیں کیا۔

الحمد للہ:



سب علماء کے نزدیک متفقہ طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بالوں یا پسینے وغیرہ سے تبرک حاصل کرنا جائز ہے، کیونکہ اس کے بارے میں دلائل موجود ہیں۔

چنانچہ انس بن مالک رضی اللہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمرے کو کنکریاں ماریں اور اپنی قربانی نحر کرنے کے بعد سر منڈوایا تو نائی کی طرف اپنی دائی طرف کی تو اس نے آپکی دائیں طرف سے بال مونڈ دیئے، پھر آپ نے ابو طلحہ انصاری کو بلایا اور اپنے بال انہیں دے دیئے، پھر نائی کی طرف اپنی بائیں جانب کی اور فرمایا: (مونڈ دو) تو اس نے آپکے بال استرے سے اتار دیئے اور آپ نے یہ بال بھی ابو طلحہ کو دیکر فرمایا: (انہیں لوگوں میں تقسیم کردو) مسلم (1305)

اسی طرح انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ام سلیم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے "نطع" چمڑے کی ایک شیٹ بچھاتی تھیں، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پرقیلولہ فرماتے، چنانچہ جب آپ سو جاتے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا پسینہ اور بال ایک شیشی میں جمع کرتیں، اور پھر اُسے ایک "سُک"خوشبو میں ملا دیتی تھی، (ثمامہ بن عبد اللہ بن انس) کہتے ہیں کہ جب انس رضی اللہ عنہ کی وفات کا وقت قریب آیا تو انہوں نے وصیت کی کہ میری میت کو لگائی جانے والی خوشبو میں اسے ضرور شامل کرنا، تو آپکو لگائی گئی خوشبو میں اسے ملا دیا گیا۔ بخاری (6281)

"نطع" چمڑے کے بچھونے کو کہتے ہیں۔

"سُک"خوشبو کی ایک قسم ہے جو کستوری وغیرہ ملا کر بنائی جاتی ہے۔

اس حدیث اور دیگر دلائل سے معلوم ہوتا ہے کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارک سے جدا ہونے والا بال یا پسینہ وغیرہ میں اللہ تعالی نے برکت ڈال دی ہے، جس سے تبرک حاصل کیا جاسکتا ہے، اور اسکی وجہ سے دنیا و آخرت میں خیر کی امید کی جاسکتی ہے، جبکہ خیر دینے والی ذات اللہ ہی کی ہے۔

لیکن موجودہ دور میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بال یا آپ کے باقیماندہ آثار کی موجودگی کا دعوی بلا دلیل ہوگا، اور عام طور پر اس بارے میں جتنی بھی باتیں ہیں سب فراڈ اور خرافات میں سے ہیں، جیسے کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بال ہے کیونکہ جب اسے دھوپ میں رکھا جائے تو اسکا سایہ نہیں بنتا!! اس قسم کی باتوں پر دھیان بھی نہیں دینا چاہئے۔

شیخ البانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"اور ہم جانتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے، بال، یا دیگر باقیماندہ اشیاء گم ہوچکی ہیں، اور اس وقت ہم میں سے کوئی بھی یقینی اور قطعی طور پر اس قسم کی اشیاء کو ثابت نہیں کرسکتا " ماخوذ از: "التوسل" صفحہ: 147

چنانچہ مذکورہ بالا بیان کے بعد ، جس پانی کے بارے میں پوچھا گیا ہے اس سے تبرک حاصل کرنا جائز نہیں ، یہاں تک کہ ہمیں یقین ہوجائے کہ اس پانی میں رکھا جانے والا بال نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بال ہے، اور اس چیز کو ثابت کرنے کا کوئی راستہ نہیں ہے، اس لئے فریب کاروں، بدعات کو ترویج دینے والوں، اور دھوکے بازوں سے بچنا ضروری ہے، اسی طرح علم بھی انہی لوگوں سے حاصل کرنا چاہئے جو صحیح منہج کا دفاع کرتے ہیں اور اسی کی ترویج کرتے ہیں، عقلمند آدمی خود ہی سوچے کہ گفتگو نے کیسے غلبہ دین کے موضوع سے رخ موڑ کر لوگوں کو غیر ثابت معاملات کی طرف متوجہ کردیا! حالانکہ درس دینے والی خاتون کو چاہئے تھا کہ لوگوں کو درست منہج کی جانب دعوت دیتیں، اور اس پر کاربند رہنے کی نصیحت کرتیں؛ کیونکہ درست منہج پر رہنا بھی غلبہ دین کے اسباب میں سے ہے۔

اللہ تعالی ہمیں اور آپکو اچھے انداز میں اتباع کرنے کی توفیق دے۔

واللہ اعلم .
لینک http://islamqa.info/ur/100105
 
Last edited:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
تو پھر تو مشاہدہ تو ابلیسی توحید کے نام پر پچھلے کئی سو سال کے سلف و خلف مسلمانوں کو مشرک بنا دینے کے فتنے کا بھی ہے، اور خود ساختہ ابلیسی توحید کے نام پر رسول (ص) مس شدہ متبرک مقامات کو مسمار کرنے کا بھی ہے۔
اور یہاں بات "ابلیسی کی توحید" کی نہیں، بلکہ "ابلیسی توحید" کی ہو رہی ہے۔ عقل استعمال کیجئے، فرق سمجھ آ جائے گا۔
ہاں یہ تو درست ہے کہ آرٹیکل میں واقعی دو ایک جگہ سخت الفاظ استعمال ہوئے ہیں، اور انکے لیے معذرت بھی۔
لیکن کیا اب اسکی بنیاد پر قرآنی احکامات کو بھلا کر ایک دوسرے پر سب و شتم کا سلسلہ جاری رکھنا ہے؟
بہرحال، آرٹیکل کی الفاظ یہ ہیں:۔
سعودی مفتی حضرات اگرچہ کہ منافقت دکھاتے ہوئے داعش کی طرح کھل کر خانہ کعبہ کو مس کرنے اور چومنے اور حاجات طلب کرنے پر بدعت و شرک کا فتوی نہیں لگاتے، مگر اندر سے داعش اور ان میں کوئی فرق نہیں، اور انکے توحید کے عقیدے کے مطابق بھی یہ بدعت اور شرک ہے۔
یہاں منافقت کو شرعی معنوں میں نہ لیجئے جس میں یہ چیز اللہ کے ایمان سے مخصوص ہوتی ہے۔ بلکہ یہاں یہ سعودی مفتی حضرات کے اس عمومی رویے پر تنقید ہے جہاں واقعی میں انکا عقیدہ اندر سے یہی ہے کہ خانہ کعبہ کو مس کرتے اور چومتے یہ لوگ بدعت بھی کر رہے ہیں اور شرک بھی۔ اور یہ دلوں کا حال نہیں، بلکہ انکی شائع کردہ فتوے بذات خود اسکے گواہ ہیں۔ مگر اسکے باوجود کھل کر وہ جب یہ بات نہ کہیں تو پھر اس رویے کو کیا کہیں گے؟
اور سعودی مفتی حضرات ہی کیا، اسی فورم پر دیکھ لیجئے۔ 80 مراسلے گذر جانے کے باوجود اس سوال کا جواب دینے میں ہر قسم کے لیت و لعل سے کام لیا جا رہا ہے، ہر غیر متعلقہ چیز کو پکڑ کر بیچ میں گھسیڑا جا رہا ہے، مگر جواب پھر بھی نہیں دیا جا رہا۔
سوال بہت سادہ سا ہے:۔

کیا یہ آپکے عقیدے کے مطابق لوگ خانہ کعبہ کو دونوں ہاتھوں سے مس کر کے اور چوم کر، اور اس کے وسیلے سے اپنی حاجات طلب کر کے شرک کر رہے ہیں؟
کیا داعش سے منسوب بیان کی یہ بات درست ہے کہ خانہ کعبہ شرک کا اڈہ ہے؟
جب آپ لوگ 80 مراسلے گذر جانے کے باوجود اس سوال کا جواب نہ دیں، تو پھر اس رویے کو کیا نام دیں؟
تبرکاتِ نبوی اور کعبہ کے فقط فزیکل برکت سے محروم بے جان پتھر اور اس چومنے کو بدعت و شرک سمجھنے کے متعلق فقط آپکا گمان ہے کہ آپ قرآن و حدیث یا سلف کی پیروی کر رہے ہیں۔ تبرکاتِ نبوی میں آپ انکی پیروی نہیں کر رہے، بلکہ غلطی پر ہیں۔
آپکا عقیدہ بہت غلط ہے اور پھر آپ کو فقط کعبہ کو مس کرتے اور چومتے لوگوں پر ہی نہیں، بلکہ صحابہ پر معاذ اللہ بدتوفیقی اور بدعت و شرک کا فتوی لگانا پڑے گا۔ اوپر بہت روایات پیش ہو چکی ہیں، جہاں وہ ان چیزوں سے برکت حاصل کر رہے ہیں جو کہ رسول (ص) سے مس ہوئیں۔
جسطرح آپ نے اوپر اپنے عقائد کا خلاصہ بیان کیا ہے، ایسے ہی ہم نے بھی بیان کر دیا ہے۔ اگر بیچ میں ہماری طرف سے، یا پھر آپکی طرف سے کوئی استثنیٰ پیش ہوا تو وہ اُدھر ہی اپنے مقام پر ڈسکس ہو جائے گا، جیسا کہ آپ لوگوں کی طرف سے کفار والے واقعات کو غلط طور پر مسلمانوں پر چسپاں کرنا۔
کاش کہ یہ بات 80 مراسلوں کی بجائے شروع سے کی ہوتی۔
پہلی بات:

1) کیا سعودی مفتی حضرات کے عقیدے کے مطابق داعش سے منسوب بیان میں درست بات کی گئی ہے کہ خانہ کعبہ فقط ایک عام پتھر ہے، جس میں کوئی فزیکل برکت نہیں؟
2) کیا سعودی مفتی حضرات کے عقیدے کے مطابق لوگ خانہ کعبہ کو دونوں ہاتھوں سے مس کر کے اور چوم کر، اور اس کے وسیلے سے اپنی حاجات طلب کر کے شرک کر رہے ہیں؟
3) کیا سعودی مفتی حضرات داعش سے منسوب بیان کی اس بات کو درست جانتے ہیں کہ خانہ کعبہ شرک کا اڈہ ہے؟
بات کو اتنا لمبا کرنے کی کیا ضرورت ہے ۔ آپ نے ایک اصول بیان کیا ہے اس کی دلیل اور وضاحت پوچھی جس پر آپ نے چپ سادھ لی ہے ۔
تبرک کی تعریف کیا ہے یہ بیان فرمادیں ۔
ابھی پتہ چل جاتا ہے کہ جس بات پر آپ نے اتنا شور کیا ہوا ہے اس کے بارے میں آپ کی اپنی معلومات کا کیاحال ہے ۔
 

طالب علم

مشہور رکن
شمولیت
اگست 15، 2011
پیغامات
227
ری ایکشن اسکور
574
پوائنٹ
104
میں اس فورم کے معزز اہل توحید بھائیوں اور بہنوں کی یاد دہانی کے لیے پوسٹ کرتا چلوں کہ یہ مہوش علی بہت بڑا فتنہ ہے جیسا کہ یہ دعویٰ کرتی ہے سامری جادوگر نے جبرائیل علیہ السلام کے پاوں کی مٹی اٹھا کر بچھڑے میں سے بیل کی آواز نکال لی تھی اسی طرح یہ احادیث رسول کو توڑ مروڑ کر مسلمانوں کا رخ کعبہ سے موڑ کر کربلا اور نجف کی طرف کرنا چاہتی ہے۔ اس کے دجل و فریب کو سمجھو آپ اس کو سو دلیل بھی دیں گے تو یہ کہے گی یہ موضوع سے متعلق نہیں، آپ ظاہر پرست ہیں، ناصبی ہیں۔۔۔ ابلیسی توحید وغیرہ وغیرہ۔

ان شاء اللہ یہ اس تھریڈ سے ایسے ہی بھاگے کی جس طرح کہ بھاگنے کا حق ہے۔ آپ سے درخواست ہے کہ آخری عشرے کو اس رافضی پر کم سے کم ضائع کریں۔ اس کی ان شاء اللہ لفظی چھترول سب مل کر کر رہے ہیں اور کریں گے ۔۔۔۔۔

لیکن یہ مانے گی کبھی نہیں کیونکہ ماضی میں بھی ایسا ہو چکا ہے۔ ذرا غور کریں کوئی باحیا عورت متعہ کا دفاع کر سکتی ہے لیکن اس نے کیا ہے اردو ویب فورم کی بحثیں اٹھا کر دیکھ لیں۔

ذرا غور کریں یہ 24 گھنٹے ریپلائی کیسے کر سکتی ہے ۔۔۔۔۔؟ جب آپ پوسٹ کریں گے کچھ دیر میں لمبا کاپی پیسٹ ریپلائی آ جائے گا۔ اس کے دجل و فریب کو سمجھیں۔ ہم کوئی غیب دانی کا دعویٰ تو نہیں کرتے لیکن سوچیں تو سہی یہ ایک فرد کی کاوش ہے یا ٹیم ورک

یہ فواد امریکی کی طرح آن مشن ہے اور مجھے سمجھ نہیں آتا کہ ان دونوں میں سے زیادہ ڈھیٹ کون ہے۔

بی بی مہوش علی ۔۔۔ ۔ ۔یہ نہ سمجھنا کہ میں اپنی بات ختم کر رہا ہوں بلکہ میری بات کا ابھی آغاز ہے۔۔۔۔۔۔

ان شاء اللہ اب تمہارے دجل و فریب کا پردہ چاک کر کے چھوڑوں گا اور تم اپنے غیض میں مرتی رہو۔

میں پھر دہراتا ہوں کہ میں اللہ کی خاطر تم سے شدید نفرت کرتا ہوں اس شرک کی وجہ سے جو تم عشرے سے زائد عرصے سے مسلسل پھیلا رہی ہو،
 

وفا

مبتدی
شمولیت
جولائی 15، 2014
پیغامات
48
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
18
بات کو اتنا لمبا کرنے کی کیا ضرورت ہے ۔ آپ نے ایک اصول بیان کیا ہے اس کی دلیل اور وضاحت پوچھی جس پر آپ نے چپ سادھ لی ہے ۔
تبرک کی تعریف کیا ہے یہ بیان فرمادیں ۔
ابھی پتہ چل جاتا ہے کہ جس بات پر آپ نے اتنا شور کیا ہوا ہے اس کے بارے میں آپ کی اپنی معلومات کا کیاحال ہے ۔
عجیب تماشہ ہے۔ رسول (ص) سے مس شدہ چیزوں پانی، پیالہ، چادر، چھڑی، سکہ، جبہ سے صحابہ کے تبرک حاصل کرنے کے بے تحاشہ روایات بطور دلیل پیش کی گئیں۔ اور چپ سادھی گئی تو ان روایات پر سادھی گئی۔۔۔
حیرت کا مقام ہے کہ پھر بھی کیسے آرام سے آپ ادھر آپ الٹی گنگا بہا رہے ہیں اور صحابہ کے تبرکات نبوی سے نفع حاصل کرنے والے واقعے پر آتے ہی نہیں ہیں۔
حیرت کا مقام ہے کہ آپکے ایک ساتھی کتنی آرام سے پھر بھی کفار کے تبرک والے واقعات کو مسلسل مسلمانوں پر چسپاں کر رہے ہیں اور جو رسول (ص) نے مسلمانوں کو اپنے تبرکات سے نفع پہنچانے کے لیے اپنی چادر اور کرتے وغیرہ کو حکم دے کر انکا کفن بنوایا، تو آپ کے یہ ساتھی بھی اس سنتِ نبوی کو ماننے کے لیے تیار ہی نہیں۔


اور کیا تبرک کی تعریف آپ کو نہیں آتی؟ یا پھر آپ صرف اپنے آپ کو ہی عالم سمجھتے ہیں اور دوسروں کو جاہل؟ کیا لفظی تعریف بڑھ جانا، زیادتی ہو جانا کا آپ کو نہیں پتا، یا پھر امام راغب کی تعریف کا نہیں پتا کہ کسی چیز میں اللہ کی طرف سے خیر کاپیدا ہو جانا برکت ہے؟
قرآن نے جن جن چیزوں میں برکت بیان کی ہے کتاب میں برکت، انبیاء میں برکت، افعال میں برکت، مکان میں برکت، زمان میں برکت، کھانے پینے کی اشیاء میں برکت، ان سب پر ہمارا ایمان ہے۔
لیکن یہاں پر ہم جس تبرک کی قسم کی بات کر رہے ہیں، وہ یہ ہے:
" (صحیح مسلم)۔۔۔۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ جبہ پہنا کرتے تھے اور ہم اس جبہ کو دھو کر(اس کا پانی) شفاء کے لئے بیماروں کو پلاتے ہیں" ہمارے نزدیک یہ شفا، یہ نفع بھی تبرک ہے۔ مگر آپ رسول (ص) مس شدہ چیزوں سے تبرک سے ایک بہانے یا دوسرے بہانے فرار کے چکر میں ہیں، حالانکہ ان میں مسلمانوں کے لیے اللہ کے اذن سے شفا و نفع ہے۔
 
Top