جناب!!! جیسا کہ میں نے تحریر کیا تھا ،کہ آپ جو بھی تعریف تحریر فرمائیں گے؛ اُس کا بہترین اور واحد مصداق آپ کا آجر اور اُس کا ولد الحرام ہوں گے۔ اور اِس حقیقت کا ادراک بھی محض اُن مسلمانوں پر ہے، جو اِس آیت کے مخاطب نہیں ہیں؛
هَا أَنْتُمْ هَؤُلَاءِ جَادَلْتُمْ عَنْهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا فَمَنْ يُجَادِلُ اللَّهَ عَنْهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَمْ مَنْ يَكُونُ عَلَيْهِمْ وَكِيلًا[سورۃ النساء؛ ۱۰۹] "بھلا تم لوگ دنیا کی زندگی میں تو اُن کی طرف سے بحث کر لیتے ہو، قیامت کو اُن کی طرف سے خدا کے ساتھ کون جھگڑے گا اور کون اُن کا وکیل بنے گا؟
یاد رہے یہ آیت منافقین کی وکالت سے متعلق ہے، نہ کہ کفار کی؛ معلوم نہیں کہ کفار کے وکیلوں کے ساتھ قیامت کے دن کیا معاملہ ہو گا۔
مزید وہ نصیحت، جو میں نے ایک دوسری پوسٹ میں آپ کی خدمت میں کی تھی، اُس کا ایک پہلو وہاں قلم بند ہونے سے رہ گیا تھا، آپ کی خدمت میں پیش ہے؛
سوال نمبر ۲: کیا عام، غیر اسلام دشمن کافر سے برابری کی بنیاد پر تعلقات عقیدہ الولا والبراء کے منافی ہیں؟
اللہ سبحان و تعالٰی کی نظر میں ایک کافر [اسلام دشمن یا غیر اسلام دشمن] کی وقعت اور حیثیت ایک چوپایہ کے برابر بھی نہیں ہے؛ کُجا کہ کسی مسلمان کے ساتھ اُس کی برابری کا تصور کیا جا سکے۔
ü وَلَقَدْ ذَرَأْنَا لِجَهَنَّمَ كَثِيرًا مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ لَهُمْ قُلُوبٌ لَا يَفْقَهُونَ بِهَا وَلَهُمْ أَعْيُنٌ لَا يُبْصِرُونَ بِهَا وَلَهُمْ آذَانٌ لَا يَسْمَعُونَ بِهَا أُولَئِكَ كَالْأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ أُولَئِكَ هُمُ الْغَافِلُونَ [سورۃ الانعام؛ ۱۷۹] " اور ہم نے بہت سے جن اور انسان دوزخ کے لیے پیدا کیے ہیں۔ اُن کے دل ہیں لیکن اُن سے سمجھتے نہیں اور اُن کی آنکھیں ہیں مگر اُن سے دیکھتے نہیں اور اُن کے کان ہیں پر اُن سے سنتے نہیں۔ یہ لوگ بالکل چارپایوں کی طرح ہیں بلکہ اُن سے بھی بھٹکے ہوئے۔ یہی وہ ہیں جو غفلت میں پڑے ہوئے ہیں"۔
مزید فرمایا؛
ü لَا يَسْتَوِي أَصْحَابُ النَّارِ وَأَصْحَابُ الْجَنَّةِ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ هُمُ الْفَائِزُونَ [سورۃ الحشر؛ ۲۰] "اہل دوزخ اور اہل بہشت برابر نہیں۔ اہل بہشت تو کامیابی حاصل کرنے والے ہیں"۔
تعلقات کی اقسام میں؛ دوستی ہی وہ پہلا تعلق ہے، جو دو اشخاص کے بیچ میں، برابری کی سطح کے تعلقات کا متقاضی ہوتا ہے، تو اِس کے بارے میں قرآن کا فتویٰ مندرجہ ذیل ہے [اسلام دشمن یا غیر اسلام دشمن کی قید کے بغیر]
ü لَا يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِينَ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ فَلَيْسَ مِنَ اللَّهِ فِي شَيْءٍ ۔۔۔۔۔[سورۃ آل عمران ؛ ۲۸] "مؤمنوں کو چاہئے کہ مؤمنوں کے سوا کافروں کو دوست نہ بنائیں اور جو ایسا کرے گا اُس سے خدا کا کچھ (عہد) نہیں ۔۔۔۔۔"۔
مزید سوچنے کا مقام یہ ہے کہ؛ جو دین ایک مسلمان اور کافر کے بیچ میں برابری کے تعلقات کوہی ممنوع قرار دیتا ہو، وہیں کوئی کافر [اسلام دشمن یا غیر اسلام دشمن ] کسی مسلمان پر "قوّام" [Position of Authority] کیسے مقرر ہو سکتا ہے؟؟؟؟ یہی وہ نکتہ ہے، جس کے تحت مسلمان مرد کو تو اہل کتاب کی خواتین سے شادی کی اجازت ہے مگر مسلمان خواتین کے لیے یہ فعل حرام ہے۔