• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

داعش کا حقيقی چہرہ

شمولیت
جولائی 12، 2017
پیغامات
50
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
18
مسلم اور غير مسلم ميں سے کسی ايک کا انتخاب کيا جا رہا ہے
اِس بات کی صداقت تو آپ پر واجب ہے، کیونکہ دلائل کی رو سے حمایت کرنے کا انتخابی رویہ تو آپ کا ہے، میں نے تو صرف آپ کے آجر اور اُس کے ولد الحرام کی مذمت کی ہے، ابھی تک کسی کی حمایت میں دلیل پیش ہی نہیں کی۔

ميں نے آپ کے دلائل اور مذہبی حوالے تفصيل سے پڑھے ہيں۔ ميں اس بات کی منطق سمجھنے سے قاصر ہوں
جناب! میں نے پہلے ہی اپنی پچھلی پوسٹ میں ذکر کیا تھا، کہ یہ مسئلہ ہر اُس شخص کی" منطق" سے اوپر کا ہے، جو نقل کے بجائے عقل کا پیروکار ہو۔ میرے قرآن و حدیث کے نقلی دلائل صرف حجت پیش کرنے کے لیے ہیں ؛ اُن سے کس کو ہدایت نصیب ہو، یہ تو فقط اللہ کی توفیق ہے۔

ميں ايک امريکی مسلمان ہوں
مزید یہ کہ مسلمان پہلے مسلمان ہوتا ہے، نہ کہ پہلے امریکی، برطانوی یا پاکستانی وغیرہ ؛ اِس کی تمام نسبتیں اللہ اور اُس کے رسولﷺ سے ہوتیں ہیں اور باقی تمام نسبتیں اِس کے تابع۔
يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنْثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ [سورۃ الحجرات ؛ ۱۳] " لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہاری قومیں اور قبیلے بنائے۔ تاکہ ایک دوسرے کو شناخت کرو۔ اور خدا کے نزدیک تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے۔ بےشک خدا سب کچھ جاننے والا (اور) سب سے خبردار ہے"۔
اس ملک کے آئين کے تحت اپنی ذمہ داری پوری کرتا ہوں
جو فخر آپ کو امریکی آئین کی غلامی پر ہے ، پس اسلامی آئین، یعنی شریعت کی شکل میں، اِسی غلامی کا مطالبہ اللہ اور اُس کا رسولﷺ کرتا ہے۔
الَّذِينَ يَتَّخِذُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِينَ أَيَبْتَغُونَ عِنْدَهُمُ الْعِزَّةَ فَإِنَّ الْعِزَّةَ لِلَّهِ جَمِيعًا[سورۃ النساء ؛ ۱۳۹] "جو مومنوں کو چھوڑ کر کافروں کو دوست بناتے ہیں۔ کیا یہ ان کے ہاں عزت حاصل کرنا چاہتے ہیں تو عزت تو سب خدا ہی کی ہے"

امريکی حکومت نے دہشت گردوں، ان کے سرغناؤں اور ان گروہوں کے خلاف ايک مستقل سخت موقف اختيار کيا ہے جو مذہب کے نام پر اپنی صفوں ميں مجرموں کو شامل کر کے دنيا بھر کے عام شہريوں کے خلاف خونی کاروائياں کرتے ہيں۔
جناب آپ کے لیے تو نہیں ،مگر دیگر قارئین کی خدمت میں عرض ہے کہ وہ آپ کے آجر اور اُس کے ولد الحرم کی کابینہ اور حکومتی اداروں میں موجود، صف اول کے لوگوں کے بارے میں، سرسری سی بھی تحقیق کر لیں، تو انشاء اللہ انہیں آپ کے بیان کردہ "سخت موقف" کا بخوبی اندازہ ہو جائے گا۔

يہ امر نا صرف يہ ہمارے آئين اور بنيادی اصولوں اور اقدار کے منافی ہے بلکہ اس کی کوئ منطق اور توجيہہ بھی پيش نہيں کی جا سکتی ہے
جناب آپ ایک سیکولر نہیں ،مذہبی فورم پر طبع آزمائی فرما رہے ہیں، وہ بھی ایک اہل حدیث فورم پر؛ تو اگر قرآن اور حدیث کی دلیل کے مد مقابل قرآن اور حدیث کی دلیل پیش کر سکتے ہیں تو کریں، نہ کہ "آئین، بنیادی اصولوں، اقدار، منطق یا توجیہ" کی، کیونکہ یہ قرآن اور حدیث کی بے حرمتی ہے؛

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ أَنْ تَحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَأَنْتُمْ لَا تَشْعُرُونَ [سورۃ الحجارت ؛ ۲] " اے اہل ایمان! اپنی آوازیں پیغمبر کی آواز سے اونچی نہ کرو اور جس طرح آپس میں ایک دوسرے سے زور سے بولتے ہو (اس طرح) ان کے روبرو زور سے نہ بولا کرو (ایسا نہ ہو) کہ تمہارے اعمال ضائع ہو جائیں اور تم کو خبر بھی نہ ہو"۔
جس طرح اپنی زندگی میں رسول اللہﷺ کو یہ مقام حاصل تھا بعینہ یہی مقام آج قرآن اور حدیث کو حاصل ہے۔

لاکھوں کی تعداد ميں مسلمان امريکی معاشرے کا حصہ ہيں اور امريکی فوج اور حکومت سميت انگنت شعبوں ميں اپنے فرائض بھی انجام دے رہے ہيں اور ترقی بھی کر رہے ہيں۔
وہ بھی نوکری پیشہ ہیں، ہمارے حکمرانوں اور آپ کی طرح؛ مزید ،کثرت کے بارے میں تو قرآن کا فتوی مندرجہ ذیل ہے؛​
۔۔۔۔۔بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ [سورۃ البقرۃ ؛ ۱۰۰] "۔۔۔۔۔ حقیقت یہ ہے کہ اِن میں اکثر بے ایمان ہیں"
۔۔۔۔۔ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ [سورۃ الانعام؛ ۳۷] "۔۔۔۔۔لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے"
۔۔۔۔۔ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ يَجْهَلُونَ [سورۃ الانعام؛ ۱۱۱] "۔۔۔۔۔ بات یہ ہے کہ یہ اکثر نادان ہیں"
اور جس "ترقی" کا آپ ذکر کر رہے ہیں، اُس کے بارے میں تو قرآن کا فرمان مندرجہ ذیل ہے؛
كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ وَإِنَّمَا تُوَفَّوْنَ أُجُورَكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَأُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ [سورۃ آل عمران ؛ ۱۸۵] " ہر متنفس کو موت کا مزا چکھنا ہے اور تم کو قیامت کے دن تمہارے اعمال کا پورا پورا بدلا دیا جائے گا۔ تو جو شخص آتش جہنم سے دور رکھا گیا اور بہشت میں داخل کیا گیا وہ مراد کو پہنچ گیا اور دنیا کی زندگی تو دھوکے کا سامان ہے"۔


اور ريکارڈ کی درستگی کے ليے يہ بھی واضح کر دوں کہ امريکی فوج، حکومتی ادارے اور تنظيميں دنيا بھر کے مسلمانوں کے خلاف برسرپيکار قوتيں نہيں ہيں
یقیناً آپ نے صحیح فرمایا، کیونکہ دنیا بھر کے مسلمان، بشمول آپ جیسے لاکھوں مسلمانوں سے ،نہ لڑنے کی وجہ مندرجہ ذیل حدیث میں واضح ہے؛

عبداللہ بن عمرو ﷜راوی ہیں، کہ سرکار دو عالمﷺ نے ارشاد فرمایا "بلاشبہ میری امت پر (ایک ایسا زمانہ آئے گا جیسا کہ بنی اسرائیل پر آیا تھا اور دونوں میں ایسی مماثلت ہوگی) جیسا کہ دونوں جوتے بالکل برابر اور ٹھیک ہوتے ہیں، یہاں تک کہ بنی اسرائیل میں سے اگر کسی نے اپنی ماں کے ساتھ علانیہ بدفعلی کی ہوگی، تو میری امت میں بھی ایسے لوگ ہوں گے جو ایسا ہی کریں گے اور بنی اسرائیل بہتر فرقوں میں تقسیم ہوگئے تھے، میری امت تہتر فرقوں میں تقسیم ہوجائے گی اور وہ تمام فرقے دوزخی ہوں گے اُن میں سے صرف ایک فرقہ جنتی ہوگا۔ صحابہ﷢ نے عرض کیا! "یا رسول اللہﷺ! جنتی فرقہ کون سا ہوگا؟" آپﷺ نے فرمایا " جس میں ،میں اور میرے صحاب ہوں گے"۔ (جامع ترمذی ) اور مسند احمد بن حنبل و ابوداؤد نے جو روایت معاویہ سے نقل کی ہے، اُس کے الفاظ یہ ہیں ،کہ بہتر گروہ دوزخ میں جائیں گے اور ایک گروہ جنت میں جائے گا اور وہ جنتی گروہ " جماعت" ہے اور میری امت میں کئی قومیں پیدا ہوں گی، جن میں خواہشات ،یعنی عقائد و اعمال میں بدعات ،اِسی طرح سرائیت کر جائیں گی ،جس طرح ہڑک والے میں ہڑک سرایت کر جاتی ہے، کہ کوئی رگ اور کوئی جوڑ اُس سے باقی نہیں رہتا۔"
[ مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ کتاب اور سنت کو مضبوطی سے پکڑنے کا بیان ۔ حدیث ۱۶۷]

مثال کے طور پرامريکی فوج کے مسلمان بھی دیگر امريکی مسلمان شہريوں کی طرح ديگر مذہبی فرائض کی طرح رمضان کے مقدس مہينے کو پورے مذہبی جوش وخروش سے مناتے ہيں۔
بلا شبہ جناب جہاں قوم لوط کے پیروکاروں کو، آپ کے آجر نے آزادی دی، وہیں امت محمدیہ پر بھی اُن کا احسان عظیم ہے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
بحث مباحثہ آپ جس موضوع پر بھی چاہیں کریں! اپنے مؤقف کو پرزور طریقہ سے ثابت کیجیئے، اور دوسرے فریق کے مؤقف کو رد کیجیئے!
مگر ''ولد الحرام'' جیسے الفاذ سے گریز کیجیئے!
 
شمولیت
جولائی 12، 2017
پیغامات
50
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
18
مگر ''ولد الحرام'' جیسے الفاذ سے گریز کیجیئے
جناب اِس کے چار جواب ہیں؛

اول
؛ اِس الفاظ کا استعمال اور اُن صاحب کے معاشرہ میں، ایسے افراد کی کثرت کے باعث ؛ اِس لفظ کا استعمال سرکاری طور پر بھی اُن صاحب کے معاشرہ میں باعث شرم نہیں ہے، تو وہ کسی بھی غیرت کے تحت ،اِس لفظ کے استعمال کو ممنوع قرار دے کر اپنے ہی "آئین، بنیادی اصولوں، اقدار، منطق یا توجیہ" کی خلاف ورزی نہیں کریں گئے۔

دوم
؛ اگر وہ صاحب اپنے آجر کی دی ہوئی عینک کو اتار دیں اور ایک بار سب سے پہلے مسلمان ہو کر غور کریں؛ تو جس ملک کی پیدائش اور اِس کا وجود مسلمانوں کے نزدیک ناجائز ہو، اس کے لیے آخر وہ کون سی اصطلاح کے استعمال کو جائز سمجھیں گے۔

سوم
؛ مندرجہ ذیل حدیث میں مسلمانوں کے ایک گروہ کا ذکر ہے جو جہاد فی سبیل اللہ جیسی فرض عبادت کی ادائیگی میں کم از کم دجال کے آنے تک ضرور مصروف رہے گا؛

حضرت عمران بن حصین﷜ سے مروی ہے کہ نبیﷺ نے ارشاد فرمایا "میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ
حق پر قائم رہے گا اور اپنے مخالفین پر غالب رہے گا، یہاں تک کہ اُن کا آخری حصہ دجال سے قتال کرے گا[مسند احمد ۔ جلد نہم ۔ حدیث ۱۴۷]

اس موضوع پر متعدد صحیح احادیث کے باوجود؛ صریحاً رسول اللہ کو
[اعوذ باللہ من ذالک] جھٹلاتے ہوئے، ان جیسے نام نہاد مسلمانوں کو ،جہاد میں مصروف تمام مسلمانوں کو "دہشت گرد" کا لقب دینے سے نہ تو خوف آتا ہے اور نہ ہی شرم، مگر آپ مجھ سے اس بات کے متقاضی ہیں کہ میں "ولد الحرام" کو ولد الحرام بھی نہ کہوں۔

چہارم
؛ ہمارے دین میں، کفار کی عموماً اور حربی کافر کی خصوصاً، عزت کرنا ممنوع ہے؛ مطالعہ کے لیے تفسیر ابن کثیر میں سے ایک اقتباس پیش خدمت ہے۔
سورة التوبة آیت نمبر ۲۹ کی عملی شکل بمطابق اجماع صحابہ﷢
بحوالہ تفسیر ابن کثیر﷬

ارشاد الہی ہے [
حتی یعطو الجزیہ] یعنی اگر وہ اسلام قبول نہ کریں تو جزیہ دیں، [عن ید "اپنے ہاتھ سے"] یعنی مقہور اور مغلوب ہو کر، [و ھم صاغرون] یعنی ذلیل و خوار اور رسوا ہو کر۔ یہی وجہ ہے کہ اہل ذمہ کی عزت کرنا جائز نہیں اور نہ یہ جائز ہے کہ انہیں مسلمانوں پر کوئی فوقیت دی جائے، بلکہ وہ تو ذلیل و حقیر اور بد بخت ہیں؛ جیسا کہ صحیح مسلم میں حضرت ابو ہریرہ﷜ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا "یہود و نصارٰی کو سلام میں پہل نہ کرو اور جب رستے میں اُن میں سے کسی سے ملاقات ہو ،تو اُسے تنگ حصے کی طرف مجبور کر دو"۔ یہی وجہ ہے ،کہ امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب ﷜نے توہین و تذلیل کی تمام معروف شرطیں اُن پر عائد کر دی تھیں۔ آئمہ حفاظ نے عبد الرحمان بن غنم اشعری کی روایت کو بیان کیا ہے، کہ جب حضرت عمر﷜ نے شام کے عیسائیوں سے مصالحت کی، تو میں نے یہ دستاویز لکھی تھی؛
بسم اللہ الرحمان الرحیم
"یہ امیر المومنین، اللہ کے بندے عمر﷜ کے لیے "فلاں فلاں شہر" کے نصارٰی کی طرف سے معاہدہ ہے، کہ جب تم ہمارے پاس آئے، تو ہم نے تم سے، اپنی جانوں، اولادوں، مالوں اور اہل ملت کے لیے امن طلب کیا اور تم سے یہ شرط طے کی، کہ ہم اپنے شہر اور اُس کے گرد وپیش میں کوئی گرجا، کنیسہ، نہ کسی راہب کی خانقاہ بنائیں گے، نہ کسی خراب گرجا وغیرہ کی مرمت ہی کریں گے اور مسلمان جہاں رہائش پذیر ہیں، وہاں نئے بھی نہیں بنائیں گے اور دن ہو یا رات، ہم کسی وقت بھی اپنے کنیسوں میں داخل ہونے والے کسی مسلمان کو منع نہیں کریں گے، مسافروں اور راہ چلتے لوگوں کے لیے، اُن کے دروازوں کو کھلا رکھیں گے، جو مسلمان ہمارے پاس آئے گا ،ہم تین دن تک اُس کی مہمان نوازی کریں گے، ہم اپنے گرجوں گھروں میں کسی جاسوس کو جگہ نہیں دیں گے، مسلمانوں سے دھوکے فریب کی کوئی بات نہیں چھپائیں گے۔
ہم اپنی اولاد کو قرآن نہیں سکھائیں گے، شرک کا اظہار نہیں کریں گے، نہ کسی کو اُس کی دعوت دیں گے، اگر ہمارے رشتہ داروں میں سے کوئی اسلام کو قبول کرنا چاہیے گا تو ہم اُس کو منع نہیں کریں گے، ہم مسلمانوں کی عزت کریں گے، جب وہ بیٹھنا چاہیں گے تو اپنی مجلسوں سے اُن کے لیے اٹھ کھڑے ہوں گے، ہم ٹوپی، عمامہ، جوتوں اور بالوں کے سٹائل وغیرہ ،کسی چیز میں بھی مسلمانوں کی مشابہت اختیار نہیں کریں گے، ہم اُن کی زبان نہیں بولیں گے، ہم اُن کی کنیتیں نہیں رکھیں گے، زین والے گھوڑے پر سوار نہیں ہوں گے، تلوار نہیں لٹکائیں گے، کوئی بھی اسلحہ نہیں لیں گے اور نہ اُسے اپنے ساتھ رکھیں گے، اپنی انگوٹھیوں پر عربی میں نقش نہیں کرائیں گے، شرابیں نہیں بیچیں گے، اپنے سروں کے اگلے بالوں کو کٹوا دیں گے، جہاں کہیں بھی ہوں گے صفائی کا خیال رکھیں گے، زُنّار اپنی کمروں پر ضرور لٹکائے رکھیں گے، صلیب کا نشان اپنے گرجوں پر ظاہر نہیں کریں گے، اپنی صلیبوں اور کتابوں کو مسلمانوں کے راستوں اور بازاروں میں ظاہر نہیں کریں گے، اپنے گرجوں میں ناقوس بہت آہستہ آواز میں بجائیں گے، مسلمانوں کی موجودگی میں ہم اونچی آواز سے اپنی کتابوں کو نہیں پڑھیں گے۔
ہم اپنے مذہبی شعار، مثلاً
شَعَانِین اور بَاعُوت راستوں میں انجام نہیں دیں گے، ہم اپنے مُردوں پر اونچی آواز میں بین نہیں کریں گے، اور نہ اُن کے ساتھ مسلمانوں کے رستوں اور بازاروں میں آگ لے کر چلیں گے۔ قبرستان میں مسلمانوں کے پڑوس میں اپنے مُردوں کو دفن نہیں کریں گے، مسلمانوں کے حصہ میں آئے ہوئے غلام ہم نہیں لیں گے، ہم مسلمانوں کی خیر خواہی تو کرتے رہیں گے لیکن اُن کے گھروں میں نہیں جھانکیں گے۔"
راوی کا بیان ہے، کہ جب میں یہ معاہدہ لکھ کر حضرت عمر فاروق﷜ کی خدمت میں حاضر ہوا، تو آپ نے اِس میں یہ اضافہ بھی فرما دیا؛ "ہم کسی بھی مسلمان کو نہیں ماریں گے، ہم تمھاری طرف سے اپنے لیے اور اپنے اہل قبلہ و ملت کے لیے اِن شرائط کو قبول کر کے امان کو قبول کرتے ہیں۔ اگر ہم نے اِن میں سے کسی شرط کی خلاف ورزی کی، جو ہم نے لگائی ہیں اور اپنے اوپر لاگو کی ہیں، تو پھر ہم سے آپ کا ذمہ دور ہو جائے گا اور ہم اُس سزا کے مستحق ہوں گے جو عہد شکنی کرنے والے، معاندین اور اختلاف کو بڑھانے والے کو ملتی ہے۔"
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
جناب اِس کے چار جواب ہیں؛

اول
؛ اِس الفاظ کا استعمال اور اُن صاحب کے معاشرہ میں، ایسے افراد کی کثرت کے باعث ؛ اِس لفظ کا استعمال سرکاری طور پر بھی اُن صاحب کے معاشرہ میں باعث شرم نہیں ہے، تو وہ کسی بھی غیرت کے تحت ،اِس لفظ کے استعمال کو ممنوع قرار دے کر اپنے ہی "آئین، بنیادی اصولوں، اقدار، منطق یا توجیہ" کی خلاف ورزی نہیں کریں گئے۔

دوم
؛ اگر وہ صاحب اپنے آجر کی دی ہوئی عینک کو اتار دیں اور ایک بار سب سے پہلے مسلمان ہو کر غور کریں؛ تو جس ملک کی پیدائش اور اِس کا وجود مسلمانوں کے نزدیک ناجائز ہو، اس کے لیے آخر وہ کون سی اصطلاح کے استعمال کو جائز سمجھیں گے۔

سوم
؛ مندرجہ ذیل حدیث میں مسلمانوں کے ایک گروہ کا ذکر ہے جو جہاد فی سبیل اللہ جیسی فرض عبادت کی ادائیگی میں کم از کم دجال کے آنے تک ضرور مصروف رہے گا؛

حضرت عمران بن حصین﷜ سے مروی ہے کہ نبیﷺ نے ارشاد فرمایا "میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ
حق پر قائم رہے گا اور اپنے مخالفین پر غالب رہے گا، یہاں تک کہ اُن کا آخری حصہ دجال سے قتال کرے گا[مسند احمد ۔ جلد نہم ۔ حدیث ۱۴۷]

اس موضوع پر متعدد صحیح احادیث کے باوجود؛ صریحاً رسول اللہ کو
[اعوذ باللہ من ذالک] جھٹلاتے ہوئے، ان جیسے نام نہاد مسلمانوں کو ،جہاد میں مصروف تمام مسلمانوں کو "دہشت گرد" کا لقب دینے سے نہ تو خوف آتا ہے اور نہ ہی شرم، مگر آپ مجھ سے اس بات کے متقاضی ہیں کہ میں "ولد الحرام" کو ولد الحرام بھی نہ کہوں۔

چہارم
؛ ہمارے دین میں، کفار کی عموماً اور حربی کافر کی خصوصاً، عزت کرنا ممنوع ہے؛ مطالعہ کے لیے تفسیر ابن کثیر میں سے ایک اقتباس پیش خدمت ہے۔
سورة التوبة آیت نمبر ۲۹ کی عملی شکل بمطابق اجماع صحابہ﷢
بحوالہ تفسیر ابن کثیر﷬

ارشاد الہی ہے [
حتی یعطو الجزیہ] یعنی اگر وہ اسلام قبول نہ کریں تو جزیہ دیں، [عن ید "اپنے ہاتھ سے"] یعنی مقہور اور مغلوب ہو کر، [و ھم صاغرون] یعنی ذلیل و خوار اور رسوا ہو کر۔ یہی وجہ ہے کہ اہل ذمہ کی عزت کرنا جائز نہیں اور نہ یہ جائز ہے کہ انہیں مسلمانوں پر کوئی فوقیت دی جائے، بلکہ وہ تو ذلیل و حقیر اور بد بخت ہیں؛ جیسا کہ صحیح مسلم میں حضرت ابو ہریرہ﷜ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا "یہود و نصارٰی کو سلام میں پہل نہ کرو اور جب رستے میں اُن میں سے کسی سے ملاقات ہو ،تو اُسے تنگ حصے کی طرف مجبور کر دو"۔ یہی وجہ ہے ،کہ امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب ﷜نے توہین و تذلیل کی تمام معروف شرطیں اُن پر عائد کر دی تھیں۔ آئمہ حفاظ نے عبد الرحمان بن غنم اشعری کی روایت کو بیان کیا ہے، کہ جب حضرت عمر﷜ نے شام کے عیسائیوں سے مصالحت کی، تو میں نے یہ دستاویز لکھی تھی؛
بسم اللہ الرحمان الرحیم
"یہ امیر المومنین، اللہ کے بندے عمر﷜ کے لیے "فلاں فلاں شہر" کے نصارٰی کی طرف سے معاہدہ ہے، کہ جب تم ہمارے پاس آئے، تو ہم نے تم سے، اپنی جانوں، اولادوں، مالوں اور اہل ملت کے لیے امن طلب کیا اور تم سے یہ شرط طے کی، کہ ہم اپنے شہر اور اُس کے گرد وپیش میں کوئی گرجا، کنیسہ، نہ کسی راہب کی خانقاہ بنائیں گے، نہ کسی خراب گرجا وغیرہ کی مرمت ہی کریں گے اور مسلمان جہاں رہائش پذیر ہیں، وہاں نئے بھی نہیں بنائیں گے اور دن ہو یا رات، ہم کسی وقت بھی اپنے کنیسوں میں داخل ہونے والے کسی مسلمان کو منع نہیں کریں گے، مسافروں اور راہ چلتے لوگوں کے لیے، اُن کے دروازوں کو کھلا رکھیں گے، جو مسلمان ہمارے پاس آئے گا ،ہم تین دن تک اُس کی مہمان نوازی کریں گے، ہم اپنے گرجوں گھروں میں کسی جاسوس کو جگہ نہیں دیں گے، مسلمانوں سے دھوکے فریب کی کوئی بات نہیں چھپائیں گے۔
ہم اپنی اولاد کو قرآن نہیں سکھائیں گے، شرک کا اظہار نہیں کریں گے، نہ کسی کو اُس کی دعوت دیں گے، اگر ہمارے رشتہ داروں میں سے کوئی اسلام کو قبول کرنا چاہیے گا تو ہم اُس کو منع نہیں کریں گے، ہم مسلمانوں کی عزت کریں گے، جب وہ بیٹھنا چاہیں گے تو اپنی مجلسوں سے اُن کے لیے اٹھ کھڑے ہوں گے، ہم ٹوپی، عمامہ، جوتوں اور بالوں کے سٹائل وغیرہ ،کسی چیز میں بھی مسلمانوں کی مشابہت اختیار نہیں کریں گے، ہم اُن کی زبان نہیں بولیں گے، ہم اُن کی کنیتیں نہیں رکھیں گے، زین والے گھوڑے پر سوار نہیں ہوں گے، تلوار نہیں لٹکائیں گے، کوئی بھی اسلحہ نہیں لیں گے اور نہ اُسے اپنے ساتھ رکھیں گے، اپنی انگوٹھیوں پر عربی میں نقش نہیں کرائیں گے، شرابیں نہیں بیچیں گے، اپنے سروں کے اگلے بالوں کو کٹوا دیں گے، جہاں کہیں بھی ہوں گے صفائی کا خیال رکھیں گے، زُنّار اپنی کمروں پر ضرور لٹکائے رکھیں گے، صلیب کا نشان اپنے گرجوں پر ظاہر نہیں کریں گے، اپنی صلیبوں اور کتابوں کو مسلمانوں کے راستوں اور بازاروں میں ظاہر نہیں کریں گے، اپنے گرجوں میں ناقوس بہت آہستہ آواز میں بجائیں گے، مسلمانوں کی موجودگی میں ہم اونچی آواز سے اپنی کتابوں کو نہیں پڑھیں گے۔
ہم اپنے مذہبی شعار، مثلاً
شَعَانِین اور بَاعُوت راستوں میں انجام نہیں دیں گے، ہم اپنے مُردوں پر اونچی آواز میں بین نہیں کریں گے، اور نہ اُن کے ساتھ مسلمانوں کے رستوں اور بازاروں میں آگ لے کر چلیں گے۔ قبرستان میں مسلمانوں کے پڑوس میں اپنے مُردوں کو دفن نہیں کریں گے، مسلمانوں کے حصہ میں آئے ہوئے غلام ہم نہیں لیں گے، ہم مسلمانوں کی خیر خواہی تو کرتے رہیں گے لیکن اُن کے گھروں میں نہیں جھانکیں گے۔"
راوی کا بیان ہے، کہ جب میں یہ معاہدہ لکھ کر حضرت عمر فاروق﷜ کی خدمت میں حاضر ہوا، تو آپ نے اِس میں یہ اضافہ بھی فرما دیا؛ "ہم کسی بھی مسلمان کو نہیں ماریں گے، ہم تمھاری طرف سے اپنے لیے اور اپنے اہل قبلہ و ملت کے لیے اِن شرائط کو قبول کر کے امان کو قبول کرتے ہیں۔ اگر ہم نے اِن میں سے کسی شرط کی خلاف ورزی کی، جو ہم نے لگائی ہیں اور اپنے اوپر لاگو کی ہیں، تو پھر ہم سے آپ کا ذمہ دور ہو جائے گا اور ہم اُس سزا کے مستحق ہوں گے جو عہد شکنی کرنے والے، معاندین اور اختلاف کو بڑھانے والے کو ملتی ہے۔"
یہ سب آپ نے دوران مباحثہ گالی دینے کے حق میں لکھا ہے!
کمال ہی ہوگیا!
 
شمولیت
جولائی 12، 2017
پیغامات
50
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
18
یہ سب آپ نے دوران مباحثہ گالی دینے کے حق میں لکھا ہے
وعلیکم اسلام و رحمۃ اللہ و برکارتہ؛

جناب؛ تمام پوسٹ آپ جیسے علماء حضرات کے لیے نہیں ہوتیں؛ خصوصاً میری کسی بھی پوسٹ کے مخاطب علماء حضرات نہیں ہوتے، اُن سے تو میں ہمیشہ رہنمائی اور بامقصد اصلاح کا طالب ہوتا ہوں۔ کسی بھی فورم پر جواب ،میں ہمیشہ اپنے جیسے طلباء کی ذہنی تسلی کے لیے جواب تحریر کرتا ہوں؛ اور جواب میں میری نظر جواب کی لمبائی پر نہیں مگر بلکہ اس نقطہ نظر پر ہوتی ہے جو قارئین تک پہنچانا مقصود ہے۔

آدھی اور ادھوری بات نہ صرف بے مقصد ہوتی ہے، بلکہ بیشتر اوقات اپنے ہی موقف سے ناواقفیت اور بے مقصد بحث کا پیش خیمہ ہوتی ہے، جس کے مظاہر نہ صرف اس فورم پر بلکہ بیشتر دینی فورمز پر موجود ہیں۔
 
شمولیت
جولائی 12، 2017
پیغامات
50
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
18
کمال ہی ہوگیا
جناب یہ میرے "کمال" کی نہیں، بلکہ میرے "طالب علم" ہونے کی مثال ہے؛ کیوں کہ ایک عالم کبھی اُن باتوں کے جواب میں اپنا وقت صرف نہیں کرتا، جس کا فائدہ نہ اُس کے پوچھنے والے کو ہو اور نہ ہی اُس کے پڑھنے والوں کو۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
جناب؛ تمام پوسٹ آپ جیسے علماء حضرات کے لیے نہیں ہوتیں؛ خصوصاً میری کسی بھی پوسٹ کے مخاطب علماء حضرات نہیں ہوتے، اُن سے تو میں ہمیشہ رہنمائی اور بامقصد اصلاح کا طالب ہوتا ہوں۔ کسی بھی فورم پر جواب ،میں ہمیشہ اپنے جیسے طلباء کی ذہنی تسلی کے لیے جواب تحریر کرتا ہوں؛ اور جواب میں میری نظر جواب کی لمبائی پر نہیں مگر بلکہ اس نقطہ نظر پر ہوتی ہے جو قارئین تک پہنچانا مقصود ہے۔
میرے بھائی! یہ حقیقت ہے کہ بعض لوگوں کو مخالف کو گالی دے کر ''ذہنی تسلی'' حاصل ہوتی ہے، مگر یہ درست نہیں!
اب مباحثہ میں اگلے فریق نے بھی آپ کے حق میں ایسے ہی کلمات ادا کیئے تو کہیئے گا؟
آپ بلکل بھرپور جواب دیں، میری گذارش صرف گالی والے الفاظ سے گریز کرنے کی ہے!
 
Last edited:
شمولیت
جولائی 12، 2017
پیغامات
50
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
18
آپ بلکل بھرپور جواب دیں، میری گذارش صرف گالی والے الفاظ سے گریز کرنے کی ہے!
جناب انتہائی حیرانگی کی بات ہے، کہ تین مسلمان کفار کے متعلق بات کر رہے ہوں، جن میں سے دو کو اُن کی عزت کی پروا ہو ،جن کی عزت کی پروا، نہ اللہ نے کی اور نہ اُس کے رسولﷺنے؛ قرآن نے اُن کو "بندر"، "سور"، "جانوروں سے بدتر" اور "طاغوت کے غلام "جیسی "گالیوں" سے نوازا، مگر آپ کو ولد الحرام میں اُن کی بے عزتی نظر آتی ہے ، جو روز ہماری بہن عافیہ صدیقی جیسی بے تحاشہ مسلمان عورتوں کی عزتوں سے کھیلتے ہوں ، غزہ، ڈمہ دولہ اور قندوز جیسے واقعات میں اَن گِنت ننھے شہداء کا تحفہ اِس اُمت کو دیتے ہوں۔

جناب؛ قرآن میں صرف اُن کے باطل خداوں کو گالی دینا منع ہے اور اُس کی توجیہ بھی اُسی آیت میں مذکور ہے؛ چنانچہ میرے نزدیک آپ کا موقف بے دلیل اور ذاتی نوعیت کا ہے؛ اگر قرآن یا حدیث میں سے حربی کفار کی عزت کی کوئی دلیل دے سکتے ہیں تو پیش کریں، ورنہ اس بے دلیل بحث کو اپنی عزت کا مسئلہ نہ بنائیں۔

میرے بھائی! یہ حقیقت ہے کہ بعض لوگوں کو مخالف کو گالی دے کر ''ذہنی تسلی'' حاصل ہوتی ہے، مگر یہ درست نہیں!
جناب الحمد للہ، کم علمی کے باوجود مجھے ہر مسلمان کی عزت کی اہمیت کا اندازہ ہے اور اِسی لیے میں نے، نہ تو کبھی علمائے اہل سنت و الجماعہ کے علماء کی" چھترول "کا مشورہ دیا، نہ ہی کبھی اپنی کم علمی اور افکار سے اختلاف کے باعث، کسی بھی علمائے اہل سنت و الجماعہ کے علماء کے موقف کو "مردود "قرار دیا اور نہ ہی کبھی اپنے مخاطب کو" ملعون" ثابت کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔

اب مباحثہ میں اگلے فریق نے بھی آپ کے حق میں ایسے ہی کلمات ادا کیئے تو کہیئے گا؟
جناب اگر اگلے فریق نے مجھے، اللہ اور اُس کے رسولﷺ سے محبت اور اُس کے دشمنوں سے نفرت کرنے کے الزام میں ، گالیوں سے نوازا ،تو میں اُسے اپنی خوش نصیبی قرار دوں گا؛ مگر دوسرا فریق اگر مسلمان ہے ،تو اُس کو اپنے مقام کا اندازہ مندرجہ ذیل آیت کی روشنی میں خود کرنا پڑے گا۔

لَتُبْلَوُنَّ فِي أَمْوَالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَمِنَ الَّذِينَ أَشْرَكُوا أَذًى كَثِيرًا وَإِنْ تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا فَإِنَّ ذَلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ [سورة آل عمران؛ ۱۸۶] " (اے اہل ایمان) تمہارے مال و جان میں تمہاری آزمائش کی جائے گی۔ اور تم اہل کتاب سے اور اُن لوگوں سے جو مشرک ہیں بہت سی ایذا کی باتیں سنو گے۔ اور تو اگر صبر اور پرہیزگاری کرتے رہو گے تو یہ بڑی ہمت کے کام ہیں"



 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
@فرقان الدین احمد صاحب! میں نے آپ کو سمجھانے کی کوشش کی،مگر آپ شاید نہیں سمجھ پائے! خیر اللہ ہمیں توفیق دے!
آپ نے فریق مخالف کو گالی دینے کے حق میں جو دلائل کشید کیئے ہیں، وہ تو بالکل باطل ہیں، اس پر قلم چلانے کی حاجت بھی نہیں، کہ کہیں بھی وہاں کسی کو گالی دینے کا اشارہ تک نہیں!
جہاں جواز موجود ہے، اور جس کیفیت اور وجوہات کی بناء پر ہے، اس کے لئے میں آپ کو بتلا دیتا ہوں، کہ صلح حدیبیہ کے موقع کی احادیث دیکھیئے!
@خضر حیات بھائی! فورم پر گالی نہیں چلے گی! یہ ایک سنجیدہ فورم ہے، اسے سنجیدہ ہی رہنے دیا جائے!
انتظامیہ کے باقی افراد سے بھی اس پر مشورہ کر لینا چاہیئے!
 
Top