مرد کی مردانگی سے بغاوت:
ماضی قریب میں اپنی مرادنگی کے نشانات مٹانے کا مرد پر ایسا بھوت سوار ہوا کہ اس نے عورتوں کی طرح لمبے بال بھی رکھناشروع کردئے جبکہ داڑھی پر تو پہلے ہی ہاتھ صاف کرچکا تھا۔اور حالت یہ ہوئی کہ عام شخص کے لئے مرد اور عورت کی پہچان ہی مشکل ہوگئی خاص طور پر پیچھے سے دیکھنے پر تو کوئی بتا ہی نہیں سکتا تھا کہ آیا کہ یہ صنف نازک ہے یا صنف آہن؟ پھر خواتین بھی مردوں کی طرح پٹے بال رکھ کر اس دوڑ میں شامل ہوگئیں چناچہ مردوں کی طرح ڈیل ڈول رکھنی والی خواتین اور مردوں میں پہلی نظر میں تفریق کرنا بھی مشکل ٹھہرااور آج کے دور میں مرد نے ناک میں نتھ بھی پہننا شروع کردی ہے یعنی مرد نے تہیہ کیا ہوا ہے کہ اسے صرف مرد نہیں بننا ہاں البتہ عورت بننے کی خواہش میں کھسرا بننا منظور ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں ذاتی خواہشات کے اعتبار سے مرد تین قسم کا ہے۔ ایک وہ مرد ہے جس کا چہرہ مردانگی کے نشان یعنی داڑھی سے عاری ہے لیکن اسے بگڑے ہوئے معاشرے میں مرد ہی سمجھا جاتا ہےاگرچہ حلیے کے اعتبار سے یہ مرد سمجھے جانے کے لائق نہیں لیکن یہ مرد کے تصور میں صرف اس لئے پورا اترتا ہے کہ جنسی میلان کے لحاظ سے یہ عورتوں میں رغبت رکھتا ہے۔ اور دوسرا ہیجڑا اور کھسرا ہے یہ بھی اصل میں مرد ہے اور یہ بھی داڑھی سے بے زار ہےلیکن پہلے مرد سے امتیاز کے لئے اسے مرد نہیں بلکہ خواجہ سرایا ہیجڑا کہا جاتا ہےاور یہ امتیاز اور فرق بھی چہرے کی وجہ سے نہیں ہے کیونکہ مرد اور کھسرے دونوں کا چہرہ ایک جیسا ہے بس بنیادی فرق یہ ہے کہ یہ مرد جسے ہیجڑا کہہ کر پکارا جاتا ہے یہ اپنی جنسی خواہشات کی تکمیل کے لئے عورتوں کے بجائے مردوں کا طالب ہے۔تیسری قسم کا مرد وہ ہے جو مکمل طور پر مرد اور کھسرے کے زمرے میں نہیں آتا کیونکہ یہ دور جدید کی پیداوار ہے یہ مرد اس لئے ہے کہ عورتوں میں دلچسپی رکھتا ہے اور مخنث کے قریب اس لئے ہے کہ ان میں سے بعض کانوں میں بندے اور بالیاں پہنتے ہیں اور ناک میں نتھ پہنتے ہیں بعض عورتوں کی طرز کے بال جیسے جوڑا یا پونی ٹیل رکھتے ہیں یعنی عورتوں جیسا ہار سنگھار کرتے ہیں۔ یہ واحد مرد ایسا ہے جو اپنے چہرے پر داڑھی رکھتا ہے تاکہ اس کے ہار سنگھار سے کوئی اسے مخنث نہ سمجھ لےاور مرد حضرات اس میں دلچسپی لینے کی کوشش نہ کریں اور داڑھی سے عورتوں کو یہ پیغام جائے کہ بے شک حلیے سے یہ عورتوں جیسا ہے لیکن مرد ہے اور عورتوں کا خواہش مند ہے۔ درست بات یہ ہے کہ ان تینوں میں سے کوئی بھی کامل مرد نہیں ہے پہلی قسم کا مرد داڑھی منڈوا کر مرد ہونے سے انکاری ہے تو دوسرا مرد مفعول بن کر مرادنگی پر کلنک ہے جبکہ تیسرا داڑھی رکھ کر بھی مرد نہیں کہ اس کا حلیہ عورتوں والا ہے جو کہ مرادنگی کے لئے زہر قاتل ہے۔
اہل کتاب کی پیروی:
جب دور اچھا تھا اور لوگ فطرت پر قائم تھے اس دور میں مرد داڑھی والا ہی ہوتا تھا اور دین و مذہب سے قطع نظر ہر مرد چاہے وہ کافر تھا یا مسلمان چہرے پرداڑھی کی موجودگی پر سب بالاتفاق متفق و متحد تھے پھردور خراب ہوا تو سب سے پہلے مشرکین اور یہود و نصاریٰ نے اس عالمی اتحاد کو پارہ پارہ کیا اورفطرت سے اعلان جنگ کرتے ہوئے داڑھیاں صاف کروانے کا آغاز کیا اس کے بعد مسلمانوں نے بھی یہود و نصاریٰ کے نقش قدم کی پیروی کرتے ہوئے اس فطرت سے اعلان بغاوت کردیا۔کیونکہ اللہ کے رسول ﷺ نےیہ پیشنگوئی فرمائی تھی کہ مسلمان لازماً اور ضرور بالضرور یہودیوںاور عیسائیوں کی قدم بہ قدم پیروی کرینگے حتی کہ اگر ان میں سے کوئی سانڈ کے بل میں داخل ہوا یا کسی نے اعلانیہ اپنی ماں سے زنا کیا ہوگا تو مسلمان بھی ایسا ہی کرے گا۔لہٰذااس ہونی کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ ناممکن تھا کہ یہودی و نصاریٰ اپنا چہرہ بگاڑتے اور مسلمان ان کی تقلید سے پیچھے رہ جاتا۔لیکن ان تمام تر بے ہودگیوں اور مسلمانوں اور اہل کتاب کی مشترکہ کاوشوںکے باوجود بھی اگر آج آپ کسی قوم کے بڑے ، معززاور قابل احترام شخصیت کو دیکھ لیں تو وہ داڑھی والا ہی ہوگا۔گویا کہ نافرمانوں نے فطرت کو بدلا ضرور ہے لیکن اسے مٹایا نہیں جاسکا اس لئے یہ کہیں نہ کہیں اور کسی نہ کسی شکل میں زندہ ہے۔
لطف کی بات یہ ہے کہ مسلمانوں کو اپنے پیچھے لگا کر خود یہود و نصاریٰ نے اپنا طریقہ بدل لیا ہےچاہے عارضی طور پر یا محدود پیمانے پر ہی سہی لیکن ان کے حلیے میں ایک مثبت تبدیلی ضرور آئی ہےاور مغربی معاشرے میں اسے پذیرائی بھی حاصل ہورہی ہے۔ مغربی لوگوں میں کچھ دیگر خوبیوں کے ساتھ ایک خوبی یہ بھی ہے کہ یہ لوگ اپنی غلطیوں سے سیکھتے ہیںاور ٹھوکر کھا کر سنبھل جاتے ہیں چناچہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اب مغرب آہستہ آہستہ دوبارہ فطرت کی طرف پلٹ رہا ہے۔ مغرب میں ہوئے ایک حالیہ سروے کے مطابق یورپی خواتین کا کہنا ہےکہ انہیں داڑھی والے مرد کلین شیوڈ( مونچھوں اور داڑھی سے بے نیاز) مردوں سے زیادہ پرکشش اور مردانگی سے بھرپور لگتے ہیں جبکہ داڑھی منڈوں کو دیکھ کر یہ احساس ہوتا ہے کہ ان میں داڑھی والے مردوں کے مقابلے میں مردانگی کم ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی عورتیں داڑھی والے مردوں کو ترجیح دینے لگی ہیں جس کے نتیجے میں مردوں کے درمیان داڑھی رکھنے کا رجحان روز بروز بڑھ رہا ہے۔ اسکے برعکس مسلمان مردجوویسے توکفار کی تقلید کو پسند نہیں کرتے لیکن مغرب کی تقلید کسی صورت چھوڑنے پرتیار نہیں ابھی تک مغرب کے فرسودہ خیالات سے چپکے ہوئے آج بھی داڑھی سے عاری چہرے کو مردانہ خوبصورتی خیال کئے بیٹھے ہیں جبکہ خود ان کا مذہب و دین داڑھی رکھنے کا حکم دیتا ہے لیکن یہ دین کا حکم ماننے کو تیار نہیں اوراس شرعی حکم سے بچنے کے لئے داڑھی سنت و مستحب ہے جیسے کمزوربہانے تلاش کرتے ہیں۔لیکن ان بدلتے حالات میں جیسے ہی انہیں احساس ہوگا کہ مغرب نے مرد کے لئے اپنے قائم کردہ خوبصورتی کے معیار کو بدل لیا ہے تو یہ تمام نوجوان مسلمان مرد جو داڑھی منڈے ہیں شوق سے داڑھی رکھ لیں گے۔گویا زبانی اپنے نبی ﷺ کی تابعداری کا دم بھرتے ہیں لیکن لباس اور حلیے میں تابعداری مغرب کی کرتے ہیں۔ مغرب اگر داڑھی منڈوانے کو خوبصورتی کہے گا تو یہ داڑھی منڈوائیں گے اور اگر مغرب کو مردانہ خوبصورتی داڑھی میں نظر آئے گی تو یہ داڑھی رکھیں گے۔علامہ اقبال نے بھی کیا خوب شعر کہا ہے جوآج تک مسلمانوں کی حالت کی ٹھیک ٹھیک ترجمانی کرتا ہے:
وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدّن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں! جنھیں دیکھ کے شرمائیں یہود
ہمارے معاشرے میں پہلے اکثریت داڑھی منڈے مردوں کی تھی لیکن اب داڑھی والے مرد بھی دیکھنے کو مل جاتے ہیں ۔ داڑھی والوں اور داڑھی منڈوں میں تناسب اب بالترتیب تیس اور ستر فیصد کا ہے لیکن اس تبدیلی کی وجہ ہر گز یہ نہیں کہ مسلمان مردوں کوکچھ عقل آگئی ہے یا انہیں فطرت سے پیار ہوگیا ہے یا پھریہ غیر فطری اور زنانہ حلیے سے تھک چکے ہیں ۔ ہرگز نہیں! بلکہ یہ بھی یہود و نصاریٰ کی پیروی ہی کا نتیجہ ہے ۔ بدقسمتی سے چونکہ اسلامی معاشروں میں حسن اور خوبصورتی کا معیار مغرب کے وضع کردہ قاعدوں اور معیارات پر طے کیا جاتا ہے اس لئے جب مغربی مرد میں تبدیلی آئی اور اس نے داڑھی رکھ کر خود کو خوبصورت بنانے کی کوشش کی تو کچھ مسلمانوں مردوں نے بھی ان کی دیکھا دیکھی فیشنی اور کٹی ہوئی داڑھیاں رکھ لیں۔ان بے شرم مسلمانوں کو فطرت یا شریعت سے کوئی سروکار نہیں بس یہ مغرب کی تقلید میں اپنی عقل سلیم کھوچکے ہیں۔ اگر آج مغرب کا مرد اپنی داڑھی کو معاف کردے اور اسے خوبصورتی سے تعبیر کرے تو مسلمان مردوں کی اکثریت ایسی داڑھیاں رکھ کر خود کو ہیرو اور شہزادہ سمجھنے لگے گی۔لیکن آج ایسی داڑھی جسے اسکے حال پر چھوڑ دیا گیا ہو ان کی نظر میں بدصورتی ہےصرف اس لئے کہ یہ حکم مغرب کی طرف سے نہیں بلکہ شریعت کی طرف سے آیا ہے ۔ یہ تقلید کی بدترین شکل ہے جس میں مقلد ذہنی و جسمانی طور پر سر تا پا اغیار کا غلام بن کر رہ جاتا ہے۔
اسلامی معاشرے کا داڑھی کے ساتھ سلوک:
اس نام نہاد اسلامی معاشرے میں آج سے ستّر اسّی سال قبل لوگوں کا رویہ یہ تھاکہ ان میں سے جب ایک نوجوان مرد داڑھی رکھ لیتا تھاتو اسکے گھر اور خاندان والے اس کی حوصلہ شکنی کرتے تھے اور اسے یہ کہہ کر داڑھی منڈوانے کا مشورہ دیا جاتا تھا کہ ابھی تمہاری عمر ہی کیا ہےبعد میں رکھ لینا یا پھراگر تم داڑھی رکھو گے تو تمھیں کوئی اپنی بیٹی کا رشتہ نہیں دے گا۔ لوگوں کی ایسی ہی غیر اسلامی سوچ کی وجہ سے داڑھی صرف منبر و محراب سے تعلق رکھنے والے مردوں یعنی مسجد کے مولوی اور علماء حضرات تک محدود ہوکر رہ گئی تھی۔ یا یوں کہیں کہ پچھلے وقتوں میں مولوی ہی نے اس سنت کو زندہ رکھا ہوا تھاوگرنہ یہ سنت متروک ہوجاتی۔مقام رنج و افسوس ہے کہ یہ رواج بد اور غیرفطری ذہنیت صرف ہمارے معاشرے کا حصہ نہیں بلکہ بلاد عرب بھی جو کہ دین کامسکن ہے اس بیماری سے محفوظ ومامون نہیں۔ علامہ ناصرالدین البانی اپنے علاقے کے لوگوں کا حال بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
اب تو بات یہاں تک پہنچ گئی ہے لوگ اس بات کو عار اور بے عزتی محسوس کرتے ہیں کہ دولہا دلہن کے پاس جائے اور اس نے داڑھی نہ منڈا رکھی ہو۔(سنت مطہرہ اور آداب مباشرت، صفحہ71)
برسبیل تذکرہ عرض ہے کہ خود راقم السطور کو بھی عین عنفوان شباب میں شرعی داڑھی رکھنے پر گھر اور خاندان والوں کی طرف سے مزاحمت اور تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔میری دادی جان جنھیں ہم اماں کہتے تھے نے مستقبل کی مشکلات جیسے شادی نہیں ہوگی اور لڑکے کے بجائے داڑھی کے ساتھ آدمی لگے گا وغیرہ کا ذکرکرکے مجھے اس بات پر قائل کرنے کی کافی کوشش کی کہ میں اپنی داڑھی کو مستقل رکھنے کے ارادے سے دستبردار ہوجائوں۔ شومئی قسمت کہ اماں کے مشورہ پر تو میں نے کوئی دھیان نہیں دیا لیکن کچھ عرصہ بعد کچھ اور وجوہات کی بنا پر داڑھی مونڈ لی۔ ہمارے علاقے کا ایک لڑکا جو میری داڑھی کی بہت تعریف کرتا تھا کہ بہت خوبصورت لگتی ہےخود اس کی بھی داڑھی تھی کافی سالوں کے بعد اس نے بھی داڑھی مونڈ لی .جب میں نے اس سے اس کی وجہ دریافت کی تو اس نے بتایا کہ میری شادی نہیں ہورہی اس لئے داڑھی کٹوا لی ہے۔ ا س سے داڑھی کے متعلق ہمارے معاشرے میں پائی جانے والی سوچ کا بخوبی علم ہوتا ہےکہ بحیثیت مسلمان چاہے ہم داڑھی کی تعظیم کرتے ہوں لیکن لڑکی کے لئے کسی داڑھی والے کا رشتہ آجائے تو نہ صرف خود لڑکی پسند نہیں کرتی بلکہ اس کے گھر والے بھی اس بنیاد پر رشتہ سے انکار کردیتے ہیں۔داڑھی کے ساتھ اس سلوک کے پیچھے یقیناً داڑھی کو فرض نہ سمجھنے اور مستحب سمجھنے کا کافی عمل دخل ہے۔اگر اس بارے میں لوگوں کی معلومات درست ہوجائے کہ داڑھی مستحب نہیں فرض ہے تو کافی حد تک ہمارے معاشرے کی اصلاح ہوسکتی ہے۔
داڑھی مرد کی آفاقی علامت ہے:
بعض لوگ داڑھی کو صرف مذہب کا ایک حکم سمجھتے ہیں اور اسلام میں پورے پورے داخل ہونے کے لئے اس کو ضروری خیال کرتےہیں۔جبکہ ماضی بعید میں مرد نے داڑھی کو کبھی بھی مذہب سے جوڑنے کی کوشش نہیں کی بلکہ اسے ہمیشہ مذاہب و ادیان سے بالاتر سمجھا گیا۔ دین و مذہب سے قطع نظر ہر مرد اپنے چہرے پر بال سجائے اس پر فخر کرتا تھاجبکہ اس سے محرومی کو مردانگی کے لئے عارسمجھتا تھا۔ جہاں تک مذاہب کی بات ہے تو اسلام سے داڑھی کا تعلق محض ایک خاص ہیت کا ہے جس کی پابندی کو اسلام نے اپنے ماننے والوں پر ضروری قرار دیا ہے جیسے داڑھی کو اسکے حال پر چھوڑ دینا اور مونچھوں کو چھوٹا رکھنایابعض علماء کے نزدیک کم سے کم ایک مشت لمبی داڑھی رکھنا۔داڑھی دین اسلام کا حکم یا بعض الناس کے نظیرے کے مطابق محض عرب کا کلچر نہیں ہےبلکہ اس کی حیثیت اس سے بھی بڑھ کر فطرت کی ہے اس لئے داڑھی مسلمان کے ساتھ کافربھی رکھتا تھا اور اہل کتاب یعنی یہودی اور عیسائی بھی داڑھی بردار ہوتے تھے بس مسلمان ،کافر اور اہل کتاب کی داڑھیوں میں فرق محض ہیت کاہی ہوتا تھا لیکن داڑھی رکھنے یا نہ رکھنے کا کوئی اختلاف کبھی ان کے مابین نہیں رہابلکہ داڑھی کا مطلب مرد اور مرد کا مطلب داڑھی ہی رہا ۔کہنے کا مطلب یہ ہے کہ داڑھی کو مذہب اسلام سے جوڑ کر اس کے فطری اور مردانگی کی پہچان ہونے کا انکار کرنا محض دھوکہ اور فریب ہے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ مرد صرف وہی ہے جس کے چہرے پر داڑھی ہے اور جس کا چہرہ بالوں سے محروم ہے وہ مخنث اور ہیجڑا ہے جس کے منہ سے مردانگی کا دعویٰ محض جھوٹ و فریب ہے۔
داڑھی کی شرعی حیثیت:
مسلم معاشروں میں داڑھی کے متعلق بہت سی غلط فہمیاں پائی جاتیں ہیں اور اس کی شرعی حیثیت کے بارے میں لوگ ناقص اور غلط معلومات رکھتے ہیں چناچہ اکثریت ان مردوں کی ہے جو داڑھی کو سنت سمجھتے ہیں یعنی رکھو تو ثواب اور نہ رکھو تو کوئی گناہ نہیں اور جو حضرات اس کے فرض ہونے کا علم رکھتے ہیں ان میں سے بھی بعض نے بےبنیاد شکوک وشبہات پھیلا کر داڑھی کی فرضیت کواپنے تئیں پوری طرح مشکوک بنانے کی کوشش کی ہے۔اس لئے ضروری ہے کہ داڑھی کی شرعی حیثیت پر بات کرلی جائے اور اس کے متعلق جان بوجھ کر پیدا کئے گئے شبہات کا ازالہ کرنے کی کو شش کی جائے،تو عرض ہے کہ داڑھی دین اسلام میں فرض و واجب ہے اور اس پر دیوبندی، بریلوی اور اہل حدیث علماء یک زبان ہیں۔اس کی دلیل یہ ہے کہ اللہ اور اسکے رسول ﷺ کا حکم اصلاً فرض کے درجے میں ہوتا ہے یہاں تک کہ خود شارع ہی اس میں نرمی اختیار کرلےیا کوئی گنجائش یا اختیار دے دے۔ ایسی صورت میں وہ حکم فرض کے دائرہ سے نکل کر مستحب کے دائرہ میں داخل ہوجاتا ہے۔داڑھی بڑھانے کا اللہ نے اپنے رسول ﷺ کو حکم دیا اور رسول اللہ ﷺ نے اپنی امت کو یہ حکم اسی طرح منتقل فرمادیا۔اللہ کے حکم سے داڑھی نبی کریم ﷺ پر فرض ہوئی اور نبی ﷺ کے حکم سے امت پر فرض ہوگئی کیونکہ اس میں امت کو کوئی رعایت یا گنجائش نہیں دی گئی۔حارث بن ابی اسامہ رضی اللہ عنہ نے یحییٰ بن کثیر سے ذکر کیا ہے، کہتے ہیں، ایک عجمی مسجد نبوی میں آیا جس کی مونچھیں بڑھی ہوئی اور داڑھی کٹی ہوئی تھی، اسے رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’
ماحملك على هذا‘‘ تمہیں ایسا کرنے پر کس نے مجبور کیا؟ اس نے کہا’’ میرے رب نے مجھے اس کا حکم دیا ہے‘‘ تو رسول اکرمﷺ نے فرمایا: ’’
ان الله امرنى اوفرا لحيتى واحفى شاربى‘‘ بےشک میرے اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں اپنی داڑھی بڑھاؤں اور اپنی مونچھیں کٹواؤں۔ (الحدیث)
داڑھی کی فرضیت کے دلائل اس قدر قوی ہیں کہ اہل حق کا اس میں کبھی کوئی جھگڑا نہیں رہا، اسی بنا پر چودھری عبدالحفیظ اپنے مضمون ’’داڑھی کی شرعی حیثیت‘‘ میں اس پر اجماع کا دعویٰ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
ابومحمد بن حزم نے لکھا ہے کہ اس بات پر اجماع امت ہے کہ مونچھوں کا کٹوانا اور داڑھی کا بڑھانا فرض ہے۔ (ماہنامہ محدث لاہور، جلد12، شمارہ نمبر6، اپریل1982ء)
پس یہی وجہ ہے کہ ہم نے داڑھی کی فرضیت پر بحث کرنے اوراس پر دلائل دینے کے بجائے ان اعتراضات پر اپنے قلم کو مرکوز رکھا ہے جن کے ذریعہ امت مسلمہ کے اس اجماعی مسئلہ پر نقب لگانے کی کوشش کی گئی ہے۔لہٰذاداڑھی کے وجوبی حکم کو مشکوک بنانے کے لئے ایک شبہ یہ پیدا کیا جاتا ہے کہ’’ جتنے بھی فرائض ہیں ان کا ذکر قرآن میں آیا ہے لیکن یہ کیسا فرض ہے کہ جس کے تذکرے سے کلام الہٰی خاموش ہے۔ اس اعتراض سے معترضین کا مقصد یہ ہے کہ داڑھی فرض نہیں ہے۔‘‘
فرض وہی ہے جو کلام الٰہی میں درج ہے جبکہ حدیث میں کسی چیز کا حکم موجود ہونا اسے فرض نہیں کرتا یہ ایک خود ساختہ اصول وقاعدہ ہے جس کا کوئی ثبوت دین محمدی ﷺ میںموجود نہیں ہے۔غوروفکر کرنے سے اس من گھڑت قاعدے اور اصول کا بطلان واضح ہوجاتا ہےجیسے پانچ وقت کی نماز ہر عاقل و بالغ پر فرض ہے اس کی اصل کلام الٰہی میں موجود ہے۔ لیکن فجر کی دو رکعت فرض ہیں ، ظہر کی چار اور عصر کی چار مغرب کی تین اور پھر عشاء کی چاررکعات کی فرضیت قرآن سے ثابت نہیں ہےبلکہ فرض نمازوں کی ان متعین اور مخصوص تعدادرکعات کی فرضیت حدیث سےثابت ہوتی ہے۔ لہٰذا اگر اس بدعی اصول کا اعتبار کیا جائے تو ماننے پڑے گا کہ چونکہ فجر میں دو رکعت فرض نہیں ہیں کیونکہ اس کا ذکر حدیث میں ملتا ہے قرآن میں نہیں تو ہر شخص آزاد ہوگا کہ وہ زیادہ ثواب کے حصول کے لئے فجر میں دو رکعات کے بجائے تین پڑھ لے یا پھر ظہر اور عصر میں چار رکعات کے بجائے دو رکعات پڑھ لے اور خودپر شریعت کے عائد کردہ فرض سے سبکدوش ہوجائے کیونکہ پنجگانہ نماز فرض ہے تعداد رکعات فرض نہیں ہے۔کون ہے جو اس اصول اور اصول کے اس نتیجے کو صحیح تسلیم کرنے کے لئے تیار ہے؟ کوئی نہیں! تو پھر یہ اصول بھی کس طرح قابل تسلیم ہوسکتا ہے جس کے نتیجے میں قوانین شریعت کا توازن ہی درہم برہم ہوجائے؟!
اسی طرح احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ طواف کے لئے باوضو ہونا فرض ہے لیکن یہ ایک ایسا فرض ہے جس کا تذکرہ قرآن میں نہیں آیا۔ توپوچھنا یہ ہے کہ کیا اس بنیاد پر کبھی کسی محدث، امام یا عالم نے اس کی فرضیت سے انکار کیا ہے؟ یاد رہے کہ ایسے مسائل کی ایک لمبی فہرست ہے جن کی فرضیت قرآن کے بجائے حدیث سے ثابت ہے لیکن ایک مخصوص فرقے کے علاوہ کبھی ایسے مسائل کی فرضیت پر سوال نہیں اٹھایا گیااور نہ قرآن میں نہ ہونے کی وجہ سےان کی وجوبی حیثیت کو محل اعتراض بنایا گیا ہے۔اصلاً یہ اعتراض منکرین حدیث کا ہے کیونکہ یہی لوگ ہیں جو صرف اس حکم کو مانتے ہیں جو قرآن میں آیا ہو جبکہ احادیث کے احکامات کو لائق التفات نہیں جانتے۔ چونکہ منکرین حدیث کا یہ اصول داڑھی منڈوں کو تنکے کا سہارا فراہم کرتا ہے اس لئے بہت سے قرآن و حدیث سے نسبت رکھنے والوں کی زبان پر بھی یہ اعتراض جاری ہوگیا ہے۔اب حاملین کتاب وسنت کو یا تو یہ اعتراض ترک کردینا چاہیے جو کہ درحقیقت منکر حدیث فرقے کے بیمارذہن کی پیداوار ہےیا پھر ان تمام فرائض کو چھوڑ دینا چاہیے جن کا تذکرہ قرآن نے نہیں کیا جیسا کہ فرض نمازوں کی تعداد رکعات کاتعین، باوضو ہوکر طواف کرنا یا پھر ختنہ وغیرہ کروانا۔ لیکن اگر یہ کام مشکل ہے تو پھر ’’بندے داپتر‘‘ بن کر قرآن کے ساتھ حدیث کی حجیت کو تسلیم کرلینا چاہیے اور ایک اچھے مسلمان کی طرح داڑھی کے فرض ہونے پر اپنا سر تسلیم خم کردینا چاہیے۔
کچھ لوگوں کی دانست میں چونکہ تمام فرائض کا ذکر کلام الٰہی میں موجود ہےاس لئےان کے نزدیک قرآن میں داڑھی کا ذکر نہ ہونا اسکے فرض ہونے میں مانع ہے،اس بدعی اصول کے متعلق بعض الناس کا خیال ہے کہ یہ کوئی نیاتحقیقی نقطہ ، نیا استنباط اوراستدلال ہے لیکن ایسا ہرگز نہیں ہے بلکہ یہ ان لوگوں کی غلط فہمی اور کم علمی ہے کیونکہ گمراہوںکا یہ اعتراض کوئی نیا نہیں بلکہ بہت پرانا ہے۔مولانا اشرف علی تھانوی اپنے زمانے کا حال بیان کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:
بعض لوگ کہتے ہیں کہ داڑھی رکھنے کا مسئلہ قرآن سے دکھلاؤ۔ سو حدیثوں سے جو احکام ثابت ہوچکے ہیں، وہ سب خداوندی احکام ہیں کیونکہ حدیث پر عمل کرنے کا حکم خود قرآن میں ہے، اسی طور پر حدیثوں کے تمام حکم قرآن ہی میں ہیں۔(اغلاط العوام،صفحہ 88)
ایک اعتراض یہ ہے کہ’’ داڑھی چونکہ سنن زوائد اور سنن عادیہ میں سے ہے اور اس کا براہ راست تعلق نبی کریم ﷺ کے حلیے اورعادات مبارکہ کے ساتھ ہےاس لئے یہ واجب نہیں ہے کیونکہ باقی تمام سنن عادیہ جیسے مسواک کرنا، سرمہ لگانا، جبہ پہنا، عمامہ باندھنا وغیرہ مستحب ہیں اس لئے داڑھی رکھنا بھی مستحب اور پسندیدہ ہے فرض نہیں ہےاور جس طرح باقی سنن عادیہ کو چھوڑنا گناہ نہیں ہے اسی طرح داڑھی کا ترک بھی گناہ یا فعل حرام نہیں ہے۔‘‘
بے شک داڑھی کا تعلق حلیہ مبارک سے ہے لیکن حلیے اور عادات سے تعلق رکھنے والے دیگر امور سے اس کا حکم بوجہ مختلف ہے۔اس کی دلیل یہ ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے داڑھی کے متعلق جیسا حکم دیا ہے ایسا حکم کسی اور حلیے یا عادات سے متعلق فعل کےبارے میں نہیں دیا۔ نبی ﷺ نے امت کو داڑھی رکھنے کا حکم دیا ہے لیکن سرمہ لگانے کا حکم نہیں دیا، یا مسواک کرنے کا حکم نہیں دیا۔ بس یہی فرق اور حکم داڑھی کو واجب کرتا ہے جبکہ سرمہ لگانے یا مسواک کرنے کو واجب نہیں کرتا۔
اور یہ بھی عجیب و غریب کلیہ ہے کہ ایک زمرے میں آنے والی چیزیں شرعی حکم کے اعتبار سے بھی ایک جیسی ہی ہوتی ہیں۔صحیح بات یہ ہے کہ ایک ہی دائرے میں آنے والی چیزیں یا پھر ایک دوسرے سے مماثلت رکھنے والے مسائل حکم کے اعتبار سے ایک دوسرے سے مختلف ہوسکتے ہیں اور اس کی سب سے بڑی مثال داڑھی ہے کہ یہ فطری امور میں شامل ہونے کے باوجود حکم کے اعتبار سے دیگر فطری کاموں سے مختلف ہے اور حلیے میں داخل ہونے کے باوجود حلیے سے تعلق رکھنے والے دیگر امور سے حکم کے اعتبار سے جدا ہے۔اس کی وجہ بھی یہ ہے کہ جس طرح داڑھی کی تاکید کی گئی ہے اس سے مماثل کسی دوسرے کام کی اتنی اور ایسی تاکید نہیں کی گئی اور یہ بات داڑھی کو دوسرے کسی بھی مسئلہ سے ممتاز اور الگ بناتی ہے۔
ایک مغالطہ یہ دیا جاتا ہے کہ’’ داڑھی کو بڑھانے کا حکم ایک خاص علت کی بناپر دیا گیا ہے اور وہ مشرکین، مجوس اور یہود و نصاریٰ کی مخالفت ہے اور جس حکم کا انحصار کسی علت پر ہواس کا واجب و فرض ہونا ضروری نہیں۔اور اصول بھی یہی ہے کہ لباس و حلیے کے معاملے میں یہود، نصاریٰ، مشرکین یا مجوس کی مخالفت فرض نہیں ہوتی اور داڑھی بڑھانے کا حکم بھی کفار کی مخالفت کے لئے دیا گیا ہے اس لئے داڑھی فرض نہیں ہے۔حافظ عمران الہٰی رقمطراز ہیں:
حدیث میں داڑھی کو بڑھانے کی جو علت بیان ہوئی ہے وہ مشرکین کی مخالفت ہے اور مشرکین سے مراد مجوسی یعنی آگ کے پجاری تھے۔ (یک مشت سے زائد داڑھی کی شرعی حیثیت، صفحہ 241)
اس کا سیدھا سا اور مختصر جواب یہ ہے کہ یہ جھوٹ اور فریب ہے کہ داڑھی بڑھانے کے حکم کی علت اور وجہ کفار کی مخالفت ہےکیونکہ ذخیرہ احادیث میں کئی ایسی روایات آتی ہیں جن میں داڑھی بڑھانے کا حکم دیا گیا ہے لیکن کفار کی مخالفت کا وہاں کوئی ذکر نہیں کیا گیاجو ثابت کرتا ہےاصل حکم داڑھی بڑھانے کا ہے ناکہ شریعت کو داڑھی سے صرف مشرکین کی مخالفت ہی مطلوب و مقصود ہے۔ اس کے تفصیلی دلائل آئندہ داڑھی کے متعلق پائے جانے والے مختلف نظریات میں سے پہلے نظریے کے تحت بیان ہوں گے۔ ان شاءاللہ
اس سلسلے میں ایک شبہ یہ پیش کیا جاتا ہے کہ’’ حدیث میں حکم ہے کہ ’’
خَالِفُوا الْمُشْرِكِيْنَ وَفِرُّوا اللِّحٰى‘‘ مشرکین کی مخالفت کرو، داڑھیاں بڑھاؤ ۔(صحیح بخاری) تو اگر اس حدیث سے داڑھی بڑھانا فرض مان لیا جائے تو مشرکین ،مجوس اور اہل کتاب کی مخالفت بھی فرض ٹھہرے گی جبکہ آج کٹر مشرکین، کٹر مجوس اور کٹر یہود و نصاریٰ لمبی داڑھیاں رکھتے ہیں اس لئے ان کی مخالفت میں مسلمانوں کو اپنا داڑھیاں منڈوانا ہوں گی۔ جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ کوئی مسلمان کفار کی ایسی مخالفت نہیں کرتا، اس سے ثابت ہوا کہ جس طرح حدیث میں مجوس کی مخالفت کا حکم فرض نہیں ہے اسی طرح داڑھی بڑھانے کا حکم بھی فرضیت سے خارج ہے۔‘‘
دراصل ان گمراہوں اوربدبختوں کو یہاں یہ شبہ لاحق ہوا ہے کہ نبی ﷺ نے اپنی امت کو جوکفار کی مخالفت کا حکم دیا ہے اس میں انہیں آزاد چھوڑ دیا ہےکہ ان کی مرضی جیسے چاہیں کفار کی مخالفت کریں جبکہ ایسا بالکل نہیں ہے لیکن اس سے پہلے یہ جان لیں کہ مجوس، مشرکین اور یہود و نصاریٰ کی حقیقی معنوں میں مخالفت ممکن ہی نہیں ہے کیونکہ مجوس ہی میں داڑھیاں منڈوانے والے بھی تھے اور چھوٹی داڑھی رکھنے والے بھی، تو اگر کوئی مسلمان داڑھی منڈے مجوس کی مخالفت کرنا چاہے تو وہ چھوٹی یا ایک مشت داڑھی سے ان کی مخالفت کرسکتا ہے لیکن چھوٹی داڑھی والے مجوس کی مخالفت پھر بھی نہیں ہوگی کیونکہ اس کے لئے لمبی داڑھی رکھنا ہوگی۔ اب اس طرح تو آدھے مسلمان چھوٹی داڑھی رکھ کر مجوس کی موافقت کرنے والے ہوں گے اور آدھے ان کی مخالفت کرنے والے، تو پھر اس مسئلہ کا حل کیا ہوگا اور کون یہ فیصلہ کرے گا کہ کس قسم کی داڑھی رکھ کر ہر مسلمان مجوس کی مخالفت کرسکتا ہے۔ کیا ہر مسلمان کا یہ فیصلہ اپناذاتی ہوگا کہ کوئی چھوٹی داڑھی رکھ کر مخالفت کرے گا اور کوئی لمبی داڑھی سے مخالفت کا حکم بجا لائے گا؟ لیکن شریعت سے اس کی دلیل کیا ہوگی؟
اگر کسی کے شیطانی ذہن میں یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ ایک مشت داڑھی لمبی داڑھی ہے لہٰذا یک مشت کے ذریعے داڑھی منڈے اور چھوٹی داڑھی والے مجوس کی بیک وقت مخالفت ممکن ہے۔ تو اس کا یہ وسوسہ درست نہیں کیونکہ حدیث میں صرف یہ آتا ہے کہ مجوس داڑھیاں مونڈتے تھے یا پھرکٹواتے تھےاسی لئے نبی ﷺ نے فرمایا کہ ان کی مخالفت کرو اور تم داڑھیاں بڑھائو۔ نبی ﷺ کا یہ حکم خود بتا رہا ہے کہ داڑھی بڑھانے کا مطلب ہے داڑھی نہ کاٹنا کیونکہ داڑھی تو مجوس بھی کاٹتے تھے لہٰذا اگر داڑھی بڑھانے کا مطلب نہ کاٹنا نہ لیا جائے تو پھر مجوس کی مخالفت ممکن نہیں ہوسکتی۔ اس کے ساتھ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ داڑھی کاٹنا مجوس کے ساتھ موافقت ہے پھر یہ کاٹنا مشت کے بعد ہو یا پہلے ہر دو صورتوں میں یہ مجوس سے مشابہت ہے جس سے ہمیں روکا گیا ہے۔
ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ داڑھی کے معاملے میں نبی ﷺ نے یہودو نصاریٰ کی مخالفت کا بھی حکم دیا ہے اور حکم ایک ہی ہے کہ داڑھی بڑھاؤ، دیکھئے:
’’
فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللهِ إِنَّ أَهْلَ الْكِتَابِ يَقُصُّونَ عَثَانِينَهُمْ وَيُوَفِّرُونَ سِبَالَهُمْ. قَالَ: فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” قُصُّوا سِبَالَكُمْ وَوَفِّرُوا عَثَانِينَكُمْ وَخَالِفُوا أَهْلَ الْكِتَابِ‘‘ ہم نے عرض کی ،اے اللہ کے رسول! اہل کتاب تو اپنی داڑھیاں کٹواتے اور مونچھیں بڑھاتے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا: تم اپنی مونچھیں کٹواؤ اور داڑھیاں بڑھاؤ اور اہلِ کتاب کی مخالفت کرو۔(مسند الامام احمد:۵؍۲۶۴۔۲۶۵،وسندہ حسن)
یاد رہے کہ یہاں عام یہودی اور عیسائی کا تذکرہ ہے کہ داڑھی کاٹتے تھے جیسے آج بھی یہود یوں اور عیسائیوں کی عوام اپنی روش پر قائم ہے بعض داڑھی مونڈتے اور بعض کاٹتے ہیں جبکہ ماضی سے لے کر آج تک یہود ونصاریٰ کے مذہبی راہنمائوں کی داڑھیاں لمبی ہوتی ہیں بظاہر یہی لگتا ہے کہ وہ بھی اپنی داڑھیوں کو اس کے حال پر چھوڑ دیتے ہیں۔ اس طرح اگر ایک مسلمان بھی حدیث پر عمل کرتے ہوئے داڑھی کو معاف کردیتا ہے تو اہل کتاب کےعلماءسے موافقت ہوجاتی ہے۔ اس کے حل کے لئے نبی ﷺ نے اہل کتاب سے متعلق ایک اور اضافی حکم دیا ہے جس سے ان کی مخالفت ممکن ہوتی ہے اور وہ حکم ہے کہ یہودی اور عیسائی اپنی داڑھیاں نہیں رنگتے تم ان کی مخالفت کرو اور داڑھی رنگا کرو۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’
إن اليهود والنصارى لا يصبغون، فخالفوهم‘‘ یہودی اور عیسائی خضاب نہیں لگاتے۔ تم ان کی مخالفت کیا کرو۔ (متفق علیہ)
جبکہ داڑھی رنگنے کا اضافی حکم کسی اور مشرک یا مجوس سے مخالفت کے ضمن میں نہیں دیا گیا بلکہ یہ خصوصی حکم صرف یہودیوں اور عیسائیوں سے فرق اور امتیازلئے ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر داڑھی بڑھانے کے اعتبار سے یہودی اور عیسائی علماء سے مشابہت ہورہی تھی تو داڑھی رنگنے کے اعتبار سے اس مشابہت کو ختم کردیا گیا۔ پس نبی ﷺ کا حکم ہی ایک ایسا جامع حکم ہے جس سے ہر طرح کے کفار سے داڑھی کے معاملے میں مخالفت ممکن ہے۔داڑھی بڑھانے سے مجوس ، مشرکین اور یہود و نصاریٰ کی عوام کی مخالفت ہوجاتی ہے اور داڑھی رنگنے سے یہود ونصاریٰ کے علماء سے امتیاز ہوجاتا ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ نبی ﷺ نے اپنی امت کو داڑھی کی مخالفت کے معاملے میں بے مہار ، آزاد اور اپنی مرضی پر نہیں چھوڑا کیونکہ امت اگر اپنی مرضی کرے گی تو ایک فساد برپا ہوجائے گا ہر کوئی چھوٹی یا بڑی داڑھی رکھ کر اپنے تئیں کفار کی مخالفت کررہا ہوگا لیکن جب ان کی داڑھیاں ایک جیسی نہیں ہوں گی تو یہ مسلمان آپس میں بھی ایک دوسرے کی مخالفت کرنے والے ہوں گے اور کفار سے بھی کوئی مشابہت کرے گا اور کوئی ان کی مخالفت۔سچ یہ ہے کہ اگر امت کو اس معاملے میں اپنی من مانی کرنے دی جائے تو داڑھی کے معاملے میں ان کی نااتفاقی کی وجہ سے کفار کی مخالفت کا حق ادا ہو ہی نہیں سکتا۔ جبکہ جن جن کی مخالفت کا نبی ﷺ نے حکم دیا ہے بیک وقت ان تمام کی مخالفت صرف نبی ﷺ کے بتائے ہوئے طریقے پر ہی ممکن ہے۔ اس مسئلہ کو بہتر طور پر سمجھنے کے لئے اس حدیث پر غور فرمائیں : ابن عباس رضی اللہ عنہ سے بزاز نے مرفوعا ًنقل کیا ہے: ’’
لا تشبهوا بالاعاجم اعفوا اللحى‘‘ عجمیوں کے ساتھ مشابہت اختیار نہ کرو، داڑھیاں بڑھائو۔
عجمیوں میں ہر طرح کے کفار آجاتے ہیں جن میں سکھ بھی شامل ہیں ۔ سب جانتے ہیں کہ سکھ اپنی داڑھیوں کو معاف کردیتے ہیں۔چونکہ نبی ﷺ کا حکم وحی کے تابع ہوتا ہے اس لئے اللہ رب العالمین کو معلوم تھا کہ عجمیوں میں سکھوں کی طرح کے لوگ بھی ہوں گے جو داڑھی کو بڑھائیں گے لیکن اس کے باوجود بھی تمام عجمیوں سے مخالفت کے لئے صرف اور صرف ایک حکم دیا گیا کہ ’’داڑھی بڑھاؤ‘‘۔ کیا اس کے بعد بھی اس حقیقت کہ اصل میں داڑھی بڑھانا ہی مشرکین،مجوس، یہود، نصاریٰ اور عجمیوں کی مخالفت ہے کے بارے میں کسی کے دل میں کوئی شک باقی رہتا ہے؟
اس کے علاوہ صحیح بخاری کی حدیث میں بیان شدہ حکم کو دو علیحدہ علیحدہ احکامات بنا کر مغالطہ دینے اور گمراہی پھیلانے کی کوشش کی گئی ہے جس میں ایک حکم مشرکین کی مخالفت کا جبکہ دوسرا داڑھی بڑھانے کا حکم ہے۔اگر بنظر انصاف دیکھا جائے تو حدیث میں علیحدہ علیحدہ دو احکامات نہیں بلکہ ایک ہی حکم دیا گیا ہے۔ایک حکم اس لئے کہ مشرکین کی مخالفت، اور وہ مخالفت کس طرح کرنی ہے دونوں ایک دوسرے سے ایسے جڑے ہیں ایک پر عمل سے دوسرے پر عمل خود بخود ہوجاتا ہے۔جب نبی ﷺ نے یہ فرمایا کہ مشرکین وکفار کی مخالفت کرو تو ساتھ ہی یہ بھی بتا دیا کہ وہ مخالفت کس طرح کرنی ہے یعنی داڑھی بڑھا کر۔پس جو بھی داڑھی بڑھائے گا وہ کفار کی مخالفت بھی کرلے گاجبکہ کفار یا مشرکین کی مخالفت کے لئے اسے الگ سے کوئی فعل کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اصل میں داڑھی بڑھانا ہی مشرکین کی مخالفت ہے۔ بلکہ مشرکین مجوس، یہود و نصاریٰ، عجمیوں ہر ایک کی مخالفت کو رسول اللہ ﷺ نے داڑھی بڑھانے کے ساتھ مشروط کیا ہے۔ پس اگر کوئی داڑھی کٹواتا ہے تو وہ کفار کی مخالفت کرنے والا نہیں کہلائے گا بلکہ صرف وہ مسلمان کفار کا مخالف ہوگا جو داڑھی بڑھائے گا یعنی داڑھی کو نہیں کٹوائے گا۔پس چونکہ حدیث میں بیان شدہ حکم ایک ہی ہے اس لئے یہ بحث فضول ہے کہ اگر داڑھی رکھنا فرض ہے تو مشرکین کی مخالفت بھی فرض ہے یا نہیں؟ کیونکہ اس کے لئے پہلے یہ ثابت کرنا ضروری ہے کہ مجوس و مشرکین کی مخالفت اور داڑھی بڑھانادو ایک دوسرے سے مختلف اور علیحدہ احکامات ہیں جبکہ ایسا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے۔ اس لئے یہ دعویٰ بھی بے بنیاد ہے کہ داڑھی فرض ہے تو کفار کی مخالفت بھی فرض ہوگی اور اگر کفار کی مخالفت فرض نہیں تو پھر داڑھی بھی فرض نہیں،اس طرح کی ہفوات سے داڑھی کی فرضیت پر ہاتھ صاف نہیں کیا جاسکتا۔
’’جتنے بھی فرائض ہیں ان کی حکم عدولی پر عذاب اور وعید موجود ہیں لیکن داڑھی کے ترک پر کتاب و سنت میں کوئی وعید موجود نہیں اس لئے ثابت ہوا کہ داڑھی فرض نہیں ہے۔‘‘
یہ بھی ایک شبہ ہے جس کا مقصد داڑھی سے جان چھڑانا ہے۔ عرض ہے کہ ہر فرض کے ترک پرقرآن و حدیث میں خصوصی وعید وارد نہیں ہوئی بلکہ کتاب وسنت دونوں میں فرض سے روگردانی پر عمومی وعید اور عذاب کا تذکرہ کیا گیا ہے جس کا اطلاق ہر طرح کے فرض کے ترک پر از خودہوتا ہے۔
داڑھی نبی کریم ﷺ کا طریقہ ہے اور اپنے طریقہ کو چھوڑنے پر نبی کریم ﷺ نے جنت سے دوری کی خطرناک ترین وعید سنائی ہےاور اللہ کے رسول ﷺ نے اپنے طریقے کو اہمیت نہ دینے والے سے بے زاری اور براءت کا اظہار فرمایا ہے ۔ اب اس سے بڑھ کر وعید اور عذاب کیا ہوسکتا ہے۔ اس کے بعد بھی اگر کوئی یہ کہے کہ داڑھی کے ترک پر کوئی عذاب اور وعید نہیں تو اس کے تجاہل عارفانہ پر افسوس ہی کیا جاسکتا ہے۔
نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’
فَمَنْ لَمْ یَعْمَلْ بِسُنَّتِي فَلَیْسَ مِنِّي‘‘ جس نے میری سنت پر عمل نہ کیا اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔(سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر1846)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا : ’’
كُلُّ أُمَّتِي يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ إِلَّا مَنْ أَبَى قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَنْ يَأْبَى قَالَ مَنْ أَطَاعَنِي دَخَلَ الْجَنَّةَ وَمَنْ عَصَانِي فَقَدْ أَبَى‘‘ میری ساری امت جنت میں داخل ہوگی سوائے اس شخص کے جو انکار کردے ، آپ سے پوچھا گیا اے اللہ کے رسول ﷺ ! [ جنت میں جانے سے کون انکار کرےگا ؟ ] آپ ﷺنے وضاحت فرمائی کہ جس نے میری اطاعت کی وہ جنت میں داخل ہوا اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے [ گویا جنت میں جانے سے ] انکار کیا ۔ ( مسند احمد2/361، صحیح بخاری:7280 )
پس ان احادیث کی رو سےنبی ﷺ کے طریقے پر عمل کرنا ہی نبی کریم ﷺ کی اطاعت ہے چناچہ داڑھی منڈا نبی ﷺ کا نافرمان ہے کیونکہ وہ اللہ کے رسول ﷺ کے طریقے کا مخالف ہے۔اسکے علاوہ نبی ﷺ کا یہ ارشاد فرمانا کہ ’’اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں‘‘ داڑھی منڈے سے براءت اور بے زاری کا اعلان ہے کیونکہ وہ نبی ﷺ کے سنت یا طریقے کا عامل نہیں ہےنیز نبی ﷺ کا داڑھی منڈے مجوسیوں کا چہرہ دیکھ کر نفرت سے منہ پھیرلینا بھی اس بات کی روشن دلیل ہے کہ داڑھی منڈوں سے نبی کریم ﷺ بے زار ہیں ۔اللہ کے رسول ﷺ کی ناراضگی، لاتعلقی اور بے زاری کے بعد کس وعید اور عذاب کی حاجت باقی رہتی ہے؟
اس کا ایک جواب یہ بھی ہے کہ مغرب کی تین رکعات کو گھٹا کر دو پڑھنے یا بڑھا کر چار پڑھ لینے پر قرآن و حدیث میں کسی خصوصی عذاب یا وعید کا تذکرہ نہیں کیا گیا تو کیا تسلیم کرلیا جائے کہ مغرب کی تین رکعات فرض نہیں ہیں؟ بات یہ ہے کہ علماء شرعی احکامات سےاس طرح کی روگردانی ، دین میں اپنی من مانی اور فرائض کے ساتھ مذاق پر قرآن و حدیث میں بیان شدہ عمومی وعید اور عذاب کا تذکرہ کرکے مسئلہ کو واضح کرتے ہیں، تو جب یہاں عمومی وعید پر سائل مطمئن ہوجاتا ہے تو داڑھی کے فرض کو ترک کرنے پر عمومی عذاب کے بیان کو تسلیم کیوں نہیں کرتا؟ بس بات یہ ہے کہ جو داڑھی رکھنا ہی نہیں چاہتے یا داڑھی کٹاتے اورمونڈتے ہیں انہیں اپنے اس عمل پر خود کو اور دوسروں کو مطمئن کرنے کے لئے کمزورسہاروں کی تلاش ہوتی ہے اور ان متلاشی لوگوں کو ان بھونڈے اعتراضات ( کہ فرض وہی ہے جو قرآن میں ہے یا داڑھی فرض نہ ہونے کی دلیل اس پر خصوصی وعیدکا نہ پایا جانا ہے وغیرہ وغیرہ)کی صور ت میں داڑھی سے بچنے کا ایک بہانہ مل جاتا ہے۔لہٰذا ان اعتراضات کی حیثیت دلائل کی نہیں بلکہ بہانوں کی ہے۔
شیخ عبدالحمید ہزاروی رقمطراز ہیں:
ایک مشت کے بعد داڑھی کٹانےکی یہاں سے بھی دلیل لی جاسکتی ہے کہ ایسی کوئی بھی روایت نہیں کہ جو داڑھی کٹائے گا، اسے فلاں عذاب ہوگا، فلاں سزا دی جائے گی۔ (یک مشت سے زائد داڑھی کی شرعی حیثیت، صفحہ 157)
عرض ہے کہ ختنہ کرنا فرض و واجب ہے لیکن ذخیرہ احادیث میں ایک بھی ایسی روایت نہیں ملتی جس میں ختنہ نہ کرنے والے کو کسی عذاب یا سزا کی وعید سنائی گئی ہو، تو کیا اس سے ختنہ کی فرضیت ساقط ہوجاتی ہے؟حاشاوکلا! اصل بات یہ ہے کہ فرض اور واجب کاموں کو ترک کرنے پر جو مطلقاً عذاب اور سزا کی جو وعیدیں سنائی گئی ہیں وہ ختنہ کو ترک کرنے اور داڑھی کو کاٹنےوالوں پر منطبق ہوں گی۔شیخ عبدالحمید اور ان جیسےصاحبان جو یہ پروپیگنڈا کرتے ہیں کہ داڑھی کاٹنے پرکسی سزا کا کتاب وسنت میں ذکر نہیں اور کوئی وعیداس سلسلے میں وارد نہیں ہوئی تو وہ صاحبان مندرجہ ذیل حدیث پر غور فرمائیں:
سیدنا رویفع بن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’
يَا رُوَيْفِعُ لَعَلَّ الْحَيَاةَ سَتَطُولُ بِكَ بَعْدِي، فَأَخْبِرِ النَّاسَ أَنَّهُ مَنْ عَقَدَ لِحْيَتَهُ، أَوْ تَقَلَّدَ وَتَرًا، أَوْ اسْتَنْجَى بِرَجِيعِ دَابَّةٍ، أَوْ عَظْمٍ فَإِنَّ مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهُ بَرِيءٌ‘‘ اے رویفع! شاید کہ زندگی تجھےمیرے بعد لمبی مہلت دے، تو لوگوں کو خبردار کر دینا کہ جس نے اپنی داڑھی کو گرہ لگائی یا گلے میں دھاگہ ڈالا یا جانور کے گوبر یا ہڈی سے استنجاء کیا تو یقیناً محمد ﷺ ا س سے بری ہیں۔[سنن ابی دائود،كِتَاب الطَّهَارَةِ، باب ’’ مَا يُنْهَى عَنْهُ أَنْ يُسْتَنْجَى بِهِ‘‘: رقم الحديث: 33(٣٦)]
اگر غور فرمائیں تو داڑھی کو گرہ لگانے یا داڑھی چڑھانےکا جو حتمی نتیجہ برآمد ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ داڑھی اپنی اصل لمبائی سے کم ہوجاتی ہے اور اس فعل کے فاعل کا واحد مقصدبھی اپنی لمبی داڑھی کو چھوٹا دکھانا ہوتا ہے۔ اس لئے داڑھی کاٹنے پر بھی یہی وعید منطبق ہوگی کہ نبی ﷺ اس سے بری ہوں گے کیونکہ داڑھی چڑھانے اور اسے گرہ لگانے والے کی طرح داڑھی کاٹنے والا بھی اپنی داڑھی کی حقیقی لمبائی کو چھوٹا کرلیتا ہے ۔
بریلوی علماء بھی مذکورہ حدیث سے یہی نتیجہ اخذ کرتے ہیں، دیکھئے مولانا عبد الرحیم لاجپوری صاحب لکھتے ہیں :
”جب داڑھی لٹکانے کے بجائے چڑھانے پر یہ وعید ہے تو منڈانے اور شرعی مقدار (قبضہ) سے کم کرنے پر کیا وعید ہوگی“۔(فتاویٰ رحیمیہ ج:۱۰‘ ص:۱۰۷)
اہل حدیث عالم و مناظر جناب ابو عبدالرحمٰن محمد رفیق طاہر حفظہ اللہ نے بھی اس حدیث کا یہی مطلب سمجھاہے چناچہ لکھتے ہیں:
اس روایت میں بھی داڑھی کو گرہ لگانے سے ممانعت مذکور ہے جس سے داڑھی کی لمبائی واضح ہوتی ہے ۔ کیونکہ مشت بھر داڑھی کو نہ تو گرہ آسانی سے لگتی ہے اور نہ ہی اسکی ضرورت محسوس کی جاتی ہے۔ یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ جب داڑھی کو کاٹے بغیر، محض گرہ لگا کر چھوٹا کرنا سختی سے منع ہے تو اسے کاٹ کر چھوٹا کرنا کیونکر جائز ہوگا؟...... فتدبر! (داڑھی کی واجب مقدار ، rafiqtahir.com)
غلام مصطفیٰ ظہیر امن پوری حفظہ اللہ نے داڑھی مونڈنے والے کو لعنتی قرار دیا ہے حالانکہ حلیق کے بارے میں ایسی کوئی صریح روایت موجود نہیں ہے جس میں اس فعل کو باعث لعنت کہا گیاہو۔ اس کے لئے امن پوری صاحب نے عام دلیل سے استدلال کیا ہے جوکہ اہل علم کے نزدیک بالاتفاق درست ہےکیونکہ علمائے کرام بھی کچھ مخصوص گناہوں کی شدت بیان کرنے کے لئےعمومی دلائل سے استدلال کرتے ہیں۔غلام مصطفیٰ ظہیر امن پوری حفظہ اللہ اپنے مضمون ’’داڑھی کی شرعی حیثیت‘‘ میں لکھتے ہیں: داڑھی منڈانا باعث لعنت ہے ،سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایاہے:
سِتَّةٌ لَعَنْتُهُمْ وَلَعَنَهُمُ اللَّهُ......وَالتَّارِكُ لِسُنَّتِي۔ ’’چھ آدمیوں پر میں بھی لعنت کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ بھی (ان میں سے ایک ہے) میری سنت کو چھوڑ دینے والا۔‘‘(جامع ترمذی:۲۱۵۴،وسندہ حسن)
اس حدیث کو امام ابن حبان (۵۷۴۹) اور امام حاکم (۲؍۵۲۵) رحمہما اللہ نے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔اس کے راوی عبد الرحمٰن بن ابی الموال کے بارے میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ثقة مشهور ’’یہ مشہور ثقہ راوی ہے۔‘‘ (المغنی ۲؍۴۱۴)
حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: من ثقات المدنيين ’’یہ ثقہ مدنی راویوں میں سے ہے۔‘‘ (فتح الباری:۱۱؍۱۸۳)
اس کا دوسرا راوی عبید اللہ بن عبد الرحمٰن بن موہب ’’ مختلف فیہ‘‘ ہے،راجح قول کے مطابق وہ جمہور کے نزدیک’’حسن الحدیث‘‘ ہے۔یاد رہےکہ یہاں سنت سے مراد فرضی اور واجبی سنتیں مثلاً نماز ،روزہ،حج،زکوٰۃ،شلوار ٹخنوں سے اوپر رکھنا،داڑھی رکھنا وغیرہ ہیں۔اب جو بھی شخص داڑھی منڈائے گا ،وہ اس فرمانِ نبوی کے مطابق اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی لعنت کا مستحق ہو جائے گا۔(ماہنامہ السنۃ، جہلم، شمارہ نمبر6، اپریل 2009)
عبداللہ بہالپوری رحمہ اللہ نے بھی داڑھی مونڈنے کو اللہ کی لعنت کا موجب قرار دیا ہے چناچہ رقمطراز ہیں: ب
الکل جیسے داڑھی منڈا کہتا ہے کہ داڑھی نہ رکھے تو کافر تو نہیں ہوجاتا، دین کوئی داڑھی میں تو نہیں، رہتا تو مسلمان ہی ہے ۔حقیقت میں یہ جرات اس لعنت کا اثر ہے جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف سے سنت کو ہلکا جان کر چھوڑنے والے پر پڑتی رہتی ہے۔ اللہ ایسی لعنت سے ہر مسلمان کو محفوظ رکھے۔ (رسائل بہاولپوری، صفحہ349)
علامہ ناصرالدین البانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
اس بات میں قطعاً کوئی شک نہیں کہ خوبصورت نظر آنے کے لئے داڑھی منڈوانے والے بالکل اسی طرح رسول اللہ ﷺ کی لعنت کے مستحق ہیں جس طرح حسن کے لئے تخلیق باری تعالیٰ میں تبدیلی پر عورتیں لعنت کی مستحق ہیں۔دونوں ایک ہی گناہ کے مرتکب ہیں۔(سنت مطہرہ اور آداب مباشرت، صفحہ 72)
الحمدللہ ثابت ہوا کہ داڑھی کٹانے اور مونڈنے پر صریحاً اور براہ راست کسی وعید نہ پایا جانا داڑھی کی شرعی حیثیت کو فرضیت اور وجوب کے درجے سے نیچے نہیں لاتااور عذاب اور وعید کےلئے عمومی دلائل بھی نص اور حجت کا فائد ہ دیتے ہیں پس داڑھی مونڈنے پر وعید نہ ہونے کا شور مچانے والوں کا یہ اعتراض انتہائی لغواور باطل ہے۔ اس سلسلے میں مزید عرض ہے کہ تمام علمائے کرام نے داڑھی تراشنے اور مونڈنے والوں کواحادیث صحیحہ میں واردکفار کی مشابہت اختیار کرنے والوںکا انجام اور حشر بھی انہیں کے ساتھ ہوگا کی ہولناک وعیدکا مستحق قرار دیا ہے اور یاد رہے کہ استنباط مسئلہ کے لئے یہ عام دلیل سے استدلال اور استخراج نہیں ہے بلکہ نبی کریم ﷺ نے داڑھی کے سلسلے میں اپنے ماننے والوں کو کفار کی نقل اور مشابہت سے بچنے کا حکم دیا ہے جب کبھی بھی صحابہ کرام نے نبی کریم ﷺ سے عرض کیا کہ فلاں قوم والے داڑھی مونڈتے یا کاٹتے ہیں تو نبی ﷺ نے مسلمانوں کو ایسا کرنے سے منع فرمایااور ان کی مخالفت کرنے کا کہا جو ثابت کرتا ہے جومسلمان داڑھی کاٹے یا مونڈے گاوہ کفار کی مشابہت اختیار کرکے ان کی تعداد میں اضافے کا باعث ہوگا پھر اس کا حساب کتاب بھی روز حشر انہیں کفار کے ساتھ ہوگا۔ پس معترضین کے اعتراض بالا کا تسلی بخش جواب حاصل ہوا اور ثابت ہوا کہ احادیث میں داڑھی مونڈنے اور کاٹنے پر مشرکین و کفار کی مشابہت کی تباہ کن وعید موجود ہےجومومن کے لئے وجہ عذاب و خسارہ ہے۔والحمدللہ