• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

داڑھی نامہ

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,011
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437

داڑھی نامہ


داڑھی کی تاریخ:
داڑھی کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی خود ایک مرد کی۔پہلے نبی آدم علیہ السلام سے لے کر آخری نبی محمدﷺ تک داڑھی تمام انبیاء کی سنت رہی ہے ۔گویا داڑھی کا آغاز دنیا کے پہلے مرد آدم علیہ السلام سے ہی ہوگیا تھا۔برسبیل تذکرہ عرض ہےکہ کچھ لوگ اپنی غلط عادات کو قبول عام بنانے کے لئے انہیں ناحق مقدس ہستیوں سے جوڑ دیتے ہیں اس لئے ماضی میں ایک داڑھی منڈے مصّورنے جب آدم علیہ السلام کی تصویر بنائی تو اپنی اور اپنی قوم کی طرح ان کےبھی چہرے سے داڑھی صاف کردی چناچہ خصائص کبریٰ صفحہ 12 پر لکھا ہےکہ حضرت آدم علیہ السلام کی داڑھی نہ تھی ۔ اس حوالے پر تنقید کرتے ہوئے بریلوی عالم صاحبزادہ اقتدار احمد نعیمی کہتے ہیں: ثابت ہوا کہ یہ تصویر جھوٹی اور بناوٹی تھی حضرت آدم علیہ السلام کی نہیں ہوسکتی کیونکہ احادیث میں حضرت آدم علیہ السلام کی داڑھی ثابت ہے۔ (تنقیدات علیٰ مطبوعات، صفحہ 218)
ہندو مت یا ہندو مذہب کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ دنیا کا سب سے پرانا اور قدیم مذہب ہےاور اس مذہب میں بھی داڑھی کا تصور پایا جاتا ہے۔مولاناامیر حمزہ فرماتے ہیں: ہندو عقیدے کے مطابق براہما یا برہماکے سر تو پانچ ہی تھے مگر بعد میں چار رہ گئے۔ پانچویں سر کو ’’شوجی‘‘ نےکسی بات پر غصے میں آکر کاٹ ڈالا تھا۔ چناچہ اب براہما کو سرخ رنگ کے چار سروں میں دکھایا جاتا ہے۔ ہر سر کا چہرہ داڑھی والا ہے۔ (یہی وجہ ہےکہ بعض ہندو سادھوداڑھیاں بھی رکھتے ہیں)۔ (ہندو کا ہمدرد، صفحہ 163)

داڑھی فطرت ہے:

داڑھی ایسی فطرت ہے جو مرد کی بنیادی پہچان اور شعارہے اس فطرت اور پہچان سے بغاوت کی تاریخ محض چند صدیوں ہی پرانی ہےوگرنہ پہلے زمانوں میں بلا تخصیص ہر نیک و بد مرد کا چہرہ اس فطرت سے مزین ہوتا تھا اور تب مرد کے ایسے بے رونق اور بدصورت چہرے کا کسی نے تصور تک نہ کیا تھا جو داڑھی جیسی زینت سے محروم ہو۔ مرد کے سراپے کے ساتھ داڑھی ایسی لازم و ملزوم تھی کہ کسی کے حاشیہ خیال تک میں یہ بات نہیں آسکتی تھی کہ ایک دور ایسا بھی آئے گاجب مرد داڑھی منڈا ہوگا۔ تفاسیر و روایات میں فرعون جو اللہ کا دشمن تھا کی داڑھی کا تذکرہ ملتا ہے کہ جب اس نے موسیٰ علیہ السلام کو اپنی گود میں اٹھایا تو انہوں نے فرعون کی داڑھی نوچ لی ۔ اسکے ساتھ موسیٰ علیہ السلام کے بھائی ہارون کی داڑھی کا ذکر بھی موجود ہے کہ ہارون علیہ السلام کو موسیٰ علیہ السلام کے داڑھی اور سر کے بالوں سے پکڑ کر کھینچا یا گھسیٹا تھا۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس دور میں ہر مرد چاہے وہ حق کے ساتھ تھا یا پھرباطل کا ہمنواہر دو صورتوں میں داڑھی والا تھا۔اسکے علاوہ نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام کےساتھ ساتھ ابوجہل و ابولہب بھی داڑھیوں والے تھے گویا کہ اس وقت بھی انسان اپنی فطرت پر قائم تھا ۔ حتی کہ جب آپ ﷺ نے مجوسیوں کا چہرہ دیکھا تو فرمایا کہ ان کی مخالفت کرو اور داڑھی بڑھاؤ۔ مطلب یہ کہ مجوسیوں کی بھی داڑھیاں تھیں لیکن چھوٹی تھیں جب ہی رسول اللہ ﷺ نے ان کی مخالفت میں داڑھی بڑھانے کا حکم صادر فرمایا وگرنہ اگر وہ داڑھی منڈے ہوتے تو حکم ہوتا کہ داڑھی رکھو۔ابن حبان میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہ روایت منقول ہے:
رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ’’إِنَّ فِطْرَةَ الْإِسْلَامِ وَأَخْذُ الشَّارِبِ وَإِعْفَاءُ اللِّحَى فَإِنَّ الْمَجُوسَ تُعْفِي شَوَارِبَهَا وَتُحْفِي لِحَاهَا، فَخَالِفُوهُمْ، خُذُوا شَوَارِبَكُمْ، وَاعْفُوا لِحَاكُمْ‘‘ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مونچھیں کتروانا اور داڑھی بڑھانا اسلام کی فطرت میں سے ہے۔ بے شک مجوسی مونچھوں کو بڑھاتے اور داڑھیاں کٹواتے ہیں۔ پس تم ان کی مخالفت کرو، مونچھیں کتراؤ اور داڑھیاں بڑھاؤ
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہ بھی مروی ہے: ’’قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:خَالِفُوا الْمَجُوسَ لِاَنَّهُم كَانُوا يُقَصِّرُونِ لِحَاهُمْ وَيُطَوِّلُونَ الشَّوَارِبَ‘‘ تم مجوسیوں کی مخالفت کرو، کیونکہ وہ اپنی داڑھیاں کٹواتے اور مونچھیں لمبی کرتے ہیں۔(صحیح مسلم)
چودھری عبدالحفیظ اپنے مضمون ’’داڑھی کی شرعی حیثیت‘‘ میں لکھتےہیں: امام ابو شامہ رحمۃ اللہ علیہ کے دور میں کچھ لوگ اپنی داڑھیاں کٹواتے تھے۔ امام صاحب انہیں مجوسی گردانتے تھے۔ یہ تو امام صاحب کے زمانے کی بات ہے، اللہ ان پر رحم کرے۔ پس اگر وہ اس دور میں داڑھی منڈوانے والوں کی کثرت کو دیکھتے تو ان کی کیا حالت ہوتی؟(ماہنامہ محدث لاہور،جلد12 شمارنمبر6، اپریل 1982)
اسی طرح پروفیسر ڈاکٹر عبدالکبیرمحسن رقمطراز ہیں کہ: ابو شامہ لکھتے ہیں اب بعض لوگ ایسے موجود ہیں جو اپنی داڑھیاں منڈواتے ہیں ان کی یہ روش تو مجوسیوں سے بھی اشد ہےجن کی بابت منقول ہےکہ داڑھیاں چھوٹی کرتے تھے۔(توفیق الباری شرح صحیح بخاری،جلدنہم،صفحہ569)
اس حوالے سے بھی اس بات کا ثبوت فراہم ہوتا ہے کہ مجوسی بھی داڑھیاں رکھتے تھے لیکن وہ داڑھیاں لمبی نہیں ہوتی تھیں اس لئے ان کی مخالفت میں داڑھی کو بڑھانے کا حکم دیا گیا۔بعض روایات میں مجوس کے داڑھی مونڈنے کا ذکر بھی آتا ہے لیکن معلوم ہوتا کہ ان کی اکثریت چھوٹی داڑھیاں رکھتی تھی اور ان میں سے کم یا چندلوگوں نے داڑھی منڈوائی ہوئی بھی تھی۔اس لئے ان کی اکثریت کو دیکھتے ہوئے ان کی مخالفت داڑھی بڑھانا قرار پایا۔واللہ اعلم
ہمارے اس دعویٰ کی تائید صحیح مسلم کی اس حدیث سے ہوتی ہے جس میں موجود لفظ’’مشرکین‘‘ کا مطلب مجوس بیان کرتے ہوئے غلام رسول سعیدی بریلوی نے اس طرح درج کیا ہے: آپ نے فرمایا: مشرکین کی مخالفت کروکیونکہ وہ داڑھی کو کاٹتے ہیں اور ان میں سے بعض وہ ہیں جو داڑھی کو مونڈتے ہیں۔ (نعم الباری فی شرح صحیح البخاری ،جلد ثانی عاشر (۱۲)،صفحہ 413)
پس آغاز انسانیت سے ہی آدمی اپنی فطرت پر قائم و دائم تھا اور دین و مذہب سے قطع نظر ہر مرد چاہے وہ کافر تھا یا مسلمان ،مردانگی کے لئےداڑھی کے لازم ہونے پر سب کا اتفاق تھا۔لیکن حیرت تو اس پرہے کہ اگر کوئی چیز اپنی پہچان سے محروم کردی جائے تو اسکا کوئی وقار،عزت اور حیثیت باقی نہیں رہتی پھر مرد نے اپنے ہی ہاتھوں اپنی مرادنگی کی گواہی دینے والی پہچان کو خود اپنے ہی ہاتھوں کیوں برباد کیا؟ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہےاورکسی بھی سمجھ دار انسان سے ایسی بے وقوفی کی توقع ہر گز نہیں رکھی جاسکتی۔ ماضی کا تو علم نہیں لیکن موجودہ دور کے مسلمانوں کے داڑھی نہ رکھنے کا سبب مغرب سے بے پناہ مرعوبیت ہے۔ مغرب کی فیشن پرستی نے فطرت کے مسلمہ اصولوں سے بغاوت کا علم بلند کرکے داڑھی منڈے کو خوبصورتی کی علامت بنا دیا ہے۔ ایک عرصہ سے اب داڑھی بدصورتی (نعوذباللہ من ذالک)اور داڑھی سے نجات مردانہ خوبصورتی کا مغربی معیار ہےاور اس معیار کو داڑھی منڈوں نے عملاً اپنا رکھا ہے۔ اگرچہ داڑھی منڈا مسلمان مرد اس بات کا اقرار اپنے منہ سے نہیں کرتا کہ داڑھی بدصورتی ہے لیکن حقیقت یہی ہے جسے وہ اپنے عمل سے ظاہر کرتا ہےاور زبان حال سے اس کی گواہی دیتاہے۔ایسے مسلمانوں کو فوری طورپراپنے کردار و عمل کا اس حدیث کی روشنی میں جائزہ لینا چاہیے۔ نبی کریم ﷺ نےارشاد فرمایا: فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِي فَلَیْسَ مِنِّي جو کوئی میری سنت کو ناپسند کرےاس کا مجھ سےکوئی تعلق نہیں۔(صحیح بخاری، حدیث نمبر4776، صحیح مسلم، حدیث نمبر1401)
اسی طرح سنن ابن ماجہ کی روایت میں ہے کہ: فَمَنْ لَمْ یَعْمَلْ بِسُنَّتِي فَلَیْسَ مِنِّي جس نے میری سنت پر عمل نہ کیا اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔(سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر1846)

رب کی تخلیق کو مکمل طور پر تبدیل نہیں کیا جاسکتا:
جس شخص کورب کائنات نے مرد پیدا کیا ہےوہ ساری زندگی مرد ہی رہتا ہے وہ چاہ کر بھی مردانہ خصوصیات کو مکمل زنانہ خصوصیات میں تبدیل نہیں کرسکتا۔ اگرچہ آج میڈیکل سائنس کی حیرت انگیز ترقی کے دور میں بھی جو مردحضرات جدید طبّی طریقوں کی مدد سے عورت بننے کی خواہش میں اپنی مردانہ شناخت مٹانے کی کوشش کرتے ہیں وہ بھی اس میں مکمل طور پر کامیاب نہیں ہوپاتے اور ان میں کچھ نہ کچھ بلکہ بہت کچھ ایسی مردانہ خصوصیات باقی رہ جاتی ہیں جس سے دیگر لوگ اس کی پہچان باآسانی کرلیتے ہیں کہ یہ خود ساختہ عورت ہے کیونکہ یا تو ان کی چال ڈھال اور نشت برخاست زنانہ نہیں ہوتی یا پھر آواز میں زنانہ لوچ نہیں ہوتا یا پھر بعض اعضاء مردانہ محسوس ہوتے ہیں یا بعض ادائیں زنانہ سے زیادہ اپنے اندر مردانہ انداز رکھتی ہیں یا پھر دیکھنے والے کی چھٹی حس خبردار کررہی ہوتی ہے کہ جو شخص زنانہ وضع قطع میں ان کے سامنے ہے وہ معیاری زنانہ سطح پر پورا نہیں اتر رہا وغیرہ وغیرہ
ان گزارشات کا مطلب یہ ہے کہ جسے خالق کائنات نے مرد پیدا کیا ہے وہ مرتے دم تک مرد ہی رہےگالیکن یہ بھی یاد رہے کہ مرداپنی خصوصیات کے اعتبار سے ناقص اور کامل مرد ہوتا ہے اور یہ سراسر اس کے اپنے اختیار میں ہوتا ہےاور اسکی اپنی مرضی و خواہش پر منحصر ہوتا ہے کہ عورتوں کی مشابہت سے دامن بچاکر وہ خود کو کتنا مرد باقی رکھنا چاہتا ہے۔ اس سلسلے میں یہ بات یاد رکھنے کے لائق ہےکہ مردانگی صرف یہ نہیں کہ کسی مردکاعضو خاص صحیح و درست ہوبلکہ اسکے ساتھ دیگر خصائل، عادات اور نشانیاں بھی مردانگی کی تعریف میں پوری طرح داخل ہیں۔ مثال کے طور پر بہادری وہ وصف ہے جو ایک مرد کی پہچان ہے یہی وجہ ہے کہ جو آدمی اس وصف سے محروم ہو یعنی ڈرپوک ہوتو اسے اردومحاورے میں نامرد بھی کہا جاتا ہےاور عام زبان میں جو آدمی بہاد ر ہو اسے کہا جاتا ہے کہ ’’نر کا بچہ ہے‘‘ یا ’’فلاں نر آدمی ہے‘‘۔ انہیں مردانہ اوصاف کی فہرست میں ایک نمایاں وصف داڑھی بھی ہے چناچہ جو آدمی اس سے عاری ہے وہ ایک اہم مردانہ وصف سے خالی ہے ایسا مرد کامل مرد نہیں کہلاسکتا یہ آدھا ادھورا اور ناقص مرد ہے۔ اس کے برعکس کامل مرد وہ ہےجو ان احکامات کو بجالائے جو بحیثیت مرد اللہ نے اس کے لئے ضروری قرار دئیے ہیں جیسے داڑھی رکھنا یا ازار کو ٹخنے سے اورنچا رکھنا اور ان تمام کاموں سے بچتے رہنا جو عورتوں کے ساتھ مخصوص ہیں جیسے سونے اور ریشم کا استعمال وغیرہ اور اس کی ایک معقول وجہ بھی ہے وہ یہ کہ ہرعادت، ہر بھاؤ تاؤ، ہرچیز اپنی الگ تاثیر اور علیحدہ خصوصیات رکھتی ہے اس لئے جو بھی اسے استعمال یا اختیار کرتا ہے وہ چیز یاعادت اس کی شخصیت اور طبیعت پر اپنا اثر ڈالتی ہے جسے وہ خود اور دیگر لوگ محسوس کرتے ہیں۔ اس لئے زنانہ خصوصیات کی حامل اشیاءاور کاموں سے جب ایک مرد اجتناب کرتا ہے تو وہ صحیح معنوں میں کامل مرد کہلاتاہے اور جب ایسی اشیاء و عادات میں سے کسی کو اختیار کرتا ہے تو ناقص مرد کہلاتا ہےمثلاًدلیری، جرات ، بے جگری و بہادری ایک مردانہ خوبی و خاصیت ہے اگرچہ بعض عورتوں میں بھی پائی جاتی ہے لیکن یہ سجتی مردو ں پر ہی ہے اور مردانہ وجاہت اور کشش میں اضافے کا سبب بنتی ہے اور کمزوری اور بزدلی زنانہ وصف ہےلیکن اگر مرد میں پایا جائے تو اس کی مردانگی پر حرف آتا ہےاور اسکی شخصیت کو داغدار کردیتا ہے ایسی صورت میں آدمی مکمل اور اکمل نر خصوصیات کا حامل نہیں ہوتا۔ اس کے ساتھ یہ بھی ایک اٹل حقیقت ہےکہ کسی مرد کا بزدل ہونا بھی تقدیر سے ہےاس میں اس کا اپنا کوئی اختیار نہیں ہےلیکن یہ بھی سچ ہے کہ اپنی فطری بزدلی کا بہانہ کرکے مرد ان کاموں سے پیچھے نہیں ہٹ سکتا جہاں مردانگی دکھانا ضروری ہوتا ہے جیسے محارم عورتوں کی حفاظت اور جہاد وغیرہ۔لیکن اگر اس کمی اور نقص کو ہم ایک طرف بھی رکھ دیں تو دیگر زنانہ خصوصیات رکھنے والے اعمال کے اختیار کرنے یا نہ کرنے میں آدمی مکمل بااختیار ہے جن سے احتراز کرکے وہ واقعی مرد بن سکتا ہے ایک ایسا نر جسے نر کہا جانا حق بجانب ہو۔ مرد کے لئے عورتوں کے ساتھ مخصوص اوصاف ، عادتوں اور باتوں سے بچنا کیوں اتنا ضروری ہے ماقبل اس کی وجہ بیان کی گئی ہے کہ ہر چیز اور ہر عادت اپنا ایک مستقل اثر رکھتی ہے چناچہ زنانہ عادت زنانہ اثرات پیدا کرتی ہے اور مردانہ عادت مردانہ اثرات کی حامل ہوتی ہے۔ اب اگر زنانہ عادات کسی لڑکی میں ہوں تو اچھی لگیں گی اور اسکے حسن میں چار چاند لگائیں گی اور اگر یہی زنانہ عادات کسی مرد میں پائی گئیں تو اس کی شان گھٹائیں گی اور یہی بات عورتوں کے ساتھ بھی ہے کہ کسی مردانہ خاصیت کا ان کی شخصیت میں وجود انہیں بدصورت بنا دے گا۔اس لئے مردوں کو چاہیے کہ عورتوں کے اوصاف اور عورتوں کو چاہیے کہ مردانہ اوصاف سے دور رہیں تاکہ مرد مرد اور عورت عورت بن سکے۔ چناچہ اس بارے میں ابن القیم رحمہ اللہ بعض علماء کے حوالے سے لکھتے ہیں: بعض علماء نے کہا ہے کہ ریشم طلائی زیورات کی طرح عورتوں ہی کے لیے مخصوص ہے اور مردوں پر اس لئے حرام ہے تاکہ عورتوں سے مشابہت نہ ہوسکے۔ بعض کا کہنا ہے: اس سے انسان کی ہوا بدل جاتی ہے، اس لئے حرام ہے۔ بعض کہتے ہیں: اس سے مردوں میں عورتوں اور خواجہ سرائوں جیسے ناز نخرے جنم لیتے ہیں۔ اسی لئے آپ کو ریشم پہننے والوں کی عادات و اطوار میں عموماًناز و نزاکت اور زنانہ پن کے آثار واضح نظر آئیں گے، چاہے ایسا آدمی کتنے ہی مردانہ ٹھاٹھ باٹھ والا ہو۔ ریشم پہننے سے یہ ٹھاٹھ باٹھ بالکل ختم نہ بھی ہو تو فرق ضرور آتا ہے۔ یہ سب کچھ اپنی جگہ لیکن آپ ﷺ کے فرمان عالی شان کا اپنا ہی امتیازی مقام ہے، اس سے تو کسی صورت انکار روا نہیں، لہٰذا کسی سرپرست کے لیے قطعاًجائز نہیں کہ وہ بچے کو ایسا لباس پہنائے جس سے عورتوں جیسی ادائیں پیدا ہونے کا امکان ہو۔(طب نبویﷺ، صفحہ 253، طبع دارالسلام)
بالا معروضات کے تحت غور فرمائیں کہ داڑھی منڈوانا جو کہ عورتوں سے بہت زیادہ اور گہری مشابہت رکھتا ہے زیادہ مشابہت اس لئے کہ اس کا تعلق عادات کے برعکس ظاہری حلیے سے ہےاور عادات تو انسان وقتی طور پر چھپا بھی سکتا ہے لیکن حلیہ پوشیدہ رکھنا ناممکنات میں سے ہے اور پہلا فرق جو انسانی آنکھ کو مرد اور عورت کے چہرے میں نظر آتا ہے وہ داڑھی کا ہونا اور نہ ہونا ہےلہٰذا اگر دونوں چہروں پر داڑھی نہیں ہوگی تو مرد اورعورت کے چہرے کا فرق جو قدرت نے قائم کیا ہے کتنا باقی رہے گا؟ لہٰذا یہ چیز مرد کو مرادنگی سے دور کرکے زنانے پن کے قریب تر کرے گی توپھر عورتوںکی اس مضبوط اور گہری مشابہت سے ایک مرد میں زنانہ ادائیں اور ناز ونخرے جیسی صنف نازک کی خصوصیات کیوں نہ پیدا ہوں گی؟ بالکل پیدا ہوں گی اور ضرور پیدا ہوں گی آخر کیسے ممکن ہے کہ ایک مرد عورتوں والا حلیہ اپنانے کے بعد اسکے زنانہ اثرات سے بچ جائے! حاشا وکلا
اس حقیقت سے مفر ممکن نہیں ہے کہ داڑھی منڈاآدمی یا لڑکا دوسرے مردوں کے لئے تفریح طبع کا باعث بنتا ہے اوران کے لئے دل لگی کا سامان پیدا کرتا ہے حالانکہ یہ ایک مرد کی مردانگی کے لئے انتہائی ذلت اور شرم کا مقام ہے۔ یہ ایک عام مشاہدہ بھی ہے کہ ایک جوان مرد جو داڑھی اور مونچھوں سے بے نیاز ہو اور خوبصورت بھی ہو توغیر مردوں کی توجہ اور دلچسپی کا مرکز اور محور بنتا ہےاورایسے مرد کو دوسرے مرد ہر گز ان نظروں سے نہیں دیکھتے جن نظروں سے وہ داڑھی والے مرد کو دیکھتے ہیں حالانکہ فطری طور پر ایک مرد عورت کی طرف ہی راغب ہوتا ہے لیکن چونکہ داڑھی منڈا مرد اپنے غیر فطری عمل سے زنانہ خصوصیت کا حامل ہوجاتا ہے اس لئے دوسرے مرد اس میں کشش محسوس کرنے لگتے ہیں۔
 
Last edited:

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,011
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
مرد کی مردانگی سے بغاوت:
ماضی قریب میں اپنی مرادنگی کے نشانات مٹانے کا مرد پر ایسا بھوت سوار ہوا کہ اس نے عورتوں کی طرح لمبے بال بھی رکھناشروع کردئے جبکہ داڑھی پر تو پہلے ہی ہاتھ صاف کرچکا تھا۔اور حالت یہ ہوئی کہ عام شخص کے لئے مرد اور عورت کی پہچان ہی مشکل ہوگئی خاص طور پر پیچھے سے دیکھنے پر تو کوئی بتا ہی نہیں سکتا تھا کہ آیا کہ یہ صنف نازک ہے یا صنف آہن؟ پھر خواتین بھی مردوں کی طرح پٹے بال رکھ کر اس دوڑ میں شامل ہوگئیں چناچہ مردوں کی طرح ڈیل ڈول رکھنی والی خواتین اور مردوں میں پہلی نظر میں تفریق کرنا بھی مشکل ٹھہرااور آج کے دور میں مرد نے ناک میں نتھ بھی پہننا شروع کردی ہے یعنی مرد نے تہیہ کیا ہوا ہے کہ اسے صرف مرد نہیں بننا ہاں البتہ عورت بننے کی خواہش میں کھسرا بننا منظور ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں ذاتی خواہشات کے اعتبار سے مرد تین قسم کا ہے۔ ایک وہ مرد ہے جس کا چہرہ مردانگی کے نشان یعنی داڑھی سے عاری ہے لیکن اسے بگڑے ہوئے معاشرے میں مرد ہی سمجھا جاتا ہےاگرچہ حلیے کے اعتبار سے یہ مرد سمجھے جانے کے لائق نہیں لیکن یہ مرد کے تصور میں صرف اس لئے پورا اترتا ہے کہ جنسی میلان کے لحاظ سے یہ عورتوں میں رغبت رکھتا ہے۔ اور دوسرا ہیجڑا اور کھسرا ہے یہ بھی اصل میں مرد ہے اور یہ بھی داڑھی سے بے زار ہےلیکن پہلے مرد سے امتیاز کے لئے اسے مرد نہیں بلکہ خواجہ سرایا ہیجڑا کہا جاتا ہےاور یہ امتیاز اور فرق بھی چہرے کی وجہ سے نہیں ہے کیونکہ مرد اور کھسرے دونوں کا چہرہ ایک جیسا ہے بس بنیادی فرق یہ ہے کہ یہ مرد جسے ہیجڑا کہہ کر پکارا جاتا ہے یہ اپنی جنسی خواہشات کی تکمیل کے لئے عورتوں کے بجائے مردوں کا طالب ہے۔تیسری قسم کا مرد وہ ہے جو مکمل طور پر مرد اور کھسرے کے زمرے میں نہیں آتا کیونکہ یہ دور جدید کی پیداوار ہے یہ مرد اس لئے ہے کہ عورتوں میں دلچسپی رکھتا ہے اور مخنث کے قریب اس لئے ہے کہ ان میں سے بعض کانوں میں بندے اور بالیاں پہنتے ہیں اور ناک میں نتھ پہنتے ہیں بعض عورتوں کی طرز کے بال جیسے جوڑا یا پونی ٹیل رکھتے ہیں یعنی عورتوں جیسا ہار سنگھار کرتے ہیں۔ یہ واحد مرد ایسا ہے جو اپنے چہرے پر داڑھی رکھتا ہے تاکہ اس کے ہار سنگھار سے کوئی اسے مخنث نہ سمجھ لےاور مرد حضرات اس میں دلچسپی لینے کی کوشش نہ کریں اور داڑھی سے عورتوں کو یہ پیغام جائے کہ بے شک حلیے سے یہ عورتوں جیسا ہے لیکن مرد ہے اور عورتوں کا خواہش مند ہے۔ درست بات یہ ہے کہ ان تینوں میں سے کوئی بھی کامل مرد نہیں ہے پہلی قسم کا مرد داڑھی منڈوا کر مرد ہونے سے انکاری ہے تو دوسرا مرد مفعول بن کر مرادنگی پر کلنک ہے جبکہ تیسرا داڑھی رکھ کر بھی مرد نہیں کہ اس کا حلیہ عورتوں والا ہے جو کہ مرادنگی کے لئے زہر قاتل ہے۔

اہل کتاب کی پیروی:
جب دور اچھا تھا اور لوگ فطرت پر قائم تھے اس دور میں مرد داڑھی والا ہی ہوتا تھا اور دین و مذہب سے قطع نظر ہر مرد چاہے وہ کافر تھا یا مسلمان چہرے پرداڑھی کی موجودگی پر سب بالاتفاق متفق و متحد تھے پھردور خراب ہوا تو سب سے پہلے مشرکین اور یہود و نصاریٰ نے اس عالمی اتحاد کو پارہ پارہ کیا اورفطرت سے اعلان جنگ کرتے ہوئے داڑھیاں صاف کروانے کا آغاز کیا اس کے بعد مسلمانوں نے بھی یہود و نصاریٰ کے نقش قدم کی پیروی کرتے ہوئے اس فطرت سے اعلان بغاوت کردیا۔کیونکہ اللہ کے رسول ﷺ نےیہ پیشنگوئی فرمائی تھی کہ مسلمان لازماً اور ضرور بالضرور یہودیوںاور عیسائیوں کی قدم بہ قدم پیروی کرینگے حتی کہ اگر ان میں سے کوئی سانڈ کے بل میں داخل ہوا یا کسی نے اعلانیہ اپنی ماں سے زنا کیا ہوگا تو مسلمان بھی ایسا ہی کرے گا۔لہٰذااس ہونی کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ ناممکن تھا کہ یہودی و نصاریٰ اپنا چہرہ بگاڑتے اور مسلمان ان کی تقلید سے پیچھے رہ جاتا۔لیکن ان تمام تر بے ہودگیوں اور مسلمانوں اور اہل کتاب کی مشترکہ کاوشوںکے باوجود بھی اگر آج آپ کسی قوم کے بڑے ، معززاور قابل احترام شخصیت کو دیکھ لیں تو وہ داڑھی والا ہی ہوگا۔گویا کہ نافرمانوں نے فطرت کو بدلا ضرور ہے لیکن اسے مٹایا نہیں جاسکا اس لئے یہ کہیں نہ کہیں اور کسی نہ کسی شکل میں زندہ ہے۔
لطف کی بات یہ ہے کہ مسلمانوں کو اپنے پیچھے لگا کر خود یہود و نصاریٰ نے اپنا طریقہ بدل لیا ہےچاہے عارضی طور پر یا محدود پیمانے پر ہی سہی لیکن ان کے حلیے میں ایک مثبت تبدیلی ضرور آئی ہےاور مغربی معاشرے میں اسے پذیرائی بھی حاصل ہورہی ہے۔ مغربی لوگوں میں کچھ دیگر خوبیوں کے ساتھ ایک خوبی یہ بھی ہے کہ یہ لوگ اپنی غلطیوں سے سیکھتے ہیںاور ٹھوکر کھا کر سنبھل جاتے ہیں چناچہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اب مغرب آہستہ آہستہ دوبارہ فطرت کی طرف پلٹ رہا ہے۔ مغرب میں ہوئے ایک حالیہ سروے کے مطابق یورپی خواتین کا کہنا ہےکہ انہیں داڑھی والے مرد کلین شیوڈ( مونچھوں اور داڑھی سے بے نیاز) مردوں سے زیادہ پرکشش اور مردانگی سے بھرپور لگتے ہیں جبکہ داڑھی منڈوں کو دیکھ کر یہ احساس ہوتا ہے کہ ان میں داڑھی والے مردوں کے مقابلے میں مردانگی کم ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی عورتیں داڑھی والے مردوں کو ترجیح دینے لگی ہیں جس کے نتیجے میں مردوں کے درمیان داڑھی رکھنے کا رجحان روز بروز بڑھ رہا ہے۔ اسکے برعکس مسلمان مردجوویسے توکفار کی تقلید کو پسند نہیں کرتے لیکن مغرب کی تقلید کسی صورت چھوڑنے پرتیار نہیں ابھی تک مغرب کے فرسودہ خیالات سے چپکے ہوئے آج بھی داڑھی سے عاری چہرے کو مردانہ خوبصورتی خیال کئے بیٹھے ہیں جبکہ خود ان کا مذہب و دین داڑھی رکھنے کا حکم دیتا ہے لیکن یہ دین کا حکم ماننے کو تیار نہیں اوراس شرعی حکم سے بچنے کے لئے داڑھی سنت و مستحب ہے جیسے کمزوربہانے تلاش کرتے ہیں۔لیکن ان بدلتے حالات میں جیسے ہی انہیں احساس ہوگا کہ مغرب نے مرد کے لئے اپنے قائم کردہ خوبصورتی کے معیار کو بدل لیا ہے تو یہ تمام نوجوان مسلمان مرد جو داڑھی منڈے ہیں شوق سے داڑھی رکھ لیں گے۔گویا زبانی اپنے نبی ﷺ کی تابعداری کا دم بھرتے ہیں لیکن لباس اور حلیے میں تابعداری مغرب کی کرتے ہیں۔ مغرب اگر داڑھی منڈوانے کو خوبصورتی کہے گا تو یہ داڑھی منڈوائیں گے اور اگر مغرب کو مردانہ خوبصورتی داڑھی میں نظر آئے گی تو یہ داڑھی رکھیں گے۔علامہ اقبال نے بھی کیا خوب شعر کہا ہے جوآج تک مسلمانوں کی حالت کی ٹھیک ٹھیک ترجمانی کرتا ہے:
وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدّن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں! جنھیں دیکھ کے شرمائیں یہود​
ہمارے معاشرے میں پہلے اکثریت داڑھی منڈے مردوں کی تھی لیکن اب داڑھی والے مرد بھی دیکھنے کو مل جاتے ہیں ۔ داڑھی والوں اور داڑھی منڈوں میں تناسب اب بالترتیب تیس اور ستر فیصد کا ہے لیکن اس تبدیلی کی وجہ ہر گز یہ نہیں کہ مسلمان مردوں کوکچھ عقل آگئی ہے یا انہیں فطرت سے پیار ہوگیا ہے یا پھریہ غیر فطری اور زنانہ حلیے سے تھک چکے ہیں ۔ ہرگز نہیں! بلکہ یہ بھی یہود و نصاریٰ کی پیروی ہی کا نتیجہ ہے ۔ بدقسمتی سے چونکہ اسلامی معاشروں میں حسن اور خوبصورتی کا معیار مغرب کے وضع کردہ قاعدوں اور معیارات پر طے کیا جاتا ہے اس لئے جب مغربی مرد میں تبدیلی آئی اور اس نے داڑھی رکھ کر خود کو خوبصورت بنانے کی کوشش کی تو کچھ مسلمانوں مردوں نے بھی ان کی دیکھا دیکھی فیشنی اور کٹی ہوئی داڑھیاں رکھ لیں۔ان بے شرم مسلمانوں کو فطرت یا شریعت سے کوئی سروکار نہیں بس یہ مغرب کی تقلید میں اپنی عقل سلیم کھوچکے ہیں۔ اگر آج مغرب کا مرد اپنی داڑھی کو معاف کردے اور اسے خوبصورتی سے تعبیر کرے تو مسلمان مردوں کی اکثریت ایسی داڑھیاں رکھ کر خود کو ہیرو اور شہزادہ سمجھنے لگے گی۔لیکن آج ایسی داڑھی جسے اسکے حال پر چھوڑ دیا گیا ہو ان کی نظر میں بدصورتی ہےصرف اس لئے کہ یہ حکم مغرب کی طرف سے نہیں بلکہ شریعت کی طرف سے آیا ہے ۔ یہ تقلید کی بدترین شکل ہے جس میں مقلد ذہنی و جسمانی طور پر سر تا پا اغیار کا غلام بن کر رہ جاتا ہے۔

اسلامی معاشرے کا داڑھی کے ساتھ سلوک:
اس نام نہاد اسلامی معاشرے میں آج سے ستّر اسّی سال قبل لوگوں کا رویہ یہ تھاکہ ان میں سے جب ایک نوجوان مرد داڑھی رکھ لیتا تھاتو اسکے گھر اور خاندان والے اس کی حوصلہ شکنی کرتے تھے اور اسے یہ کہہ کر داڑھی منڈوانے کا مشورہ دیا جاتا تھا کہ ابھی تمہاری عمر ہی کیا ہےبعد میں رکھ لینا یا پھراگر تم داڑھی رکھو گے تو تمھیں کوئی اپنی بیٹی کا رشتہ نہیں دے گا۔ لوگوں کی ایسی ہی غیر اسلامی سوچ کی وجہ سے داڑھی صرف منبر و محراب سے تعلق رکھنے والے مردوں یعنی مسجد کے مولوی اور علماء حضرات تک محدود ہوکر رہ گئی تھی۔ یا یوں کہیں کہ پچھلے وقتوں میں مولوی ہی نے اس سنت کو زندہ رکھا ہوا تھاوگرنہ یہ سنت متروک ہوجاتی۔مقام رنج و افسوس ہے کہ یہ رواج بد اور غیرفطری ذہنیت صرف ہمارے معاشرے کا حصہ نہیں بلکہ بلاد عرب بھی جو کہ دین کامسکن ہے اس بیماری سے محفوظ ومامون نہیں۔ علامہ ناصرالدین البانی اپنے علاقے کے لوگوں کا حال بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: اب تو بات یہاں تک پہنچ گئی ہے لوگ اس بات کو عار اور بے عزتی محسوس کرتے ہیں کہ دولہا دلہن کے پاس جائے اور اس نے داڑھی نہ منڈا رکھی ہو۔(سنت مطہرہ اور آداب مباشرت، صفحہ71)
برسبیل تذکرہ عرض ہے کہ خود راقم السطور کو بھی عین عنفوان شباب میں شرعی داڑھی رکھنے پر گھر اور خاندان والوں کی طرف سے مزاحمت اور تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔میری دادی جان جنھیں ہم اماں کہتے تھے نے مستقبل کی مشکلات جیسے شادی نہیں ہوگی اور لڑکے کے بجائے داڑھی کے ساتھ آدمی لگے گا وغیرہ کا ذکرکرکے مجھے اس بات پر قائل کرنے کی کافی کوشش کی کہ میں اپنی داڑھی کو مستقل رکھنے کے ارادے سے دستبردار ہوجائوں۔ شومئی قسمت کہ اماں کے مشورہ پر تو میں نے کوئی دھیان نہیں دیا لیکن کچھ عرصہ بعد کچھ اور وجوہات کی بنا پر داڑھی مونڈ لی۔ ہمارے علاقے کا ایک لڑکا جو میری داڑھی کی بہت تعریف کرتا تھا کہ بہت خوبصورت لگتی ہےخود اس کی بھی داڑھی تھی کافی سالوں کے بعد اس نے بھی داڑھی مونڈ لی .جب میں نے اس سے اس کی وجہ دریافت کی تو اس نے بتایا کہ میری شادی نہیں ہورہی اس لئے داڑھی کٹوا لی ہے۔ ا س سے داڑھی کے متعلق ہمارے معاشرے میں پائی جانے والی سوچ کا بخوبی علم ہوتا ہےکہ بحیثیت مسلمان چاہے ہم داڑھی کی تعظیم کرتے ہوں لیکن لڑکی کے لئے کسی داڑھی والے کا رشتہ آجائے تو نہ صرف خود لڑکی پسند نہیں کرتی بلکہ اس کے گھر والے بھی اس بنیاد پر رشتہ سے انکار کردیتے ہیں۔داڑھی کے ساتھ اس سلوک کے پیچھے یقیناً داڑھی کو فرض نہ سمجھنے اور مستحب سمجھنے کا کافی عمل دخل ہے۔اگر اس بارے میں لوگوں کی معلومات درست ہوجائے کہ داڑھی مستحب نہیں فرض ہے تو کافی حد تک ہمارے معاشرے کی اصلاح ہوسکتی ہے۔

داڑھی مرد کی آفاقی علامت ہے:
بعض لوگ داڑھی کو صرف مذہب کا ایک حکم سمجھتے ہیں اور اسلام میں پورے پورے داخل ہونے کے لئے اس کو ضروری خیال کرتےہیں۔جبکہ ماضی بعید میں مرد نے داڑھی کو کبھی بھی مذہب سے جوڑنے کی کوشش نہیں کی بلکہ اسے ہمیشہ مذاہب و ادیان سے بالاتر سمجھا گیا۔ دین و مذہب سے قطع نظر ہر مرد اپنے چہرے پر بال سجائے اس پر فخر کرتا تھاجبکہ اس سے محرومی کو مردانگی کے لئے عارسمجھتا تھا۔ جہاں تک مذاہب کی بات ہے تو اسلام سے داڑھی کا تعلق محض ایک خاص ہیت کا ہے جس کی پابندی کو اسلام نے اپنے ماننے والوں پر ضروری قرار دیا ہے جیسے داڑھی کو اسکے حال پر چھوڑ دینا اور مونچھوں کو چھوٹا رکھنایابعض علماء کے نزدیک کم سے کم ایک مشت لمبی داڑھی رکھنا۔داڑھی دین اسلام کا حکم یا بعض الناس کے نظیرے کے مطابق محض عرب کا کلچر نہیں ہےبلکہ اس کی حیثیت اس سے بھی بڑھ کر فطرت کی ہے اس لئے داڑھی مسلمان کے ساتھ کافربھی رکھتا تھا اور اہل کتاب یعنی یہودی اور عیسائی بھی داڑھی بردار ہوتے تھے بس مسلمان ،کافر اور اہل کتاب کی داڑھیوں میں فرق محض ہیت کاہی ہوتا تھا لیکن داڑھی رکھنے یا نہ رکھنے کا کوئی اختلاف کبھی ان کے مابین نہیں رہابلکہ داڑھی کا مطلب مرد اور مرد کا مطلب داڑھی ہی رہا ۔کہنے کا مطلب یہ ہے کہ داڑھی کو مذہب اسلام سے جوڑ کر اس کے فطری اور مردانگی کی پہچان ہونے کا انکار کرنا محض دھوکہ اور فریب ہے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ مرد صرف وہی ہے جس کے چہرے پر داڑھی ہے اور جس کا چہرہ بالوں سے محروم ہے وہ مخنث اور ہیجڑا ہے جس کے منہ سے مردانگی کا دعویٰ محض جھوٹ و فریب ہے۔

داڑھی کی شرعی حیثیت:
مسلم معاشروں میں داڑھی کے متعلق بہت سی غلط فہمیاں پائی جاتیں ہیں اور اس کی شرعی حیثیت کے بارے میں لوگ ناقص اور غلط معلومات رکھتے ہیں چناچہ اکثریت ان مردوں کی ہے جو داڑھی کو سنت سمجھتے ہیں یعنی رکھو تو ثواب اور نہ رکھو تو کوئی گناہ نہیں اور جو حضرات اس کے فرض ہونے کا علم رکھتے ہیں ان میں سے بھی بعض نے بےبنیاد شکوک وشبہات پھیلا کر داڑھی کی فرضیت کواپنے تئیں پوری طرح مشکوک بنانے کی کوشش کی ہے۔اس لئے ضروری ہے کہ داڑھی کی شرعی حیثیت پر بات کرلی جائے اور اس کے متعلق جان بوجھ کر پیدا کئے گئے شبہات کا ازالہ کرنے کی کو شش کی جائے،تو عرض ہے کہ داڑھی دین اسلام میں فرض و واجب ہے اور اس پر دیوبندی، بریلوی اور اہل حدیث علماء یک زبان ہیں۔اس کی دلیل یہ ہے کہ اللہ اور اسکے رسول ﷺ کا حکم اصلاً فرض کے درجے میں ہوتا ہے یہاں تک کہ خود شارع ہی اس میں نرمی اختیار کرلےیا کوئی گنجائش یا اختیار دے دے۔ ایسی صورت میں وہ حکم فرض کے دائرہ سے نکل کر مستحب کے دائرہ میں داخل ہوجاتا ہے۔داڑھی بڑھانے کا اللہ نے اپنے رسول ﷺ کو حکم دیا اور رسول اللہ ﷺ نے اپنی امت کو یہ حکم اسی طرح منتقل فرمادیا۔اللہ کے حکم سے داڑھی نبی کریم ﷺ پر فرض ہوئی اور نبی ﷺ کے حکم سے امت پر فرض ہوگئی کیونکہ اس میں امت کو کوئی رعایت یا گنجائش نہیں دی گئی۔حارث بن ابی اسامہ رضی اللہ عنہ نے یحییٰ بن کثیر سے ذکر کیا ہے، کہتے ہیں، ایک عجمی مسجد نبوی میں آیا جس کی مونچھیں بڑھی ہوئی اور داڑھی کٹی ہوئی تھی، اسے رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’ماحملك على هذا‘‘ تمہیں ایسا کرنے پر کس نے مجبور کیا؟ اس نے کہا’’ میرے رب نے مجھے اس کا حکم دیا ہے‘‘ تو رسول اکرمﷺ نے فرمایا: ’’ان الله امرنى اوفرا لحيتى واحفى شاربى‘‘ بےشک میرے اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں اپنی داڑھی بڑھاؤں اور اپنی مونچھیں کٹواؤں۔ (الحدیث)
داڑھی کی فرضیت کے دلائل اس قدر قوی ہیں کہ اہل حق کا اس میں کبھی کوئی جھگڑا نہیں رہا، اسی بنا پر چودھری عبدالحفیظ اپنے مضمون ’’داڑھی کی شرعی حیثیت‘‘ میں اس پر اجماع کا دعویٰ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ابومحمد بن حزم نے لکھا ہے کہ اس بات پر اجماع امت ہے کہ مونچھوں کا کٹوانا اور داڑھی کا بڑھانا فرض ہے۔ (ماہنامہ محدث لاہور، جلد12، شمارہ نمبر6، اپریل1982ء)
پس یہی وجہ ہے کہ ہم نے داڑھی کی فرضیت پر بحث کرنے اوراس پر دلائل دینے کے بجائے ان اعتراضات پر اپنے قلم کو مرکوز رکھا ہے جن کے ذریعہ امت مسلمہ کے اس اجماعی مسئلہ پر نقب لگانے کی کوشش کی گئی ہے۔لہٰذاداڑھی کے وجوبی حکم کو مشکوک بنانے کے لئے ایک شبہ یہ پیدا کیا جاتا ہے کہ’’ جتنے بھی فرائض ہیں ان کا ذکر قرآن میں آیا ہے لیکن یہ کیسا فرض ہے کہ جس کے تذکرے سے کلام الہٰی خاموش ہے۔ اس اعتراض سے معترضین کا مقصد یہ ہے کہ داڑھی فرض نہیں ہے۔‘‘
فرض وہی ہے جو کلام الٰہی میں درج ہے جبکہ حدیث میں کسی چیز کا حکم موجود ہونا اسے فرض نہیں کرتا یہ ایک خود ساختہ اصول وقاعدہ ہے جس کا کوئی ثبوت دین محمدی ﷺ میںموجود نہیں ہے۔غوروفکر کرنے سے اس من گھڑت قاعدے اور اصول کا بطلان واضح ہوجاتا ہےجیسے پانچ وقت کی نماز ہر عاقل و بالغ پر فرض ہے اس کی اصل کلام الٰہی میں موجود ہے۔ لیکن فجر کی دو رکعت فرض ہیں ، ظہر کی چار اور عصر کی چار مغرب کی تین اور پھر عشاء کی چاررکعات کی فرضیت قرآن سے ثابت نہیں ہےبلکہ فرض نمازوں کی ان متعین اور مخصوص تعدادرکعات کی فرضیت حدیث سےثابت ہوتی ہے۔ لہٰذا اگر اس بدعی اصول کا اعتبار کیا جائے تو ماننے پڑے گا کہ چونکہ فجر میں دو رکعت فرض نہیں ہیں کیونکہ اس کا ذکر حدیث میں ملتا ہے قرآن میں نہیں تو ہر شخص آزاد ہوگا کہ وہ زیادہ ثواب کے حصول کے لئے فجر میں دو رکعات کے بجائے تین پڑھ لے یا پھر ظہر اور عصر میں چار رکعات کے بجائے دو رکعات پڑھ لے اور خودپر شریعت کے عائد کردہ فرض سے سبکدوش ہوجائے کیونکہ پنجگانہ نماز فرض ہے تعداد رکعات فرض نہیں ہے۔کون ہے جو اس اصول اور اصول کے اس نتیجے کو صحیح تسلیم کرنے کے لئے تیار ہے؟ کوئی نہیں! تو پھر یہ اصول بھی کس طرح قابل تسلیم ہوسکتا ہے جس کے نتیجے میں قوانین شریعت کا توازن ہی درہم برہم ہوجائے؟!
اسی طرح احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ طواف کے لئے باوضو ہونا فرض ہے لیکن یہ ایک ایسا فرض ہے جس کا تذکرہ قرآن میں نہیں آیا۔ توپوچھنا یہ ہے کہ کیا اس بنیاد پر کبھی کسی محدث، امام یا عالم نے اس کی فرضیت سے انکار کیا ہے؟ یاد رہے کہ ایسے مسائل کی ایک لمبی فہرست ہے جن کی فرضیت قرآن کے بجائے حدیث سے ثابت ہے لیکن ایک مخصوص فرقے کے علاوہ کبھی ایسے مسائل کی فرضیت پر سوال نہیں اٹھایا گیااور نہ قرآن میں نہ ہونے کی وجہ سےان کی وجوبی حیثیت کو محل اعتراض بنایا گیا ہے۔اصلاً یہ اعتراض منکرین حدیث کا ہے کیونکہ یہی لوگ ہیں جو صرف اس حکم کو مانتے ہیں جو قرآن میں آیا ہو جبکہ احادیث کے احکامات کو لائق التفات نہیں جانتے۔ چونکہ منکرین حدیث کا یہ اصول داڑھی منڈوں کو تنکے کا سہارا فراہم کرتا ہے اس لئے بہت سے قرآن و حدیث سے نسبت رکھنے والوں کی زبان پر بھی یہ اعتراض جاری ہوگیا ہے۔اب حاملین کتاب وسنت کو یا تو یہ اعتراض ترک کردینا چاہیے جو کہ درحقیقت منکر حدیث فرقے کے بیمارذہن کی پیداوار ہےیا پھر ان تمام فرائض کو چھوڑ دینا چاہیے جن کا تذکرہ قرآن نے نہیں کیا جیسا کہ فرض نمازوں کی تعداد رکعات کاتعین، باوضو ہوکر طواف کرنا یا پھر ختنہ وغیرہ کروانا۔ لیکن اگر یہ کام مشکل ہے تو پھر ’’بندے داپتر‘‘ بن کر قرآن کے ساتھ حدیث کی حجیت کو تسلیم کرلینا چاہیے اور ایک اچھے مسلمان کی طرح داڑھی کے فرض ہونے پر اپنا سر تسلیم خم کردینا چاہیے۔
کچھ لوگوں کی دانست میں چونکہ تمام فرائض کا ذکر کلام الٰہی میں موجود ہےاس لئےان کے نزدیک قرآن میں داڑھی کا ذکر نہ ہونا اسکے فرض ہونے میں مانع ہے،اس بدعی اصول کے متعلق بعض الناس کا خیال ہے کہ یہ کوئی نیاتحقیقی نقطہ ، نیا استنباط اوراستدلال ہے لیکن ایسا ہرگز نہیں ہے بلکہ یہ ان لوگوں کی غلط فہمی اور کم علمی ہے کیونکہ گمراہوںکا یہ اعتراض کوئی نیا نہیں بلکہ بہت پرانا ہے۔مولانا اشرف علی تھانوی اپنے زمانے کا حال بیان کرتے ہوئے رقمطراز ہیں: بعض لوگ کہتے ہیں کہ داڑھی رکھنے کا مسئلہ قرآن سے دکھلاؤ۔ سو حدیثوں سے جو احکام ثابت ہوچکے ہیں، وہ سب خداوندی احکام ہیں کیونکہ حدیث پر عمل کرنے کا حکم خود قرآن میں ہے، اسی طور پر حدیثوں کے تمام حکم قرآن ہی میں ہیں۔(اغلاط العوام،صفحہ 88)
ایک اعتراض یہ ہے کہ’’ داڑھی چونکہ سنن زوائد اور سنن عادیہ میں سے ہے اور اس کا براہ راست تعلق نبی کریم ﷺ کے حلیے اورعادات مبارکہ کے ساتھ ہےاس لئے یہ واجب نہیں ہے کیونکہ باقی تمام سنن عادیہ جیسے مسواک کرنا، سرمہ لگانا، جبہ پہنا، عمامہ باندھنا وغیرہ مستحب ہیں اس لئے داڑھی رکھنا بھی مستحب اور پسندیدہ ہے فرض نہیں ہےاور جس طرح باقی سنن عادیہ کو چھوڑنا گناہ نہیں ہے اسی طرح داڑھی کا ترک بھی گناہ یا فعل حرام نہیں ہے۔‘‘
بے شک داڑھی کا تعلق حلیہ مبارک سے ہے لیکن حلیے اور عادات سے تعلق رکھنے والے دیگر امور سے اس کا حکم بوجہ مختلف ہے۔اس کی دلیل یہ ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے داڑھی کے متعلق جیسا حکم دیا ہے ایسا حکم کسی اور حلیے یا عادات سے متعلق فعل کےبارے میں نہیں دیا۔ نبی ﷺ نے امت کو داڑھی رکھنے کا حکم دیا ہے لیکن سرمہ لگانے کا حکم نہیں دیا، یا مسواک کرنے کا حکم نہیں دیا۔ بس یہی فرق اور حکم داڑھی کو واجب کرتا ہے جبکہ سرمہ لگانے یا مسواک کرنے کو واجب نہیں کرتا۔
اور یہ بھی عجیب و غریب کلیہ ہے کہ ایک زمرے میں آنے والی چیزیں شرعی حکم کے اعتبار سے بھی ایک جیسی ہی ہوتی ہیں۔صحیح بات یہ ہے کہ ایک ہی دائرے میں آنے والی چیزیں یا پھر ایک دوسرے سے مماثلت رکھنے والے مسائل حکم کے اعتبار سے ایک دوسرے سے مختلف ہوسکتے ہیں اور اس کی سب سے بڑی مثال داڑھی ہے کہ یہ فطری امور میں شامل ہونے کے باوجود حکم کے اعتبار سے دیگر فطری کاموں سے مختلف ہے اور حلیے میں داخل ہونے کے باوجود حلیے سے تعلق رکھنے والے دیگر امور سے حکم کے اعتبار سے جدا ہے۔اس کی وجہ بھی یہ ہے کہ جس طرح داڑھی کی تاکید کی گئی ہے اس سے مماثل کسی دوسرے کام کی اتنی اور ایسی تاکید نہیں کی گئی اور یہ بات داڑھی کو دوسرے کسی بھی مسئلہ سے ممتاز اور الگ بناتی ہے۔
ایک مغالطہ یہ دیا جاتا ہے کہ’’ داڑھی کو بڑھانے کا حکم ایک خاص علت کی بناپر دیا گیا ہے اور وہ مشرکین، مجوس اور یہود و نصاریٰ کی مخالفت ہے اور جس حکم کا انحصار کسی علت پر ہواس کا واجب و فرض ہونا ضروری نہیں۔اور اصول بھی یہی ہے کہ لباس و حلیے کے معاملے میں یہود، نصاریٰ، مشرکین یا مجوس کی مخالفت فرض نہیں ہوتی اور داڑھی بڑھانے کا حکم بھی کفار کی مخالفت کے لئے دیا گیا ہے اس لئے داڑھی فرض نہیں ہے۔حافظ عمران الہٰی رقمطراز ہیں: حدیث میں داڑھی کو بڑھانے کی جو علت بیان ہوئی ہے وہ مشرکین کی مخالفت ہے اور مشرکین سے مراد مجوسی یعنی آگ کے پجاری تھے۔ (یک مشت سے زائد داڑھی کی شرعی حیثیت، صفحہ 241)
اس کا سیدھا سا اور مختصر جواب یہ ہے کہ یہ جھوٹ اور فریب ہے کہ داڑھی بڑھانے کے حکم کی علت اور وجہ کفار کی مخالفت ہےکیونکہ ذخیرہ احادیث میں کئی ایسی روایات آتی ہیں جن میں داڑھی بڑھانے کا حکم دیا گیا ہے لیکن کفار کی مخالفت کا وہاں کوئی ذکر نہیں کیا گیاجو ثابت کرتا ہےاصل حکم داڑھی بڑھانے کا ہے ناکہ شریعت کو داڑھی سے صرف مشرکین کی مخالفت ہی مطلوب و مقصود ہے۔ اس کے تفصیلی دلائل آئندہ داڑھی کے متعلق پائے جانے والے مختلف نظریات میں سے پہلے نظریے کے تحت بیان ہوں گے۔ ان شاءاللہ
اس سلسلے میں ایک شبہ یہ پیش کیا جاتا ہے کہ’’ حدیث میں حکم ہے کہ ’’خَالِفُوا الْمُشْرِكِيْنَ وَفِرُّوا اللِّحٰى‘‘ مشرکین کی مخالفت کرو، داڑھیاں بڑھاؤ ۔(صحیح بخاری) تو اگر اس حدیث سے داڑھی بڑھانا فرض مان لیا جائے تو مشرکین ،مجوس اور اہل کتاب کی مخالفت بھی فرض ٹھہرے گی جبکہ آج کٹر مشرکین، کٹر مجوس اور کٹر یہود و نصاریٰ لمبی داڑھیاں رکھتے ہیں اس لئے ان کی مخالفت میں مسلمانوں کو اپنا داڑھیاں منڈوانا ہوں گی۔ جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ کوئی مسلمان کفار کی ایسی مخالفت نہیں کرتا، اس سے ثابت ہوا کہ جس طرح حدیث میں مجوس کی مخالفت کا حکم فرض نہیں ہے اسی طرح داڑھی بڑھانے کا حکم بھی فرضیت سے خارج ہے۔‘‘
دراصل ان گمراہوں اوربدبختوں کو یہاں یہ شبہ لاحق ہوا ہے کہ نبی ﷺ نے اپنی امت کو جوکفار کی مخالفت کا حکم دیا ہے اس میں انہیں آزاد چھوڑ دیا ہےکہ ان کی مرضی جیسے چاہیں کفار کی مخالفت کریں جبکہ ایسا بالکل نہیں ہے لیکن اس سے پہلے یہ جان لیں کہ مجوس، مشرکین اور یہود و نصاریٰ کی حقیقی معنوں میں مخالفت ممکن ہی نہیں ہے کیونکہ مجوس ہی میں داڑھیاں منڈوانے والے بھی تھے اور چھوٹی داڑھی رکھنے والے بھی، تو اگر کوئی مسلمان داڑھی منڈے مجوس کی مخالفت کرنا چاہے تو وہ چھوٹی یا ایک مشت داڑھی سے ان کی مخالفت کرسکتا ہے لیکن چھوٹی داڑھی والے مجوس کی مخالفت پھر بھی نہیں ہوگی کیونکہ اس کے لئے لمبی داڑھی رکھنا ہوگی۔ اب اس طرح تو آدھے مسلمان چھوٹی داڑھی رکھ کر مجوس کی موافقت کرنے والے ہوں گے اور آدھے ان کی مخالفت کرنے والے، تو پھر اس مسئلہ کا حل کیا ہوگا اور کون یہ فیصلہ کرے گا کہ کس قسم کی داڑھی رکھ کر ہر مسلمان مجوس کی مخالفت کرسکتا ہے۔ کیا ہر مسلمان کا یہ فیصلہ اپناذاتی ہوگا کہ کوئی چھوٹی داڑھی رکھ کر مخالفت کرے گا اور کوئی لمبی داڑھی سے مخالفت کا حکم بجا لائے گا؟ لیکن شریعت سے اس کی دلیل کیا ہوگی؟
اگر کسی کے شیطانی ذہن میں یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ ایک مشت داڑھی لمبی داڑھی ہے لہٰذا یک مشت کے ذریعے داڑھی منڈے اور چھوٹی داڑھی والے مجوس کی بیک وقت مخالفت ممکن ہے۔ تو اس کا یہ وسوسہ درست نہیں کیونکہ حدیث میں صرف یہ آتا ہے کہ مجوس داڑھیاں مونڈتے تھے یا پھرکٹواتے تھےاسی لئے نبی ﷺ نے فرمایا کہ ان کی مخالفت کرو اور تم داڑھیاں بڑھائو۔ نبی ﷺ کا یہ حکم خود بتا رہا ہے کہ داڑھی بڑھانے کا مطلب ہے داڑھی نہ کاٹنا کیونکہ داڑھی تو مجوس بھی کاٹتے تھے لہٰذا اگر داڑھی بڑھانے کا مطلب نہ کاٹنا نہ لیا جائے تو پھر مجوس کی مخالفت ممکن نہیں ہوسکتی۔ اس کے ساتھ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ داڑھی کاٹنا مجوس کے ساتھ موافقت ہے پھر یہ کاٹنا مشت کے بعد ہو یا پہلے ہر دو صورتوں میں یہ مجوس سے مشابہت ہے جس سے ہمیں روکا گیا ہے۔
ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ داڑھی کے معاملے میں نبی ﷺ نے یہودو نصاریٰ کی مخالفت کا بھی حکم دیا ہے اور حکم ایک ہی ہے کہ داڑھی بڑھاؤ، دیکھئے:
’’ فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللهِ إِنَّ أَهْلَ الْكِتَابِ يَقُصُّونَ عَثَانِينَهُمْ وَيُوَفِّرُونَ سِبَالَهُمْ. قَالَ: فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” قُصُّوا سِبَالَكُمْ وَوَفِّرُوا عَثَانِينَكُمْ وَخَالِفُوا أَهْلَ الْكِتَابِ‘‘ ہم نے عرض کی ،اے اللہ کے رسول! اہل کتاب تو اپنی داڑھیاں کٹواتے اور مونچھیں بڑھاتے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا: تم اپنی مونچھیں کٹواؤ اور داڑھیاں بڑھاؤ اور اہلِ کتاب کی مخالفت کرو۔(مسند الامام احمد:۵؍۲۶۴۔۲۶۵،وسندہ حسن)
یاد رہے کہ یہاں عام یہودی اور عیسائی کا تذکرہ ہے کہ داڑھی کاٹتے تھے جیسے آج بھی یہود یوں اور عیسائیوں کی عوام اپنی روش پر قائم ہے بعض داڑھی مونڈتے اور بعض کاٹتے ہیں جبکہ ماضی سے لے کر آج تک یہود ونصاریٰ کے مذہبی راہنمائوں کی داڑھیاں لمبی ہوتی ہیں بظاہر یہی لگتا ہے کہ وہ بھی اپنی داڑھیوں کو اس کے حال پر چھوڑ دیتے ہیں۔ اس طرح اگر ایک مسلمان بھی حدیث پر عمل کرتے ہوئے داڑھی کو معاف کردیتا ہے تو اہل کتاب کےعلماءسے موافقت ہوجاتی ہے۔ اس کے حل کے لئے نبی ﷺ نے اہل کتاب سے متعلق ایک اور اضافی حکم دیا ہے جس سے ان کی مخالفت ممکن ہوتی ہے اور وہ حکم ہے کہ یہودی اور عیسائی اپنی داڑھیاں نہیں رنگتے تم ان کی مخالفت کرو اور داڑھی رنگا کرو۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’إن اليهود والنصارى لا يصبغون، فخالفوهم‘‘ یہودی اور عیسائی خضاب نہیں لگاتے۔ تم ان کی مخالفت کیا کرو۔ (متفق علیہ)
جبکہ داڑھی رنگنے کا اضافی حکم کسی اور مشرک یا مجوس سے مخالفت کے ضمن میں نہیں دیا گیا بلکہ یہ خصوصی حکم صرف یہودیوں اور عیسائیوں سے فرق اور امتیازلئے ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر داڑھی بڑھانے کے اعتبار سے یہودی اور عیسائی علماء سے مشابہت ہورہی تھی تو داڑھی رنگنے کے اعتبار سے اس مشابہت کو ختم کردیا گیا۔ پس نبی ﷺ کا حکم ہی ایک ایسا جامع حکم ہے جس سے ہر طرح کے کفار سے داڑھی کے معاملے میں مخالفت ممکن ہے۔داڑھی بڑھانے سے مجوس ، مشرکین اور یہود و نصاریٰ کی عوام کی مخالفت ہوجاتی ہے اور داڑھی رنگنے سے یہود ونصاریٰ کے علماء سے امتیاز ہوجاتا ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ نبی ﷺ نے اپنی امت کو داڑھی کی مخالفت کے معاملے میں بے مہار ، آزاد اور اپنی مرضی پر نہیں چھوڑا کیونکہ امت اگر اپنی مرضی کرے گی تو ایک فساد برپا ہوجائے گا ہر کوئی چھوٹی یا بڑی داڑھی رکھ کر اپنے تئیں کفار کی مخالفت کررہا ہوگا لیکن جب ان کی داڑھیاں ایک جیسی نہیں ہوں گی تو یہ مسلمان آپس میں بھی ایک دوسرے کی مخالفت کرنے والے ہوں گے اور کفار سے بھی کوئی مشابہت کرے گا اور کوئی ان کی مخالفت۔سچ یہ ہے کہ اگر امت کو اس معاملے میں اپنی من مانی کرنے دی جائے تو داڑھی کے معاملے میں ان کی نااتفاقی کی وجہ سے کفار کی مخالفت کا حق ادا ہو ہی نہیں سکتا۔ جبکہ جن جن کی مخالفت کا نبی ﷺ نے حکم دیا ہے بیک وقت ان تمام کی مخالفت صرف نبی ﷺ کے بتائے ہوئے طریقے پر ہی ممکن ہے۔ اس مسئلہ کو بہتر طور پر سمجھنے کے لئے اس حدیث پر غور فرمائیں : ابن عباس رضی اللہ عنہ سے بزاز نے مرفوعا ًنقل کیا ہے: ’’لا تشبهوا بالاعاجم اعفوا اللحى‘‘ عجمیوں کے ساتھ مشابہت اختیار نہ کرو، داڑھیاں بڑھائو۔
عجمیوں میں ہر طرح کے کفار آجاتے ہیں جن میں سکھ بھی شامل ہیں ۔ سب جانتے ہیں کہ سکھ اپنی داڑھیوں کو معاف کردیتے ہیں۔چونکہ نبی ﷺ کا حکم وحی کے تابع ہوتا ہے اس لئے اللہ رب العالمین کو معلوم تھا کہ عجمیوں میں سکھوں کی طرح کے لوگ بھی ہوں گے جو داڑھی کو بڑھائیں گے لیکن اس کے باوجود بھی تمام عجمیوں سے مخالفت کے لئے صرف اور صرف ایک حکم دیا گیا کہ ’’داڑھی بڑھاؤ‘‘۔ کیا اس کے بعد بھی اس حقیقت کہ اصل میں داڑھی بڑھانا ہی مشرکین،مجوس، یہود، نصاریٰ اور عجمیوں کی مخالفت ہے کے بارے میں کسی کے دل میں کوئی شک باقی رہتا ہے؟
اس کے علاوہ صحیح بخاری کی حدیث میں بیان شدہ حکم کو دو علیحدہ علیحدہ احکامات بنا کر مغالطہ دینے اور گمراہی پھیلانے کی کوشش کی گئی ہے جس میں ایک حکم مشرکین کی مخالفت کا جبکہ دوسرا داڑھی بڑھانے کا حکم ہے۔اگر بنظر انصاف دیکھا جائے تو حدیث میں علیحدہ علیحدہ دو احکامات نہیں بلکہ ایک ہی حکم دیا گیا ہے۔ایک حکم اس لئے کہ مشرکین کی مخالفت، اور وہ مخالفت کس طرح کرنی ہے دونوں ایک دوسرے سے ایسے جڑے ہیں ایک پر عمل سے دوسرے پر عمل خود بخود ہوجاتا ہے۔جب نبی ﷺ نے یہ فرمایا کہ مشرکین وکفار کی مخالفت کرو تو ساتھ ہی یہ بھی بتا دیا کہ وہ مخالفت کس طرح کرنی ہے یعنی داڑھی بڑھا کر۔پس جو بھی داڑھی بڑھائے گا وہ کفار کی مخالفت بھی کرلے گاجبکہ کفار یا مشرکین کی مخالفت کے لئے اسے الگ سے کوئی فعل کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اصل میں داڑھی بڑھانا ہی مشرکین کی مخالفت ہے۔ بلکہ مشرکین مجوس، یہود و نصاریٰ، عجمیوں ہر ایک کی مخالفت کو رسول اللہ ﷺ نے داڑھی بڑھانے کے ساتھ مشروط کیا ہے۔ پس اگر کوئی داڑھی کٹواتا ہے تو وہ کفار کی مخالفت کرنے والا نہیں کہلائے گا بلکہ صرف وہ مسلمان کفار کا مخالف ہوگا جو داڑھی بڑھائے گا یعنی داڑھی کو نہیں کٹوائے گا۔پس چونکہ حدیث میں بیان شدہ حکم ایک ہی ہے اس لئے یہ بحث فضول ہے کہ اگر داڑھی رکھنا فرض ہے تو مشرکین کی مخالفت بھی فرض ہے یا نہیں؟ کیونکہ اس کے لئے پہلے یہ ثابت کرنا ضروری ہے کہ مجوس و مشرکین کی مخالفت اور داڑھی بڑھانادو ایک دوسرے سے مختلف اور علیحدہ احکامات ہیں جبکہ ایسا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے۔ اس لئے یہ دعویٰ بھی بے بنیاد ہے کہ داڑھی فرض ہے تو کفار کی مخالفت بھی فرض ہوگی اور اگر کفار کی مخالفت فرض نہیں تو پھر داڑھی بھی فرض نہیں،اس طرح کی ہفوات سے داڑھی کی فرضیت پر ہاتھ صاف نہیں کیا جاسکتا۔
’’جتنے بھی فرائض ہیں ان کی حکم عدولی پر عذاب اور وعید موجود ہیں لیکن داڑھی کے ترک پر کتاب و سنت میں کوئی وعید موجود نہیں اس لئے ثابت ہوا کہ داڑھی فرض نہیں ہے۔‘‘
یہ بھی ایک شبہ ہے جس کا مقصد داڑھی سے جان چھڑانا ہے۔ عرض ہے کہ ہر فرض کے ترک پرقرآن و حدیث میں خصوصی وعید وارد نہیں ہوئی بلکہ کتاب وسنت دونوں میں فرض سے روگردانی پر عمومی وعید اور عذاب کا تذکرہ کیا گیا ہے جس کا اطلاق ہر طرح کے فرض کے ترک پر از خودہوتا ہے۔
داڑھی نبی کریم ﷺ کا طریقہ ہے اور اپنے طریقہ کو چھوڑنے پر نبی کریم ﷺ نے جنت سے دوری کی خطرناک ترین وعید سنائی ہےاور اللہ کے رسول ﷺ نے اپنے طریقے کو اہمیت نہ دینے والے سے بے زاری اور براءت کا اظہار فرمایا ہے ۔ اب اس سے بڑھ کر وعید اور عذاب کیا ہوسکتا ہے۔ اس کے بعد بھی اگر کوئی یہ کہے کہ داڑھی کے ترک پر کوئی عذاب اور وعید نہیں تو اس کے تجاہل عارفانہ پر افسوس ہی کیا جاسکتا ہے۔
نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’فَمَنْ لَمْ یَعْمَلْ بِسُنَّتِي فَلَیْسَ مِنِّي‘‘ جس نے میری سنت پر عمل نہ کیا اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔(سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر1846)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا : ’’كُلُّ أُمَّتِي يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ إِلَّا مَنْ أَبَى قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَنْ يَأْبَى قَالَ مَنْ أَطَاعَنِي دَخَلَ الْجَنَّةَ وَمَنْ عَصَانِي فَقَدْ أَبَى‘‘ میری ساری امت جنت میں داخل ہوگی سوائے اس شخص کے جو انکار کردے ، آپ سے پوچھا گیا اے اللہ کے رسول ﷺ ! [ جنت میں جانے سے کون انکار کرےگا ؟ ] آپ ﷺنے وضاحت فرمائی کہ جس نے میری اطاعت کی وہ جنت میں داخل ہوا اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے [ گویا جنت میں جانے سے ] انکار کیا ۔ ( مسند احمد2/361، صحیح بخاری:7280 )
پس ان احادیث کی رو سےنبی ﷺ کے طریقے پر عمل کرنا ہی نبی کریم ﷺ کی اطاعت ہے چناچہ داڑھی منڈا نبی ﷺ کا نافرمان ہے کیونکہ وہ اللہ کے رسول ﷺ کے طریقے کا مخالف ہے۔اسکے علاوہ نبی ﷺ کا یہ ارشاد فرمانا کہ ’’اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں‘‘ داڑھی منڈے سے براءت اور بے زاری کا اعلان ہے کیونکہ وہ نبی ﷺ کے سنت یا طریقے کا عامل نہیں ہےنیز نبی ﷺ کا داڑھی منڈے مجوسیوں کا چہرہ دیکھ کر نفرت سے منہ پھیرلینا بھی اس بات کی روشن دلیل ہے کہ داڑھی منڈوں سے نبی کریم ﷺ بے زار ہیں ۔اللہ کے رسول ﷺ کی ناراضگی، لاتعلقی اور بے زاری کے بعد کس وعید اور عذاب کی حاجت باقی رہتی ہے؟
اس کا ایک جواب یہ بھی ہے کہ مغرب کی تین رکعات کو گھٹا کر دو پڑھنے یا بڑھا کر چار پڑھ لینے پر قرآن و حدیث میں کسی خصوصی عذاب یا وعید کا تذکرہ نہیں کیا گیا تو کیا تسلیم کرلیا جائے کہ مغرب کی تین رکعات فرض نہیں ہیں؟ بات یہ ہے کہ علماء شرعی احکامات سےاس طرح کی روگردانی ، دین میں اپنی من مانی اور فرائض کے ساتھ مذاق پر قرآن و حدیث میں بیان شدہ عمومی وعید اور عذاب کا تذکرہ کرکے مسئلہ کو واضح کرتے ہیں، تو جب یہاں عمومی وعید پر سائل مطمئن ہوجاتا ہے تو داڑھی کے فرض کو ترک کرنے پر عمومی عذاب کے بیان کو تسلیم کیوں نہیں کرتا؟ بس بات یہ ہے کہ جو داڑھی رکھنا ہی نہیں چاہتے یا داڑھی کٹاتے اورمونڈتے ہیں انہیں اپنے اس عمل پر خود کو اور دوسروں کو مطمئن کرنے کے لئے کمزورسہاروں کی تلاش ہوتی ہے اور ان متلاشی لوگوں کو ان بھونڈے اعتراضات ( کہ فرض وہی ہے جو قرآن میں ہے یا داڑھی فرض نہ ہونے کی دلیل اس پر خصوصی وعیدکا نہ پایا جانا ہے وغیرہ وغیرہ)کی صور ت میں داڑھی سے بچنے کا ایک بہانہ مل جاتا ہے۔لہٰذا ان اعتراضات کی حیثیت دلائل کی نہیں بلکہ بہانوں کی ہے۔
شیخ عبدالحمید ہزاروی رقمطراز ہیں: ایک مشت کے بعد داڑھی کٹانےکی یہاں سے بھی دلیل لی جاسکتی ہے کہ ایسی کوئی بھی روایت نہیں کہ جو داڑھی کٹائے گا، اسے فلاں عذاب ہوگا، فلاں سزا دی جائے گی۔ (یک مشت سے زائد داڑھی کی شرعی حیثیت، صفحہ 157)
عرض ہے کہ ختنہ کرنا فرض و واجب ہے لیکن ذخیرہ احادیث میں ایک بھی ایسی روایت نہیں ملتی جس میں ختنہ نہ کرنے والے کو کسی عذاب یا سزا کی وعید سنائی گئی ہو، تو کیا اس سے ختنہ کی فرضیت ساقط ہوجاتی ہے؟حاشاوکلا! اصل بات یہ ہے کہ فرض اور واجب کاموں کو ترک کرنے پر جو مطلقاً عذاب اور سزا کی جو وعیدیں سنائی گئی ہیں وہ ختنہ کو ترک کرنے اور داڑھی کو کاٹنےوالوں پر منطبق ہوں گی۔شیخ عبدالحمید اور ان جیسےصاحبان جو یہ پروپیگنڈا کرتے ہیں کہ داڑھی کاٹنے پرکسی سزا کا کتاب وسنت میں ذکر نہیں اور کوئی وعیداس سلسلے میں وارد نہیں ہوئی تو وہ صاحبان مندرجہ ذیل حدیث پر غور فرمائیں:
سیدنا رویفع بن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’يَا رُوَيْفِعُ لَعَلَّ الْحَيَاةَ سَتَطُولُ بِكَ بَعْدِي، فَأَخْبِرِ النَّاسَ أَنَّهُ مَنْ عَقَدَ لِحْيَتَهُ، أَوْ تَقَلَّدَ وَتَرًا، أَوْ اسْتَنْجَى بِرَجِيعِ دَابَّةٍ، أَوْ عَظْمٍ فَإِنَّ مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهُ بَرِيءٌ‘‘ اے رویفع! شاید کہ زندگی تجھےمیرے بعد لمبی مہلت دے، تو لوگوں کو خبردار کر دینا کہ جس نے اپنی داڑھی کو گرہ لگائی یا گلے میں دھاگہ ڈالا یا جانور کے گوبر یا ہڈی سے استنجاء کیا تو یقیناً محمد ﷺ ا س سے بری ہیں۔[سنن ابی دائود،كِتَاب الطَّهَارَةِ، باب ’’ مَا يُنْهَى عَنْهُ أَنْ يُسْتَنْجَى بِهِ‘‘: رقم الحديث: 33(٣٦)]
اگر غور فرمائیں تو داڑھی کو گرہ لگانے یا داڑھی چڑھانےکا جو حتمی نتیجہ برآمد ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ داڑھی اپنی اصل لمبائی سے کم ہوجاتی ہے اور اس فعل کے فاعل کا واحد مقصدبھی اپنی لمبی داڑھی کو چھوٹا دکھانا ہوتا ہے۔ اس لئے داڑھی کاٹنے پر بھی یہی وعید منطبق ہوگی کہ نبی ﷺ اس سے بری ہوں گے کیونکہ داڑھی چڑھانے اور اسے گرہ لگانے والے کی طرح داڑھی کاٹنے والا بھی اپنی داڑھی کی حقیقی لمبائی کو چھوٹا کرلیتا ہے ۔
بریلوی علماء بھی مذکورہ حدیث سے یہی نتیجہ اخذ کرتے ہیں، دیکھئے مولانا عبد الرحیم لاجپوری صاحب لکھتے ہیں : ”جب داڑھی لٹکانے کے بجائے چڑھانے پر یہ وعید ہے تو منڈانے اور شرعی مقدار (قبضہ) سے کم کرنے پر کیا وعید ہوگی“۔(فتاویٰ رحیمیہ ج:۱۰‘ ص:۱۰۷)
اہل حدیث عالم و مناظر جناب ابو عبدالرحمٰن محمد رفیق طاہر حفظہ اللہ نے بھی اس حدیث کا یہی مطلب سمجھاہے چناچہ لکھتے ہیں: اس روایت میں بھی داڑھی کو گرہ لگانے سے ممانعت مذکور ہے جس سے داڑھی کی لمبائی واضح ہوتی ہے ۔ کیونکہ مشت بھر داڑھی کو نہ تو گرہ آسانی سے لگتی ہے اور نہ ہی اسکی ضرورت محسوس کی جاتی ہے۔ یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ جب داڑھی کو کاٹے بغیر، محض گرہ لگا کر چھوٹا کرنا سختی سے منع ہے تو اسے کاٹ کر چھوٹا کرنا کیونکر جائز ہوگا؟...... فتدبر! (داڑھی کی واجب مقدار ، rafiqtahir.com)
غلام مصطفیٰ ظہیر امن پوری حفظہ اللہ نے داڑھی مونڈنے والے کو لعنتی قرار دیا ہے حالانکہ حلیق کے بارے میں ایسی کوئی صریح روایت موجود نہیں ہے جس میں اس فعل کو باعث لعنت کہا گیاہو۔ اس کے لئے امن پوری صاحب نے عام دلیل سے استدلال کیا ہے جوکہ اہل علم کے نزدیک بالاتفاق درست ہےکیونکہ علمائے کرام بھی کچھ مخصوص گناہوں کی شدت بیان کرنے کے لئےعمومی دلائل سے استدلال کرتے ہیں۔غلام مصطفیٰ ظہیر امن پوری حفظہ اللہ اپنے مضمون ’’داڑھی کی شرعی حیثیت‘‘ میں لکھتے ہیں: داڑھی منڈانا باعث لعنت ہے ،سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایاہے: سِتَّةٌ لَعَنْتُهُمْ وَلَعَنَهُمُ اللَّهُ......وَالتَّارِكُ لِسُنَّتِي۔ ’’چھ آدمیوں پر میں بھی لعنت کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ بھی (ان میں سے ایک ہے) میری سنت کو چھوڑ دینے والا۔‘‘(جامع ترمذی:۲۱۵۴،وسندہ حسن)
اس حدیث کو امام ابن حبان (۵۷۴۹) اور امام حاکم (۲؍۵۲۵) رحمہما اللہ نے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔اس کے راوی عبد الرحمٰن بن ابی الموال کے بارے میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ثقة مشهور ’’یہ مشہور ثقہ راوی ہے۔‘‘ (المغنی ۲؍۴۱۴)
حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: من ثقات المدنيين ’’یہ ثقہ مدنی راویوں میں سے ہے۔‘‘ (فتح الباری:۱۱؍۱۸۳)
اس کا دوسرا راوی عبید اللہ بن عبد الرحمٰن بن موہب ’’ مختلف فیہ‘‘ ہے،راجح قول کے مطابق وہ جمہور کے نزدیک’’حسن الحدیث‘‘ ہے۔یاد رہےکہ یہاں سنت سے مراد فرضی اور واجبی سنتیں مثلاً نماز ،روزہ،حج،زکوٰۃ،شلوار ٹخنوں سے اوپر رکھنا،داڑھی رکھنا وغیرہ ہیں۔اب جو بھی شخص داڑھی منڈائے گا ،وہ اس فرمانِ نبوی کے مطابق اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی لعنت کا مستحق ہو جائے گا۔(ماہنامہ السنۃ، جہلم، شمارہ نمبر6، اپریل 2009)
عبداللہ بہالپوری رحمہ اللہ نے بھی داڑھی مونڈنے کو اللہ کی لعنت کا موجب قرار دیا ہے چناچہ رقمطراز ہیں: بالکل جیسے داڑھی منڈا کہتا ہے کہ داڑھی نہ رکھے تو کافر تو نہیں ہوجاتا، دین کوئی داڑھی میں تو نہیں، رہتا تو مسلمان ہی ہے ۔حقیقت میں یہ جرات اس لعنت کا اثر ہے جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف سے سنت کو ہلکا جان کر چھوڑنے والے پر پڑتی رہتی ہے۔ اللہ ایسی لعنت سے ہر مسلمان کو محفوظ رکھے۔ (رسائل بہاولپوری، صفحہ349)
علامہ ناصرالدین البانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: اس بات میں قطعاً کوئی شک نہیں کہ خوبصورت نظر آنے کے لئے داڑھی منڈوانے والے بالکل اسی طرح رسول اللہ ﷺ کی لعنت کے مستحق ہیں جس طرح حسن کے لئے تخلیق باری تعالیٰ میں تبدیلی پر عورتیں لعنت کی مستحق ہیں۔دونوں ایک ہی گناہ کے مرتکب ہیں۔(سنت مطہرہ اور آداب مباشرت، صفحہ 72)
الحمدللہ ثابت ہوا کہ داڑھی کٹانے اور مونڈنے پر صریحاً اور براہ راست کسی وعید نہ پایا جانا داڑھی کی شرعی حیثیت کو فرضیت اور وجوب کے درجے سے نیچے نہیں لاتااور عذاب اور وعید کےلئے عمومی دلائل بھی نص اور حجت کا فائد ہ دیتے ہیں پس داڑھی مونڈنے پر وعید نہ ہونے کا شور مچانے والوں کا یہ اعتراض انتہائی لغواور باطل ہے۔ اس سلسلے میں مزید عرض ہے کہ تمام علمائے کرام نے داڑھی تراشنے اور مونڈنے والوں کواحادیث صحیحہ میں واردکفار کی مشابہت اختیار کرنے والوںکا انجام اور حشر بھی انہیں کے ساتھ ہوگا کی ہولناک وعیدکا مستحق قرار دیا ہے اور یاد رہے کہ استنباط مسئلہ کے لئے یہ عام دلیل سے استدلال اور استخراج نہیں ہے بلکہ نبی کریم ﷺ نے داڑھی کے سلسلے میں اپنے ماننے والوں کو کفار کی نقل اور مشابہت سے بچنے کا حکم دیا ہے جب کبھی بھی صحابہ کرام نے نبی کریم ﷺ سے عرض کیا کہ فلاں قوم والے داڑھی مونڈتے یا کاٹتے ہیں تو نبی ﷺ نے مسلمانوں کو ایسا کرنے سے منع فرمایااور ان کی مخالفت کرنے کا کہا جو ثابت کرتا ہے جومسلمان داڑھی کاٹے یا مونڈے گاوہ کفار کی مشابہت اختیار کرکے ان کی تعداد میں اضافے کا باعث ہوگا پھر اس کا حساب کتاب بھی روز حشر انہیں کفار کے ساتھ ہوگا۔ پس معترضین کے اعتراض بالا کا تسلی بخش جواب حاصل ہوا اور ثابت ہوا کہ احادیث میں داڑھی مونڈنے اور کاٹنے پر مشرکین و کفار کی مشابہت کی تباہ کن وعید موجود ہےجومومن کے لئے وجہ عذاب و خسارہ ہے۔والحمدللہ
 
Last edited:

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,011
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
کیا داڑھی کے بڑھنے کی کوئی حد ہے؟:
پہلے پہل راقم الحروف کا خیال یہ تھا کہ چونکہ احناف کو علم اور عقل سے کوئی خاص علاقہ نہیں ہے اس لئے داڑھی کے متعلق یہ غلط نظریہ ان کا ہے کہ بال نہ کاٹنے کی صورت میں داڑھی مسلسل اور بغیر رکے بڑھتی جائے گی اسکے علاوہ یہ مذہب حمایت اور تعصب کا نتیجہ بھی ہوسکتا ہے کیونکہ ان کا مذہب ہی ایک مشت داڑھی کے واجب یا سنت ہونے کا ہے۔لیکن راقم السطور کو یہ جان کر حیرت ہوئی کہ جہالت کا کوئی علاقہ یا کوئی مذہب نہیں ہوتا بلکہ وہ کسی بھی وقت اور کہیں بھی پائی جاسکتی ہے چناچہ چند اہل حدیث علماء جو داڑھی کے معاملے میں احناف کے نقطہ نظر اور نظریہ سے اتفاق رکھتے ہیں ان کا بھی بالکل یہی خیال ہے کہ داڑھی کو لامحدود لمبائی اور بے سمت چوڑائی سے بچانے کے لئے اسے کاٹنا ضروری ہے۔لاہور کے اہل حدیث عالم جناب حافظ عمران الہٰی رقمطراز ہیں: اصل میں داڑھی کو بڑھانے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کوئی اس میں سے کچھ بھی نہ کاٹے، اس طرح تو داڑھی طول فاحش تک چلی جائے گی، اس طول فاحش والی داڑھی سے داڑھی والے کو تکلیف ہوگی ، بلکہ اسے چاہیے کہ وہ داڑھی کو طول و عرض سے کاٹ لے۔ (یک مشت سے زائد داڑھی کی شرعی حیثیت،صفحہ 220)
اور یہ ساری کوشش مرد کو خوبصورت دکھانے کے لئے ہے کیونکہ ان کے نزدیک داڑھی کو اس کی فطری ہیت پر باقی رکھنا مرد کو کریہہ اوربدصورت بناتا ہے۔ حافظ عمران الہٰی، ابن دقیق کا کلام نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں: لمبی داڑھی کو کاٹنااس حدیث کے ظاہری الفاظ کے خلاف ہے جس میں اس کو بڑھانے کا حکم دیا گیا ہے اور ان احادیث کے بھی خلاف ہے جو اس کو چھوڑ دینے کا تقاضا کرتی ہیں، لیکن یہاں تخصیص بالمعنی سے کام لیا گیا ہے، کیونکہ ان خصلتوں کا اصلی مقصد شکل و صورت کو حسین و جمیل بنانا اور ان چیزوں کی نفی ہےجن سے شکل و صورت بری لگتی ہو اور طبیعت اس سے نفرت کرے۔ (یک مشت سے زائد داڑھی کی شرعی حیثیت،صفحہ 220)
اگر بات صرف مرد کے چہرے کی خوبصورتی کی ہے تو پھر داڑھی کے طول و عرض سے بال کاٹنے پر اکتفاء کیوں؟ گالوں کے بال جو بعض مردوں میں آنکھوں کے قریب پہنچ جاتے ہیں انہیں کاٹنا بھی ضروری ہوگا کیونکہ وہ چہرے کو بدنما بناتے ہیں اسی طرح داڑھی سے متصل گردن کے بال کاٹنا بھی ضروری ٹھہرے گا کیونکہ یہ بال داڑھی کی ہیت کو خراب کرتے ہیں۔ اس طرح داڑھی کی تراش خراش کے لئے رائج لفظ ’’خط بنانا‘‘جس میں نہ صرف داڑھی لمبائی چوڑائی میں کاٹی جاتی ہے بلکہ گالوں اور گردن سے بال بھی صاف کئے جاتے ہیں دنیاوی نہیں بلکہ شرعی ضرورت بن جائے گا کیونکہ صرف اسی طرح مرد کا چہرہ خوبصورت نظر آسکتا ہے۔ لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے اس کے لئے دلیل کہاں سے آئے گی کیونکہ اللہ کے رسول ﷺ سے تو داڑھی کا ایک بال بھی کاٹنا ثابت نہیں اور جہاں تک بعض صحابہ کے عمل کا تعلق ہے تو ان سے داڑھی کو محض لمبائی میں کاٹنے کا ثبوت ملتا ہےچوڑائی میں داڑھی کو کاٹنا تو ان کا بھی فعل نہیں ہے پھر آخر کس بناپر مسلمانوں کو طول و عرض میں داڑھی کاٹنے کا جواز فراہم کیا جارہا ہے؟ کیا محض خواہش نفسانی اس سلسلے میں ان علماء کی دلیل بن سکتی ہے؟ بہرحال اسی ایک بات سے انکے نظریے کابطلان واضح ہوجاتا ہےکہ داڑھی کے بالوں کو لمبائی میں کاٹنے کے جواز میں تجاوز کرتے ہوئے انہوں نے مرد کے چہرے کی خوبصورتی کے لئے داڑھی کو چوڑائی میں کاٹنے کا جواز بھی اپنی طرف سے گھڑ لیا ہے۔ ان علماءکو نبی کریم ﷺ کی اسوہ میں تو اپنے عمل کے لئے کوئی دلیل یا مثال نہیں ملی تو انہوں نے صحابہ کی جانب دیکھا تو بعض صحابہ سے داڑھی کو لمبائی میں کاٹنے کا عمل انہیں نظر آگیا۔ انہوں نے اس سلسلے میں صحابہ کی عملی پیروی کرنے کے بجائے صرف ’’داڑھی کاٹنے‘‘ کے الفاظ کو اپنے لئےنعمت سمجھا اور چوڑائی میں داڑھی کاٹنے کو از خود لمبائی میں داڑھی کاٹنے کے ساتھ شامل کرلیا اور اسکی نسبت ناحق صحابہ کی جانب کردی جبکہ وہ اس سے بری ہیں۔ اگر چوڑائی میں بھی داڑھی کاٹنا جائز ہوتا تو پھر صحابہ نے لمبائی ہی میں داڑھی کیوں کاٹی؟کیا ان کو چوڑائی میں داڑھی کاٹنے کی حاجت نہیں تھی؟ یا پھر وہ اپنے چہرے کی خوبصورتی اور بدصورتی سے بے فکر اور بے نیاز تھے؟ان علماء کی خدمت میں عرض ہے کہ چہرے کی بدصورتی اور خوبصورتی کسی شرعی حکم میں تبدیلی اور من پسند فتوؤں کی بنیاد نہیں بن سکتےکیونکہ ہر کسی کا نظریہ حسن دوسروں سے مختلف ہوتا ہے ،اگر لمبی داڑھی کسی کی نظر میں مرد کے حسن، وقار اور خوبصورتی کی علامت ہے تو کسی کی کوتاہ نظر میں یہی لمبی داڑھی بدصورتی کا معیار ہے۔تو کیا لوگوں کی پسند اور ناپسند کی بنیاد پر شریعت کو موم کی ناک بنا دیا جائے؟ یا پھرایک مسلمان کو اپنے ذاتی پسند و ناپسند کے معیار کو شریعت کے معیار پسند کے مطابق تبدیل کرنے کی ضرورت ہے اور اس سلسلے میں معاشرے میں پھیلے ہوئے خوبصورتی و بدصورتی کے غیر فطری معیار کو بھی مکمل نظر انداز کرنا ضروری ہے تاکہ ایک مسلمان کی سوچ، فکر اور معیار دین اسلام کےطے کردہ معیار کے مطابق ہوسکے۔
اگر بعض ناعاقبت اندیش علماء صحابہ کے لمبائی میں داڑھی کاٹنے کے عمل کی بنا پر لوگوں کو چوڑائی میں بھی داڑھی کاٹنے کی اجازت دے سکتے ہیں توپھر ان مسلمانوں کا کیا قصور ہے جو اپنے چہرے کو جاذب نظر بنانے کے لئے گردن اور گالوں کے بال بھی صاف کروالیتے ہیں؟ ان علماء کے نزدیک تو ان مسلمانوں کا عمل بھی شریعت کی نگاہ میں جائز ہونا چاہیے! آگے بڑھئیے اور ’’خط بنوانے ‘‘کے متعلق بھی فتویٰ جاری فرمائیے تاکہ ایک مسلمان کی بے ترتیب اور لمبی داڑھی دیکھ کر کسی کواس کے چہرے سے نفرت محسوس نہ ہواورایک مسلمان جس طرح اور جیسے چاہے اپنی داڑھی کو کاٹ پیٹ سکے۔
حافظ عمران الہٰی صاحب مسلمانوں کو لمبی داڑھی سے ڈرانے اوراس امر میں ان کی حوصلہ شکنی کرنے لئے اس کا ایک نقصان بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: میں نے ایک ٹیوٹا ڈرائیور کو دیکھا کہ اس نے ایک مولوی صاحب سے لڑائی کرتے ہوئے اس کی داڑھی پکڑ لی اور مولوی صاحب داڑھی چھڑا نہ سکے۔ (یک مشت سے زائد داڑھی کی شرعی حیثیت،صفحہ 211)
ظاہر ہے حافظ عمران یہاں پڑھنے والوں کی اس جانب توجہ مبذول کروانا چاہتے ہیں کہ اگر مولوی صاحب کی داڑھی چھوٹی ہوتی تو لڑائی میں ڈرائیور کے ہاتھ نہ آتی۔ راقم کو ان عالم سے یہاں یہ پوچھنا ہے کہ عورتیں اکثر لڑائی میں ایک دوسرے کے بال پکڑ لیتی ہیں تو کیا اس بنا پر عورتوں کو گنجا ہوجانا چاہیے یا پھر بالوں کو چھوٹا کروا کرپر کٹی بن جانا چاہیے؟ اس بارے آپ کا قیمتی مشورہ کیا ہے؟اور پھر موسیٰ علیہ السلام نے اپنےبھائی ہارون علیہ السلام کو داڑھی اور سر کے بالوں سے پکڑ کر جو کھینچا تو کیا یہ ہارون علیہ السلام کی غلطی تھی کہ انہوں نے لمبے بال اور لمبی داڑھی کیوں رکھی جو موسیٰ علیہ السلام کے ہاتھ میں آگئی؟ کچھ اس کے متعلق بھی ارشاد فرمائیے تاکہ آپ کو اپنے بیان کردہ واقعے سے کئے گئے باطل استدلال پر کچھ احساس ندامت ہوسکے۔
اب آتے ہیں اس مضحکہ خیز غلط فہمی کی طرف جو ان اہل علم کولاحق ہوئی ہے کہ داڑھی کو کاٹنا اس لئے ضروری ہے کہ وہ بڑھتے بڑھتے ناف سے نیچے چلی جائے گی یا زمین کو چھولے گی کیونکہ ’’طول فاحش‘‘ سے مراد حد سے گزر جانے والی لمبائی ہے۔اسے حافظ عمران الہٰی کی زبانی سنئے موصوف فرماتے ہیں: اس نص پر عمل تو اسی صورت میں ہوگا جب داڑھی کو اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے، چاہے وہ گھٹنوں اور پائوں تک چلی جائے۔ (یک مشت سے زائد داڑھی کی شرعی حیثیت، صفحہ 241)
یہ حافظ عمران الہٰی اور ان جیسا موقف رکھنے والے حضرات کا مبالغہ آمیز جھوٹ ہےکیونکہ حقیقی دنیا میں کوئی ایسا شخص نہیں جس کی داڑھی پاؤں تک چلی گئی ہواور نہ ہی تاریخ میں کسی مسلمان کی داڑھی کی ایسی حیرت انگیز طوالت کا کوئی واقعہ محفوظ ہے حیرت ہے ان علماء کا مشاہدہ اتنا کمزور ہےکہ انہوں نے اپنے آس پاس ہزارہا ایسے لوگوں کو دیکھا ہوگا جو داڑھی سے بالکل تصرف نہیں کرتے لیکن اسکے باوجود انکی داڑھیاں طول فاحش تک نہیں پہنچتیں پھر ان کی داڑھیوں کی لمبائی بھی ایک دوسرے سے نہیں ملتی بلکہ سب کی قدرتی لمبائی ایک دوسرے سے الگ ہوتی ہے۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ جس طرح مردوں کی داڑھی بعض کی ہلکی یعنی کم بالوں والی اور بعض کی گھنی ہوتی ہے اسی طرح ہر مرد کی داڑھی لمبائی میں بھی مختلف ہوتی ہے کسی کی چھوٹی کسی کی درمیانی کسی کی لمبی اور کسی کی بہت ہی لمبی ہوتی ہے۔ جس طرح ہر مرد کی داڑھی گھنی نہیں ہوتی ہر مرد کی داڑھی کم بالوں والی نہیں ہوتی اسی طرح ہر مرد کی داڑھی طبعی اور قدرتی طور پر لمبی بھی نہیں ہوتی لہٰذا داڑھی کو اس کے حال پر چھوڑ دینے سے اس کے بہت لمبے ہوجانے کا خوف ایک وہم ہے جو صدیوں سے ہمارے دماغ میں بیٹھا ہوا ہے جبکہ حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔یہاں راقم الحروف اپنی مثال پیش کرنا چاہے گا کہ خود اس بندہ ناچیزکی داڑھی ایک مشت سے لمبی نہیں ہے باوجود اسکے کہ آج تک داڑھی کا ایک بال بھی کاٹنے کی جراء ت نہیں کی اور اس کی وجہ بھی یہ ہوئی کہ عبداللہ ناصر رحمانی حفظہ اللہ کے منہ سے سنا تھا کہ داڑھی کا ایک بال بھی کاٹنا ایسا ہے جیسے داڑھی کو مونڈڈالنا۔ اس مسئلہ کو سر کے بالوں کی لمبائی سے بھی سمجھا جاسکتا ہے۔ ابھی ماضی قریب میں عورت کی سب سے بڑی خوبصورتی لمبے بال تھے اور خوبصورتی کے اس معیار کا ثبوت ڈراموں، فلموں، شاعری اور فلمی اور غیرفلمی گانوں میں جابجا بکھرا ہوا ہے۔مثال کے طورپر پاکستانی مغنیہ حمیرا ارشد کا مشہور گانا ’’چوڑی کچ دی وینی دے وچ نچدی تے گت چمے گٹیاں نوں‘‘ یہاں خاتون اپنی بے پناہ خوبصورتی کو ان الفاظ میں بیان کررہی ہے کہ اس کی چوٹی اتنی لمبی ہے کہ ٹخنوں کو چھوتی ہے۔اب چونکہ ہر عورت کے بال اس مثالی اور معیاری لمبائی تک نہیں پہنچ سکتے اس لئے ان کو خوبصورتی کی اس دوڑ میں شامل رکھنے کے لئے پراندے اور نقلی بالوں کی چوٹی جیسی چیزیں ایجاد کی گئیں تاکہ وہ اسکے ذریعہ اپنے بالوں کے لمبا ہونے کا جھوٹا تاثر دے سکیں۔واضح رہے کہ یہ ساری کدوکاوش صرف اس لئے ہےکہ عورتوں کے بالوں کی لمبائی قدرتی طور پر دوسری عورتوں سے مختلف ہوتی ہے کسی کے بال چھوٹے رہتے ہیں اور ہزار جتن سے بھی ان کی لمبائی میں اضافہ نہیں ہوتا بعض خواتین کے بال نہ لمبے اور نہ چھوٹے یعنی درمیانی لمبائی کے ہوتے ہیں اور کچھ کے واقعی اتنے لمبے ہوتے ہیں کہ ان کی خوبصورتی میں چار چاند لگا سکیں۔بعینہ یہی حال مردوں کی ریش کا بھی ہے کہ ہر مرد کی ریش کی لمبائی مختلف ہوتی ہے کسی کی چھوٹی کسی کی درمیانی اور کسی کی لمبی ہوتی ہے اس لئے یہ سمجھنا کہ اگر مرد اپنی ریش سے بے خبر اور بے پرواہ ہوجائے تو اس داڑھی زمین کو چھونے لگے گی یا ناف سے نیچے چلی جائے گی ایک احمقانہ نظریہ و تصور ہے جس کی اصلاح کی سخت ضرورت ہے۔خلاصہ بحث یہ ہے کہ صرف داڑھی نہیں بلکہ انسانی جسم کے ہر حصّہ پر اگنے والے بالوں کی ایک مخصوص اور متعین لمبائی ہے جسے قدرت نے طے کردیا ہے اور جسم کے کسی بھی حصے پر اگنے والا بال اس متعین اور مخصوص لمبائی سے تجاوز نہیں کرسکتا جیسے ہاتھوں اور پیروں پر اگنے والے بال عام طور پر انسانی تصرف سے محفوظ رہتے ہیں لیکن کبھی ایسا نہیں ہوا کہ انہیں نہ کاٹنے کی صورت میںوہ لمبے ہوکر زمین کو چھونے لگے ہوں۔ اسی طرح مرد کی مونچھیں، سینے پر پائے جانے والے بال اور کانوں وغیرہ کے بال بھی ایک مخصوص حد سے آگے نہیں بڑھتے بالکل اسی طرح داڑھی کو قدرت نے اتنی طوالت عطا ہی نہیں کی کہ وہ اپنی لمبائی کے ساتھ زمین پر جھولنےلگے۔پس جب لمبی داڑھی سے بچنے کے لئے تراشے گئے بہانے کی کوئی حیثیت نہ رہی تو اس کی بنیاد پر ایک مشت داڑھی کا موقف بھی خودبخود کمزور ہوگیا۔
یہ نظریہ اس طرح پھیلا ،یا پھیلایا گیا کہ عام آدمی کے ساتھ ہمارا ادب اور ادیب بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکےچناچہ اردو ادب کے سب سے بڑے ناول راجہ گدھ کے یہ جملے گوش گزار فرمائیں۔ بانوقدسیہ لکھتی ہیں: اس کے نیچے ایک جوگی نے آکر بسیرا کرلیا۔ اس کے تن پر بھبھوت کے علاوہ کوئی لباس نہ تھا ۔ رفتہ رفتہ اس کی داڑھی اس قدر لمبی ہوگئی کہ وہ برگد کی جڑوں میں بیٹھا درخت کا ایک حصہ نظر آنے لگا۔ (راجہ گدھ، صفحہ 380)
حالانکہ درحقیقت یہ ممکن ہی نہیں کہ کسی کی داڑھی اس قدر لمبی ہوسکے لیکن ایک غلط سوچ ہے جو لوگوں کے ذہنوں میں راہ پاگئی ہے۔ علامہ وحیدالزماں حیدرآبادی کا بیان کردہ یہ واقعہ بھی ملاحظہ فرمالیں جس کے مطابق ایک شخص کی داڑھی اتنی لمبی تھی کہ تین دن تک اس میں بچھو نے قیام کیا اور اسے پتا نہ چلا، علامہ موصوف لکھتے ہیں: یزید الرشک ایک شخص کا لقب ہے جو تقسیم اراضی میں بڑا ماہر تھا۔ کہتے ہیں کہ اس کی داڑھی اتنی لمبی تھی کہ ایک بچھو اس میں گھس گیا اور تین دن تک وہیں رہا لیکن اس کو خبر نہ ہوئی۔(لغات الحدیث، جلد دوم، مادہ ’’س‘‘، صفحہ 80)
یہ واقعہ سراسر جھوٹ معلوم ہوتا ہے لگتا ہے کہ صرف لمبی داڑھی کی دشمنی میں اسے جان بوجھ کر اختراع کیا گیا ہے تاکہ رسول اللہ ﷺ کے اسوہ سے لوگوں کو دور رکھا جا سکے۔اس سلسلے میں کچھ ناخلف تو اپنا موقف منوانے کی دھن میں اس قدر آگے بڑھ گئےکہ نبی ﷺکی ثابت شدہ سنت کو بدعت اورصحابی کے ناقابل حجت عمل کو اصل سنت اور شریعت قرار دے کربقول شاعر جنوں کو خرد اور خرد کو جنوں کرڈالا۔ اس کی مثال میں عرض ہے کہ حافظ عمران الہٰی کے نزدیک داڑھی کے متعلق آنے والی احادیث کے عموم پر عمل کرنا جائز نہیں بلکہ بدعت ہے یعنی جو شخص احادیث کے ظاہری الفاظ کا اعتبار کرتے ہوئے لمبی داڑھی رکھتا ہے یا داڑھی کو اسکے حال پر چھوڑ دیتا ہے تو ایسا شخص بدعتی ہے کیونکہ احادیث کے الفاظ کے عموم کو سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے داڑھی کٹوانے والے فعل سے خاص کردیا ہے اور بتا دیا ہے کہ احادیث میں داڑھی کو بڑھانے ، پورا کرنے اور اسکے حال پر چھوڑ دینے کا اصل مفہوم یہ ہے کہ داڑھی کو ایک مشت کے بعد کاٹ دیا جائے اور ظاہر ہے ایسا نہ کرنے والا شخص احادیث کی مخالفت کرنے والا بدعتی ہے۔ حافظ عمران الہٰی اپنے نقطہ نظر کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ......حضرت عبداللہ بن عمر؄ جب حج یا عمرہ کرتے تھے تو اپنی داڑھی کو مٹھی میں لیتے اور جو بال مٹھی سے زائد ہوتے ان کو کاٹ دیتے تھے۔‘‘
اس روایت سے معلوم ہوا کہ حضرت عبداللہ بن عمر ؄ اللہ کے رسول ﷺ کے حکم کو مطلقاً واجب نہ سمجھتے تھے، درج ذیل فقہی قاعدے سے بات مزید واضح ہوجاتی ہے: ’’کل جزئیۃ من الدلیل العام لم یجری علیھا عمل السلف فالا خذ بھا بدعۃ‘‘ اگر سلف کے دور میں کسی نص کے عموم پر عمل نہ ہوا تو اس نص کے عموم پر عمل کرنا مشروع نہیں، بلکہ بدعت ہے۔
(یک مشت سے زائد داڑھی کی شرعی حیثیت، صفحہ 223,222)
اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حافظ عمران موصوف کے نزدیک داڑھی کی کم ازکم اور زیادہ سے زیادہ مقدار ایک مشت ہے اس سے زائد مقدار بدعت ہے اور مشت سے کم مقدار ناجائز ہے۔دوسری جانب احناف نے بھی داڑھی کی کم ازکم اور زیادہ سے زیادہ مقدار ازخود طے کی ہوئی ہے۔ ان کے ہاں داڑھی کی کم ازکم مقدار جو فرض ہے وہ ایک مشت ہے جبکہ زیادہ سے زیادہ مقدار سینہ تک ہے اور سینہ کے بعدطول فاحش والی مقدار ان کے ہاں حرام اور ناجائز ہے۔چناچہ فقہ حنفی میں درج ہے: داڑھی زیادہ سے زیادہ ایک مشت رکھنی چاہئے کہ یہی سنت ہے اس سے کچھ زیادہ ہو کہ سینہ تک پہنچ جائے تو حرج نہیں ہاں طول فاحش مکروہ تحریمی ہے۔(ردالمحتار علی الدر المختار )
مذکورہ بالا دونوںطرح کے نظریات کے رد میں عرض ہے کہ ابن الکلبی رحمہ اللہ نے کہا: ’’ذواللحیۃ شریح بن عامر بن عوف بن کعب بن ابی بکر بن کلاب، ولم یصفہ بغیر ذلک‘‘ شریح بن عامر بن عوف بن کعب بن ابی بکربن کلاب داڑھی والے تھے، اس کے علاوہ انہوں نے ان کا کوئی اور وصف ذکر نہیں کیا۔(سیر اعلام النبلاء،۲/۴۷)
راقم اس روایت کی روشنی میں عرض کرتا ہے کہ بہت سے صحابہ کے بارے میں روایات میں آتا ہے کہ ان کی داڑھیاں لمبی تھیں لیکن کسی لمبی داڑھی والے صحابی کو داڑھی والے کا لقب نہیں دیا گیا اس لئے شریح بن عامررضی اللہ عنہ کا داڑھی والے لقب سے مشہور ہونا ظاہر کرتا ہے کہ ان کی داڑھی حد سے زیادہ لمبی تھی۔اوراس سے واضح ہوتا ہے کہ طول فاحش حرام نہیں ہے وگرنہ شریح بن عامررضی اللہ عنہ اتنی لمبی داڑھی کو کٹوادیتے اور دیگر صحابہ بھی انہیں داڑھی والے کا لقب نہ دیتے صحابہ کا ان کو یہ لقب دینا ہی اس بات کا ثبوت ہے کہ لمبی سے لمبی داڑھی بھی جائز اور صحیح ہے نہ تو اس سے چہرہ بدنما ہوتا ہے اور نہ ہی کسی شرعی حکم کے خلاف ورزی ہوتی ہے۔ صحابہ کاشریح بن عامررضی اللہ عنہ کو داڑھی والے کا لقب دینا صحابہ کرام کی جانب سے حد سے زیادہ لمبی داڑھی کے جائز ہونے کی تصدیق و تائید ہے۔ اس میں حافظ عمران الہٰی کے نظریے کا بطلان بھی ہے کہ اگر لمبی داڑھی بدعت ہوتی تو صحابہ شریح بن عامررضی اللہ عنہ کو کوئی لقب دینے کے بجائے ان کی نکیر کرتے اور انہیں داڑھی کٹوا کر شریعت پر عمل پیرا ہونے کی نصیحت کرتے۔
حافظ عمران الہٰی نے ’’داڑھی بڑھاؤ‘‘ کے حکم رسول ﷺ کو کالعدم کرنے کے لئے ہر طرح کے حربے استعمال کئے ہیں جس میں کبھی الفاظ حدیث کے مفہوم و مطالب میں دور ازکار تاویل، کبھی اسے بدعت کہہ کرلوگوں کو اس سنت سے دور کرنے کی کوشش اور کبھی اسےغیر مہذب لوگوں کا طریقہ قرار دینا،مثال کے طور پرحافظ عمران الہٰی اپنے خیالات کی تائید میں ’’صفوۃ التفاسیر‘‘کے مصنف اور مسجد حرام کے مدرس شیخ محمد بن علی الصابونی رحمہ اللہ کی خلاف واقعہ بات نقل کرتے ہوئے رقمطراز ہیں: داڑھی کے بالوں کو بکھرا ہوا نہ چھوڑا جائے، بلکہ جو بال ادھر ادھر بکھرے ہوئے ہوں ان کو کاٹ کر داڑھی کو سنوارا جائے اور اس کو اس طرح نہ چھوڑا جائے کہ بچے ڈرنے لگیں اور بڑے لوگ کنارہ کشی اختیار کرنے لگیں۔ (یک مشت سے زائد داڑھی کی شرعی حیثیت، صفحہ 235)
شیخ محمد بن علی الصابونی کا یہ دعویٰ اس قدر غیر حقیقی اور زمینی حقائق کے خلاف ہے کہ ان کی ناقص علمی اور کمزور مشاہدےپر صرف ماتم ہی کیا جاسکتا ہے۔ اس سلسلے میں پہلی بات تو یہ عرض کرنی ہے کہ اہل حدیث حضرات کی ایک بڑی اور قابل ذکر تعدادداڑھی میں تراش خراش نہیں کرتی لیکن آج تک یہ نہیں سنا گیا کہ ان کی داڑھی سے بچے ڈرنے لگے ہوں یا پھر بڑوں نے ان سے دور بھاگنا اور فاصلہ قائم کرنا شروع کردیا ہو اور نہ ہی آج تک ان دو وجوہات کو بنیاد بنا کر کسی اہل حدیث کے داڑھی کاٹنے کا کوئی واقعہ ہمارے علم میں آیا ہے۔ اگر بدیہی حقیقت یہی ہوتی جسےالصابونی صاحب نے بیان فرمایا ہے تو اہل حدیث کی اکثریت داڑھی کٹوا لیتی کیونکہ انسان ایک معاشرتی جانور ہے اور وہ کسی بھی صور ت یہ برادشت نہیں کرسکتا کہ اس کی کسی ایسی ہیت سے لوگ اس سے دامن بچائیں جس کی اصلاح اس کے اپنے ہاتھوں میں ہو۔لہٰذا الصابونی صاحب کی مذکورہ باتیں فرضی باتیں ہیں جو انہوں نے لوگوں کو لمبی داڑھی سے نفرت دلانے کے لئے کی ہیں۔ ایک عام مشاہدہ یہ بھی ہے کہ جو لوگ خود لمبی داڑھیاں رکھتے ہیں اور اس میں چھیڑ چھاڑ نہیں کرتے یا پھر کسی بھی عذر سے خود تو لمبی داڑھی والے نہیں لیکن داڑھی کو اسکے حال پر چھوڑ دینے کے موقف کو درست اور عین حق سمجھتے ہیں انھیں ذاتی طور پر بھی ایسی ہی داڑھیاں اچھی لگتیں ہیں جنھیں لمبائی اور چوڑائی میں تراشا نہ گیا ہوجیسے راقم الحروف کو خود بھی مکمل داڑھیاں ہی بھلی معلوم ہوتی ہیں اسکے برعکس ایسی داڑھیاں جنھیں قینچی سے کاٹا گیا ہو راقم کو انھیں دیکھ کر نہ صر ف کراہیت اور ناگواری محسوس ہوتی ہے بلکہ ایسی داڑھی کا حامل چہرہ بھی بے رونق اور بے نور لگتا ہے۔راقم کو یقین ہے کہ اس جیسے خیالات رکھنے والے لوگ تعداد میں ہرگز کم نہ ہوں گےجنھیں بے تراش داڑھیوں سے محبت اورتراشیدہ داڑھیوں سے نفرت محسوس ہوتی ہے لہٰذا الصابونی صاحب کی یہ بات اور خیال بالکل غلط بلکہ جھوٹ ہےکہ لوگ کسی کی لمبی داڑھی کی وجہ سے اس سے کنارہ کشی اختیار کرسکتے ہیں۔اور اس باب میں یہ بھی ایک مغالطہ یا شدید غلط فہمی ہے کہ داڑھی کو اس کے حال پر چھوڑ دینے سے یا پھر ناتراش حالت میں رکھنے سے داڑھی بے ہنگم طورپر بے ترتیب یا پریشان حال ہوجاتی ہے۔ہر گز نہیں! بلکہ داڑھی ہمیشہ ایک متعین ترتیب کے ساتھ بڑھتی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ داڑھی کی بے ترتیبی میں بھی ایک خاص طرح کی ترتیب پائی جاتی ہے یعنی داڑھی کی جیسی لمبائی دائیں جانب ہوگی جیسے کانوں سے لے کر گالوں تک بالکل ویسی ہی ترتیب چہرے کے دائیں جانب بھی ہوگی اسی طرح لمبائی میں بھی اگر داڑھی کے کچھ بال چھوٹے اور کچھ لمبے ہوں گے تو وہ بھی ایک خاص تناسب میں ہوں گے ایسا نہیں ہے کہ ایک بال بہت بڑا دوسرا بہت چھوٹا تیسرا بال ان سے مختلف اور چوتھا بال ان سب سے مختلف لمبائی کا ہوگا۔یہ علیحدہ بات ہے کہ بالوں کو سنوارا نہ جائے تو وہ بے ہنگم اور بے ترتیب ہوجاتی ہے لیکن یہ حالت تو ایک مشت داڑھی کے ساتھ بھی ہے کہ کنگھا نہ کرنے کی صورت میں بے ڈھنگی ہوجاتی ہے۔ بالوں کو سنوارنے اور کنگھا کرنے کی صورت میں لمبی اور بڑی داڑھی کی بھی ایک ترتیب قائم رہتی ہے جو دیکھنے میں خوشگوار محسوس ہوتی ہے۔ لمبی داڑھی سے دل خراب ہونا یا گھن آنا تو بہت دور کی بات ہے جو شخص جتنی لمبی داڑھی والا ہو وہ اتنا ہی معزز اور بارعب لگتا ہے ۔ یہودیوں ، عیسائیوں کے مذہبی راہنما بھی ناتراش لمبی داڑھیوں والے ہوتے ہیں یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ ایسی داڑھیوں میں اپنے لوگوں کے لئے پسندیدہ اور قابل قبول ہوتے ہیں اگر تو لمبی داڑھی جاذب نظر اور خوبصورت نہ ہوتی تو ان مذہبی رہنمائوں کی عزت بھی اپنی عوام کے دلوں میں قائم نہ رہتی کیونکہ پھر ہر شخص ان سے دور بھاگتا اور نفرت سے انہیں دیکھنا بھی گوارا نہ کرتا۔ لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہے جو اس حقیقت کے آشکار کے لئے کافی ہے کہ لمبی داڑھی خوبصورتی کی علامت ہے بدصورتی کی نہیں۔جن لوگوں اورعلماءکو لمبی داڑھی سے مسئلہ ہے وہ داڑھی کی مذمت میں کوئی حقیقی اوروزنی نص پیش کریں کیونکہ ایسی غیر حقیقی اور فرضی باتوں سے وہ کسی کو قائل نہیں کرسکتے۔الٹا ایسی باتوں سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ ان علماء کا موقف دلائل کے لحاظ سے انتہائی کمزور ہے تبھی وہ ایسے بے ڈھنگی باتوں سے اپنے موقف کو سہارا دینے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔

داڑھی کو بڑھانے کے حقیقی معنی کیا ہیں؟
صحیح احادیث میں داڑھی سے متعلق جو الفاظ وارد ہوئے ہیں وہ چارہیں یعنی ’’اوفوا، ارخوا،وفروا، اعفوا ‘‘ ان تمام عربی الفاظ کے معنی قریب قریب ہیں جو کہ داڑھی کو بڑھانا،داڑھی کو لٹکانا،داڑھی کو زیادہ کرنا، داڑھی کو اس کے حال پر چھوڑدینااور داڑھی کو پورا یا مکمل کرنا کے ہیں۔ ان میں کچھ یا زیادہ تر الفاظ ایسے ہیں جن میں علماء نہایت آسانی سے تاویل کرلیتے ہیں اورانہیں اپنے من پسند معنی دے دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ نبی ﷺ نے داڑھی بڑھانے کا حکم دیا ہے اور اس کی کوئی حد بیان نہیں فرمائی اس لئے ایک مشت داڑھی رکھنے والا اس حکم کی تعمیل کرنے والا ہے کیونکہ اس نے داڑھی کو بڑھایا ہے۔ اس کے علاوہ وہ داڑھی کو لٹکانے والا بھی ہے کیونکہ داڑھی کی یک مشت مقدار اتنی ہے کہ اس پر لٹکانے کا اطلاق باآسانی ہوسکتا ہے۔ نیز وہ داڑھی کو زیادہ کرنے والا بھی ہے کیونکہ ایک مشت داڑھی کم نہیں ہوتی۔لیکن بالالفظوں میں ایک معنی ایسا ہے جسے تاویل کی سان پرآسانی سے نہیں چڑھایا جاسکتااور وہ معنی ہیں داڑھی کو پورا یا مکمل کرنا۔داڑھی کو مکمل اور پورا کرنے کا مطلب یہ ہے کہ قدرت نے جس مرد کوداڑھی کی جو لمبائی عطا کی ہے اس حد یا لمبائی تک اسے بغیر چھیڑ چھاڑ کئے پہنچنے دینا۔ جس مقام پر داڑھی کی بڑھوتری خودبخود رک جائے گی وہی مقام اسکی تکمیل کا ہوگا اور یہ مقام ہر مرد میں دوسرے سے مختلف و متفرق ہوتا ہے کسی میں سینے کے بالائی حصے تک جسے ایک مشت بھی کہا جاتا ہے کسی کے سینے کے درمیانی حصے تک کسی کے سینے کے آخری حصے تک کسی کے پیٹ تک اور کسی کے ناف تک اور بعض کے ناف کے نیچے تک۔مفتی ابوالحسن عبدالخالق حفظہ اللہ داڑھی کو پورا کرنے کا مطلب بیان کرتے ہوئے رقمطراز ہیں: بتائیے! داڑھی کواس کی حالت تمام وکمال تک پہنچانے اور اس کے پورا کرنےکاکیا مطلب ہے؟ چلو ہم ہی بتا دیتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسے اس کی طبعی حالت پر چھوڑ دیا جائے اور کسی قسم کی چھیڑ چھاڑ نہ کی جائے۔ عام سادہ پڑھا لکھا انسان بھی جانتا ہے کہ نقص اور کمی کرنا، کسی چیز کی حالت تمام و کمال اور اس کے طبعی طریقہ سے پورا ہونے اور بڑھنے کے منافی ہے۔ (یک مشت سے زائد داڑھی کی شرعی حیثیت، صفحہ 253)
منشارسول ﷺ کے مطابق داڑھی کو اسکے حال پر چھوڑ دینے اور کوئی تصرف نہ کرنے سے احادیث کے تمام الفاظ و معنوں پربیک وقت عمل ہوجاتا ہے اس میں داڑھی کو لٹکانا، لمبا کرنا، زیادہ کرنا، اسکے حال پر چھوڑ دینا ، پورا اور مکمل کرنا سب کچھ آجاتا ہے جبکہ ایک مشت داڑھی میں مکمل کرنا اور پورا کرنا کے معنی چھوٹ جاتے ہیں۔یوں ایک مشت داڑھی کا عمل اپنے آپ میں مشکوک اور غیر تسلی بخش ہوجاتا ہے۔ مکمل داڑھی رکھنے والے کو تو یقین کامل ہوتا ہے کہ اس نے داڑھی کے حکم پر کامل طریقے سے عمل کیا ہے لیکن ایک مشت داڑھی رکھنے والا شخص اس اکمل یقین سے محروم رہتا ہے۔ تو کیا ایسی صورت میں بہتر نہیں ہے کہ ایسا عمل کیا جائے جو شک و شبہ سے بالاتر ہو اور مکمل یقین کا فائدہ بھی دے اور داڑھی کے معاملے میں ایک مسلمان مرد کو مطمئن کردینے والا عمل یہی ہے کہ وہ اپنی داڑھی کو اس کی قدرتی لمبائی تک بڑھنے دے۔
احادیث صحیحہ میں داڑھی کے متعلق جو الفاظ سب سے زیادہ آئے ہیں وہ ’’اوفوا‘‘ اور’’اعفوا‘‘ ہیں اور انہیں الفاظ میں علماء تاویل کرنے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ اگر ان لفظوںپر بھی تھوڑا گہرائی سے غوروفکر کیا جائے تو اس میں بھی تاویل کی گنجائش نہیں نکلتی، مفتی ابوالحسن عبدالخالق لکھتے ہیں: اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: {اَوْفُوا الْكَیْلَ}یعنی’’اتموہ‘‘(ماپ پورا کرو)یہ نقص اور کمی کرنے کے مقابلے میں استعمال ہوا ہے، جیسے فرمایا: {اَوْفُوا الْكَیْلَ وَ لَا تَكُوْنُوْا مِنَ الْمُخْسِرِیْنَ} [الشعراء:۱۸۱]’’ماپ پورا کرو اور کم دینے والوںمیں سے نہ ہوجائو۔‘‘ سورت ہود میں ہے: {وَلَا تَنْقُصُوا الْمِكْـيَالَ وَالْمِيْـزَانَ} ’’تم ماپ تول میں کمی نہ کرو۔‘‘ معلوم ہوا کہ ’’اوفوا‘‘ کے معنی اتمام کے اور پورا کرنے کے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ یہ لفظ وحکم اس چیز میں نقص اور کمی کو بھی قبول نہیں کرتا، جیساکہ قرآنی نصوص سے واضح ہوا۔ اس لیے داڑھی کو صرف ایک متعین حد تک بڑھانا ہی مقصود نہیں بلکہ اسے پورا کرنے، بڑھانے اور اس کی توفیر وتکثیر کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہےکہ اس میں کسی قسم کی کمی یا نقص بھی نہیں کرنا، وگرنہ نبی کریم ﷺ کے مراد اور مقصد پورا نہیں ہوگا۔(یک مشت سے زائد داڑھی کی شرعی حیثیت، صفحہ 252)
’’مادہ عفو کی مزید وضاحت‘‘ کی سرخی کے تحت مفتی ابوالحسن عبدالخالق حفظہ اللہ اپنے قلم کو جنبش دیتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’ترک الشیی‘‘ یعنی کسی چیز کو ترک کردینا ’’عفو اللہ عن خلقہ‘‘ سے مراد اللہ تعالیٰ کا بندوں کو ترک کردینا، اور ان کا مواخذہ نہ کرنا ہے۔ ’’عفا ظَھْرَ البعیر‘‘ اس وقت بولتے ہیں، جب اونٹ کو ترک کردیا جائے اور اس پر سواری نہ کی جائے۔ ’’عفوا المال‘‘یعنی مال کا زائد یا زائد مال، اسے عفو اس لیے کہا، کیونکہ اس کی ضرورت نہیں ہوتی، لہٰذا ترک کردیاجاتا ہے۔ بہرحال ــ’’اعفوا‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ داڑھی کو ترک کردو اور اس سے کسی قسم کا تعرض نہ کرو، نتیجہ یہ ہوگا کہ زیادہ ہوگی اور لمبی بھی ہوتی جائے گی......علامہ یوسف قرضاوی کی تحریر بھی نظر سے گزری ہے، لکھتے ہیں: ’’اعفوا اللحی‘‘ کا مطلب یہ ہے: ’’اترکوھا تنمو وتکثر فمن تعرض لھا بقص او حلق فلم یترکھا ولم یعفھا‘‘ اسے چھوڑ دو، بڑھتی رہے، زیادہ ہوتی رہے، تو جس شخص نے اسے تراشا یا مونڈا تو اس نے اسے چھوڑا نہیں اور نہ ہی اعفاء سے کام لیا۔(یک مشت سے زائد داڑھی کی شرعی حیثیت، صفحہ 256،257)
حافظ عمران الہٰی جیسے علماء کی عبرت کے لئے عرض ہے کہ اگرچہ دیوبندی مطلقاً’’اعفاء اللحیۃ‘‘ کے منکر ہیںلیکن اس کے باوجود بھی ان کے اہل علم اچھی طرح جانتے ہیں کہ احادیث میں داڑھی رکھنے کے بارے میں جو جو الفاظ وارد ہوئے ہیں ان کے اصل مطالب و مقاصد کیا ہیں۔ توجہ فرمائیں، مولانا قاری محمد طیب دیوبندی رقمطراز ہیں: ذخیرہ احادیث میں داڑھی بڑھانے کے لئے امر صریح کے پانچ صیغے استعمال فرمائے گئے ہیں۔ اِعفاء۔ اِیفاء۔ اِرخاء۔ اِرجاء۔ توفیر۔ اور پانچوں کے معنی محض داڑھی رکھنے کے نہیں بلکہ داڑھی بڑھانے اور اسے علی حالہ بڑھنے دینے کے ہیں گویا جہاں تک قولی احادیث کا تعلق ہے۔ ان میں داڑھی بڑھنے کی کوئی حد نہیں مقرر کی گئی ہے بلکہ داڑھی کو علی حالہ چھوڑے رکھنے کا امر مطلق ہے۔ چناچہ اِعْفُوا۔ اَوْفُوا۔ اَرْخُوا اور وَفِرّوُا۔ بلاقید کے علی الاطلاق مروی ہیں اور ان پانچوں صیغوں کے معنی داڑھی چھوڑنے یعنی اسے علی حالہ بڑھنے دینے کے ہیں جن میں کسی قسم کی کوئی قید اور شرط نہیں لگائی گئی۔ (ڈاڑھی کی شرعی حیثیت مع داڑھی کا فلسفہ، صفحہ 28،29)
احادیث کے یہ وہ اصل معنی ہیں جو اہل حدیث کے مخالفین کو بھی سمجھ آرہے ہیں لیکن اگر نہیں سمجھ آرہے تو ان نام نہاد اہل حدیثوں کو جو اپنے خلاف حدیث نظریے کی وجہ سے اسے سمجھنا ہی نہیں چاہتے، حافظ عمران الہٰی احادیث کے حقیقی معنی کا انکار کرتے ہوئے لکھتے ہیں: احادیث میں داڑھی کے حوالے سے جتنے الفاظ بیان ہوئے ہیں، سب کے معنی داڑھی کو بڑھانے اور لمبا کرنے کے ہیں، کسی لفظ کے یہ معنی نہیں کہ داڑھی کو معاف کردو یا داڑھی کو اس کے حال پر چھوڑ دو، جیسا کہ ہمارے ہاں یہی معنی مشہور ہیں۔(یک مشت سے زائد داڑھی کی شرعی حیثیت، صفحہ 170)
حافظ عمران الہٰی کے برعکس یہ دیوبندیوں کی ایمانداری ہے کہ وہ یہ تسلیم کرنے کے باوجود بھی کہ احادیث کا مقصود داڑھی کو معاف کرنےاور بلاقید اس کے حال پرچھوڑ دینے میں ہے ،مفہوم حدیث میں چھیڑ چھاڑ کے بجائے قبضہ کے بعد داڑھی تراشنے کےاپنے عمل کے لئے فعل صحابی کو دلیل بناتے ہیں اور کھلے دل سے یہ تسلیم کرتے ہیں کہ احادیث کا مقصود داڑھی کو معاف کرنےاور بلاقید اس کے حال پرچھوڑ دینے میں ہے اس طرح یہ دیوبندی بہرحال ان علمائے اہل حدیث کئی درجے بہتر ہیں جو اپنے مقصد کی خاطر الفاظ حدیث میں ہی تاویل کرکے احادیث کو اپنے اصل معنی و مفہوم سے پھیرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
 
Last edited:

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,011
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
داڑھی سے اعراض نہ صرف مردانہ عزت اور وقار کے خلاف ہےبلکہ مردانگی کی توہین و تذلیل بھی ہےکیونکہ یہ ہیجڑا پن اور عورتوں سے مشابہت ہےجو باعزت اور غیرت مند مرد کو کسی صورت زیب نہیں دیتی اس پر مستزاد کہ یہ آخرت کی تباہی کا بھی باعث ہے۔ داڑھی نہ رکھنے کے بعض دینی اور دنیاوی نقصانات مندرجہ ذیل ہیں:

۱۔ زنخااور ہیجڑا پن:
داڑھی سے گریز زنخوں اور ہیجڑوں کا فعل ہے۔بدیع الدین شاہ راشدی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں: امام حافظ ابن عبدالبررحمہ اللہ التمہید میں فرماتے ہیں: ’’ویحرم حلق اللحیۃ ولا یفعلہ الاالمخنثون من الرجال‘‘ داڑھی کا مونڈنا حرام ہے ہیجڑوں کے سوا اور کوئی مرد ایسا نہیں کرتا۔ (مقالات راشدیہ، جلددوم، صفحہ 384)
اگر اس زمانے کا حال عبدالبر رحمہ اللہ کو معلوم ہوتا تو وہ انتہائی حیران ہوتے کہ فی زمانہ مرد خال خال ہی دکھائی دیتے ہیں اور مردوں کے نام پر اکثریت ہیجڑوں کی پائی جاتی ہے۔ بدقسمتی سے آج کا مسلمان ، مرد سے زیادہ ہیجڑا بننے میں فخر محسوس کرتا ہے۔داڑھی سے بے نیازی چونکہ زنخوں کی بنیادی پہچان اور شعار ہےجس کے ذریعے وہ معاشرے میں اس حقیقت کو آشکار کرتے ہیں کہ وہ مرد نہیں بلکہ مخنث ہیںاس کے برعکس داڑھی مرد کا شعار ہے جس کے ذریعے وہ زبان حال سے معاشرے کو بتاتا ہے کہ اسے مخنث یا عورت نہ سمجھا جائےبلکہ وہ مرد ہے۔لیکن مردانگی کی بنیادی اور ظاہر ی علامت سے خود کو دانستہ محروم کرکےیہ ہیجڑے نما مرد ایک ایسےدوراہے پر آ کھڑے ہوئے ہیں کہ ان کے پاس کوئی تیسرا راستہ نہیں۔ انہیں چاہیے کہ مکمل داڑھی رکھ کر یا تو اصلی مردوں کو صف میں شامل ہوجائیں یا پھر مکمل ہیجڑا اور مخنث ہو جائیں۔ یہ آدھا تیتر اور آدھا بٹیر والی زندگی بے کار ہے، پورے تیتر یا پورے بٹیر بنیں تاکہ معاشرے میں اپنا وہ اصل باعزت مقام پاسکیںجو حقیقی مردوں کے لئے مخصوص ہےیا پھر ذلت ،رسوائی اور پھٹکار کے مستحق ٹھہریں جو عورتوں کی شکل و شباہت اختیار کرنے والےزنانے مردوں کی قسمت ہے۔
داڑھی مونڈنے والوں کے لئے شرم ، عبرت اور غیرت سے ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ خود رسول اللہ ﷺ نے حلیق کو اپنی زبان مبارک سے مخنث کہا ہے، حدیث کے الفاظ ملاحظہ فرمائیں، ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: ’’لعن رسول الله ﷺ المخنثين من الرجال، والمترجلات من النساء‘‘رسول اللہﷺ نے لعنت فرمائی زنانے (مخنث) مردوں پراور مردانہ پن اختیار کرنے والی عورتوں پر۔(سنن ترمذی،كتاب الأدب)

۲۔ فسق و فجر کا داعی:

داڑھی مونڈنا چونکہ ظاہری عمل ہے اس لئے داڑھی منڈاشخص نہ صرف خود اس قبیح فعل کی وجہ سے فاسق و فاجر ہے بلکہ غیر ارادی طور پر اس گناہ کا داعی بھی ہے۔ وہ دوسرے لوگوں کو اس گناہ پر ابھارنے اور ان کی سوچ خراب کرنے کا ذمہ دار ہےاور زبان حال سےدوسروں کو داڑھی نہ رکھنے کی دعوت دینے والا ہے۔ اس کی مثال ایک ایسی گندی مچھلی کی ہے جوپورے تالات کو خراب ،گندہ اور ناپاک کردیتی ہے

۳۔گناہ جاریہ:
داڑھی منڈانا ایک کبیرہ گناہ ہے لیکن یہ باقی کبیرہ گناہوں سے اس لئے ایک الگ مقام رکھتا ہے کہ دیگر کبیرہ گناہ وقتی، عارضی اور مختصر دورانیے پر مشتمل ہوتے ہیں لیکن یہ ایک مستقل اور نہ ختم ہونے والے دورانیے پر مشتمل ہے اس اعتبار سے داڑھی منڈانا یقیناً گناہ جاریہ ہے جو دن رات اٹھتے بیٹھتے سوتے جاگتے عاصی کے ساتھ چپکا رہتا ہے اور اسکے نامہ اعمال کو سیاہ کرتا رہتا ہے۔ اس کے علاوہ اس گناہ کی ہولناکی اور خطرناکی دیگر کبیرہ گناہوں سے اس لئے مختلف اور سنگین بلکہ سنگین ترہے کہ صحیح احادیث میں وارد ہے کہ جب کوئی کبیرہ گناہ کا ارتکاب کرتا ہے تو اس کاا یمان اس سے خارج ہوکر معلق ہو جاتا ہے اور جب وہ اس گناہ سے فارغ ہوتا ہے تو ایمان لوٹ آتا ہے۔ ابوہریرہ رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب آدمی زنا کرتا ہے تو ایمان اس کے اندر سے نکل کر اس کے سر کے اوپر چھتری جیسا (معلق) ہو جاتا ہے، اور جب اس فعل (شنیع) سے فارغ ہو جاتا ہے تو ایمان اس کے پاس لوٹ آتا ہے۔‘‘(الحدیث)
اسی مفہوم کے الفاظ دوسری حدیث میں چور، خائن، ڈاکو اور شرابی کے بارے میں بھی آتے ہیں۔سیدنا ابوہریرہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ لَا يَزْنِي الزَّانِي حِينَ يَزْنِي وَهُوَ مُؤْمِنٌ وَلَا يشرب الْخمر حِين يشْربهَا وَهُوَ مُؤمن وَلَا يَسْرِقُ السَّارِقُ حِينَ يَسْرِقُ وَهُوَ مُؤْمِنٌ وَلَا ينتهب نهبة ذَات شرف يرفع النَّاس إِلَيْهِ أَبْصَارهم فِيهَا حِينَ يَنْتَهِبُهَا وَهُوَ مُؤْمِنٌ وَلَا يَغُلُّ أَحَدُكُمْ حِين يغل وَهُوَ مُؤمن فإياكم إيَّاكُمْ‘‘ زنا کرنے والا زنا کے وقت مومن نہیں رہتا، چوری کرنے والا چوری کے وقت مومن نہیں رہتا ہے اور شراب خور شراب خوری کے وقت مومن نہیں رہتا ہے اور دوسرے کا مال لوٹنے والا مومن نہیں رہتا ہے کہ لوٹنے کے وقت لوگ اپنی آنکھیں اٹھا کر اس کو دیکھتے ہوں اور خیانت کرنے والا خیانت کے وقت مومن نہیں رہتا ہے۔ تم ان باتوں سے بچو۔(مشکوۃ المصابیح،کتاب الایمان، ترقیم53)
اگران احادیث کی روشنی میں داڑھی منڈانے کے کبیرہ گناہ کو دیکھا جائے تو زنا اور چوری وغیرہ کے بعد زانی اور چور کا ایمان کچھ دیر بعدان کے پاس واپس لوٹ آتا ہے کیونکہ ان گناہوں کا دروانیہ مختصر اور کم ہوتا ہے لیکن داڑھی منڈ اتو اپنے گناہ سے فراغت ہی نہیں پاتا ،کہ ارتکاب معصیت کی وجہ سےخارج شدہ ایمان اس کے پاس واپس آسکے۔بلکہ اپنی اس بد اعمالی کی نحوست کی وجہ سےداڑھی منڈا اپنے ایمان کو اپنے اندر داخل ہونے کا موقع ہی نہیں دیتااور اس کا ایمان منتظر رہتا ہے کہ کب یہ شخص اس گناہ کو ترک کرے اور کب میں دوبارہ اسکے دل میں داخل ہو سکوں۔لیکن اس کی نوبت شاذونادر ہی آتی ہے کیونکہ دن رات مہینوں بلکہ سالوں تک مسلسل یہ گناہ انسان کے ساتھ لگا رہتا ہےحتی کہ وہ تائیب ہوکر داڑھی کو اسکے حال پر چھوڑ دے۔
داڑھی منڈانے کا کبیرہ گناہ ہونےکے علاوہ ایک اضافی نقصان یہ ہے اس کے ساتھ کی گئی ہر نیکی ناقص رہتی ہے کیونکہ اس نیکی میں داڑھی منڈانے کا گناہ بھی شامل رہتا ہے۔دارالافتاء دیوبند کی ویب سائٹ پر ایک سوال کے جواب میں مفتی صاحب رقم کرتے ہیں: احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے داڑھی رکھنے اور اس کے بڑھانے کی بہت تاکید فرمائی ہے، اس لیے داڑھی کا رکھنا واجب ہے۔ ایک مشت سے کم کردینا کاٹ کر یا منڈوادینا گناہ کبیرہ ہے۔ یعنی سخت ترین گناہ ہے۔ اور یہ گناہ ایسا ہے کہ آدمی (داڑھی منڈوانے والا) ہروقت اس گناہ میں ملوث رہتا ہے، نماز پڑھ رہا ہے تو گناہ کی حالت میں گنہ گاروں کی شکل میں، تلاوت کررہا ہے تو گناہ کی حالت میں۔ اور ایک خرابی اور بھی ہے وہ یہ کہ بہت سے داڑھی منڈوانے والے اس کوگناہ بھی نہیں سمجھتے اس طرح ان کے دلوں سے گناہ کے کام کی برائی نکل کر اس کا استحسان (اچھا ہونا) پیدا ہوجاتا ہے جو گناہ سے بھی زیادہ برا ہے۔ جواب:1204،فتوی:346، متفرقات، حلال و حرام ۔
(darulifta-deoband.com/home/ur/halal-haram/1204)
پس معلوم ہوا کہ انسان کے نامہ اعمال میں داڑھی منڈانے کے وبال کا گناہ بغیر کسی انقطاع کے مسلسل لکھا جاتا رہتا ہےجو اس کے ہر نیک عمل کو متاثر کرتا ہے۔ اس لحاظ سے داڑھی منڈانا نہ صرف گناہ جاریہ میں شمار ہوتا ہے بلکہ حلیق(داڑھی منڈے) کوکامل ایمان سے بھی محروم رکھتا ہے۔ کیا یہ تمام نقصانات اتنے عظیم نہیں کہ حلیق اپنے فعل نافرمانی سے باز آسکے؟کیا دنیاوی معیار کے مطابق خوبصورت نظر آنا اس کے لئے اتنا ضروری ہے کہ وہ فطرت اور شریعت کی مخالفت کرکے ایک بڑے خسارے کا خطرہ مول لے سکتا ہے؟!

۴۔ ہم جنس پرستی کا فروغ
مرد قدرتی اور فطری طور پر ایسے چہروں کی طرف مائل ہوتا ہےجو بالوں سے پاک ہوں۔ بطور خاص نوجوان اور خوبصورت مردوں کا داڑھی منڈوانااکثر اوقات دوسرے مردوں کو جنسی طور پر لبھانے کا سبب بنتا ہےاور مرد مرد پر عاشق ہوجاتا ہےچناچہ معاشرے میں بڑھتی ہوئی ہم جنس پرستی کے مزید فروغ کا سبب داڑھی منڈا ہونا بھی ہے۔ مخنثوں کے داڑھی مونڈنے کی وجہ تو بالکل واضح ہے کہ وہ مردوں سے قربت کے متمنی ہوتے ہیں اور مرد چہرے پر بال بالکل برداشت نہیں کرتااس لئے مخنث داڑھی منڈے ہوتے ہیں لیکن ایک مردکا کلین شیوڈ ہونا سمجھ سے بالاتر ہے کیونکہ اگر وہ عورت کو متاثر کرنا چاہتا ہے تو عورت تو بالوں والے چہرے پر بھی فدا ہوجاتی ہے لیکن داڑھی منڈاشخص عورت کے ساتھ غیر مردوں کو بھی اپنی طرف مائل کرکے دعوت گناہ دیتا ہے شاید داڑھی منڈا لاشعوری طور پر یہی چاہتا ہے کہ عورت تو عورت مرد بھی اس کی خوبصورتی کو سراہیں پھر اس کے نتیجے میں ہوتا یہ ہے کہ آئے روز نوجوان لڑکوں کی عصمت دری کے واقعات رونما ہوتے ہیں بعض اوقات دوست ہی اپنے چکنے دوست کے ساتھ زبردستی بدفعلی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ لڑکوں کی عزت لٹنے کےایسے واقعات کے ظہور کا سبب متاثرہ لڑکوں کا داڑھی منڈا ہونا ہوتا ہے وگرنہ بدفعلی تو کجا لڑکے، بالوں والے چہرے کو بری نظر سے دیکھنا بھی پسند نہیں کرتے۔ پھر چونکہ مرد کے بانکپن کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی اس لئے اس طرح کے واقعات رپورٹ نہیں ہوتے ورنہ یہ حادثات جتنی کثرت سے رونما ہورہے ہیں یہ ایک بڑے معاشرتی بگاڑ کا سبب ہیں لیکن کسی کو اس مسئلہ کی سنگینی کا احساس نہیں ہے۔ کیونکہ جس طرح مرد کو درد نہیں ہوتا اسی طرح مرد کی کوئی جنسی عزت نہیں ہوتی چاہے کوئی بھی اسے لوٹ کر لے جائے لیکن فطرت کی جانب رجوع کرکے یعنی داڑھی رکھ کر یہ مسئلہ بڑی حد تک قابو میں آسکتا ہے اور اس برائی کی روک تھام ہوسکتی ہے۔

۵۔ ملعون اور لعنتی
داڑھی منڈا نگاہ شریعت میں ملعون اور لعنتی ہے اس لئے کہ یہ بے ریش ہوکر جنس مخالف کی مشابہت و نقل کرتا ہےجبکہ عورتوں کی مشابہت کرنے والے مردوں اور مردوں کی مشابہت کرنے والی عورتوںپر اللہ کے رسول ﷺ نے لعنت بھیجی ہے اور ایسے لوگوں کو ملعون قرار دیا ہے۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : ’’لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمُتَشَبِّهِينَ مِنْ الرِّجَالِ بِالنِّسَاءِ وَالْمُتَشَبِّهَاتِ مِنْ النِّسَاءِ بِالرِّجَالِ‘‘رسول اللہ ﷺنے لعنت فرمائی ہے ان عورتوں پر جو مردوں سے مشابہت اختیار کرتی ہیں اور ان مردوں پر جو عورتوں سے مشابہت اختیار کرتے ہیں ۔(جامع ترمذی، ترقیم:2784)
عرض ہے کہ مردکے عورت کی مشابہت اختیار کرنے کے کئی انداز ہیں یعنی عورتوں جیسا لہجہ بنانا، بات چیت میں جان بوجھ کر عورتوں جیسا نداز اختیارکرنا، ان کے جیسا لباس پہننا ، ان کے جیسے انداز و اطوار اپنانا اور داڑھی مونڈنا بھی اسی ذیل میں آتا ہے کیونکہ مرد کو داڑھی عطا کرکے شریعت نے ان دونوں میں ایک قدرتی فرق قائم کیا ہے جسے مٹا کر ایک مرد عورت جیسا بن جاتا ہے۔ علماء و شارحین حدیث نے اس حدیث کی تشریح و توضیح کرتے ہوئے داڑھی منڈے کوبھی عورت کی مشابہت کرنے والے مرد میں شامل کیا ہے۔جیسے مولانا عطاء اللہ ساجد ابن ماجہ کی اسی مفہوم کی حدیث کے فوائد کے تحت لکھتے ہیں: مردوں کا ڈاڑھی منڈانا بھی عورتوں سے مشابہت ہے اور عورتوں کے ننگے سر گھومنا یا اونچی شلواریں پہننا مردوں سے مشابہت ہے۔(سنن ابن ماجہ ، کتاب النکاح،ترقیم: 1904، طبع دارالسلام )
فاروق رفیع حفظہ اللہ رقمطراز ہیں: عورتوں کے ساتھ سب سے بڑی مشابہت داڑھی مونڈنا ہے۔ اس لیےکسی بھی مسلمان کو زیبانہیں کہ وہ عورتوں کی مشابہت اختیار کرکے شریعت کی مخالفت سمیت ہر وقت کی لعنت قبول کرے۔ (داڑھی اور خضاب حقیقت کیا افسانہ کیا؟،صفحہ 27)
بد یع الدین شاہ راشدی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: پس جو شخص داڑھی مونڈتا ہےوہ یقیناً عورت سے مشابہت کرتا ہے۔ (مقالات راشدیہ، جلددوم،صفحہ 367)
اس موضوع کے حوالہ جات شمار سے باہر ہیں لیکن تنگی داماں ہمیں ان کی مزید نقل سے روکتی ہے۔المختصر علماء کے مابین اس بات پر کچھ اختلاف نہیں کہ داڑھی مونڈنا عورتوں کی پکی ٹھکی مشابہت ہے۔
تنبیہ: یہ مسئلہ حدیث سے ہی صاف اور واضح تھا لیکن علماء کے حوالے اس ضرورت کے تحت پیش کئے گئے ہیں تاکہ کوئی یہ مغالطہ نہ دے سکے کہ داڑھی منڈانا عورتوں کی نقل و مشابہت میں داخل نہیں ہے راقم کے کانوں میں یہ بات پڑچکی ہے کہ داڑھی مونڈنے کو عورتوں کی مشابہت قرار دینا بلادلیل ہے اور یہ علماء کی ذاتی رائے ہےجس کا کوئی اعتبار نہیں۔ اس نامعقولیت کے جواب میں راقم صرف یہ کہنا چاہتا ہے کہ داڑھی مونڈنا عورتوں کی نقل و مشابہت ہے اس کو ثابت کرنے کے لئے کسی دلیل کی نہیں بلکہ صرف عقل سلیم کی ضرورت ہے اور یہ بدیہی اور کھلی حقیقت بیمار ذہن میں داخل نہیں ہوسکتی اس لئے اس طرح کے بیماری زدہ لوگوں کو دلیل تلاش کرنے کے بجائے اپنے مرض کے علاج کی فکر کرنی چاہیےتاکہ کہیں دیر نہ ہوجائے!
 
Last edited:

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,011
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
۶۔ قابل نفرت چہرے والا:
نگاہ شریعت میں داڑھی منڈے کا چہرہ قابل نفرت ہےکیونکہ اللہ کے حبیب ﷺ نے داڑھی منڈے چہرے دیکھ کر اپنا رخ انور نفرت سے دوسری جانب پھیر لیا تھا۔لہٰذا کسی مومن کے لئے جائز نہیں کہ کسی ایسے چہرے کی خوبصورتی کی تعریف کرے جو داڑھی سے بے نیاز ہوکیونکہ ایسا چہرہ رسول اللہ ﷺ کے نزدیک ناقابل التفات تھا۔اس کےعلاوہ داڑھی منڈے کو دل میں بھی خوبصورت جاننے کی غلطی نہ کرےکیونکہ ایمان کا آخری درجہ یہ ہے کہ برائی کو کم ازکم اپنے دل میں براجانے۔ کسی داڑھی منڈے کی خوبصورتی کو سراہنے کا مطلب معصیت کے فروغ میں اپنا حصہ ڈالنابھی ہے کیونکہ تعریف اور پسندیدگی کسی بھی فعل کی بڑھوتری اور پھیلاؤ میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے جب لوگ کسی برائی کو پسند کرنے لگتے ہیں تو وہ معاشرے میں اپنی جڑیں پھیلانے لگتی ہے۔ چونکہ ہر شخص اپنی تعریف و توصیف کا متمنی ہوتا ہے اس لئے وہ ہر اس عادت، فعل اور چیز کو اپنانے کی کوشش کرتا ہے جس کی بنیاد پر وہ لوگوں کی داد اور تعریف سمیٹ سکے۔اسی لئے کسی حلیق کی خوبصورتی کی تعریف کا مطلب داڑھی مونڈنےکے گناہ کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔
اس مسئلہ میں ہر ایک کو اپنا مزاج بدلنے کی ضرورت ہے کیونکہ بعض داڑھی بردار بھی ایسے ہیں جو زبان سے نہ سہی لیکن دل سے داڑھی منڈوں کو خوبصورت سمجھتے ہیں جس کے سیدھے سادھے معنی یہ ہیں کہ انہوں نے داڑھی مذہبی جبر کی وجہ سے رکھی ہوئی ہےاور وہ داڑھی کو پسند نہیں کرتے لیکن داڑھی کے فرض ہونے کی وجہ سے داڑھی رکھنے پر مجبور ہیں۔ ایسی سوچ کے تحت داڑھی رکھنا بھی نہ رکھنے کے برابر ہی ہے کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: فَلَا وَ رَبِّکَ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوۡکَ فِیۡمَا شَجَرَ بَیۡنَہُمۡ ثُمَّ لَا یَجِدُوۡا فِیۡۤ اَنۡفُسِہِمۡ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیۡتَ وَ یُسَلِّمُوۡا تَسۡلِیۡمًانہیں، ( اے پیغمبر) تمہارے پروردگار کی قسم ! یہ لوگ اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتے جب تک یہ اپنے باہمی جھگڑوں میں تمہیں فیصل نہ بنائیں، پھر تم جو کچھ فیصلہ کرو اس کے بارے میں اپنے دلوں میں کوئی تنگی محسوس نہ کریں، اور اس کے آگے مکمل طور پر سر تسلیم خم کردیں۔(سورۃ النساء:65)
اس آیت سے مترشح ہے کہ مومن ہونے کے لئے نبی ﷺ کے کسی بھی حکم اور فیصلے کو نہ صرف عمل کے ذریعے تسلیم کرنا ضروری ہے بلکہ دل میں بھی اس کے لئے کوئی تنگی یا انقباض نہیں ہونا چاہیے اور کسی عمل کے لئے دل میں ناپسندیدگی ،کوفت،پوشیدہ نفرت یا چڑوغیرہ کا پایا جانا بھی اس آیت کے مفہوم میں پوری طرح داخل ہے۔ اس آیت کی روشنی میں ہر مسلمان کو اپنے دل کو ٹٹولنا ضروری ہے کہ وہ جو جو اعمال کرتا ہے ان میں اس کا دل بھی پوری طرح اس کے ساتھ ہےیا نہیں۔ بعض مسلمان ایسے ہیں کہ اپنے ازار کو ٹخنوں سے اوپر رکھتے ہیں سنت کے مطابق داڑھی رکھتے ہیں لیکن دل ہی دل میں اپنے شرعی حلیے کی وجہ سے فیشن پرستوں سے خود کو کمتر محسوس کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو اصلاح کی ضرورت ہے کیونکہ یہی کمتری کا احساس آہستہ آہستہ ناپسندیدگی اور نفرت کا روپ دھار لیتا ہے۔داڑھی والے مسلمان کو داڑھی منڈے مردوں سے خود کو ہمیشہ برتر اور خوبصورت تصور کرنا چاہیے کیونکہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی نظر میں بھی یہی حقیقت ہے کہ داڑھی منڈا کریہہ الصورت یعنی گھناؤنے چہرے والا بدصورت قابل نفرت جبکہ داڑھی والاخوبصورت اور لائق التفات ہے۔ داڑھی منڈوں کو اپنے فعل کے انجام سے اس لئے بھی خوفزدہ ہونا چاہیےکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ دنیا کی طرح حوض کوثر پر بھی نبی ﷺ اپنی امت کے داڑھی منڈے اشخاص کے چہروں کو دیکھنا گوارا نہ فرمائیں ، نفرت اور ناپسندیدگی سے منہ مبارک پھیر لیںاور فرشتوں سے فرمائیں کہ انہیں مجھ سے دور کردو۔ معاذاللہ

۷۔ذلیل وخوار:
پرانے وقتوں میں قیدیوں کی داڑھیاں مونڈ کر ان کی تذلیل کی جاتی تھی اور یہ بھی سخت نفسیاتی اور ذہنی سزا ہی کی ایک قسم تھی خاص طور پر اس وقت جب ہندوستان پر انگریز قابض تھے مسلمان قیدیوں کے ساتھ یہ سلوک روا رکھا جاتا تھااسی کو بیان کرتے ہوئے مولانااشرف علی تھانوی رقمطراز ہیں:
داڑھی کٹوانا باعث ذلّت ہے، دلیل یہ ہے کہ قیدیوں کی داڑھی کٹوائی جاتی ہے، ظاہر ہے کہ متمدن اقوام نے اس کو قیدیوں کے لئےباعث ذلّت ہی سمجھ کر تجویز کیا ہے، نہ کہ باعثِ عزت سمجھ کر اور کسی قانون میں یہ نہ ملے گا کہ کسی اعزاز کے موقع پر داڑھی منڈانا تجویز ہوا ہو۔ تعجب ہے کہ جو لوگ ذلت سے بچتے ہیں وہ اس کو باوجود باعثِ ذلت تسلیم کرنے متمدن اقوام کے اختیار کرتے ہیں اور باعثِ عزت سمجھتے ہیں۔(اغلاط العوام: 228)
آج بھی اہل یورپ کا یہی مزاج اور چلن ہے چناچہ بدنام زمانہ عقوبت خانے گوانتا مو میں قید مسلمان اسیران کے سامنے قرآن کی توہین کرکے اور ان کی داڑھیاں مونڈ کر انہیں شدیدذہنی اذیت پہنچائی گئی۔حیرت ہے کہ جو کام کفار کا ہے کہ وہ اسلام دشمنی میں مسلمان کو بے عزت کرنے کے لئے زبردستی ان کا داڑھیاں مونڈ ڈالتے ہیں یہی کام بغیر کسی جبر اور مجبوری کےخوشی خوشی مسلمانوں کی اکثریت اپنے ہاتھوں سے کررہی ہے اور کفار کو یہ پیغام دے رہی ہے کہ تم ہمیں کیا بے عزت کرو گے ہم خود ہی اپنے ہاتھوں اپنی داڑھیاں مونڈ کر خود کوزمانے میں ذلیل و رسواکررہے ہیں۔ پس ثابت ہوا کہ داڑھی منڈاکفار کے دل کی ٹھنڈک اور ذلیل و خوار شخص ہے جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی لعنت کے ساتھ معاشرے کی پھٹکار کا بھی حق دار ہے۔
ہر کافر بخوبی جانتا ہے کہ ایک مسلمان کے نزدیک داڑھی کی کیا عزت اور اہمیت ہے اور اگر ایک مسلمان کو بے عزت اور بے توقیر کرنا ہے تو اس کی داڑھی پر ہاتھ ڈالنا ہے۔ اگر یہ بات کسی کو نہیں معلوم تو ایک بے غیرت داڑھی منڈے کو نہیں معلوم کہ جن بالوں سے وہ جان چھڑاتا ہے وہ مسلمان مردکی قیمتی متاع ہے جو اس کے وقار اور عزت کی ضامن ہے۔اس سلسلے میں بھارتی ہندوئوں کا مسلمانوں کے ساتھ سلوک جاننے کے لئے یہ خبر ملاحظہ فرمالیں:
بھارت: جیل میں مسلمانوں کی داڑھی جبراً کاٹ دی گئی
صلاح الدین زین ڈی ڈبلیو، نئی دہلی
23-09-2022

پولیس نے پانچ مسلم نوجوانوں کوچند دنوں قبل گرفتار کیا تھا، جو بعد میں جیل سے رہا کردیے گئے۔ جیل سے باہر آنے کے بعد ان نوجوانوں نے یہ الزام عائد کیا تھا کہ جیل کے سربراہ این ایس رانا نے مسلمان ہونے کا حوالہ دیتے ہوئے ان کی توہین اور ان کے ساتھ زبردستی کی اور داڑھی منڈوانے پر مجبور کیا۔
کلیم خان نامی ایک شخص کا کہنا تھا کہ دیگر افراد کے ساتھ انہیں بھی امتناعی احکامات کی خلاف ورزی پر حراست میں لیا گیا تھا اور دوران حراست جیلر نے زبردستی ان کی داڑھیاں منڈوا دیں۔ رہائی کے بعد بعض سیاسی رہنماؤں کے ساتھ مل کر ان افراد نے ضلع کلکٹر کے دفتر کے باہر اس کے خلاف احتجاج کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ جیلر این ایس رانا اور جیل کے تین دیگر حکام نے’’ہمیں پاکستانی کہا اور پھر ہمارے ساتھ زیادتی کرنے اور داڑھی منڈوانے کی ہدایات دی تھیں۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ اسلامی عقائد کے مطابق، میں یہ داڑھی گزشتہ آٹھ برسوں سے رکھ رہا تھا۔ جیلر کے اس اقدام سے میرے مذہبی جذبات کو کافی ٹھیس پہنچی ہے۔ ان الزامات کے بعد ہی ایک مسلم قانون ساز نے مطالبہ کیا تھا کہ جیل حکام کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی ضرورت ہے۔
(www.dw.com/ur)
بغرض معلومات عرض ہے کہ جاوید احمد غامدی کے شاگرد مولانا عمار خان ناصرنے اپنے استادکے موقف کو وزن دار کرنے کے لئے ذخیرہ حدیث سے انتہائی ضعیف ومردود روایات کی بنیاد پر تعزیراً داڑھی مونڈنے کو جلیل القدر صحابہ کی جانب ناحق منسوب کیا ہے اور اس سے داڑھی کےغیر واجب اور غیرضروری ہونے پر استدلال کیا ہے۔ عمار خان ناصر صاحب رقمطراز ہیں: روایات کے مطابق صحابہ کرام وتابعین کے عہدمیں بعض مقدمات میں مجرم کی تذلیل کے لیے سزا کے طور پر اس کی داڑھی مونڈ دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس نوعیت کے فیصلے سیدنا ابو بکر، سیدنا عمر، سعد بن ابراہیم اور عمرو بن شعیب سے منقول ہیں۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، رقم الحدیث: ۳۳۵۲۸۔ اخبار القضاۃ لوکیع: ۱/۱۵۹)اگر یہ حضرات داڑھی کو کوئی باقاعدہ شعار سمجھتے تو یقیناًمذکورہ فیصلہ نہ کرتے۔(براہین، استفسارات، داڑھی کامسئلہ، صفحہ 703)
عمار خان ناصر جیسے لوگوںکا معیار اور منہج تو یہ ہے کہ موضوع سے موضوع روایت بھی اگر ان کی موافقت میں ہو تو ان کے نزدیک صحیح اور قابل استدلال ہے لیکن اگر صحیح ترین حدیث بھی ان کے نظریات کے خلاف آپڑے تو قابل رداور ناقابل التفات ہےلہٰذامردود روایات کی بنیاد پر جلیل القدر صحابہ پر الزام عائد کردینا اور شریعت کے صحیح مسائل میں تشکیک پیدا کرنا عمارخان ناصر جیسے متجدد دین اور منکرین حدیث ہی کا خاصہ ہے۔

۸۔شیطان کا معاون و مددگار:
داڑھی منڈا شیطان کا ساتھی اور دوست ہے کیونکہ شیطان نے کہا تھا: وَ لَاٰمُرَنَّهُمْ فَلَیُغَیِّرُنَّ خَلْقَ اللّٰهِ-وَ مَنْ یَّتَّخِذِ الشَّیْطٰنَ وَلِیًّا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ فَقَدْ خَسِرَ خُسْرَانًا مُّبِیْنًا اور میں ضرور بہ ضرور انہیں حکم دوں گا کہ وہ اللہ کی تخلیق کو بدل ڈالیں اور جو شخص اللہ کو چھوڑ کر شیطان کو دوست بنائے گا وہ صریح نقصان میں جا پڑا۔ (سورۃ النساء:119)
اللہ کی تخلیق میں داڑھی بھی شامل ہے کیونکہ سورہ روم کی آیت نمبر 30 میں اللہ تعالیٰ نے فطرت کو اپنی تخلیق کہا ہے اور عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی روایت کردہ صحیح مسلم کی حدیث میں جن دس امور کو فطرت میں داخل بتایا گیا ہے اس میں داڑھی کا بھی ذکر ہے۔ یعنی داڑھی فطرت بھی ہے اور اللہ کی تخلیق بھی لہٰذا داڑھی کو کاٹنا اور تراشنا اللہ کی تخلیق میں تبدیلی کی کوشش ہے جس کا فائدہ صرف شیطان کو پہنچتا ہے کیونکہ اس طرح وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوتا ہے اور اس کامیابی میں معاونت کرنے والا داڑھی منڈا شیطان کا مددگار اورساتھی بن جاتاہے۔اس حوالے سے ایک انتہائی بھونڈا اعتراض راقم کے علم میں آیا جو کچھ یوں تھا کہ صرف داڑھی نہیں بلکہ سر کے بال اور مونچھیں بھی اللہ کی تخلیق ہیں چناچہ سر کے بال کٹوانے والااور مونچھیں ترشوانے والا بھی ’’خلق اللہ‘‘ کو بدلنے والا ہے اور اگر سر کے بال یا مونچھیں کٹوانے سے اللہ کی تخلیق نہیں بدلتی تو پھر داڑھی کٹوانے سے بھی ’’خلق اللہ‘‘ پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔اس کا آسان اور قرین عقل جواب یہ ہے کہ جن بالوں کو خود شارع نے کاٹنے کا حکم یا اجازت دی ہے جیسے سر کے بال، مونچھیں، بغل یا زیر ناف بال یا پھر ناخن وغیرہ تو ان کا کاٹنا ’’خلق اللہ‘‘ میں تبدیلی نہیں ہےبلکہ اس تبدیلی کا اطلاق صرف ان بالوں پر ہوتا ہے جنھیں شارع نے کاٹنے سے روکا ہے اور بڑھانے کا حکم دیا ہے جوکہ صرف داڑھی کے بال ہیں۔چناچہ ایسے بال جنھیں نہ کاٹناشرعاً فرض و واجب ہے اور ایسے بال جن کا شرعی طور پرکاٹنا واجب و ضروری ہے ان کے حکم کو ایک ہی قرار دے کر زبردستی اپنا مطلب پورا کرنا لاعلم عوام کو دھوکہ دینا ہےجو کہ دجل اور فریب کے زمرے میں آتا ہے۔پس واضح ہوا کہ داڑھی مونڈنے والا شیطان کی اللہ سے عداوت، دشمنی اور مقابلے میں اس کی مدد کرنے والا، معاونت کرنے والا اور ساتھ دینے والا ہے کیونکہ خود رب العالمین نے اپنی تخلیق کو بدلنے والے شخص کو شیطان کا دوست اور اپنا دشمن قرار دیا ہے کیونکہ یہ بات طے شدہ ہے کہ شیطان کا ساتھی اللہ کا دوست ہر گز نہیں ہوسکتا۔

۹۔ زنانی دیوانی:
خالق کائنات نے مرد اور عورت کو ایک دوسرے سے بالکل مختلف بنایا ہے اور ان میںذہنی و جسمانی اور ظاہری و باطنی ہر طرح سے فرق رکھا ہے اس کے بعد افعال، اعمال اور باتوں میں ایک دوسرے کی نقل کا جوامکان تھا اسے ختم کرنے لئے مردکو عورت کی اور عورت کو مرد کی باہمی مشابہت سے بزبان رسول ﷺ سختی سے روک دیا ہے ، چناچہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
’’ أَنَّهُ لَعَنَ الْمُتَشَبِّهَاتِ مِنَ النِّسَاءِ بِالرِّجَالِ وَالْمُتَشَبِّهِينَ مِنَ الرِّجَالِ بِالنِّسَاءِ ‏‘‘نبی اکرم ﷺ نے مردوں سے مشابہت کرنے والی عورتوں پر اور عورتوں سے مشابہت کرنے والے مردوں پر لعنت فرمائی ہے۔(سنن ابی دائود،كِتَاب اللِّبَاسِ،باب لِبَاسِ النِّسَاءِ)
مذکورہ حدیث سے اس معاملے کی حساسیت کو سمجھا جاسکتا ہے کہ شریعت چاہتی ہے ایک مردہر حال میں مرد رہے اپنے ظاہری حلیے سے بھی، اپنے انداز و اطوار سے بھی،اپنی گفتگو سے بھی اور بات چیت میں اختیار کئے گئے انداز اور منتخب کردہ جملوں سے بھی، اپنے احساسات اور خواہشات سے بھی، الغرض اندر، باہر ہر زاویے اور ہر پہلو سے مرد کو مرد ہی نظرآنا چاہیے اورزنانی دیوانی بننے سے پرہیز کرنا چاہیے، وہ مرد جو اپنے لباس، گفتگو اور حرکات و سکنات میں عورتوں سے مشابہ ہو اسے ’’زنانی دیوانی‘‘ بھی کہا جاتا ہے اسی طرح عورت میں بھی مرد کی کوئی شبیہ اور جھلک نظر نہیں آنی چاہیے۔ اسلامی منشاء کے برعکس کسی مرد کا عورت کا سا انداز اپنانا یا خود کو کسی ایسی صفت سے متصف کرناجو عورت کے لئے مخصوص و متعین ہےشرعاً قابل سزاجرم ہے نیز ایک فطرت پسندمعاشرے میں فتنہ، فساد اور انتشار پھیلانا ہے جس کا سدباب صحت مندمعاشرے کے لئے ضروری ہے یہی وجہ ہے کہ بعض علماء نے داڑھی مونڈ کر عورتوں کی مشابہت کرنے والےمردوں کے لائق قتل ہونے کا فتویٰ دیا ہے۔
مردوں اور عورتوں کا باہمی فرق ہی دونوں میں ایک دوسرے کے لئے کشش ، محبت اور دلچسپی کا باعث ہے جیسے عورت کی باریک، پتلی، رسیلی ،نرم ، دھیمی اور لوچ دار آواز مردوں کو لبھاتی ہے اور یہ عورت کا حسن کہلاتی ہےاس کے برعکس مرد کی بھاری اور رعب دار آواز پر عورتیں فریفتہ ہوجاتی ہیں۔ مرد کے چوڑے کندھے اوربالوں والا سینہ مرد کا حسن ہے جبکہ یہ چیز عورت کے حق میں عیب اور بدصورتی ہے ، عورت کی خوبصورتی اس کے تنگ اور چھوٹے کندھوں میں ہے۔عورت اور مرد کے مابین موجود اس فرق اور اختلاف کو مزید گہرا کرنے کے لئےمرد عورت سے ہر معاملے ، ہر اندازاور ہر وضع میں مخالفت کرتا ہےجیسے لباس کا فرق، رنگوں کے استعمال یا پسند کا فرق، زیورات کا فرق، لہجے کا فرق، انداز کا فرق اور مشاغل کا فرق وغیرہ۔ ہر دور میں مردوں اور عورتوں کی اکثریت مذاہب اور معاشروں سے قطع نظر ایک دوسرے کے درمیان فرق کو نمایاں رکھتے ہیں تاکہ ایک دوسرے کے لئے کشش کا باعث بنے رہیں کسی بھی مذہب ومعاشرے کے مقابلے میں مرد و زن کے فرق کا اسلامی شریعت میں بہت زیادہ اہتمام پایا جاتا ہے حتی کہ جن معاملات کو ہم غیر اہم سمجھ کر نظر انداز کردیتے ہیں یا سمجھتے ہیں ان مسائل میں زن و شو کے درمیان مذہبی لحاظ سے کوئی فرق نہیں وہ بھی مرد و عورت کے لحاظ سے ایک جیسے نہیں بلکہ مختلف ہیں جیسے انگوٹھی کا استعمال آدمیوں اور عورتوں دونوں میں عام ہے لیکن اکثر لوگوں کو صرف یہ ہی معلوم ہے کہ عورت سونے کی انگوٹھی پہن سکتی ہے جبکہ مرد کے لئے صرف چاندی کی انگوٹھی جائز ہے لیکن یہ فرق معلوم نہیں کہ عورت کی انگوٹھی کا نگینہ اوپر کی جانب ہوتا ہے اور مرد کی انگوٹھی کا نگینہ نیچے یعنی ہتھیلی کی طرف ہوتا ہے اور عورت انگوٹھی بناؤسنگھار کے لئے پہنتی ہے جبکہ مرد زینت کے لئے انگوٹھی نہیں پہن سکتا البتہ ضرورت کے تحت پہن سکتا ہے جیساکہ اللہ کے رسول ﷺ چاندی کی انگوٹھی پہنتے تھے لیکن سجاوٹ کے لئے نہیں بلکہ اسے مہر کے طور پر استعمال فرماتے تھے اور اسکا نگینہ بھی ہتھیلی کی طرف رکھتے تھے۔عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
’’ ان رسول الله صلى الله عليه وسلم اتخذ خاتما من ذهب او فضة وجعل فصه مما يلي كفه، ونقش فيه محمد رسول الله، فاتخذ الناس مثله، فلما رآهم قد اتخذوها رمى به، وقال:’’ لا البسه ابدا‘‘، ثم اتخذ خاتما من فضة، فاتخذ الناس خواتيم الفضة‘‘
رسول اللہ ﷺ نے سونے یا چاندی کی انگوٹھی بنوائی اور اس کا نگینہ ہتھیلی کی طرف رکھا اور اس پر ’’محمد رسول الله‏‘‘کے الفاظ کھدوائے پھر دوسرے لوگوں نے بھی اسی طرح کی انگوٹھیاں بنوا لیں۔ جب نبی کریمﷺ نے دیکھا کہ کچھ دوسرے لوگوں نے بھی اس طرح کی انگوٹھیاں بنوا لی تو آپ نے اسے پھینک دیا اور فرمایا کہ اب میں اسے کبھی نہیں پہنوں گا۔ پھر آپ نے چاندی کی انگوٹھی بنوائی اور دوسرے لوگوں نے بھی چاندی کی انگوٹھیاں بنوا لیں۔
(صحیح بخاری، كِتَاب اللِّبَاسِ،بَابُ خَاتَمِ الْفِضَّةِ)
تنبیہ: صحابہ نے اللہ کے رسول ﷺ کی دیکھا دیکھی جو انگوٹھیاں بنوائیں اور پہنیں اس کا مقصد زینت اختیار کرنا نہیں تھا بلکہ نبی ﷺ کی اتباع اور پیروی تھا۔ پس معلوم ہوا کہ مسلمان دو وجوہات کی بنا پر انگوٹھی پہن سکتا ہے ایک بطور مہر اور دوسرا نبی ﷺ کی سنت پر عمل کے لئے جبکہ بطور سنگھار اس کا انگوٹھی پہننا درست معلوم نہیں ہوتا کیونکہ اس میں عورتوں کی نقل اور مشابہت ہے۔ واللہ اعلم
اس کے باوجود کہ انسانی فطرت اور سلیم الفطرت معاشرہ اور قومیں جنس مخالف میں فروق کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں ،ایسی کوششوں کو پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتی ہیں اور اس کی خلاف ورزی کو حقارت سے دیکھتی ہے اور ایسی کوئی کوشش معاشرتی سطح پر شرف قبولیت سےبھی مکمل طور پرمحروم رہتی ہے بلکہ عوامی دھتکار کا باعث بنتی ہے لیکن پھر بھی کسی بھی دور میں ایسے باغی فطرت اور بیمار ذہن مردوں کی کمی نہیں رہی جن کی دلچسپی مردانہ اوصاف کے بجائے زنانہ اوصاف اپنانے میں رہی۔ داڑھی منڈوا کر زنان کی نقل کرتے ہوئے مردوں کو تو ہر شخص نے ملاحظہ کیا ہے لیکن بات یہیں تک محدود نہیں رہی بلکہ عورتوں کے لئے مخصوص دوسری چیزوں پر بھی بڑے شوق سے مردوں نے ہاتھ صاف کیا ہے۔ مولانا وحیدالزماں حیدرآبادی اپنے دور کی زنانیوں دیوانیوں کی حالت زار بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: سبحان اللہ اسلام کی بھی کیا عمدہ تعلیم ہے مردوں کو موٹا جھوٹا سوتی اونی کپڑا کافی ہے۔ ریشمی اور باریک کپڑے یہ عورتوں کے لئے سزاوار ہیں۔ اسلام نے مسلمانوں کو مضبوط، محنتی، جفاکش سپاہی بننے کی تعلیم دی نہ عورتوں کی طرح بناؤ سنگھار اور نازک بدن بننے کی۔ اسلام نے عیش و عشرت کا ناجائز باب مثلاً نشہ شراب خوری وغیرہ بالکل بند کردیا لیکن مسلمان اپنے پیغمبرؐ کی تعلیم چھوڑ کر نشہ اور رنڈی بازی میں مشغول ہوئے اور عورتوں کی طرح چکن اور ململ اور ریشمی گوٹا کناری کے کپڑے پہننے لگے۔ ہاتھوں میں کڑے اور پائوں میں مہندی، آخر اللہ تعالیٰ نے ان سے حکومت چھین کر دوسری مردانہ قوم کو عطافرمائی۔ ایسے زنانے مسلمانوں کو ڈوب مرنا چاہیے۔ بے غیرت، بے حیا، کم بخت۔ (تیسیر الباری ترجمہ و شرح صحیح بخاری، جلد دوم، صفحہ 48)
وحید الزماں کی بیان کردہ زنانی دیوانی کی یہ حالت توتقریباً ایک ڈیڑھ صدی پرانی ہے اب تو حالات مزید ابتر ہوچکے ہیں اور بات عورتوں کی جزوی مشابہت سے نکل کر مکمل مشابہت کی طرف جاچکی ہے۔ اب تو مردوں میں نیل پالش کا استعمال، ناک میں نتھ، کانوں میں بالی کا چلن عام ہے کل تک جو سنگھار یعنی رنگ گورا کرنے والی کریمیں، چہرے کو نکھارنے کے لئے فیشل اور بلیچ، ٹانگوں اور ہاتھوں کے بال اکھاڑنے کے لئے ویکسنگ کا عمل وغیرہ عورتوں کے لئے خاص تھا آج مردوں نے بھی اسے اپنا لیا ہے اور اس مقصد کے لئے مردوں کے بھی بیوٹی پارلر کھل چکے ہیں جہاں زنانہ سولہ سنگھار کی مردوں کو پیشکش کی جاتی ہے کل تک دولہا منہ دھو کررسم نکاح سے فارغ ہوجاتا تھا آج دلہن کی طرح اسے بھی سنوارا سجایا جاتا ہے بلکہ عروسہ کی طرح بیوٹی پارلر یا بیوٹی سیلون میں اسکا مکمل میک اپ کیا جاتا ہے جس میں فیس پاوڈر، بیس، آنکھوں کے سیاہ حلقے چھپانے کے لئے کنسیلر، لپ اسٹک ، گالوں کی لالی، مسکارا، کاجل بعض اوقات نقلی پلکوں کے ذریعہ خوبصورتی میں اسے دلہن کے ہم پلہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ دلکش نظر آنے کی لگن اور جذبہ مستقبل قریب میں عورت کے بجائے مردوں کا میدان بننے جارہا ہے۔خوبصورتی پر عورت کی حکمرانی کا قبضہ اب قصہ پارینہ ہوا اب مرد حضرات دلکشی اور خوبصورتی کی سلطنت کے نئے حق دار اور دعویدار بن کر ابھرے ہیں اور امید ہے کہ اس میدان میں مرد جلد ہی عورتوں کو مات دے دیں گے۔مرد کے پہننے اوڑھنے کا حال تو اب یہ ہے کہ ہر زنانہ کپڑا فیشن کے نام پر بڑے شوق سے زیب تن کرتا ہےاور ہر زنانہ ڈیزائین پہن کر فخر محسوس کرتا ہے۔کڑھائیوں سے بھرے ہوئے ، انتہائی چمکیلے اور بھڑکیلے لباس جو کل تک عورتوں کا شعار اور خاص پہچان تھے آج مرد نے عورت کی اس پہچان کو ختم کرنے کے لئے اس پر ڈاکہ ڈالا ہے اور اسکی شدت اتنی زیادہ ہے کہ بیچاری عورت نے مردوں کے شعار لباس میں سادگی کی طرف قدم بڑھا دیا ہے۔المختصر لباس وغیرہ میں صنف نازک سے بہت ہی کم امتیازات ایسے باقی رہ گئے ہیں جن کی پاسداری مرد حضرات کرتے ہیں اس کے بارے میں بھی قوی امکان ہے کہ جلد یا بدیر یہ تکلف بھی ختم ہوجائے گا اور مرد بغیر کسی حیا اور شرم کے اپنی بیوی، بہن اور بیٹی وغیرہ کا لباس زیب تن کرلےگا۔ آخر جب اسے اپنی بنیادی پہچان داڑھی منڈوا کراپنی شکل عورت کی طرح بناتے ہوئے شرم نہیں آئی تو لباس میں کیوں آئے گی؟
ایک تو زنانی مستانی کی وہ قسم ہے جو داڑھی مونڈ کر معرض وجود میں آئی ہے اور ایک قسم وہ ہے جو داڑھی رکھ کر اس صف میں شامل ہوئی ہے چناچہ فی زمانہ عورت نما مردوں میں داڑھی کا ایک مصرف خود کو خواتین کی مکمل شبہاہت سے بچانا بھی ہے بعض مرد فیشن یا منفرد نظر آنے کے شوق میں جزوی طور پر زنانہ انداز اختیار کرتے ہیں اور اس ڈر سے کہ کہیں کوئی ان کے زنانہ اندازاور وضع سے ان کے عورت ہونے کا گمان نہ کربیٹھے داڑھی رکھ لیتے ہیں۔ ایک مرتبہ راقم السطور نے کراچی ریلوے اسٹیشن پر ایک ماڈرن خاتون کو دیکھا جو بے باکی سے مردوں کے جھرمٹ میں محو گفتگو تھی۔ اس نے چست جینز اورشرٹ پہن رکھی تھی اور اسکے سیدھے اور خوبصورت لمبے بال اس کی کمر پر جھول رہے تھےمیں جہاں کھڑا تھا وہاں اس کی پشت تھی۔ اتفاقاً جب وہ پیچھے مڑی تو مجھے یہ دیکھ کر سخت حیرت ہوئی کہ وہ کوئی خاتون نہیں بلکہ ایک مرد تھا کیونکہ اس نے داڑھی رکھی ہوئی تھی۔ اگر اس کی داڑھی نہ ہوتی تو میں سامنے سے دیکھنے پر بھی اسے عورت ہی سمجھتا۔ یہ بات وہ بھی بخوبی جانتا ہوگا اسی لئے اس نے خصوصی طور پر داڑھی رکھی ہوگی تاکہ کسی کو اس پر عورت کا دھوکہ نہ ہو۔ اس کے حلیے میں داڑھی ہی وہ واحد چیز تھی جو دیکھنے والوں کو یقین دلا رہی تھی کہ جسے لوگ عورت سمجھ رہے ہیں وہ ایک مرد ہے۔ بالکل یہی حال ان بھانڈ ، میراثیوں اور گانے بجانے والے مردوں کا بھی ہے جو زرق برق والا زنانہ لباس پہنتے ہیں پھر داڑھی رکھ لیتے ہیں تاکہ ان پر عورت ہونے کا دھوکہ نہ ہو۔ اگر ایسے لوگ داڑھی نہ رکھیں تو دور سے اور سرسری طور پر دیکھنے والا شخص انہیں عورت ہی سمجھ گا ۔ یعنی داڑھی رکھنے والے مرد بھی تین طرح کے ہوتے ہیں ۔ ایک وہ جو خود پر عائد کردہ شرعی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونا چاہتے ہیں دوسرے وہ جو جدید تراش خراش کی داڑھی سے خود کو جاذب نظر دکھانا چاہتے ہیں تیسرے وہ جو مجبوری میں داڑھی رکھتے ہیں چناچہ انہیں آخرالذکر مردوں میں سے کچھ ایسے ہیں جو دونوں کانوں میں بندے اور ناک میں لونگ یا بالی پہنتے ہیں اور مکمل زنانہ مشابہت سے بچنے کی خاطر داڑھی رکھ لیتے ہیں تاکہ مردانگی کا جھوٹا بھرم قائم رہ سکے۔ ناک اور کانوں کو زیور سے آراستہ کرنے والے مرد آج کل مغرب میں کثرت سے دیکھے جاسکتے ہیں۔ بعض ڈھول بجانے والے مرد بھی بھڑ کیلے لباس پہنتے ہیں جو عموماً خواتین ہی زیب تن کرتی ہیں چناچہ ان مردوں کو بھی داڑھی کا سہارا لینا پڑتا ہے گویا کہ ایسے مردمعاشرتی اور عوامی جبرکی وجہ سے داڑھی رکھنے پر مجبور ہوتے ہیں وگرنہ عام مردوں کی طرح یہ مرد بھی داڑھی منڈے ہی ہوں۔

۱۰۔ حلق اللحیہ مریضانہ فعل :
زندہ اور صحت مند قومیں اپنی معاشرتی اور مذہبی اقدار اور پہچان برقرار رکھتی ہیں جبکہ بیمار قومیں اپنے وہ شعار جن سے وہ پہچانی جاتی ہیں ترک کردیتی ہیں۔ آج مسلمان کا شمار بھی ایک مریض قوم میں ہوتا ہےجو مجموعی طور پر اپنے مذہبی و فطری شعار داڑھی اور پردہ وغیرہ کو عملاً چھوڑ چکی ہے اور یوں غیروں کی نظر میں اپنی حیثیت کمزور کرچکی ہے کیونکہ دنیا میں عزت اور مقام وہی پاتا ہے جو اپنی مذہبی اور معاشرتی روایات سے جڑا ہو ، جس نے اپنی بنیاد سے رشتہ توڑ دیا ہو اس کو کوئی عزت اور حیثیت نہیں ہوتی۔ اپنے پرانے اور اصل رسم و رواج سے جان توسب ہی نے چھڑائی ہے لیکن کفار اور مسلمانوں کا معاملہ اس طرح الگ ہے کہ غیر مسلم اقوام علمی موشگافیوں اور دقیق مذہبی بحثوں میں پڑے بغیر اپنے شعار پر عمل ترک کرکے اس طرح علیحدہ ہوچکی ہیں کہ مردوں کا داڑھی منڈانا اور بے حیائی ان کی نئی پہچان کے طور پر سامنے آیاہےجبکہ مسلمان کفار کی اس طرح کھل کر پیروی تو نہیں کرپایا لیکن پھر بھی مسلم قوم نے اپنے شعار داڑھی اور پردے کو نہ صرف عملاً ترک کیا ہے بلکہ ضروری و غیرضروری، واجب وسنت کی بحث میں پڑ کراور نامناسب گنجائش پیدا کرکے اپنی پہچان کو متنازعہ بنانے کے دہرے جرم کا ارتکاب ضرور کیا ہے۔کیا ہی بہتر ہوتا کہ اگر کسی مسلمان کو داڑھی رکھنا منظور نہیں یا پھر وہ سمجھتا ہے کہ داڑھی موجودہ دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں تو وہ شریعت کے اس حکم کا انکاری ہوکر داڑھی نہ رکھتا لیکن اس نے اپنے غیر شرعی فعل کو سہارا دینے کے لئے نصوص میں ہیراپھیری اور شبہات پیدا کرکے اسلام کو نقصان پہنچایاہےحالانکہ جس چیز کو دین اسلام نے مرد و عورت کی نشانی قرار دیا ہے ، اس چیز کے ضروری اور غیرضروری ہونے کے متعلق بحث کرنا ہی فضول اور بے معنی ہے،نیزکسی مذہبی و معاشرتی پہچان کو چھوڑنا گویا اس مذہب یا معاشرے سے اپنی نسبت و تعلق کو مشکوک قرار دینے کے مترادف ہے جوکہ کسی عقل سلیم رکھنے والے شخص کو منظور نہیں ہوسکتا۔اگر کسی کو اپنے مذہبی شعار پسند نہیں تو اصولاً اور اخلاقاً اسے اپنے مذہب کو خیر باد کہہ کر کسی ایسے مذہب کا پیروکار بن جانا چاہیے جس کے شعار بھی اسے پسند ہوں۔کسی مذہب سے تعلق کا دم بھرنا اور اسکے شعار کو دل میں ناپسند کرنا اور اس کا عملی انکار کرنا دو متضاد باتیں ہیں۔ دین اسلام میں ایسے لوگوں کے لئے کوئی گنجائش موجود نہیں جو اس کے شعار کو ناپسند کرتے ہوںاگرچہ ایسے لوگ اسلام سےاپنی نسبت کا اظہار کرتے ہوں لیکن اسلام ایسے لوگوں سے بے زاری اور لاتعلقی کا اظہار کرتا ہے۔اب داڑھی منڈا چاہے کچھ بھی کہتا رہے لیکن حقیقت اور سچائی یہی ہے جسے اس دیوبندی عالم نے بیان کیا ہے، مفتی رشید احمد صاحب لکھتے ہیں: داڑھی منڈانا یاکٹانا حرام ہےاور اس کی علامت ہےکہ ایسے شخص کے دل میں رسول اللہ ﷺکی صورت مبارکہ سے بغض اور عداوت و نفرت ہے۔ (تتمہ احسن الفتاویٰ ، جلد دہم،صفحہ 17)
اب اس بات کی وضاحت اور تشریح کی تو کوئی ضرورت ہی نہیں کہ اللہ کے رسولﷺ کے چہرے مبارک سے دل میں دبی اور پوشیدہ نفرت رکھنے والا اپنے دعویٰ ایمان میں جھوٹا اورکذاب ہے کیونکہ چاہے یہ ناپسندیدگی چھپی ہی کیوں نہ ہو لیکن داڑھی منڈے کا عمل اسے ظاہر کردیتا ہے۔جس طرح عشق اور مشک چھپائے نہیں چھپتے بالکل اسی طرح نفرت بھی اپنا آپ ظاہر کرکے چھوڑتی ہے چاہے کوئی اسے کتنا ہی دبانے اور چھپانے کی کوشش کیوں نہ کرے۔بالفرض اگر ہم یہ مان بھی لیں کہ داڑھی منڈا نبی ﷺ کے چہرہ انور سے نفرت کرنے والا نہیں لیکن یہ بات تو ثابت ہے کہ وہ نبی کریم ﷺ کے حکم ’’اعفاء اللحیۃ‘‘ کو ضرور ناپسند کرنے والا ہے اسی لئے تو داڑھی نہیں رکھتااور اسے منڈوادیتا ہے اس صورت میں بھی ایسے شخص کا ایمان خطرے میں ہے کیونکہ شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’من ابغض شیئاً مماجاء بہ الرسول ولوعمل بہ کفر‘‘ جو شخص دین اسلام میں سے کسی ایسی چیز کو جو رسول اللہ ﷺ لے کر آئے ، ناپسند کرے اس سے نفرت رکھے تو وہ کافر ہوگااگرچہ خود اس پر عمل کرتا ہو۔ (بحوالہ نواقض اسلام)
اس اصول کی شرح میں ڈاکٹر سیدشفیق الرحمٰن زیدی رقمطراز ہیں: رسول اللہ ﷺ کے کسی قول ، فعل، حکم یا ممانعت سے بغض رکھنے والا کافر ہے......جو شخص پردہ سے چڑتا ہے، داڑھی سے تکلیف محسوس کرتا ہے، جہاد اور قتال فی سبیل اللہ کو دہشت گردی سمجھتاہے ، شرک کے رد پر ناراض ہوتا ہےتو ایسا شخص دین کی کسی ایک بات سے نفرت یا بغض رکھنے کی بنا پر کافر ہے۔(کبیرہ گناہ اور نواقض اسلام،صفحہ 29،30)
 
Last edited:

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,011
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
داڑھی نہ رکھنا گوناگوں خرابیوں اور مختلف گناہوں کا مجموعہ ہے چناچہ راقم الحروف کےاس مسئلہ میں غور وفکر اور مسلم نوجوانوں کے احوال کےعمیق مشاہدے کے بعد داڑھی سے گریز کی کئی ایسی وجوہات سامنے آئی ہیں جو اپنے اندر عقل والوں کے لئے بے پناہ سامان عبرت سموئے ہوئے ہیں۔ یہ وجوہات اور اسباب کیا ہوسکتے ہیں جن کی وجہ سے آج کا نوجوان داڑھی سے بچنے کی کوشش کرتا ہے بالترتیب پیش خدمت ہیں:

حسن و خوبصورتی کا خاتمہ:
یہ ایک بہت بڑی خاموش وجہ ہے جس کی بنا پر مسلم معاشرے میں داڑھی سے گریز پایا جاتا ہےاگرچہ شرم و حیا کے سبب کوئی نوجوان مرد اس کو بیان نہیں کرتا اور نہ اس پر کھل کر بات کرتاہے لیکن نفس مسئلہ پراس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ اس سے حقیقت نہیں بدلتی نیز مسئلہ اور اسکی جڑجوں کی توں موجود رہتی ہے۔بہرحال تمام شرعی احکامات میں ایک مسلمان مرد کے لئے داڑھی رکھنا دشوار گزار مرحلہ ہوتا ہے اس لئے مذہب کی طرف مائل ہونے والے نوجوانوں میں جس سنت پر عمل کی باری سب سے آخر میں آتی ہے وہ داڑھی ہےاور ان میں سے زیادہ تر تو ایسے ہیں کہ دین کے دوسرے واجبات پر تو عمل پیرا رہتے ہیں لیکن داڑھی نہیں رکھتے اگرچہ دین دار ہوئے انہیں طویل عرصہ بیت چکا ہوتا ہےاور اس کا بنیادی سبب اس کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا کہ نوجوان داڑھی کو خوبصورتی کے منافی اور پرکشش شخصیت میں رکاوٹ سمجھتے ہیں۔ یہ وہ ان کہی حقیقت ہے جسے بیان کرنے کی مسلم نوجوان اپنے اندر ہمت اور حوصلہ نہیں پاتا لیکن داڑھی سے اجتناب کی اس کے علاوہ کوئی معقول وجہ بتانے سے بھی پوری طرح قاصر نظر آتا ہے۔ بہر کیف یہ نوجوان کچھ کہیں یا نہ کہیں ان کا داڑھی نہ رکھنے کااصل سبب بتانے سے معذوری اورعجز اصل وجہ کی نشاندہی خود ہی کردیتا ہے اس کے علاوہ ان کی خارجی ترجیحات ، میلانات ، پسند اور ناپسندبھی صحیح وجہ جاننے کی جانب راہنمائی کرتے نظر آتے ہیں چناچہ معاشرے میں نوجوان جن شخصیات سے متاثر ہوتے ہیں اور جن لوگوں کو خوبصورتی کی علامت سمجھاجاتا ہے وہ کھلاڑی، اداکار ،گلوکار اور بھانڈ میراثی ہیں۔ یہ سب ہی داڑھی منڈے ہوتے ہیں اور مسلم نوجوان ان بدکار اور بدچلن مردوں کو اپنا ہیرو اور آئیڈیل سمجھتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اگر دین کی طرف راغب اور اس پر عمل پیرا نوجوان بھی داڑھی نہیں رکھتا تو اس کی اس کے سوا کوئی اور وجہ نہیں ہوتی کہ وہ سمجھتا ہے کہ داڑھی رکھنےسے اس کی خوبصورتی اور وجاہت میں کمی واقع ہوجائے گی اور اس کی شخصیت کی کشش اور جاذبیت ماند پڑ جائے گی۔ سوچیئےاب یہ کیسے ممکن ہے کہ نگری رنگ و بو(Showbiz)سے تعلق رکھنے والے مردوں کے بے ریش چہرے پسند کرنے والا نوجوان حلیے میں اللہ کے رسول ﷺ اور صحابہ کرام کو اپنا آئیڈیل بنائے جبکہ یہ تمام مقدس لوگ داڑھی والے تھے۔جب آج کا نام نہاد دیندارنوجوان اپنے نبی ﷺ جیسا چہرہ نہیں بناسکتا ان کے جیسا حلیہ اختیارنہیں کرسکتاتو کس منہ سے دعوت دین کا کام کرتا ہےکیا اسے اپنی شخصیت اور دعوت کا کھلا تضاد اور دوغلا پن نظر نہیں آتا؟ یا پھر اس بے حیائی پر صبر کرکے بیٹھ گیا ہے؟ کیا اسے اس تصور سے گھن نہیں آتی کہ اسے داڑھی والا چہرہ تو پسند نہیں جو رسول اللہ ﷺ کا تھا لیکن بغیر داڑھی والا چہرہ پسند ہے جو کفار کی خاص علامت ، پہچان اور شعار ہے؟ ایسے نوجوان کے لئےشرم سے چلو بھر پانی میں ڈوب مرنے کا مقام ہےجو دعویٰ تو نبی ﷺ کی اطاعت اور پیروی کا کرتے ہیں لیکن حلیے میں کافروں کی پیروی وتقلید میں فخرمحسوس کرتے ہیں۔
ویسے تو نوجوان داڑھی نہ رکھنے کی کئی وجوہات بیان کرتے پائے جاتے ہیں جن کا تذکرہ آئندہ سطور میں آئے گا، ان شاءاللہ ۔ لیکن ان وجوہات کی حیثیت ثانوی ہے جبکہ اصل سبب اور بنیادی وجہ یہی ہے کہ مسلم نوجوانوں نے اغیار کی اندھی تقلید میں خوبصورتی کا جو معیار مقرر کیا ہے اس معیار پر داڑھی پوری نہیں اترتی اس لئے نوجوان داڑھی نہیں رکھتے۔

عمر رسیدہ نظر آنے کا ڈر:
یہ حقیقت ہے کہ دو ہم عمر مرد اگر داڑھی رکھ لیں تو داڑھی والا داڑھی منڈے کے مقابلے میں سن رسیدہ یا بڑا نظر آتا ہے۔عام طور پر دوست ایک جیسی عمرکے ہی ہوتے ہیں چناچہ اگر دوستوں میں کوئی ایک داڑھی رکھ لے تو وہ دوسروں کے مقابلے میں بزرگ اور بڑا دکھائی دیتا ہے۔ اس لئے کم عمر نظر آنے کے شوقین مرد حضرات داڑھی سے اجتناب کرتے ہیں۔ انسانی فطرت ہے کہ ہر شخص اپنی اصل عمر سے چھوٹا اور زیادہ سے زیادہ دلکش نظر آنا چاہتا ہے لیکن داڑھی کی قربانی کی قیمت میں یہ سودا سراسر خسارے اور گھاٹے کا ہے۔اس طرح کے بے مقصد اور بے فائدہ خوف سے باہر نکلنے کی ضرورت ہے کیونکہ آج نہیں تو کل بڑھاپا سب پر آنا ہے تو داڑھی مونڈ کر کوئی کتنا وقت کم عمر نظر آسکتا ہے؟

اعلانیہ گناہوں کے چھوٹ جانے کا ملال:
داڑھی گناہوں خاص طور پر اعلانیہ اور ظاہری گناہوں سے بچانے کے لئے ایک ڈھال کی طرح کام کرتی ہے وہ اس طرح کہ داڑھی رکھ کر گناہ کرنے پر لوگوں کی لعنت ملامت کا سامنا کرنا پڑتا ہےلوگ داڑھی والے سے ظاہری گناہوں کی توقع نہیں رکھتے اس لئے دوسرے گناہگاروں کے مقابلے میں داڑھی والوں پر سخت تنقید کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ معاشرتی دباؤ پر داڑھی رکھ کرانسان ظاہری گناہوں سے خود کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہےاورداڑھی کی برکت سے ناچاہتے ہوئے بھی وہ خود کو کئی گناہوں سے بچا لیتا ہے بدقسمتی سے یہی چیز بعض مردوں کے لئے داڑھی رکھنے میں رکاوٹ بن جاتی ہےچناچہ نوجوانوں میں داڑھی نہ رکھنے کا ایک اہم سبب یہ بھی ہےداڑھی رکھ لینے سے ان کے لئے اعلانیہ گناہوں کا دروازہ بند ہوجائے گااور جو گناہ وہ داڑھی منڈوا کر اعلانیہ کررہے ہیں داڑھی رکھ کر نہیں کرسکیں گےکیونکہ ایسی صورت میں نہ صرف یہ کہ لوگوں کی سخت باتوں اورشدید ردعمل کا سامنا کرنا پڑےگابلکہ اسے برداشت بھی کرنا پڑے گاجو کہ شرمندگی اور ذلالت کا باعث ہوگا ۔ اتنی برداشت کا حوصلہ بہت کم لوگوں میں پایا جاتا ہےاس لئے بہت سے نوجوان داڑھی مونڈ کر سنت کا دشمن اورمخالف بنناتو منظور کرلیتے ہیں کہ لوگوں کی تنقید اور باتوں سے بچنا چاہتے ہیں لیکن اعلانیہ گناہوں کا چھوڑنا انہیں منظور نہیں ہوتا۔ظاہری گناہوں سے دور ہونے کا غم اور ملال انہیں داڑھی کے قریب ہونے سے روک دیتا ہے۔ اس حوالے سے بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں یہ غلط تصور پایا جاتا ہے کہ داڑھی رکھ کر شاید گناہوں کی شدت میں اضافہ ہوجاتا ہے اس کے علاوہ داڑھی رکھ کر ظاہری گناہوں میں مبتلا ہونا ان کے نزدیک منافقت ہے کیونکہ ایسے شخص کا ظاہر اس کے دین دار ہونے کا اعلان کررہا ہوتا ہے جبکہ اس کے ظاہری گناہ اس کے دین دار ہونے کی نفی کررہے ہوتے ہیں۔ اس سلسلے میں عرض ہے کہ داڑھی گناہوں کی شدت میں اضافہ نہیں کرتی اور نہ ہی داڑھی مونڈ کرگناہ کرنا گناہ کی شدت میں کسی کمی کا باعث بنتا ہے شریعت نے جس گناہ کے لئے جو شدت مقرر کی ہے یا اس کے لئے جیسی وعید بیان کی ہے اس میں داڑھی رکھنے یا نہ رکھنے سے کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی۔ البتہ جس گناہ کی شدت میں انسانی حالت تبدیل ہونے سے فرق پیدا ہوجانے کی وضاحت شریعت خود کردے اس کا معاملہ علیحدہ ہے جیسےایک حدیث میں زنا کے بارے میں آتا ہے کہ زنا ایک گناہ ہے اور اس کے مرتکب کو عذاب دیا جائے گالیکن جب یہی گناہ بوڑھے سے ہو تو نہ صرف اس گناہ کی شدت بڑھ جائے گی بلکہ بوڑھے کو جوان کے مقابلے میں زنا کا دوگنا زیادہ عذاب ہوگا۔سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ثلاثة لا يُكَلِّمُهم الله، ولا يزكيهم، ولهم عذاب أليم: أُشَيْمِط زَانٍ، وعائل مُسْتَكْبِر، ورجل جعل الله بضاعته: لا يشتري إلا بيمينه، ولا يبيع إلا بيمينه ‘‘
تین قسم کے لوگ ایسے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نہ کلام فرمائے گا، نہ ان کی طرف دیکھے گا، نہ انہیں پاک کرے گا اور ان کے لئے دردناک عذاب ہوگا: ایک بوڑھا زانی، دوسرا ایسا غریب آدمی جو متکبر ہو اور تیسرا وہ شخص جس نے اللہ کو ہی اپنا سامان تجارت بنا لیا ہو بایں طور کہ وہ اللہ کی قسم کھا کر خریداری کرے اور اس کی قسم کے ساتھ ہی فروخت کرے۔ (رواہ الطبرانی، وسندہ صحیح)
اس حدیث کو بہتر طور پر سمجھنے کے لئے اس کی شرح ملاحظہ فرمائیں: نبی ﷺ فرما رہے ہیں کہ تین قسم کے گنہگار ایسے ہیں جنہیں سخت سزا دی جائے گی کیونکہ ان کے جرائم بہت بھیانک ہوں گے: ایک تو وہ شخص جو باوجود اپنے بڑھاپے کے زنا کا ارتکاب کرتا ہے۔ کیونکہ اس کے حق میں گناہ پر ابھارنے والے عنصر (ہارمونس) کمزور پڑ چکے ہوتے ہیں۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اسے زنا پر صرف معصیت اور گناہ کی چاہت نے آمادہ کیا ہے۔ زنا کسی سے بھی صادر ہو، یہ برا ہی ہوتا ہے تاہم ایسے شخص سے زنا کا ظہور بہت ہی برا ہے۔ دوسرا وہ شخص جو ہو تو فقیر لیکن پھر بھی لوگوں پر بڑائی جتائے۔ اورتکبر کا اظہار چاہے کسی سے بھی ہو، یہ برا ہی ہوتا ہے لیکن فقیر شخص کے پاس کوئی مال و دولت نہیں ہوتا جو اسے تکبر پر آمادہ کرے۔ بلا وجہ اس کا تکبر کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ تکبر اس کی فطرت بن چکا ہے۔ تیسراوہ شخص جو اللہ کی قسم کو سامان تجارت بنا لے۔ خرید و فروخت میں کثرت کے ساتھ قسم اٹھائے اور یوں اللہ کے نام کی بے قدری کرے اور اسے مال کمانے کا ذریعہ بنا لے۔ (منقول)
پس ایسا کوئی معاملہ چونکہ داڑھی کے ساتھ نہیں ہے کہ اس کو رکھ کر گناہ کرنے سے گناہ کی شدت اور جرم میں اضافہ ہوجائے جبکہ داڑھی منڈا گناہ کرنے پر کم قابل مذمت ہو۔اس لئے لوگوں کا ایسا سوچنا اور سمجھنا انتہائی فضول اور بے دلیل ہے۔جہاں تک داڑھی رکھ کر گناہ کرنے کو منافقت کہنے کا تعلق ہےتو یہ بھی جہالت اور کم علمی کا نتیجہ ہے کیونکہ منافق صرف وہی ہے جو اندر سے ارادتاًکافر ہو اور ظاہراً مسلمان ہو۔ جبکہ مسلمان کو منافق کہنا اسے کافر کہنے کے مترادف ہےجو کہ کبیرہ گنا ہ ہے۔اگر کسی کو بہت ہی زیادہ شوق ہے کسی مسلمان کو منافق کہنے کا تو صحیح حدیث میں منافق کی چارعلامات بیان ہوئی ہیں، جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے،جب وعدہ کرے تو اسکے خلاف ورزی کرے اور جب جھگڑا کرے تو بدزبانی کرے۔تو اگر یہ تمام علامات بیک وقت کسی مسلمان میں پائی جائیں تو اسے منافق کہہ کر اپنا شوق پورا کیا جاسکتا ہے لیکن اس کے علاوہ دیگر گناہوں پر کسی مسلمان کو منافق کہنا پھر بھی غلط ہی ہوگا۔
البتہ اسکی ایک اور صورت بھی ہے وہ یہ کہ ظاہری گناہوں میں مبتلا دین دار شخص کو لغوی طور پر منافق ضرور کہا جاسکتا ہے کیونکہ اس کا ظاہر اس کے باطن سے مختلف ہےلیکن یہ بھی یاد رہے کہ لغوی منافقت سے پھر کوئی بھی شخص بری اور پاک نہیں ہوسکتا کیونکہ کسی نہ کسی سطح پر ظاہر و باطن اور قول و فعل کا تضاد ہر شخص میں پایا جاتا ہے۔ مثلاً ایک شخص نے کہا میں آج دوپہر کا کھانا نہیں کھاؤں گا لیکن کسی وجہ سے اس نے دوپہر کو کھانا تناول کرلیا تو وہ لغوی معنوں میں منافق ہے کیونکہ اس کا قول اس کے فعل کے خلاف واقع ہواہے۔کسی نے کہا میں فلاں کی شادی میں شرکت کروں گا لیکن وہ شادی میں نہ جاسکا تو وہ منافق ہے کیونکہ اسکے قول و فعل میں تضاد پیدا ہو گیاہے۔انہیں مثالوں سے اندازہ کرلیں کہ کسی داڑھی والے مسلمان کے ظاہری گناہ پر اسے منافق کے خطاب سے نوازنے کی حقیقت کیا ہے۔ ہاں البتہ کسی بھی ظاہری یا باطنی گناہ میں مبتلا ہونا برا ضرور ہے جس سے داڑھی والے اوربغیر داڑھی والے دونوں کو ہی بچنے کی کوشش کرنی چاہیے لیکن اپنی خاراور غصہ نکالنے کے لئے ظاہری گناہوں پرکسی حلیق کا داڑھی والے کو اصطلاحی منافق کہنااس کی داڑھی سے نفرت کی نشانی ضرور ہے کیونکہ وہی گناہ داڑھی منڈے بھی کررہے ہیں لیکن اس حلیق کے نزدیک وہ منافق نہیں لیکن اگر ویسا ہی گناہ داڑھی والا کرلے تو وہ منافق ہےکیونکہ اس کا جرم یہ ہے کہ اس کی داڑھی ہے۔ایسا رویہ داڑھی سے دشمنی اور داڑھی کی تذلیل نہیں تو اور کیا ہے؟
راقم الحروف کے نزدیک داڑھی والا گناہ کرکے بھی داڑھی منڈے گناہگار سے ہزار درجہ بہتر ہے کیونکہ داڑھی والے کو صرف اپنے گناہ کا عذاب ہوگا جبکہ داڑھی منڈے کو اپنے گناہ کے علاوہ داڑھی نہ رکھنے کا عذاب بھی بھگتنا ہوگااس کا ہر گناہ داڑھی نہ رکھنے کے گناہ کے ساتھ مل کر د گنا ہوجائے گا۔ پہلے بھی عرض کیا جاچکا ہے کہ داڑھی منڈا شخص عام گناہ گاروں کے برعکس ہر وقت گناہ کا مرتکب ہوتا ہے کیونکہ داڑھی مونڈنا ان معاصیات میں شمار ہوتا ہے جن کا بوجھ ہر وقت ، ہر لمحہ گناہ گار کے نامہ اعمال میں درج ہوتا رہتا ہےوہ جاگتا ہےتو اس گناہ کے ساتھ ، سوتا ہے تو اس گناہ کے ساتھ،نماز پڑھتا ہے یا روزہ رکھتا ہے تو اس مسلسل رہنے والی معصیت کے ساتھ الغرض کہ داڑھی منڈا ہر وقت اپنی بدبختی اور بداعمالیوں کو بڑھاتا رہتا ہے۔ زانی کے کھاتے میں تو صرف اس وقت تک کا گناہ ہی لکھا جاتا ہے جب تک وہ زنا میں مصروف ہوتا ہے، ایک مرتبہ چوری کرنے والے کے حصہ اور کھاتہ میں صرف ایک مرتبہ کی چوری کرنے کا جرم ہی لکھا جاتا ہے لیکن حلیق اپنی غیر منقطع بدی کی بدولت ہر لحظہ ہر لمحہ اپنے نامہ اعمال کی تیرگی میں اضافہ کرتا رہتا ہے۔
 
Last edited:

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,011
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
فکر معاش:
نوجوانوں کی اکثریت کے لئے داڑھی نہ رکھنے کی راہ میں محفوظ مستقبل کی فکر بھی رکاوٹ بنتی ہے کیونکہ موجودہ حالات میں داڑھی کے ساتھ کیریئربنانا انتہائی کٹھن اور مشکل ہے۔دیکھا گیا ہے کہ کلین شیوڈ لوگوں کو ملازمت کے لئے ترجیح دی جاتی ہےاس وجہ سے نوجوان داڑھی سے بچتے ہیں تاکہ داڑھی کی وجہ سے اچھی نوکری سے محروم نہ ہوجائیں۔ بعض محکمہ جات ایسے ہیں جہاں خصوصیت کے ساتھ داڑھی رکھنا ممنوع ہے چناچہ ایسے محکمہ و شعبہ جات بھی نوجوانوں میں داڑھی سے دوری بنائے رکھنے کا باعث بن رہے ہیں جیسے ماضی میں پاکستانی فوج میں داڑھی رکھنے کی مکمل ممانعت تھی جسے بعد ازاں جزوی طورپر ہٹا دیا گیا لیکن یہ پابندی غیر اعلانیہ جوں کی توں موجود ہے بس اتنا ضرور ہے کہ جو ملازمت پیشہ ہیں اگر ان میں سے کوئی داڑھی رکھ لے تو کسی حد تک نرمی برتی جاتی ہے لیکن نئے بھرتی ہونے والوں کے لئے داڑھی شجر ممنوعہ کی حیثیت رکھتی ہے ۔ میرا پاکستان نامی بلاگ پر ’’داڑھی رکھنا منع ہے‘‘ کے عنوان سے یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
ابھی تک تو ہم یہی سنتے آئے تھے کہ ہر داڑھی والے کو طالبان شمار کیا جانے لگا ہے مگر یہ نہیں سنا تھا کہ کچھ اداروں میں داڑھی رکھنا منع فرمایا گیا ہے۔ اس ویک اینڈ پر ہمارے کزن ہمیں ملنے آئے ہم نے ان کے بھانجے کے بارے میں دریافت کیا جو ایئرفورس کے کالج آف ایروناٹیکل انجنیئرنگ میں تعلیم حاصل کر رہا تھا۔ دراصل اس نے پی ایے ایف کالج سرگودھا سے فارغ ہونے کے بعد فیصلہ کیا کہ وہ ایروناٹیکل انجنیئر بنے گا۔ وہ بتانے لگے کہ عبداللہ آج کل انجنیئرنگ میں داخلے کیلئے مختلف یونیورسٹیوں کے داخلہ ٹیسٹ دینے میں مصروف ہے۔ ہم نے ان سے پوچھا کہ اس کے ایروناٹیکل انجنیئرنگ کا کیا بنا تو وہ کہنے لگے کہ اسے وہاں سے نکال دیا گیا ہے۔ وجہ پوچھی تو کہنے لگے کہ دو سمیسٹرز کے بعد عبداللہ جو پانچ وقت کا نمازی پہلے ہی تھا گرمیوں کی چھٹیوں میں گھر آیا اور مسجد کے امام کی تربیت نے اس پر ایسا اثر کیا کہ اس نے داڑھی رکھ لی۔ جب وہ داڑھی کیساتھ واپس کالج پہنچا تو انتظامیہ نے اسے داڑھی کیساتھ قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ اس کیساتھ چار دوسرے طلبا کو حکم ملا کہ یا داڑھی منڈوا دو یا گھر واپس لوٹ جاؤ۔ دو نے ایروناٹیکل کی تعلیم کو ترجیح دی اور داڑھی منڈوا دی۔ باقی تین دھن کے پکے نکلے اور تعلیم ادھوری چھوڑ کر واپس اپنے گھروں کو چلے گئے۔ ہمارے پوچھنے پر کزن نے بتایا کہ یہ قانون مشرف دور میں پاس ہوا تھا یعنی فوج کے کالجوں میں داڑھی رکھنا ممنوع قرار دے دیا گیا ہے۔بحوالہ: mypakistan.com

مولانا مودودی سے پوچھے گئے اس سوال سے بھی پاکستانی فوج میں داڑھی پر عائد غیر اعلانیہ پابندی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
سوال: میں نے ایئرفورس میں پائلٹ کے لیے امتحان دیا تھا۔ میڈیکل ٹیسٹ اور انٹرویو کے بعد بحمدللہ امتحان اور کھیلوں میں بھی کامیاب ہوا۔ مگر بغیر وجہ بتائے ہوئے مجھے مسترد کر دیا گیا۔ اب کئی لوگوں نے مجھے بتایا کہ تم صرف ڈاڑھی نہ منڈوانے کی وجہ سے رہ گئے تھے مگر مجھے یقین نہ آیا۔
اب دسمبر میں میں نے پی ایم اے کے لیے امتحان دیا پہلے انٹرویو میں کمیٹی کے ایک بریگیڈیئر صاحب نے مجھے بتایا کہ تم پہلی دفعہ کوہاٹ میں صرف ڈاڑھی کی وجہ سے رہ گئے تھے۔ اور یہ بھی کہا کہ پاکستانی فوج کے افسر ڈاڑھی والے کیڈٹ کو پسند نہیں کرتے اور کوشش یہ ہوتی ہے کہ ایسا کوئی آدمی نہ لیا جائے۔ ہاں بعد میں اجازت لے کر ڈاڑھی رکھی جاسکتی ہے۔ اس کے بعد میں نے تحریری امتحان دیا اور اس میں کامیاب ہوا۔ اب اس کے بعد میڈیکل ہوگا اور اس کے بعد کوہاٹ جانا پڑے گا۔ اس وجہ سے میرے پانچ بھائی اور اب والد صاحب پیچھے پڑے ہوئے ہیں کہ ڈاڑھی کو صاف کراؤ۔ مگر میں عزت، عہدے اور رویہ کے لیے ایسا کام کرنے کو تیار نہیں ہوں۔ میں اپنی حالت میں رہ کر تجارت کروں گا اور یا مزید تعلیم حاصل کرکے اسلام کی خدمت کرنا چاہتا ہوں۔ کیونکہ ان ملازمتوں سے میرے مذہبی احساسات مجروح ہوں گے۔ میں زیادہ دیر تک صبر نہیں کر سکتا مگر قبل اس کے کہ آخری فیصلہ کروں، میں آپ سے مشورہ لینا ضروری سمجھتا ہوں۔ آپ کتاب و سنت کی روشنی میں میری رہنمائی کریں۔ میں آپ کا بہت ممنون ہوں گا۔
(رسائل و مسائل، حصّہ چہارم، صفحہ 87)

ملٹی نیشنل کمپنیوں خاص طور پر غیرمسلم ممالک میں مسلم نوجوانوں کواس مشکل کا سامنا ہے کہ داڑھی رکھنے کی پاداش میں انہیں ملازمت کو خیرباد کہنا پڑتا ہے چناچہ اس تکلیف دہ صورتحال سے بچنے کے لئے اکثر مسلم نوجوان داڑھی نہیں رکھتے۔مفتیان کرام سے پوچھے گئے مندرجہ ذیل کچھ سوالات سے مسلم نوجوانوں کو درپیش اس مشکل صورتحال کی سنگینی کا صحیح اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
سوال: عالمی معاشی بحران کی وجہ سے میری ملازمت میں مسئلہ ہورہاہے، میں انٹرویو دیتاہوں ، ہر کمپنی میں سب سے پہلے میری داڑھی پہ سوال آتاہے ، جیسے کہ داڑھی کیوں رکھتے ہو، کیا مقصد ہے، کیا مطلب وغیرہ وغیرہ ،پھر وہیں پتا چل جاتاہے کہ میرا انتخاب نہیں ہونے والاہے، سوال یہ ہے کہ کیا میں داڑھی چھوٹی کرسکتا ہوں تاکہ مجھے کوئی اچھی ملازمت مل جائے ؟ جزاک اللہ خیرا۔
سوال: زید نے ابوظبی میں ایک کمپنی میں پاسپورٹ جمع کیا ہے کمپنی والوں نے ایک شرط یہ لگائی ہے کہ داڑھی کاٹو گے پھر آپ کو ویزہ دینگے تو ایسی صورت میں شریعت کا کیا حکم ہے؟ کہ اپنے ملک میں بھی روزگار نہ ہو اور وہاں پر بھی حکومت نے یہ پابندی لگائی کہ داڑھی کاٹو گے۔ زید پانچ سال سے ابوظبی میں ایک کمپنی میں ملازم ہے اب کمپنی والوں نے یہ کہا ہے کہ داڑھی چھوٹی کرو پھر آپ کو ویزہ دینگے ورنہ نہیں تو ایسی صورت میں شریعت کا کیا حکم ہے؟
ان سوالوں اور اس طرح کے تمام سوالوں کے جواب میں مفتی صاحبان کا جواب یہی ہوتا ہے کہ رزق اللہ کے ہاتھ میں ہے اس لئے ملازمت ترک کردیں لیکن داڑھی نہ مونڈیں۔ جن نوجوانوں میں حوصلہ اور جرات ہوتی ہے اور ان کا ایمان مضبوط ہوتا ہےتو وہ داڑھی کی خاطر ملازمت سے محرومی گوارا کرلیتے ہیں لیکن زیادہ تر نوجوان اپنے اندر یہ حوصلہ نہیں پاتے اور اچھی نوکری کی خاطر داڑھی صاف کرلیتے ہیں پھر اپنے ضمیر کی آواز دبانے اوردل کو جھوٹی تسلی دینے کے لئے منکرین داڑھی کے دلائل اور تاویلات میں پناہ ڈھونڈتے ہیں۔ اردو محفل فورم پر شئیر کیا گیا یہ سچا واقعہ بہت ہی سبق آموز اور عبرت انگیز ہے، ملاحظہ ہو:
میرے ایک بزرگ نے ایک سچا واقعی سنایا۔ جو کہ بڑی عبرت کا واقعہ ہے۔ وہ یہ کہ ان کے ایک دوست لندن میں کسی ملازمت کیلئے انٹرویو دینے کسی جگہ گئے۔ اس وقت ان کے چہرے پر داڑھی تھی۔ جو شخص انٹر ویو لے رہا تھا اس نے کہا کہ داڑھی کے ساتھ یہاں کام کرنا مشکل ہے ، اس لیے یہ داڑھی ختم کرنا ہو گی۔اب یہ بہت پریشان ہوئے کہ میں اپنی داڑھی ختم کروں یا نہ کروں۔اس وقت تو وہ واپس چلے گئے ۔اور دو تین روز تک کوئی اور ملازمت تلاش کرتے رہے اور کافی کشمکش میں مبتلا رہے۔ اور کوئی ملازمت نہیں مل رہی تھی اور بے روزگار اور پریشان بھی تھے۔ آخر انھوں نے فیصلہ کر لیا کہ داڑھی کٹوادیتے ہیں تاکہ ملازمت مل جائے۔ چنانچہ داڑھی کٹوادی اور اُسی جگہ ملازمت کیلئے پہنچ گئے۔
جب وہاں پہنچے تو انہوں نے پوچھا: کیسے آنا ہوا؟
انہوں نے جواب دیا: آپ نے کہا تھا کہ داڑھی کٹوا کر آناتو تمہیں ملازمت مل جائے گی۔تو میں داڑھی کٹوا کر آیا ہوں
اُس نے پوچھا: کیا آپ مسلمان ہیں؟
انہوں نے جواب دیا : ہاں!
اس نے پوچھا: آپ اس داڑھی کو ضروری سمجھتے تھے یا غیر ضروری؟
انہوں نے کہا: میں اس کو ضروری سمجھتا تھا اور اسی وجہ سے رکھی تھی۔
پھر اس شخص نے مسلمان سے کہا: جب آپ جانتے تھے کہ یہ اللہ کا حکم ہے اور اللہ کے حکم کے تحت داڑھی رکھی تھی اور اب آپ نے صرف میرے کہنے کی وجہ سے اللہ کے حکم کو چھوڑ دیا، اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ اللہ کے وفادار نہیں اور جو شخص اپنے اللہ کا وفادار نہ ہو وہ اپنے افسر کا بھی وفادار نہیں ہوسکتا۔ اس لیئے اب ہم آپ کو ملازمت پر رکھنے سے معذور ہیں۔ازقلم: محمد فرخ زہیر
(urduweb.org)

جنس مخالف کی توجہ کا حصول:

اکثر بیشتر نوجوان اس لئے بھی داڑھی نہیں رکھتے کہ داڑھی رکھنے کی صورت میں وہ جنس مخالف کی توجہ اور پسندیدگی سے محروم ہونے کے خطرے سے دوچار ہوجائیں گےکیونکہ لڑکیاں و خواتین داڑھی والے مردوں کے بارے میں یہ خیال کرتی ہیں کہ وہ گناہوں اور برے کاموں سے خود کو دور رکھنے والے ہیں اس لئے انہوں نے داڑھی کا انتخاب کیا ہےچناچہ لڑکیاں ایسے مردوںپر وقت ضائع کرنے کے بجائے داڑھی منڈوں کی جانب مائل اور متوجہ رہتیں ہیں کیونکہ ان کا حلیہ اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہوتا ہے کہ وہ نہ صرف عورتوں کی توجہ اور رغبت کا جواب پوری گرمجوشی سے دینے والے ہیں بلکہ ہر شرعی حد پار کرنے کے لئے بھی تیار ہیں۔اس لئے نوجوانوں میں بعض ایسے بھی ہیں کہ جوداڑھی کو اپنی ظاہری خوبصورتی میں اٖٖضافہ سمجھنے کے باوجود اس لئے داڑھی نہیں رکھتے کہ کہیں غلطی سے بھی لڑکیاں انہیں ’’باکرداراور باحیا‘‘ نہ سمجھ لیں۔
 
Last edited:

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,011
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
ماڈرن اوردین سے بے رغبت خواتین:
مسلم معاشرے میں نوجوانوں کے داڑھی نہ رکھنے کا ایک بڑا سبب دین بے زار خواتین بھی ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ جنس مخالف کو متاثر کرنے کی دلی اور فطری خواہش ہر شخص کی ہوتی ہےلہٰذااس تمنا اور آرزو کی تکمیل کے لئےخود کو جاذب نظر بنانے اور خوبصورت نظر آنے کے لئے نوجوان ہر وہ کام کرتا ہے، ہر وہ طریقہ اختیارکرتا ہے، ہروہ اقدام کرتا ہے اور ہر وہ حربہ آزماتا ہےجو جنس مخالف کے نزدیک پسندیدہ ہو ۔ اب چونکہ اس طرح کی خواتین داڑھی کو پسند نہیں کرتیں اس لئے کہ ان کے نزدیک خوبصورتی کی مسند پر براجمان مردوں کی داڑھیاں نہیں ہوتیں نتیجتاًان کے معیار پر پورا اترنے کے لئے نوجوان داڑھی سے بچتے ہیں کیونکہ انہیں بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ جب داڑھی عورتوں کو پسند ہی نہیں تو پھر داڑھی رکھ کر وہ لڑکیوں یا خواتین کی توجہ حاصل نہیں کرسکیں گےلہٰذا آج کے نوجوانوں کی دین سے دوری اور اسلامی حلیے سے پرہیز کا وبال بڑی حد تک ان خواتین کےسر ہے۔ اگر آج یہ عورتیں اپنا قبلہ درست کرلیںاور داڑھی کو پسند کرنے لگیں تو ہر نوجوان داڑھی والا ہی نظر آئے گا۔
اگرچہ ایک مسلمان کو عورت کی پسندیدگی نہیں بلکہ اللہ کی پسند کو مدنظر رکھنا چاہیے لیکن آج کی تلخ حقیقت یہی ہے کہ نوجوانوں کی بڑی تعداد خواتین کی نظر میں خوبصورت نظر آنے کے لئے داڑھی نہیں رکھتی۔ان داڑھی منڈوں میں ایسے نوجوان بھی شامل ہیں جو دین دار ہیں اور بعض تو داعی بھی ہیں حالانکہ ایک داعی تو اپنی باتوںسے اللہ کی اطاعت اور فرمابرداری کی دعوت دے رہا ہوتا ہےلیکن داڑھی منڈوا کر عملاً اور زبان حال سے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور معصیت کی تبلیغ کرتا ہے۔ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ قول و عمل کے تضاد کاشکار اس شخص کی دعوت میں کتنا اور کیسا اثر ہوگا۔ قابل غور بات یہ بھی ہے کہ ایک داڑھی منڈے داعی کی کوشش سے جو بھی شخص راہ راست پر آئے گاوہ داڑھی کو کبھی ویسی اہمیت اور حیثیت نہیں دے گا جیسی ایک مسلمان کو دینی چاہیےکیونکہ جس شخص کی دعوت سےمتاثر ہوکر وہ صراط مستقیم پر آیا ہے خود اس کی بھی داڑھی نہیں تھی لامحالہ اس کے داڑھی نہ رکھنے کا سبب بھی پھروہی شخص ہوگا جس نے اسے دین کی دعوت دی ہوگی کیونکہ’’ جیسی روح ویسے فرشتے‘‘۔ اس لئے ضروری ہے کہ صرف وہی شخص دعوت دین کا کام کرے جو خود بھی باعمل ہویا پھر کم ازکم ظاہری حلیہ میں شریعت کا پابند ضرورہو ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ اسکی شلوار یا پائجامہ ٹخنوں سے نیچے لٹکتا رہے یا داڑھی منڈا ہووغیرہ وغیرہ کیونکہ دعوت صرف باتوں سے نہیں بلکہ عمل سے بھی ہوتی ہے اور لوگ داعی کی صرف بات ہی نہیں سنتے بلکہ اس کا حلیہ ، کردار اور عمل بھی دیکھتے ہیں۔ بے عمل لوگوں کو یا تو دعوت دین کا کام کرنا ہی نہیں چاہیے یا پھر اپنی عملی کوتاہیوں کی اصلاح کی کوشش بھی ساتھ ساتھ جاری رکھنی چاہیے۔ ایسے افراد جو دعوت کا کام کررہے ہیں اور ان کا حال فی الحال داڑھی رکھنے کا بھی کوئی ارادہ نہیں ہےتو ایسے افراد کو دعوت دین کا کام چھوڑ کر پہلے اپنا حلیہ بمطابق شریعت درست کرنا چاہیے ورنہ ان کی دیکھا دیکھی داڑھی منڈے داعیوں کی تعدادمیں اضافہ ہوتا چلا جائے گا اور اس فتنے اور خرابی کی ذمہ داری ان کے کندھوں پر بھی ہوگی کیونکہ اپنے حلیہ سے یہ دوسروں کو گناہوں کی دعوت دے رہے ہوتے ہیں اوران کے کرتوتوں کی وجہ سے دوسروں کی معصیت اور نافرمانی پر حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور یہ حقیقت ہے کہ قول سے زیادہ عمل کی دعوت میں اثر ہے۔

شدت پسندی کی چھاپ کا خوف:
ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت بدقسمتی سے مسلم معاشرے کے مردوں کو دو قسموں میں تقسیم کردیا گیا ہے، ان میں ایک قسم بنیا د پرستوں کی ہے جنھیں طنزیہ دقیانوسی بھی کہا جاتا ہے جو کہ ظاہر ہے کہ داڑھی والے مرد ہیں اورایک قسم روشن خیال اورجدید زمانے کے تقاضوں کو سمجھنے والے اعلیٰ تعلیم یافتہ مردوں کی ہےجو کہ داڑھی منڈے ہیں۔ پہلی قسم کے مردوں یعنی داڑھی والوں کے بارے میں اکثریت کا خیال یہ ہے کہ یہ قدامت پسند ہونے کی وجہ سے شدت پسندہوتے ہیں جبکہ داڑھی سے بے نیاز دین پر عمل پیرا افراد کو معتدل مزاج تصور کیا جاتا ہے ۔ اس لئے ایسے نوجوانوں کی کمی نہیں جو داڑھی سے صرف اس لئے اعراز کرتے ہیں کہ انہیں متشدد یا شدت پسند نہ سمجھا جائے بلکہ اعتدال پسند تصور کیا جائے۔اس کی ایک بہت بڑی مثال مصر کے علماء ہیں جنھوں نے داڑھیاں صرف اس لئے منڈوالیں کہ موجودہ زمانے میں خارجیوں اور شدت پسند مسلمانوں نے بھی داڑھیاں رکھی ہوئی ہیں،انہیں ڈر ہوا کہ داڑھی کی وجہ سے کہیں انہیں بھی خارجی نہ سمجھ لیا جائے اور ان پر تخریب کاری اور شدت پسندی کی چھاپ نہ لگ جائے۔
راقم سمجھتا ہے کہ ان تمام خرابیوں کی جڑ داڑھی کو ایک ایسی سنت تصور کرنا ہے جس کے رکھنے پر ثواب اور نہ رکھنے پر کوئی گناہ یا عذاب نہیں۔ ابن بشیر الحسینوی حفظہ اللہ لکھتے ہیں: حافظ عبدالمنان نورپوری  فرماتے ہیں کہ: کچھ لوگوں نے یہ مسئلہ بنایا ہے کہ داڑھی رکھنا سنت ہے، فرض نہیں۔ عام لوگوں کا یہ ذہن ہے اس کو سنت سمجھتے ہیں، یہ نظریہ بھی غلط ہے، داڑھی رکھنا بڑھانا سنت نہیں بلکہ فرض ہے، واجب ہے اور داڑھی کٹانا فرض اور واجب کی خلاف ورزی ہے، نافرمانی ہے، حرام ہے اور گناہ ہے۔ (بحوالہ شرعی احکام کا انسائیکلو پیڈیا، صفحہ 157،158)
اگر مسلم نوجوان داڑھی کی اصل حیثیت سے واقف ہوتا تو مسلمان معاشرے میں ایک ہی طرح کے مرد نظر آتے یعنی صرف داڑھی بردار، اور داڑھی اور بغیر داڑھی والے مردوں کی موجودہ تقسیم نظر نہ آتی اور نہ ہی خارجیوں کی شدت پسندی کو بہانہ بنا کر کوئی داڑھی سے منہ موڑتا۔

رومانویت:
داڑھی نہ رکھنے کی بہت سی وجوہات میں سے ایک وجہ رمانس (Romance)بھی ہےجسے پیار ومحبت بھی کہاجا سکتاہے۔ نوجوان یہ سمجھتے ہیں کہ چہرے پر داڑھی رکھ لینے کی صورت میں ان کے ساتھی کے لئے بوس وکنار اور پیار کے لئے جگہ کم پڑجائے گی یا ختم ہوجائے گی کیونکہ داڑھی کی صورت میں اکثر مردوں کے چہرے پر سوائے آنکھوں اور ہونٹوں کے سوا کچھ نہیں بچتا یا پھر تھوڑا بہت ماتھا اس مقصد کے لئے دستیاب ہوتا ہے۔بہرحال ایسی صورتحال اکثر خواتین کے لئے غیر اطمینان اور غیر تسلی بخش ہوتی ہے جو رمانوی جذبات میں تشنگی کا باعث بنتی ہے اور نتیجہ کے طور پر مردوں میں داڑھی نہ رکھنے کے رجحان کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔
موقع کی مناسبت سے عرض ہے کہ میری تین سالہ بیٹی اپنی ماں کا چہرہ چوم رہی تھی جب میں نے اس سے فرمائش کی کہ مجھے بھی اسی طرح پیار کرو تو اس نے انتہائی معصومیت سے جواب دیا کہ میں کہاں پیار کرو آپکے منہ پر تو جگہ ہی نہیں ہے۔راقم کو نہیں معلوم کہ قاری میرے اس واقعہ سے کس قسم کا نتیجہ اخذ کرے گا میرے موقف کے خلاف یا موافق؟ بہرحال یہ مغربی تہذیب سے متاثر ہونے کا نتیجہ ہےکہ غیر جنسی مباشرت(Oral Sex) کے نام پر مسلمانوں میں وہ حرکات و سکنات بھی لازم و ملزوم ہوگئیں ہیں جن کا ماضی میں کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔ مغربی معاشرے میں تو مرد کا بالوں والا چہرہ خواتین کے رمانس میں ضرور رکاوٹ بن سکتا ہےلیکن مسلم معاشرے میں ہر گز نہیں۔مسلمانوں کو مغربی تہذیب و تمدن اور اسلامی معاشرت کا یہ بنیادی فرق سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اسلام کی نظر میں جنسی خواہشات محض ایک انسانی ضرورت ہے جس کی جائز راستے و طریقے سے تکمیل کے بعد اسلام چاہتا ہے کہ اس کے ماننے والے ان ضروری فرائض میں مشغول ہوجائیں جو ایک مسلمان کا حقیقی مقصد ہے اور جس کی خاطر اسے اس دنیا میں بھیجا گیا ہے۔ اس کے برعکس مغربی معاشرے میںاب جنسی خواہشات محض ایک ضرورت نہیں بلکہ ضرورت سے کہیں آگے بڑھ کر ان کی زندگی کا اہم مقصد ہے اور اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے انہوں نے ایسےایسےجنسی طریقے ایجاد و دریافت کئے ہیں جن کی تقلید ایک مسلمان کو زیبا نہیں دیتی۔چونکہ مغربی انسان کے سامنے کوئی ایسا مقصد نہیں ہے جس کے سامنے جنسی خواہش ایک ثانوی حیثیت کی حامل چیزبن جائےاس لئے مغرب کے نزدیک جنسی افعال ایک ایسا انسانی مقصد ہے جس کے لئےاور جس کے سہارے وہ اپنی زندگی بسر کرتے ہیں اور دولت اور جنس کے علاوہ کچھ نہیں سوچتےاسی لئے مغربی معاشرے میں بنیادی جنسی خواہشات نے ضرورت سے آگے بڑھ کر ہوس کی شکل اختیارکرلی ہے ۔ اب وہ، ہر وہ حرکت اور فعل کرتے ہیں جس سے وہ زیادہ سے زیادہ جنسی لطف، لذت اور حظ اٹھاسکیں جبکہ مسلمان کا مقصد صرف اپنی ضرورت پوری کرنا ہوتا ہے تاکہ وہ ضروریات سے فارغ ہوکر صحیح معنوں میں اپنے رب کی تابعداری کرسکے۔ مغربی اور اسلامی معاشرت کے اس اہم اور بنیادی فرق و مقصد کو سمجھ لینے کے بعد ایک مسلمان عورت کو اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑنا چاہیے کہ اسکے شوہر کے چہرے پر کتنے بال ہیں اور نہ ہی چہرے پر خالی جگہ کی عدم دستیابی سےایک مسلمان عورت کی فطری اور جائز خواہش کی تکمیل و تسکین میں کوئی تشنگی ، کمی یا نقص باقی رہتا ہے۔ جبکہ فطری خواہشات کے مقابلے میں بے مہاراور غیرضروری خواہشات کا حساب تو یہ ہے کہ جتنی چاہے بڑھالواور جتنی چاہے گھٹا لو۔کم خواہشات سے زندگی آسان ہوجاتی ہےجبکہ خواہشات کی زیادتی سے بے سکونی پیدا ہوتی ہےاب چاہے یہ خواہشات جنسی ہوں یا غیر جنسی،ان میں اعتدال ہی ایک ہلکی پھلکی ، آرام دہ اور پرسکون زندگی کی ضمانت ہے۔اس لئے ہماری خواتین کو مغربی پیمانوں اور سوچ سے باہر نکلنا کر سوچنا چاہیے کہ مرد کے چہرے پر داڑھی کسی بھی جائز رومانوی جذبے کی تکمیل میں رکاوٹ نہیں ہے۔

دعوت و تبلیغی سرگرمیوں میں رکاوٹ:
ہمارے ایک مہربان اہل حدیث داڑھی منڈے بھائی اپنے داڑھی نہ رکھنے کی بزعم خویش ’’معقول‘‘ اور ’’ٹھوس‘‘ وجہ یہ بتاتے تھے کہ اگر میں داڑھی رکھ لوں تو اس طرح تبلیغ نہیں کرسکوں گا جیسے اب کررہا ہوں یعنی داڑھی تبلیغ دین میں رکاوٹ بنے گی۔ تفصیل اس کی یوں ہے کہ چونکہ مسلم معاشرے میں مولوی کو اس قدر بدنام کیا گیاہے اور عوام الناس اور مولوی کے درمیان ایسی خلیج پیدا کی گئی ہے کہ داڑھی والے شخص کے پاس عموماًداڑھی منڈے اور دنیادار لوگ نہ تو بیٹھنا پسند کرتے ہیں اور نہ ہی توجہ سے ان کی بات سنتے ہیں۔ لہٰذا داڑھی نہ ہونے کے سبب بقول ہمارے دوست وہ داڑھی منڈوں میں آسانی سے گھل مل بھی جاتے ہیں اور لوگ توجہ اور انہماک سے ان کی بات بھی سن لیتے ہیں اس طرح تبلیغ کا کام موثر طریقہ سے ہوجاتا ہے۔ درحقیقت یہ داڑھی نہ رکھنے کا ایک لولا لنگڑا بہانہ اور شیطانی وسوسہ ہےکیونکہ تبلیغ صرف زبان سے وعظ و نصیحت کرنے کا نام نہیں بلکہ مبلغ کی وضع قطع اور کردار اس میں اصل موثر کردار ادا کرتا ہے۔ جب مخاطب یہ دیکھتا ہےکہ تبلیغ کرنے والے کا اپنا حلیہ اور کردار اسلام و شریعت کے مطابق نہیں تو وہ اس کی باتوں کا بھی کوئی خاص اثر نہیں لیتا الاّ یہ کہ اللہ ہی نے اس کی تقدیر میں ہدایت لکھی ہو پھر ایسا مبلغ یہ بھی بھول جاتا ہے کہ ہدایت دینا اللہ کا کام ہے مبلغ کا کام صرف پہنچادینا ہے اس لئے اسے تبلیغ کے بہانے داڑھی جیسے فرض سے اجتناب نہیں کرنا چاہیے بلکہ داڑھی رکھ کر تبلیغ کرنی چاہیے تاکہ اللہ نے اس مبلغ کے ذریعہ جن لوگوں کو ہدایت دینی ہو وہ دعوت و تبلیغ کا پورا پورا اثر قبول کریں۔ہماری اس بات کا ثبوت یہ ہے کہ اس داڑھی منڈے اہل حدیث بھائی کی تبلیغ سے جو چند لڑکے اہل حدیث ہوئے ہیں ان میں سے کسی ایک کی بھی داڑھی نہیں حالانکہ انہیں اہل حدیث ہوئے کافی عرصہ بیت چکا ہے۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ جب مبلغ کی اپنی داڑھی نہیں تو اس تبلیغ سے ہدایت کی طرف آنے والوں کی نظر داڑھی کی اہمیت کیوں کر ہوگی؟اب چونکہ مبلغ خود داڑھی منڈا ہے تو وہ دوسروں کو داڑھی رکھنے کی ترغیب کیسے دے؟ مبلغ جیسا ہوگا اس سے متاثر ہونے والے بھی ویسے ہی ہوں گے چناچہ مبلغ داڑھی منڈا ہے تو اس کے ساتھی بھی داڑھی منڈے ہی ہوں گے۔
 
Last edited:

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,011
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
سراپے میں تبدیلی کی جھجک وشرم:
انسان بنیادی طور پر خودپسند یعنی خودکو چاہنے ، سراہنے اور اپنی وضع قطع پر کوئی سمجھوتہ نہ کرنے والا واقع ہوا ہے۔ انسان کی اپنے سراپے ، وضع یعنی لک (Look) پر توجہ اتنی زیادہ اور مضبوط ہوتی ہے کہ وہ تبدیلی وضع پر کوئی رسک یا خطرہ مول لینے کے لئے آسانی اور جلدی سے تیار نہیں ہوتااور اگر وہ خوبصورت اور خوش شکل ہوتو یہ حساسیت کچھ مزید بڑھ جاتی ہےیہی وجہ ہے کہ مردوں کی ایک کثیر تعداد ہدایت پاجانے کے باوجود داڑھی نہیں رکھتی کیونکہ انہیں یہ خدشہ ہوتا ہے کہ تبدیل شدہ وضع ان کی شخصیت پر سُوٹ (suit )کرے گی بھی یا نہیں۔ نناوے فیصد مردوں کو یقین ہوتا ہے کہ شرعی داڑھی ان کی جاذبیت میں کمی ہی کرے گی اضافہ نہیں کیونکہ داڑھی منڈا ہوناموجودہ زمانے میں خوبصورتی کا معیار ہےالبتہ فیشنی داڑھی رکھنے کا رسک کئی مرد ضرور اٹھالیتے ہیں اس لئے کہ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ اگر یہ اچھی نہ لگی یا اس سے ان کی خوبصورتی اور وجاہت میں مزید اضافہ نہ ہوا تو وہ اسے فوری طور پر صاف کرالیں گے جبکہ شرعی داڑھی کا معاملہ اس کے برعکس ہے۔ گویا کہ دین دار مردوں کی ایک قابل ذکر تعداد میں سراپے اور وضع کی حساسیت داڑھی رکھنے میں آڑ بن جاتی ہے۔یاد رہے کہ یہ وضعی حساسیت صرف داڑھی رکھنے میں ہی آڑ نہیں بنتی بلکہ داڑھی منڈوانے میں بھی آڑ بن جاتی ہے۔ کتنے ہی مرد ایسے ہیں کہ جو گناہوں سے تائیب ہوکر مذہب کی طرف مائل ہوئے اور شرعی داڑھیوں کے حاملین بھی بن گئے لیکن جب گمراہ ہوئے اور واپس گناہوں کی دلدل کی طرف لوٹ گئے تو سب اچھائیاں ترک کردیں سوائے داڑھی کے، کیونکہ انہوں نے اپنے سراپے اور شخصیت میں داڑھی کو قبول کرلیا تھا اور لوگ بھی اسی چہرے کے عادی ہوگئے تھے اس لئے انہوں نے داڑھی کو نہیں کٹوایا کہ نجانے لوگوں کو داڑھی کے بغیر ہمارا چہرہ کیسا لگے گا اور اس نئی اور بڑی تبدیلی کو لوگ ہضم بھی کرپائیں گے یا نہیں؟ مشاہدہ اور حقیقت بھی یہی ہے کہ اگر داڑھی والا اچانک داڑھی کٹوا لے تو اسے ہر شخص کی تنقید اور لعن طعن کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اس شرمندگی اور ذلالت کو جھیلنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں اس لئے لوگ اگر اندر سے پوری طرح تبدیل بھی ہوجائیں تو وہ ظاہر میں تبدیلی سے گھبراتے ہیں۔ پس واضح ہوا کہ وضع اور سراپے کی فکر کتنی مضبوط فکر ہے کہ نہ تو مرد کو آسانی سے داڑھی رکھنے دیتی ہے اور نہ ہی کٹوانے دیتی ہے۔
ہمارے ایک دوست عین شباب کے دنوں میں دنیا اور دنیاداری کے جھنجھٹ سے پریشان اور بے زار ہوکر مائل بہ مذہب ہوگئے اور نماز روزہ کے ساتھ ساتھ اپنے عقیدے کے مطابق ایک مشت شرعی داڑھی بھی رکھ لی چونکہ وہ بریلوی مسلک سے تعلق رکھتے تھے اور صوفیت سے بھی متاثر تھے نیز انہوں نے ولیوں کی خودساختہ کرامات جو مجاوروںاور گدی نشینوں نے اپنے پیٹ پالنے کے لئے گھڑی تھیں اور کتابوں میں درج تھیں پڑھ رکھی تھیں۔ ان فرضی اور جھوٹی کرامات پر یقین کامل ہونے کے سبب وہ بھی مزاروں اور آستانوں کی خاک چھاننے لگے تاکہ ان کرامات اور کرشمات میں سے کوئی کرشمہ اور کرامت انہیں بھی حاصل ہوجائے لیکن ہوا یہ کہ جب دو تین سال مسلسل خوار ہونے کے بعد بھی ان کے ہاتھ کچھ نہ لگا تو اس پیری فقیری کو خیرباد کہہ کر دوبارہ دنیا کی طرف لوٹ آئے پھر نمازیں بھی گئیں اور روزے بھی اور اگر کچھ باقی رہا تو وہ ان کی شرعی داڑھی تھی جس سے وہ جان تو چھڑانا چاہتے تھے کیونکہ جس جذبے کے تحت انہوں نے داڑھی رکھی تھی جب وہ ہی نہ رہا تو داڑھی کا وجود بھی بری طرح کھٹکنے لگا لیکن وہ اپنی اس خواہش کو عملی جامہ نہ پہناسکے کیونکہ لوگ ان کے داڑھی زدہ چہرے سے مانوس ہوچکے تھے اور وہ داڑھی صاف کروا کر لوگوں کو کسی حیرت اور اچھنبے میں مبتلا کرنے کے روادار نہ تھے اور نہ ہی ان میں لوگوں کے طنز اور طعنے سننے کا حوصلہ تھا۔ پھر انہوں نے اس الجھن کی سلجھن یہ نکالی کہ داڑھی کی لمبائی میں تقریباً ایک انچ کی کمی کردی تاکہ لوگ اس معمولی سی تبدیلی کو محسوس نہ کرسکیں اور داڑھی کو اسی حالت میں کئی ماہ تک چھوڑے رکھا پھر اس میں مزید تھوڑی سی کمی کردی پھر کئی ماہ تک داڑھی کو اسی حال پر باقی رکھا جب لوگ اس لمبائی سے بھی مانوس ہوگئےتو بدتدریج انہوں نے ایک قدم اور آگے بڑھاتے ہوئے داڑھی کو کھال کے نزدیک پہنچادیااس طرح کرتے کرتے پھر بالآخر داڑھی صاف کرنے کا مرحلہ آ پہنچا۔ ان صاحب نے اپنی وضع سے لوگوں کو مانوس کرنے کے چکر میں داڑھی سے جان چھڑانے میں پانچ سال لگادئیے۔ اس سے اندازہ کریں کہ انسان اپنی وضع قطع اور حلیے کی بابت کتنا فکر مند رہتا ہےاور یہی فکر مندی اسے آسانی سے داڑھی رکھنے نہیں دیتی لیکن جب ہمت کرکے داڑھی رکھ لے اور کچھ عرصہ بھی گزر جائے تو پھر انسان کو اپنے سراپے کی فکر داڑھی صاف نہیں کروانے دیتی۔ یاد رہے کہ انسان شرعی داڑھی رکھتا ہے تو دینی جذبے کے تحت ہے لیکن اسے صاف اس وقت کرواتا ہے جب وہ دینی جذبہ مرجاتا ہے۔ کسی بھی مرد کے چہرے پر شرعی داڑھی اس کے دینی جذبہ کی نشاندہی اور نمائندگی کرتی ہے اور جب دینی جذبہ نہ رہے تو داڑھی بھی بوجھ محسوس ہونے لگتی ہے جس سے پیچھا چھڑانے کی فکر دامن گیر ہو جاتی ہے۔حافظ عبداللہ بہاولپوری رحمہ اللہ کے کتابچوں کو مقالات کی شکل میں یکجا کیا گیا ہے ان میں حافظ صاحب کی تحریریں مکالمے کے انداز میں ہیں اور ’’ح‘‘ سے مراد حنفی اور ’’م‘‘ سے مراد محمدی ہے چناچہ عبداللہ بہالپوری رحمہ اللہ اکثر لوگوں کےداڑھی نہ رکھنے کا سبب شرم اور جھجک بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
ح۔ آخر لوگ رفع الیدین کیوں نہیں کرتے؟
م۔ زیادہ ترشرم کی وجہ سے۔
ح۔ شرم کیسی؟
م۔ وہی جو داڑھی نہیں رکھنے دیتی، زبان سے تو کہیں گے کہ داڑھی سنت ہے لیکن رکھیں گے نہیں، ڈرتے ہیں کہ داڑھی منڈوں کی اکثریت سے، وہ ملّاں کہیں گے، داڑھی میجر کہیں گے، پرانے ٹائپ کا دقیانوسی کہیں گے، ماڈرن اور اپ ٹو ڈیٹ نظر نہیں آئیں گے۔ اس طرح بہت سے نمازی زبان سے تو کہتے ہیں کہ رفع الیدین سنت ہے لیکن کرتے نہیں۔چونکہ نہ کرنے والوں کی اکثریت ہےاس سے ڈرتے ہیں کہ وہ کہیں گے یہ وہابی ہے......ہاں جب سنت کوچھوڑے رکھنے سے دل سخت ہوجاتا ہے تو سنت کا انکار کرنے لگ جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس کے بغیر نماز ہوجاتی ہے۔ بالکل جیسے داڑھی منڈا کہتا ہے کہ داڑھی نہ رکھے تو کافر تو نہیں ہوجاتا، دین کوئی داڑھی میں تو نہیں، رہتا تو مسلمان ہی ہے ۔حقیقت میں یہ جرات اس لعنت کا اثر ہے جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف سے سنت کو ہلکا جان کر چھوڑنے والے پر پڑتی رہتی ہے۔ اللہ ایسی لعنت سے ہر مسلمان کو محفوظ رکھے۔
(رسائل بہاولپوری، صرف ایک حدیث، صفحہ 348،349)
 
Last edited:

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,011
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
داڑھی نہ بڑھانے کا سبب اور رکاوٹ:
اکثر لوگوں کے لئے رسول اللہ ﷺ کے حکم داڑھی بڑھاؤ پر عمل میں سب سے بڑی رکاوٹ چار صحابہ کا داڑھی کاٹنے کا فعل ہے۔لہٰذا مسئلہ کی درست تفہیم کے لئے اس پر بات کی جانااور اسکے ممکنہ جوابات فرہم کرناضروری ہے۔پس مذکورہ صحابہ کے داڑھی کاٹنے کی مجبوری ، وجہ ، سبب کیا تھا اور اس فعل کی شرعی حیثیت کیا ہے اس کے مندرجہ ذیل کئی ایک جوابات ہیں:

پہلاجواب:
اس کا معقول ترین جواب تو یہی ہے کہ ہم پررسول اللہ ﷺ کی اطاعت فرض ہے صحابہ کے پیروی کے ہم مکلف نہیں اور نبی ﷺ کا حکم داڑھی بڑھانے کا ہے اس لئے ایک مسلمان پر لازم ہے کہ اپنے نبی کی اطاعت کرتے ہوئے وہ داڑھی کو نہ کاٹےبلکہ جہاں تک بڑھتی ہے اسے بڑھنے دے۔
اہل حق اہل حدیث علماء کی کثیر تعداد نےاس مسئلہ کا یہی جواب دیا ہے:
محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ لکھتے ہیں: مثال ذلک: ورد عن عبداللہ بن عمر انہ اذا کان فی حج او عمرۃ قبض علی لحیتہ وقصّ مازاد عن القبضۃ، فھذا فی ظاہرہ مخالف لقول الرسول (وفروا اللحی واحفوا الشوارب) ففعل ابن عمر ھنا لا یحتج بہ علی عموم قول الرسولﷺ لان قول الرسول مقدم علی فعل ابن عمر۔ (سلسلۃ لقاءات الباب المفتوح لابن عثیمین، ص۵۹)
اس کی مثال وہ حدیث ہے جو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے وارد ہے کہ وہ حج و عمرہ میں اپنی داڑھی کو پکڑتے اور جو ایک مشت سے زائد ہوتی اسے کاٹ دیتے۔ سو اس کا ظاہر رسول اللہ ﷺ کے قول ’’وفروااللحی واحفوا الشوارب‘‘ داڑھیوں کو بڑھائو اور مونچھوں کو کاٹنے میں مبالغہ کرو کے خلاف ہے۔ یہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کا فعل ہے، یہاں اس کے ساتھ رسول اللہ ﷺکے قول کی عمومیت کے خلاف حجت نہیں پکڑی جائے گی۔ کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا قول ابن عمر رضی اللہ عنہ کے قول پر مقدم ہے۔ (بحوالہ یک مشت سے زائد داڑھی کی شرعی حیثیت، صفحہ96 تا98)
شارح موطا جناب حافظ ابو سمیعہ محمود تبسم لکھتے ہیں: داڑھی کو مونڈنا تو درکنارداڑھی کے بال کاٹنا بھی رسول اللہ ﷺ سے ثابت نہیں، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کا ذاتی فعل سنت مصطفیٰ ﷺ کے مقابلے میں کچھ حیثیت نہیں رکھتا۔ (الموطاء، جلددوم، صفحہ 195)
زبیر بن خالد مرجالوی حفظہ اللہ لکھتے ہیں: یک مشت سے زائد داڑھی کٹوانا ابن عمر رضی اللہ عنہ کی اجتہادی غلطی ہے۔ لیکن تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مغفور ہیں اللہ تعالیٰ نے ان کی کوتاہیوں کو معاف کردیا ہے۔ لہٰذا اب ہمارے لئے بالکل جائز نہیں ہوگا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے واضح فرمودات و ارشادات کو چھوڑ کر کسی صحابی کے عمل کو لے کر اس پر عمل کرتے جائیں۔ (یک مشت سے زائد داڑھی کی شرعی حیثیت، صفحہ 120)
ابن بشیر الحسینوی حفظہ اللہ’’مٹھی سے زائد داڑھی کاٹنا بالکل غلط ہے‘‘کا عنوان قائم کرکے لکھتے ہیں: عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ کی جو روایت پیش کی جاتی ہےوہ ان کا اپنا عمل ہےاور ان کا عمل دین میں دلیل نہیں بنتا۔ صحابی کا اپنا قول اور اپنا عمل دلیل نہیں بنتا صحابی اگر نبی کریمﷺ کا قول و عمل اور نبی ﷺ کی تصویب تقریر بیان کریں تو دلیل ہےصحابی کا اپنا عمل اور قول دلیل نہیں جب یہ دلیل نہیں تو اس سے گنجائش کیسے ملی؟(شرعی احکام کا انسائیکلوپیڈیا،صفحہ 158)
مفتی ابوالحسن عبدالخالق حفظہ اللہ رقمطراز ہیں: داڑھی کو اپنی طبعی اور اصل حالت پر رکھنا واجب اور اس کی تراش خراش کرنا گناہ ہے۔ ہمارے نزدیک احادیث صحیحہ مرفوعہ کی روشنی میں داڑھی کو اس کی طبعی حالت پر باقی رکھنا فرض ہے۔ مونڈنا، اس کا خط کرانا، یا اس میں کسی قسم کی تراش خراش کرنا گناہ اور معصیت ہے، احادیث کی روشنی میں اس کی قطعاً اجازت نہیں۔ جن تین چار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مٹھی سے زائد داڑھی کترانا ثابت ہے، وہ ان کا اجتہاد اور رائے ہے۔ اپنے اس عمل کا انھوں نے سنت سے ثبوت نہیں دیا، نہ ہمیں اس کا سراغ مل سکا، لہٰذا وہ اپنے اس اجتہاد کی بنا پر عنداللہ ماجور ہوں گے۔(یک مشت سے زائد داڑھی کی شرعی حیثیت، صفحہ 247)
علمائے کرام کے اس طرح کے جوابات سن کر بہت سے لوگ طنز کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایک طرف تو آپ فہم سلف صالحین کی روشنی میں قرآن و حدیث پر عمل کا ڈھونڈرا پیٹتے ہیں لیکن داڑھی کے مسئلہ میں صحابہ کے فہم کو بڑی آسانی سے ٹھکرادیتے ہیں۔ کیا یہ دوہرا معیار نہیں ہے؟
اس اعتراض یا الزام کے ردعمل میں عرض ہے کہ ان معترض لوگوں نے ’’فہم سلف صالحین‘‘ کا درست مفہوم نہیں سمجھااس لئے اس طرح کے اعتراضات کے لئے ان کی زبانیں دراز ہوجاتی ہیں۔فہم سلف سے مراد صحابہ کی قلیل تعداد کا فہم نہیں بلکہ جمیع صحابہ کا فہم ہے۔ہم کتاب و سنت کے صرف اس مفہوم کو درست سمجھتے ہیں جس پر تمام صحابہ یا کثیر صحابہ کا اتفاق ہو لہٰذا داڑھی کے معاملے میں گنتی کے صرف چار صحابہ کا فہم اہل حدیث کے اصول پر کھرا نہیں اترتا اس لئے یہ فہم ناقابل التفات ہے۔
پھر یہ بات بھی انتہائی قابل غور ہے کہ قرآن اور حدیث کے نصوص کو زیادہ بہتر سمجھنے کے لئے صحابہ کے فہم سے مدد لی جاتی ہےیعنی صحابہ کا فہم ان نصوص کی مزید توضیح و تشریح میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔لیکن داڑھی کے معاملے میں چار صحابہ کا فہم حدیث کی کسی قسم کی وضاحت کے بجائے براہ راست نبی ﷺ کے فہم سے ٹکرا رہا ہے۔ اس لئے جہاں نبی اور امتی کے فہم کا ٹکراؤ ہو وہاں فہم سلف کی بات کرنا فضول ہے اور عافیت اور خیریت اسی میں ہے کہ چار صحابہ کے فہم کا اعتبار کرکے نبی کریم ﷺ کے حکم کی مخالفت مول نہ لی جائےکیونکہ نبی ﷺ کی حدیث داڑھی نہ کاٹنے کا حکم دیتی ہے جبکہ چار صحابہ کا عمل داڑھی کاٹنے پر ابھارتا ہے اور ایک مسلمان ایک وقت میں یا تو نبی مکرم ﷺ کی بات مانتے ہوئے داڑھی کو بڑھنے دے سکتا ہے یا صحابہ کی بات مان کر داڑھی کو کاٹ سکتا ہےگویا صحابہ یا اللہ کے رسولﷺ میں سے ایک کی نافرمانی اور مخالفت لازمی امر ہے۔

دوسرا جواب:
چونکہ اس مسئلہ میں مسلمانوں کا جھگڑا اور اختلاف واقع ہواہے اس لئے کسی کے لئےبھی شرعاً جائز نہیں کہ حل مسئلہ کے لئے کسی صحابی یا صحابہ کی قلیل ترین جماعت کی جانب رجوع کرے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: فاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِذٰلِکَ خَیْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِیْلًا پھر اگر تم کسی چیز میں جھگڑ پڑو تو اسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹاؤ ، اگر تم اللہ اور یوم آخر پر ایمان رکھتے ہو، یہ بہتر ہے اور انجام کے لحاظ سے زیادہ اچھا ہے۔(سورۃ النساء :59)
پس اگر کوئی اللہ کا حکم مانتے ہوئے داڑھی کے جھگڑے پر کہ اسے کاٹا جائے یا نہ کاٹا جائے جب رسول اللہ ﷺ کی جانب رجوع کرے گاتو اس مسئلہ کا حل یہی پائے گا کہ داڑھی کو کاٹنے کی نیت سے ہاتھ بھی نہ لگایا جائے اور اسے معاف کردیا جائے۔اب فیصلہ آپ کا ہے کہ خود پر اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لانے کی مہر لگوا کر داڑھی کو بڑھنے دیں یا پھر اللہ اور یوم حشر کے منکر ین کی فہرست میں اپنا نام لکھوا کر داڑھی کاٹ لیں۔

تیسرا جواب:
یہ چار صحابہ کا ذاتی اجتہاد تھا اور مبنی بر خطاء تھا کیونکہ ان کے عمل کی تائید و تصدیق نبی کریم ﷺ کے کسی حکم ، فعل یا تقریر سے نہیں ہوتی حتی کہ نبی ﷺ کے کسی فعل و قول میں داڑھی کاٹنے کی گنجائش کااشارہ و کنایہ تو کیا شائبہ تک بھی نہیں پایا جاتا۔اب چونکہ مجتہد خطاء پر بھی مصیب ہے اس لئے یہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین ایک اجر کے مستحق ضرورہیں اور عنداللہ ماجور ہیں۔امتی بشمول صحابی کا اجتہاد ہم پر حجت نہیں اس لئے اس پر عمل ضروری نہیں اور خصوصاً جب اجتہاد بھی غلط ہو تو پھر تو کسی صورت اس پر عمل جائز نہیں۔

چوتھا جواب:
مسلمانوں میں ایک گروہ کا موقف اقوال صحابہ کے حجت ہونے کا ہے جبکہ ایک گروہ اقوال صحابہ کو حجت تسلیم ہی نہیں کرتا۔ ان میں اہل حدیث کا موقف معتدل ہے وہ یہ کہ اقوال صحابہ مشروط طور پر حجت ہیں اگر وہ قرآن و حدیث کی نصوص کی تائید و تشریح میں ہوں تو قابل قبول ہیں اور اگر ان نصوص کے خلاف ہوں تو مردود ہیں۔
اور ان مسائل میں جہاں کتاب وسنت خاموش ہوصحابی رسول کی رائے و قول کو تسلیم کرنا ضروری ہوگا کیونکہ کسی بھی امتی کی رائے وا جتہاد سے صحابہ کی رائے بہرحال مقدم ہے کیونکہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی صحبت اٹھائی ہے اور وہ نبی ﷺ کے تربیت یافتہ ہیں اس وضاحت کے بعد عرض ہے کہ موقوفات صحابہ کو تسلیم کرنے کےلئےان میں جن شرائط کا پایا جانا ضروری ہے ان میں پہلی اور بنیادی شرط کا تذکرہ کرتے ہوئے شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ رقمطراز ہیں: پہلی شرط یہ ہے کہ وہ (قول صحابی)اللہ اور رسول کے قول کے مخالف نہ ہو۔ سو اگر اللہ اور رسول کے قول کے مخالف ہوتو اس کی بات کو چھوڑنا اور اللہ اور رسول کی بات کو لینا واجب ہوگا۔ (سلسلۃ لقاءات الباب المفتوح لابن عثیمین، ص ۵۹ بحوالہ یک مشت سے زائد داڑھی کی شرعی حیثیت، ص97)
معلوم ہوا کہ بعض معاملات میں موقوفات صحابہ بھی قرآن و حدیث کے خلاف ہوتے ہیں اس لئے اہل سنت نے یہ اصول بنایا ہےچناچہ ایسی صورت میں اثر صحابی کو چھوڑنا واجب اورفرض ہوگا۔داڑھی والے معاملے میں جب عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے فعل کی جانب نظر کی جاتی ہے تو ان کا عمل واضح طور پر نبی کریم ﷺ کے وجوبی حکم کے خلاف نظر آتاہےاس لئے اسے ترک کرنا لازم ہے کیونکہ صحابی کا یہ فعل اہل سنت کےقائم کردہ معیار اصول پر مردود ہے۔
 
Last edited:
Top