صحابہ کا اس بات پر اجماع ھے کہ داڑھی کو چھوڑا جاۓ اور کاٹا نہ جاۓ.
دلیل: شرجیل بن مسلم بیان کرتے ہیں:
” رَأَيْتُ خَمْسَةً مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُمُّونَ شَوَارِبَهُمْ وَيُعْفُونَ لِحَاهُمْ وَيَصُرُّونَهَا: أَبَا أُمَامَةَ الْبَاهِلِيَّ، وَالْحَجَّاجَ بْنَ عَامِرٍ الثُّمَالِيَّ، وَالْمِقْدَامَ بْنَ مَعْدِيكَرِبَ، وَعَبْدَ اللهِ بْنَ بُسْرٍ الْمَازِنِيَّ، وَعُتْبَةَ بْنَ عَبْدٍ السُّلَمِيَّ، كَانُوا يَقُمُّونَ مَعَ طَرَفِ الشَّفَةِ ”
’’ میں نے پانچ صحابہ کرام کو دیکھا کہ وہ مونچھوں کو کاٹتے تھے اور داڑھیوں کو چھوڑتے تھے اور ان کو رنگتے تھے ،سیدنا ابو امامہ الباہلی،سیدنا حجاج بن عامر الشمالی،سیدنا معدام بن معدی کرب،سیدنا عبداللہ بن بسر المازنی،سیدنا عتبہ بن عبد السلمی،وہ سب ہونٹ کے کنارے سے مونچھیں کاٹتے تھے۔‘‘
(المعجم الکبیر للطبرانی:۱۲،۳۲۱۸؍۲۶۲،مسند الشامین للطبرانی:۵۴۰،وسندہ حسن)
محترم! ٍصحیح بخاری کی حدیث کو پھر سے ملاحظہ فرمائیں؛
صحيح البخاري - (ج 18 / ص 249)
عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ خَالِفُوا الْمُشْرِكِينَ وَفِّرُوا اللِّحَى وَأَحْفُوا الشَّوَارِبَ وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ إِذَا حَجَّ أَوْ اعْتَمَرَ قَبَضَ عَلَى لِحْيَتِهِ فَمَا فَضَلَ أَخَذَهُ
ابنِ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرما رہے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مشرکین کی مخالفت کرو۔ داڑھی بڑھاؤ اور مونچھوں کو کترواؤ۔ اور ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب حج یا عمرہ کرتے تو داڑھی کو مشت میں لیتے اور زائد داڑھی کو کاٹ لیتے۔
ابنِ عمر رضی اللہ تعالیٰ ایک مشت سے زائد داڑھی کاٹنے کا عمل کرتے تھے جبکہ وہ خود ہی اس حدیث کے راوی ہیں۔ ایسا کیوں؟
حققت یہ ہے کہ کچھ مشرکین میں داڑھی مونڈھنے کا رواج تھا (جس کی ایک خاص وجہ تھی)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے چہروں کو نہ صرف ناپسند فرمایا بلکہ نفرت کا اظہار کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی اصل یہ ہے حالانکہ مشرکین مکہ بھی داڑھی رکھتے تھے۔
لہٰذا داڑھی رکھنی ہے اور کم از کم اتنی ضرور رکھنی ہے جتنی عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ نے اپنے عمل سے بتا دیا۔ میں پہلے بھی ایک پوسٹ میں عرض کی تھی کہ جب داڑھی کو شروع ہی سے نہ کاٹا جائے تو وہ اتنی بڑھتی ہی نہیں۔ مسائل اس وقت پیدا ہونے شروع ہوئے جب داڑھی مُنڈوں کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت دی اور انہوں نے داڑھی رکھ لی۔
عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایسے لوگوں پر احسان ہے کہ انہوں نے ایک مسئلہ کو اپنے عمل سے واضح کر دیا۔