عمر اثری
سینئر رکن
- شمولیت
- اکتوبر 29، 2015
- پیغامات
- 4,404
- ری ایکشن اسکور
- 1,137
- پوائنٹ
- 412
کیا سمجھے وھی پوچھ رھا ھوں.... کہیں کتمان...... ابتسامہمیں جو سمجھا سو سمجھا
کیا سمجھے وھی پوچھ رھا ھوں.... کہیں کتمان...... ابتسامہمیں جو سمجھا سو سمجھا
١٠٠ فیصد متفق...صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے متعلق ہمارا درج ذیل موقف ہے :
اگر کسی بات پر صحابہ کا اتفاق ہو تو وہ قابل حجت ہے البتہ
اگر صحابہ کے ما بین اختلاف ہو تو اب یہاں تین میں سے کوئی ایک صورت ہوسکتی ہے
اول : سب کی پیروی کی جائے ۔ اور یہ عقلا محال ہے ۔
ثانی : جس کی دل چاہے مان لی جائے باقی کو چھوڑ دیا جائے ۔ یہ شرعا محال ہے کیونکہ دین کسی کی مرضی پر مبنی نہیں ہے ۔ ویسے بھی کسی ایک کی بات کو مان لینا اور باقی سب کو چھوڑ دینا یہ ان کی سنت کی پیروی نہیں کہلائے گا ۔
ثالث : اب صرف تیسری صورت بچتی ہے کہ جن مسائل پر ان کا اتفاق ہے اس کی اتباع کی جائے ۔
تفصیل کے لیے ملاحظہ کیجیے ( الإحکام فی أصول الأحکام لابن حزم ج 6 ص 76 وما بعدہا)
داڑھی کے متعلق ہم یہی سمجھتے ہیں کہ داڑھی کے متعلق صرف ایک دو صحابہ کرام سے کاٹنے کی بات منقول ہے ، باقی صحابہ کرام داڑھی نہیں کاٹتے تھے ، لہذا ہم بھی ایک مشت سے زائد کاٹنے کو درست نہیں سمجھتے ۔
آپ کا موقف فعل صحابہ کی بنا پر ہے ، لیکن اس کے مطابق نہیں ہے ۔ صحابی سال میں ایک دفعہ کاٹتے تھے ، اور دوسری بات آپ اس کو جائز سمجھتے ہیں ، حالانکہ فعل رسول کو مبین اور فعل صحابی کو بیان کہا جائے تو پھر مبین اور بیان دونوں کا ایک ہی حکم ہونا چاہیے :
یا تو دونوں ہی فرض ہونے چاہییں
یا دونوں ہی جائز ہونے چاہییں
نہ آپ کا موقف پہلا ہے نہ دوسرا ۔ بلکہ آپ کا کہنا ہے کہ مبین ( فعل رسول ) کا حکم تو فرض کا ہے ، البتہ بیان ( فعل صحابی ) جواز کا حکم رکھتا ہے ۔
کسی صحیح موقف پر اس طرح دلائل دیئے جاتے ہیں اور فہم واضح کیا جاتا ہے ۔ بحوث میں بهی اساتذہ کی شمولیت کتنی ضروری ہوتی ہے ۔ جزاک اللہ خیراصحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے متعلق ہمارا درج ذیل موقف ہے :
اگر کسی بات پر صحابہ کا اتفاق ہو تو وہ قابل حجت ہے البتہ
اگر صحابہ کے ما بین اختلاف ہو تو اب یہاں تین میں سے کوئی ایک صورت ہوسکتی ہے
اول : سب کی پیروی کی جائے ۔ اور یہ عقلا محال ہے ۔
ثانی : جس کی دل چاہے مان لی جائے باقی کو چھوڑ دیا جائے ۔ یہ شرعا محال ہے کیونکہ دین کسی کی مرضی پر مبنی نہیں ہے ۔ ویسے بھی کسی ایک کی بات کو مان لینا اور باقی سب کو چھوڑ دینا یہ ان کی سنت کی پیروی نہیں کہلائے گا ۔
ثالث : اب صرف تیسری صورت بچتی ہے کہ جن مسائل پر ان کا اتفاق ہے اس کی اتباع کی جائے ۔
تفصیل کے لیے ملاحظہ کیجیے ( الإحکام فی أصول الأحکام لابن حزم ج 6 ص 76 وما بعدہا)
داڑھی کے متعلق ہم یہی سمجھتے ہیں کہ داڑھی کے متعلق صرف ایک دو صحابہ کرام سے کاٹنے کی بات منقول ہے ، باقی صحابہ کرام داڑھی نہیں کاٹتے تھے ، لہذا ہم بھی ایک مشت سے زائد کاٹنے کو درست نہیں سمجھتے ۔
آپ کا موقف فعل صحابہ کی بنا پر ہے ، لیکن اس کے مطابق نہیں ہے ۔ صحابی سال میں ایک دفعہ کاٹتے تھے ، اور دوسری بات آپ اس کو جائز سمجھتے ہیں ، حالانکہ فعل رسول کو مبین اور فعل صحابی کو بیان کہا جائے تو پھر مبین اور بیان دونوں کا ایک ہی حکم ہونا چاہیے :
یا تو دونوں ہی فرض ہونے چاہییں
یا دونوں ہی جائز ہونے چاہییں
نہ آپ کا موقف پہلا ہے نہ دوسرا ۔ بلکہ آپ کا کہنا ہے کہ مبین ( فعل رسول ) کا حکم تو فرض کا ہے ، البتہ بیان ( فعل صحابی ) جواز کا حکم رکھتا ہے ۔
محترم! اس کے دلائل؟اگر فعل صحابی یہاں وضاحت ہے فرمان رسول ’’ وفروا اللحی ‘‘ کی ، تو پھر اس وضاحت کا بھی وہی حکم ہونا چاہیے جو اصل کا ہے ۔
یعنی ایک بالشت سے زائد کاٹنا واجب ہونا چاہیے ، نہ کہ جائز ۔
محترم! جس پر صحابی کا عمل نہ ملے اس پر عامل خود کو ان سے زیادہ فہیم کیوں نہیں سمجھ رہا وضاحت فرمادیں؟جب کسی صحابی ، تابعی یا بعد والے کسی امام کے قول یا فعل پر عمل نہیں کیا جاتا تو اس کا لازمی مطلب یہ نہیں کہ ہم خود کو فہم شریعت میں ان سے بڑھ کر سمجھتے ہیں
محترم! سلف میں صحابہ کرام آتے ہیں کہ نہیں؟سلف کے متفقہ فہم کے مطابق قرآن و سنت کو سمجھیں
محترم! آپ نے نمبر ”ثالث“ پر لکھا کہ ”جن مسائل پر ان کا اتفاق ہے اس کی اتباع کی جائے“ ۔اگر صحابہ کے ما بین اختلاف ہو تو اب یہاں تین میں سے کوئی ایک صورت ہوسکتی ہے
اول : سب کی پیروی کی جائے ۔ اور یہ عقلا محال ہے ۔
ثانی : جس کی دل چاہے مان لی جائے باقی کو چھوڑ دیا جائے ۔ یہ شرعا محال ہے کیونکہ دین کسی کی مرضی پر مبنی نہیں ہے ۔ ویسے بھی کسی ایک کی بات کو مان لینا اور باقی سب کو چھوڑ دینا یہ ان کی سنت کی پیروی نہیں کہلائے گا ۔
ثالث : اب صرف تیسری صورت بچتی ہے کہ جن مسائل پر ان کا اتفاق ہے اس کی اتباع کی جائے ۔
تفصیل کے لیے ملاحظہ کیجیے ( الإحکام فی أصول الأحکام لابن حزم ج 6 ص 76 وما بعدہا)
اختلاف کی صورت میں قرآن وسنت کی روشنی میں اقرب الی الصواب پر عمل کریں ۔سوال یہ ہے کہ جن مسائل میں اختلاف ہےاس بارے میں کیا لائحہ عمل اختیار کیا جائے؟
ابن عمر رضی اللہ عنہ کے فعل سے دلیل لے کر داڑھی کٹوانے والوں کی ایک کثیر تعداد ایسی ہے ، جنہوں نے حج یا عمرہ کیا ہی نہیں ہوتا ، جو کرتے بھی ہیں ، وہ ہر دفعہ داڑھی کاٹنے سے پہلے حج یا عمرے کا انتظار نہیں کرتے ۔ تو پھر فعل ابن عمر ان کی دلیل کیسے ہوا ؟عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ حج اور عمرے پر داڑھی کٹوا دیتے تھے۔
اگر یہ داڑھی کٹوانے والوں کی دلیل بن سکتی ہے ، تو اس کے الٹ بھی بن سکتی ہے ، کہ کتنے لوگ ہیں جو ابن عمر رضی اللہ عنہ کو دیکھ کر داڑھی کٹوایا کرتے تھے ؟ صرف دو صحابیوں سے ثابت ہے کہ وہ داڑھی کٹوایا کرتے تھے ۔ اگر نکیر کا منقول نہ ہونا اس کے جواز کی دلیل ہے ، تو پھر دیگر صحابہ سے اس فعل کی پیروی منقول نہ ہونا بھی اس کے درست نہ ہونے کی دلیل بن سکتی ہے ۔معلوم ہے کہ اس زمانے میں حج کے موقع پر نہ صرف صحابہ کرام کی اکثریت موجود ہوتی تھی بلکہ تابعین سمیت عام مسلمان بھی بکثرت موجود ہوتے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ عین اس اجتماع کے بیچ میں بالشت سے زیادہ داڑھی کٹوا دیا کرتے تھے، کسی ایک صحابی سے بھی اس فعل پر نکیر مذکور نہیں ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس فعل کو ہلکا سا بھی گناہ سمجھتے تو نہ صرف انہیں روکتے بلکہ خود امیر المومنین عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سب سے پہلے سرزنش کرنے والوں میں سے ہوتے۔
ان کا ’ سکوت ‘ حرج نہ سمجھنے کی دلیل ہوسکتا ہے تو پھر ان کا فعل ( یعنی داڑھیاں نہ کٹوانا ، ) حرج سمجھنے کی دلیل بنتا ہے ۔ بلکہ بعض صحابہ سے تو صراحتا منقول ہے کہ وہ داڑھیوں کو معاف کرتے تھے ، یعنی ترشواتے نہیں تھے ۔ان کا سکوت ہی اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ ایک بالشت سے زائد داڑھی کٹوانے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔
آپ نے ایک تابعی کا مشاہدہ ذکر کیا ہے ، اس کے برخلاف اوپر ایک اور تابعی کا مشاہدہ بھی گزر چکا ہے کہ کئی ایک صحابہ کرام کو انہوں نے ملاحظہ کیا جو داڑھیاں نہیں ترشواتے تھے ۔اس بات کو مزید تقویت امام البیہقی کی اس روایت سے پہنچتی ہے جسے انہوں نے شعب الایمان میں ابراھیم بن یزید رحمہ اللہ سے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے کہ صحابہ کرام داڑھیاں ترشوایا کرتے تھے۔
جی جب قطعیت کے ساتھ کچھ ہی نہیں کہا جاسکتا تو اصل یہی ہے کہ آپ نہیں ترشواتے تھے ، رہا بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا فعل ترشوانا تو اس کے بالمقابل نہ ترشوانا بھی تو صراحت کے ساتھ منقول ہے ۔ جیساکہ اوپر ذکر کیا ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم داڑھی کو تراشتے تھے یا نہیں، محدث العصر ناصر الدین البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس بارے میں قطعیت کے ساتھ کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے طرز عمل کو دیکھتے ہوئے گمان غالب یہی ہے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی اقتدا میں ہی ایسا کرتے ہوں گے۔
جی شیخ البانی رحمہ اللہ کا موقف تھا کہ ایک بالشت سے زائد داڑھی ترشوانا واجب ہے ، گویا جو ایک بالشت سے زیادہ رکھے گا وہ واجب کےترک کی بنیاد پر گناہ گار ہوگا ۔ شیخ البانی رحمہ اللہ کا مناقشہ و مناظرہ میں قوی الحجۃ ہونا معروف بات ہے ، لیکن بہر صورت کبار علما نے ان سے موافقت نہیں کی ، بلکہ خود جن کے ساتھ اوپر آپ نے مناقشہ ذکر کیا ، وہ ان کے ارشد تلامذہ میں سے ہیں ، لیکن داڑھی ان کی آج بھی مکمل نظر آتی ہے ، تراشی ہوئی نہیں لگتی ۔امام البانی رحمہ اللہ کا ایک مشہور مناقشہ اس بارے میں یوٹیوب پر موجود ہے۔ اس میں بہت سے اشکالات کا جواب موجود ہے۔