محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,800
- پوائنٹ
- 1,069
بسم اللہ الرحمن الرحیم
داڑھی کی شرعی حیثیت :
داڑھی کی شرعی حیثیت :
الحمد للہ:
اللہ تعالیٰ نے انسان کی تخلیق احسن انداز میں کی ہے اور داڑھی کے ذریعے اسے زینت بخشی ہے،داڑھی جہاں اللہ تعالیٰ کی ایک نعمت ہے، وہاں اسوۂ رسول بھی ہے، یہ جہاں انسان کا فطرتی حسن ہے، وہاں اللہ کی شریعت بھی ہے، داڑھی جہاں قومی زندگی کی علامت ہے ، وہاں اس کا صفایا مردنی کی دلیل بھی ہے، داڑھی جہاں شعارِ اسلام ہے وہاں محبت رسول ﷺ کا تقاضا بھی ہے ، داڑھی جہاں مرد کے لیے ظاہری حسن وجمال ہے ، وہاں اس کے باطن کی تطہیر کا سبب بھی ہے ،یہ تمام شریعتوں کا متفقہ اسلامی مسئلہ ہے،یہ اسلامی تہذیب ہے ، یہ وہ اسلامی وقار اور ہیبت ہے جس سے مرد و عورت کے درمیان تمیز ہوتی ہے ،نیز اس سے مردوں اور ہیجڑوں کے درمیان امتیاز ہوتا ہے، یہ وہ دینی روپ ہے جس سے سلف صالحین اور فساق و فجار کے درمیان فرق ہوتا ہے ،یہ ایک فطرتی طریقہ ہے جو دلیل کا محتاج نہیں ،نفسانی خواہشات،رسم و رواج اور ماحول سے مرعوب ہو کر اللہ تعالیٰ کی زینت کو بدنمائی میں تبدیل کرنا بزدلی ہے ، اس سے انسان اللہ تعالیٰ کے اس فرمان:
(أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَهَهُ هَوَاهُ) [الجاثية :۲۳]
’’کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا ہے جس نے اپنی خواہشات کو اپنا الہ و معبود بنا لیا ہو؟‘‘ کا مصداق ٹھہرتا ہے۔
داڑھی منڈانا با لاجماع حرام ہے، یہ اللہ تعالیٰ کی معصیت اور اس کی نعمتوں کی ناقدری ہے ، اس کے علاوہ رسول اللہ ﷺ کی مخالفت ہے، یہ اللہ کی تخلیق کے حسن و جمال کی تخریب کاری اور کفار سے مشابہت ہے۔
داڑھی بڑھا کر اور مونچھیں کٹوا کر مشرکین کی مخالفت کرو :
۱ ۔سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
خَالِفُوا المُشْرِكِينَ: وَفِّرُوا اللِّحَى، وَأَحْفُوا الشَّوَارِبَ
’’مشرکوں کی مخالفت کرو ،یعنی داڑھیوں کو بڑھاؤ اور مونچھوں کو کاٹو۔‘‘ (صحیح بخاری:۲؍۸۷۵،ح:۵۸۹۲،صحیح مسلم:۱؍۱۲۹،ح:۲۵۹)
۲۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے یہی روایت ان الفاظ میں بھی آتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
انْهَكُوا الشَّوَارِبَ، وَأَعْفُوا اللِّحَى
’’مونچھوں کو ختم کرو اور داڑھیوں کو بڑھاؤ۔‘‘(صحیح بخاری:۲؍۸۷۵،ح:۵۸۹۳)
۳۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے یہی حدیث ان الفاظ سے بھی مروی ہے:
خَالِفُوا الْمُشْرِكِينَ أَحْفُوا الشَّوَارِبَ، وَأَوْفُوا اللِّحَى
’’مشرکین کی مخالفت کرو،مونچھیں کاٹو اور داڑھیاں بڑھاؤ۔‘‘(صحیح مسلم:۱؍۱۲۹،ح:۵۴؍۲۵۹)
داڑھی رکھنا اور مونچھیں کاٹنا حکم رسول ﷺہے:
۴ ۔ یہ الفاظ بھی ہیں:
أَنَّهُ:أَمَرَ بِإِحْفَاءِ الشَّوَارِبِ، وَإِعْفَاءِ اللِّحْيَةِ
’’آپﷺ نے مونچھیں کاٹنے اور داڑھیاں بڑھانے کا حکم دیا۔‘‘(صحیح مسلم:۱؍۱۲۹،ح:۵۳؍۲۵۹)
داڑھی بڑھا کر مجوسیوں کی مخالفت کرو:
۵۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جُزُّوا الشَّوَارِبَ، وَأَرْخُوا اللِّحَى خَالِفُوا الْمَجُوسَ
’’مونچھیں کاٹو اور داڑھیاں لٹکاؤ،مجوسیوں کی مخالفت کرو۔‘‘(صحیح مسلم:۱؍۱۲۹،ح:۲۶۰)
امام ابوعوانہ رحمہ اللہ نے احادیث پر داڑھی کے وجوب کا باب قائم کیا ہے۔(صحیح ابی عوانہ:۱؍۱۳۴)
داڑھی منڈانا مجوسیوں کا کام ہے:
۶۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسولِ کریم ﷺ نے فرمایا:
إِنَّهُمْ يُوَفِّرُونَ سِبَالَهُمْ، وَيَحْلِقُونَ لِحَاهُمْ، فَخَالِفُوهُمْ
’’وہ مجوسی مونچھیں بڑھاتے اور داڑھیاں منڈاتے ہیں،تم ان کی مخالفت کرو۔‘‘(مصنف ابن ابي شيبه:۸؍۵۶۷۔۵۶۶،المعجم الاوسط للطبراني:۱۰۵۵۔۱۶۴۵،السنن الكبري للبيهقي:۱؍۱۵۱، شعب الايمان للبيهقي:۶۰۲۷،وسنده‘ صحيح)
اس حدیث کو امام ابن حبان رحمہ اللہ (۵۴۷۴) نے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔
اس کا راوی معقل بن عبیداللہ الجزری ’’موثق،حسن الحدیث‘‘ ہے،اس کے بارے میں حافظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:بل هو عند الأكثرين صدوق لا بأس به ’’لیکن وہ اکثر محدثین کے نزدیک ’’صدوق، لا باس بہ‘‘ ہے۔‘‘(میزان الاعتدال للذہبی:۴؍۱۴۶)
شاہ ولی اللہ الدہلوی الحنفی لکھتے ہیں:
وقصها أي اللحية سنة المجوس وفيه تغيير خلق الله
’’داڑھی کو منڈانا مجوسیوں کا طریقہ اور تخلیقِ الٰہی میں تبدیلی ہے۔‘‘(حجۃ اللہ البالغہ:۱؍۱۵۲)
داڑھی بڑھا کر اور مونچھیں کٹوا کر یہود ونصاریٰ کی مخالفت کرو :
۷۔ سیدنا ابو امامہ الباہلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللهِ إِنَّ أَهْلَ الْكِتَابِ يَقُصُّونَ عَثَانِينَهُمْ وَيُوَفِّرُونَ سِبَالَهُمْ. قَالَ: فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” قُصُّوا سِبَالَكُمْ وَوَفِّرُوا عَثَانِينَكُمْ وَخَالِفُوا أَهْلَ الْكِتَابِ
ہم نے عرض کی ،اے اللہ کے رسول !اہلِ کتاب تو اپنی داڑھیاں کٹواتے اور مونچھیں بڑھاتے ہیں،آپﷺ نے فرمایا:تم اپنی مونچھیں کٹواؤ اور داڑھیاں بڑھاؤ اور اہلِ کتاب کی مخالفت کرو۔‘‘(مسند الامام احمد:۵؍۲۶۴۔۲۶۵،وسندہ حسن)
حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ نے اس کی سند کو ’’حسن‘‘ کہا ہے۔(فتح الباری:۱۰؍۳۵۴)
داڑھی فطرت اسلام ہے :
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
عَشْرٌ مِنَ الْفِطْرَةِ: قَصُّ الشَّارِبِ، وَإِعْفَاءُ اللِّحْيَةِ، وَالسِّوَاكُ، وَاسْتِنْشَاقُ الْمَاءِ، وَقَصُّ الْأَظْفَارِ، وَغَسْلُ الْبَرَاجِمِ، وَنَتْفُ الْإِبِطِ، وَحَلْقُ الْعَانَةِ، وَانْتِقَاصُ الْمَاءِ ” قَالَ زَكَرِيَّا: قَالَ مُصْعَبٌ: وَنَسِيتُ الْعَاشِرَةَ إِلَّا أَنْ تَكُونَ الْمَضْمَضَةَ
’’دس خصلتیں فطرتِ اسلامیہ میں سے ہیں: (۱) مونچھیں کاٹنا،(۲) داڑھی کو چھوڑ دینا ،(۳) مسواک کرنا، (۴) وضو کرتے وقت ناک میں پانی چڑھانا، (۵) ناخن کاٹنا، (۶) انگلیوں کے جوڑوں کو دھونا، (۷) بغل کے بال نوچنا، (۸) زیرِ ناف بال مونڈنا، (۹) استنجاء کرنا، راوی کا کہنا ہے کہ دسویں چیز مجھے بھول گئی ہے ،شاید کلی کرنا ہو۔‘‘
(صحیح مسلم:۱؍۱۲۹،ح:۲۶۱)
داڑھی شعارِ اسلام ہے :
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
بَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ جَالِسًا، إِذْ جَاءَ شَدِيدُ سَوَادِ اللِّحْيَةِ
’’ایک دن نبی کریمﷺ بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک ایک شخص آیا جس کی داڑھی گہری سیاہ تھی۔۔۔۔اس کے چلے جانے کے بعد نبیﷺ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا ،کیا آپ کو معلوم ہے کہ وہ شخص کون تھا ؟ عرض کی، نہیں!فرمایا:ذَاكَ جِبْرِيلُ أَتَاكُمْ يُعَلِّمُكُمْ دِينَكُمْ ۔ ’’وہ جبریل تھے جو تمہیں تمہارا دین سکھانے آئے تھے۔‘‘
(صحیح ابن حبان:۱۶۸،وسندہ صحیح)
رسول اللہ ﷺ کی داڑھی مبارک :
۱۔ سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ -
رسول اللہ ﷺ کے سر کے اگلے بال اور داڑھی کے ( کچھ) بال سفید ہوگئے تھے،جب آپﷺ تیل لگاتے تو وہ سفیدی معلوم نہیں ہوتی تھی اور جب بال بکھرے ہوئے ہوتے تھے تو سفیدی ظاہر ہوتی تھی ، وَكَانَ كَثِيرَ شَعْرِ اللِّحْيَةِ ۔ آپکی داڑھی مبارک بہت گھنی تھی ،ایک شخص نے کہا کہ آپ کا چہرہ تلوار کی طرح تھا؟انہوں نے کہا، نہیں!بلکہ سورج اور چاند کی طرح تھا ،آپ کا چہرہ گول تھا،میں نے آپ کے کندھے کے پاس کبوتر کے انڈے کے برابر مہرِ نبوت دیکھی، جس کا رنگ جسم مبارک کے رنگ کے مشابہ تھا۔ (صحیح مسلم:۲۳۴۴)
۲۔ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْسَ بِالطَّوِيلِ وَلا بِالْقَصِيرِ، ضَخْمُ الرَّأْسِ وَاللِّحْيَةِ
’’رسول اللہ ﷺ کا قد مبارک نہ بڑا تھا نہ چھوٹا ، آپ کا سر مبارک بڑا اور داڑھی مبارک بھی بڑی تھی۔‘‘(مسند الامام احمد :۱؍۹۶،۱۲۷،وسندہ حسن)
اس حدیث کو امام حاکم رحمہ اللہ (۲؍۶۰۲) نے ’’صحیح الاسناد‘‘ اور حافظ ذہبی نے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔
اس کے راوی عثمان بن مسلم بن ہُر مُز کو امام ابن حبان نے ’’ثقہ‘‘ کہا ہے، امام حاکم نے اس کی حدیث کی سند کی ’’تصحیح‘‘ کی ہے،یہ بھی توثیق ہے ،لہٰذا امام نسائی رحمہ اللہ کی جرح مردود ہے۔
۳۔ ہشام بن حبیش بن خویلد سے روایت ہے کہ :
امِّ معبد کہتی ہیں : وفي لحيته كثاثة
’’نبی کریم ﷺ کی داڑھی مبارک گھنی تھی ۔‘‘ (المستدرک للحاکم :۳؍۹،۱۱،وسندہ حسن)
اس حدیث کو امام حاکم رحمہ اللہ نے ’’صحیح الاسناد‘‘ اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔
۴۔ یزید الفارسی کہتے ہیں کہ :
میں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں رسول اللہ ﷺ کو خواب میں دیکھا تو اس کا ذکر ابن عباس رضی اللہ عنہ سے کیا ،آپ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ فرمایا کرتے تھے،’’شیطان میری مشابہت اختیار کرنے کی طاقت نہیں رکھتا ،جس شخص نے مجھے خواب میں دیکھا ،اس نے مجھے ہی دیکھا‘‘ تو اس شخص کی صفت بیان کرسکتا ہے ،جس کو تو نے خواب میں دیکھا ہے ؟کہا ،ہاں! درمیانے قد والا،گندمی رنگ سفیدی کی طرف مائل ،آنکھیں بڑی بڑی گویا کہ سرمہ ڈالا ہوا ہو ،خوبصو رت مسکراہٹ اور شکل، گول چہرہ قَدْ مَلَأَتْ لِحْيَتُهُ، مِنْ هَذِهِ إِلَى هَذِهِ قَدْ مَلَأَتْ نحرہ داڑھی جو سینے کو بھرے ہوئے تھی ،ابن عباس رضی اللہ عنہ فرمانے لگے ،اگر تو جاگتے ہوئے آپ ﷺ کو دیکھتا تو ان صفات کے سوا اور صفات بیان نہیں کر سکتا تھا ۔‘‘
(طبقات ابن سعد:۱؍۴۱۷،مصنف ابن ابی شیبہ:۱۱؍۵۱۵،۵۶،مسند ابن ابی شیبہ: (الاتحاف:۸۵۰۷)،مسند الامام احمد:۱؍۳۶۲۔۳۶۱،مسند ابی یعلیٰ: (الاتحاف:۵۸۰۸) الشمائل للترمذی:۳۹۳،ابن عساکر(السیرۃ النبویۃ:۱؍۲۳۰۔۲۲۹)،وسندہ حسن)
اس کا روای یزید الفارسی ’حسن الحدیث‘ ہے،اس کے بارے میں امام ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:لا بأس به ’’ اس میں کوئی حرج نہیں۔‘‘ (الجرح والتعدیل:۹؍۲۹۴)
امام ترمذی رحمہ اللہ (۳۰۸۶) ،امام ابن حبان رحمہ اللہ (۴۳) اور امام حاکم رحمہ اللہ ۲؍۲۲۱،۳۳۰) نے اس کی ایک حدیث کو ’’صحیح‘‘ کہا ہے ،یہ اس کی ’’توثیق‘‘ ہے۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔
حافظ ہیثمی اس روایت کے بارے میں لکھتے ہیں :رجاله ثقات
’’اس کے راوی ثقہ ہیں۔‘‘(مجمع الزوائد:۸؍۲۷۲)
صحابہ کرام کی داڑھیاں :
کسی صحابئ رسول سے داڑھی منڈانا قطعی طور پر ثابت نہیں ہے، بلکہ وہ داڑھیاں رکھتے تھے ،جیسا کہ شرجیل بن مسلم بیان کرتے ہیں:
” رَأَيْتُ خَمْسَةً مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُمُّونَ شَوَارِبَهُمْ وَيُعْفُونَ لِحَاهُمْ وَيَصُرُّونَهَا: أَبَا أُمَامَةَ الْبَاهِلِيَّ، وَالْحَجَّاجَ بْنَ عَامِرٍ الثُّمَالِيَّ، وَالْمِقْدَامَ بْنَ مَعْدِيكَرِبَ، وَعَبْدَ اللهِ بْنَ بُسْرٍ الْمَازِنِيَّ، وَعُتْبَةَ بْنَ عَبْدٍ السُّلَمِيَّ، كَانُوا يَقُمُّونَ مَعَ طَرَفِ الشَّفَةِ ”
’’ میں نے پانچ صحابہ کرام کو دیکھا کہ وہ مونچھوں کو کاٹتے تھے اور داڑھیوں کو بڑھاتے تھے اور ان کو رنگتے تھے ،سیدنا ابو امامہ الباہلی،سیدنا حجاج بن عامر الشمالی،سیدنا معدام بن معدی کرب،سیدنا عبداللہ بن بسر المازنی،سیدنا عتبہ بن عبد السلمی،وہ سب ہونٹ کے کنارے سے مونچھیں کاٹتے تھے۔‘‘
(المعجم الکبیر للطبرانی:۱۲،۳۲۱۸؍۲۶۲،مسند الشامین للطبرانی:۵۴۰،وسندہ حسن)
حافظ ہیثمی فرماتے ہیں : واسناده جيد ’’اس کی سند جید ہے۔‘‘(مجمع الزوائد:۵؍۱۶۷)
فائدہ :
حافظ ابن قیّم رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
وأما شعر اللحية ففيه منافع منها الزينة والوقار والهيبة ولهذا لا يرى على الصبيان والنساء من الهيبة والوقار ما يرى على ذوي اللحى ومنها التمييز بين الرجال والنساء
’’داڑھی کے کئی فوائد ہیں،مثلاً اس میں مرد کی زینت ہے اور اس کا وقار اور تعظیم ہے ،اس سے اس کی ہیبت ظاہر ہوتی ہے ،اس لیے بچوں اور عورتوں میں وہ ہیبت اور وقار دکھائی نہیں دیتا جو داڑھی والے مردوں میں موجود ہوتا ہے، نیز داڑھی سے مرد اور عورت کے درمیان فرق اور پہچان ہوتی ہے۔‘‘(التبیان فی اقسام القرآن:ص۲۳۱)
سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَأْخُذُ مِنْ لِحْيَتِهِ مِنْ عَرْضِهَا وَطُولِهَا
’’نبی کریم ﷺ داڑھی کو طول و عرض سے کاٹتے تھے۔‘‘ (جامع الترمذی :۲۷۶۲،شعب الایمان للبیہقی:۶۰۱۹)
تبصرہ:
اس کی سند سخت ترین ’’ضعیف‘‘ ہے،اس کے راوی عمر بن ہارو ن بلخی کو امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ (الجرح والتعدیل :۶؍۱۴۱،وسندہ صحیح) نے ’’کذاب‘‘،امام ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ (الجرح والتعدیل:۶؍۱۴۱) نے ’’ضعیف الحدیث‘‘، امام نسائی رحمہ اللہ (الکامل لا بن عدی:۵؍۳۰) نے ’’متروک الحدیث‘‘اور امام دارقطنی رحمہ اللہ (الضعفاء والمتروکین:۳۶۸) نے ’’ضعیف‘‘ کہا ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:’’یہ متروک ہے‘‘۔ (التقریب:۴۹۷۹)
حافظ منذری رحمہ اللہ لکھتے ہیں:ضعفه الجمهور. ’’اسے جمہور نے ضعیف کہا ہے۔‘‘ (الترغیب والترہیب:۴؍۴۹۴)
حافظ ہیثمی کہتے ہیں:وقد ضعفه أكثرا لناس.’’اسے اکثر محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے۔‘‘(مجمع الزوائد:۱؍۲۷۳)
نیز کہتے ہیں: والغالب عليه الضعف ، وأثني عليه ان مهدي وغيره، ولكن ضعفه جماعةكثيرة.
’’اس پر ضعف غالب ہے ،امام ابن ِ مہدی وغیرہ نے اس کی تعریف کی ہے، لیکن اسے زیادہ محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے۔‘‘(مجمع الزوائد:۲؍۱۹۸) اس پر ابن مہدی کی تعریف ثابت نہیں ہے۔
امام ترمذی رحمہ اللہ امام بخاری رحمہ اللہ کی اس حدیث پر جرح نقل کی ہے۔ (جامع ترمذی: تحت حدیث:۲۷۶۲)
حافظ ابن الجوزی لکھتے ہیں: هذا الحديث لا يثبت عن رسول الله صلي الله عليه وسلم
’’یہ حدیث رسول اللہ ﷺ سے ثابت نہیں۔‘‘(العلل المتناہیۃ:۲؍۱۹۷)
لہٰذا انور شاہ کشمیری دیوبندی صاحب
(فیض الباری: ۴؍۳۸۰) کا اس کے راویوں کو ’’ثقہ‘‘ قرار دینا کوئی معنیٰ نہیں رکھتا۔
جابر عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
رَأَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا مُجَفَّلٌ الرَّأْسِ وَاللِّحْيَةِ فَقَالَ: ” عَلَى مَا شَوَّهَ أَحَدُكُمْ أَمْسِ؟ ” قَالَ: وَأَشَارَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى لِحْيَتِهِ وَرَأْسِهِ يَقُولُ: ” خُذْ مِنْ لِحْيَتِكَ وَرَأْسِكَ ”
’’نبی اکرم ﷺ نے ایک آدمی کو دیکھا ،اس کا سر ور داڑھی پراگندہ تھی ،آپ نے فرمایا،کیوں تم میں سے کوئی ایک اپنے آپ کو بدنما بناتا ہے،آپ نے اپنی داڑھی اور سر مبارک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا،اپنی داڑھی اور سر کے بالوں سے کاٹ۔‘‘
(شعب الایمان للبیہقی:۶۰۲۰)
تبصرہ:
اس کی سند سخت ترین’’ضعیف‘‘ ہے ،اس میں ابو مالک عبد الملک بن الحسین النخعی ’’متروک‘‘ راوی ہے۔
(تقریب التہذیب:۸۳۳۷)
حافظ ہیثمی کہتے ہیں:رواه الطبراني في الأوسط عن شيخه موسي بن زكريّا التّستريّ وهو ضعيف.
اسے طبرانی نے اپنے شیخ موسیٰ بن زکریا تستری سے بیان کیا ہے اور وہ ضعیف ہے۔‘‘(مجمع الزوائد:۵؍۱۶۴)
اللہ سبحان و تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ھم سب کو سنت کے مطابق داڑھی رکھنے کی توفیق دے -
آمین یا رب العالمین