• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

داڑھی کی شرعی حیثیت :

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
بسم اللہ الرحمن الرحیم

داڑھی کی شرعی حیثیت :

الحمد للہ:


اللہ تعالیٰ نے انسان کی تخلیق احسن انداز میں کی ہے اور داڑھی کے ذریعے اسے زینت بخشی ہے،داڑھی جہاں اللہ تعالیٰ کی ایک نعمت ہے، وہاں اسوۂ رسول بھی ہے، یہ جہاں انسان کا فطرتی حسن ہے، وہاں اللہ کی شریعت بھی ہے، داڑھی جہاں قومی زندگی کی علامت ہے ، وہاں اس کا صفایا مردنی کی دلیل بھی ہے، داڑھی جہاں شعارِ اسلام ہے وہاں محبت رسول ﷺ کا تقاضا بھی ہے ، داڑھی جہاں مرد کے لیے ظاہری حسن وجمال ہے ، وہاں اس کے باطن کی تطہیر کا سبب بھی ہے ،یہ تمام شریعتوں کا متفقہ اسلامی مسئلہ ہے،یہ اسلامی تہذیب ہے ، یہ وہ اسلامی وقار اور ہیبت ہے جس سے مرد و عورت کے درمیان تمیز ہوتی ہے ،نیز اس سے مردوں اور ہیجڑوں کے درمیان امتیاز ہوتا ہے، یہ وہ دینی روپ ہے جس سے سلف صالحین اور فساق و فجار کے درمیان فرق ہوتا ہے ،یہ ایک فطرتی طریقہ ہے جو دلیل کا محتاج نہیں ،نفسانی خواہشات،رسم و رواج اور ماحول سے مرعوب ہو کر اللہ تعالیٰ کی زینت کو بدنمائی میں تبدیل کرنا بزدلی ہے ، اس سے انسان اللہ تعالیٰ کے اس فرمان:

(أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَهَهُ هَوَاهُ) [الجاثية :۲۳]

’’کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا ہے جس نے اپنی خواہشات کو اپنا الہ و معبود بنا لیا ہو؟‘‘ کا مصداق ٹھہرتا ہے۔

داڑھی منڈانا با لاجماع حرام ہے، یہ اللہ تعالیٰ کی معصیت اور اس کی نعمتوں کی ناقدری ہے ، اس کے علاوہ رسول اللہ ﷺ کی مخالفت ہے، یہ اللہ کی تخلیق کے حسن و جمال کی تخریب کاری اور کفار سے مشابہت ہے۔

داڑھی بڑھا کر اور مونچھیں کٹوا کر مشرکین کی مخالفت کرو :

۱ ۔سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

خَالِفُوا المُشْرِكِينَ: وَفِّرُوا اللِّحَى، وَأَحْفُوا الشَّوَارِبَ
’’مشرکوں کی مخالفت کرو ،یعنی داڑھیوں کو بڑھاؤ اور مونچھوں کو کاٹو۔‘‘ (صحیح بخاری:۲؍۸۷۵،ح:۵۸۹۲،صحیح مسلم:۱؍۱۲۹،ح:۲۵۹)

۲۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے یہی روایت ان الفاظ میں بھی آتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

انْهَكُوا الشَّوَارِبَ، وَأَعْفُوا اللِّحَى
’’مونچھوں کو ختم کرو اور داڑھیوں کو بڑھاؤ۔‘‘(صحیح بخاری:۲؍۸۷۵،ح:۵۸۹۳)

۳۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے یہی حدیث ان الفاظ سے بھی مروی ہے:

خَالِفُوا الْمُشْرِكِينَ أَحْفُوا الشَّوَارِبَ، وَأَوْفُوا اللِّحَى
’’مشرکین کی مخالفت کرو،مونچھیں کاٹو اور داڑھیاں بڑھاؤ۔‘‘(صحیح مسلم:۱؍۱۲۹،ح:۵۴؍۲۵۹)

داڑھی رکھنا اور مونچھیں کاٹنا حکم رسول ﷺہے:

۴ ۔ یہ الفاظ بھی ہیں:

أَنَّهُ:أَمَرَ بِإِحْفَاءِ الشَّوَارِبِ، وَإِعْفَاءِ اللِّحْيَةِ
’آپﷺ نے مونچھیں کاٹنے اور داڑھیاں بڑھانے کا حکم دیا۔‘‘(صحیح مسلم:۱؍۱۲۹،ح:۵۳؍۲۵۹)

داڑھی بڑھا کر مجوسیوں کی مخالفت کرو:

۵۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

جُزُّوا الشَّوَارِبَ، وَأَرْخُوا اللِّحَى خَالِفُوا الْمَجُوسَ
’’مونچھیں کاٹو اور داڑھیاں لٹکاؤ،مجوسیوں کی مخالفت کرو۔‘‘(صحیح مسلم:۱؍۱۲۹،ح:۲۶۰)

امام ابوعوانہ رحمہ اللہ نے احادیث پر داڑھی کے وجوب کا باب قائم کیا ہے۔(صحیح ابی عوانہ:۱؍۱۳۴)

داڑھی منڈانا مجوسیوں کا کام ہے:

۶۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسولِ کریم ﷺ نے فرمایا:

إِنَّهُمْ يُوَفِّرُونَ سِبَالَهُمْ، وَيَحْلِقُونَ لِحَاهُمْ، فَخَالِفُوهُمْ
’’وہ مجوسی مونچھیں بڑھاتے اور داڑھیاں منڈاتے ہیں،تم ان کی مخالفت کرو۔‘‘(مصنف ابن ابي شيبه:۸؍۵۶۷۔۵۶۶،المعجم الاوسط للطبراني:۱۰۵۵۔۱۶۴۵،السنن الكبري للبيهقي:۱؍۱۵۱، شعب الايمان للبيهقي:۶۰۲۷،وسنده‘ صحيح)

اس حدیث کو امام ابن حبان رحمہ اللہ (۵۴۷۴) نے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔

اس کا راوی معقل بن عبیداللہ الجزری ’’موثق،حسن الحدیث‘‘ ہے،اس کے بارے میں حافظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:بل هو عند الأكثرين صدوق لا بأس به ’’لیکن وہ اکثر محدثین کے نزدیک ’’صدوق، لا باس بہ‘‘ ہے۔‘‘(میزان الاعتدال للذہبی:۴؍۱۴۶)

شاہ ولی اللہ الدہلوی الحنفی لکھتے ہیں:

وقصها أي اللحية سنة المجوس وفيه تغيير خلق الله
’’داڑھی کو منڈانا مجوسیوں کا طریقہ اور تخلیقِ الٰہی میں تبدیلی ہے۔‘‘(حجۃ اللہ البالغہ:۱؍۱۵۲)

داڑھی بڑھا کر اور مونچھیں کٹوا کر یہود ونصاریٰ کی مخالفت کرو :

۷۔ سیدنا ابو امامہ الباہلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :

فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللهِ إِنَّ أَهْلَ الْكِتَابِ يَقُصُّونَ عَثَانِينَهُمْ وَيُوَفِّرُونَ سِبَالَهُمْ. قَالَ: فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” قُصُّوا سِبَالَكُمْ وَوَفِّرُوا عَثَانِينَكُمْ وَخَالِفُوا أَهْلَ الْكِتَابِ
ہم نے عرض کی ،اے اللہ کے رسول !اہلِ کتاب تو اپنی داڑھیاں کٹواتے اور مونچھیں بڑھاتے ہیں،آپﷺ نے فرمایا:تم اپنی مونچھیں کٹواؤ اور داڑھیاں بڑھاؤ اور اہلِ کتاب کی مخالفت کرو۔‘‘(مسند الامام احمد:۵؍۲۶۴۔۲۶۵،وسندہ حسن)

حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ نے اس کی سند کو ’’حسن‘‘ کہا ہے۔(فتح الباری:۱۰؍۳۵۴)

داڑھی فطرت اسلام ہے :

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

عَشْرٌ مِنَ الْفِطْرَةِ: قَصُّ الشَّارِبِ، وَإِعْفَاءُ اللِّحْيَةِ، وَالسِّوَاكُ، وَاسْتِنْشَاقُ الْمَاءِ، وَقَصُّ الْأَظْفَارِ، وَغَسْلُ الْبَرَاجِمِ، وَنَتْفُ الْإِبِطِ، وَحَلْقُ الْعَانَةِ، وَانْتِقَاصُ الْمَاءِ ” قَالَ زَكَرِيَّا: قَالَ مُصْعَبٌ: وَنَسِيتُ الْعَاشِرَةَ إِلَّا أَنْ تَكُونَ الْمَضْمَضَةَ
’دس خصلتیں فطرتِ اسلامیہ میں سے ہیں: (۱) مونچھیں کاٹنا،(۲) داڑھی کو چھوڑ دینا ،(۳) مسواک کرنا، (۴) وضو کرتے وقت ناک میں پانی چڑھانا، (۵) ناخن کاٹنا، (۶) انگلیوں کے جوڑوں کو دھونا، (۷) بغل کے بال نوچنا، (۸) زیرِ ناف بال مونڈنا، (۹) استنجاء کرنا، راوی کا کہنا ہے کہ دسویں چیز مجھے بھول گئی ہے ،شاید کلی کرنا ہو۔‘‘
(صحیح مسلم:۱؍۱۲۹،ح:۲۶۱)

داڑھی شعارِ اسلام ہے :

سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:

بَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ جَالِسًا، إِذْ جَاءَ شَدِيدُ سَوَادِ اللِّحْيَةِ
’’ایک دن نبی کریمﷺ بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک ایک شخص آیا جس کی داڑھی گہری سیاہ تھی۔۔۔۔اس کے چلے جانے کے بعد نبیﷺ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا ،کیا آپ کو معلوم ہے کہ وہ شخص کون تھا ؟ عرض کی، نہیں!فرمایا:ذَاكَ جِبْرِيلُ أَتَاكُمْ يُعَلِّمُكُمْ دِينَكُمْ ۔ ’’وہ جبریل تھے جو تمہیں تمہارا دین سکھانے آئے تھے۔‘‘
(صحیح ابن حبان:۱۶۸،وسندہ صحیح)

رسول اللہ ﷺ کی داڑھی مبارک :

۱۔ سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ -

رسول اللہ ﷺ کے سر کے اگلے بال اور داڑھی کے ( کچھ) بال سفید ہوگئے تھے،جب آپﷺ تیل لگاتے تو وہ سفیدی معلوم نہیں ہوتی تھی اور جب بال بکھرے ہوئے ہوتے تھے تو سفیدی ظاہر ہوتی تھی ، وَكَانَ كَثِيرَ شَعْرِ اللِّحْيَةِ ۔ آپکی داڑھی مبارک بہت گھنی تھی ،ایک شخص نے کہا کہ آپ کا چہرہ تلوار کی طرح تھا؟انہوں نے کہا، نہیں!بلکہ سورج اور چاند کی طرح تھا ،آپ کا چہرہ گول تھا،میں نے آپ کے کندھے کے پاس کبوتر کے انڈے کے برابر مہرِ نبوت دیکھی، جس کا رنگ جسم مبارک کے رنگ کے مشابہ تھا۔ (صحیح مسلم:۲۳۴۴)

۲۔ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْسَ بِالطَّوِيلِ وَلا بِالْقَصِيرِ، ضَخْمُ الرَّأْسِ وَاللِّحْيَةِ
’’رسول اللہ ﷺ کا قد مبارک نہ بڑا تھا نہ چھوٹا ، آپ کا سر مبارک بڑا اور داڑھی مبارک بھی بڑی تھی۔‘‘(مسند الامام احمد :۱؍۹۶،۱۲۷،وسندہ حسن)

اس حدیث کو امام حاکم رحمہ اللہ (۲؍۶۰۲) نے ’’صحیح الاسناد‘‘ اور حافظ ذہبی نے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔
اس کے راوی عثمان بن مسلم بن ہُر مُز کو امام ابن حبان نے ’’ثقہ‘‘ کہا ہے، امام حاکم نے اس کی حدیث کی سند کی ’’تصحیح‘‘ کی ہے،یہ بھی توثیق ہے ،لہٰذا امام نسائی رحمہ اللہ کی جرح مردود ہے۔

۳۔ ہشام بن حبیش بن خویلد سے روایت ہے کہ :

امِّ معبد کہتی ہیں : وفي لحيته كثاثة
’’نبی کریم ﷺ کی داڑھی مبارک گھنی تھی ۔‘‘ (المستدرک للحاکم :۳؍۹،۱۱،وسندہ حسن)

اس حدیث کو امام حاکم رحمہ اللہ نے ’’صحیح الاسناد‘‘ اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔

۴۔ یزید الفارسی کہتے ہیں کہ :

میں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں رسول اللہ ﷺ کو خواب میں دیکھا تو اس کا ذکر ابن عباس رضی اللہ عنہ سے کیا ،آپ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ فرمایا کرتے تھے،’’شیطان میری مشابہت اختیار کرنے کی طاقت نہیں رکھتا ،جس شخص نے مجھے خواب میں دیکھا ،اس نے مجھے ہی دیکھا‘‘ تو اس شخص کی صفت بیان کرسکتا ہے ،جس کو تو نے خواب میں دیکھا ہے ؟کہا ،ہاں! درمیانے قد والا،گندمی رنگ سفیدی کی طرف مائل ،آنکھیں بڑی بڑی گویا کہ سرمہ ڈالا ہوا ہو ،خوبصو رت مسکراہٹ اور شکل، گول چہرہ قَدْ مَلَأَتْ لِحْيَتُهُ، مِنْ هَذِهِ إِلَى هَذِهِ قَدْ مَلَأَتْ نحرہ داڑھی جو سینے کو بھرے ہوئے تھی ،ابن عباس رضی اللہ عنہ فرمانے لگے ،اگر تو جاگتے ہوئے آپ ﷺ کو دیکھتا تو ان صفات کے سوا اور صفات بیان نہیں کر سکتا تھا ۔‘‘
(طبقات ابن سعد:۱؍۴۱۷،مصنف ابن ابی شیبہ:۱۱؍۵۱۵،۵۶،مسند ابن ابی شیبہ: (الاتحاف:۸۵۰۷)،مسند الامام احمد:۱؍۳۶۲۔۳۶۱،مسند ابی یعلیٰ: (الاتحاف:۵۸۰۸) الشمائل للترمذی:۳۹۳،ابن عساکر(السیرۃ النبویۃ:۱؍۲۳۰۔۲۲۹)،وسندہ حسن)

اس کا روای یزید الفارسی ’حسن الحدیث‘ ہے،اس کے بارے میں امام ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:لا بأس به ’’ اس میں کوئی حرج نہیں۔‘‘ (الجرح والتعدیل:۹؍۲۹۴)
امام ترمذی رحمہ اللہ (۳۰۸۶) ،امام ابن حبان رحمہ اللہ (۴۳) اور امام حاکم رحمہ اللہ ۲؍۲۲۱،۳۳۰) نے اس کی ایک حدیث کو ’’صحیح‘‘ کہا ہے ،یہ اس کی ’’توثیق‘‘ ہے۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔
حافظ ہیثمی اس روایت کے بارے میں لکھتے ہیں :رجاله ثقات
’’اس کے راوی ثقہ ہیں۔‘‘(مجمع الزوائد:۸؍۲۷۲)

صحابہ کرام کی داڑھیاں :

کسی صحابئ رسول سے داڑھی منڈانا قطعی طور پر ثابت نہیں ہے، بلکہ وہ داڑھیاں رکھتے تھے ،جیسا کہ شرجیل بن مسلم بیان کرتے ہیں:

” رَأَيْتُ خَمْسَةً مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُمُّونَ شَوَارِبَهُمْ وَيُعْفُونَ لِحَاهُمْ وَيَصُرُّونَهَا: أَبَا أُمَامَةَ الْبَاهِلِيَّ، وَالْحَجَّاجَ بْنَ عَامِرٍ الثُّمَالِيَّ، وَالْمِقْدَامَ بْنَ مَعْدِيكَرِبَ، وَعَبْدَ اللهِ بْنَ بُسْرٍ الْمَازِنِيَّ، وَعُتْبَةَ بْنَ عَبْدٍ السُّلَمِيَّ، كَانُوا يَقُمُّونَ مَعَ طَرَفِ الشَّفَةِ ”

’’ میں نے پانچ صحابہ کرام کو دیکھا کہ وہ مونچھوں کو کاٹتے تھے اور داڑھیوں کو بڑھاتے تھے اور ان کو رنگتے تھے ،سیدنا ابو امامہ الباہلی،سیدنا حجاج بن عامر الشمالی،سیدنا معدام بن معدی کرب،سیدنا عبداللہ بن بسر المازنی،سیدنا عتبہ بن عبد السلمی،وہ سب ہونٹ کے کنارے سے مونچھیں کاٹتے تھے۔‘‘

(المعجم الکبیر للطبرانی:۱۲،۳۲۱۸؍۲۶۲،مسند الشامین للطبرانی:۵۴۰،وسندہ حسن)

حافظ ہیثمی فرماتے ہیں : واسناده جيد ’’اس کی سند جید ہے۔‘‘(مجمع الزوائد:۵؍۱۶۷)

فائدہ :

حافظ ابن قیّم رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

وأما شعر اللحية ففيه منافع منها الزينة والوقار والهيبة ولهذا لا يرى على الصبيان والنساء من الهيبة والوقار ما يرى على ذوي اللحى ومنها التمييز بين الرجال والنساء

’’داڑھی کے کئی فوائد ہیں،مثلاً اس میں مرد کی زینت ہے اور اس کا وقار اور تعظیم ہے ،اس سے اس کی ہیبت ظاہر ہوتی ہے ،اس لیے بچوں اور عورتوں میں وہ ہیبت اور وقار دکھائی نہیں دیتا جو داڑھی والے مردوں میں موجود ہوتا ہے، نیز داڑھی سے مرد اور عورت کے درمیان فرق اور پہچان ہوتی ہے۔‘‘(التبیان فی اقسام القرآن:ص۲۳۱)

سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :

أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَأْخُذُ مِنْ لِحْيَتِهِ مِنْ عَرْضِهَا وَطُولِهَا
’نبی کریم ﷺ داڑھی کو طول و عرض سے کاٹتے تھے۔‘‘ (جامع الترمذی :۲۷۶۲،شعب الایمان للبیہقی:۶۰۱۹)

تبصرہ:

اس کی سند سخت ترین ’’ضعیف‘‘ ہے،اس کے راوی عمر بن ہارو ن بلخی کو امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ (الجرح والتعدیل :۶؍۱۴۱،وسندہ صحیح) نے ’’کذاب‘‘،امام ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ (الجرح والتعدیل:۶؍۱۴۱) نے ’’ضعیف الحدیث‘‘، امام نسائی رحمہ اللہ (الکامل لا بن عدی:۵؍۳۰) نے ’’متروک الحدیث‘‘اور امام دارقطنی رحمہ اللہ (الضعفاء والمتروکین:۳۶۸) نے ’’ضعیف‘‘ کہا ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:’’یہ متروک ہے‘‘۔ (التقریب:۴۹۷۹)
حافظ منذری رحمہ اللہ لکھتے ہیں:ضعفه الجمهور. ’’اسے جمہور نے ضعیف کہا ہے۔‘‘ (الترغیب والترہیب:۴؍۴۹۴)
حافظ ہیثمی کہتے ہیں:وقد ضعفه أكثرا لناس.’’اسے اکثر محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے۔‘‘(مجمع الزوائد:۱؍۲۷۳)
نیز کہتے ہیں: والغالب عليه الضعف ، وأثني عليه ان مهدي وغيره، ولكن ضعفه جماعةكثيرة.
’’اس پر ضعف غالب ہے ،امام ابن ِ مہدی وغیرہ نے اس کی تعریف کی ہے، لیکن اسے زیادہ محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے۔‘‘(مجمع الزوائد:۲؍۱۹۸) اس پر ابن مہدی کی تعریف ثابت نہیں ہے۔
امام ترمذی رحمہ اللہ امام بخاری رحمہ اللہ کی اس حدیث پر جرح نقل کی ہے۔ (جامع ترمذی: تحت حدیث:۲۷۶۲)
حافظ ابن الجوزی لکھتے ہیں: هذا الحديث لا يثبت عن رسول الله صلي الله عليه وسلم
’’یہ حدیث رسول اللہ ﷺ سے ثابت نہیں۔‘‘(العلل المتناہیۃ:۲؍۱۹۷)
لہٰذا انور شاہ کشمیری دیوبندی صاحب
(فیض الباری: ۴؍۳۸۰) کا اس کے راویوں کو ’’ثقہ‘‘ قرار دینا کوئی معنیٰ نہیں رکھتا۔

جابر عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:

رَأَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا مُجَفَّلٌ الرَّأْسِ وَاللِّحْيَةِ فَقَالَ: ” عَلَى مَا شَوَّهَ أَحَدُكُمْ أَمْسِ؟ ” قَالَ: وَأَشَارَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى لِحْيَتِهِ وَرَأْسِهِ يَقُولُ: ” خُذْ مِنْ لِحْيَتِكَ وَرَأْسِكَ ”

’’نبی اکرم ﷺ نے ایک آدمی کو دیکھا ،اس کا سر ور داڑھی پراگندہ تھی ،آپ نے فرمایا،کیوں تم میں سے کوئی ایک اپنے آپ کو بدنما بناتا ہے،آپ نے اپنی داڑھی اور سر مبارک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا،اپنی داڑھی اور سر کے بالوں سے کاٹ۔‘‘

(شعب الایمان للبیہقی:۶۰۲۰)
تبصرہ:

اس کی سند سخت ترین’’ضعیف‘‘ ہے ،اس میں ابو مالک عبد الملک بن الحسین النخعی ’’متروک‘‘ راوی ہے۔
(تقریب التہذیب:۸۳۳۷)
حافظ ہیثمی کہتے ہیں:رواه الطبراني في الأوسط عن شيخه موسي بن زكريّا التّستريّ وهو ضعيف.
اسے طبرانی نے اپنے شیخ موسیٰ بن زکریا تستری سے بیان کیا ہے اور وہ ضعیف ہے۔‘‘(مجمع الزوائد:۵؍۱۶۴)

اللہ سبحان و تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ھم سب کو سنت کے مطابق داڑھی رکھنے کی توفیق دے -


آمین یا رب العالمین

 

Imran Ahmad

مبتدی
شمولیت
جنوری 20، 2016
پیغامات
13
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
7
جب کسی صحابی سے داڑھی منڈوانا ثابت نہیں ہے تو حضور پاک نے حکم کس کو دیا. یہاں تک کے اس زمانے میں مشرکین اور یہودی بھی داڑھی رکھتے تھے. اسے کوئی بھی نہیں کاٹتا تھا. کہیں ایسا نو نہیں کے ان کا حکم صرف داڑھی والوں کی لیے ہو کہ وہ اپنی داڑھی یہودیوں سے مختلف رکھیں. اس میں کوئی شبہ نہیں کے یہ سنّت ہے اور اس کو رکھنا ثواب کا باعث ہے. مگر جو داڑھی نہ رکھے اس پر کوئی گناہ نہیں اور نہ ہی اس کے ایمان میں کوئی کمی ہے. خاص طور پر جب وہ فرائض میں کوئی کوتاہی نہ کرتا ہو. براے مہربانی رہنامی فرمائیں.
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
جب کسی صحابی سے داڑھی منڈوانا ثابت نہیں ہے تو حضور پاک نے حکم کس کو دیا. یہاں تک کے اس زمانے میں مشرکین اور یہودی بھی داڑھی رکھتے تھے. اسے کوئی بھی نہیں کاٹتا تھا.
بھئی آپ نے پورا پڑھا نہیں اوپر مجوسیوں کے داڑھی کٹنے کا ذکر ہے اور اہل کتاب عیسائیوں کے کاٹنے کا بھی ذکر ہے البتہ مشرکین مکہ نہیں کاٹتے تھے
دوسری بات یہ کہ صحابہ میں نے اگر کوئی نہیں بھی کاٹتا تھا مگر چونکہ دوسرے کاٹتے تھے تو اللہ کے نبی ﷺ اسکو بتانا کون سی ایسی بات ہے جو عقل میں نہیں آ رہی
اس طرح توقرآن کے بارے بھی کہا جا سکتا ہے کہ جب سب صحابہ نے شرک چھوڑ دیا تھا تو پھر شرک والی آیات بعد میں قرآن میں کیوں نازل کی گئی اور کس کو بتائی گئیں
انہوں نے مختلف وجوہات کی وجہ سے صحابہ کو بتایا مثلا صحابہ کو بتائے گئے احکامات خالی انہیں کے لئے نہیں تھے بلکہ بلغوا عنی ولو ایہ اور فلیبلغ الشاھد الغائب پر عمل کے لئے بھی تو تھے
اسی طرح یہ بھی یاد رکھا جانا چاہئے کہ جو لوگ کوئی کام کر بھی رہے ہوں پھر بھی انکی استقامت کے لئے اور یادہانی کے لئے وہی بات انکے سامنے کی جا سکتی ہے مثلا ایک محب وطن پاکستانی شہری چونکہ محب وطن ہے اب اسکے سامنے ترانہ بھی نہیں پڑھا جائے اسکے سامنے پاکستان سے محبت کی باتیں بھی نہ کی جائیں وغیرہ

کہیں ایسا نو نہیں کے ان کا حکم صرف داڑھی والوں کی لیے ہو کہ وہ اپنی داڑھی یہودیوں سے مختلف رکھیں.
یہ تو آپ نے ایک مفروضہ قائم کیا ہے جسکا باطل ہونا اوپر کی وضاحت کے بعد عیاں ہے

اس میں کوئی شبہ نہیں کے یہ سنّت ہے اور اس کو رکھنا ثواب کا باعث ہے. مگر جو داڑھی نہ رکھے اس پر کوئی گناہ نہیں اور نہ ہی اس کے ایمان میں کوئی کمی ہے. خاص طور پر جب وہ فرائض میں کوئی کوتاہی نہ کرتا ہو. براے مہربانی رہنامی فرمائیں.
اچھا بھئی ذرا یہ بتائیں کہ سنت اور فرض میں آپ کیسے فرق کرتے ہیں جو اوپر میں نے آپ کے دو الفاظ سنت اور فرض کو ہائیلائٹ کیا ہے وہ آپ نے کیسے پہچانے یعنی آپکے ہاں کسی چیز کے سنت (بمعنی مستحب) کب ہوتا ہے اور فرض کب ہوتا ہے
اس سے بھی پہلے آپ یہ ذرا بتا دیں کہ آپ کا عقیدہ حدیث کے بارے کیا ہے کیا آپ اسکو اس طرح حجت مانتے ہیں جس طرح اہل سنت حجت مانتے ہیں یا نہیں کیونکہ میں نے جو آپ کی پوسٹ پڑھی ہیں اس سے یہ شک لگتا ہے کہ آپ احادیث کو حجت نہیں سمجھتے پس آپ اس شک کی وضاحت کر دیں تاکہ اسی پس منظر میں آپکی راہ نمائی کی جا سکے یا شاید آپ سے راہنمائی لی جا سکے
 

Imran Ahmad

مبتدی
شمولیت
جنوری 20، 2016
پیغامات
13
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
7
آپ کے جواب کا شکریہ!

فرائض وہ ہیں جن کے بغیر دین مکمّل نہیں ہوتا. یہ دین کی اساس ہیں. اور حضرت ابراہیم عليه السلام کے وقت سے دین کا حصّہ ہیں . ان کا ذکر قرآن میں ہے اور ان میں سے کسی کا انکار دین سے باہر کر دیتا ہے. ایسا کوئی فرض نہیں ہے جس کا ذکر قرآن میں نہ ہو. اس کی مثال الله پر ایمان، نماز ، روزہ وغیرہ ہے.
. ان پر امّت کا اجماع ہے اور یہ تواتر کے ساتھ ہم تک پوھنچے.
البتہ فرائض کے تشریح سنّت کی روشنی میں کی جاتی ہے
کسی چیز کے حجت بننے کے لیے یہ ضروری ہے کے اس پر امّت کا اجماع ہو. حدیث کو حجت اسی لیے نہیں مانا جا سکتا کیوں کے بہت سی احادیث پر امّت کا اجماع نہیں ہے. مثال کے طور پر . اگر ایک گروہ نماز میں امین ونچی آواز میں کہتا ہی تو دوسرا اس کو کافر قرار دیتا ہے. نماز پر تو اجماع ہے مگر یہ آج تک نہیں پتا چلا کے ہاتھ کہاں باندھنے ہیں. پھر حدیث کیسے حجت بنے گی. داڑھی کو بھی کچھ علما ضروری قرار دیتے ہیں اور کچھ نہیں. صحیح بخاری سے پہلے احادیث ایک جگہ کتاب کی شکل میں نہیں موجود تھیں. تو ان لوگوں کا کیا ہو گا جن تک کچھ احادیث نیہں پوھنچی ہو گیں . یا ان لوگوں کا کیا ہو گا جن تک کوئی غلط حدیث پوھنچی اور ان اس وقت صحیح بخاری موجود نہیں تھی.

لہذا وہ فرائض جو الله نے قرآن میں بیان کیے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنّت اور تواتر کے ساتھ ہم تک پوھنچے اور ان پر پوری امّت کا اجماع ہے، ان کو فالو کرنا اور عمل کرنا ہمارے لیےضروری ہے. باقی ہر عمل اور حدیث پر ہر شخص اپنی استطاعت کے مطابق عمل کرے گا. اور اس کا فیصلہ روز حساب الله پر چھوڑ دینا چاہیے. علماء کو بھی چاہیے کے یا تو وہ احادیث پر امّت کو اجماع پر لے آییں یا پھر کفر کے فتوے بند کر دیں.
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
آپ کے جواب کا شکریہ!
آپ کا بھی شکریہ کہ آپ نے میرے سوال کے جواب کی وضاحت کر دی کہ آپ کے نزدیک حدیث حجت نہیں ہے
لیکن انتہائی معذرت کہ مجھے آپ کی بات انصاف پہ مبنی نہیں لگی
پس میں آپ کی پوسٹ کا اقتباس لیتا ہوں اس میں نمبر وار پوائنٹ ہائیلائٹ کر کے پھر ایک ایک پر کمنٹ کرتا ہوں کہ کہاں کہاں نا انصافی کی گئی ہے


1۔فرائض وہ ہیں جن کے بغیر دین مکمّل نہیں ہوتا. یہ دین کی اساس ہیں. اور حضرت ابراہیم عليه السلام کے وقت سے دین کا حصّہ ہیں . ان کا ذکر قرآن میں ہے اور ان میں سے کسی کا انکار دین سے باہر کر دیتا ہے.
2۔ایسا کوئی فرض نہیں ہے جس کا ذکر قرآن میں نہ ہو. اس کی مثال الله پر ایمان، نماز ، روزہ وغیرہ ہے.
3۔ان پر امّت کا اجماع ہے اور یہ تواتر کے ساتھ ہم تک پوھنچے.
4۔البتہ فرائض کے تشریح سنّت کی روشنی میں کی جاتی ہے
5۔کسی چیز کے حجت بننے کے لیے یہ ضروری ہے کے اس پر امّت کا اجماع ہو.
6۔حدیث کو حجت اسی لیے نہیں مانا جا سکتا کیوں کے بہت سی احادیث پر امّت کا اجماع نہیں ہے. مثال کے طور پر . اگر ایک گروہ نماز میں امین ونچی آواز میں کہتا ہی تو دوسرا اس کو کافر قرار دیتا ہے.
7۔نماز پر تو اجماع ہے مگر یہ آج تک نہیں پتا چلا کے ہاتھ کہاں باندھنے ہیں. پھر حدیث کیسے حجت بنے گی. داڑھی کو بھی کچھ علما ضروری قرار دیتے ہیں اور کچھ نہیں.
صحیح بخاری سے پہلے احادیث ایک جگہ کتاب کی شکل میں نہیں موجود تھیں. تو ان لوگوں کا کیا ہو گا جن تک کچھ احادیث نیہں پوھنچی ہو گیں .
9۔یا ان لوگوں کا کیا ہو گا جن تک کوئی غلط حدیث پوھنچی اور ان اس وقت صحیح بخاری موجود نہیں تھی.
10۔لہذا وہ فرائض جو الله نے قرآن میں بیان کیے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنّت اور تواتر کے ساتھ ہم تک پوھنچے اور ان پر پوری امّت کا اجماع ہے،
11۔ ان کو فالو کرنا اور عمل کرنا ہمارے لیےضروری ہے. باقی ہر عمل اور حدیث پر ہر شخص اپنی استطاعت کے مطابق عمل کرے گا. اور اس کا فیصلہ روز حساب الله پر چھوڑ دینا چاہیے.
12۔ علماء کو بھی چاہیے کے یا تو وہ احادیث پر امّت کو اجماع پر لے آییں یا پھر کفر کے فتوے بند کر دیں
.
اب ان پر نمبر وار کمنٹ دیکھیں



1۔فرائض وہ ہیں جن کے بغیر دین مکمّل نہیں ہوتا

جواب واضح نہیں اس سلسلے میں میرا پہلا سوال ہے کہ کیا فرائض کے ساتھ دین مکمل ہو جاتا ہے یا خالی انکے ساتھ بھی دین مکمل نہیں ہوتا جواب ضرور دیں تاکہ مزید اس پہ بات ہو سکے


2۔ایسا کوئی فرض نہیں ہے جس کا ذکر قرآن میں نہ ہو.

اوپر والے میرے سوال کا جواب آنے کے بعد اس پہ بات ہو گی ان شاءاللہ


3۔ان پر امّت کا اجماع ہے اور یہ تواتر کے ساتھ ہم تک پوھنچے.

یعنی آپ کہنا چاہ رہے ہیں کہ قرآن پر تو امت کا اجماع ہے مگر احدیث پر امت کا اجماع نہیں ہے تو بھئی ہم اہل حدیث تو کہتے ہیں کہ حدیث پہ بھی امت کا اجماع ہے تو یہاں اختلاف آ گیا تو اسکے لئے پہلے امت اور اجماع کا تعین کرتے ہیں تاکہ پت چلے کہ آپ کا دعوی درست ہے یا ہمارا
پس دوسرا سوال ہے کہ آپ کے نزدیک امت سے کیا مراد ہے کیا اس میں اہل حدیث شیعہ سنی منکرین حدیث مرزائی بریلوی اسماعیلی سب شامل ہیں یا صرف منکرین حدیث
اور تیسرا سوال یہ ہے کہ قرآن پہ اجماع سے آپکی مراد قرآن کے الفاظ پہ اجماع یا اسکے مفہوم پہ اجماع ہے
اور چوتھا سوال یہ کہ آپ کے ہاں تواتر سے کیا مراد ہے

4۔البتہ فرائض کے تشریح سنّت کی روشنی میں کی جاتی ہے

اب مثلا نماز فرض ہے مگر اسکے طریقہ کی تشریح آپ کے قول کے مطابق سنت کی روشنی میں ہوتی ہے
اس سلسلے میں میرا پانچواں سوال ہے کہ سنت کی روشنی سے کیا مراد ہے کیا اس سے مراد حدیث ہے
اگر ہاں تو پھر چھٹا سوال ہے کہ کیا حدیث کی روشنی میں ہی قرن کے کسی فرض مثلا نماز کی تشریح کرنا بھی لازمی ہوتی ہے
مثلا نماز کو قرآن میں الصلوۃ کہا گیا ہے اب اس الصلوۃ کی تشریح کچھ منکرین حدیث غالبا طلوع اسلام والے اسکے لغوی معنی یعنی چوتڑوں کو ہلانا کرتے ہیں اور قبل طلوع الشمس و قبل غروبھا کی تشریح یہ کرتے ہیں کہ صبح ریس کورس میں جا کر ورزش کر کے چوتڑوں کو ہلا لو اور شام کو بھی تو نماز بمعنی الصلوۃ ادا ہو گئی تو کیا ہم انکو کہیں گے کہ نہیں نماز کی تشریح حدیث کے مطابق کرو تو کیا ہم انکو حدیث کی تشریح کی پیروی کرنے کا پابند کر سکتے ہیں یعن پھر اس تشریح پہ عمل کرنا فرض نہیں ہو جائے گا اور یہ تو قرآن سے باہر کی چیز پہ عمل کرنا لازم ہو جائے گا جو کہ اوپر آپکے دو نمبر کے خلاف ہو جائے گا

5۔کسی چیز کے حجت بننے کے لیے یہ ضروری ہے کے اس پر امّت کا اجماع ہو

اس پہ اوپر امت اور اجماع پہ میرے دوسرے اور تیسرے سوال کے بعد بات ہو گی

6۔حدیث کو حجت اسی لیے نہیں مانا جا سکتا کیوں کے بہت سی احادیث پر امّت کا اجماع نہیں ہے

اس پہ اوپر امت اور اجماع پہ میرے دوسرے اور تیسرے سوال کے بعد بات ہو گی

7۔نماز پر تو اجماع ہے مگر یہ آج تک نہیں پتا چلا کے ہاتھ کہاں باندھنے ہیں. پھر حدیث کیسے حجت بنے گی

اس سے آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ نماز پر تو اجماع ہے مگر اسکے مفہوم ور ہیت پر اتفاق نہیں ہے اورجس چیز پر اتفاق نہ ہو وہ حجت نہیں ہوتی پس چونکہ نمازکے مفہوم و ہیت کا پتا چونکہ حدیث سے چلا ہے پس ایسے اختلاف والی حدیث حجت کیسے بن سکتی ہے
اسی سے ملتی جلتی مثال ہم توحید کی لیتے ہیں آپ کے ہاں بھی توحید قرآن سے ثابت فرض ہے مگر اسکے مفہوم و ہیت پہ اسی امت میں اختلاف ہے اور یہ اختلاف احادیث کی وجہ سے نہیں بلکہ قرآن کی وجہ سے ہے کیونکہ مشرک ور موحد دونوں توحید کی تشریح میں اسی قرآن سے ہی اپنے اپنے دلائل لے کر آتے ہیں بریلوی سلیمان علیہ السلام کے جن اور ولی والا قصہ اور حضر علیہ السلام والا قصہ اسی قران سے ہی نکالتے ہیں تو
پھر میرا ساتواں سوال ہے کہ یہ قرن کیسے حجت بنے گا جب اسکے مفہوم پہ اس امت کا اختلاف نہیں (یہاں ابھی میں نے فرض کیا ہے کہ آپ امت میں بریلوی شیعہ سنی وھابی منکرین حادیث سب کو لیتے ہیں ورنہ اوپر والے دوسرے تیسرے سوال کے جواب کے بعد ضرورت ہونے پہ اس سوال کو تبدیل کروں گا)

8۔صحیح بخاری سے پہلے احادیث ایک جگہ کتاب کی شکل میں نہیں موجود تھیں. تو ان لوگوں کا کیا ہو گا جن تک کچھ احادیث نیہں پوھنچی

پہلے یہ جان لیں کہ ہم صحیح بخاری کی جلد کو نہیں مانتے بلکہ اس میں موجود احادیث کو صحیح سند کے ساتھ ہم تک پہنچنے کی وجہ سے مانتے ہیں چاہے صحیح بخاری لکھی ہوئی ہو یا نہ لکھی ہوئی ہو (اگر یہ ہمارا عقیدہ نہ ہو تو بتائیں)
اب جب بخآری نہیں تھی تو احادیث تو موجود تھیں ان احادیث کا لکھا ہوا ہونا کچھ معنی نہیں رکھتا جب وہ سینوں میں محفوظ تھی
اگرپھر بھی اعتراض ہے تو پھر میرا آٹھواں سوال ہے کہ قرآن پہ اعراب کافی بعد میں لگائے گئے اس سے پہلے آپ کے اسلاف سورۃ فاتحہ میں انعمتَ علیھم پڑھتے تھے یا انعمتُ پڑھتے تھے کیونکہ ایک طرح پڑھنا اسلام تو دوسری طرح پڑھنا آپ کے ہاں بھی کفر ہے مگر آپ کے اسلاف کہیں غلطی میں کفریہ قول تو نہیں کہ جتے تھے اور انعمتُ علیھم پڑھتے رہتے تھے اگر آپ کہیں کہ انکو بغیر لکھے ہوئے ہی یاد تھا تو یہی ہم بخاری کے لکھے ہونے سے پہلے اسکی حادیث کے یاد والی بات کیوں نہیں کر سکتے

9۔ان لوگوں کا کیا ہو گا جن تک کوئی غلط حدیث پوھنچی اور ان اس وقت صحیح بخاری موجود نہیں تھی

ہمارے ان اسلاف نےایسے وقت وہی کیا ہو گا جو آپ کے اسلاف نے قرآن کے اعراب کے نہ ہونے کے وقت انعمتُ کی بجائے انعمتَ پڑھنے کے لئے کیا ہو گا

10۔وہ فرائض جو الله نے قرآن میں بیان کیے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنّت اور تواتر کے ساتھ ہم تک پوھنچے اور ان پر پوری امّت کا اجماع ہے

یہاں بھی معاملہ وہی ہے جو اوپر بتایا ہے چار نمبر میں

11۔ ان کو فالو کرنا اور عمل کرنا ہمارے لیےضروری ہے. باقی ہر عمل اور حدیث پر ہر شخص اپنی استطاعت کے مطابق عمل کرے گا

وہی اوپر والا چار نمبر کا سوال کہ عمل اپنی مرضی کی تشریح کے ساتھ کر سکتے ہیں بغیر حدیث کو دیکھے ہوئے یا نہیں

12۔ علماء کو بھی چاہیے کے یا تو وہ احادیث پر امّت کو اجماع پر لے آییں یا پھر کفر کے فتوے بند کر دیں

میرا نواں سوال کہ کل کو منکرین قرآن اگر کھڑے ہو جائیں یہی اوپر والی دلیل لے کر کہ علماء کو چاہئے کہ یا تو وہ قرآن کی تعلیمات پر امت کو اجماع پر لے آئیں یا پھر کفر کے فتوے بند کر دیں یعنی توحید پر ہی امت کو قرآن پہ اجماع پہ لے آئیں رسالے پہ ہی امت کو اجماع پہ لے آئیں کیونکہ مرزا قادیانی یوسف کذاب جیسے تو ہر دور میں رہے ہیں تو قرآن پہ تو لوگ متفق نہ ہو سکے
 

Imran Ahmad

مبتدی
شمولیت
جنوری 20، 2016
پیغامات
13
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
7
فرائض کے ساتھ دین مکمّل نہیں ہوتا کیوں کے دین پورے نظام اور حیات گزرانے کا نام ہے. فرائض کے ساتھ ایمان مکمّل ہو جاتا ہے. جن فرائض کا اقرار کر کے آپ ایمان لاتے ہیں انہی میں سے کسی کا انکار اپ کو ایمان سے خارج کر سکتا ہے. اس کے علاوہ کوئی گناہ بظاھر کتنا بھی برا اور بڑا کیوں نہ ہو، ایمان سے خارج نہیں کرتا. اور تمام فرائض جن کا ماننا ایمان کے لیے ضروری ہے، ان کا ذکر قرآن میں ہے.

امّت سے مرد ہر وہ شخص ہے جو ارکان ایمان کو صدق دل سے مانتا ہے اور اقرار کرتا ہے.

اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا
اس کے فرشتوں پر ایمان لانا
اس کی کتابوں پر ایمان لانا
اس کے رسولوں پر ایمان لانا
قیامت کے دن پر ایمان لانا
اور اچھی اور بری تقدیر پر ایمان لانا

قرآن پر اجماع سے مراد قرآن کے الفاظ پر ہے. مفہوم سب نے اپنے اپنے تدّبر سے لیا ہے.
تواتر سے مراد یہ ہے کے کوئی عمل جیسے صحابہ نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو کرتے دیکھا اور اس کو فالو کیا ویسے ہے وہ نسل دار نسل اگے منتقل ہوا. ان اعمال کی ادائیگی میں اگر کوئی اختلاف ہے تو اس کے لیے صحیح حدیث سے رجوع کیا جائی گا. یہ تمام اعمال ووہی ہیں جن کا ذکر قرآن میں موجود ہے. اس کے علاوہ جو اعمال احادیث کے حوالے سے موجود ہیں، ان پر ہر شخص اپنی استیطاعت کے مطابق عمل کرے گا.

سنّت کی روشنی سے مراد عمل متواتر ہے اور اس کی مزید تشریح حدیث سے کی جائی گی.

الصلوۃ یا قرآن کے کسی اور لفظ کی تشریح جو منکر حدیث کرتے ہیں وہاں اگر تدّبر استمعال کیا جائی اور قرآن پر غور کیا جائی تو حقیقت سامنے آ جائی گی. منکر حدیث کیا سنّت کے قائل ہیں ؟ . اگر نہیں تو ان کو کوئی بھی تشریح قبول نہیں کی جا سکتی.
ویسے نماز پچھلی امتوں میں بھی پڑھی جاتی تھی اور مشرکین نماز سے واقف تھے. نماز اور اس پر عمل کسی بھی صورت قرآن سے باہر کی چیز نہیں.

قرآن پاک صرف ان لوگوں کے لئے ہدایت ہے جو پرہیزگار ہیں اور اس کو قلب سلیم کے ساتھ پڑھتے ہیں. جن لوگوں کے دل میں ٹیڑھ ہے وہ اپنی مرضی کا مطلب نکل کر گمراہ ہوتے ہیں. ہدایت انسان کی فطرت میں ودیعت کر دی گئی ہے. قرآن میں بیان شدہ قصّوں سے دین کے احکامات اخذ نہیں کے جا سکتے.

حضرت عثمان رضي الله عنه کے زمانے میں جب اسلام پھیل رہا تھا تو ہر علاقے میں جہاں قرآن بھیجا جاتا تھا وہاں قرآن کو صحیح پڑھنے والا عالم بھی بھیجا جاتا تھا. احادیث کے سینوں میں محفوظ ہونے کا کیا مطلب ہے؟ جس طرح قرآن کے حفاظ تھے کیا ویسے ہی حدیث کے بھی تھے؟ . جبکے ہمیں یہ پتا ہے کے نزول قرآن کے وقت صرف قرآن کو حفظ اور لکھنے کی تلقین تھی تا کے قرآن میں کوئی دوسرا کلام گڈ مڈ نہ ہو جائے. قرآن الله کا کلام ہے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم عملی نمونہ جس کو سنّت کہا جاتا ہے.

منکرین قرآن تو ایمان کے منکر ہو گئے کیوں کے وہ الله کی کتاب کو نہیں مانتے. باقی تعلیمات میں اختلاف پر بھی علماء کو کفر کا فتویٰ تبھی دینا چاہیے جب وہ بنیادی اراکین ایمان کی نفی کریں.

اگر کسی بات کا جواب نہ دیا ہو یا مبہم ہو تو براے مہربانی بتا دیں.
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
1- داڑھی منڈانا باعث لعنت ہے ،سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایاہے:

سِتَّةٌ لَعَنْتُهُمْ وَلَعَنَهُمُ اللَّهُ.............وَالتَّارِكُ لِسُنَّتِي۔

’’چھ آدمیوں پر میں بھی لعنت کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ بھی (ان میں سے ایک ہے) میری سنت کو چھوڑ دینے والا۔‘‘


(جامع ترمذی:۲۱۵۴،وسندہ حسن)

اس حدیث کو امام ابن حبان (۵۷۴۹) اور امام حاکم (۲؍۵۲۵) رحمہما اللہ نے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔

اس کے راوی عبد الرحمٰن بن ابی الموال کے بارے میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

ثقة مشهور۔ ’’یہ مشہور ثقہ راوی ہے۔‘‘
(المغنی ۲؍۴۱۴)

حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:من ثقات المدنيين۔ ’’یہ ثقہ مدنی راویوں میں سے ہے۔‘‘ (فتح الباری:۱۱؍۱۸۳)

اس کا دوسرا راوی عبید اللہ بن عبد الرحمٰن بن موہب ’’ مختلف فیہ‘‘ ہے،راجح قول کے مطابق وہ جمہور کے نزدیک’’حسن الحدیث‘‘ ہے۔

یاد رہے کہ یہاں سنت سے مراد فرضی اور واجبی سنتیں مثلاً نماز ، روزہ، حج، زکوٰۃ، شلوار ٹخنوں سے اوپر رکھنا، داڑھی رکھنا وغیرہ ہیں۔

اب جو بھی شخص منڈائے گا ،وہ اس فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی لعنت کا مستحق ہو جائے گا۔

۲۔ داڑھی منڈانا عورتوں کے ساتھ مشابہت ہے اور عورتوں کے ساتھ مشابہت اختیار کرنا موجبِ لعنت ہے ،جیسا کہ ابنِ عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ المُتَشَبِّهِينَ مِنَ الرِّجَالِ بِالنِّسَاءِ، وَالمُتَشَبِّهَاتِ مِنَ النِّسَاءِ بِالرِّجَالِ

’’رسول کریم ﷺ نے عورتوں کے ساتھ مشابہت اختیار کرنے والے مردوں اور مردوں کے ساتھ مشابہت اختیار کرنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے۔‘‘

(صحیح بخاری:۵۸۸۵)
۳۔ داڑھی منڈانا ہندوؤں،یہودیوں،عیسائیوں،مجوسیوں اور مشرکوں کے ساتھ مشابہت ہے،سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ۔

جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی ،وہ (روزِ قیامت) انہی میں سے ہو گا۔‘‘


(سنن ابی داؤد:۴۰۳۱،مسند الامام احمد:۲؍۵۰،مصنف ابن ابی شیبہ:۵؍۳۱۳،شعب الایمان للبیہقی:۱۱۹۹،وسندہ حسن)

حافظ ذہبی رحمہ اللہ (سیر اعلام النبلاء:۱۵؍۵۰۹) نے اس کی سند کو ’’صالح‘‘،حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ (اقتضاء الصراط المستقیم:۱؍۲۴۰)نے ’’جید‘‘ اور حافظ عراقی رحمہ اللہ (تضریج احادیث الاحیاء۱؍۲۶۹) نے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔

داڑھی منڈانا جب کافر اور باغی قوموں کا شعار ہےاور کفر کی رسم ہے تو کفار کے شعار اور ان کی رسومات کو اختیار کرنا کیونکر صحیح و درست ہو گا۔

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

أَبْغَضُ النَّاسِ إِلَى اللَّهِ ثَلاَثَةٌ: مُلْحِدٌ فِي الحَرَمِ، وَمُبْتَغٍ فِي الإِسْلاَمِ سُنَّةَ الجَاهِلِيَّةِ، وَمُطَّلِبُ دَمِ امْرِئٍ بِغَيْرِ حَقٍّ لِيُهَرِيقَ دَمَهُ

’’اللہ تعالیٰ کے ہاں بدترین آدمی تین ہیں:

(۱) حرم میں کج روی کرنے والا۔

(۲) اسلام میں کفر کی رسم تلاش کرنے والا اور

(۳) کسی آدمی کا ناحق خون بہانے کا متلاشی۔‘‘


(صحیح بخاری:۶۸۸۲)


سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ایک خط میں لکھا تھا :

واياكم والتنعم وزي العجم

عیش پرستی اور عجمیوں کی وضع قطع اختیار کرنے سے بچو!‘‘


(مسند علی بن الجعد :۹۹۵،وسندہ صحیح)

۴۔ داڑھی منڈانا تمام انبیاء کی عملی طور پر مخالفت اور نافرمانی ہے ،ارشاد بای تعالیٰ ہے:

فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَنْ تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذابٌ أَلِيمٌ(النور:63)

’’جو لوگ اس(پیغمبر ) کے امر کی مخالفت کرتے ہیں،انہیں ڈرنا چاہیئے کہ ان کو کوئی آزمائش یا دردناک عذاب نہ آلے۔‘‘

نبیﷺ کا ارشاد ہے :

وَجُعِلَ الذِّلَّةُ، وَالصَّغَارُ عَلَى مَنْ خَالَفَ أَمْرِي

’’میرے حکم کی مخالفت کرنے والے پر ذلت ورسوائی مسلط کر دی جاتی ہے۔‘‘


(مسند الامام احمد:۲؍۵۰،وسندہ حسن کما مر)

۵۔ داڑھی منڈانا تمام صحابہ،تابعین،ائمہ دین اور اولیاء اللہ کی مخالفت ہے، ارشاد الٰہی ہے:

وَمَنْ يُشاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَساءَتْ مَصِيراً۔ (النساء:115)

’’اور جو شخص (راہِ) ہدایت واضح ہو جانے کے بعد بھی رسول کی نافرمانی کرتا ہے اور مومنوں کے راستے کے علاوہ کسی اور راستے پر چلتا ہے ،ہم اسے پھیر دیتے ہیں جس طرف وہ پھرتا ہے اور اس کا ٹھکانا جہنم ہے اور بری ہے یہ جگہ ٹھکانے کے اعتبار سے۔‘‘

۶۔ داڑھی منڈانے والا نبیﷺ کی کئی سنتوں ،مثلاً وضو کرتے وقت خلال کرنے ،داڑھی کو تیل لگانے ،داڑھی کو کنگھی کرنے اور داڑھی کو رنگنے وغیرہ سے محروم ہو جاتا ہے۔

۷۔ داڑھی منڈانے والا فاسق ہے اور داڑھی منڈا کر لوگوں کو اپنے فسق پر گواہ بناتا ہے۔

۸ ۔ داڑھی منڈانا ممنوع و حرام ہے اور فسق و فجور ہے ،فسق و فجور کا اظہار گناہ ہے۔

۹۔ اس حرام کام کے لیے حجام کو اجرت دی جاتی ہے اور حرام کام پر اس کا تعاون کیا جاتا ہے،حالانکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

وَتَعاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوى وَلا تَعاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ (المائده:2)

’’ایک دوسرے کا نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں تعاون کرو،گناہ اور ظلم و زیادتی کے کاموں پر تعاون نہ کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو۔‘‘


۱۰۔ داڑھی منڈانے پر پیسہ خرچ کرنا باطل اور معصیت میں خرچ کرنا ہے جو کہ فضول خرچی ہے ،اس سے انسان شیطان کا بھائی بن جاتا ہے ، فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

وَلا تُبَذِّرْ تَبْذِيراً (26) إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كانُوا إِخْوانَ الشَّياطِينِ وَكانَ الشَّيْطانُ لِرَبِّهِ كَفُوراً۔(بني اسرائيل:27)

’’فضول خرچی مت کرو،بلاشبہ فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہوتے ہیں اور شیطان اپنے رب کی نعمتوں کی قدر نہیں کرتا۔‘‘

۱۱۔ یہ پیسے اور وقت کا ضیاع ہے۔

۱۲۔ حجام کو داڑھی مونڈنے کا حکم دے کر برائی کا حکم دیا جاتا ہے۔

۱۳۔ داڑھی منڈا کر اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی زینت کو قباحت میں تبدیل کیا جاتا ہے ۔داڑھی منڈانے والا آیتِ کریمہ(فَلَيُغَيِّرُنَّ خَلْقَ اللَّهِ)کے تحت اللہ تعالیٰ کو ناراض کرتا ہے۔

۱۴۔ داڑھی منڈا کر زبانِ حال سے تخلیقِ الٰہی پر اعتراض کرتا ہے۔

۱۵۔ داڑھی منڈانے والا آئینہ دیکھتا ہے تو قبیحِ شرعی کو اپنے زعم میں حسین سمجھتا ہے اور یہ گناہ ہے۔

۱۶۔ اکثر داڑھی منڈانے والے وقار و تہذیب سے عاری ہوتے ہیں۔

۱۷۔ داڑھی منڈانے والا زبانِ حال سے یہ باور کراتا ہے کہ معاذ اللہ نبئ کریم ﷺ خوبصورت نہ تھے ،کیونکہ آپ کے چہرہ انور پر داڑھی موجود تھی۔

۱۸۔ اکثر داڑھی منڈانے والے داڑھی والوں کو حقارت اور نفرت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔

۱۹۔ بسا اوقات داڑھی منڈانے والے داڑھی والے کو بکرا،چھیلااور سِکھ تک کہ دیتے ہیں،یہ سنت ِ رسول کا استہزاء ہے جو کہ واضح کفر ہے۔

۲۰ - غیر مسلم قومیں داڑھی منڈانے سے خوش ہوتی ہیں۔

۲۱۔ داڑھی منڈانے والا اذان اور اقامت نہیں کہ سکتا کیونکہ اس کا فسق اعلانیہ ہے،یہ سعادت اور اجروثواب سے محرومی ہے۔

۲۲۔ داڑھی مندانے والا امامت کا اہل نہیں ،کیونکہ وہ واضح فسق ہے۔

۲۳۔ داڑھی مندانے والا ہیجڑوں جیسی شکل بنا کر اسلامی معاشرے کی عزت و وقار کو مجروح کرتا ہے۔

۲۴۔ داڑھی منڈانا مثلہ (شکل و صورت کا بِگاڑ) ہے اور مثلہ ممنوع و حرام ہے۔
سیدنا عبداللہ بن یزید الانصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:

نَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ النُّهْبَى وَالمُثْلَةِ

’’نبئ کریمﷺنے ڈاکہ ڈالنے اور مثلہ کرنے سے منع فر ما دیا ہے۔‘‘


(صحیح بخاری:۵۵۱۶)


علامہ ابنِ حزم رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

واتفقوا ان حلق جميع اللحية مثلة،لا تجوز.

’’امت کے علماءکرام کا اجماع و اتفاق ہےکہ داڑھی منڈانا مثلہ ہے (شکل و صورت کا بگاڑ ہے)اور یہ جائز نہیں ہے۔
(مراتب الاجماع:ص۱۵۷)

۲۵۔ داڑھی منڈانے والے کی اولاد اس گناہ کو گناہ نہیں سمجھتی،بلکہ اس میں ملوّث ہو جاتی ہے۔

۲۶۔ داڑھی منڈانا سنتِ رسول ﷺ سے بے رغبتی ہے ،جبکہ سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:۔

’جس نے میری سنت سے بے رغبتی کی ،وہ میرے طریقے پر نہیں ہے۔‘‘

 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
اگر کسی بات کا جواب نہ دیا ہو یا مبہم ہو تو براے مہربانی بتا دیں.
آپ نے شاید وقت کی کمی کی وجہ سے نمبر وار سوال لکھ کر جواب نہیں دئے مگو کوئی بات نہیں جو جواب رہ گئے ہیں ان پہ ساتھ ساتھ بات ہوتی جائے گی
اصل میں بات جب زیادہ سوالوں پہ بکھر جائے تو صورتحال واضح نہیں ہوتی چونکہ پچھلی پوسٹ میں بات اتنی زیادہ بکھر چکی تھی تو ان سب کا احاطہ ایک دفعہ مختلف سوالوں سے کر دیا اب ایک ایک کر کے بات کریں گے

فرائض کے ساتھ دین مکمّل نہیں ہوتا کیوں کے دین پورے نظام اور حیات گزرانے کا نام ہے. فرائض کے ساتھ ایمان مکمّل ہو جاتا ہے. جن فرائض کا اقرار کر کے آپ ایمان لاتے ہیں انہی میں سے کسی کا انکار اپ کو ایمان سے خارج کر سکتا ہے. اس کے علاوہ کوئی گناہ بظاھر کتنا بھی برا اور بڑا کیوں نہ ہو، ایمان سے خارج نہیں کرتا.
جہاں تک میں سمجھا ہوں آپ کے مطابق قرآن کے الفاظ پہ اجماع ہے اسکے مفہوم پہ جماع نہیں ہے اور فرائض صرف قرآن میں ہیں مگر صرف فرائض سے دین مکمل نہیں ہوتا بلکہ قرآن سے باہر بھی کچھ چیزیں ہو سکتی ہیں مثلا تواتر یا سنت یا حدیث وغیرہ جن کو دیکھنا ضروری ہے
اب یہ پوچھنا ہے کہ آپ کے ہاں قرآن کے الفاظ (جس پہ اجماع ہے) کے علاوہ کسی چیز کی حیثیت کیا ہے یعنی قرآن کے مفہوم یا تواتر یا سنت یا حدیث کی حیثیت آپ کے ہاں کیا ہے
قرآن کے الفاظ سے باہر کسی چیز پر عمل کی حیثیت آپ کے ہاں مندرجہ ذیل میں سے کون سی ہے
1۔مرضی کی ہے یعنی چاہے تو عمل کرو چاہئے تو نہ کرو یا جیسے چاہو کرو
2۔لازمی عمل کرنا ہے یعنی قرآن کے خاص مفہوم یا تواتر یا حدیث سنت وغیرہ پہ عمل کرنا بھی فرائض کی طرح شریعت میں مطلوب ہے
3۔بعض صورتوں میں عمل مطلوب ہے اور بعض صورتوں میں عمل مطلوب نہیں ہوتا

آپ اپنا نقطہ نظر اوپر تین میں سے کوئی بتا دیں تاکہ ہمیں آپ کو سمجھنے میں آسانی ہو
نوٹ: یہ یاد رہے کہ دوسری صورت میں وہ قرآن سے باہر والی واجب العمل چیزوں کی واضح پہچان بتا دیں اور تیسری صورت میں آپ کو وہ بعض صورتوں کا سکیل بتانا پڑے گا کہ کون سی صورتوں میں عمل مطلوب اور کون سی صورتوں میں عمل مطلوب نہیں ہے شکریہ
 

Imran Ahmad

مبتدی
شمولیت
جنوری 20، 2016
پیغامات
13
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
7
جہاں تک قرآن کے مفہوم کا تعلّق ہے، اس کو سمجھے بغیر ہم قرآن کو نہیں سمجھ سکتے. اس کے لیے ہم مختلف علما کے ترجمے اور تفاسیر پڑھ سکتے ہیں. اگر قرآن کو ہدایت کی نیت سے پڑھا اور سمجھا جائے تو ترجمے میں اختلاف کے باوجود اپ حق کو پہچان سکتے ہیں. جہاں کوئی شک ہو وہاں متعلقہ صحیح حدیث سے بھی رہنامی لی جا سکتی ہے.

قرآن کا مفہوم جب واضح ہو جائی اور اس کا تعلق کسی حکم سے ہو تو اس کا ماننا فرض ہے.

کسی حدیث کا تعلّق اگر قرآن کے کسی حکم سے ہو تو اس کا بھی ماننا فرض ہے. یہاں پر یہ تحقیق ضروری ہے کے وہ حدیث صحیح ہے یا نہیں.

الله نے دین اسلام آدم عليه السلام سے شروع کیا اور محمّد ﷺ پر وحی کی شکل میں قرآن میں تا قیامت محفوظ کر دیا. تمام فرض احکامات قرآن میں بتا دیے اور رہنامی کے لیے نبی پاک ﷺ کی سنّت اور صحیح احادیث دے دیں.


جو چیزیں سنّت ابراہیمی سے لے کر قرآن تک کبھی دین کا لازمی حصّہ نہیں تھیں، ان سے متعلقہ صحیح احادیث پر ہر مسلمان اپنی استطاعت کے مطابق عمل کر سکتا ہے. نبی پاک ﷺ نے بہت سی باتیں ریاست کے سربراہ اور مسلمانوں کے سردار کی حیثیت سے بھی کیں ہیں. صحابہ کو بعض دنیاوی معاملات پر مشورے بھی دیے وہ سب فرائض کے درجے میں نہیں آتے. .قرآن میں صرف الله کا کلام ہے جب کےنبی ﷺ نے اپنی حیات مبارکہ میں بہت سے باتیں اپنے فہم سے بھی کیں. ان کی ہر بات الله کی طرف سے وحی نہیں تھی.
 
Top