• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

داڑھی کی شرعی حیثیت :

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
میرا سوال تھا کہ
اب یہ پوچھنا ہے کہ آپ کے ہاں قرآن کے الفاظ (جس پہ اجماع ہے) کے علاوہ کسی چیز کی حیثیت کیا ہے یعنی قرآن کے مفہوم یا تواتر یا سنت یا حدیث کی حیثیت آپ کے ہاں کیا ہے
قرآن کے الفاظ سے باہر کسی چیز پر عمل کی حیثیت آپ کے ہاں مندرجہ ذیل میں سے کون سی ہے
1۔مرضی کی ہے یعنی چاہے تو عمل کرو چاہئے تو نہ کرو یا جیسے چاہو کرو
2۔لازمی عمل کرنا ہے یعنی قرآن کے خاص مفہوم یا تواتر یا حدیث سنت وغیرہ پہ عمل کرنا بھی فرائض کی طرح شریعت میں مطلوب ہے
3۔بعض صورتوں میں عمل مطلوب ہے اور بعض صورتوں میں عمل مطلوب نہیں ہوتا

آپ اپنا نقطہ نظر اوپر تین میں سے کوئی بتا دیں تاکہ ہمیں آپ کو سمجھنے میں آسانی ہو
نوٹ: یہ یاد رہے کہ دوسری صورت میں وہ قرآن سے باہر والی واجب العمل چیزوں کی واضح پہچان بتا دیں اور تیسری صورت میں آپ کو وہ بعض صورتوں کا سکیل بتانا پڑے گا کہ کون سی صورتوں میں عمل مطلوب اور کون سی صورتوں میں عمل مطلوب نہیں ہے شکریہ
لیکن آپ نے میرے اس سوال کا جواب نہیں دیا کیونکہ اسی جگہ ہی مجھے غلطی کا کمان ہو رہا ہے کہ شاید آپ اپنا موقف واضح نہیں کرنا چاہتے یا مجبورا نہیں کر نہیں سکتے
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
مفہوم کو متعین کیے بغیر خالی قرآن کے الفاظ سے ہدایت ممکن نہیں

جہاں تک قرآن کے مفہوم کا تعلّق ہے، اس کو سمجھے بغیر ہم قرآن کو نہیں سمجھ سکتے.
پس انکے قول سے ہی ثابت ہوا کہ انکے ہاں بھی خالی الفاظ سے ہدایت ممکن نہیں ہوتی
یہی ہمارا نظریہ ہے کہ خالی قرآن کے الفاظ پہ اجماع ہو جانے سے بھی ہدایت کنفرم نہیں بلکہ ہدایت کا دارومدار اسکے مفہوم پر بھی ہے اور جب تک اسکے مفہوم کو متعین نہیں کریں ہدایت خالی الفاظ سے نہیں ملے گی اسی لئے تو اوپر والا سوال پوچھا تھا کہ وہ مفہوم متعین کرنے کے لئے ہمیں کن کن چیزوں سے مدد لینی ہو گی یا ہم خود ہی اسکا مفہوم اپنی مرضی سے متعین کر سکتے ہیں مجھے اصولی موقف چاہئے پس تین آپشن دوبارہ لکھ دیتا ہوں اس میں سے سلیکٹ کر کے بتا دیں یا پھر کوئی چوتھی صورت بتا دیں اور کوشش کریں کہ اس کا جواب پہلے دیں شکریہ

قرآن کے الفاظ سے باہر کسی چیز پر عمل کی حیثیت آپ کے ہاں مندرجہ ذیل میں سے کون سی ہے
1۔مرضی کی ہے یعنی چاہے تو عمل کرو چاہئے تو نہ کرو یا جیسے چاہو کرو
2۔لازمی عمل کرنا ہے یعنی قرآن کے خاص مفہوم یا تواتر یا حدیث سنت وغیرہ پہ عمل کرنا بھی فرائض کی طرح شریعت میں مطلوب ہے
3۔بعض صورتوں میں عمل مطلوب ہے اور بعض صورتوں میں عمل مطلوب نہیں ہوتا


آپ اپنا نقطہ نظر اوپر تین میں سے کوئی بتا دیں تاکہ ہمیں آپ کو سمجھنے میں آسانی ہو
نوٹ: یہ یاد رہے کہ دوسری صورت میں وہ قرآن سے باہر والی واجب العمل چیزوں کی واضح پہچان بتا دیں اور تیسری صورت میں آپ کو وہ بعض صورتوں کا سکیل بتانا پڑے گا کہ کون سی صورتوں میں عمل مطلوب اور کون سی صورتوں میں عمل مطلوب نہیں ہے شکریہ


ویسے آپ نے اس سلسلے میں اوپر مندرجہ ذیل باتیں کی تھیں
1۔ اس کے لیے ہم مختلف علما کے ترجمے اور تفاسیر پڑھ سکتے ہیں.
2۔جہاں کوئی شک ہو وہاں متعلقہ صحیح حدیث سے بھی رہنامی لی جا سکتی ہے.
3۔کسی حدیث کا تعلّق اگر قرآن کے کسی حکم سے ہو تو اس کا بھی ماننا فرض ہے. یہاں پر یہ تحقیق ضروری ہے کے وہ حدیث صحیح ہے یا نہیں.
4۔قرآن میں صرف الله کا کلام ہے جب کےنبی ﷺ نے اپنی حیات مبارکہ میں بہت سے باتیں اپنے فہم سے بھی کیں. ان کی ہر بات الله کی طرف سے وحی نہیں تھی.
لیکن ان سے کچھ صورتحال تو واضح ہو سکتی ہے مگر میرے اوپر سوالوں کے واضح جواب نہیں ملتے کیونکہ کہیں کہ رہے ہیں کہ حدیث سے مدد لے سکتے ہیں (یعنی سکتے ہیں سے یہ مراد ہوتا ہے کہ مرضی ہے)
اور کہیں کہ رہے ہیں کہ حدیث کا تعلق قرآن کے حکم سے ہو تو اسکا ماننا فرض ہے مثلا قرآن میں زانی کو کوڑے مارنے کا حکم ہے اور اس بارے پھر جب رجم کی حدیث آتی ہے جو تواتر سے ہے اور اجماع ہے تو کیا اس رجم والی حدیث کو ماننا فرض ہو گا یہ ساری باتیں تب واضح ہوں گی جب آپ میرے اوپر والے سوال کا جواب دیں گے
 
Last edited:

Imran Ahmad

مبتدی
شمولیت
جنوری 20، 2016
پیغامات
13
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
7
میرا سوال تھا کہ

لیکن آپ نے میرے اس سوال کا جواب نہیں دیا کیونکہ اسی جگہ ہی مجھے غلطی کا کمان ہو رہا ہے کہ شاید آپ اپنا موقف واضح نہیں کرنا چاہتے یا مجبورا نہیں کر نہیں سکتے
جو چیزیں سنّت ابراہیمی سے لے کر قرآن تک کبھی دین کا لازمی حصّہ نہیں تھیں، ان سے متعلقہ صحیح احادیث پر ہر مسلمان اپنی استطاعت کے مطابق عمل کر سکتا ہے
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
جو چیزیں سنّت ابراہیمی سے لے کر قرآن تک کبھی دین کا لازمی حصّہ نہیں تھیں، ان سے متعلقہ صحیح احادیث پر ہر مسلمان اپنی استطاعت کے مطابق عمل کر سکتا ہے
یہاں میرے کچھ اشکالت ہیں
1۔سنت ابراھیمی سے مراد کیا ہے یعنی انکا ماخذ کیا ہو گا اسرائیلیات تو بہت زیادہ ہمیں ملتی ہیں جس سے ہر چیز کا کوئی نہ کوئی تعلق پھر وحی سے بنا دیا جاتا ہے کیونکہ ایک طرف تو آپ اتنی تحقیق سے پرکھی گئی احادیث پہ تو شکوک و شبہات کا شکار ہیں کہ درست بھی ہو سکتی ہیں اور غلط بھی۔ مگر دوسری طرف سنت ابرھیمی کی ایک نئی اصطلاح لی ہے اگر آپ کی سنت ابراھیمی سے مراد صرف قرآن میں آنے والی سنت ابرھیمی ہی ہے تو پھر خالی قرآن ہی کہ دینا تھا سنت ابراھیمی سے لے کر قرآن کہنے کی کیا ضرورت تھی
2۔آپ نے فتوی دیا کہ جنکا ذکر سنت ابراھیمی یا قرآن میں نہیں ان کے بارے احادیث پہ عمل اپنی استطاعت کے مطابق کر سکتے ہیں یعنی مرضی ہے کہ کریں یا نہ کریں البتہ آپ نے اسکی مخالف بات کے بارے نہیں بتایا کہ جو باتیں قرآن میں یا پہلی اسرائیلیات میں موجود ہوں اور انکے بارے کوئی صحیح حدیث بخاری مسلم کی آئے تو کیا ان پر عمل کرنا فرض ہے یعنی لازم ہے یا وہاں بھی چھوٹ ہے مثلا
۔زانی کی سزا تو قرآن کا موضوع رہی ہے کیا رجم کی حدیث پر عمل کرنا فرض ہوا
۔ نکاح کے جائز ہونے کی عمر بھی قرآن کا موضوع رہی ہے تو کیا شادی کی عائشہ کی رخصتی والی حدیث کو قبول کرنا چاہئے
۔سود بھی قرآن کا موضوع ہے تو اس سے متعلقہ بخآری و مسلم کی احادیث پہ عمل فرض ہوا
۔ شراب بھی قرآن کا موضوع ہے
۔ چوری بھی قرآن کا موضوع ہے
۔ مومنات کا اوڑھنی لینا بھی قرآن کا موضوع ہے وغیرہ وغیرہ
ان سب کے بارے بخاری و مسلم کی احدیث سے مدد لینا لازمی ہو گا
کیا ان کے بارے ہمیں بخاری و مسلم کی صحیح احادیث پر لازمی عمل کرن چاہئے یعنی عمل کرنا قرآن کی طرح فرض ہے (اسکا جواب اوپر آپ نے نہیں دیا اوپر آپ نے انکے بارے تو بتا دیا کہ جن کا قرآن میں ذکر نہیں مگر جنکا قرآن میں کچھ نہ کچھ ذکر ہے اس کے بارے واضح نہیں بتایا
 

Imran Ahmad

مبتدی
شمولیت
جنوری 20، 2016
پیغامات
13
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
7
میں شائد اپ کی بات صحیح سمجھ نہیں پا رہا. سنّت ابراہیم سے مراد یہ ہے کے وہ احکامات جن کا ذکر ہر شریعت کا حصّہ رہا ہے اور آخری کتاب قرآن مجید میں بھی ان کا ذکر ہے. آسان الفاظ میں وہ تمام احکامات جن کا ذکر قرآن میں ہے. اپ نے جتنے بھی نکات اوپر درج کیے ہیں وہ سب قرآن میں موجود ہیں لہذا ان سب کے بارے میں صحیح احادیث پر عمل ضروری ہے. ان احادیث کا انکار قرآن کے کسی حکم کے انکار کے برابر ہے. حضرت عائشہ والی حدیث کوئی حکم نہیں ہے. اگر چہ میں اس حدیث کو صحیح مانتا هوں مگر جو حضرات کسی دلیل کی بنیاد پر اس کو رد کرتے ہیں، اس سے ان کے ایمان پر کوئی فرق نہیں پڑتا. نہ تو اس حدیث میں ہمارے لیے کوئی حکم ہے اور نہ ہی آخرت میں اس بارے میں کوئی سوال ہو گا.

اصل مسلہ جہاں اختلاف ہے وہ ان احکامات کے بارے میں ہے جن کا کوئی ذکر قرآن میں نہیں ہے بلکے ان کا تعلّق فرمانے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے. جیسے داڑھی کی حدیث. اس کے علاوہ اگر کوئی حکم اپ کے علم میں ہے تو براے مہربانی بتا دیں.
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
میں شائد اپ کی بات صحیح سمجھ نہیں پا رہا. سنّت ابراہیم سے مراد یہ ہے کے وہ احکامات جن کا ذکر ہر شریعت کا حصّہ رہا ہے اور آخری کتاب قرآن مجید میں بھی ان کا ذکر ہے.
یعنی قرآن میں بھی ذکر ہے تو بھی سے مراد ہوتا ہے کہ پہلی کتابوں میں بھی ذکر ہو تو پہلی کتابیں تو بائبل میں میں عھد نامہ قدیم اور جدید موجود ہیں کیا انکی بات ہو رہی ہے
اگر آپ کہتے ہیں کہ قرآن میں ہی ہیں مگر قرآن میں لکھا ہے کہ یہ پہلی امتوں میں بھی تھے تو وہ ہمارے لیئے ضروری ہیں تو بھئی قرآن کی تو ہر چیز ہی آپ کے نظریے کے مطابق ضروری ہے چاہے وہ پہلی امتوں کا معاملہ ہو یا نہ ہو
مجھے یہ سمجھ نہیں آئی کہ قرآن میں کوئی بات پہلی امتوں کے حوالے سے ذکر ہو اور کوئی بات پہلی امتوں کے ذکر کے بغیر لکھی ہو تو ان دونوں میں اطاعت کے لحاظ سے کوئی فرق کیا جائے گا اس بارے سمجھا دیں شکریہ



عمران صاحب کے مطابق قاری حنیف ڈار قرآن کے منکر

اپ نے جتنے بھی نکات اوپر درج کیے ہیں وہ سب قرآن میں موجود ہیں لہذا ان سب کے بارے میں صحیح احادیث پر عمل ضروری ہے. ان احادیث کا انکار قرآن کے کسی حکم کے انکار کے برابر ہے.
یہاں آپ نے اپنے اصول کی توثیق کر دی کہ میں نے جونکات بشمول عائشہ والی حدیث بیان کیے ہیں انکا انکار قرآن کے حکم کے برابر ہے
یعنی عائشہ والی حدیث کا جو انکار کرتا ہے وہ سمجھو کہ قرآن کا انکار کرتا ہے یعنی قاری حنیف ڈار نے سمجھو کہ قرآن کا انکار کر دیا کیونکہ وہ اس حدیث کا انکار کرتا ہے
(یاد رکھیں کسی حدیث کا انکار سے مراد اسکے صحیح ہونے کا انکار بھی شامل ہے یعنی کوئی اس حدیث کو درست نہیں مانتا تو سمجھو کہ حدیث کا انکار کر دیا)

آگے کوئی اور ہی بات آپ نے شروع کر دی ہے کہ
حضرت عائشہ والی حدیث کوئی حکم نہیں ہے. اگر چہ میں اس حدیث کو صحیح مانتا هوں مگر جو حضرات کسی دلیل کی بنیاد پر اس کو رد کرتے ہیں، اس سے ان کے ایمان پر کوئی فرق نہیں پڑتا. نہ تو اس حدیث میں ہمارے لیے کوئی حکم ہے اور نہ ہی آخرت میں اس بارے میں کوئی سوال ہو گا.
عائشہ والی حدیث کیسے حکم نہیں حدیث قولی سے حکم قولی نکلتا ہے اور حدیث فعلی سے حکم عمل کے ذریعے نکلتا ہے
دیکھیں قرآن میں نماز کا ذکر ہے لیکن جس طرح ہم نماز پڑھتے ہیں اسکا کہیں ذکر نہیں البتہ جس طرح ہم نماز پڑھتے ہیں اس طرح نماز پڑھنے کا احادیث میں ذکر ہے مگر وہ ذکر قولی نہیں کہ اللہ کے نبی ﷺ نے کہا ہو کہ تم ایسے رکوع کرو ایسے تشہد میں بیٹھو ایسے فلاں کام کرو بلکہ اکثر فعلی ہیں یا پھر تقریری
پس نکاح کا کتنی عمر میں ہو جانا درست ہے اس میں آپ ﷺ کا فعلی حکم اس حدیث عائشہ سے واضح ہو رہا ہے تو اسکا انکار بھی حدیث کے حکم کا ہی انکار ہوا پھر قاری حنید ڈار قرآن کا منکر کیسے نہ ہوا

اصل مسلہ جہاں اختلاف ہے وہ ان احکامات کے بارے میں ہے جن کا کوئی ذکر قرآن میں نہیں ہے بلکے ان کا تعلّق فرمانے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے. جیسے داڑھی کی حدیث. اس کے علاوہ اگر کوئی حکم اپ کے علم میں ہے تو براے مہربانی بتا دیں.
پہلے اوپر والا مسئلہ حل ہو جائے پھر باقی اسی طرح کے مسائل بھی بتاتے ہیں
 

Imran Ahmad

مبتدی
شمولیت
جنوری 20، 2016
پیغامات
13
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
7
یعنی قرآن میں بھی ذکر ہے تو بھی سے مراد ہوتا ہے کہ پہلی کتابوں میں بھی ذکر ہو تو پہلی کتابیں تو بائبل میں میں عھد نامہ قدیم اور جدید موجود ہیں کیا انکی بات ہو رہی ہے
اگر آپ کہتے ہیں کہ قرآن میں ہی ہیں مگر قرآن میں لکھا ہے کہ یہ پہلی امتوں میں بھی تھے تو وہ ہمارے لیئے ضروری ہیں تو بھئی قرآن کی تو ہر چیز ہی آپ کے نظریے کے مطابق ضروری ہے چاہے وہ پہلی امتوں کا معاملہ ہو یا نہ ہو
مجھے یہ سمجھ نہیں آئی کہ قرآن میں کوئی بات پہلی امتوں کے حوالے سے ذکر ہو اور کوئی بات پہلی امتوں کے ذکر کے بغیر لکھی ہو تو ان دونوں میں اطاعت کے لحاظ سے کوئی فرق کیا جائے گا اس بارے سمجھا دیں شکریہ
آسان الفاظ میں جس بھی چیز کا حکم قرآن میں موجود ہے، اس کا ماننا فرض ہے. اس حکم کی تفصیلات صحیح احادیث کی روشنی میں طے کی جایئں گی.

یہاں آپ نے اپنے اصول کی توثیق کر دی کہ میں نے جونکات بشمول عائشہ والی حدیث بیان کیے ہیں انکا انکار قرآن کے حکم کے برابر ہے
یعنی عائشہ والی حدیث کا جو انکار کرتا ہے وہ سمجھو کہ قرآن کا انکار کرتا ہے یعنی قاری حنیف ڈار نے سمجھو کہ قرآن کا انکار کر دیا کیونکہ وہ اس حدیث کا انکار کرتا ہے
(یاد رکھیں کسی حدیث کا انکار سے مراد اسکے صحیح ہونے کا انکار بھی شامل ہے یعنی کوئی اس حدیث کو درست نہیں مانتا تو سمجھو کہ حدیث کا انکار کر دیا)
اس کا جواب نیچے دیا ہے ۔ قاری حنیف ڈار کا ذکر کرنے کی وجہ سمجھ نہیں آئی .
۔
عمران صاحب کے مطابق قاری حنیف ڈار قرآن کے منکر
[/H2]

۔

آگے کوئی اور ہی بات آپ نے شروع کر دی ہے کہ

عائشہ والی حدیث کیسے حکم نہیں حدیث قولی سے حکم قولی نکلتا ہے اور حدیث فعلی سے حکم عمل کے ذریعے نکلتا ہے
دیکھیں قرآن میں نماز کا ذکر ہے لیکن جس طرح ہم نماز پڑھتے ہیں اسکا کہیں ذکر نہیں البتہ جس طرح ہم نماز پڑھتے ہیں اس طرح نماز پڑھنے کا احادیث میں ذکر ہے مگر وہ ذکر قولی نہیں کہ اللہ کے نبی ﷺ نے کہا ہو کہ تم ایسے رکوع کرو ایسے تشہد میں بیٹھو ایسے فلاں کام کرو بلکہ اکثر فعلی ہیں یا پھر تقریری
پس نکاح کا کتنی عمر میں ہو جانا درست ہے اس میں آپ ﷺ کا فعلی حکم اس حدیث عائشہ سے واضح ہو رہا ہے تو اسکا انکار بھی حدیث کے حکم کا ہی انکار ہوا پھر قاری حنید ڈار قرآن کا منکر کیسے نہ ہوا

یہ اپ کا ذاتی خیال ہے. حضرت عائشہ والی حدیث نہ قولی حکم ہے اور نہ فعلی. یہاں پر شادی کی عمر ثابت نہیں کی جا رہی. شادی ضروری نہیں کہ اس عمر میں ہی کی جائی گی جس کا تذکرہ اس حدیث میں ہے. نماز والا معاملہ بلکل مختلف ہے. نماز کے بارے میں حدیث ہے کے جس طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھی ویسے پڑھی جائی گی.
اپ کے اصول کی روشنی میں تو کد و کھانا اور اونٹ پر سوار ہونا بھی فرض ہو جائی گا.




پہلے اوپر والا مسئلہ حل ہو جائے پھر باقی اسی طرح کے مسائل بھی بتاتے ہیں[/QUOTE]
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
آسان الفاظ میں جس بھی چیز کا حکم قرآن میں موجود ہے، اس کا ماننا فرض ہے. اس حکم کی تفصیلات صحیح احادیث کی روشنی میں طے کی جایئں گی.
پس آخر آپ نے مان لیا کہ جو پیچھے آپ نے سنت ابراھیمی کی بات کی تھی اسکی کوئی ضرورت نہیں بلکہ جو چیز بھی قرآن میں ہے اس پہ عمل کرنا لازمی ہے پیچھے وہ کسی زمانے میں سنت ہو یا نہ ہو
اس فرق کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اہل قرآن کا موقف کچھ اور ہے اور غامدی تھوڑا سے اور معاملہ کر کے بیچ میں سنت ابراھیمی کو بھی لے آتا ہے پس آپ غامدی والے نہیں یعنی سنت ابراھیمی ہونے یا نہ ہونے کا پتا صرف قرآن سے ہی چل سکتا ہے یا احادیث سے ۔ شکریہ

اس کا جواب نیچے دیا ہے ۔ قاری حنیف ڈار کا ذکر کرنے کی وجہ سمجھ نہیں آئی .
۔
نیچے جواب درست نہیں دیا کیونکہ اوپر آپ نے یہ مانا کہ نکاح کی عمر کا معاملہ قرآن ی معاملہ ہے پس آپ کے اصول کے مطابق اسکے بارے جو بھی حدیث ہو گی وہ درست ہو گی اور لازمی اس پہ عمل کرنا ہو گا وہاں آپ نے حدیث کے درست ہونے کی بات کی تھی آپ کہیں تو میں وہاں سے اقتباس لے کر بتا دیتا ہوں

اب عائشہ والی حدیث کو تو ہمیں درست ماننا ہے اب اس میں حکم کیا ہے تو حکم قرآن کا ہے کہ اطیعوا اللہ واطیعوا الرسول پس اس میں یہ ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ نے اتنی کم عمر لڑکی سے شادی کی پس یہ شادی کرنا اس عمر میں جائز ہو جائے گا البتہ کرنا لازمی نہیں مگر اس شادی کو غلط نہیں کہ سکتے کوئی نہ کرنا چاہئے تو بھی بالکل درست ہو گا

یہ اپ کا ذاتی خیال ہے. حضرت عائشہ والی حدیث نہ قولی حکم ہے اور نہ فعلی. یہاں پر شادی کی عمر ثابت نہیں کی جا رہی. شادی ضروری نہیں کہ اس عمر میں ہی کی جائی گی جس کا تذکرہ اس حدیث میں ہے. نماز والا معاملہ بلکل مختلف ہے. نماز کے بارے میں حدیث ہے کے جس طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھی ویسے پڑھی جائی گی.
اپ کے اصول کی روشنی میں تو کد و کھانا اور اونٹ پر سوار ہونا بھی فرض ہو جائی گا.
بھئی ہم نے یہ نہیں کہا کہ لازمی اس عمر میں شادی کی جائے گی بلکہ یہ کہا ہے کہ اس عمر میں شادی کرنا ممنوع نہیں رہے گا جیسے آپ نے کدو کا کہا تو کدو کھانا فرض تو نہیں مگر ممنوع بھی نہیں البتہ اس حدیث کو ماننا لازمی ہو گا کہ آپ نے اس عمر میں شادی کی ہے
 
Last edited:

Imran Ahmad

مبتدی
شمولیت
جنوری 20، 2016
پیغامات
13
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
7
پس آخر آپ نے مان لیا کہ جو پیچھے آپ نے سنت ابراھیمی کی بات کی تھی اسکی کوئی ضرورت نہیں بلکہ جو چیز بھی قرآن میں ہے اس پہ عمل کرنا لازمی ہے پیچھے وہ کسی زمانے میں سنت ہو یا نہ ہو
اس فرق کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اہل قرآن کا موقف کچھ اور ہے اور غامدی تھوڑا سے اور معاملہ کر کے بیچ میں سنت ابراھیمی کو بھی لے آتا ہے پس آپ غامدی والے نہیں یعنی سنت ابراھیمی ہونے یا نہ ہونے کا پتا صرف قرآن سے ہی چل سکتا ہے یا احادیث سے ۔ شکریہ

جی، متفق هوں

نیچے جواب درست نہیں دیا کیونکہ اوپر آپ نے یہ مانا کہ نکاح کی عمر کا معاملہ قرآن ی معاملہ ہے پس آپ کے اصول کے مطابق اسکے بارے جو بھی حدیث ہو گی وہ درست ہو گی اور لازمی اس پہ عمل کرنا ہو گا وہاں آپ نے حدیث کے درست ہونے کی بات کی تھی آپ کہیں تو میں وہاں سے اقتباس لے کر بتا دیتا ہوں

میں نے عائشہ والی حدیث کے علاوہ باقی کی بات کی تھی. لکھا اس لیے نہیں کیوں کے نیچے بتا دیا تھا.

اب عائشہ والی حدیث کو تو ہمیں درست ماننا ہے اب اس میں حکم کیا ہے تو حکم قرآن کا ہے کہ اطیعوا اللہ واطیعوا الرسول پس اس میں یہ ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ نے اتنی کم عمر لڑکی سے شادی کی پس یہ شادی کرنا اس عمر میں جائز ہو جائے گا البتہ کرنا لازمی نہیں مگر اس شادی کو غلط نہیں کہ سکتے کوئی نہ کرنا چاہئے تو بھی بالکل درست ہو گا

اطیعوا الرسول اس لیے کہا گیا کیوں کے قرآن رسول کے ذریعے سے ہی ملا ہے

بھئی ہم نے یہ نہیں کہا کہ لازمی اس عمر میں شادی کی جائے گی بلکہ یہ کہا ہے کہ اس عمر میں شادی کرنا ممنوع نہیں رہے گا جیسے آپ نے کدو کا کہا تو کدو کھانا فرض تو نہیں مگر ممنوع بھی نہیں البتہ اس حدیث کو ماننا لازمی ہو گا کہ آپ نے اس عمر میں شادی کی ہے

میں اس سے متفق نہیں. اس حدیث کو ماننے یا نہ ماننے سے کسی حکم کی خلاف ورزی نہیں ہوتی. نکاح کی عمر کا ہمیں جو قرآن سے پتا چلتا ہے، وھی حکم ہے.

اس پر مزید بحث کی بجائے ہم اس نکتے پر بات کرتے ہیں جس پر زیادہ اختلاف ہے. کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی ایسی چیز کا حکم دیا جس کا حکم قرآن میں بلکل بھی نہیں ہے جیسے داڑھی . کیا وہ حکم پوری امّت پر فرض کے درجے میں لاگو ہو گا. کیا اس کو چھوڑنے پر گناہ ہو گا. داڑھی کے علاوہ ایسے اور کونسے احکامات ہیں
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
السلام و علیکم و رحمت الله -
.
میرا خیال میں یہاں دوستوں میں اس بات میں مغالطہ ہورہا ہے کہ داڑھی کی اصل شرعی حیثیت کیا ہے؟؟ - اس کے بارے میں علماء میں بھی اختلاف ہے -کچھ داڑھی کی فرضیت کے قائل ہیں تو کچھ اس کے وجوب کے قائل ہے تو کچھ اس کو صرف سنّت کے زمرے میں سمجھتے ہیں-البتہ اگر داڑھی منڈھوانے کو مجوسیوں کی مشابہت کی بنا پر حرام قرار دیا جائے - تو پھر ہمارے اکثرموجودہ لباس بھی ایسے ہیں جو مجوسیوں سے مشابہت رکھتے ہیں یا ان ہی کے ایجاد کردہ ہیں- تو وہ بھی پھر "حرام" کے زمرے میں آئیں گے - جیسے ٹائی وغیرہ جو مجوسیوں کے لباس کا حصّہ ہے- لیکن کچھ بھائی ہو سکتا ہے کہ ٹائی کے حق میں دلائل دیں- کیوں کہ ان کے کچھ پسندیدہ علماء آجکل ٹائی میں نظر آتے ہیں- جب کہ جو چیز غلط ہے سو غلط ہے-

دوسرے یہ کہ جن روایات میں داڑھی رکھنے کا حکم متواتر کے طور پرآیا ہے اتنا ہی ان روایات میں مونچھیں کتروانے کے حکم بھی متواتر کے طور پر موجود ہے- لیکن ہمارے ہاں اکثر لوگ ایک سنّت کی محافظت کرتے ہوے دوسری سنّت کی مخالفت کر بیٹھتے ہیں - یعنی داڑھی تو بڑھائی ہوتی ہے لیکن مونچھیں بھی خوب رکھی ہوتی ہیں-
 
Top