وجاہت
رکن
- شمولیت
- مئی 03، 2016
- پیغامات
- 421
- ری ایکشن اسکور
- 44
- پوائنٹ
- 45
السلام علیکم
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود نے خبر دی، ان سے ابوسعید رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے دجال کے متعلق ایک طویل حدیث بیان کی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات میں یہ بھی تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”دجال آئے گا اور اس کے لیے ناممکن ہو گا کہ مدینہ کی گھاٹیوں میں داخل ہو۔ چنانچہ وہ مدینہ منورہ کے قریب کسی شور والی زمین پر قیام کرے گا۔ پھر اس دن اس کے پاس ایک مرد مومن جائے گا اور وہ افضل ترین لوگوں میں سے ہو گا۔ اور اس سے کہے گا کہ میں گواہی دیتا ہوں اس بات کی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے بیان فرمایا تھا۔ اس پر دجال کہے گا کیا تم دیکھتے ہو اگر میں اسے قتل کر دوں اور پھر زندہ کروں تو کیا تمہیں میرے معاملہ میں شک و شبہ باقی رہے گا؟ اس کے پاس والے لوگ کہیں گے کہ نہیں، چنانچہ وہ اس صاحب کو قتل کر دے گا اور پھر اسے زندہ کر دے گا۔ اب وہ صاحب کہیں گے کہ واللہ! آج سے زیادہ مجھے تیرے معاملے میں پہلے اتنی بصیرت حاصل نہ تھی۔ اس پر دجال پھر انہیں قتل کرنا چاہے گا لیکن اس مرتبہ اسے مار نہ سکے گا۔“@اسحاق سلفی
میرا سوال یہ ہے کہ کیا دجال کے پاس یہ قوت ہوگی کہ وہ ایک مردہ شخص میں اس کی روح لوٹا سکے ۔
@خضرحیات
هو لا يحيي من ذات فعله, ولكن الله هو الذي يعطيه هذا الأمر فتنة للناس, ولا تنسى أنه يأتي مدعياً أنه هو المسيح ابن مريم , ولكنه دجال كاذب في دعواه, فالله تعالى قال في حق المسيحقال الخطابي فإن قيل كيف يجوز أن يجري الله الآية على يد الكافر فإن إحياء الموتى آية عظيمة من آيات الأنبياء فكيف ينالها الدجال وهو كذاب مفتر يدعي الربوبية فالجواب أنه على سبيل الفتنة للعباد إذ كان عندهم ما يدل على أنه مبطل غير محق في دعواه وهو أنه أعور مكتوب على جبهته كافر يقرؤه كل مسلم فدعواه داحضة مع وسم الكفر ونقص الذات والقدر إذ لو كان إلها لأزال ذلك عن وجهه وآيات الأنبياء سالمة من المعارضة فلا يشتبهان (فتح الباري )
دجال مردوں کو اپنی ذاتی قدرت سے تو زندہ نہیں کرے گا ، اسے شعبدہ کا فن اللہ نے لوگوں کی آزمائش و امتحان کیلئے دیا ہوگا ، اور یاد رہے کہ دجال کا دعوی اصلی یہ ہوگا کہ وہ مسیح ابن مریم ہے ، لیکن اس دعوی میں وہ سراسر جھوٹا ہوگا
کیونکہ مسیح ابن مریم کے متعلق اللہ کا فرمانا ہے کہ :
( وَرَسُولا إِلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ أَنِّي قَدْ جِئْتُكُمْ بِآَيَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ أَنِّي أَخْلُقُ لَكُمْ مِنَ الطِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ فَأَنْفُخُ فِيهِ فَيَكُونُ طَيْرًا بِإِذْنِ اللَّهِ وَأُبْرِئُ الأَكْمَهَ وَالأَبْرَصَ وَأُحْيِي الْمَوْتَى بِإِذْنِ اللَّهِ وَأُنَبِّئُكُمْ بِمَا تَأْكُلُونَ وَمَا تَدَّخِرُونَ فِي بُيُوتِكُمْ إِنَّ فِي ذَلِكَ لآَيَةً لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ (سورۃ آل عمران49)
اور وه بنی اسرائیل کی طرف رسول ہوگا، کہ میں تمہارے پاس تمہارے رب کی نشانی لایا ہوں، میں تمہارے لئے پرندے کی شکل کی طرح مٹی کا پرنده بناتا ہوں، پھر اس میں پھونک مارتا ہوں تو وه اللہ تعالیٰ کے حکم سے پرنده بن جاتاہے اور اللہ تعالیٰ کے حکم سے میں مادرزاد اندھے کو اور کوڑھی کو اچھا کر دیتا ہوں اور مردوں کو زندہ کرتا ہوں اور جو کچھ تم کھاؤ اور جو اپنے گھروں میں ذخیره کرو میں تمہیں بتا دیتا ہوں، اس میں تمہارے لئے بڑی نشانی ہے، اگر تم ایمان ﻻنے والے ہو۔ (49)
اور جس حدیث کا ترجمہ آپ نے لکھا ہے ، اس کی شرح میں علامہ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں :
یعنی امام خطابی ؒ فرماتے ہیں :
اگر یہ سوال کیا جائے کہ ایک کافر کے ہاتھ سے معجزہ کیسے صادر ہوگا جبکہ مردوں کو زندہ کرنا ایک عظیم معجزہ ہے جو انبیاء کو دیا گیا ،تو یہ معجزہ دجال اکبر کو کیسے ملے گا جبکہ وہ مفتری کذاب ربوبیت کا دعویدار ہوگا ،
تو اس کا جواب یہ ہے کہ : وقتی طور پر بظاہر دجال کا مردوں کو زندہ کرنا بندوں کی آزمائش و امتحان کیلئے ہوگا ، کیونکہ ان کے پاس دجال دعوی کے جھوٹا ہونے کے کئی ثبوت و علامات ہونگی ، وہ ایک آنکھ سے کانا ہوگا ، اس کی پیشانی پر ’’ کافر ‘‘ لکھا ہوگا جسے ہر مسلم پڑھ سکے گا،
تو ان ذاتی نقائص و عیوب کی موجودگی میں اس کا دعوی باطل ثابت ہورہا ہوگا ،کیونکہ اگر وہ اپنے دعوے کے مطابق رب ہوتا تو اپنے جھوٹا ہونے کی یہ نشانیاں مٹا لیتا ،اور دوسری طرف انبیاء علیہم السلام کے معجزات ہر قسم کے معارضہ سے پاک ہوتے ہیں ، اسلئے دجال اور معجزات کا معاملہ مشتبہ نہیں ہوسکتا ::
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وعلیکم السلام و رحمتہ اللہ وبرکاتہ !
روایات میں” مسیح الدجال“ کا ذکر فتنوں کےساتھ آیا ہے اور وہ حقیقتاً انہی فتنوں کو استعمال کر کے لوگوں کو گمراہ کریگا ان میں سے ”مردہ “کو زندہ کرنا بھی شامل ہے اس کے علاوہ بھی وہ کچھ غیر معمولی افعال کا مظاہرہ کریگا۔ مگر ان سب کی حقیقت محض شعبدہ بازیوں کی ہو گی ان چیزوں کو ”معجزات“ سے ہرگز تعبیر نہیں کیا جاسکتا ۔
میرے خیال میں ان فتنوں کو عصری تطبیق دی جا سکتی ہے کیونکہ آج کے دور میں سائنسی ٹیکنا لوجی کی بدولت بہت سی محیر العقول چیزوں نے جنم لیا ہے اور عجب نہیں کہ ”مسیح الدجال “اسی سائنسی ٹیکنا لوجی کو استعمال میں لا کر لوگوں میں ربوبیت کا دعویٰ کرے۔بہت سے لوگ انہی فتنوں سے متاثر ہوکر اسکے دعویٰ کی تصدیق بھی کرینگے۔
اسی لیے روایات میں بھی ”فتنہ المسیح الدجال“ میں لفظ ”فتنہ“ قابلِ غور ہے جس کو ”معجزات“ سے کوئی نسبت نہیں اور تاریخ گواہ ہے کہ فتنوں سے صرف خالص ایمان والے ہی بچ سکے ہیں۔ لہذا میری نظر میں ”مسیح الدجال “کے ان تمام افعال کو ”معجزہ“ نہیں بلکہ ”فتنہ“ہی سمجھنا چاہیے۔
متقدمین محدثین کی رائے
امام مسلم کے شاگرد امام ابو اسحاق کے مطابق یہ خضر علیہ السلام ہیں لہذا صحیح مسلم میں محدث ابو اسحاق کا قول اس روایت کے تحت لکھا ہوا ہے
قَالَ أَبُو إِسْحَاقَ: “يُقَالُ إِنَّ هَذَا الرَّجُلَ هُوَ الْخَضِرُ عَلَيْهِ السَّلَامُ
ابو اسحاق إبراهيم بن سفيان نے کہا: کہا جاتا ہے یہ خضر ہوں گے
یہ صحیح مسلم کی کتاب کے راوی ہیں –
یہ بات صیغہ تمریض سے ہے لیکن یہ بات یاد رہے کہ قرون ثلاثہ کے محدثین جب صیغہ تمریض استمعال کریں اور تضعیف نہ کریں تو وہ قول قبولیت پر بوتا ہے
اس پر تھریڈ صیغہ تمریض سے کیا مراد ہے ؟ میں تفصیل موجود ہے
صحیح ابن حبان کے مطابق
قَالَ مُعْمَرٌ: يَرَوْنَ أَنَّ هَذَا الرَّجُلَ الَّذِي يَقْتُلُهُ الدَّجَّالُ ثُمَّ يُحْيِيهِ: الْخَضِرُ
مُعْمَرٌ نے کہا محدثین دیکھتے تھے کہ یہ شخص جس کو دجال قتل کرنے کے بعد زندہ کر سکے گا یہ خضر ہوں گے
بغوی نے شرح السنہ میں یہی قول نقل کیا ہے کہ معمر نے کہا
وَبَلَغَنِي أَنَّهُ الْخَضِرُ الَّذِي يَقْتُلُهُ الدَّجَّالُ، ثُمَّ يُحْيِيهِ
مجھ تک پہنچا کہ یہ خضر ہیں
یعنی ان محدثین کے نزدیک یہ واقعہ خاص صرف ایک دفعہ کا ہے عموم نہیں ہے
فتح الباری میں ابن حجر نے خطابی کا قول دیا ہے
قال الخطابي فإن قيل كيف يجوز أن يجري الله الآية على يد الكافر فإن إحياء الموتى آية عظيمة من آيات الأنبياء فكيف ينالها الدجال وهو كذاب مفتر يدعي الربوبية فالجواب أنه على سبيل الفتنة للعباد إذ كان عندهم ما يدل على أنه مبطل غير محق في دعواه وهو أنه أعور مكتوب على جبهته كافر يقرؤه كل مسلم فدعواه داحضة مع وسم الكفر ونقص الذات والقدر إذ لو كان إلها لأزال ذلك عن وجهه وآيات الأنبياء سالمة من المعارضة فلا يشتبهان
خطابی نے کہا : اگر یہ کہا جائے کہ ایک کافر کے ہاتھ سے الله نشانی کو کیسے جاری کرے جبکہ مردوں کو زندہ کرنا ایک عظیم معجزہ ہے جو انبیاء کو دیا گیا ،تو یہ معجزہ دجال کو کیسے ملے گا جبکہ وہ مفتری کذاب ہے اور رب ہونے کا دعویدار ہوگا پس اس کا جواب یہ ہے کہ : یہ بندوں کی آزمائش کیلئے ہوگا ، کیونکہ ان کے پاس دجال دعوی کے جھوٹا ہونے کے دلیل ہوں گی کہ وہ ایک آنکھ سے کانا ہوگا ، اس کی پیشانی پر ’’ کافر ‘‘ لکھا ہوگا جسے ہر مسلم پڑھ سکے گا تو ان ذاتی نقائص و عیوب کی موجودگی میں اس کا دعوی باطل ثابت ہورہا ہوگا ،کیونکہ اگر وہ اپنے دعوے کے مطابق رب ہوتا تو یہ نشانیاں مٹا لیتا ،اور دوسری طرف انبیاء علیہم السلام کی نشانیاں ہر قسم کے عیب سے پاک ہوتے ہیں ، پس یہ نشانیاں ایک سی نہیں ہیں
خطابی کا قول صحیح ہے لیکن دجال مردوں کو زندہ نہیں کرتا رہے گا روایت میں یہ ایک خاص واقعہ ہے اور متن دلالت کرتا ہے کہ یہ صرف ایک بار ہو گا اسی بنا پر متقدمین محدثین نے اس میں شخص کو خضر کہا ہے کہ وہ ان کے نزدیک زندہ ہیں لہذا دجال کا اس میں کوئی کمال نہ ہو گا
کتاب شرح مصابيح السنة للإمام البغوي از الكَرمانيّ، الحنفيُّ، المشهور بـ ابن المَلَك (المتوفى: 854 هـ) کے مطابق
قال الكلاباذي: في الحديث دليل على أنَّ الدجال لا يقدر على ما يريده، وإنما يفعل الله ما يشاء عند حركته في نفسه، ومحل قدرته ما شاء الله أن يفعله؛ اختبارًا للخلق وابتلاء لهم؛ ليهلك من هلك عن بينة، ويحيى من حي عن بينة، ويضل الله الظالمين، ويفعل الله ما يشاء.
الكلاباذي نے کہا : اس حدیث میں دلیل ہے کہ دجال ہر اس چیز پر قادر نہ ہو گا جو وہ چاہے گا اور بے شک الله تعالی یہ کریں گے جو وہ چاہیں گے ، دجال کی ان حرکات پر اور اس (دجال) کی قدرت کا مقام ، الله کے چاہنے میں ہے – یہ ایک آزمائش ہے خلق کے لئے اور ابتلاء ہے ان کے لئے کہ جو ہلاک ہو وہ نشانی پر ہلاک ہو اور جو زندہ رہے وہ نشانی پر زندہ رہے اور الله ظالموں کو گمراہ کرتا ہے جو چاہتا ہے کرتا ہے
یعنی دجال کی ان حرکات کے پیچھے الله تعالی کی قدرت کارفرما ہو گی وہ اس کے ذریعہ انسانوں کو آزمائش میں ڈالے گا اور مخلوق کا امتحان لے گا- دجال دھوکہ میں ہو گا کہ یہ سب وہ کر رہا ہے اور اس کے ساتھ لوگ بھی یہی سمجھیں گے لیکن حقیقت میں یہ سب الله کے حکم سے پس پردہ ہو رہا ہو گا
عصر حاضر میں بعض لوگوں نے اس کو شعبدہ بازی اور بعض نے سائنسی ٹیکنا لوجی کہہ کر اس روایت کو قبول کیا ہے
متقدمین محدثین نے اس روایت کو اس شرح کے تحت قبول کیا ہے کہ خضر علیہ اسلام زندہ ہیں اور دجال کا تماشہ انہی کے ساتھ ہو گا
بحر الحال روایات میں دجال کے اور بھی واقعات ہیں مثلا جنت جہنم پیش کرنا اس کا پانی برسانا وغیرہ ان کی تاویل محدثین سے منقول نہیں ہے لیکن انہوں نے ان روایات کو صحیح کہا ہے