- شمولیت
- جون 11، 2015
- پیغامات
- 401
- ری ایکشن اسکور
- 13
- پوائنٹ
- 79
1)آپ کہہ رہے ہیں جو میں سمجھا ہوں اگر غلط سوچ رہا تو درستگی فرما دیں آپ کے جواب حیران کرنے والے ہیں۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اللہ تعالیٰ کا کسی فعل کو پسند ، نا پسند کرنا الگ بات ہے!
اور کسی فعل کی صلاحیت دینا الگ بات ہے!
اللہ تعالیٰ ہر ہر فعل کو پسند نہیں کرتا ، درست!
لیکن ہر ہر فعل کی صلاحیت اللہ ہی کی پیدا کردہ ہے!
کوئی شیطان کوئی مخلوق کسی میں کوئی صلاحیت پیدا نہیں کرسکتا!
اگر کوئی اس کا قائل ہے کہ برے فعل کی صلاحیت اللہ کے علاوہ کسی اور کی پیدا کردہ ہے ، تو یہ عقیدہ اسلام کا نہیں، بلکہ زرتشتوں کا ہے کہ ان کے ہاں ایک'' یزداں'' ہے، خیر کا خالق وخدا اور ایک ''اہرمن'' شر کا خالق و خدا!
ہر ہر فعل کی صلاحیت اللہ ہی کی پیدا کردہ ہے۔۔۔۔۔۔شیطان کی تبلیغ۔۔۔۔جھوٹ بولنا،کفر کی طرف تبلیغ کرنا ،اللہ کے ساتھ شرک کرنا،تہمت لگانا،زنا کرنا،آدم اور اس کی اولاد کے کپڑے اتروانا،گالی دینا،غرور کرنا،پیغمبروں کو جھوٹا کہنا،جادو کی تعلیم میں اثر ماننا،چوری کرنا،اور تمام معاشرے میں جتنی برائیاں ہیں ۔۔۔۔یہ وضاحت کر دیں کس کی پیدا کردہ ہیں اور یہ بھی بتا دیں اس کو کرنے کی صلاحیت کس کی پیدا کردہ ہیں۔ شکریہ۔
عیسیٰ علیہ السلام میں کیا یہ صلاحیت تھی کہ وہ کسی مردہ کو زندہ کرتے،ایک پیغمبر ہو کر۔
موسیٰ علیہ السلام میں کیا یہ صلاحیت تھی کہ وہ ہاتھ بغل میں لے کر اسے باہر نکالیں تو وہ روشن ہو جائے یا لکڑی سانپ بن جائے جبکہ پیغمبر بھی ہیں۔
اللہ تعالیٰ حق سچ دیکھا کر لوگوں کو ہدایت کی طرف بلاتا ہے آزمائش لیتا ہے۔
یہ کہاں سے آپ عقیدہ لے آئیں ہیں کہ اللہ لوگوں کی آزمائش کے لئے دجال کو صلاحیت اور طاقت دے گا۔استغفراللہ۔۔۔دلیل دے کر واضح کریں۔قیاس سے کام نہ لیں۔ اللہ نے باطل کو ہمیشہ نکام کیا ،باطل کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا،باطل کہیں سے بھی آئے اللہ حق ،سچ سے اس کا خاتمہ کرئے گا۔
جیسا کہ ابراھیم علیہ السلام کا قصہ ہے کہ۔
سورۃ البقرہ2۔
کیا تم نے اُس شخص کے حال پر غور نہیں کیا جس نے ابراہیم ؑ سے جھگڑا کیا تھا؟ جھگڑا اِس بات پر کہ ابراہیم ؑ کا ربّ کون ہے ، اور اِس بنا پر کہ اُس شخص کو اللہ نے حکومت دے رکھی تھی ۔ جب ابراہیم ؑ نے کہا کہ ’’ میرا رب وہ ہے جس کے اختیار میں زندگی اور موت ہے ‘‘ تو اُس نے جواب دیا: ’’ زندگی اور موت میرے اختیار میں ہے ۔ ‘‘ ابراہیم ؑ نے کہا : ’’ اچھا ، اللہ سورج کو مشرق سے نکالتا ہے ، تو ذرا اُسے مغرب سے نکال لا ۔ ‘‘ یہ سن کر وہ منکرِ حق ششدر رہ گیا ، مگر اللہ ظالموں کو راہِ راست نہیں دکھایا کرتا ۔ (258)
غور کریں ۔ اگر یہاں بادشاہ کہتا یہ کون سی بڑی بات ہے یہ لو مغرب سے نکال دیتا ہوں اور اپنے قول میں پورا ہو جاتا تو ۔۔۔حق اور سچ کہاں گیا؟؟؟؟؟؟؟؟
ایک دجال اور دعویٰ کرے کہہ میں تمہارا رب ہوں اور کہے میں بارش برسا سکتا ہوں ، یا سچ مچ قتل کر کے سچ مچ انسان کو زندہ کر سکتا ہوں۔۔۔۔اور اللہ بھی اسے یہ صلاحیت دے (استغفراللہ)حق اور باطل کی لڑائی کہاں گئی۔۔۔اللہ تو صرف حق اور سچ سے لوگوں کی آزمائش لیتا ہے۔