• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دجال کے پاس مارنے کے بعد زندہ کرنے کی قوت ہوگی؟

شمولیت
جون 11، 2015
پیغامات
401
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
79
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

اللہ تعالیٰ کا کسی فعل کو پسند ، نا پسند کرنا الگ بات ہے!
اور کسی فعل کی صلاحیت دینا الگ بات ہے!
اللہ تعالیٰ ہر ہر فعل کو پسند نہیں کرتا ، درست!
لیکن ہر ہر فعل کی صلاحیت اللہ ہی کی پیدا کردہ ہے!
کوئی شیطان کوئی مخلوق کسی میں کوئی صلاحیت پیدا نہیں کرسکتا!
اگر کوئی اس کا قائل ہے کہ برے فعل کی صلاحیت اللہ کے علاوہ کسی اور کی پیدا کردہ ہے ، تو یہ عقیدہ اسلام کا نہیں، بلکہ زرتشتوں کا ہے کہ ان کے ہاں ایک'' یزداں'' ہے، خیر کا خالق وخدا اور ایک ''اہرمن'' شر کا خالق و خدا!
1)آپ کہہ رہے ہیں جو میں سمجھا ہوں اگر غلط سوچ رہا تو درستگی فرما دیں آپ کے جواب حیران کرنے والے ہیں۔
ہر ہر فعل کی صلاحیت اللہ ہی کی پیدا کردہ ہے۔۔۔۔۔۔شیطان کی تبلیغ۔۔۔۔جھوٹ بولنا،کفر کی طرف تبلیغ کرنا ،اللہ کے ساتھ شرک کرنا،تہمت لگانا،زنا کرنا،آدم اور اس کی اولاد کے کپڑے اتروانا،گالی دینا،غرور کرنا،پیغمبروں کو جھوٹا کہنا،جادو کی تعلیم میں اثر ماننا،چوری کرنا،اور تمام معاشرے میں جتنی برائیاں ہیں ۔۔۔۔یہ وضاحت کر دیں کس کی پیدا کردہ ہیں اور یہ بھی بتا دیں اس کو کرنے کی صلاحیت کس کی پیدا کردہ ہیں۔ شکریہ۔

عیسیٰ علیہ السلام میں کیا یہ صلاحیت تھی کہ وہ کسی مردہ کو زندہ کرتے،ایک پیغمبر ہو کر۔
موسیٰ علیہ السلام میں کیا یہ صلاحیت تھی کہ وہ ہاتھ بغل میں لے کر اسے باہر نکالیں تو وہ روشن ہو جائے یا لکڑی سانپ بن جائے جبکہ پیغمبر بھی ہیں۔

اللہ تعالیٰ حق سچ دیکھا کر لوگوں کو ہدایت کی طرف بلاتا ہے آزمائش لیتا ہے۔
یہ کہاں سے آپ عقیدہ لے آئیں ہیں کہ اللہ لوگوں کی آزمائش کے لئے دجال کو صلاحیت اور طاقت دے گا۔استغفراللہ۔۔۔دلیل دے کر واضح کریں۔قیاس سے کام نہ لیں۔ اللہ نے باطل کو ہمیشہ نکام کیا ،باطل کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا،باطل کہیں سے بھی آئے اللہ حق ،سچ سے اس کا خاتمہ کرئے گا۔
جیسا کہ ابراھیم علیہ السلام کا قصہ ہے کہ۔
سورۃ البقرہ2۔
کیا تم نے اُس شخص کے حال پر غور نہیں کیا جس نے ابراہیم ؑ سے جھگڑا کیا تھا؟ جھگڑا اِس بات پر کہ ابراہیم ؑ کا ربّ کون ہے ، اور اِس بنا پر کہ اُس شخص کو اللہ نے حکومت دے رکھی تھی ۔ جب ابراہیم ؑ نے کہا کہ ’’ میرا رب وہ ہے جس کے اختیار میں زندگی اور موت ہے ‘‘ تو اُس نے جواب دیا: ’’ زندگی اور موت میرے اختیار میں ہے ۔ ‘‘ ابراہیم ؑ نے کہا : ’’ اچھا ، اللہ سورج کو مشرق سے نکالتا ہے ، تو ذرا اُسے مغرب سے نکال لا ۔ ‘‘ یہ سن کر وہ منکرِ حق ششدر رہ گیا ، مگر اللہ ظالموں کو راہِ راست نہیں دکھایا کرتا ۔ (258)

غور کریں ۔ اگر یہاں بادشاہ کہتا یہ کون سی بڑی بات ہے یہ لو مغرب سے نکال دیتا ہوں اور اپنے قول میں پورا ہو جاتا تو ۔۔۔حق اور سچ کہاں گیا؟؟؟؟؟؟؟؟
ایک دجال اور دعویٰ کرے کہہ میں تمہارا رب ہوں اور کہے میں بارش برسا سکتا ہوں ، یا سچ مچ قتل کر کے سچ مچ انسان کو زندہ کر سکتا ہوں۔۔۔۔اور اللہ بھی اسے یہ صلاحیت دے (استغفراللہ)حق اور باطل کی لڑائی کہاں گئی۔۔۔اللہ تو صرف حق اور سچ سے لوگوں کی آزمائش لیتا ہے۔

 
شمولیت
جون 11، 2015
پیغامات
401
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
79
اس حدیث میں صاف الفاظ ہیں :
(فيقتله ثم يحييه ) دجال اس مومن کو قتل کردے گا اور پھر زندہ کرےگا ،

السلام علیکم! اسحاق صاحب۔
1۔صاف بات اور صاف جواب۔۔۔کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ دجال سچ مچ اسے دو حصوں میں تقسیم کرے گا مسلم کی روایت کے مطابق اور پھر سچ مچ اسے زندہ بھی کرے گا۔۔۔چاہے صرف ایک بار ہی ۔۔
2۔پھر آپ یہ کہہ رہے ہیں جو میرا خیال ہو سکتا ہے۔میں غلط مفہوم بھی لے سکتا ہوں اس لئے وضاحت سے جواب آپ کی طرف سے لینا چہتا ہوں تاکہ بات بلکل صاف ہو جائے۔
پھر آپ کہہ رہے ہیں وہ اپنی طاقت سے نہیں بلکہ اسے اللہ تعالیٰ زندہ کر دے گا (لوگوں کی آزمائش کے لئے)اور لوگ سمجھیں گے کہ یہ اس دجال نے زندہ کیا؟
اگر میں درست خیال کر رہا تو جواب ضرور دیں۔۔۔اللہ تعالیٰ ہر اس انسان کو ہدایت دے جو غوروفکر کرتا ہو۔شکریہ۔
 

وجاہت

رکن
شمولیت
مئی 03، 2016
پیغامات
421
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
45
کیا آپ کا بھی یہی کہنا ہے کہ مقتول شخص حضرت خضر ؑ ہوں گے ؟
خضر علیہ اسلام بھی ایک انسان تھے - اور وہ اس وقت زندہ نہیں -

دلائل یہ ہیں

صحیح بخاری میں ایک حدیث کے الفاظ ہیں کہ

سعید بن عفیر نے ہم سے بیان کیا، ان سے لیث نے بیان کیا، ان سے عبدالرحمن بن خالد بن مسافر نے ابن شہاب کے واسطے سے بیان کیا، انھوں نے سالم اور ابوبکر بن سلیمان بن ابی حثمہ سے روایت کیا کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ آخر عمر میں ( ایک دفعہ ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں عشاء کی نماز پڑھائی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا تو کھڑے ہو گئے اور فرمایا کہ تمہاری آج کی رات وہ ہے کہ اس رات سے سو برس کے آخر تک کوئی شخص جو زمین پر ہے وہ باقی نہیں رہے گا۔

یہی بات صحیح بخاری حدیث نمبر ١١٦ اور ١٠٦ میں بیان ہوئی ہے - صحیح مسلم میں حدیث نمبر ٦٤٧٩
اور سنن ابو داوود حدیث نمبر ٤٣٤٨ اور ترمزی میں حدیث نمبر ٢٢٥١ میں بیان ہوئی ہے-

اب ان احادیث کی روشنی میں کوئی بھی انسان جو اس وقت زندہ تھا جب حضور صلی الله علیہ وسلم نے یہ حدیث بیان کی وہ سو سال بعد باقی نہیں رہا -

لیکن

متقدمین محدثین نے اس روایت کو اس شرح کے تحت قبول کیا ہے کہ خضر علیہ اسلام زندہ ہیں اور دجال کا تماشہ انہی کے ساتھ ہو گا
اب اسی بنیاد پر صحیح مسلم کی ایک حدیث جس کو حدیث جساسہ بھی کہا جاتا ہے -

اس میں جو ذکر ہے کہ

وہاں ایک بڑے قد کا آدمی ہے کہ ہم نے اتنا بڑا آدمی اور ویسا سخت جکڑا ہوا کبھی نہیں دیکھا

اور پھر بیان ہوا کہ


میں مسیح (دجال) ہوں۔ اور البتہ وہ زمانہ قریب ہے کہ جب مجھے نکلنے کی اجازت ہو گی۔ پس میں نکلوں گا اور سیر کروں گا

ایک دجال جو ایک انسان ہے - کیسے زمانہ قریب تک جو اوپر بیان ہوا ہے - زندہ رہ سکتا ہے -


اب میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ آپ کا کیا عقیدہ ہے کہ خضر علیہ اسلام زندہ ہیں یا فوت ہو چکے ہیں -

اور صحیح مسلم کی حدیث جساسہ کے بارے میں آپ کیا کہیں گے -



 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
1)آپ کہہ رہے ہیں جو میں سمجھا ہوں اگر غلط سوچ رہا تو درستگی فرما دیں آپ کے جواب حیران کرنے والے ہیں۔
ہر ہر فعل کی صلاحیت اللہ ہی کی پیدا کردہ ہے۔۔۔۔۔۔شیطان کی تبلیغ۔۔۔۔جھوٹ بولنا،کفر کی طرف تبلیغ کرنا ،اللہ کے ساتھ شرک کرنا،تہمت لگانا،زنا کرنا،آدم اور اس کی اولاد کے کپڑے اتروانا،گالی دینا،غرور کرنا،پیغمبروں کو جھوٹا کہنا،جادو کی تعلیم میں اثر ماننا،چوری کرنا،اور تمام معاشرے میں جتنی برائیاں ہیں ۔۔۔۔یہ وضاحت کر دیں کس کی پیدا کردہ ہیں اور یہ بھی بتا دیں اس کو کرنے کی صلاحیت کس کی پیدا کردہ ہیں۔ شکریہ۔

عیسیٰ علیہ السلام میں کیا یہ صلاحیت تھی کہ وہ کسی مردہ کو زندہ کرتے،ایک پیغمبر ہو کر۔
موسیٰ علیہ السلام میں کیا یہ صلاحیت تھی کہ وہ ہاتھ بغل میں لے کر اسے باہر نکالیں تو وہ روشن ہو جائے یا لکڑی سانپ بن جائے جبکہ پیغمبر بھی ہیں۔

اللہ تعالیٰ حق سچ دیکھا کر لوگوں کو ہدایت کی طرف بلاتا ہے آزمائش لیتا ہے۔
یہ کہاں سے آپ عقیدہ لے آئیں ہیں کہ اللہ لوگوں کی آزمائش کے لئے دجال کو صلاحیت اور طاقت دے گا۔استغفراللہ۔۔۔دلیل دے کر واضح کریں۔قیاس سے کام نہ لیں۔ اللہ نے باطل کو ہمیشہ نکام کیا ،باطل کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا،باطل کہیں سے بھی آئے اللہ حق ،سچ سے اس کا خاتمہ کرئے گا۔
جیسا کہ ابراھیم علیہ السلام کا قصہ ہے کہ۔
سورۃ البقرہ2۔
کیا تم نے اُس شخص کے حال پر غور نہیں کیا جس نے ابراہیم ؑ سے جھگڑا کیا تھا؟ جھگڑا اِس بات پر کہ ابراہیم ؑ کا ربّ کون ہے ، اور اِس بنا پر کہ اُس شخص کو اللہ نے حکومت دے رکھی تھی ۔ جب ابراہیم ؑ نے کہا کہ ’’ میرا رب وہ ہے جس کے اختیار میں زندگی اور موت ہے ‘‘ تو اُس نے جواب دیا: ’’ زندگی اور موت میرے اختیار میں ہے ۔ ‘‘ ابراہیم ؑ نے کہا : ’’ اچھا ، اللہ سورج کو مشرق سے نکالتا ہے ، تو ذرا اُسے مغرب سے نکال لا ۔ ‘‘ یہ سن کر وہ منکرِ حق ششدر رہ گیا ، مگر اللہ ظالموں کو راہِ راست نہیں دکھایا کرتا ۔ (258)

غور کریں ۔ اگر یہاں بادشاہ کہتا یہ کون سی بڑی بات ہے یہ لو مغرب سے نکال دیتا ہوں اور اپنے قول میں پورا ہو جاتا تو ۔۔۔حق اور سچ کہاں گیا؟؟؟؟؟؟؟؟
ایک دجال اور دعویٰ کرے کہہ میں تمہارا رب ہوں اور کہے میں بارش برسا سکتا ہوں ، یا سچ مچ قتل کر کے سچ مچ انسان کو زندہ کر سکتا ہوں۔۔۔۔اور اللہ بھی اسے یہ صلاحیت دے (استغفراللہ)حق اور باطل کی لڑائی کہاں گئی۔۔۔اللہ تو صرف حق اور سچ سے لوگوں کی آزمائش لیتا ہے۔
اس حدیث میں صاف الفاظ ہیں :
(فيقتله ثم يحييه ) دجال اس مومن کو قتل کردے گا اور پھر زندہ کرےگا ،

السلام علیکم! اسحاق صاحب۔
1۔صاف بات اور صاف جواب۔۔۔کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ دجال سچ مچ اسے دو حصوں میں تقسیم کرے گا مسلم کی روایت کے مطابق اور پھر سچ مچ اسے زندہ بھی کرے گا۔۔۔چاہے صرف ایک بار ہی ۔۔
2۔پھر آپ یہ کہہ رہے ہیں جو میرا خیال ہو سکتا ہے۔میں غلط مفہوم بھی لے سکتا ہوں اس لئے وضاحت سے جواب آپ کی طرف سے لینا چہتا ہوں تاکہ بات بلکل صاف ہو جائے۔
پھر آپ کہہ رہے ہیں وہ اپنی طاقت سے نہیں بلکہ اسے اللہ تعالیٰ زندہ کر دے گا (لوگوں کی آزمائش کے لئے)اور لوگ سمجھیں گے کہ یہ اس دجال نے زندہ کیا؟
اگر میں درست خیال کر رہا تو جواب ضرور دیں۔۔۔اللہ تعالیٰ ہر اس انسان کو ہدایت دے جو غوروفکر کرتا ہو۔شکریہ۔
ان تمام کی وضاحت بیان کی جا چکی ہے!
بغور مطالعہ فرمائیں!
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
ایک دجال جو ایک انسان ہے - کیسے زمانہ قریب تک جو اوپر بیان ہوا ہے - زندہ رہ سکتا ہے -

اب میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ آپ کا کیا عقیدہ ہے کہ خضر علیہ اسلام زندہ ہیں یا فوت ہو چکے ہیں -

اور صحیح مسلم کی حدیث جساسہ کے بارے میں آپ کیا کہیں گے -
دیکھیں بھائی جان! اگر بندہ ضد پکڑ لے تو اس کا تو کوئی علاج نہیں!
باقی اس بات کا جواب آپ کو دیا جا چکا ہے!
حدیث جساسہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، اور کسی عموم کی بنیاد پر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت کسی خاص و معجزہ کو رد نہیں کیا جاسکتا!
خضر علیہ السلام کی حیات کے متعلق اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی حدیث ثابت نہیں! اور نہ ہی قرآن میں ایسی کوئی بات ہے،
لوگوں کے اس گمان کا قرآن کی آیات و اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کے عموم سے رد کیا جا سکتا ہے!
اتنی سی بات نہ سمجھنے کی بنیاد پر نجانے کون کون سے گیت گائے جا رہے ہیں!
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,123
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
السلام و علیکم و رحمت الله -

مجھے مفتی ابو لُبانہ شاہ منصور صاحب کی کتاب ”دجال کون ؟ کہاں؟ کب ؟“ اور مولانہ عاصم عمر کی کتابیں ١-تیسری صلیبی جنگ اور دجال۔ ٢:برمودہ تکون اور دجال جیسی کتابیں وغیرہ پڑھنے کا اتفاق ہوا ہے - دونوں کتابیں بلکل بھی مؤثر انداز میں نہیں لکھی گئی ہیں - جدید سائنسی ایجادات اور نظریات کو زبردستی دجال کی آمد سے نتھی کردیا گیا ہے -احادیث نبوی میں موجود اس کے کمالات سے متعلق ان علماء نے عجیب و غریب تشریحات کی ہیں - حتیٰ کہ لوگوں کو محظوظ کرنے کے لئے اس کی آمد کے ممکنہ سال تک بتا دیے ہیں جو شائد اس ٢١ ویں صدی کے دوسری یا تیسری دہائی کے ہیں- اور یہ بھی فرما دیا ہے کہ وہ اس وقت برمودا ٹرائی اینگل (بحر اوقیانوس) یا پھر ڈریگون ٹرائی اینگل بحر الکاہل کے وسط میں) کے کسی جزیرے پر موجود ہے اور کفار (یہود) کو اپنے پیغامات بھیج رہا ہے -یہ کتابیں پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کسی بچوں کی horror story کی کتاب ہو- اکثر بے سروپا باتیں آپ کو ان کتابوں میں بکثرت ملیں گی-

نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم کا فرمان ہے کہ :
قَالَ: كُنْتُ أَمْشِي مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: "لَغَيْرُ الدَّجَّالِ أَخْوَفُنِي عَلَى أُمَّتِي " قَالَهَا ثَلَاثًا. قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، مَا هَذَا الَّذِي غَيْرُ الدَّجَّالِ أَخْوَفُكَ عَلَى أُمَّتِكَ؟ قَالَ: "أَئِمَّةً مُضِلِّينَ "


"ابوذر رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
میں ایک دن اللہ کے رسول صل اللہ علیہ و آ له وسلم کے ساتھ تھا اور میں نے آپ صل اللہ علیہ و آ له وسلم کو فرماتے ہوئے سنا :
"مجھے میری امت کے لئے دجال سے بھی زیادہ خدشہ (ایک اور چیز کا) ہے"-آپ نے اس بات کو تین مرتبہ دہرایا ۔ میں نے کہا ! اے اللہ کے رسول صل اللہ علیہ و آ له سلم، وہ کیا چیز ہے جس کا آپ دجال کے علاوہ اپنی امت پر خوف کر تے ہیں ؟ تو فرمایا "گمراہ ائمہ"- ( مسند امام احمد - حکم صحیح لغیرہ)
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبر کاتہ !
میں جانتا ہوں کہ مفتی ابو لُبانہ شاہ منصور صاحب نے بہت سی ایسی باتیں کہیں ہیں جن سے اتفاق کرنا بہت مشکل ہے ۔مگر ان کی کتاب سے ظاہر ہوتاہے کہ انہوں نے ان روایات کی عصری تطبیق پیش کی ہے جو مسیح الدجال کے متعلق ہیں۔میرے خیال میں شاہ صاحب نے جس طرح ان روایات کی جو عصری تطبیق پیش کی ہے وہ بعید از امکان معلوم نہیں ہوتی ۔ کیونکہ زمانہ جس طرح دن بدن سائنسی ترقی کی منازل طے کرتا چلا جا رہا ہے عین ممکن ہے کہ مسیح الدجال سائنسی ٹیکنالوجی کو ہی بطور ہتھیار استعمال کرے ۔
شاہ صاحب نے تو فقط یہی خیال ظاہر کیا ہے کہ برمودا ٹرائی اینگل میں مسیح الدجال مقید ہے مگر ایک مضمون نگار نے تو وہاں ”سجین “ واقع ہونے کا خیال ظاہر فرمایا ہے ۔ و اللہ اعلم !
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,123
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
خضر علیہ اسلام بھی ایک انسان تھے - اور وہ اس وقت زندہ نہیں -

دلائل یہ ہیں

صحیح بخاری میں ایک حدیث کے الفاظ ہیں کہ

سعید بن عفیر نے ہم سے بیان کیا، ان سے لیث نے بیان کیا، ان سے عبدالرحمن بن خالد بن مسافر نے ابن شہاب کے واسطے سے بیان کیا، انھوں نے سالم اور ابوبکر بن سلیمان بن ابی حثمہ سے روایت کیا کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ آخر عمر میں ( ایک دفعہ ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں عشاء کی نماز پڑھائی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا تو کھڑے ہو گئے اور فرمایا کہ تمہاری آج کی رات وہ ہے کہ اس رات سے سو برس کے آخر تک کوئی شخص جو زمین پر ہے وہ باقی نہیں رہے گا۔

یہی بات صحیح بخاری حدیث نمبر ١١٦ اور ١٠٦ میں بیان ہوئی ہے - صحیح مسلم میں حدیث نمبر ٦٤٧٩
اور سنن ابو داوود حدیث نمبر ٤٣٤٨ اور ترمزی میں حدیث نمبر ٢٢٥١ میں بیان ہوئی ہے-

اب ان احادیث کی روشنی میں کوئی بھی انسان جو اس وقت زندہ تھا جب حضور صلی الله علیہ وسلم نے یہ حدیث بیان کی وہ سو سال بعد باقی نہیں رہا -

لیکن



اب اسی بنیاد پر صحیح مسلم کی ایک حدیث جس کو حدیث جساسہ بھی کہا جاتا ہے -

اس میں جو ذکر ہے کہ
وہاں ایک بڑے قد کا آدمی ہے کہ ہم نے اتنا بڑا آدمی اور ویسا سخت جکڑا ہوا کبھی نہیں دیکھا

اور پھر بیان ہوا کہ

میں مسیح (دجال) ہوں۔ اور البتہ وہ زمانہ قریب ہے کہ جب مجھے نکلنے کی اجازت ہو گی۔ پس میں نکلوں گا اور سیر کروں گا

ایک دجال جو ایک انسان ہے - کیسے زمانہ قریب تک جو اوپر بیان ہوا ہے - زندہ رہ سکتا ہے -


اب میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ آپ کا کیا عقیدہ ہے کہ خضر علیہ اسلام زندہ ہیں یا فوت ہو چکے ہیں -

اور صحیح مسلم کی حدیث جساسہ کے بارے میں آپ کیا کہیں گے -
میری نظر میں مولانا مودودی ؒ نے ”رسائل و مسائل، جلد 01، صفحہ 39-37“ میں جو فرمایا ہے ، وہ زیادہ معقول لگتا ہے ۔
 
شمولیت
جون 11، 2015
پیغامات
401
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
79
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

دیکھیں بھائی جان! اگر بندہ ضد پکڑ لے تو اس کا تو کوئی علاج نہیں!
باقی اس بات کا جواب آپ کو دیا جا چکا ہے!
السلام علیکم ! ایک طرف ہے قرآن مجید ایک طرف ہیں یہ روایات۔۔ضد کون کررہا ہے ۔۔۔۔۔آپ کو معلوم ہونا چاہئے شکریہ۔
کیا ثقہ راویوں کو غلط فہمی،سننے میں غلطی ،لکھنے میں،غلطی نہیں وہ سکتی؟
قرآن مجید اور روایات میں فرق بیان کریں گے؟مختصر۔۔۔۔شکریہ
 

وجاہت

رکن
شمولیت
مئی 03، 2016
پیغامات
421
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
45
میری نظر میں مولانا مودودی ؒ نے ”رسائل و مسائل، جلد 01، صفحہ 39-37“ میں جو فرمایا ہے ، وہ زیادہ معقول لگتا ہے ۔
کیا آپ مولانا مودودی رحمہ الله کی اس بات کا حوالہ دے رہے ہیں
اگر یہی حوالہ ہے تو کیا آپ متفق ہیں جو انہوں نے کہا ہے کہ
میں نے جس چیز کو افسانہ قرار دیا ہے وہ یہ خیال ہے کہ دجال کہیں مقید ہے
 

وجاہت

رکن
شمولیت
مئی 03، 2016
پیغامات
421
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
45
السلام و علیکم و رحمت الله -

نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم کا فرمان ہے کہ :

قَالَ: كُنْتُ أَمْشِي مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: "لَغَيْرُ الدَّجَّالِ أَخْوَفُنِي عَلَى أُمَّتِي " قَالَهَا ثَلَاثًا. قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، مَا هَذَا الَّذِي غَيْرُ الدَّجَّالِ أَخْوَفُكَ عَلَى أُمَّتِكَ؟ قَالَ: "أَئِمَّةً مُضِلِّينَ "


"ابوذر رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
میں ایک دن اللہ کے رسول صل اللہ علیہ و آ له وسلم کے ساتھ تھا اور میں نے آپ صل اللہ علیہ و آ له وسلم کو فرماتے ہوئے سنا :
"مجھے میری امت کے لئے دجال سے بھی زیادہ خدشہ (ایک اور چیز کا) ہے"-آپ نے اس بات کو تین مرتبہ دہرایا ۔ میں نے کہا ! اے اللہ کے رسول صل اللہ علیہ و آ له سلم، وہ کیا چیز ہے جس کا آپ دجال کے علاوہ اپنی امت پر خوف کر تے ہیں ؟ تو فرمایا "گمراہ ائمہ"- ( مسند امام احمد - حکم صحیح لغیرہ)

أَئِمَّةً مُضِلِّينَ یعنی گمراہ کرنے والے ائمہ یا حکمران مراد ہیں کیونکہ دور نبوی میں ائمہ کا لفظ امراء کے لئے استمعال ہوتا تھا نہ کہ علماء کے لئے

ایک دوسری حدیث میں ہے

انظر صَحِيح الْجَامِع: 1553 , والصحيحة: 1127

إِنَّ أَخْوَفَ مَا أَخَافُ عَلَى أُمَّتِي فِي آخِرِ زَمَانِهَا: إيمَانًا بِالنُجُومِ , وَحَيْفَ السُّلْطَانِ , وَتَكْذِيبًا بِالْقَدَرِ


آخری زمانے میں مجھے خوف ہے ظالم سلطان سے


اور ایک حدیث میں ہے

وَعَنْ عمرو بن سفيان السلمي – رضي الله عنه – قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ – صلى الله عليه وسلم -: ” مَا أَخَافُ عَلَى أُمَّتِي إِلَّا ثَلَاثا: شُحٌّ مُطَاعٌ (1) وَهَوًى مُتَّبَعٌ، وَإِمَامٌ ضَالٌّ


خوف ہے لالچی کا ، بہکے ہوئے کا، اور امام گمراہ کا


امام یعنی حاکم

‌صحيح البخاري: کِتَابُ مَنَاقِبِ الأَنْصَارِ (بَابُ أَيَّامِ الجَاهِلِيَّةِ)

صحیح بخاری: کتاب: انصار کے مناقب

(باب: جاہلیت کے زمانے کا بیان)

3834 . حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ بَيَانٍ أَبِي بِشْرٍ عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ قَالَ دَخَلَ أَبُو بَكْرٍ عَلَى امْرَأَةٍ مِنْ أَحْمَسَ يُقَالُ لَهَا زَيْنَبُ فَرَآهَا لَا تَكَلَّمُ فَقَالَ مَا لَهَا لَا تَكَلَّمُ قَالُوا حَجَّتْ مُصْمِتَةً قَالَ لَهَا تَكَلَّمِي فَإِنَّ هَذَا لَا يَحِلُّ هَذَا مِنْ عَمَلِ الْجَاهِلِيَّةِ فَتَكَلَّمَتْ فَقَالَتْ مَنْ أَنْتَ قَالَ امْرُؤٌ مِنْ الْمُهَاجِرِينَ قَالَتْ أَيُّ الْمُهَاجِرِينَ قَالَ مِنْ قُرَيْشٍ قَالَتْ مِنْ أَيِّ قُرَيْشٍ أَنْتَ قَالَ إِنَّكِ لَسَئُولٌ أَنَا أَبُو بَكْرٍ قَالَتْ مَا بَقَاؤُنَا عَلَى هَذَا الْأَمْرِ الصَّالِحِ الَّذِي جَاءَ اللَّهُ بِهِ بَعْدَ الْجَاهِلِيَّةِ قَالَ بَقَاؤُكُمْ عَلَيْهِ مَا اسْتَقَامَتْ بِكُمْ أَئِمَّتُكُمْ قَالَتْ وَمَا الْأَئِمَّةُ قَالَ أَمَا كَانَ لِقَوْمِكِ رُءُوسٌ وَأَشْرَافٌ يَأْمُرُونَهُمْ فَيُطِيعُونَهُمْ قَالَتْ بَلَى قَالَ فَهُمْ أُولَئِكِ عَلَى النَّاسِ

حکم : صحیح

ہم سے ابو النعمان نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابو عوانہ نے بیان کیا ، ان سے بیان نے ، ان سے ابو بشر نے اور ان سے قیس بن ابی حازم نے بیان کیا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ قبیلہ احمس کی ایک عورت سے ملے ان کا نام زینب بنت مہاجر تھا ، آپ رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ وہ بات ہی نہیں کر تیں دریافت فرمایا کیا بات ہے یہ بات کیوں نہیں کرتیں ؟ لوگوں نے بتایا کہ مکمل خاموشی کے ساتھ حج کر نے کی منت مانی ہے ۔ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا اجی بات کر و اس طرح حج کر نا تو جاہلیت کی رسم ہے ، چنانچہ اس نے بات کی اور پوچھا آپ کون ہیں ؟ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں مہاجرین کا ایک آدمی ہوں ۔ انہوں نے پوچھا کہ مہاجرین کے کس قبیلہ سے ہیں ؟ آپ نے فرمایا کہ قریش سے ، انہوں نے پوچھا قریش کے کس خاندان سے ؟ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اس پر فرمایا تم بہت پوچھنے والی عورت ہو ، میں ابو بکر ہوں ۔ اس کے بعد انہوں نے پوچھا جاہلیت کے بعد اللہ تعالیٰ نے جو ہمیں یہ دین حق عطافرمایا ہے اس پر ہم ( مسلمان ) کب تک قائم رہ سکیں گے ؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا اس پر تمہار ا قیام اس وقت تک رہے گا جب تک تمہار ے
امام حاکم سید ھے رہیں گے ۔ اس خاتون نے پوچھا امام سے کیا مراد ہے آپ نے فرمایا کیا تمہاری قوم میں سردار اور اشراف لوگ نہیں ہیں جو اگر لوگوں کو کوئی حکم دیں تو وہ اس کی اطاعت کریں ؟ اس نے کہا کہ کیوں نہیں ہیں ۔ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ امام سے یہی مراد ہیں ۔
 
Top