السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اسلام علیکم! میرا یہاں بات کرنے کا مقصد ،مدعا یہ ہے کہ آپ کو بھی غلطی لگی ہے ،
نہیں آپ کو اپنا مدعا بیان کرنے میں غلطی لگ رہی ہے!
آپ نے جو صفحہ پیش کیا تھا، وہاں تو غور سے دیکھیں، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا فرمایا ہے؛
آپ نے تحقیق نہیں کی بلکہ جو کچھ آپ کو پڑھا دیا گیا بس وہی سب درست ہے۔۔
میرے بھائی! اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پر نازل شدہ وحی کا انکار تحقیق نہیں کفر کہلاتاہے، اور وہ اللہ کی توفیق سے ہم نہیں کرتے!
دیکھیں اس حدیث کو اور غور کریں۔۔۔۔اس میں حدیث سے واضح ہے انہوں نے نہیں سنا
آپ کی آنکھوں پر موتیا آگیا ہے! آپ اپنے ہی پیش کردہ صفحہ کو انکار حدیث کے کفر کا چشمہ اتار کر دیکھیں! وہاں واضح لکھا ہے:
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاٌ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، جو کچھ میں کہہ رہا ہوں تم کوگ ان سے زیادہ نہیں سن رہے ہو۔
لیکن نیچے تشریح کرنے والے نے اپنے عقیدہ کے لحاظ سے تشریح کر دی ۔۔۔۔کیا یہ ظلم نہیں ۔۔۔۔
نہیں! یہ تشریح ایک توضیح ہوتی ہے!
کہاں کا عقیدہ ہے کہ احادیث کو سامنے رکھ کر اپنے اپنے عقیدہ کا نکالا جائے۔۔۔۔
احادیث کو سامنے رکھ کر عقیدہ نکالنا یعنی اخذ کرنا، دین اسلام کا عقیدہ ہے! اور جو اس کا انکار کرتا ہے، وہ کفر کرتا ہے!
دجال کے بارے میں بھی یہی مسلہ ہے جو کسی نے جو کچھ پڑھا دیا بس وہی کچھ حق ہے ۔۔۔قرآن مجید پر کس نے غور کرنا ۔۔۔۔؟
احادیث کو چھوڑ کر اپنی اٹکل سے قرآن پر غور کرنے والوں کو قرآن تو سمجھ نہیں آتا، لیکن وہ اپنے اٹکل پچو کو قرآن باور کروانے پر تلے ہوتے ہیں!