• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دجال کے پاس مارنے کے بعد زندہ کرنے کی قوت ہوگی؟

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,123
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
کیا آپ مولانا مودودی رحمہ الله کی اس بات کا حوالہ دے رہے ہیں
اگر یہی حوالہ ہے تو کیا آپ متفق ہیں جو انہوں نے کہا ہے کہ
یہی زیادہ معقول لگتا ہے مگر مولانا مودودی ؒ نے جس سیاق وسباق میں یہ بات فرمائی ہے اسے بھی نظر انداز نہ کیا جائے ۔ میں حضرت خضر ؑ کا اب تک زندہ ہونے کا قائل نہیں ۔ شکریہ !
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
ایک طرف ہے قرآن مجید ایک طرف ہیں یہ روایات۔۔ضد کون کررہا ہے ۔۔۔۔۔آپ کو معلوم ہونا چاہئے شکریہ۔
نہیں ایسا نہی! ایک طرف قرآن مجید اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث ہیں، اور ایک طرف منکرین وحی کی اٹکل!
اور قرآن و احادیث کے مقابلے میں ضد منکرین وحی ہی کر رہے ہیں!
کیا ثقہ راویوں کو غلط فہمی،سننے میں غلطی ،لکھنے میں،غلطی نہیں وہ سکتی؟
جی ! اور انہیں ثقہ راویوں نے قرآن بھی روایت کیا ہے!
قرآن مجید اور روایات میں فرق بیان کریں گے؟مختصر۔۔۔۔شکریہ
قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ وہ وحی ہے جو اللہ کا کلام ہے!
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ وہ وحی ہے جو قرآن نہیں! یعنی کلام اللہ نہیں!
 
شمولیت
جون 11، 2015
پیغامات
401
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
79
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

نہیں ایسا نہی! ایک طرف قرآن مجید اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث ہیں، اور ایک طرف منکرین وحی کی اٹکل!
اور قرآن و احادیث کے مقابلے میں ضد منکرین وحی ہی کر رہے ہیں!

جی ! اور انہیں ثقہ راویوں نے قرآن بھی روایت کیا ہے!

قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ وہ وحی ہے جو اللہ کا کلام ہے!
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ وہ وحی ہے جو قرآن نہیں! یعنی کلام اللہ نہیں!
السلام علیکم!یعنی ابن داود صاحب کیا صحیح بخاری لاریب ہے،اور باقی کتابیں۔۔۔۔؟ منکرین وحی کے اٹکل!۔۔۔اٹکل سے مراد آپ جانتے ہیں؟یعنی ایسے علم کے پیچھے جس کا کسی کو علم نہیں صرف قیاس قیاس۔۔۔۔۔اور ضد منکریں وحی ہی کر رہے ہیں؟
سورۃ الانعام 6۔اور اے نبی ﷺ ، جب تم دیکھو کہ لوگ ہماری آیات پر نکتہ چینیاں کر رہے ہیں تو ان کے پاس سے ہٹ جائو یہاں تک کہ وہ اس گفتگو کو چھوڑ کر دوسری باتوں میں لگ جائیں۔ اور اگر کبھی شیطان تمہیں بھلاوے میں ڈال دے تو جس وقت تمہیں اس غلطی کا احساس ہو جائے اس کے بعد پھر ایسے ظالم لوگوں کے پاس نہ بیٹھو۔(68)

٭٭٭٭یہاں کون سی وحی کی بات ہو رہی ہے ۔۔۔۔۔۔۔

سورۃ البقرہ2۔یہ اللہ کی کتاب ہے ، اس میں کوئی شک نہیں ۔ ہدایت ہے اُن پرہیز گارلوگوں کے لیے (2)
٭٭٭٭یہاں کون سی وحی کی بات ہو رہی ہے ۔۔۔۔۔۔۔
سورۃ البقرہ 2۔جو کتاب تم پر نازل کی گئی ہے (یعنی قرآن) اور جو کتابیں تم سے پہلے نازل کی گئی تھیں ان سب پر ایمان لاتے ہیں اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں ۔(4)
٭٭٭٭یہاں کون سی وحی کی بات ہو رہی ہے ۔۔۔۔۔۔۔
سورۃ البقرہ 2۔
اور اگر تمہیں اِس امر میں شک ہے کہ یہ کتاب جو ہم نے اپنے بندے پر اُتاری ہے ، یہ ہماری ہے یا نہیں ، تو اِس کے مانند ایک ہی سورت بنا لائو ، اپنے سارے ہم نوائوں کو بلا لو ، ایک اللہ کو چھوڑ کر باقی جس کی چاہو ، مدد لے لو ، اگر تم سچے ہو تو یہ کام کر کے دکھائو ۔(23)
٭٭٭٭یہاں کون سی وحی کی بات ہو رہی ہے ۔۔۔۔۔۔۔

سورۃ الانعام 6۔پس جب ہماری طرف سے ان پر سختی آئی تو کیوں نہ انہوں نے عاجزی اختیار کی؟ مگر ان کے دل تو اور سخت ہوگیئ اور شیطان نے ان کو اطمینان دلایا کہ جو کچھ تم کر رہے ہوخوب کر رہے ہو ۔ (43)


یہ ایک تصوریر ہے اس میں جنگ بدر کا واقع ہے کیا مردوں نے واقع نبی کریم ﷺ کی بات سنی تھی؟وضاحت کرنا پسند کریں گے۔
 

اٹیچمنٹس

  • 2.5 MB مناظر: 582

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ!
السلام علیکم!یعنی ابن داود صاحب کیا صحیح بخاری لاریب ہے،اور باقی کتابیں۔۔۔۔؟
اللہ کی وحی تمام لاریب ہے، جبکہ کتاب صرف قرآن لاریب ہے
یہ بات غالباً آپ کو بھی پہلے بیان کی تھی کہ ہم صحیح بخاری کی کتاب کو لاریب نہیں مانتے، نہ کسی اور کتاب کو سوائے قرآن کے لاریب مانتے ہیں، ہاں اللہ کی وحی کو لا ریب مانتے ہیں، جو قرآن میں مذکور ہو، یا احادیث میں!
اٹکل سے مراد آپ جانتے ہیں؟یعنی ایسے علم کے پیچھے جس کا کسی کو علم نہیں صرف قیاس قیاس۔۔۔۔۔اور ضد منکریں وحی ہی کر رہے ہیں؟
بلکل جناب میں اٹکل کے معنی جانتا ہوں، اور بہت خوب جانتا ہوں!
ویسے غالباً آپ کو قیاس شرعی سے مراد نہیں معلوم، وگرنہ اسے آپ اٹکل نہ کہتے!
سورۃ الانعام 6۔اور اے نبی ﷺ ، جب تم دیکھو کہ لوگ ہماری آیات پر نکتہ چینیاں کر رہے ہیں تو ان کے پاس سے ہٹ جائو یہاں تک کہ وہ اس گفتگو کو چھوڑ کر دوسری باتوں میں لگ جائیں۔ اور اگر کبھی شیطان تمہیں بھلاوے میں ڈال دے تو جس وقت تمہیں اس غلطی کا احساس ہو جائے اس کے بعد پھر ایسے ظالم لوگوں کے پاس نہ بیٹھو۔(68)

٭٭٭٭یہاں کون سی وحی کی بات ہو رہی ہے ۔۔۔۔۔۔۔
یہاں اللہ تعالیٰ کی آیات کی بات ہو رہی ہیں، خواہ وہ قرآن میں مذکور ہوں، یا قرآن کے علاوہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث میں!
سورۃ البقرہ2۔یہ اللہ کی کتاب ہے ، اس میں کوئی شک نہیں ۔ ہدایت ہے اُن پرہیز گارلوگوں کے لیے (2)
٭٭٭٭یہاں کون سی وحی کی بات ہو رہی ہے ۔۔۔۔۔۔۔
یہاں کتاب کو لا ریب کہا گیا ہے، تو یہاں کتاب یعنی قرآن میں مذکور وحی کی بات ہے، مگر یاد رہے یہاں قرآن کے علاوہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کی وحی کے لاریب ہونے کی نفی نہیں!
سورۃ البقرہ 2۔جو کتاب تم پر نازل کی گئی ہے (یعنی قرآن) اور جو کتابیں تم سے پہلے نازل کی گئی تھیں ان سب پر ایمان لاتے ہیں اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں ۔(4)
٭٭٭٭یہاں کون سی وحی کی بات ہو رہی ہے ۔۔۔۔۔۔۔
یہاں بھی کتاب یعنی قرآن کی بات ہو رہی ہے، اور یہاں بھی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کی وحی پر ایمان کی نفی نہیں!
سورۃ البقرہ 2۔
اور اگر تمہیں اِس امر میں شک ہے کہ یہ کتاب جو ہم نے اپنے بندے پر اُتاری ہے ، یہ ہماری ہے یا نہیں ، تو اِس کے مانند ایک ہی سورت بنا لائو ، اپنے سارے ہم نوائوں کو بلا لو ، ایک اللہ کو چھوڑ کر باقی جس کی چاہو ، مدد لے لو ، اگر تم سچے ہو تو یہ کام کر کے دکھائو ۔(23)
٭٭٭٭یہاں کون سی وحی کی بات ہو رہی ہے ۔۔۔۔۔۔۔
یہاں بھی کتاب یعنی قرآن میں مذکور وحی کی بات ہے، اور یہاں بھی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کے وحی ہونے کی نفی نہیں!
سورۃ الانعام 6۔پس جب ہماری طرف سے ان پر سختی آئی تو کیوں نہ انہوں نے عاجزی اختیار کی؟ مگر ان کے دل تو اور سخت ہوگیئ اور شیطان نے ان کو اطمینان دلایا کہ جو کچھ تم کر رہے ہوخوب کر رہے ہو ۔ (43)
یہاں آپ نے اپنا مدعا بیان نہیں کیا کہ مدعا کیا ہے!
یہ ایک تصوریر ہے اس میں جنگ بدر کا واقع ہے کیا مردوں نے واقع نبی کریم ﷺ کی بات سنی تھی؟وضاحت کرنا پسند کریں گے۔
جی بالکل ان مردوں نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سنی تھی!
یہ بات اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے! جس طرح اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی بنا پر ہم قرآن کومنزل من اللہ مانتے ہیں اسی طرح ہم اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بات بھی مانتے ہیں!
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبر کاتہ !
میں جانتا ہوں کہ مفتی ابو لُبانہ شاہ منصور صاحب نے بہت سی ایسی باتیں کہیں ہیں جن سے اتفاق کرنا بہت مشکل ہے ۔مگر ان کی کتاب سے ظاہر ہوتاہے کہ انہوں نے ان روایات کی عصری تطبیق پیش کی ہے جو مسیح الدجال کے متعلق ہیں۔میرے خیال میں شاہ صاحب نے جس طرح ان روایات کی جو عصری تطبیق پیش کی ہے وہ بعید از امکان معلوم نہیں ہوتی ۔ کیونکہ زمانہ جس طرح دن بدن سائنسی ترقی کی منازل طے کرتا چلا جا رہا ہے عین ممکن ہے کہ مسیح الدجال سائنسی ٹیکنالوجی کو ہی بطور ہتھیار استعمال کرے ۔
شاہ صاحب نے تو فقط یہی خیال ظاہر کیا ہے کہ برمودا ٹرائی اینگل میں مسیح الدجال مقید ہے مگر ایک مضمون نگار نے تو وہاں ”سجین “ واقع ہونے کا خیال ظاہر فرمایا ہے ۔ و اللہ اعلم !
السلام و علیکم و رحمت الله محترم THK بھائی -

میں آپ سے اختلاف تو نہیں کرتا - لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ آجکل بعض علماء و مشائخ چاہے مفتی ابو لبابہ شاہ منصور ہوں یا کوئی اور یا پھر کچھ نام نہاد دانشوروں ہوں (جیسے اوریا مقبول جان وغیرہ) ان سب کا یہ مزاج بن چکا ہے کہ اپنی سستی شہرت کے لئے بغیر سوچے سمجھے احادیث نبوی کی خود ساختہ تعبیریں پیش کرنا شروع کردیتے ہیں- جس سے عوام میں گمراہی اور سنسنی و سراسیمگی پھیلتی ہے-اس فتنہ پرور دور میں ہمیں ایک مسلمان کی حیثیت سے اپنے ایمان کی فکر کرنی چاہیے- نہ کہ بیٹھ کر دجال کا انتظار کرنا چاہیے کہ وہ کب اور کیسے ظہور پذیر ہو گا اور کیسے آج کی جدید سائنسی ایجادات کو اپنے مقصد کے لئے بروے کر لاے گا وغیرہ ؟؟-

یہ بات تو طے ہے کہ دور حاضر میں اس کا ظہور بظاھر ممکن نہیں لگتا- اور ہماری آجکل کی نسلوں میں سے بھی شاید ہی کوئی ایسا ہو جو اس کو دیکھ سکے گا یا اس کے فتنہ پرور افعال کا سامنا کرے گا- اس لئے ان مشائخ اور دانش واروں کی اس قسم کی گل فشانیوں اور ان بے سروبا تعبیروں سے (اب چاہے ہم اس کو عصری تطبیق کہیں یا کچھ اور) ان سے پرہیز ہی کرنا بہتر ہے- اور اللہ سے ہمیں یہی دعا کرنی چاہیے کہ ہمیں ہر طرح کے فتنہ سے محفوظ رکھے اور ان بڑے فتنوں کا سامنا کرنے سے پہلے ہمیں اپنے پاس بلالے کیوں کہ ہمارا ایمان کمزور ہے اور ان فتنوں کا سامنا کرنے کی ہمارے اندر صلاحیت نہیں ہے-

برمودا ٹرائی اینگل کے بارے میں آخری تحقیق یہی پڑھی ہے کہ وہاں دجال وغیرہ موجود نہیں- بلکہ اس جگہ سمندر کی تہہ میں ہیلیم گیسوں کا وافر مقدار میں مجموع موجود ہے جو سطح سمندر کے اوپر سے ہر گزارنے والی چیز کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے- (واللہ اعلم)-

ایک جاننے والے بزرگ جو انڈیا میں رہتے ہیں ( اب سچ ہے یا جھوٹ یہ الله بہتر جانتا ہے) وہ بتاتے ہیں کہ انڈیا میں جب کوئلے والا انجن نیا نیا آیا تو وہاں کے گنوار گاؤں کے رہنے والوں نے شور مچا دیا کہ دجال آگیا دجال آگیا- اب ہمارا بھی وہی حال ہے- ہر چیز میں دجال نظر آتا ہے-
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,123
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
السلام و علیکم و رحمت الله محترم THK بھائی -

میں آپ سے اختلاف تو نہیں کرتا - لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ آجکل بعض علماء و مشائخ چاہے مفتی ابو لبابہ شاہ منصور ہوں یا کوئی اور یا پھر کچھ نام نہاد دانشوروں ہوں (جیسے اوریا مقبول جان وغیرہ) ان سب کا یہ مزاج بن چکا ہے کہ اپنی سستی شہرت کے لئے بغیر سوچے سمجھے احادیث نبوی کی خود ساختہ تعبیریں پیش کرنا شروع کردیتے ہیں- جس سے عوام میں گمراہی اور سنسنی و سراسیمگی پھیلتی ہے-اس فتنہ پرور دور میں ہمیں ایک مسلمان کی حیثیت سے اپنے ایمان کی فکر کرنی چاہیے- نہ کہ بیٹھ کر دجال کا انتظار کرنا چاہیے کہ وہ کب اور کیسے ظہور پذیر ہو گا اور کیسے آج کی جدید سائنسی ایجادات کو اپنے مقصد کے لئے بروے کر لاے گا وغیرہ ؟؟-

یہ بات تو طے ہے کہ دور حاضر میں اس کا ظہور بظاھر ممکن نہیں لگتا- اور ہماری آجکل کی نسلوں میں سے بھی شاید ہی کوئی ایسا ہو جو اس کو دیکھ سکے گا یا اس کے فتنہ پرور افعال کا سامنا کرے گا- اس لئے ان مشائخ اور دانش واروں کی اس قسم کی گل فشانیوں اور ان بے سروبا تعبیروں سے (اب چاہے ہم اس کو عصری تطبیق کہیں یا کچھ اور) ان سے پرہیز ہی کرنا بہتر ہے- اور اللہ سے ہمیں یہی دعا کرنی چاہیے کہ ہمیں ہر طرح کے فتنہ سے محفوظ رکھے اور ان بڑے فتنوں کا سامنا کرنے سے پہلے ہمیں اپنے پاس بلالے کیوں کہ ہمارا ایمان کمزور ہے اور ان فتنوں کا سامنا کرنے کی ہمارے اندر صلاحیت نہیں ہے-

برمودا ٹرائی اینگل کے بارے میں آخری تحقیق یہی پڑھی ہے کہ وہاں دجال وغیرہ موجود نہیں- بلکہ اس جگہ سمندر کی تہہ میں ہیلیم گیسوں کا وافر مقدار میں مجموع موجود ہے جو سطح سمندر کے اوپر سے ہر گزارنے والی چیز کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے- (واللہ اعلم)-

ایک جاننے والے بزرگ جو انڈیا میں رہتے ہیں ( اب سچ ہے یا جھوٹ یہ الله بہتر جانتا ہے) وہ بتاتے ہیں کہ انڈیا میں جب کوئلے والا انجن نیا نیا آیا تو وہاں کے گنوار گاؤں کے رہنے والوں نے شور مچا دیا کہ دجال آگیا دجال آگیا- اب ہمارا بھی وہی حال ہے- ہر چیز میں دجال نظر آتا ہے-
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اختلافِ رائے آپ کا حق ہے ۔میں بھی کسی کی بتائی ہوئی ”تعبیر“ کو یقینیات میں شمار نہیں کرتا بلکہ اس کو ایک ”گمانِ غالب“کی حیثیت سے دیکھتا ہوں۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
أَئِمَّةً مُضِلِّينَ یعنی گمراہ کرنے والے ائمہ یا حکمران مراد ہیں کیونکہ دور نبوی میں ائمہ کا لفظ امراء کے لئے استمعال ہوتا تھا نہ کہ علماء کے لئے

ایک دوسری حدیث میں ہے

انظر صَحِيح الْجَامِع: 1553 , والصحيحة: 1127

إِنَّ أَخْوَفَ مَا أَخَافُ عَلَى أُمَّتِي فِي آخِرِ زَمَانِهَا: إيمَانًا بِالنُجُومِ , وَحَيْفَ السُّلْطَانِ , وَتَكْذِيبًا بِالْقَدَرِ


آخری زمانے میں مجھے خوف ہے ظالم سلطان سے


اور ایک حدیث میں ہے

وَعَنْ عمرو بن سفيان السلمي – رضي الله عنه – قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ – صلى الله عليه وسلم -: ” مَا أَخَافُ عَلَى أُمَّتِي إِلَّا ثَلَاثا: شُحٌّ مُطَاعٌ (1) وَهَوًى مُتَّبَعٌ، وَإِمَامٌ ضَالٌّ


خوف ہے لالچی کا ، بہکے ہوئے کا، اور امام گمراہ کا


امام یعنی حاکم

‌صحيح البخاري: کِتَابُ مَنَاقِبِ الأَنْصَارِ (بَابُ أَيَّامِ الجَاهِلِيَّةِ)

صحیح بخاری: کتاب: انصار کے مناقب

(باب: جاہلیت کے زمانے کا بیان)

3834 . حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ بَيَانٍ أَبِي بِشْرٍ عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ قَالَ دَخَلَ أَبُو بَكْرٍ عَلَى امْرَأَةٍ مِنْ أَحْمَسَ يُقَالُ لَهَا زَيْنَبُ فَرَآهَا لَا تَكَلَّمُ فَقَالَ مَا لَهَا لَا تَكَلَّمُ قَالُوا حَجَّتْ مُصْمِتَةً قَالَ لَهَا تَكَلَّمِي فَإِنَّ هَذَا لَا يَحِلُّ هَذَا مِنْ عَمَلِ الْجَاهِلِيَّةِ فَتَكَلَّمَتْ فَقَالَتْ مَنْ أَنْتَ قَالَ امْرُؤٌ مِنْ الْمُهَاجِرِينَ قَالَتْ أَيُّ الْمُهَاجِرِينَ قَالَ مِنْ قُرَيْشٍ قَالَتْ مِنْ أَيِّ قُرَيْشٍ أَنْتَ قَالَ إِنَّكِ لَسَئُولٌ أَنَا أَبُو بَكْرٍ قَالَتْ مَا بَقَاؤُنَا عَلَى هَذَا الْأَمْرِ الصَّالِحِ الَّذِي جَاءَ اللَّهُ بِهِ بَعْدَ الْجَاهِلِيَّةِ قَالَ بَقَاؤُكُمْ عَلَيْهِ مَا اسْتَقَامَتْ بِكُمْ أَئِمَّتُكُمْ قَالَتْ وَمَا الْأَئِمَّةُ قَالَ أَمَا كَانَ لِقَوْمِكِ رُءُوسٌ وَأَشْرَافٌ يَأْمُرُونَهُمْ فَيُطِيعُونَهُمْ قَالَتْ بَلَى قَالَ فَهُمْ أُولَئِكِ عَلَى النَّاسِ

حکم : صحیح

ہم سے ابو النعمان نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابو عوانہ نے بیان کیا ، ان سے بیان نے ، ان سے ابو بشر نے اور ان سے قیس بن ابی حازم نے بیان کیا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ قبیلہ احمس کی ایک عورت سے ملے ان کا نام زینب بنت مہاجر تھا ، آپ رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ وہ بات ہی نہیں کر تیں دریافت فرمایا کیا بات ہے یہ بات کیوں نہیں کرتیں ؟ لوگوں نے بتایا کہ مکمل خاموشی کے ساتھ حج کر نے کی منت مانی ہے ۔ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا اجی بات کر و اس طرح حج کر نا تو جاہلیت کی رسم ہے ، چنانچہ اس نے بات کی اور پوچھا آپ کون ہیں ؟ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں مہاجرین کا ایک آدمی ہوں ۔ انہوں نے پوچھا کہ مہاجرین کے کس قبیلہ سے ہیں ؟ آپ نے فرمایا کہ قریش سے ، انہوں نے پوچھا قریش کے کس خاندان سے ؟ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اس پر فرمایا تم بہت پوچھنے والی عورت ہو ، میں ابو بکر ہوں ۔ اس کے بعد انہوں نے پوچھا جاہلیت کے بعد اللہ تعالیٰ نے جو ہمیں یہ دین حق عطافرمایا ہے اس پر ہم ( مسلمان ) کب تک قائم رہ سکیں گے ؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا اس پر تمہار ا قیام اس وقت تک رہے گا جب تک تمہار ے
امام حاکم سید ھے رہیں گے ۔ اس خاتون نے پوچھا امام سے کیا مراد ہے آپ نے فرمایا کیا تمہاری قوم میں سردار اور اشراف لوگ نہیں ہیں جو اگر لوگوں کو کوئی حکم دیں تو وہ اس کی اطاعت کریں ؟ اس نے کہا کہ کیوں نہیں ہیں ۔ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ امام سے یہی مراد ہیں ۔

محترم -

جزوی طور پر تو "امام" سے مراد امراء وغیرہ ہی لئے جاتے ہیں- لیکن لغوی طور پر اس کا مطلب صرف اور صرف امراء لینا غلط ہے - امام کے لغوی معنی "رہنما" کے ہیں اب چاہے وہ کسی بھی شعبے سے تعلق رکھتا ہو -اور یہ بھی غلط ہے کہ دور نبوی میں آئمہ کا لفظ صرف و صرف امراء کے لئے استمعال ہوتا تھا- علماء کے لئے نہیں- قرآن (جو نبی کریم صل الله علیہ و آله وسلم ) پر نازل ہو١ اس میں الله رب العزت حضرت ابراہیم علیہ سلام کے متعلق فرماتا ہے کہ:

قَالَ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا ۖ سوره البقرہ ١٢٤
بے شک میں تمہیں بنانے والا ہوں لوگوں کا پیشوا (رہنما)-

اب ظاہر ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ سلام کوئی خلیفہ یا حاکم وقت تو تھے نہیں- ہاں لیکن امّت کے لئے ایک رہنما کی حیثیت ضرور رکھتے ہیں- اور الله کے نبی صل الله علیہ و اله وسلم نے اس کے کوئی ایسے معنی بیان نہیں کیے جس سے حضرت ابراہیم علیہ سلام کا حاکم ہونا ثابت ہوتا ہو -

مزید الله رب العزت کا قرآن میں مومنین کے حوالے سے فرمان ہے کہ :
وَالَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا سوره الفرقان ٧٦
اور وہ جو کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب: ہمیں ہماری بیویوں اور اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں پرہیزگاروں کا پیشوا (رہنما) بنا دے-

اب ظاہر ہے کہ یہاں بھی مومنین کی دعا میں مطلب یہی ہے کہ اے ہمارے رب ہمیں متقی لوگوں کا (نیک کاموں) میں رہنما بنا- نہ کہ اس کا یہ مطلب لیا جائے کہ ہمیں متقی لوگوں کا امیر (حاکم) بنا ؟؟-

نہ ہی یہاں پر نبی کریم صل الله علیہ و آله وسلم نے مذکورہ آیات کا مطلب امام سے مراد "خاص حاکم یا امیر" وغیرہ لیا-

پھر بعد کے ادوار میں اکثر و بیشتر محدثین و مجھتہدین وغیرہ کے ناموں کے ساتھ بھی "امام" کا لفظ عام استمال ہوا - امام بخاری ، امام احمد ، امام ابو حنیفہ ، امام ذہبی ، امام یحییٰ بن معین ، امام شافعی (ایک لمبی فہرست ہے)_ لیکن کسی نے یہ اعتراض نہیں کیا کہ یہ تو محدثین ہیں- امراء نہیں لہذا ان کے ساتھ "امام" کا صیغہ استمال کرنا درست نہیں- کیوں کہ نبی کریم کے دور میں اس کا استمال صرف امراء کے لئے ہوا ہے - اگر ایسا ہوتا تو یہ ایک طرح کی بدعت تصور ہوتی-

پھر یہ بھی ایک امر ہے کہ دور حاضر میں گمراہ حکام کے ساتھ ساتھ گمراہ آئمہ (یعنی علماء) بھی امّت کے لئے فتنہ بنے ہوے ہیں - اس لئے مذکورہ حدیث ""أَئِمَّةً مُضِلِّينَ " سے مراد فقط امراء نہیں علما ء بھی ہیں - (واللہ اعلم)-
 
Last edited:

وجاہت

رکن
شمولیت
مئی 03، 2016
پیغامات
421
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
45
محترم -

پھر یہ بھی ایک امر ہے کہ دور حاضر میں گمراہ حکام کے ساتھ ساتھ گمراہ آئمہ (یعنی علماء) بھی امّت کے لئے فتنہ بنے ہوے ہیں - اس لئے مذکورہ حدیث ""أَئِمَّةً مُضِلِّينَ " سے مراد فقط امراء نہیں علما ء بھی ہیں - (واللہ اعلم)-
لیکن یہ آپ کی رائے ہے – یہ کیسے معلوم ہو گا کہ حدیث نبوی میں یہ لوگ مراد تھے؟
 

وجاہت

رکن
شمولیت
مئی 03، 2016
پیغامات
421
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
45
محترم -

پھر بعد کے ادوار میں اکثر و بیشتر محدثین و مجھتہدین وغیرہ کے ناموں کے ساتھ بھی "امام" کا لفظ عام استمال ہوا - امام بخاری ، امام احمد ، امام ابو حنیفہ ، امام ذہبی ، امام یحییٰ بن معین ، امام شافعی (ایک لمبی فہرست ہے)_ لیکن کسی نے یہ اعتراض نہیں کیا کہ یہ تو محدثین ہیں- امراء نہیں لہذا ان کے ساتھ "امام" کا صیغہ استمال کرنا درست نہیں- کیوں کہ نبی کریم کے دور میں اس کا استمال صرف امراء کے لئے ہوا ہے - اگر ایسا ہوتا تو یہ ایک طرح کی بدعت تصور ہوتی-
یہ القاب ہیں ان کو نیکی سمجھ کر نہیں بولا جاتا ہے کہ امام احمد نہیں کہا تو گناہ ہو گا یہ تو کسی بھی اہل فن کے لئے کہہ دیا جاتا ہے کہ یہ شخص اس فن میں طاق ہے
 

وجاہت

رکن
شمولیت
مئی 03، 2016
پیغامات
421
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
45
محترم -

جزوی طور پر تو "امام" سے مراد امراء وغیرہ ہی لئے جاتے ہیں- لیکن لغوی طور پر اس کا مطلب صرف اور صرف امراء لینا غلط ہے - امام کے لغوی معنی "رہنما" کے ہیں اب چاہے وہ کسی بھی شعبے سے تعلق رکھتا ہو -اور یہ بھی غلط ہے کہ دور نبوی میں آئمہ کا لفظ صرف و صرف امراء کے لئے استمعال ہوتا تھا- علماء کے لئے نہیں- قرآن (جو نبی کریم صل الله علیہ و آله وسلم ) پر نازل ہو١ اس میں الله رب العزت حضرت ابراہیم علیہ سلام کے متعلق فرماتا ہے کہ:

قَالَ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا ۖ سوره البقرہ ١٢٤
بے شک میں تمہیں بنانے والا ہوں لوگوں کا پیشوا (رہنما)-

اب ظاہر ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ سلام کوئی خلیفہ یا حاکم وقت تو تھے نہیں- ہاں لیکن امّت کے لئے ایک رہنما کی حیثیت ضرور رکھتے ہیں- اور الله کے نبی صل الله علیہ و اله وسلم نے اس کے کوئی ایسے معنی بیان نہیں کیے جس سے حضرت ابراہیم علیہ سلام کا حاکم ہونا ثابت ہوتا ہو -

مزید الله رب العزت کا قرآن میں مومنین کے حوالے سے فرمان ہے کہ :
وَالَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا سوره الفرقان ٧٦
اور وہ جو کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب: ہمیں ہماری بیویوں اور اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں پرہیزگاروں کا پیشوا (رہنما) بنا دے-

اب ظاہر ہے کہ یہاں بھی مومنین کی دعا میں مطلب یہی ہے کہ اے ہمارے رب ہمیں متقی لوگوں کا (نیک کاموں) میں رہنما بنا- نہ کہ اس کا یہ مطلب لیا جائے کہ ہمیں متقی لوگوں کا امیر (حاکم) بنا ؟؟-

نہ ہی یہاں پر نبی کریم صل الله علیہ و آله وسلم نے مذکورہ آیات کا مطلب امام سے مراد "خاص حاکم یا امیر" وغیرہ لیا-
امام کا لفظی مطلب رہنما ہے – الله تعالی نے ابراہیم علیہ السلام کو امام کہا ہے تو یہ بات رہنما کی یا لیڈر شپ کی ہی ہے – آج یہود ، نصرانیوں اور مسلمانوں تینوں مدھب اپنے اپ کو ابراھیم علیہ السلام سے جوڑتے ہیں – الله نے ان کو امام ، آزمائش کی بنا پر کیا اور کہا وہ نہ یہودی تھے نہ نصرانی – یہ بات ابراہیم کے مدھب سے متعلق ہے کہ وہ مسلم تھے

لیکن جب اس لفظ کو رسول الله صلی الله علیہ وسلم استعمال کرتے ہیں تو نبی صلی الله علیہ وسلم کے قول کی تائید دیگر روایات سے بھی ہوتی ہے کہ اپ کا مقصد گمراہ حکمران تھے
کیونکہ اس دور میں یہ لفظ علم والوں یا علماء کے لیے استعمال نہیں ہوتا تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ اصحاب رسول تمام علم والے ہی تھے
نبی صلی الله علیہ وسلم نے حکم دیا ابو بکر رضی الله نماز پڑھائیں
آج ہم یہ مانتے ہیں کہ اس میں ان کی خلافت کا عندیہ پوشیدہ تھا
یعنی نماز کا امام ، مسلموں کا امیر اور امام بنے گا

حدیث ہے

سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

‘‘إنما الإمام جنۃ یقاتل من ورائہ ویتقی بہ فإن أمر بتقوی اللہ وعدل فإن لہ بذلک أجراً وإن قال بغیرہ فإن علیہ منہ’’


امام (خلیفہ) ڈھال کی مانند ہے جس کے پیچھے (یعنی سربراہی اور ماتحتی میں دشمنوں سے ) جنگ کی جاتی ہے اور جس کی نگرانی میں امن و عافیت حاصل کی جاتی ہے پس جو خلیفہ اللہ سے ڈر کر اس کے حکم کے مطابق حکمرانی کرے اور انصاف سے کام لے اس کو اس کے سبب اجر ملے گا اور اگر وہ ایسا نہ کرے تو اس کا گناہ اس پر ہو گا۔


[بخاری:۲۹۵۷ ، مسلم ۴۷۷۳]
 
Top