أَئِمَّةً مُضِلِّينَ یعنی گمراہ کرنے والے ائمہ یا حکمران مراد ہیں کیونکہ دور نبوی میں ائمہ کا لفظ امراء کے لئے استمعال ہوتا تھا نہ کہ علماء کے لئے
ایک دوسری حدیث میں ہے
انظر صَحِيح الْجَامِع: 1553 , والصحيحة: 1127
إِنَّ أَخْوَفَ مَا أَخَافُ عَلَى أُمَّتِي فِي آخِرِ زَمَانِهَا: إيمَانًا بِالنُجُومِ , وَحَيْفَ السُّلْطَانِ , وَتَكْذِيبًا بِالْقَدَرِ
آخری زمانے میں مجھے خوف ہے ظالم سلطان سے
اور ایک حدیث میں ہے
وَعَنْ عمرو بن سفيان السلمي – رضي الله عنه – قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ – صلى الله عليه وسلم -: ” مَا أَخَافُ عَلَى أُمَّتِي إِلَّا ثَلَاثا: شُحٌّ مُطَاعٌ (1) وَهَوًى مُتَّبَعٌ، وَإِمَامٌ ضَالٌّ
خوف ہے لالچی کا ، بہکے ہوئے کا، اور امام گمراہ کا
امام یعنی حاکم
صحيح البخاري: کِتَابُ مَنَاقِبِ الأَنْصَارِ (بَابُ أَيَّامِ الجَاهِلِيَّةِ)
صحیح بخاری: کتاب: انصار کے مناقب
(باب: جاہلیت کے زمانے کا بیان)
3834 . حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ بَيَانٍ أَبِي بِشْرٍ عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ قَالَ دَخَلَ أَبُو بَكْرٍ عَلَى امْرَأَةٍ مِنْ أَحْمَسَ يُقَالُ لَهَا زَيْنَبُ فَرَآهَا لَا تَكَلَّمُ فَقَالَ مَا لَهَا لَا تَكَلَّمُ قَالُوا حَجَّتْ مُصْمِتَةً قَالَ لَهَا تَكَلَّمِي فَإِنَّ هَذَا لَا يَحِلُّ هَذَا مِنْ عَمَلِ الْجَاهِلِيَّةِ فَتَكَلَّمَتْ فَقَالَتْ مَنْ أَنْتَ قَالَ امْرُؤٌ مِنْ الْمُهَاجِرِينَ قَالَتْ أَيُّ الْمُهَاجِرِينَ قَالَ مِنْ قُرَيْشٍ قَالَتْ مِنْ أَيِّ قُرَيْشٍ أَنْتَ قَالَ إِنَّكِ لَسَئُولٌ أَنَا أَبُو بَكْرٍ قَالَتْ مَا بَقَاؤُنَا عَلَى هَذَا الْأَمْرِ الصَّالِحِ الَّذِي جَاءَ اللَّهُ بِهِ بَعْدَ الْجَاهِلِيَّةِ قَالَ بَقَاؤُكُمْ عَلَيْهِ مَا اسْتَقَامَتْ بِكُمْ أَئِمَّتُكُمْ قَالَتْ وَمَا الْأَئِمَّةُ قَالَ أَمَا كَانَ لِقَوْمِكِ رُءُوسٌ وَأَشْرَافٌ يَأْمُرُونَهُمْ فَيُطِيعُونَهُمْ قَالَتْ بَلَى قَالَ فَهُمْ أُولَئِكِ عَلَى النَّاسِ
حکم : صحیح
ہم سے ابو النعمان نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابو عوانہ نے بیان کیا ، ان سے بیان نے ، ان سے ابو بشر نے اور ان سے قیس بن ابی حازم نے بیان کیا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ قبیلہ احمس کی ایک عورت سے ملے ان کا نام زینب بنت مہاجر تھا ، آپ رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ وہ بات ہی نہیں کر تیں دریافت فرمایا کیا بات ہے یہ بات کیوں نہیں کرتیں ؟ لوگوں نے بتایا کہ مکمل خاموشی کے ساتھ حج کر نے کی منت مانی ہے ۔ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا اجی بات کر و اس طرح حج کر نا تو جاہلیت کی رسم ہے ، چنانچہ اس نے بات کی اور پوچھا آپ کون ہیں ؟ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں مہاجرین کا ایک آدمی ہوں ۔ انہوں نے پوچھا کہ مہاجرین کے کس قبیلہ سے ہیں ؟ آپ نے فرمایا کہ قریش سے ، انہوں نے پوچھا قریش کے کس خاندان سے ؟ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اس پر فرمایا تم بہت پوچھنے والی عورت ہو ، میں ابو بکر ہوں ۔ اس کے بعد انہوں نے پوچھا جاہلیت کے بعد اللہ تعالیٰ نے جو ہمیں یہ دین حق عطافرمایا ہے اس پر ہم ( مسلمان ) کب تک قائم رہ سکیں گے ؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا اس پر تمہار ا قیام اس وقت تک رہے گا جب تک تمہار ے امام حاکم سید ھے رہیں گے ۔ اس خاتون نے پوچھا امام سے کیا مراد ہے آپ نے فرمایا کیا تمہاری قوم میں سردار اور اشراف لوگ نہیں ہیں جو اگر لوگوں کو کوئی حکم دیں تو وہ اس کی اطاعت کریں ؟ اس نے کہا کہ کیوں نہیں ہیں ۔ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ امام سے یہی مراد ہیں ۔
محترم -
جزوی طور پر تو
"امام" سے مراد
امراء وغیرہ ہی لئے جاتے ہیں- لیکن
لغوی طور پر اس کا مطلب صرف اور صرف امراء لینا غلط ہے - امام کے لغوی معنی "
رہنما" کے ہیں اب چاہے وہ کسی بھی شعبے سے تعلق رکھتا ہو -اور یہ بھی غلط ہے کہ دور نبوی میں آئمہ کا لفظ صرف و صرف امراء کے لئے استمعال ہوتا تھا- علماء کے لئے نہیں- قرآن (جو نبی کریم صل الله علیہ و آله وسلم ) پر نازل ہو١ اس میں الله رب العزت حضرت ابراہیم علیہ سلام کے متعلق فرماتا ہے کہ:
قَالَ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا ۖ سوره البقرہ ١٢٤
بے شک میں تمہیں بنانے والا ہوں لوگوں کا
پیشوا (رہنما)-
اب ظاہر ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ سلام کوئی خلیفہ یا حاکم وقت تو تھے نہیں- ہاں لیکن امّت کے لئے ایک رہنما کی حیثیت ضرور رکھتے ہیں- اور الله کے نبی صل الله علیہ و اله وسلم نے اس کے کوئی ایسے معنی بیان نہیں کیے جس سے حضرت ابراہیم علیہ سلام کا حاکم ہونا ثابت ہوتا ہو -
مزید الله رب العزت کا قرآن میں مومنین کے حوالے سے فرمان ہے کہ :
وَالَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا سوره الفرقان ٧٦
اور وہ جو کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب: ہمیں ہماری بیویوں اور اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں پرہیزگاروں کا
پیشوا (رہنما) بنا دے-
اب ظاہر ہے کہ یہاں بھی مومنین کی دعا میں مطلب یہی ہے کہ اے ہمارے رب ہمیں متقی لوگوں کا (نیک کاموں) میں رہنما بنا- نہ کہ اس کا یہ مطلب لیا جائے کہ ہمیں متقی لوگوں کا امیر (حاکم) بنا ؟؟-
نہ ہی یہاں پر نبی کریم صل الله علیہ و آله وسلم نے مذکورہ آیات کا مطلب امام سے مراد "
خاص حاکم یا امیر" وغیرہ لیا-
پھر بعد کے ادوار میں اکثر و بیشتر محدثین و مجھتہدین وغیرہ کے ناموں کے ساتھ بھی "
امام" کا لفظ عام استمال ہوا - امام بخاری ، امام احمد ، امام ابو حنیفہ ، امام ذہبی ، امام یحییٰ بن معین ، امام شافعی (ایک لمبی فہرست ہے)_ لیکن کسی نے یہ اعتراض نہیں کیا کہ یہ تو محدثین ہیں- امراء نہیں لہذا ان کے ساتھ "
امام" کا صیغہ استمال کرنا درست نہیں- کیوں کہ نبی کریم کے دور میں اس کا استمال صرف امراء کے لئے ہوا ہے - اگر ایسا ہوتا تو یہ ایک طرح کی بدعت تصور ہوتی-
پھر یہ بھی ایک امر ہے کہ دور حاضر میں گمراہ حکام کے ساتھ ساتھ گمراہ آئمہ (یعنی علماء) بھی امّت کے لئے فتنہ بنے ہوے ہیں - اس لئے مذکورہ حدیث
""أَئِمَّةً مُضِلِّينَ "
سے مراد فقط امراء نہیں علما ء بھی ہیں - (واللہ اعلم)-