ظفر اقبال
مشہور رکن
- شمولیت
- جنوری 22، 2015
- پیغامات
- 282
- ری ایکشن اسکور
- 22
- پوائنٹ
- 104
((ظفر اقبال ظفر))
دور حاضر میں اتحاد امت وقت کی اہم ضرورت
دور حاضر میں اتحاد امت وقت کی اہم ضرورت
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات اور ضابطہ اخلاق ہے جو زندگی کے ہر پہلو کے متعلق مکمل رہنمائی کرتا ہے۔ یہ بات بد قسمتی سے اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب سے یکسر ختم ہو چکی ہےجس کی بنیادی وجہ تعلیمات الہیہ سے انحراف یا پھر تحریفات و تاویلات کا طرز فکر ہے جس نے اسلامی تعلیمات کو مسخ کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی ۔ اسی طرح کی کچھ صورت حال امت مسلمہ کی بھی ہے جس کی وجہ سے آج امت مسلمہ مختلف جماعتوں، گروہوں، اور ٹولیوں میں بٹی ہوئی ہے، اس ختلاف کے اسباب کیا ہیں؟ اور ان کے ازالے کی کیا صورت ہو سکتی ہے، انہیں ہم چار بنیادی باتوں میں محصور کر سکتے ہیں، تعلق باللہ کی کمی، مقام نبوت سے نا آشنائی، مقصدیت کا فقدان اور مسلکی و علاقائی اور لسانی وقومیت پر مبنی اختلافات کی حقیقت کو نہ جاننا، آج ہمارا تعلق اپنے خالق و مالک سے کمزور ہی نہیں ہوا بلکہ رسمی بن کر رہ گیا ہے۔اللہ تعالی سے تعلق کی بنیاد پر ہی دل باہم جڑتے ہیں، کتنے لوگ ہیں جو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا دعویٰ تو کرتے ہیں لیکن ان کا عمل آپ کی سنت کے خلاف ہوتا ہے۔
یاد رکھیں ! صحابہ کرام میں جو اتحاد پیدا ہوا تھا اس میں حب رسول کا بھی دخل تھا لیکن یہ خالی جذباتی محبت نہ تھی بلکہ انہوں نے آپ کو اپنی زندگی کا آئیڈیل اور نمونہ بنا لیا تھا۔ دوسری جانب کتنے ایسے لوگ ہیں جنہوں نے آپ کی محبت میں ایسا غلو کیا کہ خالق و مخلوق کا فرق بھی ختم ہونے لگا۔اسی خدشہ کا اظہار اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اخیر ی وقت میں کیا تھا اور فرمایا:میری شان میں غلو مت کرنا جیسا کہ عیسائیوں نے حضرت عیسی علیہ السلام کی شان میں غلو کیا میں محض ایک بندہ ہوں لہذا مجھے اللہ کا بندہ اور اس کا رسول کہو۔ (صحيح البخاري)
اگر ہمیں اتحاد امت مطلوب ہے مگر میں تو کہنا چاہوں گا ضرور ہونا چاہئے اس کے بغیر انسانیت کی تکمیل اور اشرف مخلوقات ہونے کا مقام شرمندہ تعبیر ہو جاتاہے۔ ہمیں اتحاد و اتفاق کے لیے اللہ تعالی سے تعلق کو مضبوط کرنا ہوگا، پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو اپنی اصلی شکل میں ماننا ہوگا، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بیچ فرق کو سمجھنا ہوگا اور کتاب و سنت کو اپنی زندگی کا لائحہ عمل بنانا ہوگا ۔ کیونکہ اس کی بنیاد پر امت متحد ہوئی تھی اور آج بھی اسی کی بنیاد پر متحد ہو سکتی ہے۔خود صحابہ کرام کے بیچ اختلافات پائے جاتے تھے لیکن ان کے اختلافات نے کبھی عداوت کی شکل اختیار نہ کی ‘کبھی انتشار و افتراق کا سبب نہ بنے، وجہ صرف یہ تھی کہ سب حق کے متلاشی تھے۔ قرآن و حدیث ان کا مطمع نظر تھا‘ ائمہ اربعہ کے بیچ اختلافات پائے جاتے تھےلیکن ان کا دل ایک دوسرے کے تئیں بالکل صاف تھا۔ ان کے دلوں میں ایک دوسرے کے خلاف کبھی رنجش و عداوت پیدا نہ ہوئی۔آج امت مسلمہ کو باہمی محبت کی ضرورت ہے، ظاہر ہے اس کے لیے وسعت نظری اوروسعت قلبی پیدا کرنے کی ضرورت ہے ۔ تنگ دلی اور تنگ نظری سے ہمیں نقصان ہی ہوا ہے اور ہو رہا ہے‘ بلکہ مجھےکہنے دیا جائے کہ ہمارے اختلاف کی وجہ سے غیر قومیں اسلام سے بدظن ہو رہی ہیں، اسلام پر سوالیہ نشان اٹھ رہا ہے۔
خدا راہ ! ذرا ہوش میں آئیے اور وقت کی نزاکت کے پیش نظر اختلافات سے نکل کر اتحاد و اتفاق کی طرف توجہ مبذول کریں۔اختلافات بہت ہو گئے، بیان بازیاں بہت ہو چکیں، اب متحد ہونے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے ہم اپنی نیتوں میں اخلاص پیدا کریں، ہمارا کام محض اللہ کے لیے ہو، ہمارے ہر عمل میں اللہ کی خوشنودی مطلوب ہو، اچھائیوں کو سراہیں اور کوئی غلطی ہے تو نیک نیتی کے ساتھ اور خیر خواہانہ انداز میں اسے ایک دوسرے سے دور کرنے کی کوشش کریں جب تک ایک دوسرے کےقریب نہ ہوں گے تلخیاں دور نہیں ہو سکتیں۔
یاد رکھیں ! صحابہ کرام میں جو اتحاد پیدا ہوا تھا اس میں حب رسول کا بھی دخل تھا لیکن یہ خالی جذباتی محبت نہ تھی بلکہ انہوں نے آپ کو اپنی زندگی کا آئیڈیل اور نمونہ بنا لیا تھا۔ دوسری جانب کتنے ایسے لوگ ہیں جنہوں نے آپ کی محبت میں ایسا غلو کیا کہ خالق و مخلوق کا فرق بھی ختم ہونے لگا۔اسی خدشہ کا اظہار اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اخیر ی وقت میں کیا تھا اور فرمایا:میری شان میں غلو مت کرنا جیسا کہ عیسائیوں نے حضرت عیسی علیہ السلام کی شان میں غلو کیا میں محض ایک بندہ ہوں لہذا مجھے اللہ کا بندہ اور اس کا رسول کہو۔ (صحيح البخاري)
اگر ہمیں اتحاد امت مطلوب ہے مگر میں تو کہنا چاہوں گا ضرور ہونا چاہئے اس کے بغیر انسانیت کی تکمیل اور اشرف مخلوقات ہونے کا مقام شرمندہ تعبیر ہو جاتاہے۔ ہمیں اتحاد و اتفاق کے لیے اللہ تعالی سے تعلق کو مضبوط کرنا ہوگا، پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو اپنی اصلی شکل میں ماننا ہوگا، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بیچ فرق کو سمجھنا ہوگا اور کتاب و سنت کو اپنی زندگی کا لائحہ عمل بنانا ہوگا ۔ کیونکہ اس کی بنیاد پر امت متحد ہوئی تھی اور آج بھی اسی کی بنیاد پر متحد ہو سکتی ہے۔خود صحابہ کرام کے بیچ اختلافات پائے جاتے تھے لیکن ان کے اختلافات نے کبھی عداوت کی شکل اختیار نہ کی ‘کبھی انتشار و افتراق کا سبب نہ بنے، وجہ صرف یہ تھی کہ سب حق کے متلاشی تھے۔ قرآن و حدیث ان کا مطمع نظر تھا‘ ائمہ اربعہ کے بیچ اختلافات پائے جاتے تھےلیکن ان کا دل ایک دوسرے کے تئیں بالکل صاف تھا۔ ان کے دلوں میں ایک دوسرے کے خلاف کبھی رنجش و عداوت پیدا نہ ہوئی۔آج امت مسلمہ کو باہمی محبت کی ضرورت ہے، ظاہر ہے اس کے لیے وسعت نظری اوروسعت قلبی پیدا کرنے کی ضرورت ہے ۔ تنگ دلی اور تنگ نظری سے ہمیں نقصان ہی ہوا ہے اور ہو رہا ہے‘ بلکہ مجھےکہنے دیا جائے کہ ہمارے اختلاف کی وجہ سے غیر قومیں اسلام سے بدظن ہو رہی ہیں، اسلام پر سوالیہ نشان اٹھ رہا ہے۔
خدا راہ ! ذرا ہوش میں آئیے اور وقت کی نزاکت کے پیش نظر اختلافات سے نکل کر اتحاد و اتفاق کی طرف توجہ مبذول کریں۔اختلافات بہت ہو گئے، بیان بازیاں بہت ہو چکیں، اب متحد ہونے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے ہم اپنی نیتوں میں اخلاص پیدا کریں، ہمارا کام محض اللہ کے لیے ہو، ہمارے ہر عمل میں اللہ کی خوشنودی مطلوب ہو، اچھائیوں کو سراہیں اور کوئی غلطی ہے تو نیک نیتی کے ساتھ اور خیر خواہانہ انداز میں اسے ایک دوسرے سے دور کرنے کی کوشش کریں جب تک ایک دوسرے کےقریب نہ ہوں گے تلخیاں دور نہیں ہو سکتیں۔