نو عمری کا ایک خرافاتی ٹوٹکہ یہ بھی تھا کہ جب بھی کسی مصیبت یا آفت کے اشارے ملتے،ہم اس کی آمد سے قبل اپنے آپ کو خوب مصائب میں مبتلا کرتے،نتیجتا جب وہ مصیبت آتی تو اس کے اثرات اتنے شدید نہ رہتے جتنا ہم تصور کیے ہوتے تھے۔۔شائد ہم اس سے بڑی مصیبت بھگت چکتے تھے۔
ایک دفعہ کا ذکر نمونے کے طور پر پیش ہے۔
"چنانچہ جب چند ماہ کی خالہ زاد بہن کو ہماری گود سے اچھلنے کے سبب ہونٹ پرچوٹ لگی تو ساری نماز میں روتے رہے کہ وہ "فوت" ہو گئی تو کیا ہو گا؟؟ایسی ہچکی بندھی کہ ابھی تو پہلا پہلا بھانجا بھی گود میں نہیں اٹھایا۔۔۔اسے کچھ ہو گیا تو آئندہ ہمیں کوئی بھی اپنا بچہ کھیلنے کے لیے نہیں دے گا!!ساری زندگی ہمارا تعارف یوں کروایا جائے گا کہ یہ وہ ہے کہ۔۔۔۔جب ہم اتنا رو چکے کہ اب وفات پر رونے کے لیے آنسو ادھار لانے پڑتے تو خالہ جان اسے ہسپتال سے گھر لے آئیں۔۔۔یا رب تیرا شکر!"
کسی ایسی ہی دفعہ کا ذکر تھا کہ جب کہا گیا:
سنا ہے ٹینشن لینے سے کچھ نہیں ہوتا
چلو ٹینشن لے دیکھتے ہیں!!
خالہ جان کا قول تھا کہ اتنا نہ ہنسا کرو بعد میں اتنا ہی روتے ہو۔۔چنانچہ ہم اتنا رو لیتے تھے کہ بعد میں اگر ہنسنا نہ بھی نصیب ہو تو کم از کم اتنا رونا بھی نہ پڑے۔اس ٹوٹکے کو ہم نے بیشتر معاملات میں سولہ آنے پایا۔اسی سولہ پنی کا نتیجہ تھا کہ ہوشمندی میں اور پھر عقل مندی میں بھی اسی سے مرعوب رہتے۔جہاں معاملہ کٹھائی میں پڑتا نظر آتا ہم ایسے ایسے تصورات بناتے کہ رونے کو زبردستی آنا پڑتا۔نہ بھی آتا تو رونی شکل تو ضرور بن ہی جاتی۔
عمر مزید بڑھی۔۔اب معاملات بھی بڑے ہوگئے لیکن نتیجہ سولہ آنے تھا بشرطیکہ تصورات ٹھیک سےجلادیت کا دور دیکھ آئیں۔۔لیکن پھر عمر کے ساتھ ساتھ تصورات کی ذہنی سطح بھی بلند ہو گئی ۔۔وہ اب ہاتھ نہیں آتے۔اب مصائب کا سامنا میدان میں کرنا پڑے گا!!
حسبی اللہ لا الٰہ الا ھو علیہ توکلت وھو رب العرش العظیم۔۔اللھم انی اعوذبک من الھم والحزن۔۔۔