"عورتوں کی ترقی ہو گئی جی۔۔۔ہم گھروں میں آٹا گوندتی،تھپ تھپ روٹیاں پکاتی ہمیشہ جاہل کی جاہل رہیں گی۔۔دنیا آسمان پر پہنچی اور ہم زمین پر ہی لڑتے رہے اور اب ان کو دیکھو جی۔۔یہ خواتین کیا سے کیا بن گئیں اور ہم رہے نرے بدھو۔۔ہائے قسمت!!"کتنے ہی کوسنے دے ڈالے،پر دسمبر کی سردی میں بھی دل کو ٹھنڈ نہیں پڑتی تھی۔
"اب کیا ہو گیا؟؟"ضمیر کو ایسی سن گن لینے کی قدیم عادت ہے،یہ تو اب آپ بھی بخوبی جان چکے ہوں گے۔
"ہو نا کیا؟؟تم جیسے ہمزاد ہوں تو زندگی کب ڈھنگ کی گزرے گی؟؟وہی ہانڈی روٹی کر کے زندگی کے دن بیت گئے"
"یہ تو مجھے پتا ہے۔۔اب نئے سرے سے ہانڈی روٹی کیوں سنائی جا رہی ہے؟؟اچھا آج باہر کا چکر لگا ہے ناں؟؟بس بس۔۔۔وہی اثرات!!"
سیر کو سوا سیر ٹکرا تو سب غصہ فنا ہو کر دکھ سکھ نے جگہ بنائی"اب تم ہی بتاؤ۔۔عورتوں کے کرنے کے سو کام۔۔اورہم کیا کرتی ہیں؟ایک سا معمول۔۔میں تو سخت بیزار ہو چکی"
"اچھا۔۔کیوں پولیو دفتر پتا کروں؟"اس نے ہمدردی سے پوچھا۔
"نہیں نہیں۔۔وہ تو پرانا ہو چکا۔۔وہ پتا کیا۔۔وہ آج وہ خواتین مردم شماری کر رہی تھیں۔۔سچ مزا آگیا۔"
"اچھا میں سمجھا۔۔اچھے حلیے میں مانگنے والیاں ہیں۔۔گھر گھر جاتی تھیں"وہ آرام سے بولا۔
"رزق حلال کما رہی ہیں۔۔کچھ گناہ ہے کیا؟؟"میں بھنا اٹھی۔
" رزق حلال تو تھا مگر کمانے کا طریقہ کیسا تھا؟؟حکومت کو کوئی ڈھنگ کا نسخہ نہیں ملتا خواتین کی مدد کو،،کبھی گلابی رکشے اور کبھی گھر گھر گھومنا۔۔پھر واویلا مچا نا کہ معاشرے کے حالات برے ہیں۔پھر تم جیسوں کو اسٹوریز کہاں سے ملیں خاندانی مسائل پر بات کرنے کو؟؟اس لیے تم لوگوں کو بھی برا نہیں لگتا۔عورت جب بھی بلا ضرورت باہر نکلی،اس کا گھر سے رشتہ ختم ہو گیا۔الا ماشاءاللہ!گھر والے اس کی کمائی بھی استعمال کرتے ہیں اور من من کے جوتے بھی رسید کرتے ہیں۔قصور اس میں صرف عورت کا ہی نہیں۔۔مرد حضرات کا بھی ہے۔کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوئے اور ایک سنت پر عمل نہ کیا۔پھر حکومت چار ہاتھ آگے۔۔جہاں مردوں کی ضرورت وہاں خواتین کو بھرتی کیا اور جہاں خواتین ہونی چاہئیں ،وہاں مرد تشریف فرما ہیں۔۔آج مرد ڈریس ڈیزائینر،میک اپ آرٹسٹ ہیں اور عورتیں ٹریفک وارڈن ہیں۔ریسیپشن پر عورت چاہیے اور بال سنوارنے کو مرد چاہیے۔۔خیر کل سے شیونگ کریم کے بل بورڈ لگانے کے لیے خواتین کی بھرتیاں ہو رہی ہیں کہتی ہو تو بات کر دیکھتا ہوں۔۔اب میں اتنا بھی دقیانوس نہیں ہوں جتنا تم مجھے سمجھ بیٹھی ہو!!!"