• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ذلك قول شيطانٍ کا مفہوم

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
جی نہیں ایسی کوئی بات نہیں میں بھولتا نہیں ہوں مصروفیت آڑے آجاتی ہے۔اور ویسے بھی چونکہ آپ نے عربی گرائمر کی بحث چھیڑ دی ہے جو میرے بس کی بات نہیں اس لئے ایک بھائی سے اس سلسلے میں مدد مانگی ہے ہوسکتا ہے کہ وہ خود اس دھاگے میں آپکے ترجمہ پر اعتراض کا جواب دیں۔اس لئے تھوڑے سے انتظار کی زحمت گوارا کیجئے۔

اشماریہ صاحب میں نے آپ سے درخواست کی تھی کہ آپ روایت کا مکمل ترجمہ کردیں لیکن آپ نے جان بوجھ کر صرف ایک حصہ کا ترجمہ کیا لیکن عربی زبان کےاصول سے قطع نظر آپ نے روایت کا جو ترجمہ کیا ہے وہ بے ربط اور بے معنی محسوس ہورہا ہے۔ صاف لگتا ہے کہ آپ نے ترجمے میں ڈنڈی مارنے کی کوشش کی ہے اور غلط ترجمہ کیا ہے۔ جب ابوحنیفہ نے عمررضی اللہ عنہ کے قول کے بارے میں کہا کہ یہ شیطان کا قول ہے تو راوی نے فطری طور پر حیرت اور تعجب کا اظہار کیا دیکھئے فَقَالَ لِي رَجُلٌ: أَتَعْجَبُ؟ لیکن آپ نے ترجمہ کرتے وقت راوی کے ان الفاظ کا ترجمہ اس لئے نہیں کیا کہ آپ کا ترجمہ غلط تھا اور اس میں راوی کے ان الفاظ کی کوئی گنجائش ہی نہیں بنتی تھی۔ ظاہر ہے جب آپ کے مطابق ابوحنیفہ نے عمر رضی اللہ عنہ کی طرف اس قول کی نسبت پر شک کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ کسی شیطان کا قول ہے تو اس میں راوی کے تعجب کرنے کا جواز نہیں بنتا۔ اس کے علاوہ آپ کے ترجمے کے غلط ہونے کی جو سب سے بڑی دلیل ہے وہ اس راوی کے آخری الفاظ ہیں هَذَا مَجْلِسٌ لا أَعُودُ فِيهِ أَبَدًا. یعنی میں اس مجلس (ابوحنیفہ کی مجلس) میں دوبارہ نہیں آونگا۔ اگر آپ کے مطابق ابوحنیفہ نے نہ تو عمر رضی اللہ کے خلاف بدزبانی کی اور نہ ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی تو راوی نے آئندہ ابوحنیفہ کی مجلس میں آنے سے کیوں توبہ کی؟؟؟

محترم اس روایت میں دو حصے ہیں ایک میں عمر رض کی روایت کا ذکر ہے اور دوسرے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی روایت کا۔ میں نے لکھا بھی ہے کہ ابھی بات کہاں تک ترجمے کی ہو رہی ہے۔ راوی اس سے مفہوم کو غلط سمجھ سکتا ہے۔ اس کی بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ میں نے اس سے انکار نہیں کیا۔ میں تو کہہ رہا ہوں کہ اس کے الفاظ سے ہی وہ مطلب نہیں نکل رہا جو نکالا جا رہا ہے۔ چاہے کوئی بھی نکالے۔ اس میں کسی کو کیا اعتراض ہے؟
میں آپ کے ساتھی کا منتظر ہوں لیکن بد قسمتی سے میں کل سے دوبارہ مصروف ہو جاؤں گا۔ پھر توجہ سے تحقیق نہیں کر سکوں گا۔ چلیں جیسے بھی ممکن ہوا۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,497
پوائنٹ
964
اب عقل سے سوچیں اگر عمر رض کو شیطان کہنا ہوتا تو الفاظ یہ ہوتے۔
وہ تو شیطان ہے۔ یا یہ اس شیطان کی روایت ہے۔ یا کم از کم وہ "اس" شیطان کا قول ہے۔
عربی میں اس آخری والے لفظ کو ذاک قول "الشیطان" سے تعبیر کرتے ہیں نہ کہ ذاک قول شیطانٍ سے۔

جب اس کا معنی یہ "کسی شیطان کا قول" ہے تو پھر آگے مزید اعتراض نکلتے ہیں جو ان شاء اللہ اس کا مسئلہ حل ہونے پر۔
اب مہربانی فرمائیے دلیل سے بات کیجیے گا۔

میرے نزدیک ’’ ذاک قول شیطان ‘‘ میں دونوں احتمال موجود ہیں ۔
’’ یہ کسی شیطان کا قول ہے ۔ ‘‘ یہ تو بالکل واضح ہے ۔ کیونکہ عام طور پر نکرہ کا ترجمہ ایسے ہی کیا جاتا ہے ۔
’’ یہ تو شیطان کا قول ہے ‘‘ یعنی صاحب قول کو شیطان سمجھنا ۔ اس پر یہ اعتراض نہیں کیا جاسکتا کہ نکرہ میں تعیین نہیں ہوتی ۔ کیونکہ نکرہ کا غیر معین ہونا یہ کوئی کلی قاعدہ نہیں ہے ۔ کیونکہ بعض دفعہ ’’ نکرہ ‘‘ کا استعمال ’’ معین ‘‘ کے لیے بھی ہوتا ہے ۔ مثلا اللہ تعالی کا ارشاد ہے :

و هو الذي في السماء إله و في الأرض إله

اب یہاں دونوں جگہ پر لفظ ’’ الہ ‘‘ نکرہ ہے جبکہ مراد اللہ تعالی کی ذات ہے جو کہ متعین ہے ۔
اب اگر احتمال دونوں ترجموں کا ہے ۔ تو پھر کسی ایک کا تعین خارجی قرائن سے کیا جائے گا ۔ اور وہ سیدھی سی بات ہے ۔ جو حضرات امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے معتقد ہیں ان کے بارے میں حسن ظن رکھتے ہیں وہ پہلے احتمال کو ترجیح دیں گے اور اسی کی تائید میں قرائن ڈھونڈیں گے جبکہ شاہد نذیر بھائی جیسا موقف رکھنے والے افراد دوسرے احتمال کو راجح قرار دینے کے لیے دلائل کے انبار لگا سکتے ہیں ۔
یہ ایک چھوٹی سی تعلیق چونکہ ایک علمی اور نحوی تعلق سے تھی لہذا حصہ لیے لیا ۔ ورنہ اس طرح کی متنازع شخصیات کے بارے میں میرا نقطہ نظر وہی ہے جو میری مادر علمی جامعہ رحمانیہ کے معظم اساتذہ کا ہے اور وہی چھاپ یہاں فورم انتظامیہ پر موجود ہے کہ مدح سرائی میں غلو کرتے ہیں اور نہ ہی مذمت میں تجاوز کرتے ہیں ۔ اللہ سے دعا ہے کہ اللہ ہمیں افراط و تفریط ہر دو قسم کی حدوں سے محفوظ رکھے اور راہ اعتدال کو سمجھنے اور اس پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے ۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
میرے نزدیک ’’ ذاک قول شیطان ‘‘ میں دونوں احتمال موجود ہیں ۔
’’ یہ کسی شیطان کا قول ہے ۔ ‘‘ یہ تو بالکل واضح ہے ۔ کیونکہ عام طور پر نکرہ کا ترجمہ ایسے ہی کیا جاتا ہے ۔
’’ یہ تو شیطان کا قول ہے ‘‘ یعنی صاحب قول کو شیطان سمجھنا ۔ اس پر یہ اعتراض نہیں کیا جاسکتا کہ نکرہ میں تعیین نہیں ہوتی ۔ کیونکہ نکرہ کا غیر معین ہونا یہ کوئی کلی قاعدہ نہیں ہے ۔ کیونکہ بعض دفعہ ’’ نکرہ ‘‘ کا استعمال ’’ معین ‘‘ کے لیے بھی ہوتا ہے ۔ مثلا اللہ تعالی کا ارشاد ہے :

و هو الذي في السماء إله و في الأرض إله

اب یہاں دونوں جگہ پر لفظ ’’ الہ ‘‘ نکرہ ہے جبکہ مراد اللہ تعالی کی ذات ہے جو کہ متعین ہے ۔



خضر بھائی آپ مجھ سے زیادہ علم رکھتے ہوں گے لیکن میں نے تو یہی پڑھا ہے کہ نکرہ غیر متعین ہوتا ہے۔ کیا آپ کوئی حوالہ عنایت فرمائیں گے۔


المسألة السابعة عشرة: النكرة والمعرفة
أ- فى الحديقة رجلٌ - تكلم طالبٌ - قرأت كتابًا - مصر يخترقها نهرٌ.
ب- أنا فى الحديقة - تكلم محمودٌ - هذا كتابٌ - مصر يخترقها نهر النيل.
لكلمة: "رجل" -في التركيب الأول، وأشباهها- معنى يدركه العقل سريعًا، ويفهم المراد منه بمجرد سماعها، أو رؤيتها مكتوبة، لكن هذا المعنى العقلي المحض والمدلول الذهني المجرد عن مُعَين؛ ولا محدَّد في العالمَ الواقعي، عالم المحسوسات والمشاهد، وهو الذي يسمونه: العالمَ الخارجي عن العقل والذهن.
والسبب: أن ذلك المعنى الذهني المجرد؛ أي: "المعنى العقلي المحض" إنما ينطبق في عالم الحس والواقع على فرد واحد،. ولكنه فرد له نظائر كثيرة تشابهه في حقيقته، وتماثله في صفاته الأساسية؛ فكأنه فرد واحد متكرر الصور والنماذج المتشابهة التي ينطبق على كل منها معنى: "رجل" ومدلوله؛ فإن معناه يصدق على: محمد، وصالح، وفهيم ... ، وآلاف غيرهم. فهو خال من التحديد الذى يجعل المدلول مقصورًا على فرد مُتميِّز من غيره، مستقل بنفسه؛ لا يختلط وسط أفراد أخرى تماثله. وهذا معنى قولهم: "مُبْهَم الدَّلالة"؛ أي: أنه ينطبق على فرد شائع بين أفراد كثيرة من نوعه، تشابهه فى حقيقته، يصح أن يطلق على كل منها اسم: "رجل" ويستحيل في عالم الحسن تعيين أحدها، وتخصيصه وحده بهذا الاسم.
النحو الوافی 1۔206 ط دار المعارف




فكلمة: رجل: وطالب وكتاب، ونهر، وأشباهها، تسمى: نكرة، وهي: "اسم يدل على شيء واحد، ولكنه غير معين"؛ بسبب شيوعه بين أفراد كثيرة من نوعه تشابهه في حقيقته، ويصدق على كل منها اسمه.
ایضا 1۔208




یہاں الہ خبر ہے مبتدا محذوف کی اور خبر اکثر عام غیر معین ہوتی ہے۔ یہاں ویسے بھی "معبود" کے معنی میں ہے اور عام ہے۔


الواو استئنافية وهو مبتدأ والذي خبره وفي السماء متعلقان بإله لأنه بمعنى معبود، ومثل له الزمخشري بقولهم هو حاتم طي حاتم في تغلب على تضمين معنى الجواد الذي شهر به كأنك قلت هو جواد في طي جواد في تغلب. وإله خبر لمبتدأ محذوف تقديره هو والجملة صلة الذي وفي الأرض إله عطف على قوله في السماء إله
إعراب القرآن وبيانه 9۔112 دار الارشاد


وَهُوَ الَّذِي فِي السَّماءِ إِلهٌ وَفِي الْأَرْضِ إِلهٌ قال أبو إسحاق: أي معبود في السماء ومعبود في الأرض.
اعراب القرآن 4۔81 ط علمیۃ



{وهو الذي} هو {في السماء إله} بتحقيق الهمزتين وإسقاط الأولى وتسهيلها كالياء أي معبود
تفسیر الجلالین 1۔655 دار الحدیث



یہ ایک چھوٹی سی تعلیق چونکہ ایک علمی اور نحوی تعلق سے تھی لہذا حصہ لیے لیا ۔ ورنہ اس طرح کی متنازع شخصیات کے بارے میں میرا نقطہ نظر وہی ہے جو میری مادر علمی جامعہ رحمانیہ کے معظم اساتذہ کا ہے اور وہی چھاپ یہاں فورم انتظامیہ پر موجود ہے کہ مدح سرائی میں غلو کرتے ہیں اور نہ ہی مذمت میں تجاوز کرتے ہیں ۔ اللہ سے دعا ہے کہ اللہ ہمیں افراط و تفریط ہر دو قسم کی حدوں سے محفوظ رکھے اور راہ اعتدال کو سمجھنے اور اس پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے ۔

آمین
ہمیں اس قسم کی باتوں کا تو جواب دینا ہوتا ہے۔ خاص کر جو شخص کھلے عام اتہام کرے اس کا تو دینا پڑتا ہے۔
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,014
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
جزاک اللہ خضر حیات بھائی کہ آپ نے اپنی قیمتی آراء سے نواز لیکن مسئلہ حل نہیں ہوا کیونکہ اشماریہ صاحب بحث برائے بحث کے موڈ میں ہیں اور آپ دوبارہ یہاں مداخلت کرنا پسند نہیں فرمائینگے۔ اس لئے میں ہی اس مسئلہ کو حل کیے دیتا ہوں۔ ہم اس بحث ہی میں نہیں پڑتے کہ کون سا ترجمہ صحیح ہے اور کونسا غلط بلکہ میں اشماریہ صاحب کے نزدیک صحیح ترجمہ کو ہی قبول کرلیتا ہوں۔ کیونکہ اشماریہ صاحب نے ترجمے کی یہ بحث محض ٹائم پاس کرنے اور اصل موضوع سے جان چھڑانے کی خاطر شروع کی ہے۔ اب ترجمہ کچھ یوں ہوگا۔

بخاری و مسلم کے ثقہ راوی عبد الوارث بن سعيد بن ذكوان کہتے ہیں کہ : میں مکہ میں تھااور وہاں ابوحنیفہ بھی تھے ، تو میں بھی ان کے پاس آیا اس وقت وہاں اورلوگ بھی تھے ، اسی بیچ ایک شخص نے ابوحنیفہ سے ایک مسئلہ پوچھا جس کا ابوحنیفہ نے جواب دیا ، جواب سن کراس شخص نے کہا کہ پھر عمربن الخطاب سے مروی روایت کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں تو ابوحنیفہ نے کہا کہ یہ کسی شیطان کا قول ہے۔ ، اس پر انہوں نے سبحان اللہ کہا ، یہ سن کر ایک شخص نے کہا کہ کیا تمہیں تعجب ہورہا ہے ؟؟؟ ارے ابھی اس سے پہلے بھی ایک صاحب نے سوال کیا تھا جس کا ابوحنیفہ نے جواب دیا تو سائل نے کہا کہ پھر آپ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کے بارے میں کیا کہتے ہیں جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «أَفْطَرَ الْحَاجِمُ وَالْمَحْجُومُ» ؟؟؟؟تو ابوحنیفہ نے کہا کہ یہ تو تک بندی ہے ۔ یہ سب سن کرمیں میں نے اپنے دل میں کہا کہ میں ایسی مجلس میں آئندہ کبھی نہیں آؤں گا۔

سرخ رنگ سے نشان شدہ عبارت اشماریہ صاحب کی اپنی پسند کردہ ہے۔دیکھئے:
میں واشگاف الفاظ میں عرض کرتا ہوں۔
معرفہ تعیین پر دلالت کرتا ہے اور نکرہ غیر معین ہوتا ہے۔
ذاک قول شیطانٍ کا مطلب ہے یہ (غیر معین، جس کی تعیین نہ ہو، جو معین نہ ہو، جس کا ترجمہ کسی کے ساتھ کیا جاسکتا ہے) کسی شیطان کا قول ہے۔
انہیں اصل اعتراض اسی جملے پر تھا جسے ہم نے انکی پسند کے مطابق تبدیل کردیا ہے۔

اب اگر دیکھیں تو اس تبدیل شدہ ترجمے سے بھی راویت کے مفہوم پر کچھ اثر نہیں پڑتا اور نہ ہی ابوحنیفہ ایک جلیل القدرصحابی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی سے بری ثابت ہوتے ہیں۔ کیونکہ اس ایک عبارت پر روایت کاانحصار نہیں بلکہ باقی عبارتوں اور سیاق و سباق کی روشنی میں پوری روایت کا مفہوم اخذ کیا جائے گا۔ اور اگر اس ایک عبارت (یہ شیطان کا قول ہے) سے پہلے والی عبارت دیکھیں تو وہاں ایک شخص نے ابوحنیفہ کی رائے کی تردید میں عمررضی اللہ عنہ کے قول کو پیش کیا اور ابوحنیفہ سے بطور خاص عمررضی اللہ عنہ کے قول کے متعلق انکی رائے دریافت کی جس کے جواب میں ابوحنیفہ نے عمر رضی اللہ عنہ کے قول پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ شیطان کا قول ہے۔ ظاہر ہے اس کا اس کے سوا اور کیا مطلب ہے کہ ابوحنیفہ عمررضی اللہ عنہ کو شیطان کہہ رہے ہیں؟

پھر اگر اس عبارت (یہ شیطان کا قول ہے) کے بعد والی عبارت کو دیکھیں تو وہاں اس شخص کا ابوحنیفہ کے جواب پر حیران ہونا مذکور ہے۔ ظاہر ہے صحابہ سے محبت کرنے والا ایک مسلمان ابوحنیفہ کے منہ سے عمررضی اللہ عنہ کو شیطان کہہ دینے پر ہی حیرت کا شکار ہوگا۔ اگر اس کے علاوہ کوئی اور بات ہوتی تو اس کے حیران ہونے کا کوئی تک نہیں بنتا تھا۔پس ثابت ہوا کہ اشماریہ صاحب محض سینہ زوری سے ہی ابوحنیفہ کا ناجائز دفاع کرنا چاہ رہے ہیں۔اور کہنے کے لئے کوئی ڈھنگ کی بات ان کے پاس نہیں۔

پوچھا گیا: عمر کی روایت کے بارے میں کیا خیال ہے۔ کہا: وہ کسی شیطان کا قول ہے۔
یعنی؟؟؟؟ عمر کی طرف اس روایت کی نسبت غلط ہے یہ تو کسی شیطان کا قول ہے جسے اس نے عمر رض سے روایت بنا دیا ہے۔
یعنی کہہ کر آپ نے جو کچھ لکھا ہے وہ ترجمہ نہیں بلکہ تشریح ہے اور وہ بھی باطل تشریح کیونکہ ترجمے سے ایسی کوئی بات یا مفہوم مترشح نہیں ہورہا بلکہ روایت کی باقی عبارات آپ کی تشریح کی بھرپور تردید کررہی ہیں۔ اگر یہی بات ہوتی جو آپ ثابت کرنا چاہ رہے ہو کہ ابوحنیفہ نے عمررضی اللہ عنہ کو شیطان نہیں کہا بلکہ یہ کہا کہ کسی شیطان نے عمر رضی اللہ عنہ کی طرف یہ بات غلط منسوب کردی ہے۔ تو سوال کرنے والا وہ شخص نہ تو ابوحنیفہ کے جواب پر حیرت زدہ ہوتا اور نہ ہی راوی آئندہ ابوحنیفہ کی مجلس میں جانے سے توبہ کرتا۔
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,014
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
محترم اس روایت میں دو حصے ہیں ایک میں عمر رض کی روایت کا ذکر ہے اور دوسرے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی روایت کا۔ میں نے لکھا بھی ہے کہ ابھی بات کہاں تک ترجمے کی ہو رہی ہے۔ راوی اس سے مفہوم کو غلط سمجھ سکتا ہے۔ اس کی بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ میں نے اس سے انکار نہیں کیا۔ میں تو کہہ رہا ہوں کہ اس کے الفاظ سے ہی وہ مطلب نہیں نکل رہا جو نکالا جا رہا ہے۔ چاہے کوئی بھی نکالے۔ اس میں کسی کو کیا اعتراض ہے؟
اصول حدیث کا مسلمہ قاعدہ ہے کہ راوی اپنی روایت کو دوسروں سے بہتر جانتا ہے۔ اور اس راویت کے راوی نے ابوحنیفہ کے کلام سے یہی سمجھا کہ ابوحنیفہ نے عمررضی اللہ عنہ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی ہے اسی لئے راوی نے ابوحنیفہ کی مجلس سے توبہ کرلی۔ اور یہ بات آپ کو بھی تسلیم ہے کہ راوی نے یہی کچھ سمجھا ہے جس کا ہم مسلسل دعویٰ کررہے ہیں اسی لئے آپ نے یہ لکھا ہے:
راوی اس سے مفہوم کو غلط سمجھ سکتا ہے۔ اس کی بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ میں نے اس سے انکار نہیں کیا۔ میں تو کہہ رہا ہوں کہ اس کے الفاظ سے ہی وہ مطلب نہیں نکل رہا جو نکالا جا رہا ہے۔ چاہے کوئی بھی نکالے۔
یعنی آپ راوی کے اس مفہوم سے کہ ابوحنیفہ مسلمانوں کی دو عظیم ترین شخصیات کی گستاخی کا مرتکب ہوا ہے انکار نہیں کررہے بلکہ آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ راوی نے روایت کا غلط مفہوم اخذ کرلیا ہے جبکہ روایت سے وہ مفہوم نہیں نکلتا۔ تو اس سلسلے میں عرض ہے کہ موقع پر موجود روای کے علاوہ بھی موجود تمام لوگوں نے یہی کچھ سمجھا تھا جو راوی نے سمجھا۔ اسکے علاوہ راوی نے جو واقعہ اور ابوحنیفہ کا جو کلام نقل کیا ہے اس سے بھی گستاخی کے علاوہ کوئی اور مفہوم نہیں نکلتا۔ اب اصول حدیث کے مسلمہ قاعدہ اور موقع پر موجود تمام لوگوں کے مفہوم اور ابوحنیفہ کے واضح گستاخانہ کلام کو بالکل ہی نظر انداز کرکے آپ جیسے مجہول شخص کی مردود تاویلات پر کون کان دھرتا ہے؟ اگر آپ کو اپنے متنازعہ امام کے دفاع کا اتنا ہی شوق ہے تو کچھ معقول اور دھنگ کی بات کرو۔ بلاوجہ اپنا اور ہمارا قیمتی وقت ضائع نہ کرو۔
 
شمولیت
دسمبر 22، 2013
پیغامات
146
ری ایکشن اسکور
115
پوائنٹ
49
شاہدنذیرصاحب! آپ کی اس طرح کی باتوں سے مجھے تکلیف ہوئی ہے میری آپ کواللہ کےلیے یہ نصیحت ہے کہ متقدمین جوگزرچکےہیں ان کے بارےمیں اس طرح کی بحث کرنامناسب نہیں ان کامعاملہ اللہ کے حوالےہے،(تلک امۃ قدخلت لھاماکسبت ولکم ماکسبتم ولاتسئلون عماکانوایعملون) ہمیں ان کااحترام کرناچاہیے،ایک ایسی بحث ہے جس سے نہ توایمان میں اضافہ ہوگااورنہ ہی کوئی فائدہ(من حسن اسلام المرء ترکہ مالایعنیہ)اس لیے اس قسم کی سرگرمیوں سے اجتناب بہترہے،یہ دلوں میں میل کا باعث بنتاہے،ائمہ دین کی شان ومنزلت سےکسی کوانکارنہیں،بس یہ دعاکرتےرہناچاہیے:ربنااغفرلناولاخوانناالذین سبقونابالایمان ولاتجعل فی قلوبناغلا للذین آمنوا ربناانک رؤف رحیم،
پھراس طرح ان معززہستیوں کےبارے میں گفت وشنید کرنے والے ہم کون ہوتےہیں؟ہم اپنے علمی مقام کودیکھیں اوران کے مرتبے کودیکھیں،امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور ان کے معاصرین کی گفتگو ان کے مابین ہے جوکہ علم و عمل میں ہم پلہ تھے،بڑے کہتےہیں:خطائے بزرگاں گرفتن خطا است، توہمیں ان کا ادب واحترام ملحوظ نظررکھناچاہیے،خصوصااس پُرفتن دورمیں اس قسم کی باتوں سے احترازکرناچاہیے،میری آپ کونصیحت ہے کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی رفع الملا عن الائمۃ الاعلام کاضرور مطالعہ کریں اس کے مطالعہ کے بعد سے آپ تمام شکوک وشبھات ختم ہوجائیں گے ان شاءاللہ۔
مرادمانصیحت است وکردیم بحوالہ خداکردم ورفتیم
امیدہے کہ آپ توجہ کریں گے جزاکم اللہ
 
شمولیت
دسمبر 22، 2013
پیغامات
146
ری ایکشن اسکور
115
پوائنٹ
49
شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی کتاب رفع الملام عن الائمۃ الاعلام کامطالعہ ضرور کریں۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
جزاک اللہ خضر حیات بھائی کہ آپ نے اپنی قیمتی آراء سے نواز لیکن مسئلہ حل نہیں ہوا کیونکہ اشماریہ صاحب بحث برائے بحث کے موڈ میں ہیں اور آپ دوبارہ یہاں مداخلت کرنا پسند نہیں فرمائینگے۔ اس لئے میں ہی اس مسئلہ کو حل کیے دیتا ہوں۔ ہم اس بحث ہی میں نہیں پڑتے کہ کون سا ترجمہ صحیح ہے اور کونسا غلط بلکہ میں اشماریہ صاحب کے نزدیک صحیح ترجمہ کو ہی قبول کرلیتا ہوں۔ کیونکہ اشماریہ صاحب نے ترجمے کی یہ بحث محض ٹائم پاس کرنے اور اصل موضوع سے جان چھڑانے کی خاطر شروع کی ہے۔ اب ترجمہ کچھ یوں ہوگا۔
بخاری و مسلم کے ثقہ راوی عبد الوارث بن سعيد بن ذكوان کہتے ہیں کہ : میں مکہ میں تھااور وہاں ابوحنیفہ بھی تھے ، تو میں بھی ان کے پاس آیا اس وقت وہاں اورلوگ بھی تھے ، اسی بیچ ایک شخص نے ابوحنیفہ سے ایک مسئلہ پوچھا جس کا ابوحنیفہ نے جواب دیا ، جواب سن کراس شخص نے کہا کہ پھر عمربن الخطاب سے مروی روایت کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں تو ابوحنیفہ نے کہا کہ یہ کسی شیطان کا قول ہے۔ ، اس پر انہوں نے سبحان اللہ کہا ، یہ سن کر ایک شخص نے کہا کہ کیا تمہیں تعجب ہورہا ہے ؟؟؟ ارے ابھی اس سے پہلے بھی ایک صاحب نے سوال کیا تھا جس کا ابوحنیفہ نے جواب دیا تو سائل نے کہا کہ پھر آپ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کے بارے میں کیا کہتے ہیں جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «أَفْطَرَ الْحَاجِمُ وَالْمَحْجُومُ» ؟؟؟؟تو ابوحنیفہ نے کہا کہ یہ تو تک بندی ہے ۔ یہ سب سن کرمیں میں نے اپنے دل میں کہا کہ میں ایسی مجلس میں آئندہ کبھی نہیں آؤں گا۔

سرخ رنگ سے نشان شدہ عبارت اشماریہ صاحب کی اپنی پسند کردہ ہے۔دیکھئے:
انہیں اصل اعتراض اسی جملے پر تھا جسے ہم نے انکی پسند کے مطابق تبدیل کردیا ہے۔

اب اگر دیکھیں تو اس تبدیل شدہ ترجمے سے بھی راویت کے مفہوم پر کچھ اثر نہیں پڑتا اور نہ ہی ابوحنیفہ ایک جلیل القدرصحابی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی سے بری ثابت ہوتے ہیں۔ کیونکہ اس ایک عبارت پر روایت کاانحصار نہیں بلکہ باقی عبارتوں اور سیاق و سباق کی روشنی میں پوری روایت کا مفہوم اخذ کیا جائے گا۔ اور اگر اس ایک عبارت (یہ شیطان کا قول ہے) سے پہلے والی عبارت دیکھیں تو وہاں ایک شخص نے ابوحنیفہ کی رائے کی تردید میں عمررضی اللہ عنہ کے قول کو پیش کیا اور ابوحنیفہ سے بطور خاص عمررضی اللہ عنہ کے قول کے متعلق انکی رائے دریافت کی جس کے جواب میں ابوحنیفہ نے عمر رضی اللہ عنہ کے قول پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ شیطان کا قول ہے۔ ظاہر ہے اس کا اس کے سوا اور کیا مطلب ہے کہ ابوحنیفہ عمررضی اللہ عنہ کو شیطان کہہ رہے ہیں؟



میں نے آپ سے دلیل کے ساتھ بات کرنے کا کہا تھا۔
خیر جو آپ نے فرمایا ہے اسی کا جواب عرض کر دوں۔
اس سے پہلے والی روایت یہ ہے:۔
أخبرنا أبو بكر البرقاني، قال: قرأت على محمد بن محمود المحمودي بمرو حدثكم محمد بن علي الحافظ، قال: حدثنا إسحاق بن منصور، قال: [ص:534] أخبرنا عبد الصمد، عن أبيه، قال: ذكر لأبي حنيفة قول النبي صلى الله عليه وسلم: " أفطر الحاجم والمحجوم ".
فقال: هذا سجع، وذكر له قضاء من قضاء عمر، أو من قول عمر في الولاء، فقال: هذا قول شيطان

ایک تو میرے محترم یہاں کہا گیا ہے "ابو حنیفہ سے ذکر کیا گیا عمر رض کے فیصلوں میں سے کوئی فیصلہ یا ولاء کے بارے میں عمر کے اقوال میں سے کوئی قول۔"
کون سا قول تھا؟ یہ آپ پر ہے۔ ڈھونڈیے۔ پتا چل جائے تو مجھے بھی بتا دیجیے گا۔
آگے پھر وہی ہے "ھذا من قول شیطانٍ" اور آپ ابھی تک اس کا مدلل جواب نہیں دے سکے اس لیے اس کی بحث کو آپ کے مدلل جواب کے بعد کر لیں گے۔ (ویسے خلاصہ وہی ہے کہ عمر رض کا فیصلہ ذکر کیا گیا تو ابو حنیفہ نے اسے کسی شیطان کا قول کہہ کر اس کی عمر رض سے نفی کر دی۔)
اور اس روایت کی ابتدا ہے "ذکر لابی حنیفہ" کس نے اس ذکر کو سنا اور روایت کیا؟

پھر اگر اس عبارت (یہ شیطان کا قول ہے) کے بعد والی عبارت کو دیکھیں تو وہاں اس شخص کا ابوحنیفہ کے جواب پر حیران ہونا مذکور ہے۔ ظاہر ہے صحابہ سے محبت کرنے والا ایک مسلمان ابوحنیفہ کے منہ سے عمررضی اللہ عنہ کو شیطان کہہ دینے پر ہی حیرت کا شکار ہوگا۔ اگر اس کے علاوہ کوئی اور بات ہوتی تو اس کے حیران ہونے کا کوئی تک نہیں بنتا تھا۔
جی نہیں اس کے حیران ہونے کا ایک واضح سبب یہ ممکن ہے کہ وہ اس روایت کو جانتا ہو اور اس کی نظر میں یہ روایت مضبوط ہو تو وہ ابو حنیفہ رح کی اس پر جرح سے حیران ہوا ہو۔ یا اور کوئی بھی سبب ممکن ہے۔ کیا اس روایت میں لکھا ہے کہ وہ کیوں حیران ہوا تھا؟
اس طرح کی کمزور اور محتمل باتیں میرا نہیں خیال کہ جرح کا باعث بن سکیں۔ ما قبل میں معلمی رح کی شرائط ذکر کر چکا ہوں۔ مزید دل چاہے تو حافظ ابن حجر رح کی ہدی الساری دیکھ لیجیے۔ ایسی مثالیں مل جائیں گی جن میں محتمل باتوں سے جرح کا انکار کیا گیا ہے۔

اصول حدیث کا مسلمہ قاعدہ ہے کہ راوی اپنی روایت کو دوسروں سے بہتر جانتا ہے۔ اور اس راویت کے راوی نے ابوحنیفہ کے کلام سے یہی سمجھا کہ ابوحنیفہ نے عمررضی اللہ عنہ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی ہے اسی لئے راوی نے ابوحنیفہ کی مجلس سے توبہ کرلی۔ اور یہ بات آپ کو بھی تسلیم ہے کہ راوی نے یہی کچھ سمجھا ہے جس کا ہم مسلسل دعویٰ کررہے ہیں اسی لئے آپ نے یہ لکھا ہے:
کی آپ کو یہ قاعدہ صحیح طرح پتا بھی ہے؟ راوی نے کہیں خود صراحت کی ہے؟ جو میں نے لکھا ہے پہلے وہ بھی ایک محتمل ہے کہ راوی غلط سمجھ سکتا ہے۔ اور جو ابھی عرض کر رہا ہوں ان کا بھی احتمال ہے۔
اس قاعدہ کا مطلب یہ ہے کہ اگر ایک واضح حدیث ہو اور اس کا راوی اس کے خلاف عمل کر رہا ہو تو ہم کہتے ہیں کہ راوی اپنی روایت کو بخوبی جانتا ہے۔ راوی سے زیادہ تو قائل اپنی بات کو جانتا ہے اور ابھی تک چوں کہ آپ جرح ثابت ہی نہیں کر سکے اس لیے میں نے ابو حنیفہ رح کا عمر رض اور دوسرے صحابہ کے بارے میں عقیدہ بیان کرنا نہیں شروع کیا۔ ورنہ اصحاب ابی حنیفہ ابو حنیفہ کو دوسروں سے اچھا جانتے تھے۔

یعنی آپ راوی کے اس مفہوم سے کہ ابوحنیفہ مسلمانوں کی دو عظیم ترین شخصیات کی گستاخی کا مرتکب ہوا ہے انکار نہیں کررہے بلکہ آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ راوی نے روایت کا غلط مفہوم اخذ کرلیا ہے جبکہ روایت سے وہ مفہوم نہیں نکلتا۔ تو اس سلسلے میں عرض ہے کہ موقع پر موجود روای کے علاوہ بھی موجود تمام لوگوں نے یہی کچھ سمجھا تھا جو راوی نے سمجھا۔
جی نہیں یہ بھی ایک محتمل ہے اور مجھے اس سے انکار نہیں اور دوسرے احتمالات بھی ہیں۔
اور لوگ آپ کے پاس خواب میں آئے تھے وضاحت کرنے؟ ایک شخص کا ذکر ہے اور اس کا نام بھی پتا نہیں۔ کیا پتا وہ انتہائی غبی شخص ہو۔ کیا پتا وہ متعصب ہو۔
آپ جرح کر رہے ہیں یا؟؟؟؟؟

اگر آپ کو اپنے متنازعہ امام کے دفاع کا اتنا ہی شوق ہے تو کچھ معقول اور دھنگ کی بات کرو۔ بلاوجہ اپنا اور ہمارا قیمتی وقت ضائع نہ کرو۔
متنازعہ امام!! (ابتسامہ) پہلے یہاں سے تو نمٹ لو۔

یعنی کہہ کر آپ نے جو کچھ لکھا ہے وہ ترجمہ نہیں بلکہ تشریح ہے اور وہ بھی باطل تشریح کیونکہ ترجمے سے ایسی کوئی بات یا مفہوم مترشح نہیں ہورہا بلکہ روایت کی باقی عبارات آپ کی تشریح کی بھرپور تردید کررہی ہیں۔ اگر یہی بات ہوتی جو آپ ثابت کرنا چاہ رہے ہو کہ ابوحنیفہ نے عمررضی اللہ عنہ کو شیطان نہیں کہا بلکہ یہ کہا کہ کسی شیطان نے عمر رضی اللہ عنہ کی طرف یہ بات غلط منسوب کردی ہے۔ تو سوال کرنے والا وہ شخص نہ تو ابوحنیفہ کے جواب پر حیرت زدہ ہوتا اور نہ ہی راوی آئندہ ابوحنیفہ کی مجلس میں جانے سے توبہ کرتا۔
ابھی جو کہا ہے اس کی اس تشریح کے باطل ہونے پر دلیل دو جناب۔
اب تو میں نے گرامی قدر خضر بھائی کی پوسٹ کے جواب میں نکرہ کا قاعدہ بھی لکھ دیا ہے۔
اب پھر ادھر ادھر کی نہیں لگانا میرے محترم۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی کتاب رفع الملام عن الائمۃ الاعلام کامطالعہ ضرور کریں۔

بھائی ما قبل پوسٹس پڑھیے۔ ان کے نزدیک ابن تیمیہ رح سے غلطی ہو گئی تھی اور دیگر متاخرین جھوٹی تعریفیں کرتے تھے۔ پتا نہیں ابن تیمیہ رح کو کیسے بخش دیا۔
پھر اس پر یہ دعوی بھی ہے کہ فقہ حنفی کا مطالعہ اور رد انہوں نے بہت کیا ہے۔
خیر یہاں انہوں نے مجھے چیلنج کیا ہے کہ اگر انہوں نے یہ ثابت کردیا اور میں نے جواب بھی عرض نہیں کیا تو یقین ہونے پر ابو حنیفہ رح سے براءت کا اظہار کروں گا۔ ظاہر ہے میں ایک گستاخ صحابہ سے براءت کیوں نہیں کروں گا اس لیے قبول کر لیا لیکن اب یہ ثابت ہی نہیں کر پا رہے۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
شاہد نذیر بھائی ماشاء اللہ کافی جگہوں میں آپ کا فیض محسوس ہو رہا ہے لیکن یہ تھریڈ محروم ہے جہاں آپ نے اپنی بڑبولے دعوے کو ثابت کرنا ہے۔
آخری بار آپ نے دس دن پہلے جواب دیا تھا۔
کیا مزید جواب دیں گے یا ہم آپ کو لاجواب سمجھیں۔ کیا میں مزید بھائیوں کو محاکمہ کے لیے تکلیف دوں؟ اللہ پاک آپ کو ہدایت دے۔ یہ الزام قیامت کے دن بھی ثابت کرنا ہوگا جناب عالی۔
آپ نے فرمایا تھا کہ آج ہی جواب دیدوں گا۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top